جنات کی باتیں
محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’وہ‘بلاتے رہ گئے کہ ہماری سنتے جاؤ…..
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلی بار بھی جب میں گاؤں گیا تومیرے دوست مجھ سے ملنے آئے۔اتفاق سے اس دن نانا کی حویلی کی خواتین ان کے بھتیجے کی شادی کی تقریبات کے سلسلے میں دوسری حویلی گئی ہوئی تھیں اور مردزمینوں پر۔ہم دوست بیٹھک میں بیٹھنے کے بجائے خالی حویلی کے سب سے گھنے درخت کے نیچے بڑے تخت پر بیٹھ کر گپیں ہانکنے لگے۔فیصل نے چاروں طرف نظریں گھما کر حویلی کا جائزہ لیا اور پھر بولا’’یار تمہارے نانا کی حویلی نا صرف وسیع ہے بلکہ خوبصورتی میں بھی کسی عالی شان باغ سے کم نہیں۔تمہارے ماموؤں نے کافی محنت کی ہوئی ہے اس حویلی پر۔‘‘میرے منھ سے غلطی سے نکل گیا کہ’’ہاں!جبھی تو یہ حویلی جنات کی پسندیدہ رہی ہے۔‘‘میرا یہ کہنا تھا کہ جنید فوراًبول پڑا’’ہاں یار میں نے اپنی دادی سے سنا ہے کہ حافظ رب نواز کی حویلی میں جنات کا بسیرا رہاہے۔یہ قصہ ہے کیا ذرا سنا ؤ تو۔‘‘اور پھر تینوں ’جن‘مجھے انسانوں کی طرح چپک گئے تو میں نے ان سے کہا ’’گاؤں میں رہتے تم ہو اور حویلی کے جنات کی بات سناؤں میں؟ واہ کمال ہے بھئی‘‘مگرانہوں نے اتنے پیار سے فرمائش کی تو مجھے کہنا پڑا کہ’’لگتا ہے تم لوگوں کو اَن دیکھی مخلوق کے بارے میں جاننے کا بہت شوق ہے تو چلو حویلی کے جنات کی بات تو میں تمہیں بعد میں سناؤں گاپہلے میں تمہیں جنات کے حوالے سے اسی گاؤں کی ایک بہت مزیدار بات سناتا ہوں ۔اور مجھے امید ہے کہ اس کے بارے میں بھی تمہیں زیادہ علم نہیں ہوگا۔‘‘وہ تینوں بڑے اشتیاق سے سننے لگے تو میں نے کہنا شروع کیا۔
’’خادم حسین جو کہ میری والدہ کے ماموں یعنی میرے نانا لگتے ہیں،غلام فریداورغلام عزیز دونوں بھائی اور اللہ دادچوہان ،کسی زمانے میں ان چاروں کی بڑی پکی دوستی ہواکرتی تھی۔اور ان کی روزانہ کی محفل غلام فرید کی بیٹھک میں جما کرتی تھی۔ان چاروں میں پانچویں غلام فریداور غلام عزیز کی والدہ ’رحمت بی بی‘ ہوا کرتی تھیں،جنہیں سب ’ماں‘ بولتے تھے۔یہ سب بڑے ذہین لوگ تھے،یہ توتم سب جانتے ہی ہو۔‘‘ سب نے سر ہلا کر تصدیق کی۔تو میں نے آگے کہنا شروع کیا۔
’’انہی دنوں گاؤں میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ کبھی کبھی اس بیٹھک کے دوران خادم حسین کو جنات کا دورہ پڑتا ہے۔وہ بے ہوش ہو جاتاہے اور جنات اس وقت وہاں موجود لوگوں سے باقاعدہ باتیں کرتے ہیں۔
پھر یہ بات بھی سنی گئی کہ خادم حسین پرایک ہی جن آتا ہے،اس کا نام’ شیر محمد‘ ہے۔یہ جن ہرمنگل کو آتا ہے اوراس دوران اس سے جو بھی بات پوچھی جائے وہ بے ہوش خادم حسین کی شکل میں جواب دیتا ہے۔
یہ سن کر لوگ اپنے مسائل اور پریشانیوں کے بارے میں اس سے سوال کرنے آنے لگے۔ جن انہیں ان کے خاندان کی تاریخ اور اس میں گزرے بڑے بڑے واقعات بتا کر ان کا مناسب حل بتاتا۔مثلاً وہ کہتا کہ تیس سال پہلے جب تمہارے خاندان میں فلاں واقعہ ہوا تو یہ مسئلہ وہاں سے پیدا ہوااوریہ اس طرح حل ہوگا۔
جوبھی آتا بڑا حیران ہوتا۔یہ سب کچھ بتانے کے لئے ’شیرمحمد‘ کی ایک معمولی سی فیس تھی۔ اور وہ فیس تھی ’دو دیسی مرغیوں کی دعوت‘۔مگر پکی ہوئی نہیں بلکہ زندہ مرغیاں اور تھوڑا ساسامان مثلاًگھی، مصالحہ،پیاز،ٹماٹر وغیرہ۔کیونکہ شیر محمد صرف اللہ داد چوہان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھاتا تھا۔اللہ دادبڑی محنت سے پکاتا۔اس کے بعد اسی بیٹھک میں یہ پانچوں افراد اس دعوت میں شریک ہوتے جبکہ دعوت کھلانے والے فرد کی شرکت لازمی ہوتی۔جب دسترخوان سج جاتا اورکھانا شروع کرنے کا وقت آتا تو دیّا خود بخود بجھ جاتا۔بند کنڈی خود بخود کھل جاتی اور بیٹھک کے دروازے کے دونوں کِواڑبھی چوپٹ کھل جاتے۔یہ اس بات کی نشانی ہوتی کہ جن’شیرمحمد‘ کھانے میں شرکت کے لئے آگیا ہے۔بس پھرسارے لوگ دستر خوان کی ایک طرف ہوجاتے اورغلام فرید یہ کہہ کردوسری طرف شیر محمد کو بیٹھنے کی دعوت دیتا کہ’بھائی شیر محمد یہاں آجایئے‘ اورپھر تھوڑی دیر میں کھانے کا صفایا ہو جاتا۔‘‘
یہاں تک پہنچ کر جب میں نے ان کے چہروں کی طرف دیکھا تو ان کی دل چسپی اور حیرانی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔فوراًبول پڑے’’اچھاپھر؟‘‘
’’ پھریہ کہ گاؤں میں جگہ جگہ یہی’شیر محمد‘کی باتیں ہونے لگیں مگر گاؤں کے کچھ لوگ اس ساری بات کو جھوٹ اور اس گروپ کی شرارتسمجھتے تھے لیکن ان کے پاس ثابت کرنے کے لئے کوئی دلیل نہیں تھی۔ ایک دن ایسا ہوا کہ ان لوگوں نے تین چارلوگوں کا گروپ بھیجا ۔وہ لوگ غلام فرید کی بیٹھک پر آئے ۔سب کے ساتھ بیٹھ کر چائے پی۔شیرمحمد سے کافی سوالات بھی کرتے رہے۔جب رات کافی ہو گئی تو منصوبے کے تحت انہوں نے جن سے کہا کہ’ اگر واقعی یہ خادم حسین اور اس کے گروپ کی شرارت نہیں ہے تو ابھی اور اسی وقت گرما گرم جلیبیاں کھلاؤ۔تم جن ہوتو کہیں سے بھی لے آؤگے،تمہارے لئے کیا مشکل ہے۔‘‘
’’اوہو،اچھاپھر کیا ہوا؟جنیدفوراًبول پڑا۔
’’ہاہاہا،بھئی سانس تو لینے دو…..پھر ہونا کیا تھا،بے ہوش خادم حسین کے اندر سے شیر محمد غصے سے بولا:
’’شیر محمد کو آزماتے ہو؟جاؤ سامنے والے اسکول کی چھت سے جا کر جلیبیاں لے آؤ۔‘‘مگر اسکول کی چھت پر جانے کی کسی میں جرأت نہیں تھی۔سب ڈررہے تھے ۔بالآخر شیر محمد نے اللہ داد سے کہا’’ تم جاؤ کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ جب اللہ داد واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں گرم جلیبیو ں کا تھا ل تھا جسے سب نے مل کر کھایااور شیر محمد کو مان گئے۔اس کے بعد شیر محمد نے یہ کہہ کر ان سے پانچ گنا زیادہ پیسے وصول کئے کہ ’’جلیبیاں کھانے کا شوق تھا توپیسے دیتے جاؤ،ہم جن ہیں،حلوائی نہیں۔ خرید کر لائے ہیں ،چوری ہماری عادت نہیں۔‘‘
اس سے بھی عجیب بات یہ کہ گاؤں کی دونوں بستیوں کے درمیان ،قبرستان والے رستیپر پیلو کا جو پرانا اور گھنا درخت پڑتا ہے۔شیر محمد کا کہنا تھا کہ اس کے خاندان کا ٹھکانا اسی درخت پرہے۔ اور واقعی مغرب کے بعداس درخت پر چراغاں ہو جاتا۔جلتے ہوئے چراغوں کی لٹکتی جھالریں آدھی رات تک درخت کو روشن رکھتیں۔گاؤں کے عام لوگوں نے تو کیا بڑے بڑے دلیر لوگوں نے وہاں سے گزرنا چھوڑ دیا تھا۔ یہاں تک کہ گاؤں کے ان سادات اور پیروں نے بھی وہاں سے آنا جانا چھوڑ دیا تھا کہ جن کا کام ہی جن بھگانے کے تعویز دینا تھا۔‘‘
اوہو،اچھا!مگر اب تو وہ جن نہیں ہے،آ خر وہ کہاں گیا؟‘‘ولید نے آنکھیں پھاڑ کر پوچھا۔
’’ہاں !اس ظالم جن نے خادم حسین کی جان اس وقت چھوڑی جب گاؤں کے سادات میں سے پیر حبیبالرحمن شاہ صاحب نے اللہ داد چوہان کو کھیتوں میں اکیلے کام کرتے دیکھ کر گھیر لیا اور کہا’’ کہ قسم کھا کر بتاؤ کہ خادم حسین پر واقعی جن ہیں یایہ تم لوگوں کا ڈراما ہے ؟‘‘اب دادا چوہان کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔وہ پیر صاحب کو ٹال بھی نہیں سکتا تھا۔اس نے جھوٹی قسم کھانے کے بجائے صاف بتا دیا کہ’’ یہ گاؤں کے کمزور اعتقاد لوگوں کے ساتھ مذاق اور شرارت کا کھیل تھا مگر یہاں تو سارے ہی کمزور نکلے۔‘‘اور پھر یہ بات فوراًسارے گاؤں میں پھیل گئی۔‘‘
میں نے قہقہہ لگاکر تینوں کی شکلیں دیکھیں تو حیرانی سے ان کی آنکھوں کے ڈھیلے باہر آنے کو تیار تھے۔
بولے’’ کیا مطلب !یعنی خادم حسین پر سچ مچ میں جن نہیں تھا؟
جب میں نے کہا…’’ نہیں ‘‘…تو انہیں یقین نہیں آیا۔ جنید نے فوراً سوال کیا’’تو وہ ساری پرانی معلومات جو وہ ہر خاندان کے بار ے میں رکھتے تھے ….وہ؟‘‘
ہاں،یہ دل چسپ بات ہے۔ ایک رات سارے معززین بیٹھک میں جمع ہوئے اور اس گروپ سے اس دل چسپ آئیڈیے کی پوری تفصیل مزے لے لے کر سنتے رہے اور محظوظ ہوتے رہے۔وہاں جب یہی بات پوچھی گئی توپتا چلاکہ اصل میں غلام فرید کی والدہ ’رحمت بی بی‘ نہ صرف ایک پرانی خاتون تھیں بلکہ ایک عرصے تک گاؤں کی دائی بھی رہ چکی تھیں۔اس طرح آدھے گاؤں کی تو وہ ’ماں‘ تھیں اور گاؤں کے ہر گھر میں ا ن کا آنا جانا ایسے تھا جیسے گھر کا فرد ہوں۔ انہیں ایک ایک گھر کی تاریخ کا پتا تھااور چونکہ ان سب لوگوں کی بیٹھک غلام فرید کے گھر پر تھی اور رحمت بی بی کو سب ماں کہتے تھے۔اس طرح انہیں بہت سی معلومات تو پہلے سے تھیں اور جس کے بارے میں معلوت نہیں ہوتی تھیں،اس کو اگلے منگل کا وقت دے کر یہ لوگ ’ماں‘سے پوچھ لیاکرتے تھے۔‘‘
فیصل نے اگلاسوال داغا’’معززین نے دعوت میں جنات کے آنے کا نہیں پوچھاتھا؟‘‘
’’معززین نے سب کچھ پوچھا تھا اور سالوں تک یہ کہانی بڑی دل چسپی سے سنی جاتی رہی۔دعوت میں متأثرہ خاندان کا ایک فرد اس لئے بلایا جاتا تھا تاکہ اس دعوت کو مل جل کر کھایا جائے ،تاکہکل کواگرکوئی یہ کہے کہ تم ہماری مرغیاں کھا گئے تو اس کو کہا جاسکے کہ مل کر کھائی تھیں۔ہم نے اکیلے نہیں کھائیں،تم بھی ساتھ تھے۔دروازے پر کنڈی پرانے طرز کی زنجیر والی ہوتی تھی ۔اس کو یہ اس طرح اٹکاتے تھے کہ تھوڑی دیر میں وہ خود بخود کھسک کھسک کر گر جاتی تھی اور کھڑاک سے زنجیر دروازے پر جیسے ہی لگتی، دروازے کے دونوں پلوں کا جھکاؤ اندر کی طرف زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ خود بخود کھل جاتے،جب دروازے کھلتے تو نئے شخص کا دھیان ادھرچلا جاتا۔اتنی دیر میں ان میں سے کوئی دیے کو ہاتھ مار کے بجھا دیتا اور جیسے ہی’’بھائی شیر محمد ادھرآجائیے ‘‘کی آواز آتی، نیا آدمی ڈر جاتا اور یہ لوگ تھوڑی دیرمیں مرغیوں کا صفایا کر جاتے اور وہ سمجھتا شیر محمد کھا گیا۔‘‘
یہ سن کر سارے لوٹ پوٹ ہو گئے اور پوچھنے لگے ’’وہ درخت پر دیے کیسے جلتے تھے۔‘‘
’’اس وقت ٹیکوں کی دوائی ربڑ کے ڈھکن والی چھوٹی چھوٹی بوتلوں میں آتی تھی۔ڈاکٹر جب انہیں خالی کر کے پھینک دیتے تویہ لوگ جا کر اسپتال کے باہر کوڑے سے اٹھا لاتے تھے۔انہوں نے ان کو مناسب فاصلے پر ڈوری میں باندھ باندھ کر جھالریں بنا لی تھیں۔ان میں تیل ڈال کر، ان کے منھ پر تھوڑی سی روئی ٹھونس کر، ان جھالروں کو درخت کی شاخوں سے باندھ کر لٹکا آتے تھے۔شام کو جا کر ان چراغوں کی لوؤں کو آگ لگا آتے تھے۔شیشے کے ان دیوں میں جب ایک دوسرے کی روشنی کا عکس پڑتا تو چمک اور بڑھ جاتی۔اس طرح یہ دیے آدھی رات تک درخت کو روشن رکھتے تھے۔‘‘
ولید تالی بجاکر مسکراتے ہوئے بولا’’بھئی ٹیکوں کی خالی بوتلوں کے اس طرح استعمال کا خیال واقعی کمال ہیمگرآدھی رات کو گرم جلیبیاں کہاں سے آئی تھیں؟‘‘
’’ان لوگوں نے اپنے اس آئیڈیے پر پورا کام کیا تھا۔ گاؤں کے لوگوں میں سن گن لینے کے لئے ان کے دوتین لوگ مقرر تھے جن کو شاید خود بھی نہیں معلوم تھا کہ یہ ان کا ڈراما ہے۔اس طرح ان کو پہلے ہی پتا چل گیاتھا کہ آج رات ان سے جلیبیاں مانگی جائیں گی ۔انہوں نے شام کو ہی جلیبیوں کا تھا ل لاکر اسکول کی چھت پرانگارے سلگا کر ،ان پر رکھ دیا تھا تاکہ جلیبیاں گرم رہیں۔‘‘
’’بھئی واہ،مگر یہ بتاؤ کہ کیا گاؤں والوں نے جن اتارے والوں کوان پر کبھی نہیں آزمایا تھا؟‘‘یہ ولید کا سوال تھا۔
’’ارے کوئی ایک آیا ہو تو بتاؤں،ایک بار ایسا ہوا کہ ایک مولوی صاحب گاؤں میں کسی کے مہمان ہوئے ۔ وہ جنات وغیرہ کا دم کیا کرتے تھے۔انہیں جب یہ ساری بات پتا چلی تو انہوں نے کہا کہ’’ وہ یہ جن اتار کر رہیں گے۔‘‘خادم حسین کو جب دورہ پڑتا تھا تو وہ اس طرح سیدھے اکڑ جاتے تھے جیسے کوئی سیدھا لکڑی کا تختہ ہوتا ہے۔اگر کوئی ہاتھوں پر بھی اٹھا لیتا تو سیدھے ہی رہتے تھے۔جب خادم حسین کو’دورہ‘پڑا تو انہیں بلایا گیا۔مولوی صاحب چارپائی پر خادم حسین کے پاؤوں کی طرف بیٹھ کر دم کرنے لگے۔جیسے جیسے دم کرتے گئے خادم حسین کی اکڑ کم ہوتی گئی اور انہوں نے ٹانگیں سکیڑنا شروع کر دیں۔وہ خوش ہوئے کہ سکڑ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے جن نکل رہا ہے۔خادم حسین اتنے سکڑ گئے کہ انہوں نے ٹانگیں سمیٹ کر سینے سے لگالیں اور گھٹنے گردن سے جا لگے۔پھر اچانک اس زور سے ٹانگیں سیدھی کیں کہ پاؤں کی طرف بیٹھے مولوی صاحب اچھل کر دور جا گرے اور پھر انہیں بھاگنے کے سواکچھ نہ سوجھا۔اس کے بعد کسی کو خادم حسین کے ’اصلی‘جنات نکالنے کی جرأت نہ ہوئی۔اور معززین کی محفل میں باقاعدہ خادم حسین سے فرمائش کی گئی کہ وہ دوبارہ ایسا کرکے دکھائیں۔‘‘
میں نے بات پوری کی ہی تھی کہ کسی نے حویلی کا دروازہ کھٹکھٹایا۔میں جیسے ہی یہ دیکھنے کے لئے کہ دروازے پر کون ہے،تخت سے اترا۔تخت کے اوپر درخت سے آواز آئی’’رک جاؤ!دروازے پر کوئی نہیں ہے۔ہم نے کھٹکھٹایا ہے…ہاہاہا،ہمیں بھی ایک خیال آیا ہے‘‘اور ساتھ ہی تخت الٹ دیا گیا۔اور کہا گیا’’تم لوگوں کو شرم نہیں آتی،جنات کے بچوں کو خراب کرتے ہو،یہاں اتنے خطرناک آئیڈیاز پر باتیں کروگے تو ہمارے بچے نئی نئی شرارتیں نہیں سیکھیں گے؟‘‘
فیصل تخت کے نیچے سے نکلتے ہوئے ڈرتے ڈرتے بولا’’جو سنا رہا تھا اس کو تو تم لوگوں نے پہلے اٹھا دیا تخت سے ،ہمارا کیا قصور تھا؟‘‘
آواز آئی ’’جو سنا رہا تھا اس کاتوہم تھوڑا بہت احترام اس وجہ سے کرتے ہیں کہ اس کے بچپن میں ہم اس سے فرمائش کر کے سورۂ مزمل سنا کرتے تھے مگر اس وقت تو تمہیں شوق چڑھا ہوا تھا نا سننے کا؟‘‘
زاہد نے ناراض ہو کر کہا’’ساری کہانی توتم لوگوں نے بھی مزے سے سن لی، اب تمہیں بچوں کے خراب ہونے کا خیال آیاہے؟‘‘آواز آئی ’’رکو!….. تمہاری ایسی کی تیسی ، ہمیں اور بھی خیال آرہے ہیں،تمہیں بتاتے ہیں۔ ہمیں طعنے دیتے ہو؟‘‘اور ساتھ ہی پانی کے خالی گھڑے ہوا میں بلند ہوئے اوران کی پیٹھوں پر جا لگے۔بس پھر تینوں نے دم کرنے والے مولوی صاحب کے آئیڈیے پر عمل کیا۔درخت سے آواز بھی آئی کہ ’’رکو، ہم تمہیں اس حویلی اور اپنے بارے میں بتاتے ہیں‘‘مگروہ دن اور آج کا دن، میں اب بھی انہیں چھیڑتاہوں کہ ’’آؤ تمہیں جنوں کی باتیں اور آئیڈیاز سناؤں ‘‘مگر انہوں نے کبھی نانا کی حویلی کا رخ نہیں کیااور میں آج بھی وہیں بیٹھا ہوں۔‘‘