جن شہزادی
میرزا ادیب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دریا کے کنارے وہ ملاحوں کی بستی تھی ۔چھوٹی سی بستی تھی مگر یہاں صرف ملاح ہی رہتے تھے۔کچھ مچھیرے بھی تھے اور یہ مچھیرے بھی اصل میں ملاح ہی تھے مچھلی پکڑنا ان کا فقط شوق تھا۔
ملاحوں کی اس بستی میں سب سے پرانا کنبہ بابا نادی کا سمجھا جاتا تھا ۔ اس کنبے کے لوگ نسل در نسل ملاح چلے آرہے تھے ۔اس کنبے کے کسی فرد نے بھی کوئی اور کام نہیں کیا تھا۔
بابا نادی کا خاندان ایک حویلی میں رہتا تھا۔ حویلی کافی پرانی ہو چکی تھی۔
بوڑھا ملاح نادی زندگی کے ستر سال گزرنے کے بعدکمزور اور ضعیف ہو چکاتھا۔وہ اپنے کمرے سے بہت کم نکلتا تھا۔نکلتا بھی تھا تو لاٹھی کے سہارے چلتا ہوا دریا کے اس کنارے تک چلا جاتا تھاجہان اس کی پرانی کشتی ایک درخت کے ساتھ رسی سے بندھی رہتی تھی۔کسی کو یہ اجازت نہیں تھی کہ اس کشتی کو کھول کر چلائے۔نادی سے کوئی شخص تھوڑی دیر کے لیے کشتی طلب کرتا تو وہ کہتا:
’’نا بابا نا۔یہ میری پرانی رفیق ہے۔جب تک زندہ ہوں،یہ صرف میری ہی رفیق رہے گی۔‘‘
یہ بات سن کر کشتی مانگنے والا اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا تھا۔نادی کو اس بے جان کشتی کے علاوہ دو انسانوں سے بھی محبت تھی۔ایک تو اس کی بیوی تھی جو پندرہ سال پہلے ہیضے میں مبتلا ہو کر مر گئی تھی اور دوسرا انسان مالی تھا۔مالی اس کے بڑے بیٹے سمرد کا اکلوتا بیٹا تھا۔مالی ملاحوں کی بستی میں سب سے خوب صورت جوان تھا۔جوان بھی تھا اور تنومند بھی جس پر ہر مسافر بھروسہ کر سکتا تھا۔نادی اپنے وقت کا سب سے بڑا ملاح تھا۔وہ بوڑھا ہو کر بے کار ہو گیا تھا تو اس کی جگہ مالی نے لے لی تھی۔دریا میں کبھی طغیانی آجاتی تھی اور کچھ مسافروں کو دریا کے دوسرے کنارے جانا ضروری ہوتا تھا تو ایسے میں مالی ہی ان مسافروں کو اپنی کشتی میں بٹھا کر دوسرے کنارے تک پہنچا دیتا تھا۔مالی نے طغیانی کی کبھی پروا نہیں کی تھی۔
نادی خود اعلیٰ درجے کا ملاح رہ چکا تھا اور اس کے بعد مالی نے یہ حیثیت اختیار کر لی تھی۔اس لیے نادی اپنے اس پوتے سے بہت محبت کرتا تھا۔مالی کو بھی اپنے دادا جان سے بہت محبت تھی۔وہ اپنے سارے کام چھوڑ کرنادی کی خدمت کرتا رہتا تھا۔صبح سویرے اس کے لیے ناشتا لے کر آتا۔اس کا حقہ تازہ کرتا تھا۔کھانے کے وقت کھانا کھلاتا تھا۔نادی کو ئی کام کہتا تھا تو مالی اس وقت تک آرام نہیں کرتا تھا جب تک اپنے دادا کے حکم کی تعمیل نہیں کر لیتا تھا۔دادا اور مالی میں بے تکلفی بھی تھی۔ مالی اپنے دادا جان کو دادا جان ہی کہتا تھا۔لیکن کبھی بے تکلفی میں دادو بھی کہہ لیتا تھا اور نادی اس پر ناراض ہونے کے بجائے خوش ہوتا تھا۔ دونوں بے تکلفی سے بات چیت کرتے تو نادی کہتا:
’’مالی!تمہاری شادی میں کروں گا۔‘‘
’’بالکل ٹھیک دادو! خواہ وہ کانی ہو، گنجی ہو، مجھے قبول ہوگی۔‘‘
’’اور اگر وہ جن لڑکی ہو تو؟‘‘
’’میں اس سے بھی بیاہ کر لوں گا۔‘‘
’’مالی! میرا جی چاہتا ہے تمہاری شادی کسی ملاح کی بیٹی سے نہیں…‘‘
’’جن کی بیٹی سے کروں۔‘‘مالی فورا ہنس پڑتا۔
’’مگر معمولی جن کی بیٹی سے نہیں۔‘‘
’’تو کیا جن بادشاہ کی بیٹی سے؟‘‘
’’کیا پتا ایسا ہو جائے۔‘‘
مالی زور سے قہقہہ لگاتا:
’’واہ دادو! عجیب باتیں کرتے ہو۔‘‘
شام کے وقت نادی عام طور پراکیلا ہوتا تھا، کیونکہ اس دریا کے دوسرے کنارے کے لوگ دریا کے اس کنارے کے کام سے فارغ ہو کر اپنے گھروں کو جلد سے جلد جانا چاہتے تھے۔سارے مرد ملاح کشتی چلانے میں مصروف ہو جاتے تھے اور عورتیں ہانڈی روٹی پکانے میں لگ جاتی تھیں۔مالی کو بھی فرصت نہیں ملتی تھی۔
کوئی لڑکا اس کے پاس آجاتا تو نادی بڑا خوش ہوتا۔وہ ایک پرانے کنستر میں کھانے کی کچھ چیزیں جمع رکھتا۔ مٹھائی،بسکٹ یا پھل۔ان سے اپنے چھوٹے مہمانوں کی خاطر تواضح کرتا۔مہمان کوئی کہانی سنانے کے لئے کہتا تو نادی عام طور پر وہی واقعہ سنا دیتا جو اسے اپنی جوان میں پیش آیا تھا۔
قصہ یوں تھا کہ ایک شام دریا میں خطرناک قسم کی طغیانی برپا تھی۔ سارے ملاح اپنی کشتیاں درختوں سے باندھ کر گھروں میں چلے گئے تھے۔ کچھ مسافر ایسے تھے جو ہر قیمت پر دوسرے کنارے پہنچنا چاہتے تھے۔ ان میں ایک مسافر ایسا بھی تھا جس کی ماں بڑی بیمار تھی اور وہ اس کے لئے ڈاکٹر سے دوا لے کر اپنے گھر جانا چاہتا تھا۔ان مسافروں نے سارے ملاحوں کی منت سماجت کی۔ زیادہ سے زیادہ کرایہ دینے پر بھی تیار ہو گئے مگر کوئی ملاح اس خوف ناک موسم میں کشتی چلانے پر راضی نہ ہوا۔ہر ایک کہتا تھا کہ تمہارے چند پیسوں کے لیے یہ خطرہ مول نہیں لے سکتا۔
اس وقت نادی نے کشتی چلانے کی حامی بھر لی،’’میں سب کو دوسرے کنارے پر پہنچا دوں گا۔‘‘
نادی کے گھر والوں نے اسے بہتیرا سمجھایا،لیکن وہ نہ رکا اور سب کو اپنی کشتی پر بٹھا کر چپو چلانے لگا۔آدھے گھنٹے بعد وہ صحیح سلامت واپس آگیا۔
’’بابا جان!آپ کا دل تو ڈرتا ہوگا۔‘‘لڑکے نے پوچھا۔
’’نہیں پتر!ڈر کیسا۔ملاح دریا سے نہیں ڈرتا۔بلکہ اس سے محبت کرتا ہے۔دریا تو اس کا دوست ہوتا ہے۔سمجھے؟‘‘
’’دریا بھی محبت کرتا ہے؟‘‘ لڑکے نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’کیوں نہیں کرتا۔محبت نہ کرے تو آئے دن کوئی نہ کوئی کشتی ڈوب جائے، اسی لئے دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔‘‘نادی نے پر اعتماد لہجے میں کہا۔
اگر شام کے وقت کوئی بھی نادی کے پاس نہ آتا تو نادی اپنے کمرے کی دیوار سے لگ کراپنے سامنے پیپل کے ایک پیڑ کے قریب اپنی اس کشتی کو دیکھتا رہتا جس نے ساری عمر اس کا ساتھ دیا تھا۔اس وقت نادی محسوس کرتا تھا کہ اس کی پرانی کشتی بھی بڑی چاہت سے اسے دیکھ رہی ہے۔اندھیرا بڑھ جاتا۔کشتی نگاہوں سے اوجھل ہونے لگتی۔ نادی کی نگاہیں اسے دیکھنے کی کوشش کرتی رہتیں اور وہیں جمی رہتیں جہاں اس کی کشتی ہوتی تھی۔
مالی روٹی لے کر آجاتا،’’داداجان! معاف کرنا دیر ہوگئی۔بہت مسافر آگئے تھے۔‘‘
’’کوئی بات نہیں مالی میں اکیلا تو نہیں رہا۔‘‘
’’کون آیا تھا دادا جان!‘‘
’’کون آیا تھا؟ وہ ادھر میری پرانی دوست ہے،مجھ سے پیار کرنے والی۔جانتے ہو کون ہے یہ؟‘‘
’’جانتا ہوں داداجانتا ہوں۔پر وہ تو دور ہے یہاں سے۔‘‘
’’بالکل نہیں مالی وہ میرے پاس ہوتی ہے۔‘‘
مالی ہنس پڑتا،’’دادو! کبھی اس میں بیٹھ نہ جانا۔‘‘
’’بیٹھ جاؤں گا اور میری یہ کشتی مجھے بہت دور لے جائے گی۔دیکھ لینا ایک دن ایسا ہوگا۔‘‘
’’ایسا کبھی نہ کرنا دادو۔اس میں خطرہ ہے۔بوڑھے اور ضعیف ہو گئے ہو۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اپنے بوڑھے داداکو روٹی کھلاتا، حقہ تازہ کر دیتا اور تھوڑی دیر بعد جب اس کی آنکھوں میں نیند بھر جاتی تو نادی کے کہنے پر چلا جاتا ۔
اُس شام دریا کے دوسرے کنارے پر ایک رئیس کے بیٹے کی شادی تھی۔ اس نے سارے ملاحوں کو کھانے میں شامل ہونے کی دعوت دے رکھی تھی۔اور شام سے پہلے ہی اکثر ملاح ادھر جا چکے تھے۔
نادی کے کنبے کے لوگ بھی جانا چاہتے تھے۔نادی کے بڑے بیٹے سُمرد اور اس کی بڑی بہو بخشو، جو مالی کی ماں تھی،دونوں نے نادی سے کہا:
’’بابا! تم بھی چلو!‘‘
’’نہیں میں نہیں جا سکتا۔تم لوگ جاؤ۔‘‘
’’توتم اکیلے رہو گے؟‘‘
’’اکیلے رہنے میں کیا حرج ہے؟‘‘
سمرد اور بخشو نے دیکھا نادی جانے کے لئے تیار نہیں ہے تو انہوں نے مالی سے کہا کہ مالی! تم اپنے دادا جان کے پاس رہو گے یا ہمارے ساتھ چلو گے؟
’’میں دادا جان کے پاس رہوں گا۔‘‘
لیکن نادی کویہ بات بھی منظور نہیں تھی:
’’مالی میرے پاس نہیں رہے گا۔ ایسے خوشی کے مواقع بار بار نہیں آتے۔تمہارے ساتھ جائے گا۔‘‘
مالی نے ہر چند گھر میں رہنے پر اصرار کیا لیکن نادی نہ مانا۔مجبور ہو کر وہ بھی چلا گیا۔
رات چاندنی تھی اور نادی اپنے کمرے کی کھڑکی میں سے کچھ دور اپنی کشتی کو دیکھنے لگا۔اس نے ہزار بار اپنی کشتی کو دیکھا تھامگر اس شام اپنی پرانی دوست کو دیکھ کر اس کے دل کی عجیب کیفیت ہو گئی تھی۔ نہ جانے کیوں اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو گئی تھی کہ وہ فوراً اٹھ کر ادھر جائے اور اپنی کشتی میں بیٹھ جائے ۔ وہ اپنی آرزو کودباتا رہا لیکن یہ آرزو تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔
رات آہستہ آہستہ بیت رہی تھی۔ہر طرف چاندنی چھٹکی ہوئی تھی اور اس چاندنی میں اس کی کشتی جیسے اسے اشارے سے اپنی طرف بلا رہی تھی۔کشتی بلائے جارہی تھی، بلائے چلی جا رہی تھی۔ وہ اٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔دونوں ہاتھ دیوار سے لگا دیے، اس کی لاٹھی قریب ہی پڑی تھی۔ ایک ہاتھ دیوار سے ہٹا کر اس نے لاٹھی پکڑ لی۔لاٹھی کے سہارے اس نے پہلا قدم اٹھایا۔پھر دوسرا قدم اٹھایا ۔اس طرح چند قدم اٹھانے کے بعد دروازے تک پہنچ گیا۔دروازے پر ٹھنڈی ہوا کے تیز و تند جھونکے اس سے ٹکرائے اور اس کے قدم ڈگمگانے لگے۔اس نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا۔
اس نے ارادہ کر لیا کہ واپس چلا جائے اور واپس جانے کی کوشش بھی کی ، مگر اس نے دیکھاکہ واپس جانے کے بجائے وہ دروازے سے کچھ آگے چلا گیا ہے۔وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا گیا چلتا گیا اور کشتی کے پاس چلا گیا۔ناجانے اس کے دل میں کیا آئی کہ رسا کھول دیا اور جلدی سے کشتی کے اندر بیٹھ گیا۔کشتی چلنے لگی۔
اس نے دیکھا کہ چپو اس سے دور پڑے ہیں۔ وہ اپنی لاٹھی کی مدد سے ایک چپو تک پہنچا ۔بڑی دقت سے اسے قریب لے آیا۔ دوسرا چپو بھی لے آیا۔ان سے کام لینا چاہا تو ہاتھ پیروں نے ساتھ نہ دیا۔
’’کیا ضرورت ہے ان کی‘‘وہ بڑبڑایا اور چپو چھوڑ کر لاٹھی کے سہارے بیٹھ گیا۔کشتی آگے بڑھتی جا رہی تھی۔وہ گیت گانے لگا۔یہ گیت جوانی کے دنوں میں اس نے کئی بار گایا تھا اور مسافر جو اسکی کشتی میں بیٹھتے تھے اس سے یہ گیت سننے کی ضرور فرمائش کرتے تھے۔اس کی آوازبڑی پاٹ دار تھی۔گیت گاتا تھا تو اس کی آواز دور دراز تک پہنچ جاتی تھی۔ہر ایک کو معلوم ہو جاتاتھا کہ نادی کشتی چلا رہا ہے۔کشتی پانی کی کسی نہ کسی رو کے ساتھ بہے جا رہی تھی۔ اس نے اپنے دل میں سوچا،’’میں کہاں جا رہا ہوں؟ مجھے واپس چلے جانا چاہئے۔‘‘
مگر کشتی کوموڑنا اس کے اختیار میں نہیں تھا۔ہوا کے جھونکوں میں زیادہ تندی و تیزی آگئی تھی۔یہ جھونکے بار بار اس کی لاٹھی چھین لینے کی کوشش کر رہے تھے۔اگر اس کی گرفت مضبوط نہ ہوتی تو اب تک لاٹھی اس کے ہاتھوں سے نکل کر پانی میں بہہ چکی ہوتی۔وہ اپنے اندر ایک ایسی کیفیت محسوس کر رہا تھا جو اس کے لیے بڑی عجیب تھی۔ وہ اس کیفیت کو سمجھ نہیں سکتا تھا۔اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔
اسے ایک دھچکا سا لگا۔ایک زور دار جھونکے نے اسے منہ کے بل گرا دیا تھا۔
اس وقت اس کے اندر ایک خاص ہمت آگئی تھی۔نہ جانے کیسے ؟ وہ دوبارہ سنبھل کر بیٹھ گیا اور مالی کے بارے میں سوچنے لگا۔’’کتنا پیارا ہے میرا پوتا! مجھ سے کتنا پیار کرتا ہے۔میرا کتنا خیال رکھتا ہے۔ گھر آئے گا اور مجھے کمرے میں نہیں پائے گا تو…؟‘‘اسے پہلی بار اپنی غلطی کا احساس ہوا۔’’ کشتی پرانی ہے۔ دریا سے لہریں اٹھنے لگیں تو پھر کیا ہوگا؟‘‘
ہوا کے ایک تند جھونکے نے اس کی لاٹھی کو ہلا دیا۔ لاٹھی اس کے ہاتھوں سے نکل گئی اور وہ گرتے گرتے بچا۔ اس کے ہاتھ میں نہ تو چپو تھا اور نہ لاٹھی اور طاقت ور جھونکے بار بار اس کی کشتی سے ٹکرا رہے تھے۔کشتی اچھل اچھل پڑتی تھی۔ اس نے سوچا،’’ میں واپس کیسے جاؤں گا؟‘‘
اس نے خود ہی اس سوال کا جواب دیا،’’میں واپس نہیں جا سکتا۔میری موت آگئی ہے۔‘‘
وہ نیم دراز ہو گیا اور رسے کا سرا پکڑ لیا۔ اس رسے سے اس کی کشتی دریا کے کنارے پیڑ سے بندھی رہتی تھی۔
’’میری موت آگئی ہے۔ ٹھیک ہے اب میری زندگی کا فائدہ بھی کیا ہے۔یہ دریا میرا پرانا رفیق ہے۔ ساری زندگی اس کے ساتھ بسر کی ہے۔یہ مجھے اپنے سینے سے لگا لے گا۔اس کی بانہوں میں مجھے موت آجائے گی۔ میں ہمیشہ دریا کے اوپر رہا ہوں۔اب اس کے نیچے چلا جاؤں گا۔‘‘ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور کلمہ شریف پڑھنے لگا۔ اس کی لاٹھی اچھل اچھل کر گر رہی تھی۔نادی زور زور سے کلمہ پڑھنے لگاتھا۔وہ پانی کے نیچے جانے کا انتظارکر رہا تھا کہ ایک زبردست لہر اٹھی۔ اس لہرنے کشتی کو اچھالا اور چند لمحے بعد نادی ایک مردے کی طرح ایک بڑے پتھر کے پاس گھاس کے اوپر پڑا تھا۔
کئی گھنٹے بے ہوش رہنے کے بعد بوڑھے نادی کو آہستہ آہستہ ہوش آنے لگا۔ہوش آنے کے بعد سب سے پہلا خیال جو اس کے ذہن میں آیا تھا وہ یہ تھا کہ وہ مردہ ہے اور ابھی فرشتے اس سے حساب کتاب لینے آئیں گے۔اس نے سن رکھا تھا کہ مرنے کے بعد فرشتے حساب کتاب لینے کے لئے آئیں گے۔
کافی وقت گزرنے کے بعد اس نے محسوس کیا کہ اس کے بازوؤں کو ہلایا جا رہا ہے۔وہ حساب کتاب دینے کو تیار ہو گیا۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں۔یکا یک ایک آواز اس کے کان میں آئی:
’’کون ہیں آپ؟‘‘
’’کیا یہ آواز سچ مچ میرے کان میں آئی ہے؟‘‘
’’بتایئے کون ہیں آپ؟‘‘ دوبارہ آواز آئی۔
اس نے آنکھیں کھول دیں ۔اسے احساس ہوا کہ ایک دھندلا سا چہرہ اس پر جھکا ہوا ہے۔
اس نے بولنا چاہا ،مگر بول نہ سکا۔
’’آدم زاد ہے۔‘‘
’’راستہ بھول کر یہاں آگیا ہے۔‘‘
’’آؤ اسے لے جائیں۔‘‘
ایسی آوازیں اس کے کانوں میں آرہی تھیں۔پھر یہ آوازیں آنی بند ہو گئیں۔اس وقت جب اس نے آنکھیں کھولیں تو اسے محسوس ہوا کہ اس کے ارد گردروشنی پھیلی ہوئی ہے۔
’’میں کہاں آگیا ہوں۔ یہ جنت ہے؟‘‘ اس نے سوچا۔
’’کون ہیں آپ؟‘‘پھر وہی سوال۔
’’ہمارے ملک میں آدم زاد ہو کر کیسے آگئے؟‘‘ یہ ایک نیا سوال تھا۔اب وہ اپنے اوپر جھکے ہوئے کئی بڑے خوب صورت چہرے دیکھ رہا تھا۔
’’یہ جنت ہے؟‘‘
اس کے اس سوال پر ہلکے ہلکے قہقہے سنائی دیئے۔
’’میں کہاں ہوں؟‘‘
اس کے جواب میں اسے یوں محسوس ہوا کہ اسے اٹھا کر بٹھایا جا رہا ہے۔
’’یہ ہمارا ملک ہے بابا جی!‘‘
اس نے دیکھاکہ ایک لڑکی بڑے غور سے اسے دیکھ رہی ہے۔’’میں تو پانی میں ڈوب کر مر گیا تھا۔ یہاں کیسے آگیا؟‘‘ نادی نے اس لڑکی سے پوچھا۔
پھر ہلکا قہقہہ بلند ہوا۔
’’باباجی!آپ ڈوب کر مرے نہیں تھے۔ دریا کنارے بے ہوش پڑے تھے۔‘‘
’’تو میں زندہ ہوں؟‘‘
’’ہاں آپ زندہ ہیں بابا جی۔‘‘
نادی حیران پریشان سامنے دیکھنے لگا۔ وہاں اتنی چمک دمک تھی کہ اس نے گھبرا کر فوراً اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
’’میری کشتی، میری لاٹھی کہاں ہے؟‘‘
’’آپ کشتی میں تھے؟‘‘
’’ہاں، وہ میری کشتی تھی۔ میری پرانی کشتی۔‘‘
’’تو وہ کشتی آپ کو ادھر لے آئی تھی؟‘‘
نادی نے سر ہلا دیا۔وہ اتناکمزور ہو چکا تھا کہ اس کے منہ سے لفظ نہیں نکل سکتے تھے۔
’’آپ کے اندر بات کرنے کی طاقت نہیں رہی۔‘‘ یہ کہہ کر لڑکی نے تالی بجائی۔ ایک دم بہت چہرے نادی کو دکھائی دینے لگے۔ وہ پریشان ہو گیا۔
’’بابا جی!آپ گھبرا گئے ہیں۔‘‘ وہ ہنس پڑی،’’ یہ تو میری خادمائیں ہیں۔‘‘
نادی نے دیکھا کہ جن خوب صورت لڑکیوں کو اس نے اپنی خادمائیں کہا،وہ طشتوں میں رنگا رنگ پھل اٹھائے آہستہ آہستہ اس کی طرف آرہی تھیں۔ سب طشت انہوں نے بڑے ادب کے ساتھ نادی کے پاس رکھ دیئے اور خود واپس جانے لگیں۔
’’کھائیے نابابا جی!‘‘
’’میں …؟‘‘ نادی آگے کچھ نہ کہہ سکا۔ وہ شاید یہ پوچھنا چاہ رہا تھا کہ کیا کوئی خواب دیکھ رہاہوں۔
’’بابا جی! آپ ہمارے مہمان ہیں اور ہم مہمانوں کی بڑی خاطر مدارت کرتے ہیں۔
نادی نے پوچھا،’’ یہ کون سا ملک ہے۔ تم کون ہو؟‘‘
’’یہ ہمارا ملک ہے اور میں اس ملک کے بادشاہ کی بیٹی ہوں۔‘‘لڑکی نے جواب دیا۔
’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
’’میرا نام شانو ہے۔‘‘
’’شانو شہزادی۔‘‘
’’بابا جی ! مجھے شانو کہئے۔شانو شہزادی نہیں۔‘‘
’’اچھا۔‘‘
’’لیجئے اب کھائیے۔‘‘
نادی نے ایک طشت کی طرف ہاتھ بڑھایا۔اسے انگور جیسا پھل نظر آیا۔ایک انگور اس نے منہ میں ڈالا تو اس کا منہ ایک عجیب سی مٹھاس سے بھر گیا۔اس نے کئی انگور کھائے تھے، مگر اس انگور کی لذت ہی اور تھی۔
’’کھائیے نا بابا جی! ہاتھ کیوں روک لیا ہے؟اچھا آپ چاہتے کہ میں آپ کو کھلاؤں۔‘‘شانو پھر ہنس پڑی۔ پھر اس نے نادی کو انگور کے علاوہ اور بھی پھل کھلائے۔ ہر ایک کا اپنا مزا، اپنا لطف اور اپنی مٹھاس تھی۔
’’بس شہزادی!‘‘
نادی نے اس کا ہاتھ ہٹا دیا۔
’’بابا جی!‘‘
’’ہوں شہزادی!‘‘
’’میں آپ سے روٹھ گئی۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘
’’میں نے کہا ہے کہ مجھے شہزادی نہ کہئے صرف شانو کہئے۔‘‘
’’اب نہیں کھاؤں گا ۔میرا پیٹ بھر گیا ہے۔‘‘
’’یہ سب کچھ یہیں رہے گا جب دل چاہے کھا لیجئے گا۔‘‘
نادی یہ کہنا چاہتا تھاکہ میں اور نہیں کھاؤں گا مگر کہہ نہ سکا۔ شانو نے تالی بجائی۔ فوراً ایک خادمہ ایک صراحی اور گلاس لے کر آگئی۔اس نے صراحی میں سے گلاس میں پانی ڈالا اور نادی کی طرف ادب سے گلاس بڑھا دیا۔ پانی معطر تھا اور شہد کی طرح شیریں۔پانی پی کر اس کو نیند آگئی اور وہ سو گیا۔
کئی گھنٹوں کے بعد جب اس کی آنکھ لی تو اس نے دیکھا کہ شانو اس کے قریب بیٹھی ہے ۔ نادی دن میں کئی بار حقہ پیتا تھا اور اس وقت جاگنے کے بعد اسے حقے کی خواہش محسوس ہوئی۔
’’شانو بیٹی!‘‘
’’جی بابا جی!‘‘
’’تمہارے ملک میں لوگ حقہ نہیں پیتے؟‘‘
شانو نے نادی کو اس انداز میں دیکھا کہ جیسے یہ بات اس کی سمجھ میں نہ آئی ہو۔
’’یہ پھل صرف آپ کے ہاں ہوتا ہے ۔ منگوا دوں گی۔‘‘
’’کیسا پھل؟‘‘
’’وہ آپ نے کہا ہے نا …. کیاکہا ہے؟‘‘
’’حقہ؟‘‘
’’جی، یہی۔‘‘
نادی ہنس پرا:
’’یہ پھل نہیں ہوتا۔‘‘
’’تو اور کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’حقہ۔حقہ ہوتا ہے جسے پیا جاتا ہے۔‘‘
’’اچھا ،میں کہتی ہوں کسی سے۔‘‘یہ کہہ کر شانو چلی گئی۔ نادی تنہا رہ گیا۔تھوڑی دیر گزری ہوگی کہ ایک تنو مندآدمی بہت خوب صورت، قیمتی اور شاندار حقہ اٹھائے ہوئے آگیا۔ یہ حقہ دیکھ کر نادی حیران رہ گیا۔
’’یہ حقہ ہوتا ہے؟‘‘شانو نے مسکرا کر پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘
اس آدمی نے حقہ نادی کے سامنے رکھ دیا۔ نادی نے جھجکتے جھجکتے اس کی ریشم جیسی نازک نے کو منہ میں ڈال کرپہلا کش لیا تو جیسے اس کے اندر خوشبو کا ایک جھونکا جا کر باہر آگیا۔ عجیب قسم کی لذت تھی اس جھونکے میں۔
’’ٹھیک ہے بابا جی؟‘‘
نادی نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
وہ جی بھر کر حقہ پی چکا تو شانو بولی،’’باباجی! آج آپ ہمارے محل اور باغوں کی سیر کریں گے۔‘‘
’’شکریہ شانو بیٹی!میں بوڑھا ہوں ۔ چل پھر نہیں سکتا۔‘‘
’’تو کوئی بات نہیں۔ہمارے خادم ایک تخت پر بٹھا کر سیر کرا لائیں گے۔‘‘
شانو نے تالی بجائی اور چند لمحوں بعد چار تنو مند آدمی جیسے وہ حقے والا تھا، ایک خوب صورت سنہرا تخت لے کر آگئے۔ انہوں نے یہ تخت قالین کے اوپر رکھ دیا اور خود پیچھے ہٹ کر شانو کے سامنے ادب کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔
’’آئیے باباجی!‘‘شانو نے نادی کا ہاتھ پکڑکر اسے تخت پر بٹھا دیا اور خود بھی بیٹھ گئی۔دونوں کے بیٹھ جانے کے بعد ان چاروں نے تخت کا ایک ایک پایا اپنے کندھے پر رکھ دیا اور چلنے لگے۔نادی کے چہرے سے خوف و ہراس نمایاں تھا۔
شانو نے مسکراتے ہوئے کہا،’’ باباجی!آپ پریشان کیوں ہیں۔ میں بھی آپ کے ساتھ ہوں۔‘‘
نادی نے اپنے چہرے پر زبردستی مسکراہٹ پیدا کرنے کی کوشش کی۔
’’بس آپ دیکھتے رہیں، بولیں نہیں۔‘‘
’’اچھا۔‘‘نادی نے وعدہ کرلیا۔
’’چلو۔‘‘
شانو کے اس لفظ پر وہ تخت بردار آہستہ آہستہ قدم اٹھانے لگے۔
نادی کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے۔رنگین شیشوں کے بڑے بڑے کمرے۔چھتوں پر نہایت شان دار رنگا رنگ فانوس اور کمروں کا سامان۔نادی کی آنکھیں حیرت کے مارے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
اس کے بعد باغات کی سیر شروع ہو گئی۔ نادی نے ایسے ایسے پھول دیکھے کہ بس دیکھتا ہی رہ گیا۔درختوں کی شاخیں طرح طرح کے پھلوں سے لدی ہوئی تھیں اور ہر باغ میں فوارے اور چشمے تھے۔ ایک باغ میں شانو کے حکم پر تخت برداروں نے تخت ایک طرف رکھ دیا۔
’’آپ کو بھوک لگی ہوگی ناباباجی!‘‘
’’ہاں بیٹی!‘‘
شانو نے تخت اٹھانے والے جوانوں کو دیکھ کر ایک طرف کھڑے ہوئے پھلوں سے بھرے پیڑوں کی طرف انگلی سے اشارہ کیا اور چند لمحوں کے اندر طشتوں میں سجے ہوئے پھل نادی کے آگے رکھے تھے۔
’’کھائیے باباجی!‘‘
نادی پہلے بھی پھل کھا چکا تھا مگر ان پھلوں کی لذت ہی اور تھی۔پھل کھانے کے بعد نادی کو حقے کی طلب ہوئی۔وہ بھی حاضر ہو گیا۔ شانو نے کہا، ’’آپ اب تھک چکے ہوں گے۔‘‘
نادی نے حقے کا کش لگاتے ہوئے کہا،’’نہیں ،تھکا تو نہیں ہوں، مگر واپس چلو۔‘‘
جب نادی واپس اپنے کمرے میں پہنچ گیا اور شانو اس کے پاس بیٹھ گئی تو نادی نے کہا،’’بیٹی! پہلے تو میں سوچتا تھا کہ میں کوئی سپنا دیکھ رہا ہوں۔‘‘
’’سپنا؟نہیں یہ سپنا نہیں ہے۔جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں وہ حقیقت ہے۔‘‘شانو ہنس کر بولی۔
’’تو بیٹی! ایک بات بتاؤ۔‘‘
شانو نے ہاتھ کے اشارے سے آگے کچھ کہنے سے روک دیا:
’’باباجی! میں خوب جانتی ہوں آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’جی بیٹی!‘‘
’’آپ نے جن کا لفظ سنا ہوگا۔‘‘
’’جن؟ہاں یہ بھی اللہ کی مخلوق ہے۔‘‘
’’تو باباجی!ہم لوگ جن ہیں۔میرا باپ جنوں کا بادشاہ ہے اور میں جن شہزادی ہوں۔‘‘
’’جن شہزادی؟‘‘
’’ہاں باباجی!میں اپنے جن بادشاہ کی اکلوتی اولاد ہوں۔میرے ماں باپ مجھ سے بے حد محبت کرتے ہیں۔میں جو چاہوں اپنے ماں باپ سے منوا لیتی ہوں۔‘‘
’’یہ جنوں کے بادشاہ کا محل ہے؟‘‘
’’ہاں باباجی!میرے ابا اور امی جنوں کے دوسرے ملک میں گئے ہوئے ہیں۔پہاڑوں کے ادھر بھی ہمارا ایک ملک ہے۔ابا جی میری امی کے ساتھ سال میں دوتین مرتبہ ادھر جاتے ہیں۔کل صبح آجائیں گے۔ آپ کو ان سے ملاؤں گی۔‘‘
’’نہیں بیٹی!‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘
’’میں ڈر جاؤں گا۔‘‘
شانو زور سے ہنس پڑی،’’نہیں بابا جی!میں جب ان کو بتاؤں گی کہ میں آپ کو بے حد عزیز سمجھتی ہوں تو وہ آپ سے مل کر بڑے خوش ہوں گے۔آپ سے وہ پوچھیں گے کہ کیا چاہتے ہیں آپ؟یہ سوال کریں تو آپ ان کو اپنے دل کی سب سے بڑی آرزو بتا دیں۔ضرور پوری کردیں گے۔‘‘
شانو اور نادی باتیں کرتے رہے۔پھر نادی کو ایک دم ہی نیند آگئی اور وہ سو گیا۔
نادی جاگا تو اس کے کانوں میں شانو کے یہ لفظ گونج رہے تھے،’’آپ سے وہ پوچھیں گے کہ کیا چاہتے ہیں آپ ۔یہ سوال کریں تو آپ ان کو اپنے دل کی سب سے بڑی آرزو بتا دیں۔ضرور پوری کریں گے۔‘‘میں کون سی آرزو بتاؤں۔ان لمحوں میں نادی کے دل میں کئی آرزوئیںآگئیں۔شاندار محل ،ڈھیر ساری دولت،ملک ملک کی سیر،اسے ایسی بہت سی خواہشوں کا خیال آیا۔
وہ سوچتا رہااور آخر ایک آرزو پر مطمئن ہوگیا۔
’’میں یہی آرزو جن بادشاہ کو بتاؤں گا۔‘‘
دوسری صبح اس نے اپنے کمرے کی کھڑکیوں سے باہر دیکھا ۔خادم اور خادمائیں سب بھاگے جا رہے تھے۔ اسے معلوم ہوگیا کہ شانو کے ماں باپ محل میں آگئے ہیں۔
خادم نادی کے لیے پھل اور مشروبات لے آئے۔
نادی فارغ ہوا تو شانو آگئی۔
’’اٹھیے بابا جی!ابا جی آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
تخت سامنے آگیا تھا۔نادی اب کے تنہا اس پر بیٹھ گیا ۔چند لمحے بعد تخت برداروں نے تخت ایک بہت ہی شاندار ،وسیع دروازے کے آگے رکھ دیا۔وہ تخت سے اترا تو دیکھا کہ ایک بہت رعب داب والا شخص ،جس کے چہرے سے جلال و جمال جھلک رہا ہے،دروازے کے باہر آرہا ہے ۔
’’خوش آمد ید بابا جی!‘‘
جنوں کے بادشاہ نے نادی کا ہاتھ تھا ما اور اسے اندر لے گیا۔اندر اسے ایک مرصع تخت پر بیٹھا دیا گیا۔بادشاہ بولا ،’’میری بیٹی شانو آپ سے بہت پیار اور محبت کرتی ہے۔‘‘
’’میں بھی اسے بے حد عزیز سمجھتا ہوں ۔‘‘
’’مجھے آپ کے متعلق سب کچھ معلوم ہے۔ بتائیے آپ کیا چاہتے ہیں۔میں آپ کی آرزو پوری کروں گا۔‘‘
نادی کے دل میں جذبات کا ایک طوفان برپا تھا مگر الفاظ اس کی زبان پر نہیں آرہے تھے ۔
’’بتائیے بابا جی،جھجک کیسی،بتائیے۔‘‘
جنوں کے بادشاہ کا لہجہ بہت نرم ،ملائم اورمیٹھا تھا۔
’’بادشاہ سلامت!‘‘نادی بولا۔
’’فرمائیے باباجی،فرمائیے۔‘‘
’’بادشاہ سلامت !مجھے دنیا میں دو ہستیوں سے بے حد پیار ہے۔ایک تو میرا پوتا ہے مالی اور دوسری ہستی ہے شانو۔ میں چاہتا ہوں کہ دونوں میری موت تک میری آنکھوں کے سامنے رہیں۔ میری زندگی کی سب سے بڑی آرزو یہ ہے کہ ان کی شادی ہو جائے۔‘‘
یکایک یوں لگا کہ آسمان کی بجلی بڑے زور سے کڑکی ہے اور قریب ہی آگری ہے ۔
’’کیا کہا گستاخ بڈھے،جنوں کے بادشاہ کی بیٹی کی شادی تمہارے پوتے کے ساتھ !بولو یہی کہا ہے تم نے ؟‘‘
نادی تھر تھر کانپ رہا تھا۔
’’بولو ،میری بات کا جواب دو۔‘‘
بادشاہ نادی کی طرف آنے لگا۔اس کی آنکھوں سے جیسے شعلے نکل رہے تھے۔نادی نے ایک لمحے کے لیے اسے دیکھااور بے اختیار پیچھے ہٹ گیا۔
’’ایک آدم زاد ایسی گستاخی بھی کر سکتا ہے۔ہماری بیٹی ایک بڈھے مفلوک الحال ملاح کی بہو بن سکتی ہے؟‘‘
نادی اس کی آنکھوں کے شعلوں کی تاب نہیں لا سکتا تھا۔
’’تم نے بہت بڑا اور نا قابل معافی جرم کیا ہے بڈھے! تمہیں اس کی سزا ملنی چاہیے۔‘‘
یہ کہہ کر بادشاہ نے اپنے ان خادموں کی طرف دیکھا جو اس سے کچھ دور آنکھیں جھکائے بڑے ادب اور احترام کے ساتھ کھڑے تھے۔
’’لے جاؤاس گستاخ کو اور پھینک دو اسے اندھے کنویں میں۔‘‘
یہ حکم سنتے ہی کئی خادم بیک وقت نادی کی طرف بڑھے جو اب گر پڑا تھا۔
’’رحم!میرے سر تاج ! رحم !‘‘
یہ کہنے والی ایک بڑی خوبصورت خاتون تھی جس نے سفید لباس پہنا ہو ا تھا۔وہ نہ جانے کہاں سے بھاگی ہوئی آئی تھی اور بادشاہ کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہوگئی۔
’’رحم ؟کس پر رحم۔ اس گستاخ بڈھے پر؟‘‘
’’ہاں میرے سر تاج! میرے لیے،اپنی بیٹی کے لیے۔‘‘
’’اپنی بیٹی کے لیے؟‘‘
’’ہاں،وہ یہ صد مہ سہہ نہیں سکے گی۔‘‘
بادشاہ نے اپنا دایاں ہاتھ ہلایا۔خادم جو نادی کو اٹھانے ہی والے تھے رک گئے۔
’’شانو کی ماں!یہ میں کیا سن رہا ہوں؟‘‘
’’میں سچ کہہ رہی ہوں شانو کے ابا!‘‘
’’جنوں کے بادشاہ کی بیٹی اور غریب ،مفلس آدم زادکے پوتے سے اس کی شادی! سوچاتم نے؟‘‘بادشاہ گرجا۔
خاتون خاموش رہی ۔بادشاہ نے حکم دیا،’’بلاؤ شانو کہاں ہے۔‘‘
یہ حکم سنتے ہی کئی خادمائیں دروازے کی طرف بھاگ گیں۔چند لمحوں کے بعد شانوآگئی۔وہ روتی رہی تھی۔اس کی آنکھیں اب بھی آنسو بہا رہی تھیں۔
’’شانو!‘‘
’’جی۔ابا جان !‘‘
’’کیا کہتی ہو تم ؟‘‘بادشاہ کا لہجہ ابھی تک غضب ناک تھا۔
’’ابا جان ! میری ماں نے ٹھیک کہا ہے۔‘‘
’’ٹھیک کہا ہے؟‘‘بادشاہ گر جا۔
شانونے کچھ کہنے کے بجائے ہاں میں اپنا سر ہلا دیا۔بادشاہ دو تین لمحے شانو کو گھورکر دیکھتا رہا،پھر ان خادموں کو جنھوں نے نادی کو گھیر ے میں لے رکھا تھااور اپنے مالک کے حکم کا انتظارکر رہے تھے ، مخاطب کرکے بولا’’جاؤ لے جاؤ اسے۔اس کشتی میں بٹھا کر لے جاؤ جس میں یہ آیا تھا۔‘‘
خادموں نے ادب سے سر تسلیم خم کر دیا۔بادشاہ نے بڑے غضب ناک لہجے میں کیا:
’’اور او بڈھے!کان کھول کر سن لے۔کبھی تمہاری زبان پر میری بیٹی کا نام نہ آئے ،اور تم کبھی ادھر آنے کا سوچنا بھی نہیں۔سن لیا؟‘‘
نادی نے ہاں میں سر ہلا دیا اور بادشاہ تیزی سے دروازے کی طرف جانے لگا۔اس کے پیچھے اسکی بیوی بھی چلی گئی۔ایک خادم بیٹھ گیا اور نادی کو اپنے شانوں پر بٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔نادی کے قدم ڈگمگارہے تھے۔خوف سے اس کا چہرہ زرد ہو چکا تھا۔شانو اس کے قریب پہنچ گئی اور بولی،’’باباجی!میں بڑی شرمندہ ہوں۔ آپ سے معافی مانگتی ہوں۔‘‘
’’نہیں شانو بیٹی!‘‘
’’مجھے معاف کردیں بابا جی۔‘‘ شانو کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔
’’رو نہیں بیٹی!تمہارے ابا جی نے بالکل درست کہا ہے۔کہاں جنوں کے بادشاہ کی بیٹی اور کہاں ایک غریب ،بد حال ملاح کا پوتا! میں نے بڑی نا جائز بات کی تھی۔‘‘
’’آپ مجھے معاف کردیں۔‘‘شانو نے نادی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا،’’معاف کردیں نا۔‘‘
’’اچھا بیٹی!‘‘
’’معاف کردیا نا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘اور نادی نے اپنا دایاں ہاتھ بڑی شفقت سے شانو کے سر پر پھیرا ۔
خادم ابھی تک اس انتظار میں بیٹھا تھاکہ نادی اس کے شانوں پر بیٹھ جائے تو وہ اسے باہر لے جائے۔شانو نے اس خادم سے کہا،’’اس طرح نہیں،تخت لاؤ اوربڑے احترام سے لے جاؤ۔‘‘
وہ خادم اٹھ بیٹھا۔
’’شہزادی جی!‘‘خادم کہنا چاہتا تھا کہ بادشاہ نے اس کا حکم نہیں دیاتھا کہ شانو بولی ،’’میں نے جو کہا ہے وہی کرو۔‘‘
خادم نے سر جھکا دیا۔چار خادم تخت لے آئے۔نادی اس پر بیٹھنے لگا تو شانو نے اپنے کرتے کے نیچے ہاتھ ڈالا اور اس کے ہاتھ میں اشرفیاں چمکنے لگیں۔
’’لے جائیے باباجی!‘‘شانو نے اشرفیوں والا ہاتھ نادی کی طرف بڑھا دیا۔
’’نہیں بیٹی!مجھے ان کی بالکل ضرورت نہیں۔‘‘
’’میری خاطر لے لیجئے ۔‘‘شانو نے کہا
نادی نے وہ اشرفیاں اپنے کرتے کی جیب میں ڈال دیں اور خادموں کے ہاتھ تخت کے پایوں کی طرف بڑھنے لگے۔
’’باباجی!‘‘شانو نے نادی کو تخت کے اوپر بیٹھتے ہوئے دیکھ کر کہا،’’خوش رہیں اور اچھے دنوں کا انتظار کریں۔‘‘
’’ تم بھی سدا سکھی رہو۔ میں تمھارے لیے دعا کرتا رہوں گا۔‘‘
شانو کی ماں آئی اور شانو کا ہاتھ پکڑ کر اسے لے گئی۔
شانو ابھی تک روئے جا رہی تھی۔لگتا تھا وہ اپنے آنسو پوچھنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کوشش میں اس کی بار بار ہچکیاں بندھ جاتی تھیں۔اس کی ماں اسے اپنے کمرے میں لے آئے اور اسے مخمل کے گدے پر بٹھا دیااور خود اس کے سامنے دوسرے گدے پر بیٹھ گئی۔
’’ شانو میری پیاری بیٹی!‘‘
اس کے جواب میں شانو اپنی انگلیوں سے رخساروں پر بہتے ہوئے آنسوں پوچھنے لگی۔وہ بہت رورہی تھی۔
’’یہ اچھا نہیں ہوا۔ بالکل اچھا نہیں ہوا میری بیٹی ! تم جانتی ہو تمہارا باپ تم سے کتنی محبت کرتا ہے!‘‘
’’کیا محبت کرتا ہے!‘‘
شانو کے ان الفاظ پر اس کی ماں اسے حیرت سے تکنے لگی۔
’’شانو! یہ الفاظ تم کہہ رہی ہو؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’نہیں میری بیٹی!ایسا مت کہو۔اگر تم سے انھیں بے پناہ محبت نہ ہوتی تو اس بڈھے کا جرم کیسے معاف کر دیتے۔‘‘
’’معاف کہاں کیا ہے؟‘‘
’’معاف نہیں تو اور کیا کیا ہے۔اسے واپس زندہ سلامت بھیج دیا ہے۔‘‘
شانو خاموش رہی۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کی ہچکی بندھ جاتی تھی۔
’’بیٹی!ذرا سوچوجوبات اس نے کی ہے وہ کوئی آدم زاد کر سکتا ہے؟وہ کہاں اور ہم کہاں۔ہم اور مخلوق اور وہ اور مخلوق ہے‘‘
’’تو اس سے کیا ہوا امی جان!‘‘
’’اس سے کچھ نہیں ہوا؟ذرا سوچو تم شہزادی ہو۔جنوں کے بادشاہ کی اکلوتی بیٹی ہو۔یہ بات تم نے کیوں کر بھلا دی ہے؟‘‘
’’امی!‘‘یہ کہہ کر شانو چپ ہوگئی۔
’’کہو۔کیا کہنا چاہتی ہو۔‘‘
’’میں بابا جی کے ہاں خوش رہوں گی۔‘‘
’’ہر گز نہیں۔ہر گز نہیں۔جن شہزادی ایک ملاح کے گھر کبھی خوش نہیں رہ سکتی۔‘‘
’’میں رہوں گی۔میں خوش رہوں گی۔میں وہاں جاؤں گی۔‘‘
’’پاگل ہوگئی ہو شانو؟‘‘
’’پاگل ہی سہی مگر یہ میرا فیصلہ ہے۔‘‘
شانو کی ماں کو امید نہیں تھی کہ معاملہ اس قدر بڑھ جائے گا۔اس نے اپنے دونوں بازو پھیلائے اور بیٹی کے چہرے کو ان کی گرفت میں لے لیا۔
’’پاگل پن مت کر شانو! ایسا نہ کبھی ہوا ہے اور نہ کبھی ہوگا۔اور دیکھو۔تم کبھی اپنے محل سے باہر نکلی ہی نہیں ہو ۔تمہیں کیا خبر کہ غریب آدم زاد کیسے کیسے چھوٹے مٹی اور اینٹوں سے بنائے ہوئے گھروں میں رہتے ہیں اور وہ کیا کھاتے ہیں ۔کس طرح زندگی گزارتے ہیں۔‘‘
شانو کی ماں کو پوری توقع تھی کہ اس کے الفاظ کاشانو پر ضرور اثر ہوگا،مگر شانو بولی،’’مجھے باباجی نے سب کچھ بتا دیا ہے ۔‘‘
’’کیا بتا دیا ہے؟‘‘
’’ان کے کیسے مکان ہوتے ہیں،کیا کھاتے ہیں ، کیا کرتے ہیں۔‘‘
سانو کی ماں کچھ اور کہنے والی تھی کہ بادشاہ آگیا۔
’’کیا باتیں ہو رہی ہیں ماں بیٹی میں ۔ اس کا پاگل پن دور ہوا یا نہیں؟‘‘
’’دور ہو جائے گا۔‘‘ شانو کی ماں بولی۔
’’کیوں شانو ؟‘‘ بادشاہ نے شانو سے پوچھا۔
’’ابا جان ! میں آپ سے کیسے گستاخی کر سکتی ہوں۔آپ کا حکم مانوں گی ۔چاہے میں مر جاؤں مگر جو آپ فرمائیں گے وہی کروں گی۔‘‘
شانو کی ماں نے اپنے شوہر کو فکر مندی سے دیکھا اور اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی ۔بادشاہ واپس چلا گیا۔
جنوں کے بادشاہ کے محل سے دور اس کے چار خادم نادی کے تخت کے چاروں پائے پکڑے تیزی سے چلے جا رہے تھے۔نادی حیران و پریشان بیٹھا تھا ۔ اسے رہ رہ کر شانو کا خیال آرہا تھا۔ بے چاری کتنی دکھی نظر آتی تھی ۔اسے ان اشرفیوں کا خیال بھی آگیا جو اس کے لمبے کرتے کی جیب میں پڑی تھیں۔
’’میں ان اشرفیوں کا کیا کروں گا؟میں انھیں سنبھال کر رکھوں گا۔ کسی کو ان کے بارے میں نہیں بتاؤں گا۔مرتے وقت اپنے پوتے مالی کو دے جاؤں گا۔‘‘
یہ سوچ کر اس نے اپنا ہاتھ جیب سے نکال لیااور اردگرد دیکھا۔چاروں طرف اونچے اونچے کالے کالے پہاڑ کھڑے تھے۔کہیں کہیں ان کو چوٹیوں پر برف بھی نظر آرہی تھی ۔ہرن اورجنگلی جانور بھی نزدیک ڈور رہے تھے۔
’’میں یہاں کیسے پہنچ گیا؟‘‘
یہ سوال یکا یک اس کے ذہن میں آگیا اور وہ ان واقعات کو یاد کرنے لگاجو پچھلے چند روز میں اسے پیش آئے تھے۔جن اس کا تخت اٹھائے آگے ہی آگے چلے جا رہے تھے۔اب کچھ دور ایک چمک سی دکھائی دی۔
یہ دریا کے پانی کی چمک تھی ۔اور تھوڑی دیر بعد جن نادی کا تخت دریا کنارے اس جگہ رکھ رہے تھے جہاں نادی کی پرانی کشتی ساحل کے ساتھ کھڑی تھی۔ وہ حیرت سے سوچنے لگا ،’’یہ کشتی تو ڈوب گئی تھی ۔صحیح سلامت کیسے رہی؟‘‘
ایک جن نے اسے آرام سے اپنے طاقت ور بازوؤں میں اٹھایا اور کشتی میں بیٹھا دیا ۔ کشتی کے اندر اس کی وہ لاٹھی بھی موجود تھی جو بڑھاپے میں اس کا سہارا بن گئی تھی۔اسکے علاوہ دو چپو بھی تھے ۔ وہ کشتی میں بیٹھ چکا تھا۔اب باقی تینوں جن بھی آگئے ۔دو جنوں نے چپو سنبھال لیے۔ایک کشتی کے ایک سرے پر بیٹھ گیا تھا اور دوسرا بائیں جانب ۔کشتی دریا کا سینہ چیرتی ہوئی چلی جارہی تھی ۔تھوڑی دیرہی گزری تھی کہ نادی نے وہ جگہ پہچان لی جہاں اس کی کشتی بند ھی رہتی تھی اور جہاں وہ گھنٹوں بیٹھا رہتا تھا۔کشتی کنارے لگ گئی تھی۔ایک جن نے نادی کو اس کی لاٹھی کے سہارے اٹھا کر کنارے پر پہنچا دیا۔
باقی تینوں بھی باہر نکل آئے ۔ایک نے کشتی کے رسے کو درخت کے ساتھ باند ھ دیا۔
نادی کشتی سے دور بیٹھا تھا۔چاروں جن اس کے اردگرد سر جھکا کر کھڑے تھے جیسے اس کے حکم کے منتظر ہو۔
’’کیا آپ کو گھر تک لے جائیں؟‘‘ایک جن نے بڑے ادب اور احترام سے پوچھا۔
’’نہیں،میں اپنے گھر خود جاؤں گا۔‘‘
’’ہمارے لیے حکم ؟‘‘ دوسرے جن نے سوال کیا۔
’’آپ کا بہت بہت شکریہ ۔آپ جائیے۔‘‘
چاروں نے ایک ساتھ اپنے سر جھکائے اور دیکھتے ہی دیکھتے دریا میں اتر گئے۔وہ یوں پانی میں چلے جا رہے تھے جیسے خشکی میں قدم اٹھا رہے ہوں۔ نادی نے چند منٹ تک انھیں دیکھااور پھر ان سے نظریں ہٹا لیں۔وہ اپنی لاٹھی کے سہارے کھڑا ہو گیااور چلنے لگا ۔آہستہ آہستہ ایک ایک قدم اٹھا رہا تھا ۔کچھ دور اس کو مکان کی دیواریں دکھائی دے رہی تھیں۔اس وقت اس کے دل میں صرف ایک ہی خواہش تھی کہ اس کاپوتا اسے مل جائے۔
وہ ابھی چند قدم ہی چلا تھا کے مالی دوڑتا ہوا آیا اور دادا جان کہہ کر اس سے اس طرح لپٹ گیاکہ وہ کھڑا نہ رہ سکا اور لڑکھڑا کر گر گیا۔زمین پر گرنے کی وجہ سے نادی کے بائیں گھٹنے پر چوٹ لگی،مگر اپنے پیارے پوتے سے مل کر اسے اتنی خوشی ہوئی تھی کے بیان سے باہر ہے۔خوشی میں اسے اپنی چوٹ کا بھی احساس نہیں ہوا۔لاٹھی اسکے ہاتھ سے نکل کر کچھ دور جا گری۔ مالی نے اپنے دادا جان کو اٹھانے کی کوشش کی ۔ نادی نے اسے لاٹھی پکڑانے کا اشارہ کیا۔لاٹھی ہاتھ میں آئی تو وہ اس پر سارا زور ڈال کر اٹھ بیٹھا۔
’’دادو!کہاں چلے گئے تھے؟‘‘
نادی ہنس پڑا،’’بس بیٹا چلا گیا تھا۔خود نہیں گیا تھا ،قسمت لے گئی تھی۔‘‘
’’کہاں دادا جان؟‘‘
’’بتاؤں گا۔سناؤ سب لوگ ٹھیک ہیں ؟‘‘
’’سب ٹھیک ہیں ۔تمہارے لیے بڑے پریشان تھے۔ شکر ہے آگئے ہو۔دادا جان !‘‘
’’ہوں۔‘‘
’’میں ہر روز یہاں آکر دیر تک بیٹھا رہتا تھا۔اماں کہتی تھی ،’’بس کرو اب ۔ڈوب مرا ہے تمہارا پاگل دادا،یہ سن کر مجھے بڑا غصے آتا تھا۔پر میں اس کی بات نہیں مانتا تھا۔‘‘
’’اس نے کہا تو ٹھیک ہے۔‘‘
’’کیا دادو؟‘‘
’’میں سچ مچ ڈوب گیا تھا۔ یہ ساری باتیں تم سب کو بتاؤں گا۔‘‘
دونوں دادا پوتے آہستہ آہستہ گھر کی طرف چلنے لگے۔گھر سے کچھ دور ہی تھے کہ مالی کی ماں بخشو کی نظر ان پر پڑی ۔وہ تیزی سے آئی۔پہلے تواس نے اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے آنکھیں ملیں اور پھر گھور گھور کر نادی کو دیکھنے لگی۔
’’اماں میں نہ کہتا تھا کہ دادو آجائے گا۔دیکھ لو آگیا ہے نا۔‘‘
’’بابا تو سچ مچ آگیا ہے۔‘‘
ماں کا یہ فقرہ سن کر مالی غصے سے بولا،’’اماں! تو دیکھ نہیں رہی دادا جان کو‘‘
’’دیکھ تو رہی ہوں پر یقین نہیں آتا۔‘‘
’’اماں !میرا دادو سلامت ہے۔اللہ کا شکر ہے۔‘‘
اسی اثنا میں گھر کے کئی لوگ بھاگتے ہوئے آگئے۔وہ سب نادی کو دیکھ کر حیران تھے۔
بخشو ان لوگوں سے بولی،’’دیکھا تماشا ! نہ جانے کہاں کہاں کی خاک چھان کر آگیا ہے۔ہم تو سمجھے تھے مرکھپ گیا ہے۔‘‘
’’میرا دادو مرنے والا نہیں ہے۔‘‘مالی یہ کہتے ہوئے ایک بار پھر نادی سے لپٹ گیا۔
’’ابا!کہاں رہے اتنے دن ؟‘‘یہ سوال مالی کے باپ نے کیااور اس سوال کے جواب میں نادی نے اپنا دایاں ہاتھ اس انداز سے لہرایا گو یا کہہ رہا ہو ،صبر کرو سب کچھ بتا دوں گا۔گھر تک پہنچتے پہنچتے ایک میلا لگ گیا۔جس نے نادی کو دیکھا ڈور کر آگیا۔گھر آکر نادی دروازے کے آگے بچھی ہوئی چارپائی پر بیٹھ گیا۔باقی سب لوگ اس چارپائی کے اردگرد کھڑے ہوگئے۔
’’مالی!پانی پلاؤ۔‘‘
مالی گھر میں چلا گیا اور چند ہی لمحوں میں پانی سے بھرا ہوا مٹی کا پیالہ لے آیا۔نادی نے پیالہ ہونٹوں سے لگایااور پیاس بجا کر پیالہ مالی کو دے دیا۔
’’بابا!اب بتاؤ نا کہاں چلے گئے تھے؟‘‘ یہ سوال مالی کے باپ سمرد نے پوچھا تھا۔
’’پتر،کیا بتاؤں کہاں چلا گیا تھا۔تم لوگ مانو گے نہیں۔‘‘ نادی نے اپنی داڑھی میں دائیں ہاتھ کی انگلیاں پھیر تے ہوئے کہا۔
’’ہم مانیں گے۔‘‘ بیک وقت کئی آوازیں بلند ہوگئیں۔
’’تو سنو!‘‘سب کے سب نادی کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے۔
’’میں جنوں کے ملک میں چلا گیا تھا۔‘‘
اتنا سنناتھا کہ سب کے منہ حیرت کے مارے کھلے کے کھلے رہ گئے۔’’جنوں کے ملک میں؟‘‘ پھر کئی آوازیں گونج اٹھیں۔نادی ہاں میں اپنا سر ہلانے لگا۔مالی نادی کے لیے حقہ تازہ کر کے لے آیا۔
’’سنا مالی! تیرا دادا کیا کہتا ہے ؟‘‘بخشو نے اپنے بیٹے سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا،’’کہتا ہے میں جنوں کے ملک میں چلا گیا تھا۔‘‘
’’اچھا دادو!‘‘
’’تو نے یقین کر لیا ہے مالی؟‘‘
’’ہاں اماں!میرا دادا جان کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔‘‘
بخشو نے بُرا سا منھ بنا کر کہا،’’اس سے پوچھو تو ذرا جن کیسے ہوتے ہیں۔‘‘
مالی نے نادی کی طرف اس انداز سے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو،بتا دو، دادو اماں کیا پوچھ رہی ہے۔نادی نے حقے کے تین چار کش لگائے۔
’’واہ اپنے حقے کا مزہ ہی اور ہے۔وہاں تو سونے چاندی کا حقہ تھا پر مزہ نہیںآتا تھا۔‘‘ نادی نے ایک اور کش لگاکر کہا۔
’’سونے چاندی کا حقہ؟ سچ؟‘‘ایک شخص نے حیرت سے کہا۔
’’وہاں تو ہر چیز عجیب تھی۔‘‘نادی بولا۔
’’دادو! سنا ہے جنوں کے سر پر سینگ ہوتے ہیں۔ہوتے ہیں؟‘‘مالی نے پوچھا۔
’’نہیں، انسانوں کی طرح ہوتے ہیں مگر بڑے طاقت ور اور شہزور ہوتے ہیں۔‘‘
’’ابا! تو وہاں کیسے چلا گیا تھا؟‘‘سمرد نے پوچھا۔
نادی بتانے لگا کہ کیسے وہ کشتی میں بیٹھ گیاتھا اور کشتی چل پڑی تھی۔پھر دریا میں طغیانی آگئی ۔ایک لہر نے اسے اٹھا کر کنارے پر گرا دیا۔جنوں کی شہزادی آئی اور اسے اپنے خادم جنوں کی مدد سے محل میں لے گئی۔دیر تک طرح طرح کے سوال پوچھے جاتے رہے۔
’’بابا!مجھے بھی وہاں لے چلو، میں دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘مالی نے کہا۔
نادی نے آہ بھری،’’یہ نہیں ہوسکتا مالی!اب میں کبھی وہاں نہیں جا سکتا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کبھی نہیں جا سکتا۔جنوں کا بادشاہ مجھ سے ناراض ہو گیا ہے۔‘‘
’’کیوں ناراض ہو گیا ہے؟‘‘
’’یہ بات تمہیں بتانے کی نہیں ہے۔‘‘نادی نے دوبارہ آہ بھری۔
سوال ہوتے رہے اور نادی جواب دیتا رہا۔کسی کو بھی اس کی باتوں یقین نہیں آرہا تھا۔سوائے مالی کے سب شک و شبہے سے نادی کو دیکھے جارہے تھے۔ بخشو بول اٹھی:
’’چلو اپنے کام کرو۔بڈھے کی تو مت ماری گئی ہے۔پتا نہیں کہاں چلا گیا تھا۔ خود تو پاگل ہے ہی ایسی باتیں سنا کر ہمیں پاگل بنا رہا ہے۔‘‘
’’نہیں، میں نے جو کچھ کہا ہے سچ کہا ہے۔‘‘
’’سچ کہا ہے تو اس کا ثبوت دو۔‘‘بخشو نادی کے سامنے اکڑ کر کھڑی ہو گئی۔
’’ثبوت مانگتی ہے تو چڑیل۔‘‘
’’ہاں ثبوت مانگتی ہوں۔تو اپنا رعب جمانا چاہتا ہے۔میں تجھے بھلا جانتی نہیں ہوں۔اول درجے کے جھوٹے ہو۔‘‘
’’اماں!چپ کرو۔‘‘مالی نے ماں کو خاموش رہنے کے لئے کہا۔
’’چپ کر تو ،آیا دادا کا حمایتی بن کر۔اس کا تو دماغ خراب ہو گیا ہے۔کہتا ہے کہ میں جنوں کے ملک میں چلاگیا تھا۔‘‘
’’اور جنوں کی شہزادی اس پر بڑی مہربان ہو گئی تھی۔‘‘ایک شخص ہنس کر بولا۔
’’یہ بڈھا کھوسٹ اور جنوں کی شہزادی۔‘‘بخشو زور سے ہنس پڑی۔
’’تو نہیں مانتی؟‘‘نادی نے غصے سے کہا۔
’’نہیں مانتی۔سوبار نہیں مانتی۔ہزار بار نہیں مانتی۔‘‘
’’تو دیکھ۔‘‘یہ کہہ کر نادی نے اپنے کرتے کی اندرونی جیب میں ہاتھ ڈالا اور جب ہاتھ باہر نکالا تو اس کی ہتھیلی پراشرفیاں چمک رہی تھیں۔سب کی آنکھیں اشرفیوں کی روشنی سے چکا چوند ہو گئیں۔
یہ وہ اشرفیاں تھیں جو جن شہزادی نے دی تھیں۔بخشو اشرفیوں کو دیکھتی رہ گئی۔جتنے لوگ کھڑے تھے سب دم بخود ہو گئے۔ نادی نے اشرفیاں پھر جیب میں ڈال لیں۔اور مزے سے حقے کے کش لینے لگا۔
شانو،بابا نادی کے جانے کے بعد چپ چپ رہنے لگی۔پہلے وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ سیر تفریح اور ناچ گانے میں بڑی دلچسپی کے ساتھ حصہ لیا کرتی تھی۔رات کے وقت کبھی کبھی اپنی امی سے اپنے بزرگوں کی باتیں بھی دیر تک جاگ کر سنا کرتی تھی۔کسی باغ میں کوئی پودا اپنی شاخوں پر نئے پھولوں کی بہار دکھانے لگتا تھا تو شانو یہ نئے پھول بڑے شوق سے جا کر دیکھا کرتی تھی مگر جب سے نادی گیا تھا اس کی حالت ہی بدل گئی تھی۔ اس کے ماں باپ کو اس کی بدلی ہوئی حالت پر دکھ ہوتا تھا۔وہ اسے ہر طرح خوش کرنے کی کوشش کرتے تھے لیکن تھوڑی دیر بعد وہ پھر ویسی کی ویسی ہو جاتی تھی۔
ایک بار شانو کی امی نے دیکھا کہ آدھی رات تک وہ اپنے پلنگ پر لیٹی ہوئی پہلو بدل رہی ہے تو وہ اپنا پلنگ چھوڑ کر اس کے پلنگ پر آگئی۔اس رات اس کا باپ جنوں کے دوسرے ملک میں تھا اور صبح آنے والا تھا۔
’’کیوں شانو! تم ابھی تک سوئی نہیں؟‘‘
’’نیند نہیں آرہی امی!‘‘
’’کیوں نیند نہیں آرہی؟‘‘
’’میں کیا بتاؤں!‘‘
’’گانا سنو گی؟‘‘
’’نہیں امی!گانا سننے کو جی نہیں چاہتا۔‘‘
’’گانا سننے سے نیند آجاتی ہے۔‘‘یہ کہہ کر شانو کی امی نے تالی بجائی۔ایک خادمہ حاضر ہو گئی۔
’’حکم ملکہ؟‘‘
’’دیکھو ہماری بیٹی گانا سنے گی۔‘‘
خادمہ نے اپنا سر خم کیا اور فوراً چلی گئی۔چند لمحوں کے بعد شاہی مغنیہ اپنا رباب لے کر آگئی۔
مغنیہ گانے لگی۔گاتی رہی۔شانو بیزار سی ہوگئی۔اسے گانے میں کوئی دل چسپی نہیں تھی اور چاہتی تھی کہ یہ جلد سے جلد ختم ہو جائے۔مغنیہ گائے چلی گئی تو وہ بولی،’’بس امی!‘‘
ملکہ نے مغنیہ کو گانا بند کرنے کا اشارہ کیا اور وہ چلی گئی۔ دونوں ماں بیٹی خاموشی سے لیٹی ہوئی تھیں کہ شانو بولی،’’امی! کیا یہ بات ٹھیک ہے کہ میری نانی اماں زندہ ہیں اور یہیں کہیں رہتی ہیں؟‘‘
’’یہ خبر تم کوکس نے دی ہے؟‘‘ شانو کی ماں نے حیرت سے پوچھا۔
’’امی! آپ کو یاد نہیں۔ہمارے دوسرے ملک سے ایک بزرگ خاتون آئی تھیں۔ایک روز وہ اور میں باغ میں ٹہل رہی تھیں تو انھوں نے مجھے بتایاتھا ۔‘‘
شانو کی ماں پلنگ پر تکیے کا سہارا لے کر بیٹھ گئی۔پھر بولی ،’’انھیں یہ بات کہنی نہیں چاہیے تھی!‘‘
’’ وہ کیوں امی ؟‘‘
شانو کی امی خاموشی سے کچھ سوچنے لگی۔
’’آخر کیوں امی ؟‘‘
’’یہ بات نہ تو میرے بتانے کی ہے اور نہ تمہارے سننے کی۔بس اب اس ذکر کو ختم کرو۔‘‘
’’نہیں امی !آپ کو بتانا پڑے گا۔‘‘
’’نہیں شانو !نہیں،میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔کچھ نہیں کہوں گی۔‘‘
شانو کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے اور وہ بھر ائی ہوئی آواز میں بولی،’’امی ! آپ بھی میرے باپ کی طرح ۔۔۔۔۔‘‘شانو اپنا فقرہ مکمل نہ کر سکی۔
شانو کی ماں نے بیٹی کے آنسو اپنی انگلیوں سے پو چھے اور اسے گلے سے لگا کر کہنے لگی،’’بیٹی !تم مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہو۔مگر ہمارے ملک کے کچھ ایسے اصول ہیں جنہیں کوئی بھی نہیں توڑ سکتا۔ تمہارا باپ جو سارے جنوں کا حکمراں ہے اور جس کے سامنے تمام جن تھر تھر کانپتے ہیں وہ بھی ان اصولوں کے سامنے بے بس ہیں۔‘‘
’’امی ! ‘‘
’’کہو میری پیاری بیٹی!‘‘
’’ان بزرگ خاتون نے بتایا تھاکہ میری نانی اماں کا سب احترام کرتے ہیں۔‘‘
’’ ہاں کرتے ہیں ۔‘‘
’’پھر بھی وہ سب سے چھپی بیٹھی ہیں۔‘‘
’’مت کرو ایسی باتیں۔میں نے کہا ہے نا کہ اس کے بارے میں کچھ بھی نہ پوچھو۔‘‘ملکہ کے لہجہ میں اس قدر تلخی آگئی ۔
’’اچھا امی!میں کچھ نہیں پو چھتی۔‘‘
’’تو اب سو جاؤ۔‘‘
شانو لیٹ گئی۔رات گزر گئی ۔صبح کے وقت بادشاہ آگیا۔اس نے آتے ہی شانو کو غور سے دیکھااور جب محسوس کیا کہ شانو کے چہرے پر حقیقی مسکراہت نہیں ہے تو بولا ،’’شانو ! کیا بات ہے؟ تم ابھی تک غمگین دکھائی دیتی ہو؟‘‘
’’نہیں ابا جان !میں غمگین تو نہیں ہوں۔‘‘
’’بیٹی !ہم نے سوچا ہے کہ تمہیں دور دور کی سیرکرائیں گے۔نئی نئی چیزیں دیکھو گی ، نئے نئے پہاڑ ، نئے نئے باغ۔یہیں محل میں رہ کر شاید تم زیادہ خوش نہیں ہو۔‘‘
’’ابا جان ! میں کہیں بھی نہیں جاؤں گی ۔میں اپنے ہی ملک میں قید رہوں گی باہر نہیں جا سکوں گی۔‘‘
’’تو کیا تم انسانوں کی دنیا میں جانا چاہتی ہو؟‘‘
شانو خاموش رہی ۔
شانو کی ماں آگئی اور وہ شانو کو اپنے خاص کمرے میں لے کرچلی گئی۔
’’یہ تم نے اچھا نہیں کیا بیٹی !‘‘
’’امی !میں نے ٹھیک ہی تو کیا ہے۔جہاں جاؤں گی وہیں اپنے لوگ ہوں گے۔وہی پہاڑ،وہی دریا۔میں نئی دنیا میں جانا چاہتی ہوں۔دیکھنا چاہتی ہوں کہ وہاں کیا کچھ ہے۔امی!میں بابا جی کے گھر ۔۔۔۔۔‘‘
’’چپ لڑکی!پاگل ہوگئی ہے۔ایسا کبھی ممکن نہیں ۔میں نومی کو بلاتی ہوں ۔‘‘
’’یہی میں چاہتی ہوں امی!‘‘شانو نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔نومی محل کی محافظ تھی ۔ تمام خادمائیں اس کا حکم مانتی تھیں۔شانو اس سے بڑی ما نوس تھی اور اسے نومی اماں کہہ کر مخاطب کیا کرتی تھی۔ تالی بجتے ہی ایک خادمہ حاضر ہوگئی۔
’’نومی کو بلاؤ۔‘‘ملکہ نے حکم دیا۔
چند لمحوں بعد نومی آگئی۔
’’نومی! اسے سمجھاؤ۔ اسے بتاؤ کہ یہ جنوں کے بادشاہ کی بیٹی ہے اور دنیا کے انسانوں سے اس کا مرتبہ بلند ہے۔آدم زادوں سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔اسے سمجھاؤ کہ پاگل پن مت کرے۔‘‘
نومی شانو کو قریبی باغ میں لے گئی۔دونوں ایک خوبصورت پھولوں سے لدے ہوئے پودے کے پاس سبز گھاس کے اوپر بیٹھ گئیں۔اس وقت نومی نے شانو سے ایک ایسے لہجے میں بات کی جس میں احترام بھی تھااور شفقت بھی ۔نومی کہنے لگی:
’’شہزادی ! میں نے تو آپ کو گود میں کھلایا ہے ،اس لیے ہم دونوں کو ایک دوسرے سے کھل کر بے تکلفی سے گفت گو کرنی چاہیے۔بتائیے آپ کیا چاہتی ہیں؟‘‘
شانو بولی ،’’میں شہزادی ہوں مگر تمہارے لیے نہیں۔میں نے تمہیں اپنے دل میں ہمیشہ خالہ کا درجہ دیا ہے۔تم مجھے شہزادی نہ کہو،شانو کہو۔‘‘
’’تو ٹھیک ہے شانو بیٹی ! اب کہو۔‘‘
شانو نے اپناسر نومی کے زیادہ قریب کردیا،’’خالہ! میں تمہیں بتائے دیتی ہوں کہ میں محل میں رہ کر خوش نہیں ہوں ۔میں کسی نئی دنیا میں جا نا چاہتی ہوں اور بابا کو میں اپنا ایک ایسا بزرگ سمجھتی ہوں جس کے لیے میرے دل میں بے حد احترام اور احترام سے زیادہ محبت ہے۔میرے باپ نے بے عزت کر کے اسے نکال دیا جس کا مجھے بے حد صدمہ ہے۔‘‘
نومی نے بڑے غور سے اسکے چہرے کو دیکھا۔
’’شانو! تمھارے بابا نے بہت بڑی گستاخی کی تھی۔یہ تو بہت اچھا ہوا کے ملکہ نے اس کی سزا معاف کرادی۔‘‘
’’یہ کوئی گستاخی نہیں تھی۔‘‘
’’شانو ! کیا کہہ رہی ہو تم؟‘‘
’’بابا کی خواہش میری اپنی خواہش بھی ہے۔‘‘
’’شانو!‘‘نومی کو سخت حیرت ہوئی۔
’’میں یہی چاہتی ہوں ۔میں انسانوں کی دنیا میں رہوں گی۔اپنے بابا کے پاس۔اس سے مجھے خوشی ہوگی۔‘‘
’’جانتی ہو بابا ایک غریب ملاح ہے اور اس کا پوتا بھی غریب ملاح ہی ہوگا۔‘‘
’’کوئی بات نہیں خالہ ! کوئی بات نہیں۔‘‘
شانو کے چہرے پر ایک ایسی سرخی آگئی تھی جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ جو کچھ کہہ رہی ہے اس پر پورا پورا یقین رکھتی ہے۔
’’ یہ تمہارا اٹل فیصلہ ہے؟‘‘
’’بالکل اٹل۔‘‘
’’شانو ! یہ ممکن نہیں ہے۔‘‘
’’یہ ممکن نہیں ہے توپھر۔۔۔۔۔‘‘
شانو نے بات ادھوری چھوڑ دی ۔نومی اسے چپ چاپ دیکھتی رہی۔دیکھتی رہی۔وہ کچھ کہنا چاہتی تھی ،مگر اس کے لیے اسے الفاظ نہیں مل رہے تھے۔
’’خالہ!چپ ہوگئی ہو!‘‘
’’کیا کہوں!لگتا ہے وہی کہانی دہرائی جانے والی ہے۔‘‘
’’کون سی کہانی۔‘‘
’’اس بزرگ خاتون کی کہانی جس کا ذکر تم سن چکی ہو،جس کے بارے میں کچھ بتانے سے ملکہ نے انکار کردیا تھا۔‘‘
’’نانی جان۔‘‘
نومی نے سر ہلا کر اقرار کیا۔
’’پتا نہیں یہ کیا معمہ ہے؟امی نے یہ بات سختی سے رد کر دی تھی۔‘‘
نومی بولی،’’انھیں رد ہی کرنی چاہیے تھی۔شانو بیٹی!یہ بزرگ خاتون تمھاری نانی نہیں ہیں۔کسی کی بھی رشتہ میں نانی نہیں تھی۔ تم نے مجھے خالہ کہا ہے اور میں تمھیں اپنی سگی بیٹی سے بھی زیادہ عزیز جانتی ہوں ۔تمھاری ماں نے جو کچھ نہیں بتایاوہ میں تمھیں بتاتی ہوں۔‘‘ نومی کچھ لمحے با لکل خاموش رہی:
’’ہمارے ملک میں اس بزرگ ترین خاتون کا نام شمیعہ ہے ۔اس نے بھی وہی ضد کی تھی جو تم کررہی ہو۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’ تمھارے بابا کی طرح ایک انسان یہاں آگیا تھا۔وہ نوجوان تھا۔ شمیعہ اسے گھر لے گئی تھی۔دونوں میں محبت پیدا ہوگئی ۔بزرگوں نے اس نوجوان کو زدوکوب کرکے نکال دیا تھا۔وہ اسے اندھے کنویں میں ڈالنا چاہتے تھے،مگر شمیعہ نے کہا،’’اسے اندھے کنویں میں ڈالو گے تو میں بھی چھلانگ لگا دوں گی۔‘‘
’’تو وہ نوجوان انسان چلا گیا؟‘‘
’’ہاں چلا گیا۔محل کا ایک خادم اسے اٹھا کر دریا کے دوسرے کنارے پھینک آیا تھا۔‘‘
’’وہ آیا کیسے تھا خالہ؟‘‘
’’اسی طرح جس طرح یہ بابا آیا تھا۔اس کے بعد شمیعہ نے گوشہ نشینی اختیار کرلی۔اس وقت وہ محل کے ایک ایسے کمرے میں ہے جسے کوئی نہیں جانتاسوائے میرے اور یہ راز میرے سینے میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔‘‘
تھوڑی دیر کے بعد نومی اور شانو اپنے اپنے خیالات میں ڈوبی ہوئی باغ سے نکل کر محل میں چلی گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات آدھی گزر گئی تھی۔ نومی کے ہاتھ میں بلوریں شمع دان تھا،وہ سارے محل کا چکر لگا کر ابھی ابھی اپنے کمرے میں گئی تھی۔رات کے وقت وہ دوتین بار سارے محل میں گھوم کر یہ دیکھتی تھی کے سارے محافظ اپنی اپنی جگہ پر مستعد کھڑے ہیں،ان میں کوئی غیر حاضر تو نہیں ہے۔نومی کے کمرے میں داخل ہوتے ہی دروازہ بند ہو گیا۔اس نے شمع دان شفاف شیشے کی میز کے اوپر کھ دیا اور پلنگ کی طرف جانے لگی ۔اس کی آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں۔وہ سونا چاہتی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
اس دستک پر وہ حیران رہ گئی۔وہ دروازے کی طرف جاتے ہوئے بولی:
’’کون ہے ؟‘‘
’’ خالہ ! میں ہوں ۔‘‘
’’شانو بیٹی ،تم؟‘‘
’’ہاں خالہ!‘‘
نومی نے دروازے پر دایاں ہاتھ رکھا ہی تھا کہ وہ کھل گیا۔نومی کا ماتھا ٹھنکا۔ایسے وقت شانو کا اس کے ہاں یکلخت آنا ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔شانو اندر آگئی۔
’’خالہ!تم جانتی ہو تم میرے لئے کیا ہو۔کیا میرا ساتھ نہیں دوگی؟‘‘
’’یہ تم نے کیسے سوچا کہ میں تمہارا ساتھ نہیں دوں گی؟‘‘نومی بولی۔
’’تو سنو!میں بزرگ خاتون شمیعہ سے ملنا چاہتی ہوں۔‘‘
یہ فقرہ سن کر نومی ہکا بکا رہ گئی۔
’’کیا کہہ رہی ہو تم شانو؟‘‘
’’میں ان کے پاس جانا چاہتی ہوں۔یہ میرا فیصلہ ہے اور اٹل فیصلہ ہے۔‘‘
’’شانو! تم نے سوچ کر یہ فیصلہ نہیں کیا۔جانتی ہو محل میں کسی کو بھی ان سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہ رہتی کہاں ہیں۔کوئی بھی کسی سے ان کے بارے میں سوال نہیں کر سکتا۔سب انہیں بھول چکے ہیں۔‘‘
’’کچھ بھی ہو میں ان سے ملوں گی۔‘‘
’’نہیں شانو،نہیں،تمہاری یہ ضد بڑی خطرناک ہے۔تمہارے لئے بھی ا ور میرے لئے بھی۔‘‘
’’خالہ! تم میرے ساتھ نہیں چلو گی تو میں تنہا ان کی تلاش میں نکل جاؤں گی۔ ایک مہربانی کرو۔مجھے صرف یہ بتا دو کہ کون سا راستہ ان کے گھر کی طرف جاتا ہے۔‘‘
’’ناممکن!‘‘
’’تو خالہ! ٹھیک ہے تم میرا ساتھ نہ دو،مگر مجھے تم سے یہ امید ہرگز نہیں تھی۔خیر میں سب کچھ تنہا کروں گی۔مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘یہ کہہ کر شانو دروازے کی طرف مڑی۔
’’رک جاؤ شانو!رک جاؤ۔تم نے مجھے بہت ہی بڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔بادشاہ سلامت کو معلوم ہوا تو وہ نہ جانے مجھے کتنی کڑی سزا دیں گے؟‘‘
’’خالہ!‘‘
’’کہو۔‘‘
شانو کا چہرہ پختہ عزم کی وجہ سے سرخ ہو گیا تھا۔
’’وہ سزا میرے لئے بھی ہوگی۔ میں تمہیں ایسے موقع پر تنہا نہیں چھوڑوں گی۔ اس کا وعدہ کرتی ہوں۔‘‘
لمحے گزرتے جا رہے تھے۔ وہ دونوں شمع دان کی روشنی میں کھڑی تھیں۔دونوں ایک دوسرے کے چہرے کو دیکھ رہی تھیں۔نومی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔اس کے مقابلے میں شانو کا چہرہ پختہ ارادے کی وقت سے چمک رہا تھا۔
’’خالہ!‘‘شانو نومی کو مخاطب کرکے کچھ کہنا چاہتی تھی،مگر کہہ نہ سکی، کیوں کہ نومی نے شمع دان اٹھا لیا تھا۔
تھوڑی دیر بعد نومی شمع دان اٹھائے آہستہ آہستہ قدم اٹھانے لگی تھی اور شانو اس کے پیچھے پیچھے چلی جا رہی تھی ۔دونوں ابھی تک خاموش تھیں۔بس چپ چاپ چلی جارہی تھیں۔
’’خالہ! چپ کیوں ہو؟‘‘
’’شانو! مجھ سے پوچھتی ہو چپ کیوں ہو۔کیا تم چپ نہیں ہو؟‘‘
’’میں بھی ہوں خالہ! کچھ سوچ رہی ہوں۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’نانی اماں مجھے اچانک دیکھ کر کیا کہیں گی؟‘‘
’’کیا کہیں گی، یہ تو بعد کی بات ہے۔پہلے تو ان تک پہنچنا ہی بڑا مشکل ہے۔جب سے وہ گوشہ نشین ہوئی ہیں کوئی بھی ان تک نہیں پہنچا۔‘‘
’’تو ہم کہاں جا رہے ہیں خالہ؟‘‘
’’کوشش تو یہی ہے کہ ہم وہاں تک پہنچ جائیں۔راستہ بہت پیچیدہ ہے ۔میں اس کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتی ۔تم نے اصرار کیا تو میں چل پڑی۔‘‘
’’خالہ! یہ تمہارا بہت بڑا احسان ہے ۔‘‘
’’ کوئی احسان نہیں ،میں اپنی پیاری بچی شانو کی بات کبھی رد نہیں کر سکتی۔‘‘
شمع دان کی مدھم روشنی میں وہ کئی کمروں سے گزریں،کئی دالانوں کو عبور کیااور بار بار سیڑھیوں پر چڑھیں ۔ ایک مقام پر ایک گرج دار آواز بلند ہوئی:
’’کون ہو تم؟‘‘
یہ آواز بڑی کرخت اور خوف ناک تھی ۔دونوں نے بیک وقت آگے دیکھا۔ایک سیاہ رنگ کا بلند قامت جن کھڑا تھا اور اپنے خوف ناک دانت نکالے انہیں دیکھ رہا تھا۔نومی بولی ، ’’ہم نانی اماں کے پاس جا رہے ہیں ۔‘‘
’’واپس جاؤ۔‘‘
’’ہم واپس نہیں جائیں گے۔‘‘شانو نے اپنے مضبوط ارادے کا اظہار کیا۔
’’یہ شہزادی شانو ہے ۔‘‘ نومی نے شانو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
یکا یک جن کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔اس نے شہزادی شانو کے سامنے ادب سے سر جھکا دیا اور لجاجت سے بولا:
’’میں مجبور ہوں ۔وہاں تک جانے کا حکم نہیں ہے ۔کوئی بھی ادھر نہیں جا سکتا۔‘‘
نومی کہنے لگی ،’’ ٹھیک ہے ۔انہیں بتا دیں کہ شہزادی شانو آرہی ہیں۔‘‘
’’یہ بھی نہیں ہو سکتا۔‘‘
نومی اور شانو ایک دوسرے کو مایوسی سے دیکھنے لگیں۔وہ اسی گومگو کی حالت میں کھڑی تھیں کہ ایک آواز آئی :
’’ آنے دو!‘‘
یہ ایک باریک اور ملائم آواز تھی ۔اس آواز کو سنتے ہی جن نے اپنا سر جھکا دیااور ایک طرف چلنے لگا۔ایک وسیع دالان سے گزر کر نومی اور شانو نے چند سیڑھیاں طے کیں۔ان کے کانوں میں ایک میٹھے نغمے کی آواز آنے لگی ۔جن وہاں رُک گیا۔ دونوں ایک ایسے کمرے میں پہنچ گئیں ۔جس میں چودھویں کے چاند کی صاف ،شفاف،لطیف اور ملائم روشنی پھیلی ہوئی تھی ۔ایک لڑکی دف بجا بجا کر گا رہی تھی اور اس کے سامنے ایک بلوریں تخت کے اوپر ایک بوڑھی خاتون نظر آرہی تھی جس کے سر کے بال پہاڑ کی کسی بلند چوٹی پر جمی ہوئی برف کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔وہ اپنے سفید براق لباس میں سنگ مر مر کا ایک مجسمہ لگتی تھی ۔صرف اس کی آنکھیں کالی تھیں اور یہ کالی آنکھیں شانو کو متواتر گھور رہی تھیں۔ایک شیریں ،مگر رعب دار آواز شانو کو سنائی دی :
’’لڑکی!‘‘
’’جی۔‘‘
’’میں جانتی ہوں تم مجھ سے کیا کہنے آئی ہو ۔میں سب سے الگ تھلگ ہوں ،لیکن یہاں جو کچھ ہوتا رہتا ہے میں اس سے بے خبر نہیں ہوں ۔تو کیا چاہتی ہو تم ؟‘‘
شانو نے مشکل سے اپنی آنکھیں اوپر اُٹھائیں ۔وہ گھبرا گئی ۔شمیعہ کی آنکھیں اس کی آنکھوں میں اترتی چلی جا رہی تھیں۔شمیعہ کی آواز دوبارہ گونجی :
’’ تو بولو کیا چاہتی ہو تم؟‘‘
’’نانی اماں ! میں وہی کچھ چاہتی ہوں جو آپ نے چاہا تھا۔‘‘
’’کہا؟‘‘ شمیعہ کی آواز میں اب گھن گرج آگئی تھی۔
’’اگر اجازت ہو تو میں عرض کروں ؟‘‘ نومی نے ذرا آگے بڑھ کر ادب اور احترام سے سر جھکا کر کہا ۔
’’نہیں ،تمہیں بولنے کی ضرورت نہیں ہے ۔شانو کہے گی جو کچھ اسے کہنا ہے۔‘‘
’’ میں نے عرض کر دیا ہے نانی اماں !‘‘
شمیعہ خاموشی سے شانو کو دیکھتی رہی۔
’’میں نے جو کچھ چاہا تھا وہ میں نہیں کر سکی تھی ۔کیا تم بھی وہی کچھ کروگی جو میں نے کیا تھا ؟‘‘
’’نہیں ،میں یہ نہیں کروں گی ۔‘‘ شانو نے جرأت سے کام لے کر کہا۔
’’شاباش !آگے آؤ۔‘‘
شانو جھجکتے جھجکتے آگے بڑھی تو شمیعہ نے اسے گلے سے لگا لیا۔
’’ یہی میں چاہتی ہوں ۔اب میں تمہارے ساتھ ہوں ۔جاؤ اب لو ٹ جاؤ۔‘‘
شمیعہ نے شانو کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور شانو الٹے قدموں چلنے لگی ۔
’’میں آؤں گی ۔اطمینان کے ساتھ جاؤ۔‘‘
شمیعہ نے جب یہ الفاظ کہے تو وہ مسکرا رہی تھیں۔
صبح ہو چکی تھی ۔محل کے خادم اور خادمائیں بہت سے پھل اور رنگا رنگ مشروبات سے بھرے بڑے گلاس لا لا کر میز کے اوپر رکھ رہے تھے ۔ابھی تک بادشاہ اور ملکہ ناشتے کی میز پر نہیں آئے تھے۔
پہلے بادشاہ آئے ۔ان کے چہرے سے صاف طور پر معلوم ہوتا تھا کہ بڑے غصے میں ہیں۔ وہ آکر کرسی پر بیٹھ گئے ۔ ان کے چند لمحوں کے بعد ملکہ اور شہزادی شانو بھی آگئیں ۔ملکہ پریشان دکھائی دے رہی تھیں۔ شانو چپ چپ اور افسردہ تھی۔ تینوں خاموش تھے کہ بادشاہ نے تالی بجائی ۔ایک خادمہ حاضر ہوگئی۔’’نومی کو بلاؤ‘‘۔
نومی نے حاضر ہو کر ادب سے سر جھکا لیا۔
’’نومی! تم رات کے وقت شاہ زادی کو کہاں لے کر گئی تھیں ؟‘‘
نومی تھر تھر کانپنے لگی۔
’’تم نے سمجھا تھا کہ تمہاری اس شرمناک حرکت کا علم ہمیں نہیں ہوگا ؟‘‘ بادشاہ گرجے’’ جوا ب دو ،اب کانپ کیوں رہی ہو؟‘‘
’’آپ کی بات کا جواب یہ نہیں میں دوں گی ابا جان! رات مجھے نومی نہیں میں نومی کو اپنے ساتھ لے گئی تھی ۔‘‘
’’شانو! تم خاموش رہو۔‘‘
’’ابا جان ! میں کیسے خاموش رہ سکتی ہوں ۔رات جو کچھ ہوا اس کی ساری ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے ۔میں نے نومی سے کہا تھا’مجھے نانی اماں شمیعہ کے پاس لے چلو۔یہ جانا نہیں چاہتی تھیں میں نے انہیں مجبور کر دیا‘‘۔شانو نہ کہا۔
’’اور یہ مجبور ہو گئی۔ کیا یہ جانتی نہیں تھی کہ وہاں جانا ہمارے حکم کے خلاف کھلی بغاوت ہے؟‘‘
’’یہ بغاوت اس نے نہیں ،میں نے کی ہے ابا جان۔‘‘
’’یہ گستاخ عورت اس بغاوت میں برابر کی شریک ہے ۔سارے محل میں شمیعہ کے کمرے کا علم اس کے سوا کسی کو بھی نہیں ہے ۔اس نے تمہیں وہاں تک پہنچایا ہے ۔یہ مجرم ہے ۔اس نے ایک ایسا جرم کیا ہے جس کی کم سے کم سزاموت ہے‘‘۔
نومی کا چہرہ ایک دم زرد پڑ گیا۔
’’ابا جان ! اس جرم میں اگر نومی شامل ہیں تو میں بھی شامل ہوں ۔یہ مجرم ہیں تو میں بھی مجرم ہوں‘‘۔
اس مرتبہ ملکہ بولی ،’’ شانو بیٹی ! تم اپنی زبان بند رکھو ۔یہ معاملہ بادشاہ اور نومی کے درمیان ہے ‘‘۔
نہیں امی ! میں خاموش نہیں رہوں گی ‘‘۔
’’تمہیں خاموش رہنا ہو گا ‘‘بادشاہ نے بڑے غصے سے اپنی بیٹی کو مخاطب کر کے کہا ۔
’’ ابا جان۔۔۔۔۔‘‘
شانو کچھ کہنے ہی والی تھی کہ اس کی امی نے ہاتھ کے اشارے سے اسے چپ کراتے ہوئے کہا،’’ شانو!میری بیٹی!میں تمہاری ماں ہوں ۔کیا ماں کی بات نہیں مانو گی؟‘‘
’’امی!میں اپنی جان بھی آپ پر قربان کر سکتی ہوں ،مگر سچائی کے اظہار سے مجھے آپ کا پیار اور آپ کی شفقت نہیں روک سکتی۔‘‘
بادشاہ کا چہرہ غصے سے اور سرخ ہو گیا تھا۔
’’ہمارے حکم کی تعمیل کی جائے۔‘‘
چند خادموں نے آگے بڑھ کر نومی کے اردگرد گھیرا ڈال دیا۔
’’مجرمہ کو مینار سے نیچے گرا دیا جائے ۔‘‘بادشاہ نے اپنا حکم سنادیا۔
’’بادشاہ سلامت! یہ حکم آپ کی بیٹی کے لیے بھی ہے !‘‘
شانو اٹھی اور نومی کے ساتھ جا کر کھڑی ہو گئی ۔
یہ دیکھ کر ملکہ تیزی سے اپنی بیٹی کی طرف جانے لگی ۔’’نہیں ،نہیں ۔‘‘اس کے منھ سے یہ لفظ بے اختیار نکل رہا تھا۔
’’رک جاؤ ملکہ‘‘۔ شمیعہ کی آواز یک لخت بلند ہوئی۔بادشاہ اور ملکہ اسے دیکھ کر حیران رہ گئے۔
’’آپ؟‘‘ بادشاہ اور ملکہ کے منھ سے بیک وقت نکلا۔
ہاں میں ۔۔۔۔ جنوں کی نسل کی سب سے بزرگ خاتون آج تمہارے سامنے کھڑی ہے ۔‘‘
’’ہم آپ کو آداب بجالاتے ہیں نانی جان !‘‘ بادشاہ نے سر جھکا لیا ۔ان کے ساتھ ملکہ نے بھی اپنا سر احترام سے خم کر لیا۔
’’کیا کر رہے تھے بادشاہ؟‘‘
’’میں !‘‘
’’ہاں تم۔۔۔۔ جو جنوں کے بادشاہ کہلاتے ہو ۔میں نے پوچھا ہے کیا کر رہے تھے تم ۔۔۔بتاتے ہوئے ہچکچاتے ہو ۔میں جان گئی ہوں۔ تم مجرمہ کوسزا کا حکم سنا رہے تھے۔کیا میں درست نہیں کہہ رہی ہوں ؟‘‘
’’ملکہ عالیہ!‘‘
’’میں ملکہ عالیہ نہیں ہوں۔ ‘‘
’’ہم سب آپ کا دل و جان سے احترام کرتے ہیں ۔‘‘
’’تو میرے سوال کا جواب دو ۔‘‘
بادشاہ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد بولے ،’’جی ملکہ عالیہ !‘‘بادشاہ کا سر اب بھی جھکا ہو ا تھا۔
’’مگر مجرمہ وہ نہیں ہے جسے تم مجرمہ کہہ رہے ہو۔نومی مجرمہ نہیں ہے ۔مجرمہ تمہاری بیٹی شانو ہے ۔سزا اسے ملنی چاہیے۔‘‘
بادشاہ کے چہرے پر گھبراہٹ پھیل گئی ۔ملکہ اس طرح کھڑی تھی جیسے اب گری۔ایک خادمہ نے آگے بڑھ کر اسے تھام لیا ۔
’’بادشاہ !‘‘
’’جی!‘‘
’’انصاف یہی ہے کہ مجرم کو سزا دی جائے۔یہ جرم شانو کا ہے کہ وہ تمہاری مرضی کے بغیر نومی کو ساتھ لے کر میرے پاس آگئی تھی ۔سزا نومی کو کیسے مل سکتی ہے ۔بولو،انصاف کروگے؟جنوں نے تمہیں انصاف قائم کرنے کی خاطر حکمرانی کا حق دیا ہے ۔‘‘
بادشاہ کے منھ سے کوئی لفظ نہ نکل سکا۔ملکہ آگے بڑھ کر شمیعہ کے قدموں میں گر پڑی ۔اس نے روتے ہوئے کہا ،’’رحم کیجیے ،نانی جان ! رحم کیجیے۔‘‘
شمیعہ نے جھک کر ملکہ کو اٹھایا ۔
’’بیٹی کی محبت نے بے قرار کر دیا ہے !‘‘
’’رحم کیجیے نانی جان ! ‘‘ملکہ کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔
’’توبادشاہ اپنا فیصلہ واپس لے۔‘‘
’’میں اپنا فیصلہ واپس لیتا ہوں۔‘‘بادشاہ فوراً بولا۔
’’اب میرا فیصلہ سنو!میں نے ایک آدم زاد سے پیار کیا تھا۔اس کو اپنی زندگی کا رفیق بنانا چاہتی تھی،لیکن میرے بزرگوں نے اس کی سخت مخالفت کی۔میں نے اپنے بزرگوں کا کہنا مان لیا اور اپنی ساری امیدیں اور آرزوئیں سینے میں دبا کر گوشہ نشین ہوگئی۔آج میں تم سب کی بزرگ ہوں۔میرا حکم تمہیں ماننا ہوگا اور میرا حکم یہ ہے کہ شانو کی شادی بوڑھے نادی کے پوتے سے ہوگی۔‘‘ بادشاہ اور ملکہ پر جیسے سکتے کی کیفیت چھا گئی۔
’’میرا فیصلہ تم کو ماننا ہوگا۔جنوں کی سلطنت میں بزرگوں کا حکم کسی صورت بھی نہیں ٹالا جا سکتا۔یہ بات تم خوب جانتے ہو۔‘‘
’’مگر نانی جان۔۔۔! ایک جن شہزادی ایک آدم زاد ۔۔۔‘‘
شمیعہ نے بادشاہ کو فقرہ مکمل کرنے نہ دیا،’’میں پوچھتی ہوں تمہیں اس رشتے پر اعتراض کیا ہے۔ صرف یہی اعتراض ہے ناکہ تم آگ سے بنائے گئے ہو اور آدم زاد مٹی سے ،اور تم سمجھتے ہو کہ تم آدم زاد سے بہت بلند ہو۔۔۔،لیکن تمہارا یہ غروربالکل بے بنیاد ہے۔بتاؤ تم میں بے پناہ قوت کے سوا اور کیا خوبی ہے ۔ادھر مٹی کے بنے ہوئے آدم زاد کو دیکھو۔وہ قوت و طاقت میں تم سے بہت کم ہے،مگر اس نے اپنی عقل سے جو کارنامے انجام دیے ہیں اور دے رہا ہے وہ تم سوچ بھی نہیں سکتے۔وہ آسمان کی بلندیوں کو فتح کر چکا ہے۔۔۔یہ کیا آدم زاد حقیر ہے؟‘‘شمیعہ بولتی گئی۔۔۔سب حیرت سے اس کا منہ تک رہے تھے۔آخر بادشاہ بولا:
’’نانی جان!آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔میں اپنی بیٹی شانو آپ کے حوالے کرتا ہوں۔‘‘
’’اور ملکہ!‘‘ شمیعہ نے شانو کی ماں کی طرف دیکھا۔’’میری لخت جگر آپ کے حوالے ہے۔آپ جو بھی کریں گی ہمیں منظور ہے۔‘‘
’’آؤ شانو۔‘‘یہ کہہ کر شمیعہ نے اپنے بازو پھیلا دئیے اور شانو کو ان کی گرفت میں لے لیا۔
ملاحوں کی بستی میں ایک عجیب تماشا ہو رہا تھا۔دریا کے کنارے ایک کافی لمبا چوڑا باغ مدت سے ویران پڑا تھا۔وہاں سارے کے سارے پودے پھولوں سے محروم ہو چکے تھے۔درختوں کی شاخوں پر کہیں کہیں زرد پتے دکھائی دے جاتے تھے۔باغ کی زمین پر گھاس جل چکی تھی۔ایک صبح ملاح جاگے تو انہوں نے بڑی حیرت سے دیکھا کہ اس ویران باغ میں کوئی درخت ، کوئی پودا اور کوئی گھاس نہیں ہے اور پچاس ساٹھ بڑے تنومند سیاہ رنگ جوان ایک وسیع عمارت بڑی تیزی سے بنا رہے ہیں۔پہاڑوں سے بھاری بھاری پتھر لائے جا رہے ہیں اور ایک کے اوپر دوسرا پتھر رکھا جا رہا ہے۔کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ معاملہ کیا ہے۔باغ اتنی جلدی صاف کیوں کر ہو گیا اور یہ قوی ہیکل جوان کون ہیں جو ایسی وسیع عمارت تعمیر کر رہے ہیں۔ملاح ان لوگوں کو اپنے گھروں کے دروازوں کے باہر آکر دور دور سے دیکھتے تھے اور ان کی عورتیں چھتوں پر چڑھ کر یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔سب اپنے اندر ایک خوف سا، ایک دہشت سی محسوس کر رہے تھے۔کسی میں یہ ہمت نہیں تھی کہ عمارت بنانے والوں کے قریب جا کر کوئی بات پوچھے۔
مالی ماں کے روکنے کے باوجود وہاں چلا گیا۔اسے دیکھ کر ان لوگوں نے کام روک لیا اور اسے مسکرا کر دیکھنے لگے۔مالی خوف زدہ ہو کر اپنے دادا کے پاس آگیا۔
’’دادا۔۔۔جا…ن۔‘‘مالی کے منہ سے پورا فقرہ نہ نکل سکا۔
نادی اپنی چارپائی پر بیٹھا دودھ کا گلاس پینے کے بعد حقے کے کش لگا رہا تھا ۔
’’کیا ہے مالی؟‘‘
’’دادا جان! دیکھا تم نے!‘‘
’’کیا دیکھا۔میں تمہاری طرح چل پھر کب سکتا ہوں۔دیکھوں گا کیا؟‘‘نادی نے منہ سے حقے کی نے ہٹاتے ہوئے کہا۔
’’وہ بڑے بڑے خوف ناک آدمی مکان بنا رہے ہیں۔‘‘
’’یہ کیا کہہ رہے ہو تم!بڑے بڑے خوف ناک آدمی،کون ہیں وہ؟‘‘
’’پتا نہیں ،نہ جانے کہاں سے آگئے ہیں۔دادا جان!ان کی شکلیں دیکھ کر ڈر لگتا ہے۔‘‘دادا پوتا سوال و جواب کرہے تھے کہ بخشو بھی آگئی۔
’’بخشو! یہ کیا کہہ رہا ہے تمہارا بیٹا؟‘‘نادی نے بخشو سے پوچھا۔
’’پتا نہیں کیا ہونے والا ہے۔یہ لوگ ہمیں یہاں سے نکال دیں گے۔‘‘بخشو بری طرح سہمی ہوئی تھی۔
نادی نے حقے کا ایک لمبا کش لے کراس کی نے کو ہونٹوں سے الگ کردیا اور کہا،’’مالی میری لاٹھی کہاں ہے؟‘‘
مالی نے لاٹھی چارپائی کے نیچے سے نکال کر نادی کی طرف بڑھائی،’’یہ لو!‘‘
نادی نے لاٹھی تھام کر کہا،’’دیکھتا ہوں جا کر۔‘‘
اور ملاح بھی آگئے۔ہر ایک یہ سوال پوچھ رہا تھا،’’بابا،یہ کون لوگ ہیں؟کہاں سے آئے ہیں؟کیوں مکان بنا رہے ہیں؟‘‘
نادی ہاتھ کے اشارے سے ہر ایک کوخاموش رہنے کے لئے کہہ دیتا تھا۔
تھوڑی دور تک ملاح اس کے ساتھ گئے۔پھر منتشر ہوگئے۔صرف نادی اور مالی آگے بڑھتے گئے۔سور ج طلوع ہو گیا تھا۔ہر طرف روشنی پھیل گئی تھی۔مالی کے قدم رک گئے۔’’چلو مالی !آگے چلو!‘‘
نادی نے اپنی لاٹھی دائیں ہاتھ سے نکال کر بائیں ہاتھ میں پکڑ لی اور دایاں ہاتھ اپنی پیشانی پر پھیلا کر دوتین لمحوں کے لئے سامنے دیکھا اور مڑتے ہوئے کہا،’’نہیں!یہ تو وہ نہیں ہے۔‘‘
’’کون دادا جان؟‘‘
اس کے جواب میں نادی نے دائیں ہاتھ کی انگلی ہونٹوں پر رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کر دیا۔
یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح ملاحوں کی بستی میں پھیل گئی کہ نادی جان گیا ہے کہ وہ پر اسرار تنومند لوگ کون ہیں۔آناً فاناً بہت سے لوگ نادی کے گھر کے پاس آگئے۔ نادی آہستہ آہستہ اپنے گھر کی طرف آرہا تھا۔لوگوں نے اسے آتے دیکھا تو ایک دم سب نے سوال کر دیا،’’بابا! کون ہیں یہ؟‘‘
نادی نے پہلے کی طرح پھر اپنی انگلی ہونٹوں پر رکھ لی،مگر لوگوں کی بے چینی تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔
’’بابا! بتاؤ کون ہیں یہ؟‘‘
یہ سوال کرنے والی نادی کی بڑی بہو اور مالی کی ماں بخشو تھی۔
’’بتاتے کیوں نہیں ہو!‘‘
’’کیا کرو گی سن کر؟‘‘نادی یہ فقرہ کہتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔
’’بتاؤ، بتاؤ!‘‘ بیک وقت بہت سی آوازی بلند ہوگئیں۔
’’جاننا چاہتے ہو تو سنو،یہ جن ہیں۔‘‘
’’جن؟‘‘حیرت میں ڈوبی ہوئی آوازیں گونج اٹھیں۔اس وقت جتنے لوگ وہاں جمع ہو گئے تھے ،ان میں سے ہر ایک کے چہرے پرکئی سوال جھلک رہے تھے۔
نادی کے لئے کھڑے رہنا مشکل تھا۔وہ اپنے قدم آگے بڑھانے لگا۔دروازے پر پاؤں رکھ کر اس نے مڑ کر لوگوں کو دیکھا اور بولا،’’فکر کرنے کی کوئی بات نہیں۔‘‘
’’تو یہ ہو کیا رہا ہے!‘‘بخشو نے اپنے خسر سے قریب جا کرپوچھا۔
’’یہ میں نہیں جانتابخشو!‘‘
’’جنوں کا ہماری بستی میں کیا کام؟‘‘ایک شخص نے نادی سے سوال کیا۔
’’میں نے کہا ناکہ میں کچھ نہیں جانتا۔‘‘
نادی اندر چلا گیا اور اپنی چارپائی پر بیٹھ کر حقے کے کش لگانے لگا۔اس روز رات تک ملاحوں کی بستی کے رہنے والے ادھر ادھر چھوٹے چھوٹے گروہ بنا کر اس واقعے کے بارے میں گفتگو کرتے رہے ۔دوسرے دن دوپہر کے وقت جنوں کے بنائے ہوئے محل نما مکان کے پاس ایک جن بھی نہیں تھا اور اس محل کا دروازہ بند تھا۔
’’مکان بنا کر یہ جن چلے کیوں گئے ہیں۔یہاں کون رہے گا؟‘‘لوگ ایک دوسرے سے اس قسم کے سوال پوچھتے رہے اورمکان کے پاس آکر اسے بار بار دیکھتے رہے۔
یہ واقعہ بہت عجیب تھامگر تین روز بعد اس سے بھی زیادہ عجیب واقعہ ان کے سامنے آگیا۔صبح سویرے جب ملاح اپنی کشتیاں درختوں سے کھول کر مسافروں کا انتظار کر رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ کئی جن ہاتھوں پر چند تخت اٹھائے ہوئے پانی میں سے گزرتے ہوئے کنارے کی طرف آرہے ہیں۔انہوں نے جلدی جلدی کشتیاں دوبارہ باندھ دیں اور انتہائی حیرت سے یہ تخت دیکھنے لگے۔جن کنارے پر آگئے اور انہوں نے تخت زمین کے اوپر رکھ دیے۔ ایک تخت کے علاوہ باقی سارے تختوں پر رنگا رنگ برتن، لباس،عجیب و غریب چیزیں،مختلف پھلوں اور پھولوں سے سجے ہوئے طشت پڑے تھے۔جس تخت پر ایسی چیزیں نہیں تھیں ،اس پر شمیعہ سفید براق لباس پہنے بیٹھی تھی اور اس کے پہلو میں نہایت خوب صورت لباس پہنے ہوئے شانو نظر آرہی تھی۔شانو شرمائی شرمائی سی لگتی تھی اور شمیعہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔جو جن تخت اٹھا کر لائے تھے ، اب اس تخت کے ارد گرد ادب اور احترام سے سر جھکا کر کھڑے ہوگئے تھے ۔پہلے شمیعہ اتری ۔اس نے کہا:
’’نادی بابا کو بلاؤ۔‘‘
کئی ملاح نادی کے گھر کی طرف دوڑے ۔
شانو بھی آہستہ سے اتر کر آنکھیں جھکائے ایک طرف کھڑی ہوگئی۔شمیعہ نے نادی کے آنے کا انتظار نہ کیا۔شانو کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کراس طرف چلنے لگی جہاں سے کچھ دور نادی کے مکان کی دیواریں دکھائی دے رہی تھیں۔شمیعہ اور شانو کے پیچھے پیچھے تخت بردار ہاتھ باندھے چلے جا رہے تھے۔
نادی لاٹھی کے سہارے باہر آیا۔اس کے نکلتے ہی اس کے سارے گھر والے بھی نکل آئے۔ ان میں بخشو تھی، مالی تھا،اور مالی کا باپ سمرد بھی تھا۔ جب شمیعہ ،شانو اور نادی اور اس کے گھر والوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رہ گیا تو شمیعہ نے نادی سے کہا:
ؔ ’’باباجی!سلام۔‘‘
’’سلام۔‘‘نادی نے جواب دیا۔
’’میں شمیعہ ہوں۔جنوں کے ملک میں سب کی نانی جان،اور اسے جانتے ہو۔‘‘شمیعہ نے شانو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسکراکر کہا۔
’’شانو بیٹی!‘‘نادی نے آگے بڑھ کر بے اختیار شانو کو لپٹا لیا۔
’’نادی بابا!میں تمہاری آرزو پوری کرنے کے لئے آئی ہوں۔شانو جو جنوں کی بادشاہ کی صاحب زادی ہے اس کی شادی تمہارے پوتے سے مالی کروں گی۔‘‘
نادی کا چہرہ خوشی سے سرخ ہو گیا۔اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کہے۔شمیعہ نے پوچھا:
’’نادی بابا! خوش ہو؟‘‘
’’بہت زیادہ۔۔۔بہت ہی زیادہ۔‘‘
شانو نے شرم کے مارے چہرہ اپنے سرخ دوپٹے سے چھپا لیا تھا۔
’’کہاں ہے مالی؟‘‘
مالی کی ماں مالی کا بازو پکڑے ذرا آگے بڑھ آئی۔شمیعہ نے بڑی شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔بخشو نے اپنے شوہر سمردکا تعارف بھی کرادیا۔
’’یہ مکان ۔‘‘شمیعہ نے نئے محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،’’مالی،شانواور مالی کے ماں باپ اور نادی بابا کے لئے جنوں نے بنایا ہے جہاں مالی اور شانو کی اس طرح شادی ہوگی جس طرح تم لوگوں کے ہاں ہوتی ہے۔‘‘
اور سب لوگ جنوں کے بنائے ہوئے محل کی طرف جانے لگے۔مالی اور شانو کا نکاح ایک مولوی صاحب نے پڑھایا۔جنوں نے طرح طرح کے لذیزکھانے پکائے۔بستی میں جتنے بھی ملاح رہتے تھے ان سب نے یہ لذیز کھانے اور پھل کھائے۔جنوں نے آتش بازی کا بڑا شان دار اہتمام کیا۔شمیعہ انتہائی خوب صورت لباس اپنے ملک سے لائی تھی۔اس نے یہ شانو کے ماں باپ،بزرگوں اور بچوں میں تقسیم کئے۔نادی نے وہ اشرفیاں جو جنوں کے ملک سے واپسی پر شانو سے لایا تھا وہ اسے دیتے ہوئے کہا:
’’شانو بیٹی یہ اشرفیاں تم نے دی تھیں، میں تمہیں دیتا ہوں اپنی ہزاروں دعاؤں کے ساتھ۔‘‘اور شانونے یہ اشرفیاں اپنی ساس کو دے دیں۔
جب سے شانو، شمیعہ اور جن وہاں پہنچے تھے جنوں کے بنائے ہوئے محل کے پاس ہر وقت ایک میلہ سا لگا رہتا تھا۔صرف ملاحوں کی بستی ہی میں نہیں، آس پاس کی آبادیوں میں بھی یہ خبر پھیل گئی تھی کہ ملاح سمرد کے بیٹے کا بیاہ جنوں کے بادشاہ کی لڑکی سے ہوا ہے اور دلہن ایک شان دار محل میں اپنے شوہر ساس اور خسر کے ساتھ رہتی ہے۔یہ بڑی عجیب و غریب خبر تھی اور اسے سن کر کوئی شخص بھی اپنی حیرت کا اظہار کئے بغیر نہیں رہتا تھا۔
’’کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے؟‘‘خبر سننے والا کہتا۔
’’ہوا ہے۔اعتبار نہیں آتا تو دیکھ لو جا کر۔‘‘خبر سنانے والا اپنی خبر کی سچائی پر اصرار کرتا اور خبر سننے والا اپنے دوچار ساتھیوں کو لے کر ادھر کا رخ کر لیتااور محل اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا۔بابا نادی صرف شادی کی رات شانو کے محل میں رہا تھا۔دوسرے روز یہ کہہ کر اپنے گھر واپس آگیاکہ،’’مجھے اپنا گھر بہت عزیز ہے۔ میں اسے چھوڑ نہیں سکتا۔‘‘
اصل میں بابا نادی نے اپنی ساری زندگی اس کمرے میں گزاری تھی جہاں سے اسے دریا کا وہ کنارہ بڑی آسانی سے نظر آجاتا تھا جہاں اس کی پرانی کشتی بندھی رہتی تھی۔اس کشتی نے ساری عمر اس کا ساتھ دیا تھا اور وہ اسے اپنا سچا ساتھی سمجھتا تھا۔
شانو ہر روز صبح سویرے نادی کا ناشتہ لے کر اس کے ہاں آجاتی تھی۔یہ ناشتہ،شربتوں،پھلوں، مٹھائیوں کا ایک ڈھیر سا ہوتا۔یہ ناشتہ ایک جن اٹھائے شانو کے پیچھے پیچھے چل کر نادی کے ہاں آتا۔نادی اسے دیکھ کر کہتا،’’شانو بیٹی! ایک بات تو بتاؤ!‘‘
’’جی باباجی!‘‘
’’کیا تم مجھے کوئی جن سمجھتی ہو؟‘‘
’’نہیں تو۔‘‘
’’تو پھر اتنا زیادہ ناشتہ کون کھائے گا؟‘‘
شانو ہنس پڑتی۔نادی ،جتنے بھی ملاح وہاں موجود ہوتے تھے انہیں بھی ناشتے میں شامل کر لیتا۔
شانو ایک تو صبح سویرے نادی کے پاس آتی تھی۔اس کے بعد دن میں کم از کم دو مرتبہ اس سے ضرور ملاقات کرتی تھی۔کبھی کھانا لے آتی اور کبھی یوں ہی ملنے کے لئے آجاتی ۔یہی وہ موقع ہوتاتھا جب لوگ اسے دیکھ سکتے تھے۔
شانو با وقار انداز سے چلتی ہوئی نادی کے گھر پہنچتی تھی۔لوگ اسے دیکھتے تھے تو جہاں اس کی خوب صورتی ، زیورات، اور لباس کی سج دھج پر حیران ہوتے تھے وہاں اس پر بھی تعجب کرتے تھے کہ شانو تو انسانی لڑکیوں جیسی ہے۔انسانی لڑکی اور جن شہزادی میں کوئی فرق نہیں ہے۔
کوئی کہتا،’’یہ تو ہماری لڑکیوں جیسی ہے!‘‘
’’ہاں مگر خوب صورت کتنی ہے۔ایسا حسن تو ہم نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا۔‘‘
’’مگر یہ جن شہزادی کیسے ہوئی؟‘‘
’’تو کیا اس کے سر پر سینگ ہوتے!‘‘دوسرا شخص ہنس کر پوچھتا۔
شہزادی نے کسی کوبھی اپنے محل میں آنے سے نہیں روکا تھا۔جو بھی آتا تھا مسکرا کر اس سے ملتی تھی اور خوب خاطر تواضح کرتی تھی۔
پندرہ دن گزر گئے۔ایک روز شمیعہ بولی،’’شانو بہت دن ہو گئے ہیں ۔تمہارے امی ابو بڑے اداس ہو گئے ہوں گے۔انہوں نے کہا تھا کہ بیاہ کرکے دولہا دلہن کو لے کر آنا۔اب تو آدھا مہینہ بیت گیا ہے۔‘‘
شانو بولی،’’اماں اور چچا جان سے اجازت لینی ضروری ہے۔‘‘مالی کی ماں بخشو کو وہ اماں کہتی تھی اور اپنے خسر سمرد کو چچا جان کہہ کر پکارتی تھی۔
بخشو اور سمرد سے کچھ کہنے کے بجائے دوسرے روز جب ناشتہ لے کر نادی بابا کے پاس گئی تو اس سے کہنے لگی:
’’بابا!‘‘
’’کہو شانو بیٹی کیا کہنا چاہتی ہو؟‘‘
’’بابا! میں یہاں بہت خوش ہوں مگر۔۔۔‘‘
نادی نے مسکرا کر کہا،’’میں جانتا ہوں تم کیا کہنا چاہتی ہو۔اپنے ماں باپ کے گھر جانے کی خواہش مند ہو۔اداس ہو گئی ہو نا۔‘‘
’’ہاں بابا!‘‘
’’ٹھیک ہے شانو۔‘‘
شانو جو سر جھکا کر کچھ سوچنے لگی تھی ،بولی،’’وہ اماں اور چچا جان۔‘‘
’’ان سے اجازت لینی ضروری ہے۔تم نے بالکل صحیح سوچا ہے۔ یہ معاملہ مجھ پر چھوڑ دو۔ میں ان سے بات کر لوں گا۔تم جانے کی تیاری شروع کردو۔‘‘
نادی نے بخشو اور سمرد سے اس کا ذکر کیا تو بخشو فوراً بول اٹھی ،’’نا بابا،ہم تو نہیں جانے دیں گے۔‘‘
’’وہ کیوں بخشو؟‘‘
’’شانو جنوں کے بادشاہ کی بیٹی ہے۔واپس نہ بھیجے تو ہم کیا کر لیں گے!‘‘
نادی نے حقے کا لمبا کش لیا اور کہنے لگا،’’بخشو! ایک بات تو بتاؤ۔اگر تمہاری کوئی بیٹی ہوتی اور شادی کے بعد سسرال سے اپنے میکے میں آتی تو کیا تم اسے واپس اپنے گھر جانے سے روک دیتیں؟‘‘
بخشو سوچ میں پڑ گئی۔
’’جواب دو بخشو۔خاموش کیوں ہو گئی ہو،تمہارا جواب ہاں ہے یا نہیں،بولو۔‘‘
’’میں اسے کیوں روکتی؟‘‘
’’تو تمہاری بہو کے ماں باپ اپنی بیٹی کو سسرال جانے سے کیوں روکیں گے بھلا؟‘‘
’’میرا خیال ہے شانو کچھ اداس لگتی ہے۔‘‘سمرد نے پہلی بار اس گفتگو میں شریک ہوتے ہوئے کہا۔
نادی کہنے لگا،’’سمرد! اس کی اداسی اس وجہ سے ہرگز نہیں کہ اسے یہاں کوئی تکلیف ہے۔میں جانتا ہوں اور تم بھی اچھی طرح جانتے ہوکہ شانو یہاں خوش ہے مگر ماں باپ سے دور ہو گئی ہے اس لئے اداس ہے۔سمجھ لیا نا؟‘‘
بخشو اور سمرد نے شانو کو جانے کی اجازت دے دی لیکن جب شانونے مالی کو بھی ساتھ لے جانا چاہا تو بخشو کے چہرے کا رنگ ذرا پھیکا پڑ گیا۔شمیعہ نے اس کے دل کی حالت کا اندازہ لگا لیا:
’’بخشو بیٹی!‘‘
’’جی!‘‘
’’دیکھو شانو کی ماں اور اس کے باپ نے اپنے داماد کو ابھی تک نہیں دیکھا۔کیا وہ اسے دیکھنے کے خواہش مند نہیں ہوں گے؟‘‘بخشو نے اپنے ہونٹ نادی کے کان سے لگا کر کہا،’’مجھے ڈر لگتا ہے بابا!‘‘
’’بخشو! میں ساتھ جاؤں گااور دونوں کو اپنے ساتھ لے کر آؤں گا۔‘‘
نادی کے ان الفاظ نے بخشو پر کچھ نہ کچھ اثر ضرورکیا مگر زیادہ اثر اس بات کا ہوا کہ مالی جانے پر بڑا خوش نظر آتا تھا۔
ملاحوں کی بستی سے جانے کی تیاریاں ہونے لگیں۔شانو کی ہدایت پر جنوں نے طرح طرح کے کھانے پکا کر سارے ملاحوں کی بڑی شان دار دعوت کی۔اس دعوت میں شامل ہونے والوں کا شانو اور مالی خود خیر مقدم کر رہے تھے۔جس سے ملاحوں پر بڑا خوش گوار اثر پڑا تھا۔جنوں نے صرف ایک رات میں درخت کاٹ کر ایک بڑی کشتی بنا دی تھی، کیوں کہ وہ اپنی شہزادی کو ایک ایسی کشتی میں بٹھانے کے لئے آمادہ نہیں تھے جو عام لوگوں کے لئے استعمال ہوتی رہی تھی۔
جس صبح کو شانو کو اپنے میکے کے لئے رخصت ہونا تھا ،وہ عام لوگوں کی طرح سسرال کے سارے لوگوں سے ملی ۔بزرگوں کی دعائیں لیں اور چھوٹوں کو پیار کیا۔
جنوں نے کشتی پر تخت بچھا دیا تھا اور اس بات کے منتظر تھے کہ شانو، مالی ، شمیعہ اور نادی بابااس تخت پر بیٹھ جائیں تو وہ کشتی پانی میں اتار دیں کہ مالی بولا،’’ہم ملاح ہیں کشتی میں بیٹھیں گے اور خود کشتی چلائیں ۔‘‘
جنوں کا اصرار تھا کہ چپو ان کے اپنے ہاتھوں میں رہیں گے اور وہی کشتی چلائیں گے مگر مالی اس بات پر راضی نہیں تھا۔وہ کہتا تھا:’’جب ہم خود ملاح ہیں تو چپو دوسروں کے ہاتھوں میں کیوں دیں۔چاہے یہ دوسرے جن ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘
نادی بابا نے فیصلہ کر دیا،’’مالی درست کہتا ہے۔ہم کئی نسلوں سے ملاح چلے آرہے ہیں۔مالی اپنا حق اور فرض پہچانتا ہے،گو میں ایک بڑا کمزور بوڑھا ہوں پر میں بھی اپنے پوتے کا کشتی چلانے میں ساتھ دوں گا۔‘‘
طے یہ ہوا کہ جن تخت اٹھا کر آگے آگے چلیں گے اور کشتی ان کے پیچھے پیچھے آئے گی۔
صبح بڑی روشن تھی،۔ٹھنڈی ہوا کے جھونکے چل رہے تھے ۔دریا کا پانی سورج کی اولین کرنوں سے چاندی کی طرح چمک رہا تھا۔دریاکے جس کنارے پر کشتی بندھی تھی اس پر دور دور تک لوگ کھڑے تھے۔ان سب لوگوں کے چہروں سے ظاہر ہو رہا تھاجیسے وہ اپنے عزیزوں کو رخصت کرنے آئے ہیں اور کچھ غم زدہ ہیں۔
کشتی میں ایک بہت خوب صورت اور رنگین غالیچہ بچھا دیا گیاتھا۔سب سے پہلے شمیعہ نے کشتی میں قدم رکھا۔پھر نادی باباآیااور ان کے بعد شانو اور نادی ہاتھوں میں ہاتھ دئیے، آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کشتی میں بیٹھ گئے۔کشتی کے آگے جنوں نے تخت اٹھا رکھا تھااور اس میں شانو،شمیعہ اور مالی کا سامان پڑا تھا۔کشتی کے رسے کھول دئیے گیے اور وہ چل پڑی۔آگے آگے جن تخت اٹھائے اور پیچھے پیچھے کشتی۔کشتی کے ایک سرے پر چپو تھامے مالی بیٹھا تھا اور دوسرے سرے پر بوڑھا نادی جس کے بازوؤں میں نہ جانے کہاں سے ہمت آگئی تھی کہ وہ بوڑھے کے بجائے چپو کو جوانوں کی طرح حرکت دے رہا تھا۔مالی اور نادی نے وہ گیت گایا جو ملاح کئی نسلوں سے گاتے ہوئے چلے آرہے تھے۔ساحل پر کھڑے ہوئے لوگوں نے ہاتھ ہلا ہلا کر انہیں رخصت کرنے وقت اپنی محبت کا اظہار کیا۔
سب کچھ ٹھیک تھا۔شانو اور شمیعہ اس سفر سے بڑا لطف اٹھا رہی تھیں۔دوپہر ہو گئی تھی اور ابھی انہیں کافی لمبا سفر طے کرنا تھا۔تیسرا پہر شروع ہو گیا۔
وقت گزرتا چلا جا رہا تھا اور سفر جاری تھا۔یکایک فضاؤں میں سیاہ ابر پارے چھاگئے۔ دریا میں طغیانی سی آگئی۔ پانی کی لہریں بار بار اٹھنے لگیں۔مالی اور نادی گھبرا سے گئے پھر یوں ہوا جیسے چاروں طرف گہرا اندھیرا پھیلنے لگا ہے۔
یہ سب کچھ جیسے ایک دم ہو گیا۔کشتی میں کسی کو بھی دوسرے کی خبر نہیں تھی اور اندھیرا تھا کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا اور ہواؤں کا زور تھا کہ کشتی بار باڑ اچھل کر گر رہی تھی۔شمیعہ ،شانو اور مالی نے ایک دوسرے کو پکڑ رکھا تھا۔نادی اوندھے منہ گر پڑا تھا۔مالی بابا ،بابا پکار رہا تھا مگر اس کی آواز ہواؤں کے طوفان میں گم ہو جاتی تھی۔پھر وہ چاروں بے ہوش ہو گئے۔انہیں بالکل خبر نہیں تھی کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔
ہوش آنے کے بعد چاروں کی ایک ساتھ آنکھیں کھل گئیں۔انہوں نے دیکھا کہ وہ الگ پلنگوں پر پڑے ہیں اور ان کے ارد گرد اونچی اونچی دیواریں کھڑی ہیں۔وہ سخت حیرت کے عالم میں ان دیواروں کو دیکھ رہے تھے کہ ان کے قریب ایک خوف ناک قہقہہ گونجا۔چاروں کی نظریں ایک طرف اٹھیں۔ سامنے سر سے پاؤں تک سیاہ لباس میں ایک بڑی خوف ناک شکل والی ،لمبی بڑھیا زور زور سے قہقہے لگا رہی تھی،’’کیا سوچ رہے ہو بد نصیبو!جانتے ہومیں کون ہوں؟‘‘
کسی کے ہونٹوں سے کوئی لفظ نہ نکل سکا۔
’’میں شاطرہ جادوگرنی ہوں۔چاہوں تو تمہیں ایک لمحے کے اندر موت کی نیند سلا سکتی ہوں۔اور چاہوں تو زندہ بھی رکھ سکتی ہوں۔‘‘ شاطرہ نے ایک اور بلند قہقہہ لگایا ،’’تم میری قید میں ہو، جو سلوک چاہوں تم سے کر سکتی ہوں۔کیا چاہتے ہو تم؟‘‘یہ کہہ کر شاطرہ نے ہرایک کو تیکھی نگاہوں سے دیکھا،’’بتاؤ تم کیا چاہتے ہو؟‘‘
شمیعہ بولی،’’شاطرہ جادو گرنی!تم جانتی ہوہم کون ہیں؟‘‘
’’جانتی ہوں، خوب جانتی ہوں۔‘‘
’’نہیں جانتی، سنو گی تو اپنی ساری حیثیت بھول جاؤ گی۔‘‘شمیعہ نے کہا۔
’’بولو، کون ہو تم؟‘‘
’’میں جنوں کی بزرگ ترین خاتون ہوں۔ اور یہ ‘‘ شمیعہ نے اپنے قریب لیٹی شانو کی طرف اشارہ کیا،’’جنوں کے بادشاہ کی بیٹی ہے۔‘‘
شاطرہ نے پہلے سے زیادہ بلند قہقہہ لگایا:
’’بس!‘‘
’’کیا تمہارے منحوس جسم پر لرزہ طاری نہیں ہوا یہ سن کر؟‘‘
’’لرزہ کیسا؟میں جنوں اور انسانوں سے نہیں ڈرتی۔۔۔ابھی تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میں اپنے قیدیوں کے ساتھ کیا کرتی ہوں۔یہاں جو بھی لا یا جاتا ہے وہ میرا غلام ہوتا ہے۔اور اسے زندہ رہنے کے لئے میری غلامی کرنی پڑتی ہے۔‘‘
’’غلامی؟غلامی کیسی ؟‘‘
’’اٹھو اور آؤ میرے ساتھ۔‘‘
ایک دم کئی بھیانک شکلوں والے شاطرہ کے خدمت گار پلنگوں کے ارد گرد آگئے۔
’’انہیں ادھر لاؤ۔‘‘
یہ کہہ کر شاطرہ ایک طرف جانے لگی اور چند لمحوں کے بعد غائب ہوگئی ۔
’’چلو !‘‘شاطرہ کے ایک خدمت گار نے حکم دیا۔
سب سے پہلے شمیعہ اٹھی۔اسے دیکھ کر مالی،شانو بھی اٹھ بیٹھے۔نادی ناتوانی کی وجہ سے جلدی اٹھ نہ سکا۔
’’اٹھ بڈھے!‘‘ ایک خادم نے نادی کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف گھسیٹتے ہو ئے کہا۔
’’چھوڑو میرے بابا جی کو۔‘‘مالی نے کہا۔یکایک ایک دوسرے خادم نے اسے اتنی زار سے دھکا دیا کہ وہ دیوار سے جا ٹکرایا
’’بولتے ہو ہمارے سامنے؟‘‘اسی خادم نے کہا۔
’’صبر،مالی بیٹا صبر!‘‘نادی نے مالی سے کہا۔
مالی سنبھل گیا۔ شاطرہ کے نوکر اور نوکرانیاں شانو، مالی، شمیعہ اور نادی کو ایک ایسے مقام پر لے آئے جہاں ایک بہت ہی لمبا چوڑا باغ تھا۔ اس باغ میں کئی جوان ، نو جوان ، بڈھے اور عورتیں طرح طرح کے کاموں میں8 مصروف تھے۔پودوں کو پانی دے رہے تھے۔ درختوں سے گرے ہوئے پتے اکٹھے کرکے ٹکریوں میں ڈال رہے تھے۔پیڑوں سے لگے ہوئے پھل توڑ توڑ کر جھولیوں میں جمع کرتے جا رہے تھے۔پھولوں کے گل دستے بنا رہے تھے۔گھاس کاٹ رہے تھے۔ایک طرف سے شاطرہ کی آواز گونجی،’’دیکھا تم نے؟دوسری طرف آؤ۔‘‘
شاطرہ ایک جانب چلنے لگی اور وہ چاروں شاطرہ کے نوکروں نوکرانیوں میں گھرے ہوئے آہستہ آہستہ اس کے پیچھے پیچھے قدم اٹھانے لگے۔اب وہ ایک لمبے چوڑے کھیت کے کنارے پہنچ گئے تھے۔ یہاں بھی شاطرہ کے غلام سر جھکائے کام کر رہے تھے۔
غلاموں نے جو اجنبیوں کو دیکھا تو ان کے ہاتھ کام کرتے کرتے رک گئے ۔
’’کام کرو بد بختو!مرنا چاہتے ہو!‘‘شاطرہ دھاڑی اور وہ بد نصیب غلام سر جھکاکر اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔
شاطرہ نے شانو، شمیعہ ،نادی اور مالی کی طرف دیکھا ور بولی،’’تمہیں بھی اسی طرح زندہ رہنا ہے۔کام نہیں کرو گے یا بغاوت کرو گے تو تمہیں موت سے کوئی بھی نہیں بچا سکے گا۔میں ایک لمحے کے لئے بھی حکم عدولی برداشت نہیں کر سکتی۔ بولو، زندگی یا موت؟‘‘
چاروں چپ رہے۔
’’بولو!‘‘شاطرہ نے اپنا دایاں پاؤں زور سے زمین پر مارا۔
’’زندگی۔‘‘نادی نے کہا۔
’’زندگی !موت نہیں؟میں تم لوگوں کو زندگی بخشتی ہوں۔محنت سے کام کرنا ہوگا۔سستی نہیں چاہئے۔‘‘
اب کے نادی بھی خاموش رہا۔
’’خبردار، کسی نے یہاں سے بھاگنے کو شش کی تو میں اسے وہ جو سامنے بلند پہاڑ ہے اس کی چوٹی سے نیچے گرا دوں گی۔اس کی ہڈیاں سرمہ بن جائیں گی۔جاؤ اب کل سے کام کرو گے۔‘‘
جو لوگ شانو اور اس کے ساتھیوں کو گھیرے میں لے کر ادھر آئے تھے وہ ان چاروں کو اسی طرح واپس لے گئے۔
دوسرے دن صبح سویرے ان چاروں کو ایک بڑے کمرے میں لے جایا گیا جہاں پر شاطرہ کے باقی غلام مرد اور عورتیں بھی جمع تھیں۔شاطرہ کے نوکروں اور نوکرانیوں نے ان سب کے آگے وہ موٹی موٹی کچی پکی روٹیاں اور گلی سڑی ترکاریوں کے سالن رکھ دیے جو شاطرہ کے نوکروں اور نوکرانیوں نے ان سب کے لیے تیار کیے تھے۔شانو اور شمیعہ نے ان روٹیوں اور سالنوں کو دیکھ کر بے زاری سے منہ پھیر لیا۔
’’نہیں کھاؤ گی تو بھوکی مر جاؤگی۔یہاں اور کچھ نہیں ملے گا۔‘‘ایک نوکرانی بولی جس کا نام’راسی‘ تھا۔غلام مردوں اور عورتوں کو کھانا دینا اس کے ذمے تھا۔
’’دفع ہو جاؤ۔‘‘ شمیعہ نے غصے میں کہا۔
’’اچھا میں کہتی ہوں جا کر مالکن سے ،تم دونوں کو مزا چکھا دے گی۔‘‘
راسی بھاگ کر غائب ہو گئی اور جب واپس آئی تو اس کے ساتھ شاطرہ بھی تھی۔
’’یہاں نخرے نہیں چلیں گے۔ملکہ اور شہزادی تم اپنے دیس میں ہوگی۔یہاں زندہ رہنے کے لیے یہی کچھ کھانا پڑے گا،کھاؤ،دیکھ رہی ہو میرے ہاتھ میں چھڑی ہے۔اس سے چھو لیا تو تم دونوں کے ہوش و حواس غائب ہو جائیں گے۔جیسے پہلے دریا میں ہوگئے تھے۔‘‘
شاطرہ جانے لگی۔
’’کھاؤ یا نہ کھاؤ کام کرنا ہوگا۔‘‘وہ جاتے ہوئے بولی اور نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
نادی نے مالی اور شانو سے کہا،’’یہ ضد ٹھیک نہیں ہے۔ہم بھوکے مر جائیں گے۔جادو گرنی کو ہماری کیا پروا ہے۔ہمیں زندہ رہنا ہوگا۔ ہر حالت میں زندہ رہنا ہوگا۔‘‘
دوسرے روز جو کچھ بھی انہیں دیاگیاسب نے اس سے پیٹ بھر لیا۔اس کے سوا اور کوئی صورت ہی نہیں تھی۔
شاطرہ نے چاروں کو باغ اور کھیت میں الگ الگ حصوں میں رہ کر کام کرنے کا حکم دیا۔شمیعہ اور شانو باغ میں کام کرنے لگیں اور نادی اور اس کا پوتا کھیت میں اپنی ڈیوٹی کرنے پر مجبور ہو گئے۔نادی بوڑھا آدمی تھااس سے محنت مشقت نہیں ہوسکتی تھی۔ تا ہم وہ کچھ نہ کچھ کرنے لگے۔
شاطرہ نے ایک اور انتظام کیا۔اس نے حکم دیا کہ وہ چاروں آپس میں کسی قسم کی بات چیت بھی نہ کریں۔انہیں الگ الگ کمروں میں رکھا گیا، جس سے انہیں شدید تنہائی کا عذاب سہنا پڑا۔
دوسری طرف وہ دو جن جو ملاحوں کی بستی سے کشتی کے ساتھ گئے تھے اور جو ایک بہت بڑے طوفان اور اندھیرے میں کشتی سے بچھڑ گئے تھے،وہ جب جنوں کے بادشاہ کے سامنے پیش ہوئے تو خوف کے مارے تھر تھر کانپ رہے تھے۔ بادشاہ نے سنا کہ وہ کشتی کے ساتھ نہیں آئے تو غصے سے اس کی آنکھیں شعلے کی طرح سرخ ہوگئیں۔
’’تم ان کی حفاظت کے لیے گئے تھے۔پھر وہ کہاں گئے؟تم کشتی کی حفاظت نہیں کر سکے تھے۔اس سے غافل ہوگئے تھے؟‘‘
ایک جن نے بڑی مشکل سے بتایا:
’’حضور!۔۔۔اندھیر…ا…بہت…..زیا….دہ ہوگیا تھا۔‘‘
’’اندھیرا کہاں سے آگیا تھا؟‘‘
’’ہر طرف۔۔۔کالے۔۔۔سیاہ۔۔۔بادل۔۔۔چھا گئے تھے۔‘‘اسی جن نے بتا یا۔
’’تو تم نے خود کو بچانے کی کوشش کی؟‘‘بادشاہ گرجا۔
’’نہیں ۔۔۔ہمیں۔۔۔کچھ بھی۔۔۔معلوم نہیں۔۔۔ہوسکا تھا۔۔۔‘‘دوسرا جن گھگھیایا۔
’’تم نے اپنے فرض سے غفلت برتی ہے اور اس کی سزا جانتے ہو کیا ہے؟‘‘سزا کا لفظ سنتے ہی ان کے چہروں کا رنگ اور پیلا پڑ گیا۔
’’جاؤ۔۔۔انہیں ڈھونڈ کر لاؤ۔۔۔ان کے بغیر یہاں آؤ گے تو موت تمہاری منتظر ہوگی۔‘‘ دونوں جن الٹے پاؤں محل سے نکل کر باہر آگئے۔
جادو گرنی شاطرہ اپنے غلاموں سے اتنا کام لیتی تھی کہ وہ شام تک بالکل نڈھال ہو جاتے تھے۔اس محنت کے عوض انہیں صرف دو وقت پیٹ بھرنے کے لئے روکھی سوکھی مل جاتی تھی۔ان غلاموں میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی ،بوڑھے بھی اور جوان بھی۔شاطرہ نے ان کے اندر اپنی ظالمانہ کاروائیوں سے یہ احساس پیدا کر دیا تھا کہ اگر ان میں سے کبھی کسی نے ذرہ بھی بغاوت کی تو اسے پہاڑ کی سب سے اونچی چوٹی سے نیچے گرا دیا جائے گا اور اس سزا کا علم سب کو ہو چکا تھااور سب اس سزا کا خیال کرکے کانپ کانپ اٹھتے تھے۔دن ہو یا رات ،شاطرہ کوشش یہ کرتی تھی کہ اس کے سارے غلام جو باغ یا کھیت میں کام کر رہے ہیں۔اس کی نظروں کے سامنے رہیں۔دن کے وقت وہ باغ اور کھیت میں گھوم پھر کر ہر ایک کو کام کرتے ہوئے دیکھتی تھی۔اس کے ہاتھ میں ایک باریک چھڑی ہوتی ۔اس سے وہ دو قسم کے کام لیتی تھی۔کسی کو بے ہوش کرنا مقصود ہوتاتھا تو اس کا سرا کسی کے بدن کے کسی حصے سے لگا دیتی تھی اور وہ فوراً اپنے ہوش و حواس کھو دیتا تھا۔جادو گرنی اس چھڑی سے کسی کو پیٹنا چاہتی تھی تو’شار‘کی آواز کے ساتھ ہی یہ چھڑی اس کی چمڑی ادھیڑ کر رکھ دیتی تھی۔
رات کے وقت شاطرہ اپنے قلعے نما عمارت کے مینار کے آخری حصے میں جاکر چھپ کر بیٹھ جاتی تھی اور چاروں طرف دیکھتی رہتی تھی۔دو تین بار غلاموں نے رات کے اندھیرے میں بھاگنے کی کوشش کی تو شاطرہ نے مینار ہی سے للکار کر اپنے خادموں کو حکم دیا:
’’بھاگنے والوں کا پیچھا کرو۔‘‘اور بھاگنے والے پکڑے گئے۔نہ صرف پکڑے گئے بلکہ پہاڑ کی چوٹی سے نیچے بھی گرائے گئے۔
شاطرہ کا قلعہ بھول بھلیاں تھا۔اس سے نکلنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں تھا۔جو بھی بھاگنے والا پکڑا جاتا تھاشاطرہ اسے انتہائی بے دردی سے پیٹتی تھی اور یہ منظر سب کو دکھا دیا جاتا تھا تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ بھاگنے کی کوشش کا کیا نتیجہ ہوتا ہے۔
اس کے بعد غلاموں نے سمجھ لیا کہ اب وہ زندگی بھر اسی طرح غلامانہ زندگی بسر کریں گے۔ان کے دلوں میں آزادی کی خواہش ہی مر گئی، مگر شاطرہ کے نئے غلام نادی،شانو، شمیعہ اور مالی زندگی سے مایوس نہیں ہوئے تھے، لیکن مغموم اور اداس رہتے تھے اور اس رات شانو کچھ زیادہ ہی اداس اور غمگین تھی۔اپنے قید خانے میں تنہا بیٹھی رو رہی تھی ۔ چاندنی رات تھی۔چاندنی قید خانے کی سلاخوں سے آرہی تھی۔باہر بھی دور دور تک چاندنی میں اونچے اونچے پہاڑ دکھائی دے رہے تھے۔اس کے دل میں ایک درد سا اٹھا اور وہ زار و قطار رونے لگی۔
’’کیا ہوا شانو!‘‘اس کے کان میں آواز آئی۔شانو نے دیکھا کہ ’راسی‘ سلاخوں کی دوسری طرف کھڑی ہے اور اسے ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہی ہے۔
’’تم نہیں جانتی میں کیوں رو رہی ہوں!‘‘شانو نے انگلیوں سے اپنے رخسار صاف کرتے ہوئے کہا۔
راسی چند لمحے خاموش رہی،پھر بولی،’’تم شہزادی ہو نا؟‘‘
شانو کی آنکھوں سے دوبارہ بے اختیار آنسو بہنے لگے۔
’’شانو!‘‘راسی کے لہجے میں ہمدردی تھی۔
‘‘مجھے تم سے ہمدردی ہے شانو!‘‘
’’ہمدردی؟ کیا یہاں ہمدردی جیسی کوئی چیز بھی ہے؟‘‘
’’ہاں ہے۔کم از کم مجھ میں ہے۔شاطرہ نے مجھ پر اعتماد کرکے مجھے کچھ اختیارات دے رکھے ہیں۔صرف میں یہاں کسی غلام سے بات چیت کر سکتی ہوں۔‘‘
شانو نے آہ بھری،’’تمہیں صرف یہی اختیار ملا ہے؟‘‘
’’ہاں، کوئی بیمار ہوتو اس کی اطلاع بھی شاطرہ کو دے سکتی ہوں۔‘‘
’’تو اب ہمارا کیا ہوگا؟‘‘شانو نے کہا۔اس کے چہرے پر گہرا غم چھا گیا تھا اور آنسو رخساروں پر ڈھلک رہے تھے۔راسی اسے متواتر دیکھے چلی جا رہی تھی۔
’’شہزادی!‘‘راسی نے اپنا چہرہ سلاخوں سے لگا دیا،’’جو بدنصیب یہاں ایک مرتبہ آگیا وہ اپنی موت تک یہاں سے نہیں جا سکتا۔مجھ پر جادوگرنی اعتماد کرتی ہے،مگر میں جانتی ہوں کہ اس کی قید سے رہائی ممکن نہیں ہے۔‘‘
’’شانو کی آنکھوں میں ایک پختہ ارادے کی روشنی آگئی۔وہ بڑے اعتماد سے بولی،’’رہا ئی ممکن ہے۔سب رہا ئی حاصل کریں گے۔‘‘
راسی نے بے یقینی کی حالت میں شانو کو دیکھا،’’ابھی نئی نئی گرفتارہوئی ہو۔تمہیں خبر نہیں کہ شاطرہ کتنی خطرناک قوتوں کی مالک ہے۔آہستہ آہستہ جان لوگی۔۔۔‘‘
’’ہم تم سب کو آزاد کرائیں گے۔‘‘
راسی اپنی بے یقینی کے باوجود شانو کے ارادے کی پختگی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔
’’راسی!‘‘اب کے شانو نے اسے مخاطب کیا ۔
’’کہو شہزادی!‘‘
’’ہم جب سے یہاں آئے ہیں۔ہم نے ایک دوسرے کو نہیں دیکھا۔‘‘
’’یہاں تو یہی کچھ ہوتا ہے۔شاطرہ اپنے غلاموں کو ایک دوسرے سے ملنے نہیں دیتی۔کوئی غلام دوسرے غلام سے بات نہیں کر سکتا۔‘‘
’’تمہیں مجھ سے ہمدردی ہے نا؟‘‘شانو نے اپنی بھیگی ہوئی آنکھیں اٹھا کر راسی کو دیکھا۔
’’کیوں نہیں۔مجھے تم سے ہمدردی ہے۔یہ ہمدردی نہ ہوتی تو میں تم سے ایسی بات ہرگز نہ کرتی۔شاطرہ کی نظروں میں یہ میرا ایک جرم ہے اور وہ اپنے مجرم کو کبھی معاف نہیں کرتی۔‘‘
شانو نے مایوس ہو کر سر جھکا لیا۔
’’بولو شہزادی کیا چاہتی ہو؟‘‘
شانو نے سر اٹھایا ،’’میرا دل بری طرح تڑپ رہا ہے۔کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے ملاقات کر لیں؟‘‘
راسی نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’اچھا تمہاری ہمدردی کا بڑا شکریہ!اب تم جاؤ۔‘‘
شانو کے ان الفاظ پر راسی بولی،’’آج وقت ہے باتیں کرنے کا ۔وہ دیکھودور پہاڑیوں پر۔‘‘راسی نے ان پہاڑیوں کی طرف اشارہ کیا جہاں سے سائے دکھا ئی دے رہے تھے،’’شاطرہ آدھی رات کے وقت اپنے خاص نوکروں اور نوکرانیوں کے سروں پر تازہ پھل سبزیاں وغیرہ لاد کرادھر چلی جاتی ہے جہاں اس کی بہنیں اور بہت سارے عزیز رہتے ہیں۔یہ سب کچھ انہیں دے کر واپس آجاتی ہے اور صبح سویرے وہ واپس اپنے قلعے میں ہوتی ہے۔آتے ہی ایک ایک کمرے میں جھانکتی ہے اور دیکھتی ہے کون کس حالت میں ہے۔اب وہ صبح کے دھندلکوں میں لوٹے گی۔۔۔‘‘
شانو دور پہاڑیوں پر سائے دیکھ رہی تھی۔
’’تازہ پھل اور سبزیاں ان کے لئے اور ہمارے حصے میں گلی سڑی سبزیاں!‘‘
’’شاطرہ جو چاہے کر سکتی ہے۔‘‘راسی نے کہا۔
’’راسی!‘‘
’’خاموش کیوں ہو گئی ہو،بولو!‘‘
’’میں تمہارا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گی۔‘‘یہ کہہ کر شانو نے التجا انگیز نگاہوں سے راسی کو دیکھا۔
’’کہو شہزادی! میں ضرور مدد کروں گی۔‘‘
’’ہمیں ملا دو مہربان راسی!‘‘
’’شہزادی! یہ کیا کہہ رہی ہو تم!‘‘
’’تمہارا یہ احسان میں کبھی نہیں بھولوں گی۔‘‘شانو کا لہجہ رقت آمیز ہو گیا تھا۔
’’شہزادی! تم ابھی تک سمجھ ہی نہیں سکیں کہ شاطرہ کیا ہے اور کیا کچھ کر سکتی ہے۔بڑی ظالم اور بے درد جادو گرنی ہے۔ اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام کیاجائے تو وہ ایسا کام کرنے والے کو زندہ نہیں چھوڑتی۔‘‘
’’تو کیا میں اسی طرح تڑپ تڑپ کر مر جاؤں گی۔‘‘یہ فقرہ سن کر راسی اس قدر متاثر ہوئی کہ اس کی آنکھوں سے بھی آنسو نکل پڑے ، بولی،’’اچھا تمہاری خاطر میں خطرہ مول لئے لیتی ہوں۔وہ جو تمہارے ساتھ بوڑھا اور بڑھیا آئی ہے ۔وہ دوسری طرف بند کئے گئے ہیں۔وہاں تک پہنچنا مشکل ہے۔مالی یہاں سے قریب ہے۔اس سے تمہاری ملاقات ہو سکتی ہے۔‘‘
’’بہت بہت شکریہ میری بہن راسی۔‘‘ شانو نے بے اختیار اپنا ہاتھ سلاخوں سے باہر نکال دیا جسے راسی نے تھام لیا۔
’’سنو شہزادی!‘‘ راسی نے پہلے تین بار ادھر ادھر دیکھا ۔اس کے بعد سرگوشی کے سے انداز میں کہنے لگی،’’تمہارے قید خانے سے باہر نکلنے کا خفیہ راستہ اس دیوار میں ہے جہاں گھاس کا انبار پڑا ہے۔اس گھاس کو ہٹانا،تمہیں راستہ نظر آجائے گا۔باہر نکل کر سلاخوں کے ساتھ ساتھ چلتی جانا۔جہاں سلاخیں ختم ہو جائیں وہاں باغ کی حد شروع ہو جائے گی۔ باغ کی دیوار پر چڑھ کر اندر آہستہ سے چھلانگ لگا دینا۔مالی وہیں کہیں ہوگا۔میں اسے وہاں چھوڑ آؤں گی۔‘‘
شانو راسی کو آنکھیں جھپکائے بغیر متواتر دیکھے جارہی تھی۔
’’اور سنو شہزادی! تھوڑی دیر میں واپس آجانا!خبردار، باغ میں زیادہ دیر نہیں ٹھہرنا ورنہ کسی کی بھی خیر نہیں ،سمجھ لیا؟‘‘
شانو نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
’’اب میں اُدھر جاتی ہوں جہاں سے شاطرہ قلعے میں آتی ہے۔‘‘راسی چلی گئی۔ چند قدم چلنے کے بعد رک گئی۔
’’خبردار!باغ میں بہت خطرہ ہے۔جلدی سے لوٹ آنا۔میں مالی کو ادھر چھوڑ جاتی ہوں۔‘‘
شانو نے پھر سر ہلا دیا۔
راسی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔شانو گھاس کے انبار تک پہنچ چکی تھی۔اس نے گھاس اٹھا اٹھا کر الگ رکھنی شروع کر دی۔جب گھاس ہٹ گئی تو دیواروں کے درمیان ایک چھوٹا سا خلا دکھائی دینے لگا۔اس خلا میں سے صرف لیٹ کر باہر نکلا جا سکتاتھا۔شانو نے یہی کیا۔باہر نکل کر دو سلاخوں کے ساتھ ساتھ قدم اٹھانے لگی۔چاندنی چٹکی ہوئی تھی۔راستہ بالکل سنسان تھا۔تھوڑی دیر بعد شانو کو باغ کے اونچے درختوں کی بلند شاخیں نظر آگئیں۔دیوار زیادہ بلند نہیں تھی۔ شانو کو اوپر چڑھنے میں کوئی خاص دقت پیش نہ آئی۔اس نے بانہوں کے سہارے دیوار کا کنارہ تھام کر اپنا جسم دوسری طرف لٹکا دیااور اپنی طرف سے بڑی احتیاط کے ساتھ چھلانگ لگا دی۔وہ چند قدم ہی چلی تھی کہ ایک سایہ لپکتا ہوا اس کی جانب آنے لگا۔
’’شانو !‘‘
’’مالی!‘‘
’’مالی وقت بہت کم ہے۔سوچو کیا کرنا ہے۔‘‘
’’شانو !کیسے نکلیں یہاں سے؟‘‘
شانو اس کا کیا جواب دے سکتی تھی۔مالی بولا،’’میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آتا۔‘‘
’’یہی حالت میری بھی ہے۔‘‘شانو نے مایوسی سے کہا۔
’’شانو! صرف ایک تدبیر ہو سکتی ہے۔‘‘مالی بولا۔
’’کون سی تدبیر؟‘‘
’’میں یہاں سے نکل جاؤں۔ اپنی بستی میں پہنچ گیا تو بہت سارے ملاحوں کواپنے ساتھ لے آؤں گا۔تمہارے ہاں چلاگیا تو جنوں کی فوج میرے ساتھ ہوگی۔‘‘
’’نہیں مالی!‘‘اس بہت مختصر فقرے سے شانو کی گہری مایوسی کا اظہار ہو رہا تھا۔
’’ہمارے چاروں طرف جادو گرنی کے اپنے آدمی رات دن کھڑے رہتے تھے۔وہ تمہیں پکڑ لیں۔‘‘
’’کسی کو تو خطرہ مول لینا ہی پڑے گا۔‘‘
’’اس میں ناکامی ہوگی۔‘‘
’’کوشش تو کرنی ہی پڑے گی۔‘‘
مالی نے دیکھا کہ شانو بڑے غور سے سیاہ گلاب کے ان پھولوں کو دیکھ رہی ہے جو ایک قریبی پودے کی شاخوں پر لگے تھے۔
’’شانو! کیا سوچ رہی ہو؟‘‘
شانو نے مالی کے سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔
’’شانو!‘‘مالی نے اپنے دائیں ہاتھ سے شانو کے بائیں کندھے کو ہلاتے ہوئے کہا۔
’’کیا کہا تم نے؟‘‘شانو کے منہ سے نکلا۔
’’میں نے پوچھا ہے کہ کیا سوچ رہی ہو تم؟‘‘
’’میں؟‘‘
’’ہاں اور کون؟‘‘
’’مالی!‘‘
’’کہو۔‘‘
’’میں جو کچھ کروں تم اس کے متعلق مجھ سے کوئی سوال نہ کرنا۔ اس کا وعدہ کرو۔کچھ نہیں پوچھو گے!‘‘
’’کروگی کیا؟‘‘
’’بس دیکھتے جاؤ۔۔۔‘‘اور شانو نے پودے سے سیاہ گلاب کا ایک پھول توڑ لیا۔ایک اور توڑ لیا۔
’’یہ کیا کر رہی ہو تم؟‘‘مالی نے حیرت زدہ ہو کر کہا۔
’’میری مدد کرو۔چند پھولوں کی ضرورت ہے۔‘‘
شانو نے پانچ پھول توڑ لئے تھے۔مالی بھی پھول توڑنے لگا۔بارہ تیرہ پھول جمع ہو گئے تو شانو نے مالی کو اشارے سے مزید پھول توڑنے سے روک دیا۔
کچھ دور سفید گلاب کے پودے پر چاندنی کے رنگ کے پھول شاخوں پر نظر آرہے تھے۔شانو نے ایک پھول توڑ لیا۔اس سفید گلاب کے پھول کے ارد گرد شانو نے سیاہ پھول رکھ کر ان کا گل دستہ بنا لیا۔اپنی قمیض سے ایک ٹکڑا پھاڑ کر اس گل دستے کی شاخوں کو باندھ دیا۔مالی یہ منظر بڑی دل چسپی اور حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
باغ کی دیوار کے پیچھے دریا بہہ رہا تھا۔شانو نے یہ گل دستہ دیوار کی دوسری طرف پھینک دیااور پھر چپ چاپ بیٹھ گئی۔
اس کارروائی کا مطلب کیا ہے۔مالی کچھ بھی نہ سمجھ سکا۔
’’شانو!‘‘
’’میں جانتی ہوں تم کیا کہنا چاہتے ہو،مگر میں تم سے پہلے ہی کہہ چکی ہوں کہ کچھ بھی مجھ سے نہ پوچھنا۔‘‘
یکایک راسی بھاگی ہوئی آئی۔
’’وہ آگئی۔۔۔ہے!‘‘
شانو اور مالی اٹھنے ہی والے تھے کہ زور کی آندھی چلی اور شاطرہ ان کے سامنے کھڑی تھی۔وہ گرجی:
’’تم یہاں ؟کون لایا ہے تمہیں،بولو!‘‘
’’کوئی نہیں، ہم خود آئے ہیں۔‘‘مالی بولا۔
’’تم خود آئے ہو؟ تمہاری یہ جرأت۔‘‘
راسی ایک طرف کھڑی بری طرح کانپ رہی تھی۔
’’راسی! اس کارروائی میں تمہارا ہاتھ ہے؟‘‘
راسی کچھ بھی نہ کہہ سکی۔اب کی شانو بولی،’’ہم خود آئے ہیں۔‘‘
’’مجھ سے کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی۔‘‘
اچانک شاطرہ کی نظر سیاہ گلاب کے اس پھول پر پڑی جو سیاہ گلاب کے پودے کے نیچے گرا پڑا تھا۔شانو اور مالی کو اس پھول کا خیال نہیں رہا تھا۔
’’میرا پھول!‘‘
شاطرہ پھول کو دیکھ کر آگے بڑھی۔ پودے کی دو ننگی شاخیں دیکھیں تو اس کی آنکھوں سے شعلے سے برسنے لگے۔
’’ہیں۔۔۔اتنے پھول غائب،کس نے توڑے ہیں؟‘‘
شانو جھٹ بول اٹھی،’’میں نے۔‘‘
’’نہیں میں نے توڑے ہیں۔‘‘مالی بولا۔
’’میں نے توڑ کر پھینک دیئے تھے۔‘‘شانو کہنے لگی۔
’’میں نے توڑ کر پانی میں پھینک دئیے تھے۔‘‘
’’میں پوچھتی ہوں کس نے توڑے تھے؟‘‘
شانو اور مالی دونوں بیک وقت بول اٹھے،’’میں نے۔‘‘
’’دونوں اپنی انگلیاں دکھاؤ!‘‘شاطرہ نے پہلے مالی کی انگلیاں دیکھیں،پھر شانو سے کہا،’’اب تم دکھاؤ۔‘‘
شانو کی ایک انگلی لہو سے سرخ تھی،
’’مجرم تم ہو بک بک لڑکی! کانٹا تمہاری انگلی میں چبھا ہے۔تم نے میرے باغ کے سب سے پیارے پھول توڑے ہیں۔میں تمہیں وہ سزا دوں گی کہ تم ٹکڑے ٹکڑے ہو کر رہ جاؤ گی۔۔۔اپنے اپنے قید خانوں میں جاؤ،اور راسی ذلیل عورت! تم بھی قید میں رہو گی۔‘‘
یہ کہہ کر شاطرہ نے اپنا دایاں پاؤں زور سے زمین پر مارا۔درختوں کے پیچھے سے شاطرہ کے کئی خادم ان کی طرف آنے لگے۔
جنوں کے بادشاہ نے اپنے کئی جن شانو،نادی، شمیعہ اور مالی کی تلاش میں بھیج رکھے تھے اور ان میں سے ابھی کوئی بھی کوئی خبر لے کر محل میں نہیں آیا تھا۔ بادشاہ اور ملکہ کی فکر روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔اپنی بیٹی کے لیے وہ بڑے بے چین تھے۔بادشاہ ہر دن تلاش کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کردیتا تھا مگر اس سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوتا تھا۔جن دریاؤں کی گہرائیوں میں جاکر ڈھونڈ آئے تھے لیکن انہیں اس کشتی کا کوئی نشان تک نہیں ملا تھا جس میں شانو اور اس کے ساتھی سوار ہو کر ملاحوں کی بستی سے نکل کر محل کی طرف روانہ ہو گئے تھے۔
ایک روز وہ پہلے دو جن جو شانو والی کشتی کے آگے آگے رواں ہو ئے تھے۔اس دریا کے کنارے کنارے چلے جا رہے تھے جو محل سے کچھ فاصلے پر بہتا تھا، تو انہوں نے پانی میں سیاہ سی چیز دیکھی ۔
’’دیکھو وہ کیا ہے؟‘‘ایک جن نے اپنے ساتھی سے مخاطب ہو کر کہا۔
’’ہاں میں بھی دیکھ رہا ہوں، پکڑ لاؤ۔‘‘
پہلا جن فوراً پانی میں اتر گیا اور وہ کالی سی چیز پکڑ لایا۔یہ وہی گل دستہ تھا جو شانو نے جادو گرنی کے باغ سے پانی میں بہا دیا تھا۔دونوں جن یہ گل دستہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔اتنے بڑے بڑے سیاہ خوب صورت پھول انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔عجیب بات یہ تھی کہ پانی میں رہنے کے باوجود یہ ابھی تک خراب نہیں ہوئے تھے۔
وہ یہ گل دستہ اپنے گھر لے گئے۔ اس گھر میں ایک بہت بوڑھا جن بھی رہتا تھا۔جو ایک جن کا رشتے میں نانا لگتا تھا۔انہوں نے بوڑھے جن کو بتایا کہ کالے پھولوں کے درمیان ایک سفید گلاب کا پھول بھی ہے۔
نانا جن کی آنکھیں بہت کمزور ہو چکی تھیں،اس نے پوچھا:
’’کیا یہ سیاہ پھول عام سیاہ پھولوں سے بڑے ہیں؟اور کیا ہر سیاہ پھول کے درمیانے حصے میں ایک سرخ داغ بھی ہے؟‘‘
’’جی ہاں نانا جان،ایسے پھول ہم نے کبھی نہیں دیکھے،شاہی محل میں بھی نہیں ہیں۔‘‘ایک جن نے جواب دیا۔
’’اور تم کہتے ہو سیاہ پھولوں کے درمیان ایک سفیدپھول بھی ہے؟‘‘نانا جن نے بات دہرائی۔
’’جی ہاں نانا جان!‘‘
’’اور یہ سفید پھول کالے پھولوں میں گھرا ہوا ہے؟؟
’’جی ہاں۔‘‘
نانا جن نے گل دستہ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔آنکھوں کے بالکل قریب لا کر پھولوں کو دیکھنے لگا۔
’’بادشاہ کی بیٹی کی کوئی اطلاع نہیں ملی؟‘‘ نانا جن نے پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘
نا نا جن ایک دم بول اٹھا :
’’میں سمجھ گیا ہوں معاملہ کیا ہے؟‘‘
’’کیا معاملہ ہے نانا جان؟‘‘
’’تم کو نہیں بتاؤں گا۔مجھے بادشاہ کے حضور میں لے چلو،اُنھی کو بتاؤں گا۔‘‘
جنوں نے بوڑھے جن کو تخت پر بٹھایا اور یہ تخت محل کے باہر زمین پر رکھ دیا ۔خود اندر گئے۔
بادشاہ کو اُن کے آنے کی خبر ملی تو اپنے کمرے سے باہر آیا ۔بادشاہ نے دیکھا کہ وہ جن کچھ کہنے کے لیے بیتاب ہیں تو بولا :
’’کیا خبر لائے ہو؟‘‘
ایک جن نے بتایا کہ ایک بہت اہم خبر نانا جان بتائیں گے ۔بادشاہ نے بوڑھے جن کو فوراً حاضر ہونے کا حکم دیا ۔جن تخت اُٹھا کر لے آئے۔
’’کیا خبر سنانا چاہتے ہو؟‘‘ بادشاہ نے سوال کیا۔
نانا جن کہنے لگا:
’’حضور ! آپ جانتے ہیں میں نے ساری زندگی سیاحت کی ہے۔دور دور تک پہنچا ہوں ۔جو معلومات مجھے حاصل ہیں اور کوئی نہیں جانتا۔بادشاہ سلامت شمالی پہاڑوں کے پیچھے جوبڑے اونچے پہاڑوں کا سلسلہ پھیلا ہوا ہے اُن کے بیچ میں ایک بڑی ظالم جادوگرنی رہتی
ہے جس کا نام شاطرہ ہے ۔یہ گل دستہ جو اس وقت آپ میرے ہاتھ میں دیکھ رہے ہیں،اس جادوگرنی کے پھولوں کے باغ سے بنایا گیا ہے ۔ایک سفید پھول سیاہ پھول میں گھرا ہواہے۔یہ پھول صرف اسی جادو گرنی کے باغ میں ہوتے ہیں ۔دنیا میں اور کہیں بھی نہیں ہوتے ۔بادشاہ سلامت ! مجھے یوں لگتا ہے کہ یہ گلدستہ شہزادی نے بھیجا ہے اور اپنی حالت بتائی ہے۔‘‘
’’کیا حالت بتائی ہے ؟‘‘ بادشاہ نے بے صبری سے پو چھا۔
’’بادشاہ سلامت ! شہزادی جادوگرنی کی قید میں ہے ؟‘‘
’’ شہزادی جادوگرنی کی قید میں؟‘‘
’’میرا علم یہی کہتا ہے بادشاہ سلامت !جادو گرنی سر سے پاؤں تک سیاہ لباس پہنتی ہے۔کالے پھولوں کا مطلب وہ خود ہے اور سفید گلاب سے مراد شہزادی ہے ۔شہزادی نے یہی بات بتانی چاہی ہے۔‘‘
’’سب سپاہیوں کو حاضر کرو۔‘‘بادشاہ نے حکم دیا اوردیکھتے ہی دیکھتے محل کے خادم بڑے بڑے گھنٹے بجانے لگے۔گھنٹوں کا شور ہوتے ہی جنوں کے غول کے غول شاہی محل کی طرف آنے لگے۔
شاطرہ کے قلعے کے سامنے پہاڑوں کا ایک لمبا سلسلہ پھیلا ہو ا تھا۔ اس کے درمیانی حصے میں سب سے اونچا پہاڑ واقع تھا۔اس کی چوٹی اتنی اونچی تھی کہ لگتا تھاآسمان کو چھو رہی ہے۔شاطرہ جب اپنے کسی مجرم کو سب سے بری سزا دینا چاہتی تھی تو اسے اس چوٹی پر لے جا کر انتہائی بے رحمی سے دھکا دے دیتی تھی۔گرنے والا نیچے آتے آتے دم توڑ دیتا اور اس کا جسم پتھریلی زمین پر پڑتے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا تھا۔اس روز شاطرہ اپنے تین مجرموں کو دردناک سزا دینے والی تھی۔یہ تین مجرم تھے شانو ،مالی اور راسی ۔یہ راسی اس کی قابل اعتماد خادمہ تھی ۔دوسرے غلاموں کی طرح ایک غلام ہی تھی مگر چونکہ بڑی فرماں بردار رہی تھی ۔اس لیے شاطرہ نے اسے قیدیوں کی دیکھ بھال کے اختیارات دے رکھے تھے ۔
اس روز جب جادوگرنی نے اپنے باغ میں شانو اور مالی کو دیکھ لیا تھا تو جان لیا تھا کہ ان کی ملاقات کا بندوبست راسی ہی نے کیا ہے اور یہ شاطرہ کے نزدیک بہت بڑا جرم تھا۔شانو اور مالی نے بھی اس کے باغ میں سب سے خوب صورت پھول کو توڑ کر جرم کیا تھا۔
شاطرہ جب ایسی سزا دینا چاہتی تھی تو یہ تماشہ دکھانے کے لیے اپنی بہنوں اور باقی سب رشتے داروں کووہاں بلوا لیتی تھی ۔اس روز یہ سب وہاں موجود تھے ۔
پہاڑ کے ایک طرف شاطرہ کے چند غلام زور زور سے ڈھول بجا رہے تھے فضا میں کالے بادل ہر طرف چھائے ہوئے تھے اور آندھی چل رہی تھی۔ شاطر جو سیاہ لباس میں ایک کالا بادل دکھائی دے رہی تھی پہاڑ کے بیچ میں ایک ابھری ہوئی چٹان کے اوپر بڑے غرور اور ٹھسے سے کھڑی تھی ۔اس سے نیچے کچھ فاصلے پراس کی بہنیں اور رشتے دار اوپر جانے کا انتظارکر رہے تھے۔ ابھی شاطرہ کے خادم مجرموں کو پہاڑ پر نہیں لائے تھے۔
شاطرہ نے اپنا ہاتھ لہرایااور اس کے خادم شانو،مالی اور راسی کو اپنے گھیرے میں لیے ایک طرف سے آئے اور چوٹی کی طرف جانے لگے ۔مجرموں کی بانہیں زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھیں۔خادم انہیں اوپر گھسیٹ کرلے جا رہے تھے۔
شاطرہ نے اپنی چھڑی لہرائی جس کا مطلب تھا کہ مجرموں کو جلد سے جلد اوپر لے جایا جائے ۔خادم یہ حکم پا کر انھیں زیادہ زور سے گھسیٹنے لگے ۔
مجرم اوپر ہی اوپر جا رہے تھے۔
شاطرہ نے بھی قدم اوپر اٹھانے شروع کر دیے تھے۔ڈھول زور زور سے بجنے لگے تھے سیاہ بادل اور گہرے ہو گئے تھے۔شاطرہ کی بہنیں اور رشتے دار ہو،ہو ،ہی ہی کا شور مچاکر شاطرہ کے پیچھے پیچھے اوپر چڑھنے لگے تھے۔
چوٹی ابھی دور تھی !
اچانک چوٹی سے ایک بہت بھاری پتھرفضا میں اوپر اٹھا اور پھر اس مقام پر آگرا جہاں شاطرہ کھڑی تھی۔شاطرہ اس کے نیچے چت ہوگئی۔ یہ واقعہ اس قدر اچانک ہوا کہ شاطرہ کی بہنیں اور سارے رشتے دار سراسیمہ ہو کر منتشر ہونے لگے۔مگر چوٹی سے پتھروں کی بارش ہو رہی تھی اور ہر ایک کسی نہ کسی بھاری پتھر کا نشانہ بن رہا تھا۔
پتھروں کی بارش ہو ہی رہی تھی کہ ایک لخت چوٹی کے اوپر کئی بڑے تنو مند جن نظر آنے لگے۔ان جنوں نے ہاتھوں میں بڑے بڑے پتھر اٹھا رکھے تھے جنہیں وہ شاطرہ کے کنبے پر بڑی تیزی سے گرا رہے تھے۔چند لمحوں کے اندر سب کے سب بے شمار ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر ادھر ادھر بکھر گئے تھے۔
جن چوٹی سے اترے۔انہوں نے شانو، مالی اور راسی کی زنجیریں توڑ کر پرے پھینک دیں ۔انہوں نے تینوں کو ہاتھوں پر اٹھا لیا اور نیچے لانے لگے۔
سب کمروں کے دروازے کھول دیے گئے۔جو غلام ان کے اندر بند تھے وہ بھاگ کر باہر آگئے۔جو غلام باغ اور کھیت میں کام کر رہے تھے وہ بھی ادھر آگئے۔شانو اور مالی تیزی سے شمیعہ اور نادی کی طرف گئے اور ان سے لپٹ گئے۔
جب قیدیوں کو معلوم ہوا کہ جادو گرنی مرگئی ہے تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔وہ خوشی سے دیوانے ہو کر بے اختیار ناچنے لگے۔شانو نے بلند آواز سے کہا:
’’شاطرہ ظالم جادو گرنی مر گئی ہے۔ہمارے جنوں نے اسے اور اس کے سارے کنبے کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیاہے۔آج سے تم آزاد ہو۔‘‘
سب کے چہرے خوشی سے تمتمانے لگے۔بعض کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔شانو کہے جا رہی تھی:
’’اب تمہیں کوئی بھی غلام نہیں بنا سکتا۔جادو گرنی نے تم لوگوں پر بڑے ظلم کیے تھے۔تمہارے ہاتھوں تمہارے اپنے ہی ساتھیوں پر ظلم کرائے گئے تھے۔۔۔مگر تم مجبور تھے۔‘‘
یہ سن کر ان لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا جو سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے شاطرہ کے حکم پر دوسروں سے ظالمانہ سلوک کیا تھا اور اب انہیں معاف نہیں کیا جائے گا۔شانو بولی:
’’آج سے یہ باغ، یہ کھیت، یہ محل اور ان میں جو کچھ بھی ہے تمہارا ہے۔یہ تمہاری اپنی محنت کا پھل ہے۔کھاؤ پیو،مزے کرو!‘‘
شانو نے جو کچھ کہنا تھا وہ کہہ چکی تو اس نے راسی کو گلے لگا لیا اور کہا:
’’راسی بہن! ہم تمہارا احسان کبھی نہیں بھولیں گے۔‘‘
راسی منہ سے کچھ نہ کہہ سکی۔خوشی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
رات سب نے بڑا جشن منایا اور صبح کے وقت شانو، مالی، شمیعہ اور نادی اس بڑی کشتی میں بیٹھ کر جسے جنوں نے رات کے وقت مکمل کر لیا تھا۔ پہلے جنوں کے شاہی محل میں پہنچے۔بادشاہ اور ملکہ نے اپنی بیٹی کو زندہ سلامت دیکھا تو بے حد خوش ہوئے۔باد شاہ نے اس بوڑھے جن کو انعام و اکرام دیا جس نے سیاہ پھولوں کے گل دستے کا معمہ حل کیا تھا۔
دوروز بعد شانو، مالی، نادی اور شمیعہ ملاحوں کی بستی کی طرف روانہ ہو گئے۔
شمیعہ نے قلعے میں تنہا رہنے کے بجائے ملاحوں کی بستی میں رہنا پسند کر لیا تھا۔وہ انسانوں سے بڑی مانوس ہو گئی تھی۔ نادی نے اپنا کمرا نہ چھوڑا۔جب تک زندہ رہا اسی کمرے میں بیٹھ کر دریا کے اس کنارے کو دیکھا کرتا جہاں اس کی کشتی بندھی رہتی تھی۔