skip to Main Content

جبریل کی خواہش

روزینہ جاوید
۔۔۔۔۔

لائم آج پھر یونیورسٹی کے پارک میں گہری سوچوں میں الجھا بیٹھا تھا۔ معمول کے مطابق آج بھی اس نے ابراہیم کا پوری کلاس کے سامنے مذاق اڑایا تھا۔ وہ روزانہ کسی نہ کسی بات کو وجہ بنا کر ابراہیم کے ساتھ ایسا کرتا رہتا تھا اور اس کی بڑی وجہ ابراہیم کی خاموشی تھی۔
”ایک بار، بس ایک بار وہ مجھ سے الجھے۔ مجھے گالیاں دے،برا بھلا کہے، میرے والدین کی تربیت پر سوال اٹھائے، پھر میں اسے تنگ کرنا چھوڑ دوں گا۔“ روزانہ ہی لائم یونی کے پارک میں بیٹھ کر خود سے الجھتا۔
اسے لوکاس نے بتایا تھا۔”مانچسٹر یونی کی آدھی عوام ابراھیم سے محبت کرتی ہے۔“
”وجہ۔؟“ لائم نے بھنویں اٹھا کر لوکاس کو گھورا تھا۔”وہ کہیں سے بھی اتنا خوبصورت نہیں کہ یونی کی آدھی آبادی اس پر مر مٹے یا اس کے گن گائے۔“
”سب اس کی شخصیت سے متاثر ہیں۔“ لوکاس بولا۔
”اس کی شخصیت میں ایسا کیا ہے۔؟؟“ لائم مانچسٹر یونی کی جان بزنس کلاس کا اسٹوڈنٹ تھا۔ چند ہفتے کی چھٹیاں لے کر وہ روس گیا تھا۔ اور واپسی پر اسے یہ ناخوشگوار بات سننے کو ملی تھی۔
”ابراہیم پاکستان سے آیا ہے، مسلمان ہے اور سب سے اہم بات عاشق رسولﷺ ہے۔ وہ ہر بات پر اپنے نبیﷺ کی سیرت کا ذکر کرتا ہے۔ اس کی باتوں سے متاثر ہوکر ہمارے بہت سے پروفیسر ابراہیم سے اس کے رسولﷺ کے متعلق پوچھتے نظر آتے ہیں۔“ لوکاس کسی سحر میں جکڑا بتارہا تھا، لائم صرف سر ہلا کر رہ گیا۔

۔۔۔۔۔

تیری عظمت کی جھلک دیکھ کے معراج کی رات
ہے یہ جبریل کی خواہش بشر ہوجائے

ابراہیم مدھم آواز میں گنگنا رہا تھا، لائم چند لمحے خاموشی سے کھڑا اسے سنتا رہا پھر کلاس میں داخل ہوا۔
”کیا میں جان سکتا ہوں تم اتنے بے حس کیسے بنے۔؟“ لائم کا اشارہ پچھلی تمام حرکات کی جانب تھا۔ وہ آج ابراہیم سے روبرو بات کرنے کا فیصلہ کرکے خالی پیریڈ میں کلاس میں داخل ہوا تھا۔ ابراہیم گہری سانس لے کر بولا:
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوتے ہیں، صحابہ کرام کی دس ہزار جمعیت آپ کے ساتھ ہے، صحابہ اعلان کرتے ہیں ”الیوم یوم ا لملحم“ آج بدلے کا دن ہے، آج جوش انتقام کو سرد کرنے کا دن ہے، آج شمشیروسناں کا دن ہے، آج گذشتہ مظالم کے زخموں پر مرہم رکھنے کا دن ہے، آج ہم اپنے دشمنوں کے گوشت کے قیمے بنائیں گے، آج ہم ان کی کھوپڑیوں کو اپنی تلواروں پر اچھالیں گے، آج ہم شعلہ جوالہ بن کر خرمن کفار کو جلاکر بھسم کردیں گے اور گزشتہ مظالم کی بھڑکتی چنگاری کو ان کے لہو سے بجھائیں گے۔لیکن تاریخ شاہد ہے اور زمین و آسمان گواہی دیتے ہیں کہ ایساکچھ نہیں ہوا۔“
جذبات کے عالم میں ابراہیم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس نے سینے پر ہاتھ رکھا اور بولتا چلا گیا:
”رحمت نبویﷺ جوش میں آئی اور زبان رسالت کی صدائیں لوگوں کے کانوں سے ٹکراتی ہیں ”لاتثریب علیکم الیوم واذہبوا انتم الطلقا“ کہ جاؤ تم سب آزاد ہو، تم لوگوں سے کسی قسم کا بدلہ نہیں لیا جائیگا۔“ (رحمۃ الّلعالمین حضرت محمدﷺ کی سیرت طیبہ ’فتح مکہ‘سے اقتباس) فرط جذبات سے ابراہیم پر کپکی طاری ہوچکی تھی۔ لائم گھبرا کر باہر نکل آیا۔

۔۔۔۔۔

”حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ بہت خوش ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرما دیں۔ چناں چہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی:
”اے اللہ! عائشہ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف فرمااور جو اس نے چھپ کر کئے اور جو اس نے کھلم کھلا کئے وہ بھی سب معاف فرما۔“
ام المومنین فرماتی ہیں کہ میں اس دعا سے بہت خوش ہوئی یہاں تک کہ میں خوشی کے مارے لوٹ پوٹ ہونے لگی۔جس سے میرا سر میری گود میں چلا گیا۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:کیا تمہیں میری دعا سے بہت خوشی ہو رہی ہے؟میں نے عرض کیا مجھے آپ کی دعا سے خوشی کیوں نہ ہو؟ آپ نے فرمایا:
”اللہ کی قسم! یہ دعا تو میں اپنی امت کے لئے ہر نمازمیں مانگتا ہوں۔“(حیاۃ الصحابہ:۳/۲۶۳)
حضور اکرم ﷺ کی شفقت و محبت صرف نیکوں تک محدود نہیں تھی،بلکہ امت کے گنہگاروں پر بھی آپ کی خاص نظر کرم تھی تاکہ وہ محض اپنی گناہوں کی وجہ سے اللہ رب العزت کے انعام و اکرام سے محروم نہ رہیں۔چناں چہ ایک موقع پر آپ نے اس کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
”مجھے شفاعت اور آدھی امت کو جنت میں داخل کرنے کا اختیار دیا گیا۔(کہ چاہیں تو آدھی امت کو بخشوالیں یا شفاعت کا اختیار لے لیں)۔تو میں نے شفاعت کا اختیار لے لیاہے۔“(ابن ماجہ: کتاب الزہد)۔
حضور ﷺ نے شفاعت کاانتخاب کیوں کیا،اس کے بارے میں خود ہی ارشاد فرماتے ہیں کہ”میری شفاعت امت کے گنہگار لوگوں کے لیے ہے۔“اسی لیے حضور اکرم ﷺ نے آدھی امت کے بجائے شفاعت کا اختیار لیا کیوں کہ امت کے گنہگار آپ کے پیش نظر تھے،اگر آدھی امت کو بخشوا لیتے تو آدھی امت کدھر جاتی؟ ظاہر سی بات ہے کہ اس آدھی میں ہم گنہگار امتی ہی ہوتے،شفاعت کا حق ملنے سے یہ فائدہ ہوا کہ اللہ رب العزت کے حضور ہم جیسے گنہگاروں کی سفارش کرکے نار جہنم سے بچا لیں گے۔ ان شاء اللہ عزوجل۔“
ایک بار پھر ابراہیم کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اپنے اخلاق و کردار سے وہ یونی کے طلبہ و طالبات کا دل جیت چکا تھا۔ اور اب یہ اس کی بہت بڑی کامیابی تھی کہ وہ غیر مسلموں کی یونیورسٹی میں اپنے نبیﷺ کا ذکر بلند کررہا تھا۔ بہت سے طلبہ وطالبات ابراہیم کو رشک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے اور بہت سے اپنے دلوں میں فیصلے کررہے تھے۔ انہی میں لائم بھی موجود تھا۔
ابراہیم بولتے بولتے ایک دم سے بڑبڑانے لگا:
”میرے نبی ﷺ عدل و انصاف کرنے والے تھے، رحم دل اور نیک سیرت تھے، حیادار اور بہادر تھے۔ ایسی کون سی خوبی ہوگی جو آپ میں نہیں تھی۔ کہ کفار بھی انہیں صادق اور امین کہتے تھے، ظالم وجابر بھی انہیں رحم دل پکارتے۔ آپ سب میرے اخلاق سے میرے صبر سے میرے گرویدہ ہوگئے تو سوچیں میرے نبیﷺ کا اخلاق کتنا بلند ہوگا کہ اللہ رب العزت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑے ہی اعلیٰ اخلاق سے نوازا تھا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارفع اخلاق ہی تھا کہ جس نے دشمن کو دوست، بیگانے کو اپنا، سخت دل کو نرم خو بنا دیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی بلند اخلاق کی تعریف اللہ رب العزت نے ان الفاظ میں فرمائی ہے ”وانک لعلیٰ خلق عظیم“۔ ”اور بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق بہت بلند ہے۔“ (سورہ قلم)
اگر آپ ترش رو اور سخت دل ہوتے تو لوگ کبھی بھی آپ کے پاس آ کر نہ بیٹھتے۔“
لائم ایک دم سے ابراہیم کے نزدیک آگیا تھا۔ ابراہیم نے لائم کو کندھوں سے پکڑا اور سحر زدہ سا بولا:
”ایک عاشق کی صورت میں نے ان کے اخلاق کو اپنانے کی ناکام کوشش شروع کی ہے تاکہ میں اپنے نبیﷺ سے پہچانا جاؤں اور میرے اخلاق سے غیر مسلم میرے دین سے واقف ہوں۔ میرے نبیﷺ کی شفقت کو پہچانیں۔ کیونکہ اللہ کے یہاں سب سے محبوب بندہ وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہو اور آپﷺ کا قرب اسے نصیب ہوگا جس کا اخلاق اچھا ہوگا۔“
”میں تمہارے دین میں داخل ہونا چاہتا ہوں۔“ لائم دھیرے سے بولا اور ابراہیم آنکھیں پھاڑے اسے دیکھتا رہ گیا جبکہ لائم کی وجہ سے بہت سے فیصلے کرنے والوں کی راہیں آسان ہوگئی تھیں۔!

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top