جھیل کے اس پار
کہانی:The Giant with Three Golden Hairs
مصنف: Grimm Brothers
ترجمہ: جھیل کے اس پار
مترجم: احمد عدنان طارق
۔۔۔۔۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہیں ایک غریب آدمی رہا کرتا تھا۔اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کے ماتھے پر ستارے کا نشان تھا۔ سبھی لوگ اس نشان کو دیکھ کر کہنے لگے کہ یہ بچہ بہت خوش قسمت ثابت ہوگا اور بڑا ہو کر بہت امیر ہوگا۔ ضرور کسی بہت خوب صورت شہزادی سے شادی کرے گا۔
اس ملک کے بادشاہ کی ایک ہی بیٹی تھی۔ جو نہ صرف بہت خوب صورت تھی بلکہ خوب سیرت بھی تھی وہ جب بڑی ہوئی تو بادشاہ نے ایک روز پوری ریاست میں منادی کروا دی کہ جو بھی نوجوان دور اندھیرے غار میں رہنے والے جن کے سر سے تین بال توڑ کر لائے گا تو ایسے بہادر نوجوان سے وہ اپنی بیٹی کی شادی کردے گا۔ دور دور کے نواب اور شہزادے قسمت آزمائی کے لیے آئے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ تب تک غریب آدمی کا بیٹا بھی جوان ہو چکا تھا۔ ایک دن وہ راستے سے گزر رہا تھا تو اسے شاہی بگھی ملی جس میں شہزادی بیٹھی ہوئی تھی۔ لڑکے نے شہزادی کو جوں ہی دیکھا اس نے دل میں فوراً فیصلہ کر لیا کہ وہ شہزادی ہی سے شادی کرے گا۔ اس نے بھی منادی سنی تھی۔ لہٰذا وہ بھی قسمت آزمانے شاہی محل کی طرف روانہ ہوگیا۔
بادشاہ نے غریب لڑکے کو دیکھا تو پریشان ہوگیا کہ کہیں وہ کامیاب ہی نہ ہو جائے۔ وہ اسے مہم پر جانے سے روک تو نہ سکا لیکن دل میں اس کی خواہش تھی کہ وہ کامیاب نہ ہو سکے۔اُدھر غریب لڑکا اندھیرے غار کی طرف روانہ ہو گیا۔ راستے میں پڑنے والے شہر کے جب وہ نزدیک پہنچا تو شہر کے ارد گرد قلعہ کی فصیل پر سے محافظوں نے اسے روکا اور اسے پوچھنے لگے کہ وہ شکل سے بہت سمجھدار لگتا ہے۔ بتائے کہ شہر کے درمیان میں لگا ہوا فوارہ سوکھ گیا ہے اور اس میں سے پانی اچھل نہیں رہا اگر وہ اس سوال کا جواب دے گا تو وہ اسے بہت سا سونا انعام میں دیں گے۔ لڑکے نے محافظوں سے وعدہ کیا کہ وہ ان کے سوال کا جواب سفر کی واپسی پر دے گا۔
وہ وہاں سے روانہ ہوا اور اگلے شہر پہنچا۔ وہاں کے محافظوں نے بھی اس سے ایک سوال پوچھا: ”بھائی ہمیں بتاؤ ہمارے شہر میں ایک درخت ہے جس پر سونے کے سیب اگتے تھے، جب کہ اب ایک پتا بھی نہیں اگتا۔ اگر تم نے ہمیں اس سوال کا جواب دے دیاتو ہم تمھیں بہت سی چاندی دیں گے۔“
لڑکے نے سوال کا جواب دینے کے لیے سفر سے واپسی کا وقت مانگ لیا اور سفر پر آگے روانہ ہو گیا۔ چلتے چلتے وہ ایک بہت ہی بڑی جھیل کے کنارے پر پہنچا۔آگے کے سفر کے لیے جھیل کو عبور کرنا ضروری تھا۔ ایک کشتی والے نے اسے جھیل کے پار لگانے کی حامی بھری لیکن ساتھ ہی اس نے بھی لڑکے سے ایک سوال کا جواب پوچھ لیا۔وہ پوچھنے لگا:”بھیا! مجھے بتاؤ میں کب تک اس کشتی پر لوگوں کو جھیل کے آر پار لے کر جاتا رہوں گا آخر مجھے کب آزادی ملے گی؟ اگر تم مجھے اس سوال کا جواب بتاؤ گے تو میں تمھیں بہت سا انعام دوں گا!“
لڑکے نے اسے بھی کہا کہ وہ واپسی پر بتائے گا۔
جب اس نے جھیل عبور کرلی تو تھوڑا فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ اندھیرے غار تک پہنچ گیا۔ وہ اندھیرا غار بہت بھیانک لگ رہا تھا لیکن بہادر لڑکے نے ہمت نہیں ہاری اور غار کی طرف بڑھا۔ اندھیرے غار کے منہ پر اسے ایک بڑھیا ملی جو ایک کرسی پر بیٹھی آگے پیچھے جھول رہی تھی۔ اس نے پوچھا:”لڑکے! تمھیں کس کی تلاش ہے؟“ لڑکے نے بتایا کہ وہ جن کے سر سے تین سنہری بال توڑنے آیا ہے۔ بڑھیا نے اسے کہا:”یہ بہت مشکل کام ہے لیکن میں نے تمھارے ماتھے پر ستارے کا نشان دیکھ لیا ہے۔ میں جن کی دادی ہوں اور میں تمھاری مدد کروں گی۔“
لڑکا جلدی سے بولا:”دادی! مجھے یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ شہر کا فوارہ کیوں سوکھ گیا ہے؟ اور دوسرے شہر کے درخت پر سونے کے سیب کیوں نہیں لگتے؟ اور کیوں کشتی والا آزاد نہیں ہو سکتا۔“
دادی بولی:”یہ بہت مشکل سوالات ہیں لیکن جن جب غار میں آئے گا تو تم بھی غور سے سننا جو وہ کہے گا۔“ یہ کَہ کر دادی نے جلدی سے اسے ایک چیونٹی کی شکل میں تبدیل کر دیا اور اپنی قمیص کی آستین میں چھپا لیا۔ رات ہوئی تو جن غار میں واپس آیا۔ وہ غار میں داخل ہوتے ہی بولا:”مجھے کسی انسان کی بو آ رہی ہے دادی۔“ پھر اس نے غار میں اِدھر اُدھر دیکھا لیکن جب اسے کوئی نہیں ملا تو اس نے دادی کی گود میں سر رکھا اور گہری نیند سو گیا۔
دادی نے انتظار کیا۔ آخر جب جن خراٹے لینے لگا تو اس نے جن کے سر سے ایک سنہری بال زور سے کھینچ کر توڑ لیا۔ فوراً جن جاگا اور تکلیف سے چیخ کر بولا:”او ہو دادی! آپ یہ کیا کر رہی ہیں؟“ دادی بولی!”مجھے افسوس ہے بیٹا لیکن میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ دور شہر میں ایک فوارہ سوکھ گیا ہے اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟“
آدھے سوئے آدھے جاگتے جن نے کہا:”بہت آسان جواب ہے۔ فوارے کے پتھر کے نیچے ایک بڑا مینڈک بیٹھا ہوا ہے اس کو مار دو تو پانی فوارے میں رواں ہو جائے گا۔“ یہ کَہ کر جن گہری نیند سو گیا۔ تبھی دادی نے اس کے سر سے دوسرا سنہری بال اکھاڑ لیا۔ جن دوبارہ چیختے ہوئے اٹھا تو دادی نے اسے پچکارتے ہوئے کہنے لگیں:”بیٹا مجھے واقعی بہت افسوس ہے لیکن کیا کروں میں نے ایک اور خواب میں دیکھا ہے کہ ایک بہت بڑی ریاست ہے جس میں ایک سیب کا درخت ہے جس پر سونے کے سیب اگتے تھے لیکن اب درخت پر کوئی پتا بھی نہیں اُگتا آخر اس کی وجہ کیا ہے؟“
جن اکتا کر بولا:”تم مجھے تنگ کر رہی ہو دادی! سیب کے درخت کی جڑوں میں ایک بہت بڑا چوہا ان کو چوس رہا ہے اگر چوہے کو مار دیا جائے تو درخت پر دوبارہ سونے کے سیب اگنے لگیں گے۔“ یہ بتا کر وہ پھر گہری نیند سو گیا۔ دادی نے انتظار کیا اور جب وہ دوبارہ خراٹے لینے لگا تو تیزی سے اس نے جن کے سر سے تیسرا سنہری بال بھی توڑ لیا۔ اس دفعہ تو جن غصے سے چھلانگ لگا کر اٹھا لیکن دادی معافی مانگنے لگی۔وہ بولی:”بس آخری دفعہ معافی! مجھے پھر عجیب و غریب خواب آیا ہے کہ جھیل پر ایک کشتی والا ہے جو کشتی پر سوار یوں کو پار لگاتا ہے آخر اسے اس نوکری سے آزادی کب ملے گی؟“جن نے غصے سے دادی کو جواب دیا:”کشتی والے کو چاہیے کہ سواری جب کشتی پر بیٹھے تو اس کے ہاتھوں میں چپو پکڑا کر خود بھاگ جائے تب یہ فرض سواری کو نبھانا پڑے گا۔“ یہ کَہ کر جن گہری نیند سو گیا۔
اگلے دن صبح سویرے جن غار سے چلا گیا۔ دادی نے چیونٹی کو پھر سے لڑکا بنایا اور تینوں سنہری بال اس کے حوالے کیے اور اسے جلدی سے وہاں سے جانے کو کہا۔ لڑکے نے دادی کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے روانہ ہو گیا۔ وہ جلد ہی کشتی والے کے پاس پہنچا تو اس نے لڑکے کو جھیل کے پار اتار دیا۔ لڑکے نے کشتی والے کو بتایا:”جو سواری کشتی میں بیٹھے اپنے چپو اس کے حوالے کر کے بھاگ جانا۔“ کشتی والے نے اس کا شکریہ ادا کیا اور لڑکا وہاں سے روانہ ہو گیا۔
پھر وہ درخت والی ریاست میں پہنچا تو اس نے محافظوں کو بتایا:”چوہے کو مار دو جو درخت کی جڑوں کو چوس رہا ہے اورسونے کے سیب دوبارہ اگنے لگیں گے۔“ محافظوں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اسے بہت سی چاندی انعام میں دی۔ پھر وہ لڑکا چلتا ہوا اس شہر میں پہنچا جہاں فوارہ سوکھ گیا تھا۔ اس نے وہاں کے محافظوں کو بتایا:”پتھر کے نیچے بیٹھے ہوئے بڑے مینڈک کو مارو تو فوارہ سے پانی دوبارہ رواں ہو جائے گا۔“ محافظوں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور پھر انعام میں بہت سا سونا دے کر اسے روانہ کیا۔ لڑکا سفر کرتے ہوئے بادشاہی محل میں پہنچا اور ایک مخملی تھیلی میں جن کے تینوں سنہری بال رکھ کر بادشاہ کو پیش کیے۔ بادشاہ کو بہت افسوس ہوا کہ آخر وہ لڑکا یہ مہم سر کرنے میں کامیاب کیوں ہو گیا؟ وہ بولا:”تم نے واقعی شرط پوری کر دی ہے لیکن تم اتنے غریب ہو کہ میں شہزادی کی شادی تم سے نہیں کر سکتا۔“
لڑکے کو بادشاہ کی بات سن کر بہت غصہ آیا۔ اس نے بادشاہ کو وہ سونا اور چاندی دکھایا جو اس نے سفر کے دوران میں کمایا تھا وہ بولا:”میں اتنا غریب بھی نہیں ہوں جتنا آپ مجھے سمجھتے ہیں اور پھر بادشاہ سلامت! آپ نے وعدہ بھی تو کیا تھا۔“
جب لالچی بادشاہ نے اتنا سونا اور چاندی دیکھا تو وہ سب کچھ بھول کر لڑکے سے پوچھنے لگا کہ آخر یہ اسے کہاں سے اور کیسے ملا؟
لڑکا جلدی سے بولا:”بادشاہ سلامت! جھیل کے کنارے سے آپ کشتی والے سے کہو گے تو وہ آپ کو پار لے جائے گا اور جھیل کے پار آپ کو سونے اور چاندی کے پہاڑ نظر آ جائیں گے۔“
بادشاہ سے مزید انتظار نہ ہوا وہ تیزی سے جھیل کے کنارے پہنچا اور کشتی والے کو کَہ کر جلدی سے کشتی میں بیٹھ گیا۔ کشتی والا موقع کی تلاش میں تھا اس نے جلدی سے بادشاہ کو چپوا پکڑائے اور خود وہاں سے بھاگ گیا۔ بادشاہ کے بارے میں میرا اندازہ ہے کہ وہ ابھی تک کشتی میں سواریوں کو جھیل کے آر پار لے جا رہا ہوگا، البتہ شہزادی نے اپنی اچھی فطرت کے عین مطابق لڑکے سے شادی کرلی اور وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے۔
٭٭٭