جنت کے پھول ۔ ۲
طالب ہاشمی
۔۔۔۔۔۔
سب سے بڑا رحم کرنے والا
ایک دفعہ رسول پاک ﷺ ایک لڑائی سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ راستے میں آپ ﷺ کو ایک پڑاؤ ملا جہاں کچھ لوگ بیٹھے تھے۔ آپﷺ نے ان سے پوچھا ، تم کون ہو؟
انہوں نے کہا ، ہم مسلمان ہیں ۔
تھوڑی دور ایک خاتون بیٹھی چولہا سلگا رہی تھیں اور ان کا ننھا بچہ قریب بیٹھا تھا۔ جب آگ خوب بھڑک اٹھی تو وہ خاتون بچے کو گود میں لے کر رسول پاک ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول ﷺ!ایک ماں کو اپنے بچے سے جس قدر محبت ہے کیا اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے اس سے زیادہ محبت نہیں ہے ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:’’بے شک ‘‘
خاتون بولیں :۔۔۔۔۔۔۔
’’کوئی ماں تو اپنے بچے کوآگ میں نہیں ڈال سکتی ۔‘‘
مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی ماں اپنے بچے کو آگ میں نہیں ڈال سکتی تو اللہ تعالیٰ جو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے ۔ اپنے بندوں کو دوزخ کی آگ میں کیسے ڈالے گا۔
ان کی بات سن کر رسول پاک ﷺ رونے لگے ، پھر سر اٹھا کرفرمایا:
’’اللہ صرف اسی بندے کو دوزخ میں ڈالے گا جو اس کانافرمان ہے اور اس کو ایک نہیں کہتا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
لوگوں پر سختی نہ کرو
ایک دفعہ ایک گنوارنے مسجد میں پیشاب کر دیا ۔ لوگ دوڑے کہ اسے روکیں اور ڈانٹیں ڈپٹیں۔
رسول پاک ﷺ نے لوگوں سے فرمایا:۔۔۔۔۔
’’اسے کچھ نہ کہو ۔ تم لوگ تودُنیا میں آسانی اور نرمی کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہو،لوگوں کو تنگ کرنے کے لئے مقرر نہیں کئے گئے ۔ بس یہ کرو کہ پانی کا ایک بڑا ڈول لا کر (پیشاب والی جگہ پر ) بہادو ۔
پھر آپﷺ نے اس گنوا ر کو اپنے قریب بلا کر فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔
’’دیکھو !مسجدیں اللہ کی یاد اور ذکر کے لئے ہیں ،ان میں پیشاب وغیرہ کرنا منع ہے ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
سختی سے نرمی بہتر ہے
ایک دفعہ بارش نہ ہونے کی وجہ مدینہ منورہ میں قحط پڑ گیا ۔ عباد نام کے ایک صاحب بھوک سے مجبور ہو کر ایک باغ میں گھس گئے اور کچھ پھل توڑ کر کھائے اور کچھ اپنے پاس رکھ لئے ۔ اتنے میں باغ کا مالک آگیا ۔ اس نے ان کو پکڑ کر مارااور پھر ان کا کرتا اتر وا لیا۔
عباد شکایت لے کر رسول پاک ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ باغ کا مالک بھی ان کے ساتھ ہی آیا ۔ اس نے آپﷺ کو بتایا کہ عباد نے مجھ سے پوچھے بغیر میرے باغ سے پھل توڑے، اس لئے میں نے اس کو یہ سزا دی ۔
رسول پاک ﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔
’’یہ جاہل تھا، تمہیں چاہیے تھا کہ اس کو نرمی اور محبت سے سمجھاتے ، بھوکا تھا اس کو کھانا کھلاتے ۔‘‘
پھر آپﷺ نے عباد کا کرتا واپس دلوایااو ر انہیں بہت سا غلہ اپنے پاس سے دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
دُشمن دوست بن گیا
جس زمانے میں رسول پاک ﷺ مکے سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے ، وہاں انصار کے علاوہ بہت سے یہودی بھی رہتے تھے۔ ا ن میں سے ایک کانام زید بن سعنہ تھا۔ وہ اپنے مذہب کے بہت بڑے عالم اور دولت مند آدمی تھے۔ ایک دن انہوں نے دیکھا کہ رسو ل پاک ﷺ اپنے حجرے سے باہر نکلے ۔ آپﷺ کے ساتھ حضرت علیؓ بھی تھے۔ اسی وقت ایک دیہاتی آدمی آپﷺ کے پا س آیا اورکہنے لگا :۔۔۔۔۔۔۔
’’اے اللہ کے رسول،فلاں گاؤں کے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ میں ہمیشہ ان سے یہ کہتا تھا کہ اسلام قبول کر لو تو اللہ تمہیں بہت رز ق دے گا لیکن اللہ کا کرنا کہ اس سال ہمارے علاقے میں بارش نہیں ہوئی اور قحط پڑ گیا ہے ۔ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ لوگ اسلام چھوڑ نہ دیں ۔ اگر آپ ان کی مدد کے لئے کچھ غلہ یا مال بھیجیں تو بہتر ہے ۔‘‘
اس کی بات سن کر رسول پاک ﷺ نے حضرت علیؓ کی طرف دیکھااور پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ ہے ؟
انہوں نے جواب دیا:۔۔۔۔
’’یا رسول اللہ !اس وقت میرے پاس کچھ موجود نہیں ۔‘‘
اب زید بن سعنہ ، رسول پاک ﷺکے قریب گئے اور کہا :۔۔۔۔
’’اگر آپ فلاں باغ کی اتنی کھجوریں مجھے مقررہ وقت پر دینے کا وعدہ کریں تو میں قیمت اسی وقت دے دیتا ہوں۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا :۔۔۔۔۔
’’میں کسی خاص باغ کی کھجوریں دینے کا وعدہ نہیں کرتا ، وہاں تمہیں مقررہ وقت پر کھجوریں مل جائیں گی خواہ یہ کسی بھی با غ کی ہوں۔‘‘
زید بن سعنہ نے کہا :۔۔۔۔۔۔۔’’مجھے منظور ہے ۔‘‘
ٍ پھر انہوں نے اپنی تھیلی کھو لی اور اس میں سے تیس تو لے سونا نکال کر رسول پاک ﷺ کو مقررہ مدت کے لئے دے دیا ۔ آپ ﷺ نے وہ سونا اس دیہاتی آدمی کو دے دیااور فرمایا کہ اس کو انصاف کے ساتھ اپنے گاؤں کے لوگوں میں بانٹ دو۔
ابھی کھجوریں واپس کرنے کی مدت میں دو تین دن باقی تھے کہ زید بن سعنہ رسول پاک ﷺ کے پاس آئے اور آپ ﷺ کے کرتے اور چادر کے پلے پکڑ کر سخت غصّے سے کہا:۔۔۔۔۔۔
’’اب تک تم نے میرا قرض کیوں ادا نہیں کیا ، خدا کی قسم میں تم سب کو جو عبدالمطلب کی اولاد ہو، خوب جانتا ہوں کہ بہانے بنا کر قرض واپس نہیں کرتے ۔‘‘
حضرت عمرؓ بھی وہاں موجود تھے ۔۔۔۔۔۔۔ان کو زید بن سعنہ کی بدتمیزی پر سخت غصّہ آیا۔ کڑک کر بولے :
’’او خدا کے دشمن تو رسول اللہ ﷺ کی شان میں کیا بک رہا ہے ۔ اگر مجھے آپ ﷺ کا ڈر نہ ہوتا تو میں تجھے ابھی قتل کر دیتا ۔‘‘
رسول پاک ﷺ نے مسکراتے ہوئے نرمی سے فرمایا:
’’اے عمر ! ہمیں تم سے یہ امید تھی کہ تم اس سے کہتے کہ نرمی سے اپنا قرض مانگواور مجھ سے کہتے کہ میں وقت پر اس کا قرضہ ادا کر دوں ۔ اب جاؤ اور اس کا قرضہ ادا کر دو اور تم نے جو اسے ڈانٹا ہے اس کے بدلے میں بیس صاع (تقریباً دو من ) کھجوریں اور (زیادہ ) دے دو ۔‘‘
حضرت عمرؓ نے اسی وقت زید بن سعنہ کو ساتھ لے کر تیس تو لے سونے کی قیمت کی کھجوریں انہیں دے دیں ،جب وہ ان کو زیادہ کھجوریں دینے لگے تو انہوں نے پوچھا کہ یہ کیسی ہیں ؟
حضرت عمرؓ نے فرمایا ، میں نے جو تمہیں ڈانٹا یہ اس کا بدلہ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ان کے دینے کا بھی حکم دیا ہے ۔
زید بن سعنہ نے کہا ، ’’اے عمر کیا تم مجھے پہنچانتے ہو ؟‘‘
حضرت عمرؓ نے فرمایا ،’’نہیں۔ ‘‘
زید بن سعنہ نے کہا ،’’میں زید بن سعنہ ہوں ۔‘‘
حضرت عمرؓ نے فر ما یا ،’’وہی زید بن سعنہ جو یہو دیوں کے بہت بڑے عالم مشہور ہیں۔‘‘
زید بن سعنہ نے کہا :۔۔۔۔۔۔’’ہاں‘‘
حضرت عمرؓ نے فر ما یا:۔۔۔۔۔
’’ اتنے بڑے عا لم ہو کر تم نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ گستاخی کیوں کی ؟‘‘
زین بن سعنہ نے جو اب دیا:۔۔۔۔۔۔
با ت یہ ہے کہ نبوت کی نشا نیاں تو رسول اللہ ﷺ کے چہرۂ مبارک سے ظا ہر تھیں،صرف دو نشا نیاں ایسی رہ گئی تھیں جن کو میں دیکھنا چاہتا تھا۔ ایک یہ کہ ان کی نر م دلی اور بر داشت ان کے غصے سے بڑ ھ جا تی ہے اور دوسر ی یہ کہ جاہلوں کی حر کتیں ان کی نرم دلی اور برداشت کو اور بڑھا دیتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔اب میں نے یہ نشانیاں دیکھ لی ہیں اس لئے مسلمان ہونا چاہتا ہوں ۔‘‘
پھر وہ رسولِ پاک ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر کے آپﷺ کے پیارے ساتھی بن گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
حدیث نبوی ﷺ
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کوکون سا کام سب سے زیادہ پیاراہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ نماز کااس کے وقت پر پڑھنا ۔۔۔۔۔۔میں نے عرض کیا کہ پھر کون سا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ماں باپ سے بھلائی کرنا۔۔۔۔۔۔۔میں نے عرض کیا کہ پھر کون سا ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔(نسائی:۶۱۱)
۔۔۔۔۔۔۔
رسولِ پا کﷺ خوش ہو گئے
ایک دفعہ عربوں کا پورا قبیلہ رسول پاک ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ یہ لوگ اس قدر غریب تھے کہ کسی کے جسم پر ڈھنگ کاکپڑا نہ تھا۔ سب پھٹے پرانے کمبل اوڑھے اور چیتھڑے لٹکائے ہوئے تھے ۔ کسی کے پاؤ ں میں جوتا نہ تھااور انہوں نے اپنی تلواریں گلے میں لٹکا رکھی تھیں ۔ ان کی حالت دیکھ کر آپﷺ کا دل بھر آیا اور آپﷺ اٹھ کر گھر کے اندر تشریف لے گئے ۔پھر باہر نکل کر حضرت بلا لؓ کو اذان دینے کاحکم دیا۔ انہوں نے اذان دی ۔ پھر آپﷺ نے نماز پڑھائی ۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ ﷺ نے خطبہ دیا۔ خطبے کے بعد آپﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ ان غریب دیہاتیوں کی مدد کے لئے جو توفیق ہو ، لاؤ ، دینارہو، درہم ہو، گندم ہو، کھجور ہو۔۔۔۔۔۔۔اگر کسی کے پاس صرف آدھی کھجور ہو تو وہی لے آئے ۔
آپﷺ کا ارشاد سن کر مدینہ منورہ کے رہنے والے اٹھے اور درہموں سے بھرا ہواایک بڑا تھیلا اٹھا کر لے آئے۔ اس کے بعد دوسرے لوگ بھی اپنی طاقت کے مطابق دھڑا دھڑ چیزیں لانے لگے یہاں تک کہ دو بڑے ڈھیر لگ گئے ۔ ایک غلے کا دوسرا کپڑوں کا۔ ان کو دیکھ کر رسول ﷺ کا چہرۂ مبارک خوشی سے چمک اٹھا۔
آپﷺ نے ان غریب دیہاتیوں میں یہ چیزیں تقسیم فرمائیں تو وہ بھی خوش ہو گئے اور دعائیں دینے لگے ۔ پھر رسول پاک ﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔
’’جو شخص کوئی اچھاطریقہ ایجاد کرے تو جو لوگ اس کودیکھ کر اس نیک طریقے کو اختیار کریں گے ، ان سب کی نیکیوں کے برابر ثواب اس اچھے طریقے کے جاری کرنے والے کوبھی ملے گااور جو شخص کوئی بُری رسم جاری کرے گا تو جو اس کی دیکھا دیکھی اس بُرے طریقے کو اختیار کرے تو سب کی بدیوں کے برابر بدیاں اس بُرے طریقے کے جاری کرنے والے حساب کے حساب میں بھی لکھی جائیں گی ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
برکت والے ہاتھ
حضرت خباب بن ارتؓ رسو ل پا ک ﷺکے ایک پیارے ساتھی تھے ۔ انہوں نے اسلام کی خاطر بڑی تکلیفیں اٹھائی تھیں ۔ ایک دفعہ انہیں کافروں سے لڑنے کے لئے گھر سے دور جانا پڑا ۔ جاتی دفعہ وہ گھر والوں کے پا س ایک بکری چھوڑ گئے اور ان سے کہہ گئے جب تم اس بکری کا دودھ دوہنا چاہو تو اس کواصحاب صفہ کے پاس لے جانا۔ چنانچہ ان کے جانے کے بعد گھر والوں کو دودھ کی ضرورت پڑی تو ان کی بیٹی بکری کو پکڑ کر اصحاب صفہ کے پاس لے گئیں ۔ اس وقت وہاں رسول پا ک ﷺبھی تشریف رکھتے تھے ۔ آپﷺ نے اس بکری کے پیر رسی سے باندھ دئیے پھر آپﷺ نے حضرت خبابؓ کی بیٹی سے فرمایا کہ تمہارے گھر میں جو سب سے بڑا برتن ہے وہ میرے پاس لے آؤ ۔ وہ گھر گئے تو اس برتن کے سوا جس میں آٹا گوندھا جاتا انہیں کوئی اور بڑا برتن نہ ملا ۔ اسی کو لے آئیں ۔
رسول پاک ﷺ نے اسی برتن میں بکری کا دودھ دوہنا شروع کیا یہاں تک کہ وہ بھر گیا ۔ آپ ﷺ نے حضرت خبابؓ کی بیٹی سے فرمایا ، اس دودھ کولے جاؤ، خود بھی پیواور اپنے پڑوسیوں کو بھی پلاؤ ۔ جب تم اس بکری کا دودھ دوہنا چاہو تو اسے میرے پاس لے آیا کرو چنانچہ وہ صبح شام اس بکری کو رسول پاک ﷺ کے پاس لے جاتی تھیں اور آپ ﷺ اس کا دودھ دوہ دیتے تھے ۔ یہ دودھ اتنا زیادہ ہوتا تھا کہ ختم ہونے میں نہ آتا تھا۔ جب حضرت خبابؓ لڑائی سے واپس آئے اور بکری کو دوہا تو اس نے اسی قدر دودھ دیا جتنا ان کے لڑائی پر جانے سے پہلے دیا کرتی تھی ۔ گھر والوں نے کہا، آپ نے تو اس بکری کو خراب کر دیا۔
انہوں نے پوچھا ، کیا بات ہے ؟
گھر والوں نے کہا ، یہ بکری تو اتنا بڑا برتن بھر کر دودھ دیتی تھی ۔
حضرت خبابؓ نے پوچھا، اس کو کون دوہا کرتا تھا ؟
گھر والوں نے کہا ،رسول اللہ ﷺ۔
حضرت خبابؓ نے کہا :
’’میرے ہاتھ کو رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک کے برابر سمجھ رہی ہو؟خدا کی قسم آپﷺ کا دست مبارک میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ بر کت والا ہے ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
برکت والی انگلیاں
عرب میں ایک قبیلہ ’’بہراء ‘‘نام کاتھا ۔ہجرت کے نو یں سال اس قبیلے کے تیر ہ آدمیوں کی ایک جما عت اپنے وطن سے مد ینہ منورہ آئی ۔رسول پا ک ﷺ کے ایک پیا رے سا تھی حضرت مقدادؓ نے ان کو اپنا مہمان بنا یا کیو نکہ ان کا تعلق بھی اسی قبیلے سے تھا ۔انہوں نے مہما نو ں کے لئے ایک لذیذ کھا نا’’ حیس ‘‘تیا ر کر ایا ۔یہ کھا نا کھجور، ستو اور گھی ملا کر تیار کیا جا تا تھا۔ مہما نو ں نے اسے مزے لے لے کر کھا یا۔
حضرت مقد ادؓنے اس میں سے کچھ حیس رسول پاک ﷺ کی خد مت میں بھیجا ۔آپﷺنے کچھ کھا کر بر تن واپس کر دیا۔ اب حضرت مقد ادؓ دونوں وقت وہی بر تن مہمانو ں کے سامنے رکھتے۔ وہ خوب سیر ہو کر کھا تے مگر کھا نا کم ہو نے میں نہ آتا۔ ایک دن انہو ں نے حضرت مقد ادؓ سے پوچھا: ۔ ۔ ۔ ۔
’’ مقد اد! ہم نے سنا تھا کہ مد ینہ والوں کی خو راک بہت سادہ ہو تی ہے لیکن تم تو ہمیں ہر روز ایسا مزے دار کھا نا کھلا تے ہو جس پر خرچ اٹھتا ہے ۔‘‘
حضرت مقدادؓ نے کہا:
’’ بھا ئیو یہ سب کچھ رسول اللہ ﷺ کی بر کت ہے کیو نکہ آپﷺ کی مبا رک انگلیا ں اس کھا نے کو لگ چکی ہیں ۔‘‘
یہ سنتے ہی وہ سب پکا را ٹھے :۔۔۔۔۔۔۔
’’بے شک محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔‘‘
اس کے بعد وہ سب رسو ل پا ک ﷺ کی خد مت میں حا ضر ہو ئے اور خوشی خو شی اسلام قبو ل کر لیا۔ پھر وہ چند دن آپ سے قر آن پا ک پڑھتے رہے اور دین کی باتیں سیکھتے رہے ۔
جب وہ مدینہ منورہ سے اپنے وطن کے لئے روانہ ہونے لگے تو رسول پاک ﷺنے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ دے دلاکر رخصت فر ما یا۔
۔۔۔۔۔۔۔
سو نے کی انگو ٹھی
ایک دفعہ ایک صا حب رسول پا کﷺکی خد مت میں حا ضر ہو ئے تو آپ ﷺ نے ان کے ہا تھ میں سو نے کی انگو ٹھی دیکھی (یعنی سو نے کی انگو ٹھی انہو ں نے اپنی انگلی میں پہن رکھی تھی )آپﷺ نے یہ انگو ٹھی ان کے ہا تھ سے نکا ل کر پھینک دی اور فر ما یا :
’’تم میں سے کسی کا یہ حا ل ہے کہ وہ اپنی خوا ہش سے دوز خ کا انگا رہ لے کر اپنے ہا تھ میں پہن لیتا ہے۔‘‘( یعنی کسی مرد کے لئے سو نے کی انگو ٹھی پہننا ایسا ہے جیسے اس نے دوزخ کا انگارہ بڑے شو ق سے ہا تھ میں لے رکھا ہے)
پھر جب رسو ل پا کﷺ وہا ں سے تشریف لے گئے تو جن صا حب کے ہا تھ سے آپ ﷺ نے سو نے کی انگو ٹھی نکا ل کر پھینک دی تھی، کسی نے ان سے کہا :۔۔۔۔۔۔۔
’’اپنی انگو ٹھی اٹھا لو اور اسے اپنے کا م میں لا ؤ۔‘‘
( مطلب یہ کہ اسے بیچ ڈالو یا گھر کی عو ر تو ں میں سے کسی کو دے دو)
ان صا حب نے جو اب دیا:۔۔۔۔۔۔۔
’’ خدا کی قسم جب رسول پا کﷺ نے اس کو پھینک دیاہے تو اب کبھی میں اس کو نہیں اٹھا ؤ ں گا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
جانوروں پر رحم کرو
ایک مر تبہ رسول پا کﷺ کہیں تشر یف لے جا رہے تھے، راستے میں آپ ﷺ کو ایک اونٹ دکھا ئی دیا جو بھو ک کی وجہ سے بہت کمزور ہو گیا تھا۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کا ما لک اس کے کھا نے پینے کا خیا ل نہیں رکھتا۔ آپﷺ کو او نٹ پر بڑا رحم آیا اور فر ما یا:۔۔۔۔۔۔’’ لو گو ان بے ز با نو ں کے معا ملے میں اللہ سے ڈرو ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ رسو ل پاک ﷺ نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے اونٹ کوتیز چلا رہا ہے۔ او نٹ بیما ر معلو م ہوتا تھااور اس پر بہت سا بو جھ لد ا ہو ا تھا مگر وہ شخص اس کو مار مار کر چلنے پر مجبو ر کر تا تھا۔آپﷺ نے اس شخص سے فر ما یا:۔۔۔۔۔۔۔’’ اپنے جا نو ر پر رحم کرو۔ یہ اونٹ بیما ر اور کمز ور ہے اس پرظلم مت کر و ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ رسول پاک ﷺ ایک انصا ری کے با غ میں تشر یف لے گئے۔ وہا ں آپ ﷺ نے ایک اونٹ دیکھا جو بھو ک کی وجہ سے بہت کمز ور ہو گیا تھا اور بلبلا رہا تھا۔ آپﷺ نے بڑی محبت سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور پھر اس کے ما لک کو بلا کر فر ما یا:۔۔۔۔۔ ’’اس جا نو ر کے بارے میں تم اللہ سے نہیں ڈرتے ؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
ہر جاندار سے اچھا سلوک کرو
ایک دفعہ رسول پاک ﷺ نے اپنے پیارے ساتھیوں کو یہ سچی کہا نی سنائی :۔۔۔۔۔۔۔
’’ایک مسافر کو راستے میں سخت پیاس لگی ۔ اتفاق سے اس کو ایک کنواں نظر آیا ۔ اس نے کنوئیں میں اتر کر پانی پی لیا۔ باہرنکلا تو اسے ایک کتا نظر آیا جو پیاس سے سخت بے قرار تھا ، اور گیلی مٹی چاٹ رہا تھا ۔ وہ شخص پھر کنوئیں میں اترا ۔ اپنے موزے میں پانی بھر کر باہر لایا اور کتے کو بھی پلا دیا ۔
اللہ تعالیٰ کو اس کی یہ نیکی اتنی پسند آئی کہ اس نے اس شخص کو بخش دیا ۔
آپ ﷺ کے ساتھیوں نے یہ کہانی سن کر عرض کیا :
’’اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ !کیا جانوروں سے اچھا سلوک کرنے پر بھی ثواب ملتا ہے ۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا:’’ہاں ، ہر جاندار سے اچھا سلوک کرنے پر ثواب ملتا ہے ۔‘‘
آپ ﷺنے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جو مسلمان کوئی درخت لگاتا یا کھیتی باڑی کرتا ہے اور اس سے انسان اور حیوان فائدہ اٹھاتے ہیں تو وہ اس کے لئے صدقہ یا ثواب کاکام بن جاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
ایک مرتبہ رسول پاک ﷺ نے ایک گدھے کو دیکھا کہ جس کے منہ پر کسی نے داغ دیا تھااور اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا ۔ آپ ﷺنے فرمایا، اللہ اس پر لعنت کرے جس نے اس کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
ایک مرتبہ رسول پاک ﷺ نے صحابہؓ کو بتایا کہ ایک عورت نے بلی باندھ رکھی تھی ، اس کو نہ تو خود کھلاتی تھی اور نہ آزاد کرتی تھی کہ خود کیڑے مکوڑے کھا کر اپنا پیٹ بھر لے ۔ یہاں تک کہ وہ بلی مر گئی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس عورت کو (اس ظلم کے بدلے میں ) دوزخ میں بھیج دیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔
چیونٹیوں کو مت جلاؤ
ایک مرتبہ رسول پاک ﷺ سفر کر رہے تھے ۔ بہت سے صحابہؓ بھی آپﷺ کے ساتھ تھے ۔ راستے میں ایک جگہ آپ ﷺ نے پڑاؤ ڈالا ۔ وہاں کسی ضروری کام کے لئے آپﷺ کچھ دیر پڑاؤسے باہر تشریف لے گئے ۔ آپﷺ کی غیر حاضری میں ایک صاحب نے کھانا تیار کر نے کے لئے ایسی جگہ چولہا بنا کر آگ جلائی جہاں زمین پر یا درخت پر چیونٹیوں کاسوراخ تھا۔ آپﷺ واپس تشریف لائے تو آپﷺ کی نظر چولہے اور چیونٹیوں پر پڑی ۔
آپﷺ نے پوچھا:۔۔۔۔۔۔۔
’’یہ چولہا کس نے بنا کر آگ جلائی ہے ۔‘‘
ا ن صاحب نے عرض کیا:۔۔۔۔۔۔
’’اے اللہ کے رسول ﷺ !یہ کام میں نے کیا ہے ۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا :۔۔۔۔۔۔۔
’’بجھاؤ ، بجھاؤ ‘‘
آپ ﷺ کے حکم کا مقصد یہ تھا کہ چیونٹیوں کو تکلیف نہ پہنچے یا وہ جل نہ جائیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔
پرندے کے بچے
ایک دفعہ رسول پا کﷺ کے ایک پیارے ساتھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ ان کے ہاتھ میں کسی پرندے کے بچے تھے جنہیں انہوں نے ایک کپڑے کے نیچے چھپا رکھا تھا۔یہ بچے چوں چوں کر رہے تھے ۔ رسول پاک ﷺ نے ان کی آواز سنی تو اس صحابی سے پوچھا،’’یہ بچے کیسے ہیں ؟‘‘
انہوں نے عرض کیا:۔۔۔۔۔۔۔’’اے اللہ کے رسول ﷺ!میں ایک جھاڑی کے پاس سے گزر رہا تھا کہ ان بچوں کی آواز سنی ، میں ان کو جھاڑی سے نکال لایا۔ ان کی ماں نے دیکھا تو وہ بے قرار ہو کر میرے سر پر چکر لگانے لگی ۔‘‘
’’آپ ﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔
’’فوراًجاؤ اور ان بچوں کو وہیں رکھ دو جہاں سے لائے ہو۔‘‘
انہوں نے آپﷺ کے حکم کی تعمیل کی۔ اب بچوں کی ماں بھی خوشی خوشی ان کے پاس پہنچ گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔
حدیث نبوی ﷺ
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :
’’چھوٹا بڑے کو ، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے آدمی زیادہ آدمیوں کو سلام کریں ۔‘‘
(بخاری :۶۲۳۱،مسلم :۵۷۷۲)
۔۔۔۔۔۔۔
چڑیا کا انڈا
ایک دفعہ رسول پاک ﷺ سفر کر رہے تھے ۔ آپﷺ کے بہت سے پیارے ساتھی بھی آپ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ راستے میں ایک جگہ آپﷺ ٹھہر گئے تا کہ کچھ دیر سستا کر آگے چلیں ۔
رسول پاک ﷺ کے ایک ساتھی وہاں ادھر ادھر پھر رہے تھے کہ انہیں چڑیا کاایک گھونسلہ نظر پڑا ۔ انہوں نے اس میں ہاتھ ڈا لاتو وہاں ایک انڈا پڑا تھا ۔ انہوں نے اسے اٹھا لیا۔ چڑیا بے چین ہو گئی اور ان کے سر پر منڈلانے لگی ۔
رسول پاک ﷺ نے چڑیا کو اس طرح بے قرار دیکھا تو آپﷺ نے فرمایا :۔۔۔۔’’کس نے اس چڑیا کا انڈا اٹھا کر اس کو تکلیف پہنچائی ۔‘‘
ان صاحب نے عرض کیا:۔۔۔۔۔۔’’یا رسول اللہ ﷺ !میں نے اس کاانڈا اٹھا یا ہے ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔’’یہ انڈا وہیں رکھ دو ۔‘‘
انہوں نے انڈا چڑیا کے گھونسلے میں رکھ دیا۔ چڑیا خوش ہو گئی اور آرام سے اپنے گھونسلے میں بیٹھ گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔
میں بادشاہ نہیں ہوں
ایک دفعہ ایک شخص رسول پاک ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپﷺ کو دیکھ کر کانپنے لگا۔ آپﷺ نے اس کو تسلی دی اور فرمایا:
’’گھبراؤ نہیں ، میں بادشاہ نہیں ہوں ۔ قریش کی ایک (غریب ) عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت پکا کر کھایا کرتی تھی۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
ایک مرتبہ رسول پاک ﷺ نے ایک دکان سے پاجامہ خریدا ۔ اٹھنے لگے تو دکاندار نے آپﷺ کا دست مبارک چومنا چاہا لیکن آپﷺ نے اسے پسند نہ کیا ، اپنا دست مبارک پیچھے ہٹا لیااور فرمایا: ۔۔۔۔۔۔
’’یہ تو عجم کے لوگوں کا طریقہ ہے ، میں بادشاہ نہیں ہوں ۔ تم ہی میں سے ایک ہوں ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن رسول پاک ﷺ گھر سے نکلے ،لوگ آپﷺ کو دیکھ کر ادب سے کھڑے ہو گئے ۔ آپ ﷺ نے ان کو منع فرمایا کہ میرے آنے پر کھڑے نہ ہوا کرو۔
۔۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ رسول پاک ﷺ کے ایک پیارے ساتھی نے باتیں کرتے کرتے کہہ دیا ، جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں ۔
آپﷺ نے فرمایا:
’’تم نے تو مجھے اللہ کا شریک بنا دیا، یوں کہو کہ جو اللہ تعالیٰ (اکیلا) چاہے ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ رسول پاک ﷺ سفر میں تھے کہ آپﷺ کی جوتی کا تسمہ ٹوٹ گیا۔ آپ اسے ٹھیک کرنے لگے تو آپﷺ کے ایک پیارے ساتھی نے عرض کیا:۔۔۔۔۔
’’یا رسول اللہ ! لائیے میں اسے ٹانک دوں ۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔
’’نہیں مجھے اپنا ذاتی کام دوسروں سے کرانا پسند نہیں ہے ۔‘‘
پھر آپﷺ نے خود تسمہ ٹانکا۔
۔۔۔۔۔۔۔
حدیث نبوی ﷺ
حضرت عبداللہ بن عمر وؓ کہتے ہیں کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا کہ جولوگ اللہ کی مخلوق پر رحم کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرتا ہے، اس لئے تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا ۔
( ابو داؤد :حدیث نمبر ۴۹۴۳)
۔۔۔۔۔۔۔
میں ’’عبد شکور ‘‘کیوں نہ بنوں
رسول پاک ﷺ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہتے تھے اور لوگوں کو بھی نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کرتے رہو۔
آپﷺ کولڑائی میں فتح ہوتی یا کوئی اور خوشی نصیب ہوتی تو آپﷺ فوراً سجدہ میں گر جاتے اور اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ۔
آپ ﷺ سب لوگوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے تھے ۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ آپ ﷺ ساری ساری رات کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کاذکر اور شکر کرتے رہتے ۔ یہاں تک کہ آپﷺ کے پاؤ ں سوج جاتے تھے ۔
ایک دفعہ صحابہؓ نے عرض کیا:۔۔۔۔۔۔
’’اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے بخش دیاہے پھر آپ کواتنی عبادت کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔
’’کیا میں ’’عبد شکور ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا بہت شکر کرنے والا بندہ نہ بنوں ؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
حقیقی (اصلی ) صبر کون سا ہے
ایک دن رسول پاک ﷺ ایک تازہ بنی ہوئی قبر کے پاس سے گزرے ۔ یہ کسی بچے کی قبر تھی ۔ اس بچے کی ماں قبر کے قریب بیٹھ کر بہت واویلا کر رہی تھی ۔ آپﷺ نے ان سے فرمایا:۔۔۔۔۔۔
’’بی بی، صبر کرو۔‘‘
وہ آپﷺ کو پہچانتی نہیں تھیں ۔ خفا ہو کر بولیں :۔۔۔۔۔۔
’’جاؤ اپنا کام کرو ، تمہیں کیا معلوم کہ اس وقت مجھ پر کتنی بھاری مصیبت آپڑی ہے ۔ میر اتو غم سے کلیجہ پھٹا جا رہا ہے اور تم مجھے صبر کی تلقین کرتے ہو ۔‘‘
آپﷺ نے ان کو کچھ جواب نہ دیا اور خاموشی سے آگے بڑھ گئے ۔ بعد میں کسی شخص نے ان خاتون کو بتایا کہ بی بی تم کو صبر کی تلقین کرنے والے رسول اللہ ﷺ تھے۔
یہ سن کر وہ بہت شرمندہ ہوئیں ، رونا دھوناچھوڑ کر دوڑتی ہوئی آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور سلام کے بعد عرض کیا :۔۔۔۔۔۔۔
’’اے اللہ کے رسول ﷺ !میں آپ ﷺ کو پہچانتی نہ تھی ۔ میری گستاخی معاف فرما دیجئے ۔‘‘
آپﷺ نے صرف اتنا فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔
’’بی بی !حقیقی (اصلی ) صبر وہی ہوتا ہے جو اس وقت کیا جائے جب مصیبت بالکل تازہ ہو ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
صبر کا پھل
رسو ل پاک ﷺ کے ایک پیارے ساتھی آپﷺ کی مجلس میں اکثر حاضر ہوا کرتے تھے ۔ ان کا ایک بچہ تھا۔ وہ اس کو بھی اپنے ساتھ لے آتے تھے ۔ یہ بچہ حضورﷺ کی پشت کی جانب سے آتا ،آپ ﷺ اس کو اپنے سامنے بٹھا لیتے تھے ۔ خدا کا کرنا وہ بچہ فوت ہو گیا ۔ اس کے والد کو اس کی جدائی کاایسا صدمہ ہوا کہ وہ کئی دن تک رسول پاک ﷺ کی مجلس میں نہیں آئے ۔
رسول پاک ﷺ نے لوگوں سے پوچھا:
’’وہ فلاں شخص کیوں نہیں آتا ، کیا بات ہے ؟‘‘
لوگوں نے عرض کیا:۔۔۔۔۔۔
’’ان کا چھوٹا بچہ جسے آپ نے دیکھا تھا، فوت ہو گیا، شاید اسی کے غم میں وہ نہیں آرہے ہیں ۔‘‘
رسول پاک ﷺ نے ان سے ملاقات کی اور بچے کے بارے میں دریافت کیا۔
انہوں نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ﷺ !میرا وہ بچہ فوت ہو گیاہے ۔‘‘
آپ ﷺ نے انہیں صبر کی تلقین فرمائی ۔پھر فرمایا:۔۔۔۔۔
’’بتاؤ تمہیں کیا چیز پسند ہے ؟کیا یہ بات پسند ہے کہ وہ بچہ زندہ رہے یا یہ پسند ہے کہ وہ بچہ پہلے جائے اور جنت کا دروازہ تمہارے لئے کھولے اور جب تم پہنچو تو وہ استقبال کرے ۔‘‘
ان صاحب نے عرض کیا:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’یا رسول اللہ ﷺ! مجھے یہ بات پسند ہے کہ وہ مجھ سے پہلے جنت کا دروازہ کھولے ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔
’’یہ بچہ اس لئے تمہاری زندگی میں فوت ہوا ہے کہ وہ تمہارے لئے جنت کا دروازہ کھولے ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
کوئی اندھا جنت میں نہ جائے گا
ہمارے رسول پاک ﷺ لوگوں سے بڑی محبت اور شفقت کے ساتھ ملتے تھے اور آپﷺ کا چہرہ مبارک ہمیشہ کھلا رہتا تھا۔ خشک مزاجی اور روکھے پن کو آپﷺ بالکل پسند نہیں کرتے تھے اور کبھی کبھی لوگوں سے پاکیزہ ہنسی مذاق بھی کر لیتے تھے ۔ ایک دفعہ ایک اندھا رسول پاک ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوااور عرض کیا:۔۔۔۔۔۔۔
’’اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا میں جنت میں داخل ہو سکوں گا؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا :۔۔۔۔۔۔
’’نہیں بھائی ! کوئی اندھا جنت میں نہ جائے گا ۔‘‘
یہ سن کر اندھا رونے لگا۔
آپ ﷺ ہنس پڑے اور فرمایا :۔۔۔۔۔۔
’’بھائی !(میری بات کا مطلب یہ تھا)کہ کوئی شخص اندھا ہونے کی حالت میں جنت میں داخل نہ ہو گابلکہ سب کی آنکھیں روشن ہوں گی ۔‘‘
یہ سن کر اندھا بے اختیار ہنسنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح ایک بڑھیا آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپﷺ سے درخواست کی کہ میرے لئے جنت کی دعا کریں ۔
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔
’’کوئی بڑھیا جنت میں نہ جائے گی ۔‘‘
وہ رونے لگیں ۔آپﷺ نے ہنستے ہوئے فرمایا:۔۔۔۔۔
’’(میرے کہنے کامطلب یہ تھاکہ ) جنت میں جانے والی سب عورتیں جوان ہو جائیں گی ۔کوئی عورت ایسی حالت میں جنت میں داخل نہ ہوگی کہ وہ بوڑھی ہو۔‘‘
یہ سن کر وہ خوش ہو گئیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔
اونٹ کا بچہ
ٓ ایک دفعہ رسول پاک ﷺ کی کھلائی حضرت امّ ایمنؓ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا:۔۔۔۔۔۔۔
’’اے اللہ کے رسول ﷺ! مجھے اور میرے گھر والوں کو کہیں آنے جانے اور سامان لانے لے جانے میں بہت تکلیف ہو تی ہے ۔ سواری کاکوئی جانور ہمارے پاس نہیں ہے ۔ آپﷺ مجھے ایک اونٹ عطا فرمائیں ۔‘‘
حضرت اُمّ ایمن بوڑھی خاتون تھیں۔ انہوں نے آپﷺ کے والداور والدہ کی خدمت بھی کی تھی اور آپﷺ کو بھی بچپن میں کھلایا تھا۔ اس لئے آپﷺ ان کی بہت عزت کرتے تھے اور ان کوا می کہہ کر بلایا کرتے تھے ۔ انکی درخواست سن کر آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔
’’امی !میں تو آپ کو اونٹ کا ایک بچہ دوں گا ۔‘‘
وہ بولیں :۔۔۔۔۔۔
’’اونٹ کے بچے کو میں کیا کروں گی وہ تو ہمارا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا :’’میں تو آپ کو اونٹ کا بچہ ہی دوں گا ۔‘‘
یہ سن کر حضرت اُمّ ایمن اداس ہوگئیں ۔ اُدھر آپ ﷺنے ایک خادم کو اشارہ فرمایا۔ وہ ایک جوان اونٹ لے آئے اور اس کی مہار حضرت اُم ایمنؓ کے ہاتھ میں پکڑا دی ۔ آپ ﷺ نے مسکرا کر فرمایا:۔۔۔۔۔
’’کیا یہ اونٹ کا بچہ نہیں ؟ ہر اونٹ ، اونٹ ہی کاتو بچہ ہوتا ہے ۔‘‘
اب حضرت اُمّ ایمنؓ ساری بات سمجھ گئیں اور خوش ہو کر آپﷺ کو دعائیں دیتی رخصت ہوئیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔
آنکھ میں سفیدی
ایک دفعہ ایک صحابیہ نے رسول پاک ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کردرخواست کی ، یا رسول اللہ !میرا شوہر بیمار ہے اس کی صحت کے لئے دعا فرمائیں ۔
آپﷺ نے فرمایا:’’تمہاراشوہر وہی ہے نا جس کی آنکھ میں سفیدی ہے ۔ وہ حیران ہو گئیں اور گھر جا کراپنے خاوند کی آنکھیں غور سے دیکھنے لگیں ۔ انہوں نے کہا، کیا بات ہے ؟کہنے لگیں ،’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ تمہارے شوہر کی آنکھ میں سفیدی ہے ۔‘‘وہ ہنس پڑے اور کہا کیا کوئی ایسا آدمی بھی ہے جس کی آنکھ میں سفیدی نہ ہو۔۔۔۔۔۔ اب وہ رسول پاک ﷺکے پاکیزہ مذاق کو سمجھیں ۔ اس کامقصد ان کے شوہر کوخوش کرنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
حدیث نبوی ﷺ
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ :
’’اللہ تعالیٰ خود بھی نرمی اور مہربانی کرنے والا ہے اور اس کو بندوں کا آپس میں نرمی او رمہربانی کرنا بھی پسند ہے اور نرمی پر وہ اتنا دیتا ہے جتناکہ وہ سختی پر نہیں دیتااور جتنا کہ نرمی کے علاوہ کسی چیز پر بھی نہیں دیتا ۔‘‘
(مسلم :حدیث نمبر ۶۷۶۶)
۔۔۔۔۔۔۔
محنت کی برکت
ایک دن کاذکر ہے کہ مدینہ کے رہنے والے ایک شخص رسول پا ک ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ انہوں نے آپ ﷺ کے سامنے ہاتھ پھیلایا اور کچھ مانگا ۔
آپﷺ نے ان سے پوچھا:۔۔۔۔۔۔۔’’کیا تمہارے پاس گھر میں کچھ نہیں ؟‘‘
انہوں نے جواب دیا :۔۔۔۔’’اے اللہ کے رسول ﷺ ایک بچھونا ہے اور ایک پانی پینے کا پیالہ ہے ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔’’یہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ۔‘‘
اس پر وہ گھر گئے اور دونوں چیزیں لا کر حضورﷺ کے سامنے رکھ دیں ۔ آپﷺ نے دونوں کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور وہاں پر موجود اپنے پیارے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ان دونوں چیزوں کوکون خرید ے گا۔‘‘
ایک صحابی نے اٹھ کر کہا، ’’یہ دونوں چیزیں میں ایک درہم میں لیتا ہوں ۔‘‘اس پر آپ ﷺ نے دویا تین بار فرمایا:
’’ایک درہم سے زیادہ کون ان کی قیمت دے گا؟‘‘تب ایک دوسرے صحابی اٹھے اور انہوں نے کہا ،’’میں ان کو دو درہم میں خریدنے پر تیار ہوں ۔‘‘
آپ ﷺ نے دونوں چیزیں دو درہم لے کر ان کو دے دیں، پھر آپﷺ نے یہ دودرہم مانگنے والے شخص کو دئیے اور ان سے فرمایا کہ ان میں سے ایک درہم سے ایک کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ ۔ انہوں نے ایسا ہی کیااور حضورﷺ کے پاس کلہاڑی کا پھل خرید کر حاضر ہوئے ۔ آپﷺ نے اس پر اپنے دست مبارک سے لکڑی کا دستہ لگایااور ان سے فرمایا کہ :۔۔۔۔۔۔
’’یہ کلہاڑی اور ایک رسی لے کر جنگل میں نکل جاؤ اور وہاں سے لکڑیاں کاٹ کر شہر میں بیچا کرو ۔ اب پندرہ دن تک ہمیں بالکل نظر نہ آنا۔‘‘
ان صاحب نے ایسا ہی کیا اور ہر روز لکڑیاں جنگل سے کاٹ کر شہر لاتے اور فروخت کر دیتے ۔ پندرہ دن کے بعد وہ رسول پاک ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ کو بتایا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ یہ کام کر کے میں نے دس درہم کمالئے ۔ ان میں سے کچھ کے کپڑے بنا لئے اور کچھ سے کھانے کی چیزیں خرید لیں ۔
آپﷺ نے ان سے فرمایا:۔۔۔۔۔۔’’یہ اچھا ہے یا وہ اچھا تھا کہ قیامت کے دن چہرے پر دوسرں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا داغ لے کر خدا کے سامنے جاتے ۔ تین قسم کے آدمیوں کے سوا کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ لوگوں سے کچھ مانگے ۔ ایک وہ جس کو غریبی نے پیس دیاہو(ا س کے پاس نہ کچھ کھانے کے لئے ہو اور نہ پہننے کے لئے)، دوسرا وہ جو قرض کے بوجھ تلے دب چکا ہو۔ تیسرا وہ خون کرنے والا جس نے خون بہا (وہ رقم یا مویشی جو قتل کرنے والے کے وارث اس کے خون کے بدلے میں لینا قبول کر لیں ) ادا کرنا ہو اور جس کے ادا نہ کرنے کی صورت میں اس کی جان جاتی ہو۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
حدیث نبوی ﷺ
حضرت عمران بن حصینؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :
اللہ تعالیٰ کو اپنا وہ مومن بندہ بہت پیارا اور محبوب ہے جو بہت غریب اور بال بچوں والا ہو مگر اس کے باوجود ناجائز طریقے سے روپیہ حاصل کر نے اور کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے پر ہیز کرتا ہو۔ (ابن ماجہ ؒ )
۔۔۔۔۔۔۔
اونٹنی اور اس کا مالک
ایک دفعہ ایک دیہاتی آدمی رسول پاک ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوااور آپ ﷺ سے کچھ مانگا ۔آپﷺ نے اس کو عطا فرمایا اور پوچھا:۔۔۔۔
’’خوش ہو؟‘‘
اس نے بدتمیزی سے جواب دیا :۔۔۔۔
’’نہیں تم نے میرے ساتھ کچھ بھی سلوک نہیں کیا۔‘‘
وہاں آپﷺ کے کئی پیارے ساتھی بھی موجود تھے ۔ان کو دیہاتی کی گستاخی پر سخت غصہ آیااور وہ اس کو قتل کرنے لگے ۔ آپ ﷺ نے ان کو منع فرمایااور پھر گھر سے لا کر اس کو کچھ اور دیا۔ اب وہ خوش ہو گیااور دعائیں دینے لگا۔ آپﷺ نے بڑی نرمی سے فرمایا:۔۔۔۔۔.
’’تیری پہلی بات میرے ساتھیوں کوبُری معلوم ہوئی ۔ کیا تم پسند کرو گے کہ جو کچھ تم اب کہہ رہے ہو، ان کے سامنے بھی کہہ دو تا کہ ان کے دل بھی تمہارے طرف سے صاف ہوجائیں ۔‘‘
اس نے کہا : ۔۔۔۔۔۔’’میں کہہ دوں گا۔‘‘
دوسرے دن آپﷺ نے اپنے ساتھیوں کے سامنے ا س سے پوچھا:
’’اب تم مجھ سے خوش ہونا؟‘‘
اس نے کہا، ’’ہاں خوش ہوں ‘‘پھر دعا دی آپﷺ نے اپنے پیارے ساتھیوں سے فرمایا:۔۔۔
’’ایک شخص کی اونٹنی بھاگ گئی ۔ لوگ اسے پکڑنے کے لئے اس کے پیچھے بھاگتے تھے اور وہ آگے بھاگتی تھی ۔ اونٹنی کے مالک نے لوگوں سے کہا، تم سب رُک جاؤ ۔ یہ میری اونٹنی ہے اور میں ہی اس کی عادتوں اور طبیعت کو سمجھتا ہوں ۔ لوگ رُک گئے ۔ اونٹنی ایک جگہ رُک کر گھاس چرنے لگی ۔ مالک نے قریب جا کر اس کو پکڑ لیا۔ میری اور اس دیہاتی آدمی کی مثال ایسی ہی تھی ،اگر تم اسے قتل کر ڈالتے تو بے چارہ دوزخ میں جاتا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
بُری عورت بخشی گئی
ایک دفعہ رسو ل پاک ﷺ نے فرمایا کہ ایک بہت بُری عورت ایک کتے کے پاس سے گزری جو ایک کنوئیں کے قریب اس حالت میں چکر کاٹ رہا تھاکہ پیاس سے اس کی زبان باہر نکلی ہوئی تھی اور وہ ہانپ رہا تھا۔ قریب تھا کہ وہ مرجائے۔ اس عورت نے اپنے پاؤں سے چمڑے کا موزہ اتارااور (ڈول رسی نہ ہونے کی وجہ سے ) اس کو اپنے دوپٹے سے باندھا۔ پھر اسے کنوئیں میں لٹکا کر ا س پیاسے کتے کے لئے پانی نکالا اور اس کو پلایا۔اللہ تعالیٰ نے اس نیکی کی وجہ سے اس بُری عورت کے سارے گناہ معاف کر دئیے اور اس کو بخش دیا۔
رسول پاک ﷺ سے پوچھا گیا:
’’کیا جانوروں کے کھلانے پلانے میں بھی ثواب ہے ؟‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا :
’’بے شک !ہر زندہ کے کھلانے پلانے میں ثواب ہے ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عائشہؓ نے فرمایاکہ :۔۔۔۔۔
رسول اللہ ﷺ کسی کوبُرا بھلا نہیں کہتے تھے ۔ بُرائی کے بدلے بُرائی نہ کرتے ، بلکہ درگزر سے کام لیتے ۔
(بخاری ؒ ، مسلم ؒ ، ترمذی )
۔۔۔۔۔۔۔
اپنی حیثیت کے مطابق لباس پہنو
ایک دفعہ ایک صحابی رسول پاک ﷺ کی خدمت میں اس حالت میں حاضر ہوئے کہ ان کے جسم پر بہت گھٹیا قسم کا لباس تھا۔ آپﷺ نے ان سے پوچھا:۔۔۔۔۔
’’کیا تمہارے پاس کچھ مال بھی ہے ؟‘‘
انہوں نے عرض کیا: ۔۔۔۔۔۔۔۔’’جی ہاں یا رسول اللہ ﷺ ‘‘
آپﷺ نے پوچھا :۔۔۔۔’’کس قسم کامال ہے ؟‘‘
انہوں نے عرض کیا:۔۔۔۔۔۔’’ہر قسم کا۔۔۔اونٹ ،گھوڑے ، گائیں ، بکریاں ،نوکر چاکر وغیرہ ۔ اللہ تعالیٰ نے سب کچھ دے رکھا ہے ۔‘‘
رسول پاک ﷺ نے فرمایا :۔۔۔۔۔۔
’’اللہ تعالیٰ نے تمہیں اتنا کچھ دے رکھا ہے تو تمہارے لباس سے بھی ظاہر ہونا چاہیے کہ اس نے تمہیں نعمتیں دے رکھی ہیں ۔‘‘(مطلب یہ کہ اپنی حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنو)
۔۔۔۔۔۔۔
پہلے سلام پھر کلام
ایک دفعہ ایک شخص رسول پاک ﷺ سے ملنے کے لئے آئے اور آپﷺ کے دروازے کے باہر کھڑئے ہو کر کہا:۔۔۔۔۔۔
’’کیا میں اندر آجاؤں ۔‘‘
رسول پاک ﷺ نے اپنے خادم سے فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔
’’جاؤ اور اسے اجازت لینے کاصحیح طریقہ بتاؤ ۔ وہ یہ ہے کہ پہلے السلام علیکم کہے اور پھر پوچھے ، کیا میں اندر آسکتا ہوں ۔‘‘
ان صاحب نے باہر ہی سے یہ بات سن لی ۔ فوراًبولے:
’’السلام علیکم ‘‘
آپ ﷺ نے جواب دیاتو انہوں نے عرض کیا:۔۔۔۔۔۔
’’کیا میں اندر آسکتا ہوں ؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا :۔۔۔۔۔’’ہاں ‘‘
چنانچہ وہ اندر چلے گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ تم حسد کی بیماری سے بچو ۔ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے ۔
(ابو داؤد :حدیث ۴۹۰۵)
۔۔۔۔۔۔۔
دس، بیس، تیس
ایک دن شخص رسول پاک ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا: ۔۔۔۔۔۔’’السلام علیکم ‘‘
آپﷺ نے ان کے سلام کا جواب دیااور وہ مجلس میں بیٹھ گئے ۔ آپﷺ نے فرمایا، دس (یعنی ان کے لئے دس نیکیاں لکھی گئیں )پھر ایک اور صاحب آئے اور انہو ں نے کہا:۔۔۔۔۔
’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘آپ ﷺ نے ان کے سلام کا جواب دیا اور وہ بیٹھ گئے۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:۔۔۔۔۔۔
’’بیس‘‘(یعنی ان کے لیے بیس نیکیاں لکھی گئیں)
پھر ایک تیسرے آدمی آئے۔انہوں نے کہا:۔۔۔۔۔۔
’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ‘‘
آپﷺ نے ان کے سلام کا جواب دیااور وہ بھی مجلس میں بیٹھ گئے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’تیس‘‘(یعنی ان کو تیس نیکیوں کاثواب مل گیا)
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ چھوٹابڑے کو ۔ چلنے والابیٹھے ہوئے کواور تھوڑے آدمی زیادہ آدمیوں کو سلام کریں ۔
(بخاری :حدیث نمبر ۶۲۳۱،مسلم :حدیث نمبر ۵۷۷۲)
۔۔۔۔۔۔۔
رسول پاک ﷺ اپنے گھر میں
اُمت کی ما ں حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنے گھر میں ہوتے تو گھر والوں کے کام میں ہاتھ بٹاتے ۔ جب اذان کی آواز سنتے تو نمازکے لئے تشریف لے جاتے ۔
آپ اپنے گھر میں وہ سب کام کرتے جو آدمی اپنے گھر میں کرتا ہے ۔آپ ﷺ اپنے جوتے گانٹھ لیتے تھے۔ کپڑوں میں اپنے ہاتھ سے پیوند لگا لیتے تھے۔ اپنے کپڑوں سے جوں نکال لیتے تھے۔ اپنی بکری دوہ لیتے تھے ۔ گھر میں خودجھاڑو دے لیتے تھے۔ بازارسے سودا خرید لاتے تھے۔ ڈول میں ٹانکے لگا لیتے ۔ اونٹ کو اپنے ہاتھ سے باندھ دیتے تھے اور اس کوخود چارہ دیتے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ حضرت انس بن مالکؓ خدمت مبارک میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپﷺ خود اپنے ہاتھ سے ایک اونٹ کے بدن پر تیل مل رہے ہیں ۔
عصر کی نماز پڑھ کر آپ اپنی ہر بی بی کے گھر تشریف لے جاتے اور ذرا ذرا دیر ٹھہرتے ، پھر جس بی بی کے گھر ٹھہرنے کی باری ہوتی وہیں رات بسر فرماتے ۔ وہیں آپﷺ کی سب بیبیاں جمع ہوجاتیں ۔ عشاء تک مجلس جاری رہتی ،پھر آپ عشاء کی نماز کے لئے مسجد میں تشریف لے جاتے اور واپس آکر آرام فرماتے ۔ عشاء کی نماز کے بعد آپﷺ کو بات چیت کرنا پسند نہیں تھا۔
سوتے وقت آپ قرآن کی کوئی سورہ (بنی اسرائیل ، زُمر ، حدید، حشر ، صف ، تغابن یاجمعہ) ضرور پڑھ لیتے ۔ آدھی رات کو یا پہر رات رہے آپﷺ جاگ اٹھتے ، اٹھ کر پہلے مسواک فرماتے ، پھر وضو کرتے اور اپنے بستر کے سرہانے عبادت میں مشغول ہوجاتے ، فجر کی اذان ہوتی تو آپ نماز کے لئے مسجد تشریف لے جاتے ۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ آپ ساری ساری رات عبادت میں مشغول رہتے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
پیارے رسول ﷺ کا بچوں سے پیار
رسول پاک ﷺ بچوں سے بہت پیار کرتے تھے ۔ آپﷺ کہیں جا رہے ہوتے اور راستے میں کہیں آپﷺ کو بچے کھیلتے ہوئے مل جاتے تو ان کے سلام کر نے سے پہلے خود آپﷺ بچوں کوسلام کرتے ۔ پھر ان سے پیار بھری باتیں کرتے ۔آپﷺ کے ایک پیارے ساتھی حضرت جابر بن سمرہؓ اپنے بچپن کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی ۔ جب آپﷺ نماز سے فارغ ہو کر اپنے گھر کی طرف چلے تو میں بھی ساتھ ہو لیا،اُدھر سے چند بچے آرہے تھے ۔ آپ ﷺنے سب کو پیار کیا اور مجھے بھی پیار کیا ۔ آپ ﷺسفر سے واپس آتے تو راستے میں جو بچے ملتے انہیں بڑی محبت کے ساتھ اپنے ساتھ سواری پر بٹھا لیتے، کسی کو آگے کسی کو پیچھے۔
ہجرت کے موقع پر آپﷺ مدینے میں داخل ہوئے تو مسلمانوں کے ایک قبیلے بنو نجار کی چھوٹی چھوٹی بچیاں دروازوں پر کھڑی ہو کر یہ گیت گا رہی تھیں :۔۔۔۔۔۔۔
’’ہم خاندان نجار کی بیٹیاں ہیں
محمدﷺ کیا ہی اچھے ہمسائے ہیں ۔‘‘
جب آپﷺ اُدھر سے گزرے تو فرمایا:۔۔۔۔۔
’’کیوں بچیو! تم مجھ سے پیار کرتی ہو؟‘‘
سب نے کہا :۔۔۔۔۔۔
’’ہاں ، اے اللہ کے رسول ﷺ‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔
’’میں بھی تمہیں پیار کرتا ہوں ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
رسول پاک ﷺ کا طریقہ تھا کہ جب فصل کاکوئی نیا میوہ پکتااور لوگ اسے آپ کی خدمت میں پیش کرتے تو آپﷺ سب سے پہلے اسے ننھے بچوں میں بانٹتے تھے۔ آپﷺ نماز پڑھاتے تو پردے کے پیچھے جماعت میں عورتیں بھی ہوتی تھیں ۔ اگر ان عورتوں میں سے کسی کا بچہ رونے لگتا تو آپ ﷺ چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھ کر نماز جلد ختم کر دیتے تا کہ بچے کو تکلیف نہ ہو اور اس کی ماں بھی بے چین نہ ہو۔
بچے بھی آپﷺ سے بڑی محبت کرتے تھے ۔ جہاں آپ ﷺکو دیکھا لپک کر آپ ﷺ کے پاس پہنچ جاتے ۔آپ ﷺ ایک ایک کو گود میں اٹھاتے ، اس کا منہ سر چومتے اور کھانے کی کوئی چیز دیتے ۔ کبھی کھجوریں ، کبھی تازہ پھل اور کبھی کوئی اور چیز ۔
۔۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ ایک دیہاتی رئیس اقرع بن حابس آپ ﷺ کے پاس بیٹھے تھے ۔ آپﷺنے ان کے سامنے ایک بچے کو پیار کیااور اس کامنہ چوما ، تو انہوں نے حیران ہو کر کہا:
’’آپ بچوں سے اتنا پیار کرتے ہیں، میرے دس بچے ہیں مگر میں نے کبھی کسی سے پیار نہیں کیا ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔
’’اگر اللہ تمہارے دل کو محبت سے خالی کر دے تو میں کیا کروں ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ آپ ﷺ مسجد میں خطبہ دے رہے تھے کہ آپ ﷺ کے نواسے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ اتفاق سے وہاں آگئے ۔ دونوں بہت چھوٹے تھے اور لڑکھڑاتے ہوئے چل رہے تھے ۔ آپ ﷺ انہیں دیکھ کر منبر سے نیچے اتر آئے اور دونوں کو گود میں اٹھا کر فرمایا :۔۔۔۔۔۔۔
’’اللہ نے سچ فرمایا ہے کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے آزمائش ہیں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ آپﷺاپنی ننھی نواسی حضرت امامہؓ کو کندھے پر چڑھائے مسجد میں تشریف لائے اور اسی حالت میں نماز پڑھائی ۔ جب رکوع اور سجدے میں جاتے تو ان کو اتار دیتے ۔ پھر کھڑے ہوتے تو ان کوکندھوں پر چڑھالیتے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
آپ اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے جاتے تو فرماتے ، بچے کدھر ہیں ، انہیں میرے پاس لاؤ۔ وہ بچوں کولاتیں تو آپ ﷺ ان کو سینے پر لٹاتے اور ان کا منہ چومتے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت زید بن حارثہؓ رسول پاک ﷺ کے بہت پیارے صحابی تھے۔ ان کانام قرآن پاک میں بھی آیا ہے ۔ وہ سات آٹھ سال کے تھے کہ کچھ ظالم ڈاکو انہیں ان کے وطن سے اٹھا لائے اور غلام بنا کر مکہ میں فروخت کر دیا ۔ ہوتے ہوتے وہ امت کی ماں حضرت خدیجہؓ کے پاس گئے ۔انہوں نے ننھے زید کو رسول پاک ﷺ کے حوالے کر دیا کہ یہ آپ ﷺ کی خدمت کیا کرے گا ۔ آپ ﷺ نے ان کو ایسی محبت اور شفقت کے ساتھ پالا کہ وہ آپ کو اپنے ماں باپ سے بھی بڑھ کر سمجھنے لگے ۔ ایک مدت کے بعد حضرت زیدؓ کے والد حارثہ کو خبر ملی کہ زیدؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس ہیں تو وہ انہیں لینے کے لئے مکہ آئے ۔ آپ ﷺ نے حضرت زیدؓ کو آزاد کر دیا اور ان کے والد سے فرمایا کہ اگر زید تمہارے ساتھ جانا چاہے تو تم اسے بڑی خوشی کے ساتھ لے جا سکتے ہو لیکن جب حضرت زید سے پوچھا گیا تووہ رسول اللہ ﷺ کے قدموں سے لپٹ گئے اور کہا کہ میں آپ ہی کے پاس رہنا چاہتا ہوں ۔ جب حارثہ نے رسول پاک ﷺ کی حضرت زیدؓ پر شفقت اور زیدؓ کی آ پ ﷺ سے محبت دیکھی تو وہ زیدؓ کو ساتھ لئے بغیر ہی خوش خوش واپس چلے گئے ۔
حضرت زیدؓ سے حضورﷺ کی محبت کا یہ حال تھا کہ آپ ﷺ نے انہیں اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا اور لوگ انہیں زید بن محمد کہنے لگے تھے لیکن جب قرآن پاک میں اللہ کا یہ حکم نازل ہوا کہ ہر شخص کو اس کے اصل باپ کے نام کی نسبت سے پکارو تو پھر انہیں زید بن حارثہ کہا جانے لگا ۔ تا ہم آپ ﷺ ان سے ہمیشہ اپنے بچوں کی طرح محبت کرتے رہے ۔اسی لئے لوگ انہیں ’’نبی ﷺکے پیارے ‘‘کہا کرتے تھے ۔ ان کے بیٹے حضرت اسامہؓ سے آپ ﷺ اس قدر محبت فرماتے کہ اپنے دست مبارک سے ان کی ناک صاف کرتے ۔ کبھی کبھی آپ اپنے ایک زانو پر حضرت حسنؓ کو اور دوسرے پر حضرت اسامہؓ کو بٹھا کر فرماتے :
’’اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر ۔‘‘
ایک دفعہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر اسامہ کو اللہ لڑکی بناتا تو میں ا س کو زیور پہناتا ۔ لوگ حضرت اسامہؓ کو بھی رسول اللہ کے پیارے کہا کرتے تھے ۔
ہجرت کے آٹھویں سال مکہ فتح ہوا تو دس ہزار صحابہؓ رسول پاک ﷺ کے ساتھ تھے۔ مکے میںآپ ﷺ اس طرح داخل ہوئے کہ اونٹنی پر آپ ﷺ کے ساتھ حضرت اسامہؓ سوار تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
رسول پاک ﷺ مکے سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت انسؓ کے والدین نے یہ کہہ کر ان کو حضور ﷺکے سپرد کر دیاکہ ہمارا یہ بچہ آپ ﷺ کی خدمت کیا کرے گا ۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔’’میں نے دس سال رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی لیکن اس سارے عرصے میں آپ ﷺ نے کبھی مجھے ’’ہوں‘‘تک نہیں کہا اور نہ کبھی پوچھا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا یا یہ کام کیوں نہیں کیا۔‘‘
رسول پاک ﷺ جب تک اللہ کے پاس نہ چلے گئے ، حضرت انسؓ برابر آپ ﷺ کی دل و جان سے خدمت کرتے رہے ۔ اسی لئے ان کو ’’رسول اللہ ﷺکے خادم ‘‘کہا جاتا ہے ۔ حضورﷺ کبھی کبھی ان سے ہنسی مذاق کی باتیں بھی کر لیا کرتے تھے ۔ ایک دفعہ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا::’’او دوکانوں والے ۔‘‘
حضرت انسؓ کے ایک چھوٹے بھائی کانام ابو عمیر تھا۔ رسول پاک ﷺان سے بہت پیار کرتے تھے ۔ ننھے ابو عمیر نے ایک ممولا پال رکھا تھا جس سے وہ کھیلا کرتے تھے ۔ اتفاق سے وہ ممولا مر گیا ۔ ابو عمیر کو اس کے مرنے کا بہت غم ہوا۔ رسول پاک ﷺنے ابو عمیرؓ کو چپ چاپ اور غمگین دیکھا تو پوچھا کہ اس کو کیا ہوا۔ جب آپ ﷺ کو بتایا گیا کہ اس کاممولا مر گیا ہے تو آپ ﷺ نے ابو عمیرؓ سے فرمایا:
’’ارے ابو عمیر تمہارے ممولے نے یہ کیا کیا ۔‘‘
یہ الفاظ ایسے طریقے سے کہے کہ ابو عمیر کا غم دور ہو گیا اور وہ پھر کھیل کود میں مشغول ہو گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
رسول پاک ﷺ کے ایک پیارے ساتھی حضرت نعمان بن بشیرؓ بچپن میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے ۔ آپ ﷺ ان پر بڑ ی شفقت فرماتے تھے۔ ایک دن وہ آپ ﷺ کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ طائف سے انگور آئے ۔ آپ ﷺ نے انگوروں کے دوخوشے ننھے نعمانؓ کو دئیے کہ ایک تم خود کھالو اور دوسرا گھر جا کر اپنی امی کو دے دینا ۔ نعمانؓ راستے میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے پوچھا:۔۔۔۔۔۔۔
’’کیوں بھئی !وہ دوسرا خوشہ تم نے اپنی امی کو دیا تھا۔‘‘
انہوں نے کہا:۔۔۔۔۔۔
’’نہیں یا رسول اللہﷺ !میں نے دونوں خوشے خود ہی کھا لئے تھے ۔‘‘
آپ ﷺ نے مسکرا کر آہستہ سے ان کاکان کھینچتے ہوئے فرمایا:
’’او مکار ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
رسول پاک ﷺ کی مہر نبوت شانے کے قریب پشت پر ابھری ہوئی تھی۔ بعض دفعہ معصوم بچے اس سے کھیلنے لگتے ۔ بچوں کے ماں باپ ان کو روکتے تو آپ فرماتے ’’کھیلنے دو، روکو نہیں ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
رسول پاک ﷺ دشمنوں سے بھی اچھا برتاؤ کرتے تھے ۔ کافروں کے بچے بھی دوڑ دوڑ کر آپ ﷺ کے پاس آیا کرتے تھے ۔ آپﷺ ان سے بڑی نرمی اور محبت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ جب کافروں سے لڑائی ہوتی توآپﷺ مسلمانوں کو حکم دیتے کہ دیکھو بچے کو نہ مارنا۔ بچے بے گناہ ہوتے ہیں ،انہیں کوئی تکلیف نہ ہو نے پائے ۔ ایک بار فرمایا، جوکوئی بچوں کو دُکھ دیتا ہے اللہ اس سے ناراض ہوجاتا ہے ۔
بچو!دیکھاتم نے اللہ کے پیارے رسول ﷺ بچوں سے کیسی محبت کرتے تھے ۔کتنے اچھے تھے اللہ کے پیارے رسول ﷺ۔۔۔۔۔۔ان پر لاکھوں درود اور سلام ۔
۔۔۔۔۔۔۔
میں تو مسافر ہوں
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک چٹائی پر سوئے ۔ جب آپﷺ اٹھے تو آپﷺ کے پہلو میں چٹائی کے نشان پڑگئے تھے ۔
ہم نے عرض کیا:۔۔۔۔۔۔
’’اے اللہ کے رسول !اجازت ہوتو ہم آپ کے لئے نرم بچھونا تیار کریں ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔
’’مجھے دُنیا کے آرام اور راحت سے کیا واسطہ میں تو دُنیا میں ایک ایسے مسافر کی طرح ہوں جو ذرا کسی درخت کے سائے کے نیچے ٹھہر گیا ہو اور پھر اسے چھوڑ کر چل کھڑا ہوا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت براء بن عازبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سات چیزوں کاحکم دیا۔ (۱) بیمار کی عیاد ت کرنا(۲) جنازے کے پیچھے چلنا(۳)چھینک لینے والے کے جواب میںیرحمک اللہ کہنا(۴)کمزور کی مدد کرنا(۵)مظلوم کی مدد کرنا(۶) سلام کو رواج دینا(۷) قسم کوپورا کرنا۔
(صادقہ )
۔۔۔۔۔۔۔
خدمت کے سب سے زیادہ حق دار
ایک دفعہ ایک صاحب رسول پاک ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا:۔۔۔
’’یا رسول اللہ ﷺ!سب سے زیادہ خدمت کا حق دار کون ہے ؟‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا :۔۔۔’’تمہاری ماں ‘‘
انہوں نے پھر پوچھا:۔۔۔’’اس کے بعدکون ہے ؟‘‘
آپ ﷺنے فرمایا:۔۔۔’’تمہاری ماں ‘‘
اس نے تیسری مرتبہ پوچھا:۔۔۔۔’’اور اس ے بعد ‘‘
آپ ﷺ نے جواب دیا :۔۔۔’’تمہاری ماں ‘‘
انہو نے چوتھی بار دریافت کیا:۔۔۔’’اور اس کے بعد کون ؟‘‘
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:۔۔۔’’تمہارا باپ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
والد راضی اللہ راضی
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر تمہارا والد تم سے راضی ہو گا تو اللہ بھی تم سے راضی ہوگا۔ اگر والد ناراض ہوگا تو اللہ بھی ناراض ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔
حدیث نبوی ﷺ
حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان مسلمان بھائی ہے، نہ تو ظلم کرتا ہے اور نہ اس کو بے سہارا چھوڑتا ہے اور جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرے گا اللہ اس کی حاجت پوری کرے گا ۔۔۔۔اور جو شخص کسی مسلمان کی کوئی پریشانی دور کرے گا تو اللہ قیامت کے دن اس کی پریشانی دور کرے گا ۔ اور جو مسلمان کسی مسلمان کے عیب پر پردہ ڈالے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب پر پردہ ڈالے گا۔
(مسلم شریف ۶۷۴۳+۲۴۴۲+۶۹۵۱)
۔۔۔۔۔۔۔
جنت ماں کے قدموں میں ہے
حضرت جاہمہؓ رسول پاک ﷺ کے ایک صحابی تھے۔ ایک دفعہ وہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:۔۔۔۔
’’اے اللہ کے رسول ﷺ!میں اللہ کی راہ میں لڑنے کے لئے جانا چاہتا ہوں اور آپﷺ کی خدمت میں مشورے کے لئے حاضر ہوا ہوں ۔‘‘
آپ نے فرمایا:۔۔۔
’’کیا تیری ماں ہے ؟‘‘
انہوں نے کہا:۔۔۔
’’جی ہاں ، وہ زندہ ہیں ۔‘‘
آپ ﷺنے فرمایا:۔۔۔
’’تو پھر تم اس کی خدمت کرتے رہو ، تمہاری جنت اس کے قدموں میں ہے ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
بد نصیب آدمی
ایک دن رسول پاک ﷺ نے فرمایا:
’’وہ آدمی خوار ہو ، ذلیل ہو ، رسوا ہو۔‘‘
صحابہؓ نے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول ﷺ!کون؟‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا ، وہ بدنصیب جس کے بوڑھے ماں باپ ، یا دونوں میں سے کوئی ایک ہی زندہ ہو پھر وہ (ان کی خدمت اور ان کادل خوش کر کے ) جنت حاصل نہ کر لے ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
ماں زندہ نہیں ، تو خالہ کی خدمت کرو
ایک دن ایک صاحب رسول پاک ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:۔۔۔۔۔۔۔
’’اے اللہ کے رسول !میں نے ایک بہت بڑا گناہ کیا ہے ، کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟‘‘
آپﷺ نے پوچھا:۔۔۔
’’تمہاری ماں زندہ ہے ۔؟‘‘
انہوں نے کہا:۔۔۔
’’جی نہیں ۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا :۔۔۔
’’تو کیا تمہاری کوئی خالہ ہے ؟‘‘
انہوں نے عرض کیا:’’جی ہاں ، میری ایک خالہ موجود ہے ۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا :۔۔۔۔’’تو اس کی خدمت اور اس کے ساتھ اچھا سلو ک کر (اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے تمہاری توبہ قبول کر لے گا اور تمہیں معاف فرما دے گا)‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
ماں باپ کی غائبانہ خدمت
ایک دن مدینہ منورہ کے رہنے والے ایک صاحب رسول پاک ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:۔۔۔۔۔۔۔
’’اے اللہ کے رسول ﷺ!میرے ماں باپ فوت ہو چکے ہیں ۔ کیامیں اب بھی ان کی کوئی خدمت کر سکتا ہوں ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔
’’تو اللہ تعالیٰ سے ان کے لئے رحمت اور ان کے گناہوں کی بخشش مانگ ۔ انہوں نے لوگوں سے اپنی زندگی میں جو وعدے کئے تھے ، ان کوپورا کر ۔ جن رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنا ان کے ذمہ تھا وہ تو ادا کر اور ان کے دوستوں کی عزت کر ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابو امامہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ :۔۔۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے آدم کے بیٹے اگر تو نے صدمہ کے شروع میں صبر کیااور میری خوشنودی اور ثواب کی نیت کی تو میں نہیں راضی ہوں گا کہ جنت سے کم اور اس کے سوا کوئی ثواب تجھے دیا جائے ۔‘‘
(ابن ماجہ )
۔۔۔۔۔۔۔
پیار بھری نصیحت
رسول پاک ﷺ کے ایک صحابی اپنے بچپن میں لوگوں کے باغوں میں چلے جاتے اور کھجور کے پیڑوں پر ڈھیلے مار مار کر کھجوریں گرایا کرتے ۔ ایک دن لوگ ان کو پکڑ کر رسول پا کﷺ کی خدمت میں لے گئے اور ان کی شکایت کی ۔ آپﷺ نے انہیں بڑے پیار سے پاس بٹھایا ۔ ا ن کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔
’’بیٹا ڈھیلے مار مار کر کھجوریں گرانااچھی بات نہیں ، اس سے نقصان ہوتا ہے ۔‘‘
پھر انہیں باہر بھیج دیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر ان کی شکایت آئی کہ یہ بچہ پیڑوں پر ڈھیلے مارنے سے باز نہیں آیا۔
اس بار بھی آپﷺ نے انہیں جھڑکا نہیں اور بڑے پیار سے پوچھا:۔۔۔۔
’’بیٹا تم درختوں پر ڈھیلے کیوں مارتے ہو؟‘‘
انہوں نے کہا:۔۔۔۔’’کھجوریں کھانے کے لئے ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔’’کھجوریں جو خودبخود زمین پر گرتی ہیں ، انہیں اٹھا کر کھا لیا کرو۔ ڈھیلے نہ مارا کرو۔‘‘
یہ فرما کر پیار سے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور دعا دی ۔ آپﷺ کی شفقت کا ان پر ایسا اثر ہوا کہ پھر کبھی ایسی حرکت نہ کی ۔
۔۔۔۔۔۔۔
پڑوسیوں کے دُکھ سکھ میں شریک رہو
آپ کے آ س پاس ، ارد گرد یا اڑوس پڑوس میں جولوگ رہتے ہیں وہ آپ کے پڑوسی یا ہمسائے ہیں ۔ رسول پاک ﷺ نے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور ان کی غمی اور خوشی میں شریک رہنے کی بہت تاکید فرمائی ہے ۔ اس سلسلے میں آپﷺ کے کچھ ارشادات یہ ہیں :
۔۔۔۔حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ وہ شخص جس کے پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ ہوں وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔(مسلم)
۔۔۔۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سناہے کہ وہ شخص مومن نہیں ہے جو پیٹ بھر کر کھائے اور اس کے قریب رہنے والا ہمسایہ بھوکا رہے ۔(بہیقی )
۔۔۔۔حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، وہ شخص مجھ پر ایمان نہیں لایا جو ایسی حالت میں اپنا بیٹ بھر کر سوئے کہ اس کے برابر رہنے والا پڑوسی بھوکاہو اور اس شخص کو اس کے بھوکے ہونے کی خبر ہو۔(بزار )
۔۔۔۔حضرت معاویہ بن حیدہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:۔۔۔پڑوسی کے حقوق تم پر یہ ہیں کہ اگر وہ بیمار ہوجائے تو اس کی بیمار پرسی کروا ورخبر گیری کرو۔ اگر وہ فوت ہوجائے تو اسکے جنازے کے ساتھ جاؤ ۔ اگر وہ قرض مانگے تو ا س کو قرض دو۔ اگر وہ کوئی بُرا کام کر بیٹھے تو اس پر پردہ ڈالو۔ اگر اسے کوئی نعمت ملے تو اس کو مبارک باد دو۔ اگر اس کوکوئی مصیبت پہنچے تو اس کو تسلی دواور اپنا مکان اس کے مکان سے اتنا اونچا نہ بناؤ کہ اس کے گھر کی ہوا بند ہوجائے ۔۔۔۔۔۔۔۔اور تمہاری ہانڈی کی مہک اس کے لئے تکلیف کا باعث نہ بنے۔ ہاں اس میں سے تھوڑا سا کچھ اس کے گھر بھی بھیج د و(تو پھر مہک اس کے گھر پہنچنے میں کوئی حرج نہیں ۔)(طبرانی )
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صر ف مسلمان پڑوسیوں کا ایک دوسرے پر حق ہے لیکن یہ صحیح نہیں ۔رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ غیر مسلم پڑوسیوں کا بھی اپنے مسلمان پڑوسیوں پر حق ہے، اس لئے ان سے بھی اچھا سلوک کرنا چاہیے ۔(بزار ؒ )
۔۔۔۔۔۔۔
کون دوزخی کون جنتی
ایک دفعہ رسول پاک ﷺ کے ایک پیارے ساتھی نے آپ ﷺ سے عرض کیا:۔۔۔
’’یا رسول اللہ ﷺ! ایک عورت ہے جو بہت نمازیں پڑھتی ہے۔ بہت روزے رکھتی ہے اور بہت صدقہ و خیرات کرتی ہے مگر وہ اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی رہتی ہے ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔
’’وہ عورت دوزخ میں جائے گی ۔‘‘
ان صاحب نے پھر عرض کیا:۔۔۔۔۔۔
’’یا رسول اللہ ﷺ! ایک عورت ہے جو نماز روزے کی بس واجبی پابندی کرتی ہے ۔ صدقہ خیرات میں بھی وہ پنیر کے ٹکڑے دیتی ہے مگر اس کے پڑوسی اس سے خوش ہیں کیونکہ وہ اپنی زبان سے ان کو تکلیف نہیں دیتی ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔
’’وہ جنت میں جائے گی ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
کسی کو گالی نہ دو
ایک دن رسول پاک ﷺ اپنے صحابہؓ کے درمیان بیٹھے تھے۔ آپﷺ نے ان سے فرمایا :۔۔۔
یہ بات بہت بڑے گناہوں میں سے ہے کہ کوئی آدمی اپنے ماں باپ کو گالی دے ۔‘‘
صحابہؓ نے حیران ہو کر عرض کیا:۔۔۔’’یا رسول اللہ !بھلاکوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی دے سکتاہے ؟‘‘
آپ ﷺنے فرمایا :۔۔۔۔’’ہاں ۔ وہ اس طرح کہ کوئی کسی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ جواب میں اس کے باپ کو گالی دیتا ہے ۔ اسی طرح کوئی کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ جواب میں اس کی ماں کو گالی دیتا ہے ۔‘‘
عزیز بچو!
رسو ل پاک ﷺ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے ماں باپ کو گالی دینا ایسا ہی ہے جیسے اپنے ماں باپ کو گالی دی ۔ اس لئے ہم کو اپنی زبان پر قابو رکھنا چاہیے اور کبھی کسی کو گالی نہیں دینی چاہیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
بُرے سلوک کا جواب اچھے سلوک سے دو
ایک شخص نے رسول پاک ﷺ کی خدمت میں عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول ﷺ!میرے رشتہ دار ہیں، میں ان سے میل جول رکھتاہوں مگر وہ مجھ سے میل جول نہیں رکھتے۔ میں ان سے نیکی کرتاہوں وہ مجھ سے بُرائی کرتے ہیں ۔ میں ان سے نرمی سے پیش آتاہوں مگر وہ مجھے گالیاں دیتے ہیں ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:
’’اگر ایسا ہی ہے جیسا تو کہتا ہے تو گویا تو ان کے منہ پر گرم راکھ ڈالتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ تیری مدد کرے گااور تجھے ان پرغالب رکھے گا جب تک کہ تو اپنی عادت پر قائم رہے گا ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کی روزی میں برکت اور اس کی عمر میں زیادتی ہوتو وہ رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
بے مروّتی کاجواب مروّت سے دو
ایک صاحب نے رسول پاک ﷺ کی خدمت میں عرض کیا:۔۔۔
’’اے اللہ کے رسول ﷺ!اگر میں کسی شخص کے پاس مہمان بن کر جاؤں اور وہ مہمانی نہ کرے (مروّت سے پیش نہ آئے ) پھر (کچھ عرصے کے بعد) وہ شخص میرے پاس آئے تو کیا میں اس کی مہمانی کروں یا اس سے (اس کی بے مروتی کا) بدلہ لوں ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔’’تو اس کی مہمان نوازی کر ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ مہمان کی آؤ بھگت کرے ، مکان میں اتارے ، عمدہ کھاناہو سکے تو کھلائے ، اس کاحال اچھی طرح سے پوچھے ۔ مہمان داری کا تین دن تک حق ہے ۔ اس سے زیادہ کرے تو (صدقہ کا) ثواب پائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔
جیسی نیت ویسی مراد
رسول پاک ﷺ کے ایک پیارے ساتھی حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اکیلاحاضر تھا تو آپﷺ نے میرے سامنے یہ حدیث بیان فرمائی :۔۔۔۔
’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ حساب کتاب (فیصلہ ) کے لئے اپنے جن بندوں کو سب سے پہلے بلائے گا وہ تین آدمی ہوں گے ۔ ان میں سے ایک تو وہ ہو گا جو(دُنیا میں ) قرآن کا عالم حافظ اور قاری تھا۔ دوسرا وہ جو اللہ کی راہ میں شہید ہوا تھا ۔ تیسرا وہ جس کو اللہ نے بہت مال دیا تھا۔
اب اللہ تعالیٰ پہلے شخص سے پوچھے گا ، کیا میں نے تجھے اس کتاب کا علم نہیں سکھایا تھا جو میں نے اپنے رسول اللہ ﷺ پر نازل کی تھی ؟
وہ کہے گا، بے شک میرے رب تو نے مجھے اپنی کتاب کا علم سکھایا تھا۔
اللہ پوچھے گا ، پھر تو نے اپنے علم پر کیا عمل کیا؟
وہ کہے گا،میں دن رات اس کے پڑھنے پڑھانے اور اس کی حفاظت کرنے میں مشغول رہتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، تو جھوٹ بولتا ہے ۔ فرشتے بھی گواہی دیں گے کہ یہ جھوٹا ہے ۔۔۔پھر اللہ تعالیٰ (اس سے مخاطب ہو کر ) فرمائے گا ،تیری نیت تو یہ ہوتی تھی کہ لوگ تجھے عالم اور قاری کہیں (اور تیری تعریف کریں ) پس دنیا میں تجھے عالم اور قاری کہا گیا (اور تیری مراد پوری ہو گئی )
پھر وہ شخص بلایا جائے گا جس کو اللہ تعالیٰ نے دُنیا میں بہت مال دار بنایا تھا۔
اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا،کیا میں نے تجھے اتنا دولت منداور خوشحال نہیں بنایا تھاکہ تو کسی کا محتاج نہ رہے؟
وہ کہے گا،اے میرے اللہ!بے شک تو نے مجھے بہت مالدار بنایا تھا۔
اللہ تعالیٰ پوچھے گا ، پھر تو نے اس مال سے کیا کام لیا؟ وہ کہے گا، اے میرے پرورد گار !میں اپنا مال رشتہ دار وں اور دوسرے لوگوں پر خرچ کرتا تھااور دل کھول کر صدقہ و خیرات کرتاتھا۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، تو جھوٹ بولتا ہے ۔ فرشتے بھی گواہی دیں گے ۔ یہ جھوٹ بولتا ہے ۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، تیری نیت (خواہش ) توصرف یہ تھی کہ لوگ تجھے سخی کہیں اور تجھے دُنیا میں سختی کہا جا چکا(اس طرح تیری مراد پوری ہو گئی ۔)پھر اللہ کی راہ میں قتل ہوجا نے والے کو پیش کیا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا بتا تو کس لئے قتل کیا گیا تھا؟
وہ کہے گا، ا ے اللہ !مجھے تیری راہ میں لڑنے کا حکم دیا گیا تھا ۔ پس میں نے تیرا حکم بجا لانے کے لئے تیری راہ میں جہاد کیا اور مارا گیا۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، تو جھوٹ بولتا ہے ۔ فرشتے بھی گواہی دیں گے ، یہ جھوٹا ہے ۔
پھر اللہ تعالیٰ (اس شخص سے مخاطب ہو کر ) فرمائے گا ، تیری نیت تو یہ تھی کہ لوگ تجھے بہادر کہیں اور یہ شہرت دُنیا میں تجھے مل چکی (اس طرح تیری مراد پو ری ہو گئی ۔)‘‘
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ یہ حدیث بیان فرما کرنبی ﷺ نے میرے زانو پر ہاتھ مارااور فرمایا:
’’سنا ابو ہریرہؓ !یہی تین قسم کے لوگ وہ پہلی مخلوق ہوں گے جن پر اللہ دوزخ کی آگ بھڑکائے گا ۔‘‘
اس حدیث پاک سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہر نیک کام سچے دل اور اس نیت کے ساتھ کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوگا۔ جو کام دکھاوے کے لئے صر ف اس نیت سے کیا جائے گا کہ لوگ واہ واہ کریں اور ہماری تعریف کریں تو اسے ریاکاری کہا جاتا ہے جو سخت گناہ اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
پیارے نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ
(۱)۔۔۔۔ جو شخص لوگوں میں مشہور ہونے کے لئے کوئی کام کرے گا ، اللہ تعالیٰ اس کے عیب لوگوں میں مشہور کرے گا ۔
(۲ )۔۔۔۔اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور کاموں کو دیکھتا ہے ۔
(۳)۔۔۔۔اللہ تعالیٰ انہی کاموں کو قبول کرتا ہے جو خالص اللہ کے لئے ہوں اور ا ن کا مقصد صرف اللہ ہی کو راضی کرنا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔
پانی ۔۔۔۔۔۔نمک اور آگ
ایک دن اُمت کی ماں حضرت عائشہ صدیقہؓ نے رسول اکرم ﷺ سے پوچھا :’’اے اللہ کے رسول ﷺ !ایسی کیا چیز ہے جس کا سوال کیا جائے تو اس کے دینے سے انکار کرنا جائز نہیں ۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا:’’پانی ، نمک اور آگ۔‘‘
حضرت عائشہؓ نے عرض کیا:۔۔۔۔’’پانی کو تو ہم لوگ جانتے ہیں مگر نمک اور آگ سے انکار نہ کرنے کا کیا سبب ہے ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔’’اے حمیراء (حضرت عائشہؓ کا لقب ) جس نے کسی کو آگ دی تو گویا اس نے تمام وہ چیز صدقہ کی جو اس کی آگ پر پکی اور جس نے کسی کو نمک دیا، اس نے گویا وہ تمام چیزیں صدقہ کیں جن میں وہ نمک ڈالا گیااور جس نے کسی مسلمان کو پانی پلایا جہاں پانی مل جاتا ہو تو گویا اس نے ایک غلام آزاد کیااور جس نے کسی مسلمان کو ایسی جگہ پانی پلایا جہاں پانی نہ ملتا ہوتو گویا اس نے اس کو زندہ کیا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
اپنا مال کیسے خرچ کرو
ایک دفعہ رسول پاک ﷺ کے ایک پیارے ساتھی نے آپﷺ سے دریافت کیا: ۔۔۔’’اے اللہ کے رسول ﷺ!میرے پاس ایک دینار ہے اسے کیسے خرچ کروں؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا :’’اسے اپنے آپ پر خرچ کرو۔‘‘
انہوں نے عرض کیا:’’اس کے علاوہ میرے پاس ایک اور دینار بھی ہے ۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا :’’اسے اپنے بچوں پر خرچ کرو ۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ان کے علاوہ ایک اور دینار بھی میرے پاس ہے ۔‘‘
آپ نے فرمایا:’’اسے اپنی بیوی پر خرچ کرو ۔‘‘
انہوں نے کہا :’’ان کے علاوہ اور دینار بھی میرے پاس ہے ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا ’’اسے ان پر خرچ کرو جن کی تم پر ذمہ داری ہے ۔‘‘
انہوں نے کہا :’’ان کے علاوہ بھی ایک دینار میرے پاس ہے ۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا:’’اسے اس پر خرچ کرو جو اس کا حق دار ہے ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کی روزی میں برکت اور عمر میں زیادتی ہوتو اسے چاہیے کہ اپنے رشتہ داروں سے نیک سلوک کرے ۔(بخای)
۔۔۔۔۔۔۔
اللہ کیسے راضی ہوتا ہے
رسول پاکﷺ نے ایک دن لوگوں سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا :۔۔۔۔
’’اے آدم کے بیٹے (انسان ) میں بیمار ہوا تو تونے میری بیمار پرسی نہ کی ۔‘‘
انسان کہے گا:۔۔۔
’’اے میرے ربّ !میں تیری بیما ر پرسی کیسے کرتا جب کہ تو سارے جہانوں کا ربّ ہے ۔‘‘(یعنی تو کیسے بیمار ہو سکتا ہے)
اللہ تعالیٰ فرمائے گا :۔۔۔۔
’’کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تو تونے اس کی بیمار پرسی نہ کی ۔۔۔۔کیا تجھے معلوم نہیں کہ تو اس کا حال پوچھنے جاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا ۔‘‘
اے آد م کے بیٹے !میں نے تجھ سے کھانا مانگاتو تو نے مجھے کھانا نہ دیا۔
انسان عرض کرے گا :۔۔۔
’’اے میرے رب میں تجھے کیسے کھانا دیتا جب کہ تو سارے جہانوں کا رب ہے (تجھے کھانے پینے کی کیا حاجت ہو سکتی ہے )‘‘
اللہ تعالیٰ فرمائے گا :۔۔۔
’’کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تو نے اس کو کھانا نہ دیا۔ کیا تجھے علم نہیں کہ اگر تو اسے کھانا دیتا تو مجھے اس کے پاس پاتا ۔‘‘
اے آدم کے بیٹے !میں نے تجھ سے پانی مانگا تو تو نے مجھے پانی نہ پلایا۔
انسان کہے گا :۔۔
’’اے میرے ربّ!میں تجھے کیسے پانی پلاتا جب کہ تو سارے جہانوں کا مالک ہے ( تجھے پانی کی کیا حاجت ہو سکتی ہے )
اللہ تعالیٰ فرمائے گا :۔۔۔
’’میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا مگر تو نے اسے پانی نہ پلایا ۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے پانی پلاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
مفلس کون ہے؟
رسول اللہ ﷺ نے ایک دن اپنے پیارے ساتھیوں سے فرمایا: ’’تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟‘‘
صحابہؓ نے عرض کیا:’’اے اللہ کے رسول !مفلس وہ ہوتا ہے جس کے پاس نہ روپیہ پیسہ ہو اور نہ دنیا کا دوسرا سامان۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا:
’’میری اُمت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حال میں پیش ہو گا کہ نمازیں ،زکوٰۃاور روزے تو ہوں گے مگر ساتھ ہی اس نے کسی کو گالی دی ہو گی،کسی پر جھوٹا الزام لگایا ہو گا ،کسی کاخون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا۔پھر اس کی نیکیاں لے کر ان لوگوں کو دے دی جائیں گی جن پراس نے ظلم کیا ہوگا۔ اگر اس کی نیکیاں اس کے ظلم کا بدلہ ادا ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گئیں تو پھر ان مظلوموں کے گناہ لے لئے جائیں گے اور اس ظالم کے حساب میں ڈال دےئے جائیں گے پھر اس کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
اللہ کے پیارے بندے
رسول پاک ﷺ کے پیارے ساتھیوں کو دیکھنے والے ایک بزرگ حضرت ابو ادریس خولانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ دمشق کی جامع مسجد میں گیا۔ وہاں میں نے ایک صاحب کو دیکھا جن کے دانت بہت خوبصورت اور چمکدار تھے۔ چند آدمی ان کے پاس بیٹھ کر دین کی باتیں کر رہے تھے ۔ اگر کسی بات میں ان کی رائے ایک دوسرے سے نہ ملتی تووہ ان صاحب سے پوچھتے کہ کس کی رائے صحیح ہے ۔
میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ صاحب کون ہیں ؟انہوں نے مجھے بتایا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی حضرت معاذ بن جبل انصاریؓ ہیں ۔
اگلے دن میں سویرے ہی مسجد میں جا پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت معاذؓ مجھ سے پہلے مسجدمیں پہنچ چکے تھے اور نمازپڑھ رہے تھے ۔ میں انتظار میں بیٹھ گیا۔ جب انہوں نے اپنی نمازختم کر لی، میں نے ان کے پاس جا کر سلام کیا اور کہا:۔۔۔
’’خدا کی قسم میں آپ سے محبت رکھتا ہوں ۔‘‘
انہوں نے کہا:۔۔۔
’’کیا اللہ کے لئے ؟‘‘
میں نے جواب دیا:’’ہاں اللہ کے لیے۔‘‘
انہوں نے میری چادر کا کنارہ پکڑا اور مجھے اپنی طرف کھینچتے ہوئے فرمایا :۔۔۔
’’خوش خبری سنو، بے شک میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ میرے لئے ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں اور میرے لئے ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے ہیں اور میرے لئے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں اور میرے لئے مال خرچ کرتے ہیں،میں ان سے ضرور محبت کرتا ہوں ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
سب سے بڑی نیکی
ایک دفعہ ایک صاحب ملک یمن سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے اور پھر رسول پاک ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آ پ ﷺ نے ان سے پوچھا :
’’کیا یمن میں تمہارا کوئی ہے ؟‘‘
انہوں نے عرض کیا:۔۔۔
’’جی ہاں ۔ میرے ماں باپ ہیں ۔‘‘
آپﷺ نے پوچھا:۔۔۔
’’کیا تم ان کی اجازت سے یہاں آئے ہو ؟‘‘
انہوں نے کہا:’’نہیں ‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا:۔۔۔
’’تو پھر ماں باپ کے پاس جاؤ اور یہاں آنے کی اجازت مانگو پھر اگر وہ تمہیں اجازت دیں تو آؤ اور اللہ کی راہ میں لڑو اور اگر وہ اجازت نہ دیں تو (وہیں رہ کر ) ان کی خدمت اور ان سے اچھا سلوک کرتے رہو۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا ، اس ذا ت کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، انسان اس وقت تک مومن نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے ۔
(بخاری ومسلمؒ )
۔۔۔۔۔۔۔
جنت تلواروں کے سایہ کے نیچے ہے
رسول پاک ﷺ کے ایک پیارے ساتھی حضرت عبداللہ بن ابی اوفیؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کافروں کے ساتھ مسلمانوں کی لڑائی شروع ہونے سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے اپنی فو ج کومخاطب کر کے فرمایا:۔۔۔۔
’’اے لوگو!لڑائی بھڑائی کی کبھی خواہش نہ کرو بلکہ اللہ سے ہمیشہ خیروعافیت ہی مانگتے رہو۔ ہاں جب مجبوراً تم کو لڑنا پڑے تو قدم جما کر صبر کے ساتھ لڑو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سایہ کے نیچے ہے ۔‘‘
پھر آپﷺ نے یوں دعا مانگی :۔۔۔
’’اے اللہ ۔ اے قرآن مجید کے نازل کر نے والے ۔ اے بادلوں کے چلانے والے ۔ اے فوجوں کی فوجوں کے بھگانے والے ، ہمارے ان دشمنوں کو بھگا دے اور ان کے مقابلے میں ہماری مد د فرما۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
جب موقع ملے فوراًنیکی کرو
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
’’انسان کو جب کسی نیک کام کرنے کا موقع ملے تو اسے یہ نیک کام فوراً کرنا چاہیے کیونکہ ممکن ہے پھر یہ موقع نہ ملے ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ بہت غریب ہو جائے اور غریبی اس کو نیک کاموں کی توفیق نہ دے ۔۔۔یا ایسا دولت مند ہو جائے کہ دولت مندی کے گھمنڈ میں نیک کام نہ کرے ۔ یا ایسا بیمار ہو جائے کہ نیک کام کر ہی نہ سکے ۔ ۔۔یا ایسا بوڑھا ہو جائے کہ نیک کام کرنے کا ہوش ہی نہ رہے ۔۔۔ یا موت آجائے جس سے کوئی کام کرنے کی طاقت ہی ختم ہو جائے ۔۔۔ یا وہ کسی آزمائش میں مبتلا ہو جائے اور سیدھا راستہ چھوڑ دے ۔۔۔یا ا س کوکوئی حادثہ پیش آجائے جو اس کو نیک کاموں سے روک دے ۔۔۔اس لئے اے لوگو! جب موقع ملے تو فوراًنیکی کرو۔
۔۔۔۔۔۔۔
خیرات صرف مال کی نہیں ہوتی
رسول پاک ﷺ کے ایک پیارے ساتھی حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کہتے ہیں کہ ایک دن میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔
’’ہر مسلمان کا فرض ہے کہ خیرات اور صدقہ دے ۔‘‘
میں نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ﷺ !اگر کسی کے پاس صدقہ و خیرات کے لئے روپیہ پیسہ نہ ہو تو وہ کیا کرے ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔
’’وہ محنت مزدوری کرے پھر جو کمائے اس سے خود بھی فائدہ اٹھائے اور غریبوں کو خیرات دے ۔‘‘
میں نے کہا :۔۔۔۔
’’اگر مزدوری نہ ملے ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔
’’اگر کسی حاجت مند کی روپے پیسے (مال ) سے مدد نہیں کر سکتا تو اس کے کام میں ہاتھ ہی بٹا دے ۔‘‘
میں نے عرض کیا:۔۔۔
’’اگر یہ بھی نہ کرسکے ۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا :۔۔۔
’’منہ سے نیک نصیحت ہی کرے ۔‘‘
میں نے کہا :۔۔۔
’’اگر یہ بھی نہ کر سکے ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔
’’اگر کسی قسم کا فائدہ دوسروں کو نہیں پہنچا سکتا تو کم سے کم یہ کرے کہ کسی کو اس سے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے ۔۔۔۔یہ بھی اس کی طرف سے خیرات و صدقہ سمجھا جائے گا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
چھوٹوں پر شفقت بڑوں کی عزت
حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص ہم میں سے چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا اور ہم میں سے بڑوں کی عزت نہیں کرتا ، ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ کسی مسلمان کے لئے یہ بات جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ (عرصہ تک ) ناراض رہے ۔ جو شخص تین دن سے زیادہ عرصہ تک ناراض رہے اور (اس عرصہ میں ) مرجائے تو وہ دوزخ میں جائے گا ۔
(ابوداؤد :حدیث نمبر ۴۹۱۶)
۔۔۔۔۔۔۔
آپس میں بہت سلام کیا کرو
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم لوگ ہر گز جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک ایمان نہ لاؤ اور تم ہر گز ایمان نہیں لا سکتے جب تک آپس میں محبت نہ کرو اور لوگو! کیا میں تم کو وہ بات نہ بتاؤں کہ اگر تم وہ کرو تو آپس میں محبت پیدا ہوگی ۔سنو وہ بات یہ ہے کہ آپس میں بہت سلام کیا کرو ۔
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مومن ایک انتڑی میں کھاتا ہے اور کافر سات انتڑیوں میں (یعنی مومن پیٹو یا زیادہ کھانے والا نہیں ہوتا)
۔۔۔۔۔۔۔
اللہ سے اچھی اُمید رکھو
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ :۔۔۔
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تو بندے سے وہی سلوک کرتا ہوں جس کی اس کو مجھ سے امید ہوتی ہے اور بندہ جب مجھ کو یاد کرے تو میں اس کیساتھ ہوتا ہوں ۔‘‘
پھر فرمایا کہ :۔۔۔
’’اللہ تعالیٰ کو اپنے گنہگار بندے کی توبہ سے اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی تم میں سے اس شخص کوہوتی ہے جس کی سواری صحرا بیابان میں گم ہو جائے اور مایو سی کے بعد اچانک مل جائے ۔
اللہ فرماتا ہے کہ جو شخص ایک ہاتھ میر ی طرف بڑھتا ہے میں دو ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہوں اور اگر وہ تیز چل کر میری طرف آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کی طرف آتا ہوں ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
مل کر کھانا کھایا کرو
ایک دفعہ رسول پاک ﷺ کے بعض پیارے ساتھی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا :’’اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ !ہم کھانا کھاتے ہیں مگر ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا :’’شاید تم لوگ الگ الگ بیٹھ کر کھاتے ہو۔‘‘
انہوں نے کہا ، جی ہاں ۔
آپﷺ نے فرمایا،’’اکٹھے مل کر اللہ کا نام لے کر کھایا کرو پھر تمہارے لئے اس کھانے میں برکت ہو گی ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
کھانا کیسے کھاؤ
رسول پاک ﷺ کے ایک پیارے ساتھی حضرت عمر بن ابی سلمہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ( اپنے والد کے فوت ہو جانے کے بعد ) بچپن میں رسول اللہ ﷺ کے پاس پرورش پاتا تھا تو کھانے کے وقت میراہاتھ رکابی (پلیٹ ) میں ہر طرف چلتا تھا ۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے مجھے نصیحت فرمائی کہ (کھانے سے پہلے) بسم اللہ پڑھا کرو اور اپنے داہنے ہاتھ سے اور اپنے سامنے سے کھایا کرو۔
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ۔۔۔’’تو اپنے بھائی کی مدد کر خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ۔‘‘تو ایک آدمی نے کہا، یا رسول اللہ ! میں مظلوم کی مدد تو کروں گا، ظالم کی مدد کس طرح کروں ؟
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔’’تو اسے ظلم کرنے سے روک دے یہی اس کی مدد کرنا ہے ۔‘‘
(بخاری ،حدیث نمبر :۲۴۴۴،ترمذی، حدیث نمبر : ۲۲۵۵)
۔۔۔۔۔۔۔
نیک مقصد کے لئے
روزی کمانے کی کوشش عبادت ہے
رسول پاک ﷺ کے ایک پیارے ساتھی حضرت کعب بن عجرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی ﷺ کے پاس سے ایک آدمی گزرا ۔ صحابہؓ نے دیکھا کہ وہ روزی کمانے کے لئے بہت دوڑ دھوپ کر رہا ہے اور اس میں پوری دلچسپی لے رہا ہے ۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ﷺ ﷺ!اگر اس کی دوڑ دھوپ اور دلچسپی اللہ کی راہ میں ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا :۔۔۔
’’اگر وہ اپنے چھوٹے بچوں کی پرورش کے لئے دوڑ دھوپ کر رہا ہے تو یہ اللہ کی راہ ہی میں شمار ہو گی ۔
اگر وہ بوڑھے ماں باپ کی خدمت کے لئے دوڑ دھوپ کر رہا ہے تو یہ بھی اللہ کی راہ ہی میں شمار ہو گی ۔
اگر اپنی ذات کے لئے کوشش کر رہا ہے اور مقصد یہ ہے کہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاناپڑے تو یہ بھی اللہ کی راہ میں شمار ہو گی ۔
اور اگر اس کی دوڑ دھوپ اس لئے ہے کہ زیادہ حاصل کر کے لوگوں پر اپنی بڑائی جتائے اور لوگوں کے سامنے اپنی دولت مندی کی نمائش کرے تو اس کی یہ ساری محنت شیطان کی راہ میں شمار ہو گی ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
جنت کی خوشخبری
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی اس مجلس میں ہمارے ساتھ موجود تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان سے اٹھے اور کسی طرف کو نکل گئے ۔ جب آپﷺ بہت دیر تک واپس تشریف نہ لائے تو ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں ہماری غیر حاضری میں آپ ﷺکو کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے ۔ اس خیال سے ہم بہت پریشان اور فکر مند ہو ئے اور آپﷺ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ۔ سب سے پہلے میں ہی گھبرا کر آپﷺ کی تلاش میں روانہ ہوا یہاں تک کہ انصار کے خاندانِ نجار کے ایک باغ کے پاس پہنچ گیا جس کے چاروں طرف اونچی دیواریں تھیں ۔ میں نے اس کے ارد گرد چکر لگایا تا کہ مجھے باغ کے اندر جانے کاکوئی راستہ مل جائے لیکن نہیں ملا پھر مجھے پانی کی ایک گول چھوٹی نہر نظر آئی جو باہر کے ایک کنوئیں سے باغ کے اندر جاتی تھی ، میں سمٹ کر اور سکڑ کر اس میں سے باغ کے اندر داخل ہو گیااو ررسول ﷺ کے پاس پہنچ گیا جو وہاں تشریف فرما تھے ۔ آپﷺ نے مجھے دیکھ کر فرمایا،’’ابو ہریرہ ‘‘
میں نے عرض کیا، ’’ہاں یا رسول اللہ ﷺ‘‘
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔’’تم کیسے آئے ؟‘‘
میں نے عرض کیا:۔۔۔
’’اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ ہمارے درمیا ن تشریف رکھتے تھے، پھر آپﷺ وہاں سے اٹھ کر چلے آئے اور پھر جب دیر تک آپ واپس تشریف نہ لائے تو ہم ڈرے کہ خدا نہ کرے ہم سے علیحدہ آپ ﷺ کوکوئی تکلیف پہنچائی جائے ۔ اسی خطرے سے گھبرا کر ہم سب چل پڑے اور سب سے پہلے گھبرا کر میں ہی روانہ ہوا یہاں تک کہ اس با غ تک پہنچا ۔ جب مجھے اس میں داخل ہونے کا کوئی دروازہ نہ ملا تو میں لومڑی کی طرح سکڑ کر پانی داخل ہونے والے راستے کے ذریعے باغ میں گھس آیاہوں اور دوسرے لوگ بھی میرے پیچھے آرہے ہیں ۔‘‘
پھر رسول ﷺ نے اپنے نعلین مبارک (جوتے ) مجھے دےئے اور فرمایا کہ میرے یہ جوتے لے جاؤ اور اس باغ سے نکل کر جو آدمی بھی تمہیں ایسا ملے جو دل کے پورے یقین کے ساتھ لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہو اس کو جنت کی خوشخبری دے دو۔
حضورﷺ کا راشاد سن کر میں وہا ں سے چلا تو سب سے پہلے مجھے عمر ملے ۔ انہوں نے پوچھا ، ابو ہریرہ !تمہارے ہاتھ میں یہ جوتے کیسے ہیں ؟
میں نے کہا، یہ رسول اللہ ﷺ کی نعلین مبارک ہیں ۔ آپﷺ نے مجھے یہ دے کر بھیجا ہے کہ جو کوئی بھی سچے دل سے لا الہ الا اللہ کی شہادت دینے والا مجھے ملے اس کو جنت کی خوشخبری سنا دوں ۔
یہ سن کر عمرؓ نے میرے سینے پر ایک ہاتھ مارا جس سے میں سرینوں کے بل پیچھے کو زمین پر گر پڑا اور پھر کہا ، واپس چلو ۔ میں روتا ہوا رسو ل اللہ ﷺ کے پاس واپس آیا اور عمرؓ بھی میرے پیچھے پیچھے آئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے پوچھا ، ابو ہریرہ تمہیں کیا ہوا؟
میں نے عرض کیا کہ عمرؓ مجھے ملے تھے ، آپ ﷺ نے مجھے جو پیغام دے کر بھیجاتھا ۔میں نے وہ انہیں سنایا تو انہوں نے میرے سینے پر ایسا ہاتھ مارا کہ میں اپنی سرینوں کے بل گر پڑا ۔ پھر عمرؓ نے مجھ سے کہا ، پیچھے کولوٹو۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا :
’’اے عمر !تو نے ایسا کیوں کیا؟‘‘
انہوں نے عرض :۔۔۔۔
’’یا رسول اللہ ﷺ !میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ۔ کیا آپﷺ نے ابو ہریرہ کو اپنے نعلین مبارک دے کر اس لئے بھیجا تھا جو کوئی بھی دل کے یقین کے ساتھ لا الہ الا اللہ کی شہادت دینے والا اس کو ملے اس کو جنت کی خوشخبری دے دے ؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔’’ہاں میں نے ہی یہ کہہ کر بھیجا تھا۔‘‘
عمرؓ نے عرض کیا:۔۔۔
’’(اے اللہ کے رسول ﷺ) ایسا نہ کیجئے ، میں ڈرتا ہوں کہ کہیں لوگ اس شہادت ہی پربھروسا کر کے عمل چھوڑدیں ۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔
’’تو جانے دو ۔‘‘(مسلم)
(مطلب یہ کہ خوشخبری تو برقرار ہے لیکن ہر ایک کو نہ سنائی جائے کہ کہیں کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ توحید کی صرف زبانی شہادت دینا ہی کافی ہے حالانکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ نے جن کاموں کا حکم دیا ہے وہ کئے جائیں اور جن سے منع کیا ہے ان سے دور رہا جائے ۔)
۔۔۔۔۔۔۔
سیکھو اور سکھاؤ
حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا :۔
’’کون ہے جو مجھ سے یہ چند خاص باتیں سیکھ لے، پھر وہ خود بھی ان پر عمل کرے یا دوسرے عمل کرنے والوں کو بتائے ۔‘‘
میں نے عرض کیا،’’اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ!میں حاضر ہوں ۔‘‘
آپﷺ نے میرا ہاتھ اپنے دست مبارک میں پکڑ لیااور گن کر یہ پانچ باتیں بتائیں ۔
(۱) جو چیزیں اللہ نے حرام کی ہیں ان سے بچو اور پر ہیز کرو ۔ اگر تم نے ایسا کیا تو تم سب سے زیادہ عبادت کرنے والے ہو۔
(۲) اللہ نے جو تمہاری قسمت میں لکھا ہے اس پر راضی اور مطمئن ہو جاؤ اگر ایسا کرو گے تو بڑے دولت منداور بے فکر ہو جاؤ گے ۔
(۳) اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرو تو تم سچے مسلمان (مومن ) ہو جاؤ گے ۔
(۴) جو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو، دوسروں کے لئے بھی وہی پسند کر و اگر ایسا کرو گے تو پورے مسلمان ہو جاؤ گے ۔
(۵) زیادہ مت ہنسا کرو کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
کسی مسلمان کو مت ڈراؤ
ایک دفعہ رسول پاک ﷺ اپنے چند صحابہؓ کے ہمراہ رات کو سفر کر رہے تھے ۔راستے میں ایک جگہ آپﷺ نے پڑاؤ ڈالا ۔ ایک صاحب سو رہے تھے کہ ایک دوسرے صاحب نے سونے والے کے قریب جا کر ان کے قریب پڑی ہوئی ایک رسی کو اٹھا لیا۔ سونے والے صاحب اس سے ڈر گئے ۔(شاید انہوں نے اس رسی کو سانپ سمجھ لیا )
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کسی مسلمان کے لئے یہ بات جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو ڈرائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے (مسلمان ) بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ بھی نہ کرے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ شیطان شاید اس کا ہاتھ جھٹکا دے اور وہ اسی سے دوزخ کے گڑھوں میں سے کسی گڑھے میں جا پڑے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عائشہ ﷺ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے قابل نفرت ہمیشہ لڑنے جھگڑنے والا آدمی ہے ۔ (صحیح بخاری )
۔۔۔۔۔۔۔
راستے کا حق
حضرت ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے (ایک دن ) صحابہؓ سے فرمایا کہ راستوں میں مت بیٹھا کرو ۔
صحابہؓ نے عرض کیا:۔۔۔
’’یا رسول اللہ !ہم مجبور ہیں کیونکہ ہماری بیٹھنے کی جگہیں راستوں پر ہیں ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:’’تو پھر تمہیں راستے کاحق دینا ہوگا۔‘‘
انہو ں نے عرض کیا:’’اے اللہ کے رسول ﷺ!راستے کا کیاحق ہے ؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا :۔۔۔۔’’نظر نیچی رکھنا ، راستے پر کوئی چیز نہ ڈالنا جس سے کسی کو تکلیف ہو۔ سلام کا جواب دینا ، اچھی بات کا حکم دینااور بُری بات سے روکنا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ راستوں میں بیٹھنابھلائی کی بات نہیں ، ہاں وہ بیٹھ سکتا ہے جو بھولوں کو راستہ بتائے ، سلام کا جواب دے ، نظر نیچی رکھے اور بوجھ اٹھانے والے کی مدد کرے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
سب سے اچھاآدمی
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ صحابہؓ کی ایک جماعت کے درمیان تشریف رکھتے تھے کہ آپﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا:۔۔۔
’’کیا میں تمہارے سامنے تمہارے سب سے اچھے آدمیوں کو سب سے بُرے آدمیوں سے جدا کر کے دکھا دوں ؟‘‘
آپﷺ کا ارشاد سن کر تمام صحابہؓ خاموش بیٹھے رہے اور کسی نے کچھ نہ کہا۔
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔
’’کیا میں تمہارے سامنے تمہارے بہترین آدمیوں کو بدترین آدمیوں سے جدا کر کے دکھادوں ۔‘‘
صحابہؓ اب بھی خاموش رہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے تیسری مرتبہ یہ الفاظ فرمائے تو ایک صاحب نے عرض کیا:۔۔۔
’’ہا ں یا رسول اللہ ﷺ!ہمارے سب سے نیک آدمیوں کو سب سے بُرے آدمیوں سے جدا کر کے بتائیے ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔’’تم میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے جس سے لوگ بھلائی کی امید رکھتے ہوں اور اس کی طرف سے انہیں کسی بُرائی اور شرارت کاڈر نہ ہو ۔((اور وہ اطمینان سے زندگی بسر کرتے ہوں )‘‘
۔۔۔۔۔۔۔