skip to Main Content

جنت کے خریدار

کلیم چغتائی

…..

”وہ جنھیں ڈر تھا کہ کہیں ان کی نیکیوں کا بدلا دنیا ہی میں نہ مل جائے“

…..

چاروں طرف سناٹا اور ہر طرف تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میں میٹھی نیند سورہے تھے۔ شہر کی گلیاں سنسان اور ان گلیوں میں دو انسانی ساے حرکت کررہے تھے۔
کچھ دور جانے پر ایک مکان سے روشنی جھلکتی نظر آئی۔ دونوں ساے اس مکان کی طرف چلے گئے۔ مکان کے قریب پہنچنے پر اس میں شور سا اُٹھتا سنائی دیا، جیسے کچھ لوگ غل مچا رہے ہوں۔
ایک ساے نے دوسرے سے پوچھا: ”تمھیں معلوم ہے یہ کس کا مکان ہے؟“
”نہیں!“ دوسرے نے کہا۔
”یہ ربیعہ بن امیہ بن خلف کا مکان ہے۔ اس وقت یہ لوگ مست ہیں۔“ پہلے ساے نے بتایا۔
”ہم لوگ نامناسب جگہ پر آگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”لاتجسسویعنی لوگوں کے عیب تلاش نہ کرو۔“
یہ سن کر پہلا سایہ خاموش رہا۔ پھر دونوں ساے مڑ کر واپس چلے گئے۔

٭……٭

تاریک راتوں میں گلی گلی گھوم کر لوگوں کا حال معلوم کرنے والے یہ ساے، خلیفہئ دوم، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے۔
یہ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بن عوف ہی تھے، جن کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے راتوں کو گشت پر اپنے ساتھ لے جانے کے لیے منتخب فرمایا تھا اور یہ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ ہی تھے، جنھوں نے اس وقت کی بہت بڑی مملکت کے حکمران حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو قرآن مجید کی آیات سُنا کر تجسس کرنے سے روکا تھا۔
آپ کا نام ’عبدالرحمن‘ اور کُنیت ’ابو محمد‘ ہے۔ والد کا نام ’عوف‘ اور والدہ کا نام ’شفا‘ تھا۔ ایمان لانے سے پہلے آپ کا نام ’عبد عمرو‘ تھا۔ ایمان لانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کا نام بدل کر ’عبدالرحمن‘ رکھ دیا۔ ایمان لانے والوں میں آپ کا نمبر تیرہواں ہے۔
جوں ہی مکہ کے کفار کو سچے دین یعنی اسلام کا علم ہوا، تو انھوں نے مسلمانوں کو ستانا اور تکالیف دینا شروع کردیا۔ جب ظلم بڑھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہجرت کرکے حبشہ چلے جانے کی ہدایت فرمائی۔
حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ ان صحابہئ کرام رضی اللہ عنہما میں سے ہیں، جنھوں نے حبشہ کے لیے دو بار ہجرت کی۔ آخر آپ دیگر صحابہ کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلے گئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن الربیع انصاری رضی اللہ عنہ سے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا بھائی چارا کروا دیا اور حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے تھوڑے سے مال سے تجارت شروع کردی۔
اللہ نے آپ رضی اللہ عنہ کے کاروبار میں اتنی برکت دی کہ کچھ عرصے بعد آپ رضی اللہ عنہ کا مال سیکڑوں اونٹوں پر لَد کر مدینہ سے باہر جانے لگا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بعد میں زراعت بھی شروع کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے وارثوں کے لیے بڑی دولت چھوڑی۔
لیکن…… اتنی بڑی دولت کے مالک ہونے کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ میں ذرا بھی غرور نہیں تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ تو اپنا مال اللہ کی راہ میں دینے کے لیے بے چین رہتے تھے۔ وہ حقیقت میں ’جنت کے خریدار‘ تھے۔
غزوہئ تبوک کے موقع پر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا آدھا مال، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا۔ دیگر مواقع پر چالیس چالیس ہزار دینار دیے۔
ایک بار جہاد کے لیے پانچ سو گھوڑے اور پانچ سو اونٹ دیے۔ ایک بار ایک زمین چالیس ہزار دینار میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ فروخت کی اور یہ ساری رقم اللہ کی راہ میں دے دی۔
ایک دن میں تیس تیس غلام آزاد کردیتے تھے۔ وفات سے ذرا پہلے، پچاس ہزار دینار اور ایک ہزار گھوڑے، اللہ کی راہ میں وقف کیے، جن صحابہئ کرام رضی اللہ عنہما نے غزوہئ بدر میں شرکت فرمائی تھی اور اس وقت تک حیات تھے، ان میں سے ہر ایک کے لیے چار سو دینار کی وصیت کی۔ اس وقت ایسے سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہما موجود تھے۔ ان تمام میں یہ رقم تقسیم کی گئی۔ اللہ کی راہ میں اس قدر مال و دولت قربان کرنے والے یہ صحابی پھر بھی فکر مند رہتے تھے۔
ایک بار آپ رضی اللہ عنہ اُم المومنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے اور کہنے لگے: ”مجھے خوف ہے کہ مال کی کثرت مجھے ہلاک کردے گی۔“
اُم المومنین رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: ”اللہ کی راہ میں خرچ کرو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا ہے کہ میرے صحابہ میں سے کچھ ایسے ہیں کہ مجھ سے بچھڑنے کے بعد اُنھیں میرا دیدار نصیب ہوگا۔“

٭……٭

آپ رضی اللہ عنہ کے تقویٰ کا یہ حال تھا کہ ایک بار روزہ رکھا، شام کے وقت کھانا سامنے آیا تو ایک اور صحابی کو یاد کرکے رو پڑے اور فرمایا: ”مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مجھ سے بہتر تھے۔ وہ شہید ہوئے تو اُن کے کفن میں صرف ایک چادر تھی، جس سے سر چھپایا جاتا تو پاؤں کھل جاتے تھے اور پاؤں چھپاتے تو سر کھل جاتا تھا۔ اسی طرح حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے، وہ مجھ سے بہتر تھے۔ اب دنیا ہمارے لیے کشادہ ہوگئی ہے اور ہمیں اس قدر دُنیاوی نعمتیں دے دی گئی ہیں کہ مجھے ڈر ہے کہ شاید ہماری نیکیوں کا بدلا دنیا ہی میں ہمیں مل گیا ہے۔“ یہ کہہ کر اس قدر روئے کہ کھانا بھی نہیں کھایا۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ان دس عظیم صحابہ کرام رضی اللہ عنہما میں سے ہیں جن کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دُنیا ہی میں جنت کی بشارت دے دی تھی۔
آپ رضی اللہ عنہ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ غزوہئ اُحد میں بدن پر اکیس زخم آئے۔ یہ سارے زخم بدن کے سامنے کے حصے پر تھے۔ اسی غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کو فرشتے بچارہے ہیں۔“
ایک صحابی حضرت حارث رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ حضرت عبدا لرحمن رضی اللہ عنہ کے سامنے سات کافروں کی لاشیں پڑی ہیں۔ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے بتایا: ”ان میں سے دو کو تو میں نے قتل کیا ہے، باقی کو قتل کرنے والے مجھے نظر نہیں آئے۔“
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے تیسرے فرد حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انھوں نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کو اپنی مجلس شوریٰ میں ہمیشہ شامل رکھا۔ وہ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بے حد علم رکھنے والے صحابی تھے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لوگوں کو دینی مسائل سمجھا دیا کرتے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر جب ایک شخص نے فجر کی نماز میں قاتلانہ حملہ کیا تو فوراً حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر امامت کے لیے کھڑا کردیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس حملے میں شدید زخمی ہوئے اور زخموں کی تاب نہ لاکر آپ رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے۔
آپ رضی اللہ عنہ نے وصیت کی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ میں جس کے بارے میں لوگوں کی راے زیادہ ہوں، اُسے ’خلیفہ‘ منتخب کرلیا جائے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ امورِ مملکت سے دور رہے۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سنجیدہ اور باوقار شخصیت تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں دینی اور دنیاوی معاملات میں بصیرت اور دور اندیشی عطا فرمائی تھی۔ تدبر اور دیانت و امانت میں اپنی مثال آپ تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا: ”عبدالرحمن اہل زمین میں بھی امین ہیں اور اہل آسمان میں بھی۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا بھی فرمائی: ”اے اللہ! عبدالرحمن کو وقار عطا فرما، اور جنت کے چشمے سلسبیل سے سیراب فرما۔“
32 ھ بمطابق 652ء میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے وفات پائی۔ اس وقت آپ کی عمر پچھتر برس تھی۔

٭……٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top