skip to Main Content

جنگل مررہا ہے

ذبیح اللہ عارفی

۔۔۔۔۔

”قیں….قیں….قق ….قق….قق….“آواز دھیمی ہوتی گئی اورپھر دَم توڑ گئی۔
”بھد!“کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی۔
میں نے گھبراکردیکھا۔ایک بگلا درخت سے نیچے گر کر تڑپ رہا تھا۔
”اوہ ! یہ کیا ہوا؟“میں ادھر دوڑ پڑا۔میں نے بیگ سے پانی کی بوتل نکالی۔اس پر پانی چھڑکا مگر وہ بے سدھ ہوتا گیا اورپھر میری آنکھوں کے سامنے اس نے دم توڑ دیا۔

…. ٭….

جنگل میری زندگی کے لیے ایسے ہیں جیسے مچھلی کے لیے پانی۔ میں شہر میں تعیناتی کو کبھی پسند نہیں کرتا۔کبھی ہوجائے توجلداز جلد کسی دیہات میں تبادلہ کرالیتا ہوں جو فوراً ہوجاتا ہے کیوں کہ دیہات میں جانا کوئی پسندنہیں کرتا۔وہاں جگہیں بکثرت خالی رہتی ہیں۔سب شہروں کی طرف بھاگتے ہیں مگر مجھے دیہات اورجنگلات ہی پسند ہیں۔میں چنددن پہلے ہی اسلام گڑھ کے ایک قریبی اسکول میں تعینات ہوا تھاجہاں تھوڑے ہی فاصلے پرمنفر دقسم کے جنگلات کاایک سلسلہ ہے جو کھیڑی کش پہاڑ تک چلا جاتا ہے۔سیر وشکار تواپنا مشغلہ ہے ہی، مجھے جب موقع ملتا ہے بندوق کندھے پر اٹھائے شکارکو نکل جاتاہوں۔میں ہمیشہ موذی جانورو ں کاشکار کرتا ہوں۔رہے پرندے وہ تومیری جان ہیں، مجھے انھیں دیکھ کر بہت لطف آتا ہے،بہت پیا رآتا ہے۔ میں کبھی پرندوں کو پنجروں میں قید کرکے رکھنا اچھا نہیں سمجھتا۔ انھیں توآزاد پرواز کرتا دیکھ کر ہی مز اآتا ہے۔
اگلے دن اسکول کی چھٹی تھی۔ میں فجر کی نماز کے بعد محلے کی مسجد میں بیٹھاتھا کہ اسکول کاچپراسی دوڑا ہوا آیا:”سر جی ! سرجی!“اس کے چہر ے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔
”کیا ہوا“میں چونک گیا۔
”اس رات فیضو مر گیا۔“
”کیسے ؟“
”کچھ جانوروںنے حملہ کیاتھا۔“
”کیسے جانور؟“
”پتا نہیں جی….ریچھ تھے یا کچھ اور….“
”مجھے پوری بات بتاؤ۔“میں نے الجھن محسوس کرتے ہوئے کہا۔
اس نے بتایا کہ کل شام گاؤں سے ایک بارات کچے راستے سے کھیڑی کش پہاڑ کے پار ایک گاؤں گئی تھی۔ اس راستے پر گاڑی نہیںجاسکتی۔لوگ بیل گاڑیوں پر یا پیدل تھے۔ دلھن کو لے کر وہ لوگ رات گئے واپس ہوئے۔پہاڑ کی گھاٹی میں دوتین افراد ذراپیچھے رہ گئےتو وہاں درندوں کے ایک گروہ نے ان پر حملہ کردیا۔ فیضو شدید زخمی ہوگیا اورابھی کچھ دیر پہلے جب اسے گاڑی پر ہسپتال لے جارہے تھے تواس کی موت واقع ہوگئی۔“
مجھے کسی عجیب سے خطرے کی بومحسوس ہونے لگی۔ میں فیضو کے گھر گیا جہاں ماتم برپا تھا۔چار بچوں کاباپ،جوان آدمی،گھر کااکیلا سہارا۔ مسجد میں اذان وہی دیتا تھا۔اب اُس کی لاش سامنے پڑی تھی۔ جسم پر بڑے گہرے زخم تھے، جیسے کسی بڑے طاقتور درندے نے بہت اشتعال کی حالت میں پنجے مار ے ہوں۔
اگلے ایک ہفتے میں اسلام گڑھ سے دس میل طول وعرض کے درمیان ایسی تین وارداتیں ہوئیں۔مجھے گاؤں کے باشندوں نے بتایاکہ گزشتہ دو سال میں ایسی دس بارہ وارداتیں ہوچکی ہیں، مگر اُن میںاکثر مویشیوں پر حملے ہوتے رہے ہیں جب کہ انسانوں پر حملے کم ہوئے ہیں۔پھر اِن وارداتوںمیںہمیشہ خاصا وقفہ ہوتا تھا۔ اتنی تیزی سے وارداتیں پہلے کبھی نہیں ہوئیں،پھرحملہ ہمیشہ رات کی تاریکی میں ہوتا تھا، مگرا ب کبھی کبھار دن کو بھی واردات ہوجاتی ہے۔کئی جانور گروہ کی شکل میں حملہ کرتے ہیں۔عموماً شکار ہونے والے کی لاش نہیں ملتی تھی۔ جانور اسے پوری طرح چٹ کرجاتے ہیں۔ہاں کبھی کبھی بچی ہوئی ہڈیاںمل جاتی ہیں۔
اب میں رہ نہ سکا۔ فون کرکے شہر سے اپنے دوست کرنل شبیر کو بلوالیا جو ایک بڑے ماہر شکاری ہیں۔رات کو آرام کے بعداگلی صبح میں انھیں لے کر جنگل کی طرف نکل پڑا۔ایک کھوجی ہمارے ہمراہ تھا۔ہم پہاڑ کے دامن تک جیپ پر گئے اورپھر پیدل ہوگئے۔ بندوقیں ہمارے ساتھ تھیں۔ہماراخیال تھاکہ یہ بھیڑیوں کاکوئی گروہ ہے جواِس طرف آنکلا ہے۔ہم صبح نو سے شام چار بجے تک جنگل کو چھانتے رہے مگر کوئی سراہاتھ نہ آیا۔دوسرے دن بھی اسی طرح ہم رائیگاں کوشش کرتے رہے۔ تیسرے دن جب کہ رات ہی کو ایک تازہ وارادات میں ایک عورت ماری گئی تھی، ہمارے کھوجی نے جائے واردات کے قریب سے درندوں کے قدموں کے نشانات پکڑ لیے۔یہ بھیڑیے نہیں، ریچھوں کے قدم معلوم ہوتے تھے۔پہاڑکے دامن تک ہم ان کے پیچھے پیچھے گئے مگر ایک بڑے تالاب کے پا س جاکر یہ نشانات ختم ہوگئے۔
اگلے دن مجھے گاؤں کے ایک بہت بوڑھے شخص سے بات چیت کاموقع ملاجسے سب ”جانو بابا“کہتے تھے۔ میں باباسے اس جنگل کے بارے میں معلومات لینے لگا۔
انھوں نے بتایا:”صاحب! اس جنگل میں پہلے بہت شکار تھا۔ہرن،بارہ سنگھے، خرگوش،نیل گائے،جنگلی بکرے۔ کبھی کبھی شیر بھی دِکھ جاتے تھے۔ بھیڑیے اورریچھ تو بہت تھے۔اب تو کچھ بھی نہیں رہا۔ پرندے بھی بہت تھوڑے رہ گئے۔“
”وجہ؟“
”وجہ کیا بتائیں جی!ساری شہروں کی مار ہے۔ پہلے یہاں کوئی باہر کاشکاری نہیں آتا تھا۔ہم لوگ کبھی شکارکرتے توایک آدھ جنگلی بکرامارلیتے تھے،بس۔ کوئی دس سال پہلے یہاں شکاری آنا شروع ہوئے شہروں کے بھی اور دوسرے ملکوں کے بھی۔ اُن کے ساتھ ہمارے افسرحضرات بھی ہوتے،حالاں کہ یہ غیرقانونی ہے مگر افسران خود یہ غیر قانونی شکار کھیلتے تھے تو دوسروں کو کون روکتا۔شکار کے بعد دعوتیں ہوتیں۔ہرنوں اورجنگلی بکروں کے کباب اورتکے بنتے۔اِن پارٹیوں کے لیے اُن لوگوں نے اتنے جانور مارے کہ کچھ حدنہیںاوراب یہاں سے دس بیس میل دورکئی فیکٹریاں بن گئی ہیں۔آپ اُدھر جاکر دیکھیں کہ اُن کاپانی کتنا زہریلا ہوتا ہے۔ جنگل کواس سے بہت نقصان ہورہا ہے جی۔درخت بھی سوکھ رہے ہیں۔پہلے اِس جنگل سے گزرنے کے لیے ہم کلہاڑیاں ساتھ رکھتے تھے کہ بہت گھنا ہوتا تھا۔ اب تو چھلنی ہوگیا ساراجنگل۔ ہمارا جنگل مررہا ہے۔ اسے بچالو صاحب!“
”اللہ مالک ہے۔ “میرے منہ سے نکلا۔ جانو بابا کی باتوں نے مجھے گم صم کردیا تھا۔ میں درندوں کوبھول کر اگلےدن اِن فیکٹریوں کی طرف جا نکلا۔کرنل شبیر کوکوئی مصروفیت تھی۔ وہ اتوار کو دوبارہ آنے کاکہہ کر چلے گئے تھے۔ مِل ایریا پہنچ کر میں نے اردگرد کااچھی طرح معائنہ کیا۔ اُن کی نکاسی کازہریلاپانی سیدھاکئی نالوں کے ذریعے جنگل کوجارہا تھا۔میں ایک نالے کے کنارے چل پڑا۔میں دیکھ رہا تھا کہ جہاں جہاں سے یہ نالا گزررہا ہے، سبزہ کم ہوتاجارہا ہے۔ کوئی تین میل بعد نالاایک بڑے تالاب پر ختم ہوگیا۔ یہاں تعفن کے باعث سانس لینا مشکل تھا۔ مچھر ہجوم کی شکل میں اڑتے پھررہے تھے۔درختوں سے پرندوں کی آوازیں یوں آرہی تھیں جیسے کسی کاماتم کررہے ہوں، پھر ایک پرندہ شاخوں سے الجھتا ہوا نیچے آگرا۔وہ مرچکا تھا۔ میرے دیکھتے دیکھتے دوپرندے اورنیچے گرے اورتڑپنے لگے۔ میں نے ناک پررومال رکھ کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ایک ہولنا ک منظر میرے سامنے تھا۔ دور دور تک پرندوں کی لاشیں پڑی تھیں۔ ان میں سے کوئی بھی کسی شکاری کی گولی کاشکار نہیں ہوا تھا۔کسی کے جسم پر زخم کے نشان نہیں تھے۔یہ سب کسی بیماری سے مرے تھے، مگرکون سی بیماری؟
ان دنوں کسی وبا کانام سننے میں بھی نہیں آیا تھا؟میں دل پر ایک بوجھ لیے واپس چلا آیا۔
”افسوس ! جنگلی حیات ختم ہورہی ہے۔ جنگلات سمٹ رہے ہیں۔درخت مرجھا رہے ہیں۔پانی کے چشمے اورندی نالے گدلے، غلیظ بلکہ زہریلے ہوتے جارہے ہیں۔ “
عشا کی نماز کے بعد میں بستر پر کروٹیں بدلتاسوچتار ہا۔میں نے کرنل شبیر کوفون پر ساری تفصیل بتادی تھی۔
اسی شب اُن بھیانک نامعلوم جانوروں نے ایک لکڑہارے کو نشانہ بنایااوراس کی لاش بھی لاپتا ہوگئی۔اگلے دن اتوارتھا۔ کرنل شبیر آگئے۔ ا ن کے ساتھ ان کادوست امجد بھی تھا۔میری یہ اس سے پہلی ملاقات تھی۔کرنل شبیر اپنے ساتھ ایک بڑا شکاری جال اوراس کے استعمال سے واقف دو ملازم بھی لائے تھے۔ رات والی واردات کو بنیاد بنا کر ہم نے بلاتاخیر کارروائی شروع کردی۔ہم اس درخت کے پاس پہنچے جسے کاٹتے ہوئے لکڑہاراغائب ہواتھا۔کھوجی نے نقشِ قدم دیکھ لیے اوربتایاکہ یہ تین جانور ہیں اور انھیں یہاں گزرے ہوئے آٹھ سے دس گھنٹے ہوگئے ہیں۔ قدموں کے نشانات آخر اسی گندے تالاب تک جا پہنچے جسے میں نے کل دیکھا تھا۔یہاں نشانات پھر غائب ہوجاتے تھے۔
مجھے ایک خیال سوجھا۔ میں نے کھوجی سے پوچھا:”یہاں جنگل میں کوئی ایسا تالاب یاچشمہ ہے جس کا پانی صاف ہو۔“
کھوجی نے کہا:”اِس تالاب کے پارشمال کی طرف پہاڑ کی ڈھلوان پرکچھ گہری جگہیں ہیں جہاں بارش کا پانی جمع ہوجاتا ہے۔میں برسوں سے وہاں گیا تو نہیںمگر مجھے معلوم ہے کہ وہاں تین چار میل کے علاقے میں پہلے کئی چشمے تھے۔ا ب زمین کاپانی کم ہوگیا ہے اوراکثر چشمے سوکھ گئے ہیں،مگر وہاں تالابوں میں پانی ضرور ہوگا۔“
”پھر ہمیں وہیں جاناچاہیے۔“
کرنل شبیر نے اتفاق کیا۔ ہم ایک لمباچکر کاٹ کر گندے تالاب کے شمال میں گئے۔ کھوجی نے یہاں ایک بارپھر نشانات ِ قدم دیکھ لیے جن کے پیچھے مزیدتین میل چل کر ہم پہاڑکی اس ڈھلوان تک پہنچ گئے۔ہم پوری احتیاط سے ہر طرف نگاہ رکھ کر بلند ی پر چڑھنے لگے۔
”شش©©“کرنل شبیر کے منہ سے نکلا۔ان کی انگلی کی سمت دیکھ کر ہم ششدر رہ گئے۔
ایک بڑی کھائی کی گہرائی میں قدرتی چشمہ تھا جس کے کنارے پانچ کالے ریچھ بیٹھے ایک انسانی ران کو بھنبھوڑ رہے تھے۔یقینا یہ وہی بدقسمت لکڑہاراتھا۔جانوروں میں سے تین بڑے تھے جب کہ دوبچے تھے۔ کرنل شبیر یہ منظر برداشت نہ کرسکے اورقریب تھاکہ وہ ان پر فائرکھول دیتے مگر میں نے انھیں منع کیا۔ کھوجی نے کرنل کے معاون امجد کے ساتھ کھائی کاچکرلگاکر بتایاکہ یہاں سے نکلنے کاایک ہی راستہ ہے۔ ہم دبے قدموں پیچھے ہٹ آئے۔
اگلی شب واردات سے خالی گئی۔ہمیں یقین تھاکہ اب ریچھ بھوکے ہوں گے۔دوبارہ وہاں پہنچے۔کھائی میں ریچھوں کی موجودگی کااطمینان کیا اوراس سے نکلنے والے راستے پرمناسب جگہ دیکھ کر جال لگانے کاانتظام کرنے لگے۔ساتھ ہی ایک ساتھی کوگاؤں کی طرف دوڑایا کہ وہ بھینس کا گوشت لے آئے جس کے لیے ہم صبح کہہ چکے تھے۔اس دوران کرنل شبیر اورامجدبندوقیں تھامے بلندی پر ایک چٹان کے پیچھے سے ریچھوں کی نگرانی کررہے تھے۔
زوال آفتاب کے وقت بھینس کاگوشت رکھ کر جال لگایاجانے لگا۔جال لگنے کے بعد ہمیں خاصا پیچھے ہٹ کرانتظارکرناتھا۔میںایک بارپھرریچھوں کی موجودگی کاحتمی اطمینان کرنے کے لیے چڑھائی پر چڑھ کرکرنل کے پاس پہنچا۔ انھوں نے کہا:”سامنے تو دونوںبچے اورریچھنی ہی ہیں۔“
”اورباقی دو؟“میں نے تشویش کے عالم میں پوچھا۔
”وہ رہی ان کی کھوہ۔وہ اس میںچلے گئے ہیں۔“
”اس کامطلب ہے اب یہ بچے اورریچھنی بھی کسی کھوہ میں گھس کر آرام کریں گے۔“
میں نے کہا اورہم نیچے اتر آئے۔
”بھئی مجھے چندلمحے بیٹھنے کاموقع دو۔دوگھنٹے سے کھڑے کھڑے تھک گیا ہوں۔“
کرنل پسینہ پونچھتے ہوئے بولے۔یہ کہہ کر وہ ڈھلوان پر ابھری ہوئی ایک چٹان پر براجمان ہوگئے اورامجد سے بوتل لے کر پانی پینے لگے۔
”مجھے تشویش ہورہی ہے کہ اِس کھائی سے نکلنے کاکوئی اورراستہ ہوا توساری محنت بے کار جائے گی۔“
”اورمجھے یہ ڈر ہے کہ اب ہماراجال شاید اتنی جلد کام نہیں کرے گا۔“کرنل نے کہا۔
”کچھ کہا نہیں جاسکتا۔بس انتظار ہی کرنا ہوگا۔“میں نے الجھے ہوئے انداز میںکہا۔
”ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے۔یہ آدم خور جانور ہیں۔ان کی چالاکی حیران کن حدتک ثابت ہوتی ہے۔“کرنل کا معاون امجد بولا۔
”ہاں تبھی تو یہ آج تک پکڑے نہیں گئے۔“کرنل نے مسکراکر کہا۔
”مگر ان شاءاللہ آج بچ کرنہیں جائیں گے۔“میں بولا اورہم اٹھ کھڑے ہوئے۔ اب ہم تیزی سے اُن ساتھیوں کی طرف جارہے تھے جو جال لگارہے تھے۔ہمارااُن سے کوئی سو گز کافاصلہ ہوگا۔
”امجد !یہ پانی کی بوتل پکڑنا۔“کرنل صاحب بولے۔امجد اُن سے پانی کی بوتل لے رہا تھا کہ اچانک ہماری دائیں جانب سے جھاڑیاں زورزورسے ہلیں اوربیک وقت تین ریچھ غُرّاتے ہوئے حملہ آور ہوئے۔ کرنل شبیر دائیں طرف تھے اوروہی ان کے حملے کی زد میں آئے۔ ان پر حملہ کرنے والی ریچھنی تھی۔ وہ اُن سے گتھم گتھا ہوگئی۔ کرنل کی بندوق دورجاگری تھی مگروہ واقعی دل گردے والے انسان تھے، انھوں نے بروقت اپنا شکاری خنجر نکال کر پے درپے ریچھنی پر وارشروع کردیے۔
امجد نہ معلوم کہاں چھپ گیا تھا۔ اُدھر میں کسی محفوظ پوزیشن کی تلاش میں آگے کی طرف دوڑا۔دونوں نرریچھ میرے پیچھے دوڑتے آرہے تھے۔ مجھے معلوم نہیں کہ مجھے پَرلگ تھے یا کیا ہواتھا۔بس میں دوتین سیکنڈوں میں وہ سوگزکافاصلہ پار کرگیااوراس کے ساتھ ہی میں نائلون کے اس جال میں لٹک گیا جو ریچھوں کے لیے لگایا گیا تھا۔ہمارے ساتھی جو غیرمسلح تھے، ریچھوں کودورسے دیکھ کر بھاگ نکلے تھے جبکہ کھوجی ایک درخت پر چڑھ گیا تھا۔
مجھے جال میں پھنسا دیکھ کر ریچھوں کی رال ٹپکنے لگی اوروہ میر ے چاروں طرف چکر لگانے لگے۔مگر خوش قسمتی سے میری بندوق میرے ہاتھ میں تھی اورجال جو تین بڑے جانوروں کے لیے لگایاگیاتھا، اتنا کھلا تھا میں آسانی سے بندوق استعمال کرسکتا تھا۔ اس سے پہلے کہ ریچھ مجھ پر حملہ کرتے، میں نے فائرکھول دیا۔ایک ریچھ حملہ کرتے ہوئے گرا۔جبکہ دوسرا بھاگتے بھاگتے امجد کی گولی سے ڈھیر ہوگیاجو ایک چھوٹے سے گڑھے میں پوزیشن لیے ہوئے تھا۔اُدھر کرنل کے خنجر نے ریچھنی کو ڈھیر کر دیا تھا۔ انھیں بھی گرچہ زخم آئے تھے مگر کوئی بھی سنجیدہ نوعیت کا نہیں تھا۔ زخموں پر کپڑا پھاڑ کر باندھ دیا گیا تھا۔
اب دونوں بچوں کی تلاش شروع ہوئی۔ہم اس کھائی میں اترے اورپھر اس کھوہ میں داخل ہوئے۔اندر جاکر یہ کھوہ بہت کھلی تھی اور دوسرنگوں میں بدل جاتی تھی جن کے منہ اسی ٹیلے کے دائیں بائیں تھے۔وہیں سے نکل کر اِن جانوروں نے ہم پر حملہ کیا تھا۔دراصل جتنی دیر ہم باتوں میں مصروف رہے،یہ سب کھوہ میں گھس کر ایک شارٹ کٹ لے کر ہماری دائیں طرف پہنچ گئے تھے۔ کھوجی کی مدد سے دونوں بچے کھوہ کے باہر گھومتے ہوئے پکڑ ے گئے۔
ریچھ جیسے جانو رکاآدم خور بننا حیران کن تھا۔
یہ جانورگرچہ انسان اور کوے کی طرح ہمہ خور ہے۔ گوشت،سبزہ، اناج اور شہد ہر چیزکھالیتا ہے، مگر وہ آدم خورنہیں ہوتا۔انھیں آدم خوری پر اکسانے کا بڑاسبب یہ تھاکہ جنگل مر رہا تھا۔ درخت اور سبزہ ختم ہونے کی وجہ سے جانوروں کا پورا سائیکل آف لائف خراب ہو گیا تھا۔ ایسے میں دوسرے جانور تو جلدی ختم ہوئے تھے جو ایک ہی طرح کی خوراک کھاتے تھے مگرریچھوں کی طرح ہمہ خور جانوروں کی خوراک کے بیشتر ذرائع بھی مسدود ہوتے چلے گئے تھے۔ایسے میں انھوں نے ایک بار حادثاتی طورپر کسی انسان پر حملہ کیا اورپھر اسے آسان ہدف پاکر یہ عادت بنالی۔ جوں جوں جنگل میں شکار کم ہوتا گیا، ان کی آدم خوری بڑھتی گئی۔
میں نے کرنل سے کہا کہ ہمیں فوری طورپراس جنگل کو بچاناچاہیے۔
خوش قسمتی سے علاقے کاڈپٹی کمشنر کرنل صاحب کاپرانادوست تھا۔ہماری درخواست پر فوری کارروائی ہوئی۔مِل مالکان کو پابند کیا گیاکہ وہ جنگل جانے والے نالوں کو اپنی زہریلی نکاسی سے محفوظ رکھیں۔اِس پورے علاقے میں ازسرِ نو شجرکاری شروع ہوئی۔پانچ برس بعد جب میرااسلام گڑھ سے تبادلہ ہورہا تھا تو لوگ مجھے دعائیں دے رہے تھے۔اب اُن کاجنگل ایک بار پھر ہرابھرا تھا۔ ا س کے تالاب صاف پانی سے بھرے تھے۔
مجھے گاؤں سے نکلتے ہوئے پرندوں کی مترنم چہچہاہٹ سنائی دے رہی تھی۔ ایسالگ رہا تھا کہ وہ بھی مجھے الودا ع کہہ رہے ہیں۔میں خوش تھاکہ جنگل مرنے سے بچ گیا تھا!

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top