جنگ اور جنازہ
محمدالیاس نواز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک تدبیر اور ایک سزا کی لا زوال دا ستان کہ جو تاریخ کی کتابوں میں دبی ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قیامت کا منظر تھا،حشر کی گھڑی تھی اورہر کسی کو سلطان کے انتقال کایقین ہو گیا تھاکہ سیاہ رات میں سلطان کاجنازہ اُٹھ چکا تھا ،جنازہ توجنازہ ہی ہوتا ہے کسی کا بھی ہو مگر یہ تو سلطان کا جنازہ تھا کہ جس کے اُٹھتے ہی کہرام مچ گیا۔جہاں بھی سلطان کے انتقال کی خبر پہنچی غم کے بادل چھا گئے ۔عورتوں اور مردوں نے برابر آنسو بہا ئے۔غم سے دل پھٹنے لگے اور ہر طرف سے رونے دھونے کی آوازیں آنے لگیں،خود سلطان کے لشکر کے ہرشخص کی آنکھ میں آنسو تھے۔چونکہ سلطان کا انتقال مہم جوئی کے دوران راستے میں ہوا تھا اسی لئے عطر میں بسا ہواجنازے کا تابوت پھولوں اورخوشبوکے ساتھ پٹن لے جانے کے لئے اُٹھ چکاتھا، اس کے علاوہ قرآن اور نعتیں پڑھنے والے ساتھ تھے۔فوج کے جر نیلوں پر سکتہ طاری تھا مگر وہ سلطان کے انتقال کے بعد بھی منظم تھے اور کسی قسم کی بد نظمی پیدا نہیں ہوئی۔
غم کے اس عالم میں ایک شخص ایسا بھی تھاکہ جس نے سلطان کی موت کی خبر سن کر شکرا نے کی نماز اداکی ،نقارے پٹوائے اور مٹھا ئیاں تقسیم کیں،یہی نہیں بلکہ اس نے اپنے علاقے سے سلطان کے نائب اور سفیر کو بھی بڑی بے عزتی سے نکال دیاکیوں کہ وہ جانتا تھا کہ مر جا نے والا نہ تو وا پس آکرخود بدلہ لے سکتا ہے ،نہ کسی کو کہہ سکتا ہے اور نہ ہی مُڑ کر دنیا میں دیکھ سکتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ریاست کڑپہ کے حاکم حلیم خان کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔بد نصیبی یہ ہے کہ یہ غیر مسلم نہیں بلکہ مسلمان تھا۔اس افغان حاکم کا سلطان کے سا تھ معاہد ہ تھااور بظاہریہ حا کم سلطان کا دوست تھا اور سلطان کے اس پر احسانات تھے ،سلطان چاہتا تو اس کی ریاست اس سے چھین سکتا تھا مگر سلطان نے کبھی اس کی ریاست کو نہیں چھیڑا تھا۔مگر سلطان کا جنازہ اُٹھتے ہی اس کی دوستی کا بھانڈا بیچ بازارپھوٹ گیا ۔
۔۔۔۔۔ٌ***۔۔۔۔۔
عالی شان دربار لگایا گیا تھا ۔ہر ایک شخص حیران تھا کہ کیا ہو رہا ہے ۔ہر ایک کے ذہن میں ایک سوال تھا ۔کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا،اُس کے باوجود ہر کوئی اپنے کا م میں مصروف تھا۔کسی کو پتانہیں تھا کہ آج جو دربار لگایا گیا ہے یہ تا ریخی دربا ر ہے۔ ایک ناقابل یقین خوشی آنے والی ہے اور ایسی ایک مثال قائم ہو نے جا رہی ہے کہ جسکی اپنی کوئی مثال نہیں ہے یعنی مثالِ بے مثل۔
سب کے دل دھک سے رہ گئے جب اچانک سلطان پردے سے نکل کرتخت پر جلوہ افروز ہوئے۔سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ یہ سلطان ہے یا پھر اُسکی روح لیکن روحوں کا آنا توثابت ہی نہیں ہے ۔مگر یہ کیسے یقین کر لیا جائے کہ انتقال کر جانے کے بعد سلطان واپس آگئے کہ اُن سب نے مل کر سلطان کو کندھا دیا تھا،عوام تو کیا خواص نے بھی اپنی آنکھیں مل مل کر لال کر لیں تھیں ۔ایک دہشت کا عالم تھا ،کسی کو جرأ ت نہیں تھی کہ پو چھے ’’حضور!وہ جو ہم نے کندھے دئیے تھے وہ کیا ہوئے؟‘‘۔آخر سلطان سے ان کی حیرانی والی حالت دیکھی نہ گئی اور وہ خود ہی بولے’’اللہ کی ذات ہی بھروسے کے لائق ہے کہ جس نے تم لوگوں کو ثابت قدم رکھا اورتم لوگ آزمائش میں پورے اُ ترے۔دراصل ہم نے تمہارا امتحان لیا تھا کہ تم ہمارے بغیر بھی منظم رہتے ہویا بھیڑ بکریوں کی طرح بکھر جاتے ہو ‘‘۔سلطان کی یہ بات سن کر سب سے زیا دہ حیران اس کا اپنا بیٹا تھا کہ اس بات کا اسکو بھی پتا نہیں چلا تھا اور اس نے سب سے زیا دہ مصنوعی جنا زے کو کندھے دئیے تھے۔سلطان پھر بولا’’ چند ایک خاص آدمیوں کے علاوہ باقی کسی کو بھی اس بات پتا نہیں تھا حد تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے بیٹے کو بھی نہیں بتایا کہ ہمیں سب کے ساتھ اپنے بیٹے کا بھی امتحان لینا منظور تھا‘‘۔
’’ربِ ذوالجلال کا شکر ہے کہ تم سب اس میں پورے اترے مگر حاکم کڑپہ حلیم خان کی دو ستی کا پتا چل گیا ہے اسی لئے ہم نے اس کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا ہے‘‘ ۔اتنے میں خبر آتی ہے کہ کڑپہ وا لوں نے بغاوت کر کے لڑائی کی تیا ریاں شروع کردی ہیں ۔ سلطان بھی فوراً کڑپہ کی طرف پیش قدمی کا حکم دیتا ہے ۔آخر میں سلطان خوش ہو کر انعامات اور خلعتیں (انعامی لباس)تقسیم کرتا ہے ۔
۔۔۔۔۔ٌ***۔۔۔۔۔
سلطان کا غصہ عروج پر ہے او روہ حاکم کڑپہ کے قاصد سے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں تمہاری معافی قبول نہیں ہے کہ جو مٹھائی بٹنی تھی وہ بٹ چکی اور اب جبکہ دوست اور دشمن کی پہچان ہو گئی ہے تواس غدار کوصرف اور صرف ہماری تلوار ہی سیدھا کرے گی ،اسے کہہ دو کہ جنگ کی تیاری کر لے کہ ہم اس کے سر پر آنے ہی والے ہیں۔ایلچی کے ناکام آنے کے بعد حلیم خان نے بھی تیاری کرلی اور پھر گھمسان کی جنگ ہوئی حلیم خان نے جنگ کی قیادت اپنے بھتیجوں حسین میاں اور سعید میاں کو دے دی۔ناتجربہ کاری کے باوجود یہ لڑکے ہاتھی پر سوار ہو کر نقارے بجاتے ہوئے آگے بڑھے اور بڑی بے جگری سے لڑے او رشدید تیر اندازی کرکے سلطان کے دو ہزار آدمی مار دئیے مگر آخر کب تک لڑتے بالآخر ان کو شکست ہو ئی ،کڑپہ فتح ہوگیااور دونوں سردارگرفتار ہوئے۔ گرفتاری کے باوجود انہوں نے سلطان پر قاتلانہ حملہ کر نے کی کوشش کی جس میں وہ ناکام ہوئے اور پھر قتل کر دئیے گئے ۔
یہ تھی ایک سلطان کی داستان کہ جس نے اپنی زندگی میں اپنا جنازہ اٹھواکے ناصرف اپنی ذہانت کا ثبوت دیا بلکہ اپنے دوست اور دشمن کو آزمایا اور ان کو سزا بھی دی۔اور دوسری طرف ایک اور احسان فراموش حاکم نے اپنی بے قوفی کی وجہ سے ناصرف حکومت چھنوائی بلکہ اپنے سا تھ دوسروں کو بھی برباد کروایا
آخر میں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ کارنامہ سلطان فتح علی ٹیپو کے والد سلطان حیدر علی کا ہے۔