skip to Main Content

جامن والے بابا

محسن خان
۔۔۔۔

کسی محلے میں ایک بڑا سا مکان تھا ۔ اتنا بڑا کہ اس میں کئی خاندان آرام سے رہ سکتے تھے ۔ اس مکان میںایک بڑے میاں اکیلے رہتے تھے ۔بڑے میاں کا گھر بھائیں بھائیں کرتا تھا ۔ کوئی نہیں تھا جس سے باتیں کر کے بڑے میاں اپنا دل بہلا تے ۔
بڑے میاں کی بیوی اللہ میاں کو پیاری ہو گئی تھیں۔ کوئی آل اولاد بھی نہیں تھی۔ دو بھائی تھے ۔دونوں خوب تعلیم حاصل کر کے پرائے دیسوں میں بس گئے۔ وہاں شادیاں کر لیں اور وہیں کے ہو کر رہ گئے ۔
محلے میںبڑے میاںکے قرابت دار تھے مگر ان کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ بڑے میاں کے گھر آکر ان کی خیریت معلوم کرتے اور ان سے باتیں کرتے ۔ نوجوان اپنے کام دھندوں میں مصروف رہتے اور بزرگ اپنے ناتی پوتوں میں مگن رہتے ۔ کبھی کبھار کوئی رشتے دار گھڑی دو گھڑی کے لیے آ بھی جاتا تووہ بڑے میاں کی تنہائی اور محرومی کی باتیں کرتا ۔بڑے میاںزیادہ اداس ہو جاتے اور اللہ میاںسے شکایت کرتے ہوئے کہتے، ”اے اللہ! تو دو جہاں کا مالک ہے ۔ تو دو جہاں کا مالک ہے۔رحیم و کریم ہے ۔انسان کو سب کچھ دے سکتا ہے ۔ پھر یہ کیا کہ تو نے کسی کو تو بہت سے بچوں سے نواز دیا اور کسی کو ایک اولاد بھی نہیں دی ۔ زیادہ نہیں تو کم سے کم ایک بیٹا یا ایک بیٹی مجھے دے دیتے ۔اس کی شادی کرتا ۔۔۔ناتی پوتے ہوتے ۔۔۔کھیلتے کودتے ۔۔۔تماشے کرتے ۔۔۔گھر میں کتنی رونق رہتی ۔۔۔میں ان سے خوب باتیں کرتا ۔۔۔ رات میں انہیں کہانیاںسناتا ۔“
اﷲ میاں سے خوب شکوے شکایتیں کرنے کے بعد بڑے میاں اپنے دل کو تسلی دیتے ہوئے آخرمیں کہتے ، ” ہو سکتا ہے اس میں بھی کوئی مصلحت ہو ۔۔۔۔تو جو کرتا ہے بہترہی کرتا ہے ۔“
بڑے میاں کا حلیہ درویشوں جیسا تھا ۔اونچا قد، چہرے پر خوب گھنی اور لمبی سیاہ داڑھی ، سر پر لمبے بے ترتیب بال۔۔۔ اوراتنی بڑی بڑی آنکھیں کہ جیسے حلقوں سے نکل کے گرنے ہی والی ہوں ۔ان کی اسی شکل وصورت کی وجہ سے محلے کے بچے انہیں جن بابا کہتے تھے اور انھیں دیکھ کر ایسے بھاگتے تھے کہ جیسے بڑے میاں ان بچوں کو پکڑ کرجانور یا کیڑامکوڑا بنا دیں گے ۔بچے بڑے میاں سے دور بھاگتے تو انہیں پھر تنہائی کا احساس ستانے لگتا اور وہ اللہ میاں سے کہتے ،” اے اللہ!اگر تو نے مجھے اولاد دی ہوتی تو میرے اس عالیشان اور بڑے سے مکان میں ویرانی نہ ہوتی ۔میری اولادوں کی اولادیں ہوتیں ۔۔۔میںان سے خوب باتیں کرتا ۔۔۔ان کے تماشے دیکھتا ۔۔۔روزانہ رات کو کہانیاں سناتا ۔۔۔“
اللہ میاںسے شکوہ شکایت کرنے کے بعد بڑے میاں اپنے دل کو تسلی دیتے ہوئے کہتے۔اس میں بھی کوئی مصلحت ہو گی ۔تو جو بھی کرتا ہے بہتر ہی کرتا ہے ۔
ایک دن کی بات ہے ۔ بڑے میاں دالان میں بیٹھے وظیفہ پڑھ رہے تھے ۔اسی وقت ان کی نگاہ ایک پرندے پر پڑی ۔ نہایت خوبصورت پرندہ دیوار پہ بیٹھا تھا۔ وہ اپنے سر کو جنبش دے کر حلق سے بانسری کی سی دلفریب آوازیں نکال رہا تھا ۔اس کی آواز میںبڑی تاثیر تھی ۔بڑے میاں کا دل اس کی طرف کھنچا چلا جا رہا تھا۔انہوں نے اپنے کھیتوں اور باغوں میںطرح طرح کے پرندے دیکھے تھے۔مگرایسا خوش رنگ اور خوش آوازپرندہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پرندہ ذرا دیر تک اپنی دھن میں گاتا رہا پھر اچانک پھر سے اڑکر بڑے میاںکی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ان کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے وہ کوئی جادو کا کھلونا تھا جو ابھی تھا اور ابھی نہیں تھا ۔ وہ ذرا دیر تک گم صم بیٹھے دیوار کی طرف دیکھتے رہے۔ پرندے کو دیکھ کر اور اس کی آواز سن کر بڑے میاں کے دل میں ایک نا معلوم سی خوشی بیدار ہوئی جیسے پرندہ ان کے لئے کوئی خوشی کا پیام لے کر آیاتھا۔ انھوں نے وظیفہ پڑھا۔تسبیح تکیے کے نیچے رکھی اور کھرپا لے کر کھیتوں کی جانب چل پڑے ۔
برسات کا موسم تھا ۔ ہوا سے اڑ کر آنے والے بیجوں سے سب طرف ننھے ننھے پودے اگ رہے تھے ۔بڑے میاں نے زمین سے کھود کر جامن کا ایک پودا نکالااور گھر لے آئے ۔پودے کو آنگن میں ایسی جگہ پر لگا دیا جہاں اسے ہوا اور دھوپ مل سکتی تھی ۔ بڑے میاں نے پودے کی جڑ کے پاس ایک بڑا سا تھا لا بنا دیا اور تھالے کی منڈیر کو کھرپے سے برابر کر کے خوب سخت کر دیا تا کہ تھالے کا پانی منڈیر کو کاٹ نہ سکے۔پھر تھالے میں تھوڑا پانی ڈا ل دیا۔ اس طرح مٹی نم ہو گئی ۔اب پودے کی جڑیںآسانی سے پھیل سکتی تھیں ۔
بڑے میاں کی اداس زندگی میں تھوڑی سی بہارآگئی تھی۔ وہ صبح و شا م تھالے میں پا نی ڈالتے۔کچھ دنوں کے وقفے سے تھا لے کی گڑا ئی کرتے اس طرح پانی جڑوں تک چلا جاتا تھااور ہوامٹی کو نرم رکھتی ۔پودے کو پانی دیتے اور آبیاری کرتے ہو ئے وہ اس سے باتیںبھی کرتے رہتے:
” آج دھوپ بہت تیز تھی۔۔۔۔تم کو بہت پیاس لگ رہی ہو گی ۔۔۔ لو جی بھر کے پانی پی لو ۔۔۔ گرمیاں اب جانے والی ہیں۔ کچھ دن میں برسات کا موسم آ جائے گا۔ خوب بارشیں ہوں گی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیںچلیں گی ۔تمہاری پتیوں میں نکھار آ جائے گا ۔ قد بھی بڑھے گا اور ایک دن تم اتنے بڑے ہو جاﺅ گے کہ دیوار کے باہر اپنے جیسے درختوں کو دیکھ سکو گے ۔ خوب دور تک پھیلے ہوئے آسمان کو بھی دیکھ سکو گے۔“
وقت بڑی جلدی گزر گیا ۔بڑے میاں نے جو خواب دیکھا تھا۔اس کی تعبیر ان کے سامنے تھی۔جامن کا وہ ننھا سا پودا توانا درخت بن کر آسمان سے باتیںکرنے لگا۔ تنا خوب موٹا ہو گیااور شاخیں پتوں سے بھر گئیں۔ ہر وقت کوئی پرندہ وہاں موجود رہتا۔شام کو تو دنیا بھر کے پرندے آ کردرخت پر بسیرا کرتے ۔ خوب چہچہاتے اوررات کو وہیں سوجاتے۔صبح ہوتے ہی پھر ان کی چہچہاہٹیں گھر میں گونجنے لگتیں ۔ گرمیوں کے دنوں میں بڑے میاں کونڈے میں پانی بھر کے درخت کے نیچے رکھ دیتے۔پیاسے پرندے کونڈے کی کگار پر بیٹھ کرمیٹھا اور تازہ پانی پیتے ۔زیادہ گرمی ستاتی تو کگار سے کونڈے میں اتر جاتے اور پروں کو پھیلاکر پانی سے کچھ دیر تک نہاتے پھر باہر نکل کے پروں کو ہلا ہلا کر پانی خشک کرتے اور پھر سے اڑ کر جامن کے درخت پہ بیٹھ جاتے ۔
جامن کے درخت میں فصل آتی تو زیادہ پرندے آجایا کرتے ۔بعض پرندے یہاں اپنا گھونسلا بنا کر انڈے دیتے۔ انڈوں سے بچے نکل کر اڑنا سیکھتے۔کبھی کسی پرندے کا بچہ نیچے گر جاتا تو بڑے میا ں سیڑھی لگاتے اوردرخت پر چڑھ کر بچے کو گھونسلے میں بٹھا دیتے اور انگلی سے اس کے سر پر ہلکی سی چپت لگا کر نصیحت کرتے ہوئے کہتے ،” اتنی عجلت نہ کرو ۔۔۔ ابھی تمہارے پر کچے ہیں ۔۔۔جب پک کر مضبوط ہو جائیں تب اڑنا ورنہ کسی دن چوٹ لگ جائے گی تو پھر کبھی نہیں اڑ سکو گی۔“
چڑیا کا بچہ بھلاان کی بات کیا سمجھتا وہ تو اپنی چونچ حلق تک پھیلا کربڑے میاں کی انگلی کی طرف دیکھتا ۔اپنے بازوؤںکو خوب ہلاتا۔ چوں چوں کی آوازیں نکالتا۔وہ سمجھتا کہ ماں اس کے لیے کھانا لے کر آئی ہے۔
پرندے تو خوب آتے ہی تھے محلے کے بچے بھی جامن کی لالچ میں بڑے میاں کے گھر آنے لگے تھے۔اگر
کو ئی بچہ جامن توڑنے کے لیے درخت پر چڑھنے کی کوشش کرتاتو بڑے میاں اسے سمجھاتے ۔”درخت پہ نہیں چڑھنا چاہیے ۔گر گئے تو چوٹ لگ جائے گی۔“بچے بڑی سعادت مندی سے ان کی بات مان لیتے۔ بڑے میاں سیڑھی پر چڑھ کر جامن توڑتے، انہیں کھلاتے اور ان سے مزے مزے کی باتیںکرتے ۔
ایک دن بڑے میاں نے سوچا جب جامن کی فصل کا موسم چلا جائے گا تو یہ بچے نہیں آئیں گے۔ اس لیے انہوں نے درخت کی شاخ میں رسی ڈال کر جھولا بنا دیا ۔ اب بچے ہر موسم میں وہاں آتے جھولا جھولتے اور خوش ہوتے ۔ بچے بڑے میاں سے خوب مانوس ہو گئے تھے۔ اب وہ انہیں جن بابانہیں بلکہ جامن والے بابا کہتے تھے ۔بڑے میاں کے گھر میں تو جیسے بہار آ گئی تھی۔اب وہ بھی خوش رہتے اور اﷲمیاں سے کوئی شکوہ نہیں کرتے۔
انہیں تو بس یہ افسوس تھاکہ میں نے پیڑ لگانے میں اتنی دیر کیوں کر دی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top