جہنم کی وادی
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جہنم میں ایک ایسی وادی ہے، جس سے خود جہنم بھی ہر روز چار سو بار پناہ مانگتی ہے۔ یہ وادی، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ان ریا کاروں کے لیے تیار کی گئی ہے: کتاب اللہ کے عالم کے لیے، صدقہ و خیرات کرنے والے کے لیے، بیت اللہ کا حج کرنے والے کے لیے اور اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلنے والے کے لیے۔“ (ترغیب و ترہیب بحوالہ ابن ماجہ)
پیارے ساتھیو، اس حدیث پاک میں پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی اہم بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے، جس کا اگر خیال نہ رکھا جائے تو ہمیں ہماری نیکیوں کا کوئی ثواب نہیں ملے گا، نہ کوئی انعام دیا جائے گا، بلکہ الٹا، یہ نیکیاں ہمارے لیے عذاب کا سبب بن جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عذاب سے محفوظ رکھے۔
آپ سب جانتے ہیں کہ ہمیں اس دنیا میں ایک خاص مدت تک رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کو جتنے عرصے کے لیے زندہ رکھنا چاہتا ہے، وہ اتنی ہی عمر پاتا ہے۔ ہم اس دنیا میں جو بھی عمل کریں گے، اس کا بدلہ آخرت میں ہمیں دیا جائے گا۔ اگر ہم نیک عمل کریں گے تو انعام میں جنت ملے گی اور خدانخواستہ اگر ہم نے بُرے عمل کیے ہوں گے تو ان کی سزا دی جائے گی۔
اب دیکھیے کہ اوپر بیان کی گئی حدیث نبوی میں نیک عمل کرنے والے کئی افراد کا ذکر کیا گیا ہے، یعنی، کتاب اللہ کا عالم، صدقہ و خیرات کرنے والا، بیت اللہ کا حج کرنے والا اور اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلنے والا۔۔۔ یہ سارے ایسے نیک اعمال ہیں جن کی بہت فضیلت اور اہمیت ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں ان اعمال کو کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور ان اعمال کو انجام دینے والوں کو بڑے اجر اور انعام کی خوشخبری دی گئی ہے، لیکن اوپر بیان کی گئی حدیث میں، نیک عمل کرنے والے جن افراد کا ذکر ہے، ان کو جہنم میں ڈالے جانے کا اعلان کیا گیا ہے اور جہنم کے بھی اس حصے میں، جس سے خود جہنم بھی دن میں چار سو بار پناہ مانگتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ریا کاری کیا ہے۔ ’ریا‘ کہتے ہیں، دکھا وے اور نمائش کو۔ اگر کوئی نیک عمل دوسروں کو دکھانے اور ان کی طرف سے تعریف سننے کے لیے کیا جائے تو یہ ریا کاری ہے، اور اللہ کو یہ بات سخت نا پسند ہے کہ کوئی نیک عمل اللہ کو خوش کرنے کی نیت کے ساتھ نہ کیا جائے بلکہ اس کا مقصد کچھ اور ہو، مثلاً مال یا دولت حاصل کرنا، دوسروں سے تعریف کے بول سننا، دوسروں کی نظر میں بڑا اور متقی بننا وغیرہ۔
اس طرح ہمیں معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اسی نیک عمل کو قبول کرتا ہے، جو اللہ کوخوش کرنے کی نیت سے کیا جائے اور اس میں کوئی اور غرض شامل نہ کی جائے، ورنہ اگر قرآن مجید کا کوئی عالم لوگوں کو اس لیے قرآن مجید کی تعلیم دے کہ اسے لوگ بڑاعالم کہیں، غریبوں کی روپے پیسے سے مدد کرنے والا یہ کام اس لیے کرے کہ اس کی واہ واہ ہو، لوگ اس کو بڑا فیاض اور سخی سمجھیں، اللہ کے گھر کا حج کرنے والا اس لیے حج
کرے کہ اسے لوگ بڑا پر ہیز گار کہیں، اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا اس لیے جہاد کرے کہ لوگ اسے بہادر کہیں تو یہ سارے اعمال اللہ کو ناراض کرنے والے ہیں، خوش کرنے والے نہیں۔ یہاں تک کہ احادیث میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دکھاوے کے لیے نیک عمل کرنا، شرک کے برابر ہے یعنی ایسا فرد اللہ کی ذات میں کسی کو شریک کر رہا ہے۔ اللہ کی ذات واحد ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ شرک کرنا ایسا سخت گناہ ہے جسے اللہ معاف نہ کرے
اللہ تعالیٰ ہمیں ہر نیک عمل صرف اور صرف اللہ کو خوش کرنے کی خاطرکرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہماری نیتوں کو کھوٹ سے محفوظ رکھے اور ہمیں ان لوگوں میں شامل نہ فرمائے جنہیں جہنم کی آگ میں ڈالا جائے گا۔ آمین۔