جادو کے دستانے
احمد عدنان طارق
۔۔۔۔۔۔۔
سیمی اور بنٹی نے گورنر سے بدلہ لینے کا منصوبہ بنایا….لیکن پھر ہوا کیا؟
۔۔۔۔۔۔۔
سیمی اور بنٹی دو بونے تھے جو بہت خوب صورت گھر میں رہتے تھے۔ جس کا نام اُنھوں نے سورج مکھی کارٹیج رکھا ہوا تھا۔ سیمی رنگ ساز تھا اور بنٹی بڑھئی۔ سیمی کسی بھی دیوار یا دروازے پرکچھ لمحوں میں خوب صورت رنگ کر سکتا تھا اور بنٹی لکڑی سے کسی دیو کے کھانے کی میز سے لے کر چڑیا کے پینے والا برتن تک بنا سکتا تھا۔
ان کے گھر کے قریب ہی ایک محل میں پرستان کا دراز ریش گورنر رہتا تھا۔ اس کی طرف سے اُنھیں ایک خط موصول ہوا۔ سیمی نے وہ خط اونچی آواز میں بنٹی کو پڑھ کر سنایا۔ سنیے! اس میں کیا لکھا تھا۔
”گورنر صاحب بہت خوش ہوں گے اگر بنٹی اور سیمی ان کے محل میں کام کرنے آئیں اور ان سے ملیں بھی۔“
بنٹی بہت خوش تھا کہنے لگا: ” یہ بہت مزے کی خبر ہے۔ ہمیں کام کی بہت اچھی اُجرت ملے گی اور پھر ہم سب کو بتا بھی سکتے ہیں کہ ہم نے گورنر صاحب کے گھر میں بھی کام کیا ہے۔ تب سبھی دوست ہمارے بارے میں جان بھی لیں گے کہ ہم اچھے کاریگر ہیں۔“ اگلی صبح دونوں دوست محل میں گئے۔ دراز ریش گورنر نے انھیں دیکھا تو اس نے انھیں بتایا کہ وہ کھانے کے کمرے میں رنگ کروانا چاہتا ہے اور پڑھنے والے کمرے میں اسے کتابوں کا ایک شیلف بنوانا ہے۔ ٹھیک ہے جناب اُنھوں نے کہا کہ وہ ابھی اپنا کام شروع کر دیتے ہیں۔ پھر اُنھوں نے بڑے جوش سے کام کرنا شروع کر دیا۔
گورنر کی سیاہ بلی ’نیلو‘ اور سفید کتا’ شیرو‘ دونوں ان کے کام کو دیکھنے آئے۔ وہ دونوں ان کے سامنے آکر بیٹھ گئے اور اُنھیں کام کرتا ہوئے دیکھنے لگے۔ سیمی ان سے اُکتا کر بولا: ” یہاں سے بھاگ جاؤ تمھارے گھورنے سے ہمارے کام میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ نیلو کہنے لگی کہ میں تو اپنے سیاہ رنگ سے اُکتا چکی ہوں۔ کاش تم میرے جسم پر پیلے رنگ کی دھاریاں بنا دو تو میں کتنی شاندار لگوں گی۔ شیرو بھی اپنے مکمل سفید ہونے پر مایوس تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کم از کم اس کی دُم رنگین کر دی جائے اُنھوں نے دونوں بونوں سے پوچھا کہ کیا کام مکمل کرنے کے بعد ان کے پاس تھوڑا بہت رنگ بچ جائے گا۔
سیمی نے کہا:” ہو سکتا ہے لیکن اگر تم سمجھتے ہو کہ ہم وہ رنگ تم پر ضائع کردیں گے تو تم غلطی پر ہو۔“ نیلو نے انھیں کہا: ”لیکن گورنر صاحب بہت خوش ہوں گے کیونکہ وہ بھی ہمارا ایک ہی رنگ دیکھ دیکھ کر اُکتا چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ تمھیں اس کام کے بدلے میں دُگنی اُجرت دے دیں۔“ بنٹی نے کہا۔
”میں اس بارے میں زیادہ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن میں نے سنا ضرور ہے کہ گورنر صاحب بہت کھلے دل کے ہیں۔“ لیکن پھر اُدھر سے ایک آواز آئی۔ ”نیلو، شیرو ادھر آؤ۔ تمھارا کھانا لگ گیا ہے۔“ دونوں جانور یہ آواز سن کر کھانا کھانے چلے گئے اور سیمی اور بنٹی دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو گئے۔ اگلے دن نیلو اور شیرو دوبارہ ان کے پاس آگئے اور ان کے کام کو غور سے دیکھنے لگے۔ تیسرے دن سیمی نے دیوار کو انتہائی خوبصورت پیلے رنگ سے دیدہ زیب بنا دیا اور بنٹی نے انتہائی خوبصورت لکڑی کا شیلف تیار کرلیا۔ دونوں جانور ان کے رنگوں کے ڈبے سونگھنے اور جھانکنے لگے۔ پھر کہنے لگے۔ ”سیمی مہربانی کرکے کچھ رنگ ہم پر خرچ کردو کیونکہ ڈبوں میں تھوڑا سا رنگ بچا ہوا ہے۔ ہم خوش ہوں گے تو گورنر صاحب خوش ہوں گے صرف اپنا پیلا رنگ کا تھوڑا سا استعمال کرلو۔“ سیمی سخت مخمصے کی حالت میں تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ اسے یہ کام کرنا بھی چاہیے یا نہیں لیکن دونوں جانوروں نے اس کی اتنی منت کی کہ آخر کار سیمی اور بنٹی کو ان کی بات ماننی ہی پڑی۔ بنٹی نے شیرو کی دُم اور کان پیلے کر دیے اور سیمی نے کالی نیلو کے جسم پر پیلی دھاریاں بنا دیں۔ اب وہ بہت مضحکہ خیز نظر آرہے تھے حتیٰ کہ سیمی اور بنٹی بھی انہیں دیکھ کر قہقہے لگانے پر مجبور ہو گئے۔ لیکن نیلو اور شیرو مطمئن تھے۔ وہ کمرے سے نکل کر بھاگے لیکن راہداری میں ان کی ملاقات گورنر صاحب سے ہوگئی۔ اُنھوں نے دونوں جانوروں کو حیرانی اور خوف سے دیکھا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ ان کو کیا ہو گیا ہے؟ کیا یہ واقعی شیرو ہی ہے اس کے کان اور دُم پیلے کیسے ہو گئے؟ وہ سوچ رہے تھے کہ شاید ان کی آنکھوں میں کچھ گڑ بڑ ہوگئی ہے۔ پھر اُنھوں نے عینک لگائی اور دوبارہ جانوروں کو غور سے دیکھنے لگے۔ پھر انھیں اچانک غصہ چڑھ گیا۔ اُنھوں نے سیمی اور بنٹی کو غصے سے آوازیں دیں اور جب وہ آگئے تو ان سے پوچھا کہ کیا یہ حرکت ان کی ہے؟ ”تم نے میرے کتے اور بلی کا کیا حشر کر دیا ہے۔ فوراً میرے محل سے دفع ہو جاؤ۔“ اُنھوں نے سیمی اور بنٹی کو انتہائی بُرے لہجے میں ڈانٹا۔ اُنھوں نے گورنر صاحب کو لاکھ بتانے کی کوشش کی کہ ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ بلکہ رنگ لگوانے کے لیے دونوں جانوروں نے ان کی منتیں کی تھیں لیکن گورنر نے کہا: ”میں تمھاری بات کا یقین نہیں کرتا۔ تم نے صرف میرا مذاق اڑانے کے لیے ایسا کیا ہے۔ اب دفع ہو جاؤ اور آئندہ مجھے اپنی شکل نہ دکھانا۔ “ سیمی نے گورنر سے التجا کی کہ اُنھوں نے اپنا کام ختم کر لیا ہے ۔ مہربانی فرما کر ان کی اُجرت دے دی جائے۔ لیکن اُجرت دینے کے بجاے گورنر نے اپنے ملازموں کو بلوایا اور انھیں محل سے باہر پھنکوا دیا۔ وہ بے چارے اُٹھے اور اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے دوڑ پڑے۔ وہ تب تک دوڑتے رہے جب تک کہ سورج مکھی کاٹیج میں نہیں پہنچ گئے۔ ان کے برش اور رنگ کے ڈبے بھی گورنر کے محل میں رہ گئے۔ وہ گھر میں آکر آمنے سامنے کرسیوں پر بیٹھ گئے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔
”ظالم …. خود غرض گورنر۔ ہم نے اس کا کام بھی مکمل کر دیا۔ پھر بھی اس نے ہمیں پھوٹی کوڑی نہیں دی۔ وہ صرف بہانے سے ہمارے پیسے ہضم کرنا چاہتا تھا۔ کنجوس گورنر۔ “ دونوں اپنی دل کی بھڑاس ایسی باتیں کرکے نکالتے رہے۔ پھر اچانک بنٹی نے اپنی آنکھیں پونچھتے ہوئے کہا:” ہم اس کا بدلہ لیں گے ہم اپنے دوست رازی کے پاس جاتے ہیں جو دستانے بناتا ہے کیونکہ وہ ہم سے زیادہ عقل مند ہے۔ ہمیں اسے بتانا چاہیے۔“ رازی نے جب اپنے دوستوں کو آتے دیکھا تو اپنا کام کرنا بند کر دیا اور ان کے لیے چاے کا بندوبست کرنے لگا لیکن رازی کو ایسا لگا جیسے اس کے دوست افسردہ ہیں۔ ا س نے ان سے ان کی مشکل پوچھی تو چاے پیتے ہوئے سیمی اور بنٹی نے رازی کو سارا واقعہ سنایا اور اس بے عزتی کا بھی ذکر کیا کہ کس طرح گورنر نے انھیں اُجرت دینے کے بجاے اُنھیں محل سے باہر پھینکوا دیا۔
بنٹی نے رازی کو کہا کہ وہ گورنر سے بدلہ لینا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس کوئی ترکیب نہیں۔ رازی نے سوچتے سوچتے اپنے ناک پر انگلی رکھی اور ترکیب سوچنے لگا۔ آخر کچھ دیر سوچنے کے بعد اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ پھر اس نے اپنے دونوں دوستوں کو بتایا کہ اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے ۔ گورنر کی سالگرہ اگلے ہفتے ہے۔ میں اسے دستانوں کی جوڑی تحفے میں بھیجوں گا۔ لیکن پتا نہیں لگنے دوں گا کہ یہ کس نے بھیجے ہیں؟ میں ان دستانوں پر جادو کا ایک ایسا منتر پڑھ دوں گااور جیسے ہی وہ ان دستانوں کو پہنے گا اس منتر کا اثر اسی وقت شروع ہوجائے گا۔ سیمی نے مضطرب ہو کر اس منتر کو تفصیل جاننا چاہی تو رازی نے ہنستے اسے بتایا کہ جب وہ یہ دستانے ہاتھوں میں پہنے گا تو اس کے ہاتھ اسے مجبور کردیں گے کہ جو شخص اس کے ساتھ بیٹھا ہوا ہو اس کی چٹکی کاٹ لے۔ مکے مارے اور دھکے دے۔ اس کے دونوں ہاتھ دستانوں کی وجہ سے عجیب و غریب حرکات کریں گے۔ اور اسے پتا بھی نہیں لگے گا کہ یہ کیسے ہو رہا ہے؟ اس کے ہاتھ دوسرے کی ناک پر مکا مار دیں گے۔ پسلیوں میں گدگدی کریں گے اور چٹکی بھی کاٹیں گے۔ اس طرح کی حرکات دیکھنے میں بھی بہت مزا آئے گا اور پھر یہ تینوں دوست آنے والی مضحکہ خیز صورت حال کو سوچ کر ہنس ہنس کر بے حال ہو گئے۔
٭….٭
سارا ہفتہ رازی دستانوں پر کام کرتا رہا اور پھر بہت ہی خوبصورت دستانے تیار ہو گئے۔ وہ شوخ سے سرخ رنگ کے تھے اور ان پر پیلے بٹن لگے ہوئے تھے۔ جب سالگرہ کا دن آیا تو سیمی اور بنٹی دستانے گورنر کو بھجوا چکے تھے۔ پھر صبح صبح وہ سالگرہ کے دن ٹہلتے ٹہلتے محل کے پاس بھی چلے گئے تاکہ وہ سن سکیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے؟ گورنر کو سالگرہ کے دن بے شمار تحائف موصول ہوئے اس نے ایک ایک کرکے تمام تحائف کھول کردیکھے لیکن ان میں زیادہ تر اسے پسند نہیں آئے لیکن جب اس نے دستانے دیکھے تو وہ دیکھتے ہی اُسے پسند آگئے لیکن کوشش کے باوجود اسے پتا نہیں چلا کہ یہ کس نے بھجوائے ہیں؟ پھر اس نے سوچا کہ شاید یہ پرستان کے بادشاہ نے خود اسے بھجوائے ہیں۔ میرا خیال ہے کیونکہ وہ مجھے پسند کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے اس نے یہی بات ثابت کرنے کے لیے یہ دستانے مجھے بھجوائے ہوں اگر یہ صحےح ہے تو مجھے یہ دستانے پہننے چاہییں اور بادشاہ کے پاس جانا چاہیے۔ لیکن پھر اسے پتا چلا کہ وہ باہر رتھ میں بیٹھے اس کا انتظار کررہے ہیں۔ اس وقت سہ پہر ہوچلی تھی۔ جب وہ بادشاہ کے پاس گیا تو اس نے اسے رتھ پر سوار کر لیا اور اسے کہنے لگا کہ دراز ریش میں تم سے امور سلطنت کے بارے میں کچھ مشورہ کرنا چاہتا ہوں اور ساتھ ساتھ رتھ میں سیر بھی کریں گے۔ دراز ریش رتھ پر سوار ہوا تو رتھ کا دروازہ بند ہو گیا۔ اس وقت سیمی، بنٹی اور رازی بھی وہیں مٹرگشت کررہے تھے۔ جب اُنھوں نے دیکھا کہ گورنر بادشاہ کے ساتھ رتھ میں سوار ہو گیا ہے اور جادو کے دستانے بھی اس نے ہاتھوں میں پہنے ہوئے ہیں تو وہ وہیں کھڑے ہوگئے وہ سخت خوفزدہ تھے کہ بادشاہ کا یہ دستانے کیا حشر کرنے والے ہیں؟ سیمی نے بنٹی اور رازی کو کہا کہ آؤ رتھ کے ساتھ چلیں۔ وہ رتھ کے ساتھ ساتھ چھپ کر دوڑنے لگے۔
پھر وہ خاموشی سے رتھ کے پیچھے ایک بڑھی ہوئی چھوٹی سی جگہ پر بیٹھ گئے لیکن ان کے بیٹھنے کا کسی کو علم نہیں ہوا۔ گورنر نے بادشاہ کو اپنے دستانے دکھائے۔ بادشاہ نے دستانوں کی بہت تعریف کی لیکن پھر وہ حیران رہ گیا۔ کیونکہ دراز ریش کے دونوں ہاتھ بڑھے اور اُنھوں نے بادشاہ کی ناک مروڑ دی۔ پھر وہ بادشاہ کی پسلیوں کی طرف بڑھے اور اسے گدگدی کرنے لگے۔ اوہ! بند کرو۔ بادشاہ نے نفرت سے دراز ریش کو کہا ”تم کہیں پاگل تو نہیں ہو گئے۔“ گورنر سخت خوفزدہ تھا اور حیران بھی یہ سوچتے ہوئے کہ وہ کیا کررہا ہے؟ اور اس کے ہاتھ ایسا کیوں کررہے ہیں؟ پھر اس نے کوشش کی کہ کسی طرح وہ اپنے ہاتھ جیبوں میں ڈال لے لیکن اس کی مرضی کے بغیر اس کے ہاتھوں نے بادشاہ کے سر سے اس کا تاج گرا دیا۔ اس کے کان کھینچے اور پھر اس کے گالوں پرچٹکی لی۔ بادشاہ کا غصے سے بُرا حال تھا۔ اس نے گورنر کو جوابی چٹکی کاٹی اور اسے دھکا دیا۔ تینوں دوست ایک درز سے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ وہ بھی خوفزدہ تھے۔ ” میرے دستانو! میرے پاس آجاؤ۔“ رازی نے آواز دی تو دستانے فوراً اس کے پاس آگئے۔ ادھر گورنر کے ہاتھ عجیب و غریب حرکتیں کرنے سے باز آگئے۔ اب وہ شرمندگی سے بادشاہ کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ بادشاہ نے رتھ رکوائی اور باہر اتر آیا۔ ” جو کچھ ہوا ہے مجھے اس کی تہہ تک پہنچنا ہے گورنر کیا تمھارے پاس کوئی وضاحت ہے؟“
اس نے گورنر سے پوچھا: ”بادشاہ سلامت کوئی وضاحت نہیں۔ مجھے نہیں پتا یہ کیسے ہوا ہے؟“ اس نے جواب دیا۔ مجھے امید ہے کہ شاید یہ تینوں اس بات کا کوئی جواب دیں۔ بادشاہ نے تینوں دوستوں کی طرف دیکھ کر کہا۔ جو سرخ شرمندہ چہرے لیے قریب ہی کھڑے تھے تو سیمی نے کہا کہ بادشاہ سلامت ہم بہت شرمند ہیں۔ لیکن میں آپ کو اصل واقعہ بتاتا ہوں اور پھر اس نے تمام واقعات بادشاہ کو بتائے کہ کس طرح گورنر نے ان کے ساتھ زیادتی کی یہ سن کر بادشاہ نے سختی سے گورنر کی طرف دیکھا لیکن پھر تینوں کو کہا کہ تمھیں بھی کوئی حق نہیں تھا کہ تم خود گورنر سے بدلہ لو تمھیں شکایت لے کر میرے پاس آنا چاہےے تھا۔ تم نے غلطی کی تمھیں سزا ملنی چاہیے۔ لیکن گورنر نے بھی بہت غلطی کی اسے بھی سزا ملنی چاہیے۔ اسے پہلے تمھاری اجرت تمھیں دینی چاہیے لیکن اس میں سے تمھیں آدھے پیسے سزا کے طور پر بونوں کے ہسپتال کو دینے ہوں گے۔ اور میری رتھ کو پالش کرنی ہوگی۔ جب تک کہ وہ چمکنے نہ لگ جائے۔ لہٰذا تینوں بونوں کو سارا دن رتھ چمکانی پڑی۔ اس کے بعد بادشاہ نے انھیں معاف کر دیا۔
تینوں دوست گھر آگئے۔ انھیں سمجھ میںنہیں آرہا تھا کہ ان کی ہار ہوئی ہے یا جیت۔ سیمی نے بنٹی سے کہا کہ آئندہ کتوں بلیوں کی بالکل نہیں سننی۔ وہ اپنی شرارتیں بھی چھوڑ دیں گے۔ رازی نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔ اگلے چھ ماہ میں وہ مشہور بھی ہوگئے اور امیر بھی۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوا…. چلیں چھوڑیں یہ کہانی پھر کبھی سہی….٭