skip to Main Content
اقبال شعر کیسے کہتے تھے؟

اقبال شعر کیسے کہتے تھے؟

رفیع الدین ہاشمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ جو کچھ ہم آپ پڑھتے ہیں، اس کی دو قسمیں ہیں۔۔۔

ایک:نثر

دوسری:نظم

نثر لکھنے والے مضمون، افسانے،نا ول،انشائیے ،سفر نامے اور ڈرامے وغیرہ لکھتے ہیں اور شاعر لوگ نظمیں ،غزلیں ،رباعیاں اور قصیدے وغیرہ لکھتے ہیں ۔ علامہ اقبال بنیادی طور پر ایک شاعر تھے۔ اُنھوں نے نثری مضامین اور خطوط بھی لکھے مگر ان کا اصل میدان شعر گوئی تھا۔

شاعر وں کا شعر کہنے کا اپنا اپنا انداز ہوتا ہے۔ کچھ شاعر قلم ہاتھ میں لیے،کاغذ سامنے رکھ کر سوچنے لگتے ہیں، جب ایک مصرع موزوں ہوتا ہے تو اسے لکھ لیتے ہیں، کچھ دیر بعد دوسرا مصرع بھی موزوں ہوجاتا ہے تو خوش ہوتے ہیں کہ لیجیے:ایک شعر ہو گیا،گاڑی چل پڑی۔ پھر سوچ میں ڈوب جاتے ہیں۔ دوسرا شعر ہوتا ہے، اس طرح سوچ سوچ کر غزل یا نظم مکمل کرتے ہیں ۔کوئی شاعر ایک گھنٹے میں، کوئی دو اور کوئی کئی گھنٹوں میں غزل یا نظم مکمل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔مگر کچھ شاعر ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر اللہ کی طرف سے خیالات اور الفاظ اُترتے ہیں، یا القا نازل ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال ایسے شاعر تھے جن پر شعر نازل ہوتے تھے۔

اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اشعار ان پر کیسے نازل ہوتے تھے ۔وہ اُنھیں کیسے قلم بند کرتے تھے یعنی وہ شعر کیسے کہتے تھے؟

یہ اس ابتدائی زمانے کا ذکر ہے، جب اقبال اورینٹل کالج لاہور میں تحقیق کار(ریسرچ سکالر ) تھے اور ساتھ ہی طلبہ کو تاریخ اور فلسفہ بھی پڑھاتے تھے، ابھی وہ ولایت نہیں گئے تھے۔ان کے ایک مدّاح (اور معروف صحافی) چراغ حسن حسرت بیان کرتے ہیں :’’وہ جس کمرے میں سوتے تھے،اس میں ایک بڑی میز پر کتابیں پڑی رہتی تھیں،کتابوں کے پاس ہی ایک کاپی اور پنسل۔جب طبیعت چاہتی،شعرکہنا شروع کردیتے تھے۔ اُن دنوں ان کی طبیعت میں بَلا کی روانی تھی۔ جب شعرکہنے لگتے توایسامعلوم ہوتاتھاکہ دریا اُمڈا ہوا ہے۔ کبھی خودلکھتے تھے،کبھی کوئی ملنے والا آجاتاتو اسے لکھوادیتے تھے۔‘‘

علی بخش علامہ اقبال کا خادم تھا۔ وہ تقریباًچالیس سال اُن کے پاس رہا۔ اُس نے ایک بارچراغ حسن حسرت کو بتایا: ’’ایک دفعہ میں نے دیکھا، ڈاکٹر صاحب پلنگ پر بیٹھے ہیں، سامنے کاغذ اور پنسل ہے۔ کبھی کچھ سوچنے لگتے ہیں، کبھی کاغذپرپنسل سے کچھ لکھتے ہیں۔ کبھی پیشانی پربل پڑے ہوئے ہیں اور سر جھکا ہوا ہے، کبھی ہونٹوں پرمسکراہٹ ہے اورآہستہ آہستہ کچھ پڑھ رہے ہیں۔ اُس وقت تو میری سمجھ میں کوئی بات نہ آئی ،بعدمیں معلوم ہواکہ ڈاکٹرصاحب شاعرہیں اوران کے شعرکہنے کا یہی انداز ہے۔‘‘

علی بخش نے ایک باریہ بھی بتایا: ’’علامہ کی شعرگوئی کا کوئی وقت متعین نہ تھا۔جب ان کی موج آتی،مجھ کو آوازدیتے اور کہتے کہ بیاض لے آؤ اورکلام مجید بھی۔جب بھی علامہ دن میں فکرِ سخن کرتے توکلام مجیدضرورپاس رکھتے۔کبھی کچہری سے واپسی پر علامہ کرسی پر بیٹھ جاتے اور مشقِ سخن شروع کردیتے، مگر علامہ کابیش ترکلام رات کی تنہائی میں ہی مرتب ہوتاتھا۔‘‘

علامہ اقبا ل کے صاحب زادے جاویداقبال نے تقریباً ۱۴ سال، شب و روز اپنے والد کے ساتھ بسر کیے، علامہ کی شعر گوئی کے سلسلے میں ان کا بیان بھی اہم ہے۔ وہ بتاتے ہیں: ’’گرمیوں میں ابا جان باہر سوتے اورمیری چارپائی ان کے قریب ہوا کرتی۔ رات گئے تک وہ جاگتے رہتے کیوں کہ عموماً انھیں رات کوتکلیف ہوتی تھی اورجب شعرکی آمدہوتی توان کی طبیعت اوربھی خراب ہوجایا کرتی۔ چہرے پر تغیر رونما ہوجاتا تو بستر پر کروٹیں بدلتے، کبھی اٹھ کر بیٹھ جاتے اورگھٹنوں میں سردے دیتے۔ اکثر اوقات وہ رات کے دویاتین بجے علی بخش کو تالی بجا کر بلاتے اور اسے اپنی بیاض اورقلم دوات لانے کوکہتے، جب وہ لے آتاتو بیاض پر اشعار لکھ دیتے۔اشعار لکھنے کے بعد ان کے چہرے پرآہستہ آہستہ سکون کے آثارنمودار ہوجاتے اوروہ آرام سے لیٹ جایا کرتے۔‘‘

علامہ اقبال نے مختلف لوگوں سے ملاقاتوں میں خود بھی بتایا ہے کہ وہ شعر کیسے کہتے ہیں اور نزولِ شعرکے موقع پران کی کیفیت کیا ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ان کے متعد د بیانات ملتے ہیں مثلاً ایک بار اُنھوں نے بتایا کہ ’’میں شعر کہنے کے لیے کوئی تیاری نہیں کرتا۔ عموماًیہ ہوتاہے کہ کوئی خیال دماغ میں ہے جس کا اظہار مفید معلوم ہوتاہے۔ یہ خیال دماغ میں چکرلگاتارہتاہے پھر کسی وقت بغیر ارادے کے نظم کی صورت اختیار کرلیتاہے۔ اکثر ایساہواہے کہ بیک وقت پوری رباعی یا نظم موزوں ہوگئی،گویاکسی نے لکھوادی۔ بعض وقت توشعراس تیزی سے نظم ہوتے ہیں کہ ان کا لکھنادشوار ہوجاتاہے۔ اس کے بعد پھر کئی کئی روز تک ایک شعربھی موزوں نہیں ہوتااورارادے بھی ناکام ثابت ہوتے ہیں۔

علامہ اقبال کا ایک اور بیان ، چراغ حسن حسرت نے نقل کیا ہے۔ علامہ نے فرمایا: ’’سال میں چار پانچ ماہ تک ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھ میں ایک خاص قوت پیدا ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے بلا ارادہ شعر کہتا رہتا ہوں۔ اس قوت کے ہوتے ہوئے گھر میں دوسرے کام بھی کرتا رہتا ہوں مگر زیادہ تر طبیعت کا رجحان شعرگوئی کی طرف ہوتا ہے۔ ان دنوں عموماً رات کو شعرگوئی کے لیے بیدار رہنا پڑتا ہے۔ میں نے زیادہ سے زیادہ ایک رات میں تین سو اشعار کہے ہیں۔ چارپانچ ماہ کے بعد یہ قوت ختم ہوجاتی ہے تو غور و فکر کے بعد شعر کہے جاسکتے ہیں مگر یہ آورد ہوتی ہے۔‘‘

علامہ اقبال کے ایک مدّاح تھے، فقیر سیّد وحید الدین ۔ انھوں نے اپنی کتاب ’’ روزگارِ فقیر ‘‘ (حصّہ اول) میں علامہ کا ایک مفصّل بیان نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں : علامہ نے فرمایا: ’’جب شعر کہنے کی کیفیت مجھ پر طاری ہوتی ہے تو سمجھ لو کہ ایک ماہی گیر نے مچھلیاں پکڑنے کے لیے جال ڈالا ہے۔ مچھلیاں اس کثرت سے جال کی طرف کھنچی چلی آرہی ہیں کہ ماہی گیر پریشان ہوگیا ہے۔ سوچتا ہے کہ اتنی مچھلیوں میں سے کسے پکڑوں اور کسے چھوڑوں؟۔۔۔ یہ کیفیت مجھ پر سال بھر میں زیادہ سے زیادہ دو بار طاری ہوتی ہے، لیکن فیضان کا یہ عالم کئی کئی گھنٹے رہتا ہے اور میں بے تکلفی سے شعر کہتا جاتا ہوں۔ پھر عجیب بات یہ ہے کہ جب طویل عرصے کے بعد یہ کیفیت طاری ہوتی ہے تو پہلی کیفیت میں کہا گیا آخری شعر، دوسری کیفیت کے پہلے شعر سے مربوط ہوتا ہے۔ گویا اس کیفیت میں ایک قسم کا تسلسل بھی ہے، یا یوں کہنا چاہیے کہ یہ فیضان کے لمحے دراصل ایک ہی زنجیر کی مختلف کڑیوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب یہ کیفیت ختم ہوجاتی ہے تو میں ایک قسم کی تکان، عصبی اضمحلال اور پژمردگی محسوس کرتا ہوں۔‘‘

فقیر وحید الدین کہتے ہیں کہ علاّمہ اتنا کہہ کر کچھ دیر خاموش رہے، پھر کہنے لگے:’’ ایک مرتبہ چھے سات سال تک مجھ پر یہ کیفیت طاری نہ ہوئی تو میں یہ سمجھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھ سے یہ نعمت چھین لی ہے۔ چنانچہ اس زمانے میں مَیں نے نثر لکھنے کی طرف توجہ کی۔ یک بیک ایک روز پھر یہی کیفیت طاری ہوگئی۔ ان لمحوں میں میری طبیعت ایک عجیب لذت محسوس کررہی تھی۔بس ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اشعار کا ایک بحرِ موّاج ہے کہ اُمڈا چلا آتا ہے۔ یہ کیفیتِ سرور و نشاط اتنی دیر تک قائم رہی کہ اس نے چھے سات سال کے جمود و تعطل کی تلافی کردی۔ مشہور جرمن شاعر گوئٹے کے متعلق ایک کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ جب اس نے جرمن زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ پڑھا تو اس نے اپنے بعض دوستوں سے کہا کہ جب میں یہ کتاب پڑھتا ہوں تو میری روح میرے جسم میں کانپنے لگتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ شاعر کو بھی ایک قسم کا الہام ہوتا ہے۔ اس لیے جب وہ کوئی الہامی کتاب پڑھتا ہے تو اپنی روح کو اس کی معنویت سے ہم آہنگ پاتا ہے اور اس کی طبیعت ایک خاص اہتزاز محسوس کرتی ہے۔ یہ چیز دوسرے لوگوں کو نصیب نہیں ہوسکتی۔‘‘

بچّو، یہ جو علامہ اقبال نے قرآن کریم کا ذکر کیا ہے تو جیسا کہ علی بخش نے بتایا ہے خود اقبال بھی شعر گوئی کے موقع پر قرآن حکیم ضرور پاس رکھتے تھے اور وقتاً فوقتاً تلاوت بھی کیا کرتے تھے۔ ان کے افکار تمام تر قرآن حکیم ہی سے اخذ کیے گئے ہیں۔

 

اس تحریر کے مشکل الفاظ

القا: وہ بات جو غیب سے نازل ہو

بیاض: وہ کتاب جس میں اشعار لکھتے ہیں

آورد: تکلیف سے بات کرنا

مداح: تعریف کرنے والا ؍ تکان: تھکن

فیضان: رحمتِ خدا وندی

عصبی اضمحلال: دماغی پژمردگی ؍ یک بیک: اچانک

پژمردگی: کاہلی یا سُستی ؍ نشاط: خوشی

اہتزاز: فرحت یا خوش

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top