انسانی کنبہ
حجاب امتیاز علی
۔۔۔۔۔۔
جب میں چھوٹی تھی تو مجھے چمکیلی دوپہروں میں باغ میں بیٹھ کر ننھی چڑیوں کے نغمے سننے کا بڑا شوق تھا۔ مجھے اڑتی ہوئی تتلیاں بھی بے حد پسند تھیں۔ لیکن میں نے کبھی تتلی کو پکڑ کر اس کے پر نہیں نوچے، مجھے خیال آتا تھا کہ تتلی کی بھی ایسی ہی جان ہے جیسے میری اپنی ہے۔
اچھا اب ایک دوپہر کا قصہ بیان کرتی ہو۔ میں اپنے باغ کی دیوار پر سر رکھے آنے جانے والوں کا تماشہ دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں کیا ہوا کہ میری نظر لڑکوں کی ایک ٹولی پر پڑی جو بغل میں اپنی کتابوں کے بستے لئے اسکول سے گھر واپس آرہے تھے۔
یہ لڑکے بے حد شوخ و شریر تھے۔ ہنستے کھیلتے اور باتیں کرتے ہوئے آرہے تھے۔ بعض تو چھلانگیں لگا رہے تھے۔ یکایک میں نے دیکھا کہ ان میں سے جو لڑکا سب سے چھوٹا تھا، اسے ایک پتھر سے ٹھوکر لگی، اور لگتے ہی وہ بے چارہ بری طرح چت زمین پر آرہا۔ اس کی کتابوں کا بستہ کھل گیا۔ ساری کتابیں زمین پر بکھر گئیں۔
اس کی جیب میں کھیلنے کی گولیاں تھیں وہ بھی لڑھکتی ہوئی ادھرادھر چلی گئیں۔ اس کی ٹوپی دور جاگری۔ لڑکوں کا ہنسی سے برا حال ہوگیا۔ مگر میں نے دیکھا کہ ایک لڑکا جس کی عمر نو سال کی ہوگی اپنی ہنسی ختم کر کے گرے ہوئے لڑکے کی طرف دوڑا۔ اسے اٹھایا۔ اس کی پیشانی کی چوٹ کو اپنے رومال سے پونچھا۔ اپنے پانی کی تھرمس کھول کر زخمی لڑکے کو پانی پلایا۔ پھر اس کی کتابیں بستے میں بھریں، اس کی گولیاں چن چن کر اس کی جیب میں بھریں اور ننھے لڑکے کی انگلی پکڑ کر اسے اس کے گھر کی راہ پر چھوڑ دیا، اور خود اپنی راہ چلا گیا۔
میں بے حد متاثر ہوئی۔ سوچنے لگی۔ اے بچے! اگر دنیا کے سارے انسانوں کے سینے میں تجھ سا دل اور اخلاق میں تجھ سا دھیما پن ہو تو آج ہماری دنیا کو فوجوں، ایٹم بموں، ہتھیاروں اور چھروں کی کیا ضرورت رہ جائے گی؟ ساری انسانی آبادی ایک کنبہ نہ بن جائے!