انسانی جسم کا پمپ
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
نوید تقریباً دوڑتا ہوا، گھر میں داخل ہوا۔ اس کا سانس پھولا ہوا تھا اور پیشانی پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔ اس نے اپنے کمرے میں جا کر اپنی کتابوں کو جلدی سے الٹ پلٹ ڈالا، پھر ایک کتاب اٹھا کر اپنے بیگ میں ڈالی اور السلام علیکم، اللہ حافظ، کہتا ہوا تیر کی طرح گھر سے نکل گیا۔
ڈاکٹر خورشید اور گھر کے لوگ نوید کے اس طرح آنے اور پھر فوراً چلے جانے پر مسکرائے۔ وہ نوید کی اس عادت سے واقف تھے۔ اکثر وہ اپنے اسکول جاتے ہوئے کوئی ضروری چیز اپنے بیگ میں رکھنا بھول جاتا تھا اور بس اسٹاپ سے یا بس اسٹاپ جاتے ہوئے آدھے راستے سے دوڑ لگاتا ہوا واپس گھر آتا تھا۔ نوید کی امی، باجی اور دیگر افراد نے نوید کو سمجھایا تھا کہ وہ رات ہی میں اپنے بیگ کا جائزہ لے لیا کرے کہ اس میں تمام ضروری اشیا ہیں یا نہیں، لیکن نو ید اپنے بیگ کاجائزہ لینا اکثر بھول جاتا تھا۔
رات میں ڈاکٹر خورشید نے نوید کو یاد دلایا کہ وہ اپنے بیگ کو دیکھ لے۔نوید شرمندہ ہو کر بولا:
”بھائی جان، ابھی بیگ کی جانچ پڑتال کر لیتا ہوں، ورنہ صبح صبح دوڑ لگانی پڑے گی۔“ پھر اسے کچھ خیال آیا اور اس نے پوچھا:
”بھائی جان، دوڑ لگانے سے سانس کیوں پھول جاتا ہے؟“
”در اصل یہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ایک خود کار نظام ہے، اور یہ ہم پر اللہ کی خاص مہربانی ہے۔“ ڈاکٹر خورشید بولے۔
”وہ کیسے؟“
”ہوتا یہ ہے کہ جب ہم دوڑ لگاتے ہیں، کوئی محنت مشقت کا کام کرتے ہیں یا ورزش کرتے ہیں تو ہمارے اعضا کو زیادہ آکسیجن اور توانائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہمارا دل تیزی سے دھڑک کر پورے جسم میں صاف آکسیجن اور غذا والے خون کی فراہمی کی رفتار بڑھا دیتا ہے اور ہمارے پھیپھڑے بھی تیزی سے پھولنے اور پچنے لگتے ہیں تا کہ آکسیجن کو جسم میں جلدی جلدی بھیج سکیں، اور حقیقت یہ ہے کہ دوڑ یا ورزش، ہمارے جسم کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔“
”ہاں، آپ نے بتایا تھا۔“
”لیکن ورزش یا دوڑ ایسی ہو جو فکر و پریشانی کے ساتھ نہ ہو، ورنہ کچھ نقصانات ہونے لگیں گے، بہر حال تازہ ہوا میں گہرے سانس لینا، ہمارے پورے جسم اور خصوصاً پھیپھڑوں کے لیے بہت مفید ہے۔“
”وہ کس طرح؟“
”وہ اس طرح کہ گہرے سانس لینے سے، پھیپھڑے پوری طرح ہوا سے بھر جاتے ہیں۔ اس ہوا میں آکسیجن ہوتی ہے۔ یہ آکسیجن خون میں شامل ہو کر پورے جسم میں پہنچ جاتی ہے اور نقصان دہ کاربن ڈائی آکسائیڈ واپس پھیپھڑوں میں پہنچ کر ناک کے راستے جسم سے خارج ہو جاتی ہے۔ پھر یہ فائدہ بھی ہے کہ گہرے سانس لینے کے نتیجے میں پھیپھڑوں کے کونے کونے تک ہوا پہنچ جاتی ہے اور جراثیم کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔“
”بھائی جان، مجھے پھیپھڑوں کے بارے میں اور باتیں بتائیے۔“نوید نے فرمائش کی۔
”پھیپھڑوں کے بارے میں؟ اچھا تو سنو مگر پہلے مجھے ایک گلاس ٹھنڈاپانی پلا دو۔“
”ابھی لایا۔“ نو ید یہ کہ کر اٹھا اور ٹھنڈے پانی سے بھرا ہوا گلاس لے کر چلا آیا۔ ڈاکٹر خورشید نے بسم اللہ پڑھ کر تین سانسوں میں پانی پیا اور الحمد للہ کہ کر گلاس میز پر رکھتے ہوئے کہنے لگے:
”پھیپھڑے، تمام ماما لیا یعنی دودھ پلانے والے جانداروں کے علاوہ پرندوں اور رینگنے والے جانوروں میں بھی ہوتے ہیں۔ چند مچھلیوں کو بھی اللہ نے پھیپھڑے عطا فرمائے ہیں۔ ہم انسانوں میں سینے کا بڑا حصہ یہی پھیپھڑے گھیرلیتے ہیں۔“
”بھائی جان، ایک پھیپھڑا کتنا بڑا ہوتا ہے؟“
”بالغ شخص میں ہر پھیپھڑا پچیس سے تیس سینٹی میٹر یعنی دس سے بارہ انچ لمبا ہوتا ہے۔ بایاں پھیپھڑا دا ئیں پھیپھڑے سے ذرا چھوٹا ہوتا ہے۔ خیر یہ تو ہوا پھیپھڑوں کا سائز، اگر پھیپھڑوں کے اندر موجود ہوائی تھیلوں کا مجموعی رقبہ نکالا جائے تو وہ کوئی ترانوے مربع میٹر یعنی ایک ہزار مربع فٹ بن جاتا ہے، جو ہماری جلد کے کل رقبے سے بھی پچاس گنا زیادہ ہوتا ہے۔ یوں سمجھو کسی ٹینس کورٹ کے برابر ہوتا ہے۔“
”بھائی جان، ہوائی تھیلیاں کیا ہوتی ہیں؟“
”ہاں! یہ بھی اللہ تعالیٰ کی زبر دست قدرت، مہارت اور حکمت کا شاہکار ہے۔ اس کو یوں سمجھو کہ ہماری ناک سے جو راستہ اندر جا رہا ہے وہ حلق، اور پھر سانس کی نالی میں کھلتا ہے۔ سینے میں پہنچ کر سانس کی یہ بڑی نالی جو ٹریکیا کہلاتی ہے، دوحصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ ہر حصہ ایک پھیپھڑے میں داخل ہو جاتا ہے اور پھیپھڑوں میں یہ نالی مزید شاخوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ ان شاخوں کی مزید شاخیں ہوتی ہیں، جیسے درخت کو الٹا کھڑا کر دیا جائے۔ ہوائی نالیوں کی یہ شاخیں تقسیم ہوتے ہوتے آخر بہت باریک ہو جاتی ہیں اور ہر نالی، انتہائی باریک دیوار والی تھیلیوں کے ایک گچھے پر ختم ہوتی ہے جو انگوروں کے گچھے کی طرح کا ہوتا ہے۔ یہ تھیلیاں ’الْوِ یولائی“ کہلاتی ہیں۔ اللہ نے ہمارے ہر پھیپھڑے میں ایسی پانچ سوملین سے زیادہ یعنی پچاس کروڑ سے زیادہ تھیلیاں رکھ دی ہیں۔ یہی ہوائی تھیلیاں ہیں۔“
”ان تھیلیوں کا کیا کام ہوتا ہے؟“
”و ہی بتا رہا ہوں۔ پھیپھڑوں میں ہوائی نالیوں اور تھیلیوں کے جال کے علاوہ خون کی نالیوں کا بہت بڑا جال بھی ہوتا ہے۔ ہر ہوائی تھیلی خون کی اتنی بار یک رگوں سے گھری ہوتی ہے، جن کو صرف خردبین (مائیکرواسکوپ) ہی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ خون کی نالیوں اور ہوائی تھیلیوں، دونوں کی دیواریں بہت پتلی ہوتی ہیں۔ ایک انچ کا پچیس ہزارواں حصہ سمجھو۔ اتنی باریک اور لطیف دیواروں میں سے خون کا تبادلہ آسانی سے ہو جاتا ہے۔“
”وہ کیسے؟“
”سنتے جاؤ، ہم تو چند سیکنڈ میں سانس لیتے بھی ہیں اور خارج بھی کر دیتے ہیں لیکن ہوا ہمارے پھیپھڑوں میں پہنچ کر کس طرح خون میں شامل ہوتی ہے اور پھر ہمارے جسم کے لیے مضر ہوا پھیپھڑوں کے راستے کس طرح جسم سے باہر آتی ہے، اس کو بیان کرنے میں کئی منٹ لگ جاتے ہیں۔ اب سنو۔ ہم نے ایک بار سانس لی۔ ہوا ہمارے پھیپھڑوں میں پہنچ کر باریک ہوائی تھیلیوں تک پہنچ گئی، وہاں خون کی باریک رگیں موجود ہیں۔ ہوا سے آکسیجن الگ ہو کر خون کی بار یک رگوں میں شامل ہو جاتی ہے اور پھر خون کی بڑی رگوں کے ذریعے سے دل میں پہنچتی ہے، دل اس آکسیجن والے خون کو پورے جسم میں خون کی رگوں کے ذریعے سے بھیج دیتا ہے۔ فوراً ہی جسم سے کاربن ڈائی آکسائیڈ والا خون دل تک پہنچتا ہے اور دل یہ خون پھیپھڑوں میں بھیج دیتا ہے جہاں باریک رگوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ، ہوائی تھیلیوں میں منتقل ہو جاتی ہے اور پھیپھڑوں کی نالیوں سے ہوتی ہوئی آخر کار ہماری ناک کے راستے جسم سے باہر خارج ہو جاتی ہے۔“
”سبحان اللہ۔ کس قدر زبردست نظام ہے۔“ نوید نے متاثر ہو کر کہا۔
”بے شک، یہ اللہ کا ہم پر بہت زیادہ کرم ہے۔ ہمارے جسمانی اعضا کو کام کرنے کے لیے توانائی اور آکسیجن کی ضرورت مسلسل پڑتی ہے۔ جسم میں آکسیجن جمع کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے، اس لیے سانس لینے کا عمل دن رات جاری رہتا ہے۔ ہم سو بھی رہے ہوں تو دل، پھیپھڑے اور دیگر اعضا چپ چاپ اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔
ہمارے تمام اعضا اسی وقت ٹھیک کام کرتے رہتے ہیں جب تک خون میں آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا تناسب ٹھیک رہتا ہے۔ جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ خون میں برداشت کی جا سکتی ہے، اگر اس سے ذراسی بھی زیادہ ہو جائے تو دماغ میں ایک خصوصی مرکز فوراً اعصاب کے ذریعے سے پسلیوں اور ڈایا فرام کو پیغام بھیجتا ہے کہ جگہ کشادہ کریں تا کہ پھیپھڑوں میں تازہ ہوا آ سکے۔ اس کے علاوہ خون کی بڑی نالی، شہ رگ میں بھی ایسا نظام ہوتا ہے جو خون میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار پر کڑی نظر رکھتا ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بڑھتے ہی فوراً دماغ کو خبر دے دیتا ہے۔ خون میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار اگر صرف اعشاریہ تین فیصد بڑھ جائے تو ہمارے سانس لینے کی رفتار دگنی ہو جاتی ہے۔“
”سبحان اللہ، ہماری حفاظت کا اللہ نے کیسا اچھا انتظام فرمایا ہے۔“ نویدنے کیا۔
”حفاظتی انتظامات تو، اللہ تعالیٰ نے بہت سارے کر رکھے ہیں۔“ ڈاکٹرخورشید بولے۔
”وہ کیا ہیں؟“
”میں تمھیں پہلے بھی بتا چکا ہوں، ناک میں باریک بال ہوتے ہیں جو گردوغبار اور بیرونی ذرات کو وہیں روک لیتے ہیں، ناک کی رطوبت بھی یہی کام کرتی ہے۔ پھر ہوا کی نالیوں میں باریک بال ہوتے ہیں جو گردوغبار اور بیرونی ذرات کو وہی روک لیتے ہیں۔ اگر پھر بھی کوئی بیرونی ذرہ، پھیپھڑوں کے اندر ہوائی تھیلیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو ہی جائے تو وہاں ایسے خصوصی خلیے ہوتے ہیں جو باہر سے آنے والے دشمن ذرات کو پکڑ کر کھا جاتے ہیں۔“
”ا لحمد اللہ۔ بھائی جان، آپ نے بہت مفید باتیں بتا ئیں۔ اللہ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔“
”آمین!“ڈاکٹر خورشید نے جواب میں کہا۔