skip to Main Content
انعامی لائبریری

انعامی لائبریری

اعظم طارق کوہستانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ننھے حمدان، ساجد، ماہین اور ہادیہ کو دادا جی کا بہت شدت سے انتظار تھا۔ ان بچوں کے دادا کویت میں مقیم تھے اور اب ہمیشہ کے لیے کویت کو خیرباد کہہ کر پاکستان آرہے تھے۔ دادا جان کو اپنے بچوں سے بہت پیار تھا اور وہ ہر ہفتے اپنے بیٹوں، بہوؤں اور پوتوں سے فون پر بات کیا کرتے تھے۔ دادا جان کا کویت میں ذاتی کاروبار تھا، مگر اپنے پوتے پوتیوں سے والہانہ محبت کے باعث انہوں نے اپنا کاروبار پاکستان منتقل کردیا تھا۔ جیسے جیسے بڑھاپا ان پر غالب آرہا تھاویسے ویسے اپنوں سے دوری ان کی برداشت سے باہر ہورہی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ اُڑ کر اپنوں میں پہنچ جائیں۔
دادا جان کے دو ہی بیٹے تھے۔ ایک عبدالکریم اور دوسرے محمد ایوب۔۔۔ان کی اہلیہ یعنی ہماری دادی کا برسوں پہلے انتقال ہوچکا تھا۔ ماہین، حمدان اور طاہر، عبدالکریم کے، جبکہ ہادیہ اور ساجد، محمد ایوب کے بچے تھے۔ یہ دونوں بھائی ایک ’’پرنٹنگ پریس ‘‘ کے مالک تھے۔ ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے آپس میں بہت محبت سے رہتے تھے۔
بالآخر وہ دن بھی آپہنچا جب ان کے دادا پاکستان تشریف لے آئے۔ سب انہیں لینے ایئرپورٹ پہنچے۔ بچوں کی خوشی دیدنی تھی۔ دادا جان نے ائیرپورٹ پر ہی بچوں کو اس طرح پیار کیا کہ آس پاس موجود لوگ بھی اس پیار بھرے انداز کو دیکھ کر رشک کرنے لگے۔
ایک دو دن بعد ہی دادا جان نے اپنے ساتھ لائے ہوئے تحائف بچوں میں تقسیم کردیے تھے، مگر ان تحائف میں ایک بڑا پیکٹ ایسا تھا جسے دادا جان نے علیحدہ رکھا تھا اور اس پر کسی کا نام بھی نہیں لکھا تھا۔ اس سے بچے تو متجسس تھے ہی، بڑوں کو بھی تجسس نے آگھیرا تھا کہ آخر یہ سب سے بڑا پیکٹ دادا جی کس کو عنایت کریں گے۔
زاہدہ بیگم اپنے شوہر سے بولیں: ’’آپ اپنے والد سے پوچھیے تو سہی۔۔۔ وہ یہ تحفہ کس کے لیے لائے ہیں۔‘‘
’’تم خود کیوں نہیں پوچھ لیتیں؟ میں نے آج تک ایسا بے تکا سوال اپنے ابا سے نہیں کیا۔‘‘ محمد ایوب نے بیگم کو گھورتے ہوئے کہا۔
’’اے لو۔۔۔ اس میں بے تکے پن کی کیا بات ہے؟‘‘
’’اگر ایسی بات نہیں تو بیگم تم اپنی خاندانی بہادری دکھاتے ہوئے خود ہی پوچھ لو۔‘‘ محمد ایوب بھی کچھ کم نہ تھے۔
دوسری جانب بچوں کی کھسرپھسر وقتاً فوقتاً جاری تھی۔ ان بچوں کی عمروں میں کچھ زیادہ فرق نہیں تھا، اس لیے آپس میں ہر وقت مقابلے کی دوڑ لگی رہتی تھی۔ ہر بچہ دوسرے کو ہرانے کی کوشش کرتا، اور یوں گھر میں ایک مقابلے کی فضا طاری رہتی۔ اس وجہ سے ان کی ماؤں کو بھی ان سے کام لینے میں دقت نہ ہوتی۔ جب ایک بچہ کام نہ کرنے کے لیے کوئی بہانہ کرتا تو دوسرے کو ذرا چمکار کر کام کرنے کا کہہ دیتیں، اس طرح پہلے بچے کو جوش آتا اور دوسرے کے حرکت میں آنے سے قبل ہی وہ کام ہوچکا ہوتا۔
’’مجھے تو لگتا ہے دادا جی یہ تحفہ مجھے دیں گے، کیوں کہ بائیس تاریخ کو میں پورے چودہ سال کا ہوجاؤں گا۔‘‘ حمدان نے اپنا خیال پیش کیا۔
’’اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس مرتبہ میں اپنی کلاس میں اول آیا ہوں، اس لیے یہ تحفہ مجھے ملنے کی امید ہے۔‘‘ یہ ساجد کی آواز تھی۔
ماہین نے گلا کھنکار کر کہا: ’’دادا جان صفائی پسند طبیعت کے مالک ہیں اور تم سب سے زیادہ میں صفائی پسند ہوں، اس لیے شاید یہ تحفہ میرے لیے ہے۔‘‘
’’اوہو۔۔۔ محترمہ نہ جانے کس خوش فہمی میں مبتلا ہیں، یہ تحفہ تو مجھے ہی ملے گا، کیوں کہ دادا جان کو شاعری سے بھی شغف ہے اور تمہیں پتا ہے کہ میری شاعری کتنی کمال کی ہوتی ہے۔ عرض کیا ہے۔۔۔!‘‘
’’بس بس بیٹھ جاؤ۔۔۔ تمہاری شاعری سے بہتر ہے کہ بندہ بکرے کی، مَیں۔۔۔مَیں سن لے۔‘‘ ساجد نے طاہر کو چڑاتے ہوئے کہا۔
’’تم بھی کچھ کہونا!‘‘ سب نے ہادیہ کی خاموشی کا نوٹس لیتے ہوئے کہا۔
’’میرے خیال میں دادا جان یہ تحفہ اپنے کسی دوست کے لیے لائے ہیں۔‘‘ ہادیہ کافی دور کی کوڑی لائی۔
’’تمہارے منھ میں خاک۔۔۔ ایسا کیوں سوچتی ہو۔‘‘ حمدان کو اتنا بڑا تحفہ کسی اور کے پاس جاتے ہوئے ہرگز اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ باقی سب نے بھی ہادیہ کو کوسا۔
عشا کی نماز پڑھ کر دادا جان سب بچوں کے درمیان براجمان تھے۔ حمدان نے اس بڑے پیکٹ کے بارے میں پوچھا۔ دادا جان پہلے تو چند ثانیے خاموش رہے، پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگے: ’’اس میں دنیا بھر کے بچوں کے مشہور مصنفین کی بچوں کے لیے لکھی گئی اردو اور انگریزی کہانیوں اور نظموں کی مشہور کتابیں ہیں، گویا یہ بچوں کے ادب کی اچھی خاصی لائبریری ہے۔ معلوم ہے اس کی پاکستانی قیمت کتنی ہے؟‘‘ دادا جان نے تجسس پیدا کرتے ہوئے کہا۔
’’پانچ سو!‘‘
’’چھ سو!‘‘
’’ایک ہزار!‘‘
’’پانچ ہزار!‘‘
’’معلوم نہیں۔‘‘
مختلف آوازیں فضا میں ابھریں۔
’’اب لو ۔۔۔اس کی اصل قیمت سنو۔ اس کی قیمت پاکستانی تیس ہزار روپے ہے۔‘‘
’’تیس ہزار!‘‘ سب بچوں کے منھ حیرت کے مارے کھلے کے کھلے رہ گئے۔ 
’’اور یہ لائبریری آپ بچوں میں سے کسی ایک کو ملے گی۔‘‘ دادا جان کی جانب سے بچوں کے لیے یہ ایک دھماکا خیز انکشاف تھا۔
’’اور وہ خوش نصیب کون ہوگا؟‘‘ ساجد نے اپنی چمکتی آنکھوں کو حیرت سے پھاڑتے ہوئے پوچھا۔
’’وہی جو مقابلے میں اوّل آئے گا۔‘‘
’’مقابلہ؟ کیسا مقابلہ؟ کس قسم کا مقابلہ؟‘‘
’’کل آپ بچوں کی مکمل حرکات و سکنات، صلاحیتوں اور اخلاق و کردار کا جائزہ لیا جائے گا اور جس کی کارکردگی بہترین ہوگی، یہ پوری لائبریری اُس کے حوالے کردی جائے گی۔‘‘
’’زبردست۔۔۔‘‘ بچوں نے نعرہ لگایا۔

*۔۔۔*۔۔۔*

اسکول سے آتے ہی حمدان نے خوشی کا نعرہ بلند کیا۔ حمدان بہت خوش تھا، کیوں کہ اس نے آج سچ مچ ایک اندھے شخص کو سڑک پار کروائی تھی۔ وہ نابینا شخص کافی دیر سے کھڑا تھا، حمدان نے اس ادھیڑ عمر نابینا کی مدد کی تھی اور یہ ایک ایسا کام تھا جس پر اسے انعام سے نوازا جا سکتا تھا۔
اسکول سے آکر ماہین کی بھی خوشی دیدنی تھی، کیوں کہ آج تین ٹیسٹ تھے اور تینوں میں اس نے پچیس میں سے پچیس نمبر حاصل کرکے کلاس میں دیگر بچوں پر برتری حاصل کرلی تھی۔ ماہین نے اپنا جائزہ لیا تو اسے یقین ہونے لگا کہ انعام ہر صورت میں اسے ہی ملے گا۔
ظہر کی نماز پڑھ کر ہادیہ کے علاوہ سب دسترخوان پر جمع ہوگئے۔ وہ سب ہادیہ کا انتظار کررہے تھے۔ تھوڑی دیر ہی گزری ہوگی کہ ہادیہ آپہنچی۔
’’معاف کیجیے گا، تھوڑی دیر ہوگئی۔‘‘
ہادیہ نے جب سب کو برے برے منہ بناتے دیکھا تو معذرت کی۔
’’ذرا جلدی نماز پڑھ لیا کرو۔‘‘ یہ ساجد کی آواز تھی۔
’’اچھا۔۔۔ چلو اب کھانا شروع کرو۔‘‘ دادا جان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ سب نے معمول سے ہٹ کر ذرا نفاست سے کھانا کھایا۔ طاہر نے پلیٹ کو اس طرح صاف کیا کہ اسے دھونے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ دادا جان نے طاہر کو ستائشی نظروں سے دیکھا، جس پر طاہر اپنے آپ کو انعام کا مستحق سمجھنے لگا۔
عصر کی نماز پڑھ کر سارے بچے دادا جان کے ساتھ لان میں کھیلنے میں مصروف ہوگئے۔ دادا جان امپائرنگ کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
تھوڑی دیر گزری تھی کہ ساجد کا دوست آگیا۔ وہ ریاضی کے چند سوالات میں الجھ گیا تھا اور اسے ساجد کی مدد درکار تھی۔ دادا جان نے ساجد کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ یہ ساجد کے لیے اچھا موقع تھا۔ ساجد بھی کھیل رہا تھا، مگر اس نے ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے دوست کو سوالات سمجھانے کا فیصلہ کیا۔ دادا جان نے خوشی سے اسے دیکھا۔ ساجد کو یقین ہوگیا کہ انعام تو اسی کا ہے۔
عشا کی نماز کے فوراً بعد نتائج کا اعلان ہونا تھا۔ سب نماز پڑھ کر فوراً دادا جان کے کمرے میں پہنچ گئے، مگر ایک کی کمی تھی۔ 
’’ایک تو اس ہادیہ کے ساتھ عجیب مسئلہ ہے۔ اب بھی محترمہ لمبی نماز کے بعد طویل دعا کریں گی، اور جب وہ آئیں گی تب تک تو لوگوں کونیند آجائے گی۔‘‘
طاہر کو کچھ زیادہ بے چینی ہورہی تھی۔ دادا جان سمیت سبھی کی نگاہیں دروازے پر جمی ہوئی تھیں۔ بالآخر جب انتظار کرنا مشکل ہوگیا تو حمدان ہادیہ کو بلانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا لیکن جیسے ہی وہ دروازے پر پہنچا۔ ہادیہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئی۔ طاہر نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولنا چاہے، مگر دادا جان کو دیکھ کر خاموش رہا۔ کمرے میں بچوں کے والدین بھی آگئے۔ وہ بھی اس انوکھے مقابلے کا نتیجہ دیکھنے کے خواہش مند تھے۔
ماہین نے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح آج اس نے ہر ٹیسٹ میں اچھے نمبر حاصل کیے اور کلاس میں برتری حاصل کی۔ جب کہ حمدان نے ایک اندھے کو سڑک پار کروانے کا ذکر کیا جسے کوئی بھی سڑک پار نہیں کروا رہا تھا۔ طاہر نے بتایا کہ آج اس نے سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق کھانا کھانے کی کوشش کی اور پلیٹ کو بالکل اچھے انداز سے صاف کیا۔ ساجد کا کہنا تھا کہ میں کھیل رہا تھا کہ میرا دوست اپنی ایک مشکل لے کر آیا۔ میں نے اپنے کھیل کی قربانی دے کر اس کی مشکل حل کی۔
آخر میں ہادیہ رہ گئی، وہ سوچنے لگی کہ اس نے آج ایسا کیا کام کیا ہے کہ وہ بتاسکے! سبھی کی نظریں ہادیہ پر لگی ہوئی تھیں۔ اچانک دادا جان کی آواز گونجی: ’’تم سب نے یقیناًاچھے کام کیے اور اتنے اچھے کہ جی چاہتا ہے سب کو انعام دوں، مگر انعام ایک ہے اور کسی ایک فرد کو ہی دینا پڑے گا، لہٰذا عدالت تمام حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے۔۔۔‘‘ دادا جان نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔ اس وقت سبھی بچوں کے دلوں کی دھڑکنیں بے ترتیب ہورہی تھیں اور والدین بھی بے چینی محسوس کررہے تھے۔
’’یہ گراں قدر تحفہ ہادیہ کو دیتی ہے۔‘‘
’’ہائیں۔۔۔کیا؟۔۔۔نہیں ۔۔۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔! ہادیہ نے کچھ بھی نہیں کیا۔۔۔ ناممکن۔۔۔ یہ ایک جانب دارانہ فیصلہ ہے۔‘‘
عبدالکریم اور ایوب بھی حیرت زدہ رہ گئے کہ والد صاحب نے یہ کیسا فیصلہ سنایا۔
’’مجھے معلوم ہے کہ میرا فیصلہ سن کر آپ سب حیران ہوئے ہوں گے، مگر یہی حقیقت ہے اور مجھے امید ہے کہ اس کی وضاحت سن کر آپ مطمئن ہوجائیں گے۔‘‘ دادا جان نے کہا تو سب ہمہ تن گوش ہوگئے۔
’’یوں تو سب نے اچھی اور بھرپور کوشش کی۔ جب کہ ہادیہ کو میں صبح سے دیکھ رہا ہوں کہ یہ ہر نماز نہایت اطمینان اور خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھتی ہے اور یہ اس کا روزانہ کا معمول ہے۔ عشا کے بعد نتائج کا اعلان تھا۔ اس لیے مجھ سمیت سبھی جلدی جلدی نماز پڑھ کر فوراً آگئے لیکن ہادیہ نے اس نازک موقع پر بھی اپنی نماز انتہائی دیانت داری اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کی اور اس کی نماز میں للہیت کی گواہی یہ بچے بھی دیتے ہیں اور یہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی ہے جس کا مفہوم ہے کہ کل روزِ قیامت جس کی نماز اچھی اور پوری نکل آئی اس کے باقی اعمال بھی پورے نکلیں گے۔ یہ صفت ہادیہ کو اس مقابلے میں کامیاب بناتی ہے اور ہم سب کو ایک سبق بھی دیتی ہے۔ کیوں۔۔۔! کیا میں غلطی پر ہوں؟‘‘ آخر میں دادا جان نے سب کی جانب دیکھ کر سوال کیا۔
’’نہیں دادا جان۔۔۔ غلطی پر تو ہم تھے، لیکن ان شاء اللہ آئندہ ہم بھی نماز کے رکوع و سجود کو اچھے انداز سے ادا کریں گے۔‘‘
اب سب ہادیہ کو رشک بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے، جب کہ ہادیہ کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو جھلملا رہے تھے۔
’’اچھا آپی! آپ ہمیں پڑھنے کے لیے کہانیاں تو دیں گی ناں!‘‘ ساجد نے ہادیہ کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھا۔
’’ہاں! یہ لائبریری سب کے لیے ہے، سب پڑھ سکتے ہیں۔‘‘ ہادیہ نے کہا تو سب کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے۔

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top