ایمان داری
رابعہ فاطمہ
۔۔۔۔۔
ایک تاجر نے جب بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھا، تو سوچا اپنے دونوں جوان بیٹوں کو تجارت کے گر سکھا دوں جو اس کے والد نے اسے ایک واقعے کے ذریعے سکھائے تھے۔ چناں چہ اس نے اپنے دونوں بیٹوں کو پاس بلایا اور واقعہ سنانا شروع کیا:
”میرے بیٹو! یہ واقعہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جوانی کا ہے کہ جب ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تجارت کا مال دے کر شام کی طرف روانہ کیا تھا، تو اس تجارت میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دوگنا منافع ہوا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب اپنے غلام میسرہ جو کہ اس قافلے میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ تھا، سے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حال دریافت کیا، تو معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صداقت اور امانت کی خصلت کے سبب تجارت میں دوگنا اضافہ ہوا ہے، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس بات سے بے حد متاثر ہوئیں اور باقی ماندہ زندگی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ گزارنے کا فیصلہ کیا۔“
یہاں تک کہہ کر تاجر اپنے بچوں کی جانب دیکھنے لگا پھر گویا ہوا: ”بچو! میری کامیابی کا راز بھی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت پر عمل کرنے میں ہے۔ ساری زندگی دیانت داری کو تھامے رکھا، لہٰذا اس بات کو گرہ سے باندھ لو کہ اگر دنیا و آخرت میں نفع چاہتے ہو، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت مبارکہ کو لازم پکڑو۔“
دونوں بیٹوں نے مودبانہ انداز سے کہا:”جی بابا حضور! ہم تجارتی معاملے میں بھی اور دیگر معمولات زندگی میں بھی رسول اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات کو سامنے رکھیں گے۔“
بیٹوں کے منہ سے کہے گئے یہ الفاظ اس کے دل پر سکینہ بن کر اترے۔
۔۔۔۔۔
بڑے بیٹے ماجد نے پھلوں کی تجارت کا ارادہ کیا اور چھوٹے بیٹے حامد نے کپڑوں کی تجارت کا ارادہ کیا۔
حامد نے دن رات ایک کر کے کپڑوں کی تجارت کو بام عروج پر پہنچا دیا تھا، اس کی دیانت داری اور ایمانداری کے ڈنکے ملکوں ملکوں بج رہے تھے۔ کسی کپڑے میں کوئی نقص ہوتا تو وہ اس کی نشاندہی کرنے میں ذرا تامل سے کام نہیں لیتا تھا۔ یہاں تک کے سب گاہک اس سے مطمئن اور خوش تھے۔ اس کے برعکس ماجد نے اپنے تجارتی معاملات میں اپنے والد کی نصیحتوں کو یکسر فراموش کردیا تھا۔ ہیر پھیر اس کے معمول میں شامل ہوگئی تھی اور ناقص پھلوں کو مہنگے داموں چپکے سے فروخت کرتا تھا۔ نتیجتاً وہ بد دیانت مشہور ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا تجارتی کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا تھا۔
جب اسے اپنے چھوٹے بھائی کی تجارتی کاروبار کی کامیابی کی بھنک پڑی، تو اس نے سوچا کیوں نہ اپنے بھائی کے کاروبار میں شمولیت اختیار کی جائے۔ چناں چہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ شامل ہونے کے ارادے سے اس کے پاس گیا اور التجائی انداز سے کہنے لگا:
”حامد! میرے تجارتی کاروبار کی تمہیں خبر ہوگی کہ سب برباد ہوگیا ہے۔ بھائی! اگر تم مجھے اپنے کاروبار میں شامل کر لو تو میں ماضی میں کی گئی غلطیوں سے لازمی پرہیز کروں گا۔“
حامد چوں کہ ایک رحم دل انسان تھا، تو کیسے نہ اپنے سگے بھائی پر ترس کھاتا۔ چناں چہ اس نے اپنے بڑے بھائی کو اپنے ساتھ شامل ہونے کی اجازت دے دی، پر ساتھ ساتھ تاکید کرتے ہوئے کہا:”ماجد بھائی! جو ہوا سو ہوا، توبہ سے اچھی ہجرت کوئی نہیں، پر یاد رہے توبہ کا مطلب دوبارہ اس گناہ کا ارتکاب کرنے سے گریز کرنا ہوتا ہے۔“
ماجد نے سر ہلاتے ہوئے اس کی بات کی تائید کی۔
۔۔۔۔۔
دن گزرتے گئے اور حامد تجارتی ترقی کے مدارج طے کرتا گیا۔ کچھ ہی مہینے گزرے تھے کہ ماجد اپنی پرانی روش پر آگیا اور اپنے بھائی کے کاروبار میں بھی ہیر پھیر کرنے کی ٹھانی۔ ایک دن کلیم جو حامد کا قریبی دوست بھی تھا اور پرانا گاہک بھی تھا کو ماجد نے ناقص مال مہنگے داموں میں چپکے سے فروخت کر دیا۔ جوں ہی کلیم نے اپنے سامان کو ٹٹولا تو حیران رہ گیا۔ اس سے پہلے ایسا دھوکا اس کے ساتھ کبھی نہیں ہوا تھا۔ کلیم آن کی آن میں شکایت لے کر حامد کے پاس حاضر ہوا اور تمام ماجرا کہہ سنایا:
”حامد! تمہاری جانب سے ایسا معاملہ پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے۔ سالم مال کا کہہ کر مجھے ناقص مال بیچا گیا۔“
حامد نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا: ”میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں، کلیم بھائی۔“
حامد نے اپنے بھائی ماجد کی طرف دیکھا جو نظریں جھکائے کھڑا تھا اور کہنے لگا:”ماجد بھائی! آج سے میرے اور آپ کے راستے الگ ہیں۔ میں ایسے شخص کو تجارت میں شامل نہیں کرسکتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت پر عمل نہ کرتا ہو اور جس نے اپنے والد کی نصیحت کو فراموش کردیا ہو۔“
ماجد شرمند ہوکر سر جھکائے وہاں سے چلا گیا اور سوچنے لگا:”ایمان داری سے ہی ہر کام میں برکت ہوتی ہے۔ کاش! میں نے ہیر پھیر سے کام نہ لیا ہوتا، تو آج میرا کاروبار بھی حامد کے کاروبار کی طرح پھلتا پھولتا، پر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت۔“