آئیڈیے کی تلاش
جاوید بسام
۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک اچھے کہانی نویس ہونے کے باوجود برے آئیڈیاز خریدنا چاہتے تھے۔ مگر کیوں؟
۔۔۔۔۔۔۔
عابداختر ایک کہانی نویس تھے۔ ان کی کہانیاں مختلف رسالوں میں شائع ہوتی رہتی تھیں اورپسند بھی کی جاتی تھیں۔ ان دنوں ان سے ایک کہانی کی فرمائش کی جا رہی تھی۔ یوں تو ان کے پاس اکثر کچھ تیار اور کچھ کچی پکی کہانیاں موجود ہوتیں لیکن جب کسی رسالے کے مدیر صاحب کوئی خاص موضوع دے دیتے تو وہ مشکل کا شکار ہوجاتے۔
ان دنوں ان سے آئیڈیا نمبر کے لیے کہانی لکھنے کو کہا جا رہا تھا اور وہ بھی بہت کم وقت میں۔ اُنھوں نے اپنی کہانیوں کو نکالا لیکن ایسی کوئی کہانی نہیں ملی۔ خیر وہ اس موضوع پر لکھنے کی کوشش کرنے لگے لیکن ان کے دماغ میں کوئی آئیڈیا نہیں آیا۔ کئی دن گزر گئے۔ جب اصرار بڑھتا گیا تو انہوں نے سوچا معذرت کرلوں، لیکن یہ انہیں اچھا نہ لگا۔
ان کے ساتھ بھی کچھ شاعروں جیسا معاملہ تھا۔ جس طرح شاعر حضرات پر آمد ہوتی ہے اور وہ نظم یا غزل کہہ دیتے ہیں۔ اسی طرح چلتے پھرتے اچانک انہیں بھی کسی کہانی کا آئیڈیا آجاتا۔ وہ کچھ دن اُسے اپنے دماغ کی ہنڈیا میں پکاتے رہتے اور جب وہ تیار ہوجاتی تو اسے کاغذ کے سپرد کردیتے۔ اُنھوں نے زیادہ تر کہانیاں اسی طرح لکھی تھیں لیکن اب وہ ایک امتحان میں پڑ گئے تھے۔
آخر انہوں نے ایک بار پھر کوشش کی اور کاغذ قلم سنبھال کر اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھ گئے۔ اُنھوں نے کاغذ کے اوپر لکھا ’آئیڈیا نمبر کے لیے ایک کہانی جو پہلے کبھی نہیں لکھی گئی۔‘
وہ گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ خیالات کے سبک رفتار گھوڑے دوڑ رہے تھے لیکن کوئی بھی اپنی منزل پر نہیں پہنچ پا رہا تھا۔ انہیں کوئی نیا آئیڈیا نہیں مل رہا تھا۔ ان کی توجہ بار بار گلی میں سے آتی ہوئی آوازوں کی جانب ہوجاتی۔ وہ ایک گنجان آباد علاقے میں رہتے تھے۔ جہاں بہت شور و غل ہوتا تھا۔ سارا دن پھیری والے،بھکاری اور موٹر سائیکل سوار گزرتے رہتے۔ بچوں کا کھیل کود بھی جاری رہتا۔ اب بھی یہی ہو رہا تھا۔ ایک کے بعد ایک آواز ان کے کانوں میں چلی آتی تھی۔ وہ پریشان نظر آرہے تھے۔ اسی دوران انہیں ایک نئی آواز سنائی دی۔ کوئی کہہ رہا تھا ”آئیڈیے لے لو! آئیڈیے۔“ وہ کرسی سے اچھل پڑے انہیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ آواز دوبارہ آئی۔ ’آئیڈیے لے لو، نت نئے آئیڈیے۔“
آواز قریب آتی جا رہی تھی۔ وہ اُٹھے اور کھڑکی سے نیچے جھانکا۔ ایک ٹھیلے والا جس نے ایک لمبا سا چوغہ پہن رکھا تھا اور سر پر پرانی وضع کی ٹوپی تھی، اپنا ٹھیلہ چلاتے قریب آرہا تھا۔ ٹھیلے پر کچھ بوریاں رکھی تھیں۔ عابد اختر جلدی سے سیڑھیاں اتر کر نیچے آئے۔ ٹھیلہ اب ان کے گھر کے آگے آگیا تھا۔
اُنھوں نے پوچھا: ”بھائی! یہ تم کیا بیچ رہے ہو؟“
”بابوجی آئیڈیے ہیں ایک دم تازہ۔“ ٹھیلے والا جلدی سے بولا۔
عابد اختر نے غور سے اسے دیکھا اس کی شکل الف لیلہ کے کسی کردار سے ملتی تھی لیکن انہیں وہ یاد نہےں آرہا تھا۔ خیر وہ بولے:” دکھاؤ تمھارے پاس کون سے آئیڈیے ہیں؟“ ٹھیلے والے نے بوری کھولی تو ہر طرف بھینی بھینی خوشبو پھیل گئی۔ عابد اختر نے دیکھا اس میں نیکی، سچائی ، کامیابی اور خوش اخلاقی جیسے موضوعات پر کہانیوں کے آئیڈیے موجود ہیں۔ اُنھوں نے اسے اُلٹ پلٹ کر دیکھا تو انہےں اور بھی کئی ایسے موضوعات مل گئے جن پر انہوں نے اب تک کہانیاں نہےں لکھی تھیں۔ انہوں نے بھاؤ تاؤ کرکے کچھ نئے آئیڈیے خرید لیے۔ وہ بہت خوش نظر آرہے تھے۔ جب وہ چلنے لگے تو اچانک ان کی نظر ایک دوسری بوری پر پڑی۔ اُنھوں نے ٹھیلے والے سے پوچھا۔ ”اس میں کیا ہے؟ “
”اس میں بھی آئیڈیے ہیں لیکن آپ کے کام کے نہیں ہیں۔“ وہ بولا۔
” کیوں اس میں کون سے آئیڈیے ہیں؟“ انہوں نے تعجب سے پوچھا۔
ٹھیلے والا بولا: ”اس میں بدی، جھوٹ، نفرت اور بے ایمانی جیسے آئیڈیے ہیں۔“
عابد اختر کی آنکھیں چمکنے لگیں وہ بولے: ”تم یہ کیوں کہہ رہے ہو کہ یہ میرے کام کے نہیں ہیں؟“
وہ بولا: ” میرا خیال تھا آپ انہیں پسند نہیں کریں گے۔“ اس نے بوری کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ عابد اختر جلدی سے بولے: ”ٹھہرو ٹھہرو بوری کھولنے کی ضرورت نہیں۔“
”کیوں کیا آپ کا ارادہ بدل گیا ہے؟“
” نہیں نہیں میں انہیں ضرور خریدوں گا، دراصل میں تم سے یہ پوری بوری خریدنا چاہتا ہوں۔“
”پوری بوری!“ وہ حیرت سے چلایا۔
”ہاں، بتاؤ اس میں کتنے آئیڈیے ہیں؟“ ٹھیلے والے نے خوشی خوشی بوری کھولی۔ ہر طرف ایک عجیب سی بدبو پھیل گئی۔
عابد اختر نے دیکھا اس میں غرو ر وتکبر، عصبیت، دہشت گردی اور بدامنی جیسے آئیڈیاز بھی موجود ہیں۔ انہوں نے جلد ہی اس بوری کا سودا کر لیا۔ ان کی جیب خالی ہو گئی تھی لیکن وہ بہت خوش تھے ۔ جب وہ چلنے لگے تو ٹھیلے والا بولا: ”جناب آپ شکل سے تو ایسے نہیں لگتے ۔ آپ نے ایسے موضوعات کیوں خرید لیے؟“
عابد اختر بولے: ” میرے بھائی تم نہیں سمجھو گے۔“ انہوں نے بوری کندھے پر لادی اور اپنے گھر کی سیڑھیاں چڑھ گئے۔ ٹھیلے والا حیرت سے انہیں جاتا دیکھ رہا تھا۔
گھر آکر اُنھوں نے بوری کا منھ کھولا اور اسے فرش پر اُلٹ دیا۔ وہ بہت زیادہ تھے۔ ایک چھوٹا سا پہاڑ بن گیا تھا۔ اُنھیں اس میں وہ تمام خراب باتیں نظر آئیں جو آج ہمیں اپنے معاشرے میں دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے چہرے پر غصہ جھلکنے لگا۔ انہوں نے چولھا جلایا اور ایک ایک کرکے ان تمام گندے آئیڈیاز کو جلانا شروع کر دیا۔ وہ دھڑا دھڑ جلنے لگے۔ جب سب جل گئے تو انہوں نے اس کی راکھ کو جمع کیا اور تھیلی میں ڈال کر کوڑے دان میں پھینک دیا۔ ان کے چہرے پر اطمینان نظر آرہا تھا پھر وہ واپس اپنی کرسی پر آبیٹھے تاکہ آئیڈیا نمبر کے لیے کوئی اچھی سی کہانی لکھ سکیں۔
٭….٭