آئی ہے برات
سعید لخت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب یہ کوئی سچ مچ کا بیاہ تو تھا نہیں کہ اس میں سارے محلے اور کنبے ٹبر کی ٹھاٹ دار دعوت ہوتی ،با جا گاجا بھی ہوتا اور مراثیوں کا ناچ بھی۔ ایک گڑیا کا بیاہ تھا اور گڑیا بھی کیسی کہ جس نگوڑی کے سر پر دوپٹا نہ تن پر چیتھڑا ۔لیکن بھیا سعید سر تھے کہ بھئی بیاہ ہو تو ایسا ہوکہ سو دیکھیں تو نو سو تعریف کریں ۔اگر پورے کنبے ٹبر کی دعوت نہ ہو تو کم سے کم محلے والے تو ضرور ہی شریک ہوں۔رہے ان کے دوست۔تو اوّل تو وہ ہیں ہی کتنے ۔پھر اتنے بندوں میں دو چار ایرے غیرے بھی کھپ ہی جاتے ہیں۔
امی جان بولیں ’’بھئی دولھا والیوں سے بھی پوچھ لو ۔دیکھو وہ کیا صلاح دیتی ہیں ۔‘‘
راتوں رات نائن کے ہاتھ تسنیم کو بلایا اور اس سے مشورہ کیا تو وہ بولی ’’بہن ،مہنگائی کا زمانہ ہے ۔اگر آج کسی سے قرض ادھار لے کر ذات برادری میں واہ وا کروا بھی لی تو کل اس کا انجام بُرا ہو گا ۔اس لیے میری مانو ،دو چار لڑکیوں کو بلا لو ۔دو چار کو میں بُلا لوں گی ۔‘‘
امی جان ہماری باتیں غور سے سن رہی تھیں ۔ہمیں بڑی بوڑھیوں کی طرح باتیں کرتے دیکھ کر ہنس پڑیں اور ہاتھ ہلا کر بولیں:’’اے لو!تم خرچ کی پرواہ مت کرو۔محلے کی لڑکیاں تو آئیں گی ہی ،اسکول کی لڑکیوں کو بھی بلا لینا۔‘‘
بھیا سعید بھنا کر بولے:’’جی ہاں !ان کی تو سب چڑیلیں آئیں گی اور ہمارا ایک دوست بھی نہیں۔‘‘
تسنیم ہنس کر بولی:’’اچھا بھئی تم بھی دو چار بھوت بلا لینا۔‘‘
’’ ارے بھئی لڑو مت‘‘ امی جان صلح کراتے ہوئے بولیں :’’سعید کے دوست آئیں گے توتمہارا ہی فائدہ ہوگا۔‘‘
تسنیم ہاتھ نچا کر بولی:’’کیا خاک فائدہ ہوگا؟ ہنڈیا تک چاٹ جائیں گے نگوڑ مارے۔‘‘
سعید بھائی چڑ کر بولے:’’اور امی جان ان کی چڑیلیں منہ میں کپڑا ٹھونس کر آئیں گی(منہ بسور کر) لو بھئی، ہم نے سوچا تھا ہماری بہن سیما کی گڑیا کا بیاہ ہے۔ اپنے اسکول کا بینڈ لائیں گے مگر۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
بینڈ کا نام سنتے ہی میں پھڑک اٹھی ۔تسنیم مچل گئی اورا می جان جھوم کر بولیں :’’بس بھئی،ٹھیک ہے۔اب کوئی اچھا سا دن مقرر کر لو ۔‘‘
میں بولی:’’اتوار کا دن ٹھیک ہے۔چھٹی بھی ہو گی۔‘‘
تسنیم اِٹھلا کر بولی: ’’اچھی بات ہے ،بہن ۔اب میں جاتی ہوں۔کچھ بندو بست بھی تو کرنا ہے آخر ۔‘‘
اتوار کے دن صبح ہی سے ہم تیاریوں میں مصرو ف ہو گئے۔دالان میں چٹی چٹی چادروں کا فرش کر کے نہایت قرینے سے گل دان ،اگال دان اور خا صدان سجا دئیے ۔امی جان کا تو عجیب حال تھا ۔ایک قدم باورچی خانے میں تو دوسرا دالان میں ۔کبھی ماما کو ہدایت کرتیں: ’’اے نگوڑی ،،زردے میں الائچیاں اور زعفران ڈالنا مت بھول جانا۔‘‘ کبھی مجھ سے اور نکہت سے کہتیں:’’یہ گاؤ تکیہ ادھر رکھو۔ ایک خاصدان یہاں بھی ہونا چاہیے۔‘‘ غرض عجیب ہما ہمی اور گہما گہمی کا عالم تھا کہ تھوڑی دیر میں مہمان آنا شروع ہوئے۔ جسے دیکھو ہنستا اور کھل کھلاتا چلا آرہا ہے۔ جب سارا گھر بھر گیا تو امی جان بولیں:’’اے! یہ منہ بند کر کے کیوں بیٹھی ہو؟ کچھ ہنسوبولو، گاؤبجاؤ۔‘‘
امی جان کا یہ کہنا تھا کہ وہ اودھم مچا کہ خدا کی پناہ۔ ڈھولک پر تھاپ پڑی اور سب نے مل کر آواز نکالی۔
’’گوندھ کر لائیو پھولوں کا تو مالن سہرا‘‘
ابھی یہ غل غپاڑا مچ ہی رہا تھا کہ ماما دوڑی ہوئی آئی اور بولی:’’بی بی جی ! برات آرہی ہے۔‘‘ سب خاموش ہو گئے اور کپڑے ٹھیک ٹھاک کرنے لگے کہ اتنے میں برات داخل ہوئی۔آگے آگے سعید بھائی کا بینڈ تھا۔ اس کے پیچھے دولھا میاں اور ان کے پیچھے بچے اور بچیوں کی ایک فوج، ایک سمندر تھا خوشی اور مسرت کا جو ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔
سب قرینے سے بیٹھ گئے تو سعید بھائی نے جاوید کو کچھ اشارہ کیا،وہ اندراپنے کمرے میں چلا گیااور سعید بھائی بولے:’’بھئی، دولھا میاں رات روٹی ذرا زیادہ کھا گئے تھے۔بے چاروں کی طبیعت خراب ہو گئی ہے۔اس لئے نکاح ابھی پڑھا دینا چاہیے۔‘‘ یہ کہہ کر زور سے پکارا: ’’اجی قاضی صاحب! اجی قبلہ قاضی صاحب!‘‘
کیا دیکھتے ہیں کہ قاضی صاحب چلے آرہے ہیں ۔پیروں تک اچکن ،سر پر بڑی سی پگڑی،لمبی سی ڈاڑھی اور ناک پر ٹوٹی ہوئی عینک۔یہ جاوید تھا ۔جس نے دیکھا ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گیا ۔قاضی صاحِب آکر سب کے درمیان براجمان ہو گئے اور ڈاڑھی پر ہاتھ پھیر کر بولے:’’اچھا بھئی،سب سے پہلے دلہن کا نام بتاؤ۔‘‘
میں نے کہا:’’دلہن کا نا پھلجھڑی بیگم۔‘‘
بھیاّ سعید بولے:’’دولھا کا نام شیخ لٹّو بخش۔‘‘
قاضی صاحب بولے ’’سبحا ن اللہ !کیا جنّاتی نام ہے۔خیر ،اب نکاح شروع ہوتا ہے ۔‘‘یہ کہہ کر آپ دولھا سے بولے:
املی کے پتے ببول کے پھول
کہو میاں گڈے ،گڑیا قبول
اب کوئی سچ مچ کا دولھا ہوتا تو ہاں کہتا بھی ۔میاں گڈے کیا خاک کہتے؟اس لیے سعید بھائی بولے:’’قبول‘‘۔
قاضی صاحب بولے :’’استغفراللہ !اماں نکاح آپ کا ہو رہا ہے یا شیخ لٹو بخش کا ؟جب تک دولھا ہاں نہ کہے گا، نکاح ہر گز نہ ہو گا۔ یہ شریعت کا معاملہ ہے بچوں کا کھیل نہیں۔‘‘
اب تو ہم لوگ بڑے پریشان ہوئے۔آخر بڑی دقت سے قاضی صاحب کو ایک چونی دے کر راضی کیا اور نکاح بخیروخوبی ختم ہوا۔
شام کو سب مہمانوں نے مل جل کے کھانا کھایا اور پھر برات رخصت ہونا شروع ہوئی۔ہائے میری پیاری گڑیا !ہمیشہ کیلئے مجھ سے جدا ہو رہی ہے ۔کتنے چاؤ سے بنوائی تھی میں نے۔میری آنکھوں میں آنسو آگئے ۔پلٹ کر امی جان کو دیکھا تو وہ بھی ڈوپٹے سے آنسو پونچھ رہی تھیں۔میں حیرت سے بولی :’’ارے امی جان !آپ بھی۔۔۔آپ بھی رو رہی ہیں؟‘‘
میرے سر پر ہاتھ پھیر کر بولیں :’’نہیں بیٹی۔یوں ہی۔آنکھ میں کچھ پڑگیا تھا۔تم برات کے ساتھ نہیں گئیں؟‘‘
میں ٹھنک کر بولی’’تسنیم کہتی تھی دلہن کے ساتھ دلہن والے نہیں جایا کرتے ۔‘‘
ہنس کر بولیں:’’چل چڑیل۔ارے سعید بیٹا ،سیما کو تسنیم کے گھر پہنچا آؤ۔‘‘