حضرت ہود علیہ السلام
حضرت نوح علیہ السلام کے بعد عاد کی قوم جسے قرآن پاک نے عاداولیٰ کے نام سے یاد کیا، وادی احقاف میں سکونت پذیر ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا میں ہر قسم کی سہولتیں اور آسائشیں دے رکھی تھیں، یہ لوگ بڑے قدو قامت کے تھے، فن تعمیر میں ان کا جواب نہ تھا، کھیتی باڑی سے خوب واقف تھے۔ فارغ البالی، خوشحالی اور قوت و طاقت کے گھمنڈ نے انہیں خدا سے باغ کردیا اور انہوں نے بت پرستی شروع کردی، خود ہی بت بناتے اور ان کی پوجا کرتے اور ان سے مرادیں مانگتے۔
آخر اللہ کی سنت کے مطابق انہی میں سے اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود علیہ السلام کی نبوت سے سرفراز فرمایا اور حکم دیا کہ وہ ان بھٹکے ہوئے انسانوں کو سیدھے راستے پر لائیں۔
حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ دیکھو میں تمہارا ہی بھائی ہوں، تمہارا دشمن نہیں، بلکہ خیر خواہ ہوں۔ آئو برے کاموں سے باز آئو اور ان بتوں کو چھوڑ کر جو نہ تمہارا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں، ایک خدا کی عبادت کرو، جس نے اپنے فضل و کرم سے تم کو طاقت، قوت اور مال و دولت اور دانائی سے سرفراز کیا ہے۔
اس کے جواب میں ان کی قوم کے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ ہم میں سے ہی ایک آدمی پیغمبری کا دعویٰ کررہا ہے، اگر خدا نے پیغمبر بنانا تھا تو صرف تم ہی اس عزت کے لیے رہ گئے تھے اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جن بتوں کو ہمارے آبائو اجداد پوجتے آئے ہیں، ان کو تیرے کہنے پر سے پوجنا چھوڑ دیں۔
حضرت ہود علیہ السلام پر جو لوگ ایمان لائے تھے، وہ کمزور اور غریب تھے، جب قوم عاد نے اپنے پیغمبر کی کسی بات پر دھیان نہ دیا، بلکہ الٹا حضرت ہود کا تمسخر اڑایا اور یہ لوگ خدا پر پھبتیاں کسنے لگے تو غیرت خداوندی جوش میں آگئی۔
آسمان پر ایک بادل نمودار ہوا جس کو دیکھ کر عاد کے لوگ خوش ہوئے کہ بارش آنے والی ہے جو ہماری کھیتوں کو ہرا بھرا کردے گی، حضرت ہود علیہ السلام ایماندار لوگوں کے ساتھ لے کر بستی سے باہر نکل گئے، اس بادل نے بعد میں ایک خوفناک آندھی کی شکل اختیار کرلی، جو آٹھ دنوں اور سات راتوں تک متواتر چلتی رہی اور اس نے قوم عاد ادلیٰ کے تمام سرکش انسانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا اور اس طرح خدا کے غضب کا شکار ہو کر یہ قوم دنیا سے نیست و نابود ہوگئی۔