ہالینڈ کا ننھا ہیرو
ہالینڈ کی لوک کہانی
اردو ترجمہ: راحت عائشہ
۔۔۔۔۔
یہ ہمارے ملک سے بہت دور ایک ملک ہالینڈ کی ایک کہانی ہے، جسے وہاں کے بچے بہت شوق سے سنتے ہیں۔
”کیا کہا؟“
”کیا تم بھی سننا چاہتے ہو؟“
”تو آؤ سنو!“
یہ ایک چھوٹے بچے کی کہانی ہے جس کا نام ’ہینس‘ تھا۔ہینس ایک بہت پیارا ہنس مکھ بچہ تھا۔ اس کے والد مچھیرے تھے۔ وہ روزانہ مچھلیاں پکڑنے جایا کرتے تھے۔ جب چھٹی کا دن ہوتا تو ہینس بھی ان کے ساتھ چلا جاتا۔ وہ بہت حساس دل کا مالک تھا۔ جب وہ گھر پر ہوتاتو اپنی چھوٹی بہن کا خیال رکھتا۔ امی یا دادی کے ساتھ کہیں نکلتا تو ان کی حفاظت کرنے کا خیال اس کے دماغ میں رہتا۔صرف یہی نہیں بلکہ گلی محلے والے بچوں، ان گھروں کا، جانوروں اور پودوں سب کااسے خیال رہتا۔
ایک دن ہینس کی امی نے مزے دار کھانا بنایا۔ انھوں نے سوچا کہ اس مزیدار کھانے میں انھیں اپنی بہن کوبھی شریک کرنا چاہیے،جو ان کے گھر سے ذرا دور دوسرے قصبے میں رہتی تھی۔
ہینس ان کا کھانا لے کر روانہ ہوا۔ابھی وہ آدھے راستے میں ہی تھا اسے پانی کے بند کے قریب سے گزرنا تھا۔ وہ مزے سے گنگناتا، قدرت کے خوب صورت نظاروں کو دیکھتے چلا جارہا تھا۔ اچانک اس کی نظر بند کے ایک ننھے سے سوراخ پر پڑی جہاں سے پانی رس رہا تھا۔
ہینس نے سوچا اگر یہ پانی رستا رہا تو بہت جلد اس کا سوراخ بڑا ہو جائے گا۔ سوراخ بڑا ہوتے ہوئے یہ بند بیٹھ بھی سکتا ہے۔ اس نے تصور کی آنکھ سے دیکھا، بند کا پانی سارے گاؤں میں پھیل چکاہے۔ اس نے جلدی سے اس ننھے سے سوراخ میں اپنی ننھی انگلی داخل کر دی۔ پانی رسنا بند ہو گیا لیکن دوسری طرف پانی اپنی پوری قوت لگارہا تھا کہ وہ اس ننھی انگلی کو شکست دے سکے۔
اِدھر ہینس کے گھر والے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ جب وہ کافی دیر تک گھر نہ پہنچا تو انھوں نے سوچا کہ یقینا اس کی خالہ نے اسے اپنے پاس ہی روک لیا ہوگا۔
اُدھر ننھا انتظارمیں بیٹھا تھا کوئی اس کے پاس سے گزرے تو وہ اسے اپنی مد د کے لیے کہے یا وہ جا کر گاؤں والوں کو بتادے کہ بند میں سوراخ ہو چکا ہے،لیکن شاید آج کسی کو بھی اس قصبے کی طرف نہیں جانا تھا یا سب پہلے ہی جا چکے تھے۔ صبح ہوئی اور ننھے ہینس کی بہن نے اپنے بھائی کو اس کے بستر پر نہ دیکھا تو وہ بے قرار ہوکر اسے ڈھونڈنے نکل کھڑی ہوئی۔ اسے یاد آیا کل تو وہ خالہ جان کی طرف گیا تھا۔ اس نے قصبے کی جانب جانے والی پگڈنڈی پر دوڑنا شروع کردیا۔ا چانک اس کی نظر ایک گٹھڑی پر پڑی جو بند کی دیوار کے ساتھ پڑی تھی۔ نزدیک جانے پر پتا چلا کہ وہ اس کا بھائی ہینس تھا۔ وہ دوبارہ بھاگتی ہوئی آئی اور لوگوں کو بتایا۔سب دوڑے دوڑے ہینس کی مدد کے لیے پہنچے۔وہ بے ہوش ہو چکاتھا لیکن اس کی انگلی اب تک اس سوراخ میں تھی۔ جوں ہی انگلی نکالی گئی پانی دوبارہ باہر آنے لگا۔ یہ دیکھ کر وہاں موجود لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ اس ننھے بچے نے گاؤں کی زندگی بچانے کے لیے اپنی زندگی داؤ پر لگا دی۔ جلدی سے اس پشتے کی مرمت کر کے اسے درست کیا گیا اور دوسری طرف ہینس کو بچانے کی کوششیں جاری رکھی گئیں۔
بادشاہ کو جب اس واقعے کی خبر ملی تو اس نے ہینس کو نہ صرف بہت سے قیمتی انعامات سے نوازا بلکہ اسے”ہالینڈ کاننھا ہیرو“ کا خطاب بھی ملا۔ آج بھی ہالینڈ میں بچے بہت شوق سے اپنے ننھے ہیرو کی کہانی سنتے ہیں۔
٭٭٭