ہیروں کے چور
ثریا فرخ
۔۔۔۔۔
(۱)
کھٹارا سی جیپ کے بے ہنگم شور سے سارا جنگل گونج رہا تھا۔ جیپ میں دو آدمی سوار تھے۔ وہ بار بار گردن اور چہرے پر بہنے والے پسینے کو صاف کر رہے تھے۔ جیپ نے ایک موڑ کاٹا اور ایک ناہموار اور ٹوٹی پھوٹی سی پگڈنڈی پر ہولی جو آگے جاکر ایک چھوٹے سے ہموار میدان پر ختم ہوتی تھی۔ وہاں ایک چھوٹا سارن وے بنا ہوا تھا۔ غالباً اس میدان کو ہوائی اڈے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ شور مچاتی ہوئی جیپ اپنی بے ڈھنگی رفتار سے چلتی ہوئی وہاں موجود ایک چھوٹے سے ہوائی جہاز کے نزدیک جا کر رک گئی۔ یہ جہاز کرایہ پر حاصل کیا گیا تھا اور اس سے کچھ سامان بھیجا جانا تھا۔
جیب میں سوار بھاری جسم اور ادھیڑ عمر کا ایک شخص ہانپتے ہوئے اپنی نشست سے کھڑا ہو گیا۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ حبس اور گرمی میں سفر کرنے کے بعد یہ ہو ابری فرحت بخش لگ رہی تھی۔ اچانک وہ اپنے ساتھی کی طرف مڑا جو جیپ میں سے ایک آہنی صندوق گھسیٹ کر باہر نکال رہا تھا۔ اس نے کہا۔’’ ذرا دھیان سے جم! اس کی قیمت کم و بیش دس ہزار پاؤنڈ ہے۔‘‘
جِم لینگلی نے دانت نکال کر بڑے اعتماد سے جواب دیا۔’’ پوپ! آپ بالکل فکر نہ کریں۔ اب سے ٹھیک پانچ گھنٹے بعد یہ آہنی صندوق بینک کی تحویل میں ہو گا۔‘‘ اس نے ہانپتے ہوئے صندوق کو اٹھا کر جہاز پر لادا، اس کے پیچھے خود بھی اس میں سوار ہو گیا اور جاتے جاتے پوپ ولیمس سے بولا۔’’ اب میں ہانگ کانگ پہنچ کر ٹھنڈا مشروب پیوں گا۔‘‘
پوپ نے جواب میں خوشی سے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا۔’’ جب تک تم خیریت سے ائیر پورٹ پر نہ اتر جاؤ مجھ سے ریڈیو پر مسلسل رابطہ قائم رکھنا ۔‘‘ جواب میںلینگلی نے بھی ہاتھ ہلا کر یقین دلایا۔’’ سب اچھی طرح چیک کر لینا۔‘‘ پوپ نے چلا کرکہا۔
چند لمحے بعد جہاز نے رن وے پر دوڑنا شروع کیا۔ جنگل کے سرے پر پوپ ولیمس اپنی جیپ میں کھڑا ہوا دیکھ رہا تھا۔ جیسے ہی جہاز درختوں سے بلندہوا، اس نے اطمینان بخش انداز میں سر ہلایا۔ چند لمحے بعد جہاز آسمان کی لامحدودوسعتوں میں کھو چکا تھا۔
چار ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ کر جم لینگلی نے جہاز کو سید ھا کیا اور اپنی نشست میں بیٹھ کر اطمینان کا سانس لیا۔ اس نے ریڈیو کا بٹن دبایا اور رابطہ قائم کرنا شروع کر دیا۔
’’ جی ایچ۔ ٹو۔ کا لنگ پی۔ ایم، سی۔ جی۔ ایچ۔ ٹو کا لنگ پی۔ ایم۔ سی۔۔۔کیا تم میری آواز سن رہے ہو۔ اوور۔‘‘
پیٹوک مائننگ کمپنی سے ملحق احاطے میں ایک کیبن بنا ہوا تھا۔ یہاں ریڈیو پر جہاز سے رابطہ قائم کیا جاتا تھا۔ ریڈیو آپریٹر کا نام پیٹر رو پر تھا۔ رو پرنے ٹرانسمیٹر کابٹن دبا یا۔
’’ ہیلوجی۔ ایچ۔ کے۔ ٹو۔۔۔پی ۔ایم۔ سی جواب دے رہا تھا۔ تمھارا اسٹرینگتھ فائیو ہمیں مل رہا ہے اوور۔‘‘ یہ لینگلی کی جوابی آواز اسپیکر پر سنائی دی۔’’ اسٹر یگتھ فائیو چیک۔۔۔پیٹ! کیا تمھیں کچھ معلوم ہے کہ برما کا جنگل کتنا وسیع و عریض ہے، اس کا تم کو شاید بالکل صحیح اندازہ نہیں ہو گا۔ اگر تم اس وقت یہاں میرے ساتھ ہوتے تو اندازہ کرتے۔‘‘
رو پر نے جواب دیا۔’’ مجھے برما کے جنگل کی وسعت کا صحیح اندازہ نہیں ہے۔ وقفہ۔۔۔پندرہ منٹ کے اندر اندر ایک بار پھر سب کو چیک کر لو پی۔ ایم۔ سی رابطہ ختم کر رہا ہے اوور۔‘‘ اسپیکر جھنجھنایا: ’’اوکے پیٹ۔ جی۔ ایچ۔ کے ٹو بھی رابطہ ختم کر رہا ہے۔ اوور۔‘‘45 منٹ بعد رو پر نے لاگ بک میں چوتھا اندراج کیا۔11:15 بجے۔ جی۔ ایچ۔ کے ٹو چیک کیا گیا۔ سب درست ہے۔
اسی اثنا میں پوپ ولیمس کیبن میں داخل ہو رہا تھا۔ اس نے روپر سے پوچھا۔’’کیوں! سب کچھ ٹھیک ہے نا ؟‘‘
’’یقینا جناب! سب کچھ ٹھیک ہے۔ ابھی ابھی جم کو چیک کیا ہے۔‘‘
اس نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔’’خوب۔‘‘پوپ نے ایک تسلی بخش سانس لیا اور ریڈیو آپریٹر کی طرف شفیق مسکراہٹ سے دیکھتے ہوئے بولا۔’’ بھئی یہ جگہ تو کسی تنور کی طرح گرم ہو رہی ہے۔ دوبارہ رابطہ قائم کرنے سے پہلے بہتر ہو گا کہ تم کچھ دیر آرام کر لو۔‘‘
رو پر کے انداز میں ہچکچاہٹ تھی۔ وہ بولا۔’’ بہتر ہے جناب! میں اب آدھے گھنٹے بعد رابطہ قائم کروں گا۔‘‘
آپریٹر کے جانے کے بعد پیٹوک مائننگ کمپنی کا مالک پوپ ولیمس چند لمحے تک کیبن کے دروازے پر کھڑا ہوا احاطے میں ہونے والی سرگرمیوں کو دیکھتا رہا۔ اس کان میں ہونے والی کھدائی کے بارے میں سوچا جو کئی مہینے سے جاری تھی۔ یہ سب کس لیے ہو رہا ہے۔ روبی کی ایک پوری کان کے بارے میں سوچ کر وہ بڑے بھدے انداز میں ہنسا۔ اچانک کونے میں رکھے ہوئے ریڈیو سیٹ میں جان پڑ گئی۔ اس میں شور سنائی دیا:
’’ جی۔ ایچ۔ کے ٹو کا لنگ پی۔ ایم ۔سی۔۔۔‘‘ لینگلی کی آواز میں بڑا اضطراب تھا۔ پوپ نے جست لگا کر ایک بٹن دبایا:
’’ پی۔ ایم۔ سی تم سے مخاطب ہے۔۔۔کیا گڑ بڑ ہے جم!‘‘
اُدھر جہاز میں جم لینگلی بڑی مستعدی سے سرگرم عمل تھا۔ وہ شور مچاتے ہوئے انجنوں کو قابو میں کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’ ا یندھن کی سپلائی انجنوں تک نہیں پہنچ پارہی ہے۔‘‘ لینگلی نے بڑی مایوسی سے جواب دیا۔ انجن آخری بار غرایا اور پھر بالکل خاموش ہو گیا۔ لینگلی کے جبڑے مضبوطی سے بھینچے ہوئے تھے۔ اس نے جہاز کو تیرتے ہوئے انداز میں آہستہ آہستہ نیچے لانا شروع کر دیا۔
’’ اب یہ میرے قابو سے باہر ہے۔‘‘ اس نے حد نظر تک پھیلے ہوئے جنگل پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا ۔’’نیچے جہاز کو اُتارنا اور زندہ بچ جانا بالکل ناممکن ہے۔‘‘
(۲)
انسپکٹر جین کولٹ جو عرف عام میں ہاک کے نام سے مشہور تھا اور انٹرپول کا ایک ذہین افسر تھا، اس وقت ایک آرام دہ کرسی میں دھنسا ہوا چھت کو گھور رہا تھا۔ بظاہر وہ لمبی لمبی پنکھڑیوں والے اس پنکھے کو دیکھ رہا تھا جو بڑی سستی سے چھت پر گھوم رہا تھا۔ مگر در حقیقت اس کا ذہن پوری طرح اس تفصیل اور حقائق کی طرف متوجہ تھا جو برما کا پولیس کیپٹن یو من بیان کر رہا تھا۔ ہاک اسی صبح حکومت برما کی درخواست پر رنگون پہنچا تھا۔ کیپٹن بیان ختم کر چکا تو ہاک نے ہنکارا بھرتے ہوئے کہا:
’’ اس تمام تفصیل کا مطلب یہ ہے کہ کرایہ پر حاصل کیے ہوئے دو ہوائی جہاز دوران پرواز اس وقت غائب ہو گئے جب وہ پیٹوک مائن سے ہانگ کانگ جارہے تھے۔ دونوں ہی جہاز ناتراشیدہ ہیرے لے کر جارہے تھے جن کی قیمت دس ہزار پاؤنڈ کے قریب تھی۔ وسیع پیمانے پر فضائی کھوج کی گئی مگر کسی قسم کے حادثے یا تباہی کے آثار نہیں ملے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس ملک پر اس تحقیقات کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ذرا نقشے کو دیکھو۔ شاید کچھ سمجھ میں آئے۔‘‘
ہاک مستعدی سے نشست سے اُٹھا اور پستہ قد برمی افسر یومن کے قریب آ گیا جو دیوار پر ٹنگے ہوئے نقشے کے قریب کھڑا ہوا تھا۔ یومن نے ایک نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔’’ تین ملکوں، برما لا ئوس اور تھائی لینڈ کی سرحدیں یہاں ملتی ہیں۔‘‘ یومن نے انگلی سے ایک دائرہ بناتے ہوئے کہا۔’’ یہ ٹھیک اس مقام کا مرکز ہے جہاں جا کر جہاز غائب ہوئے۔‘‘ اس نے توجہ طلب نظروں سے ہاک کو دیکھا۔
’’تو پھر؟‘‘ ہاک نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا اور پھر اپنی بات بڑھائی۔’’ ایک اہم بات کو تم نظر انداز کر چکے ہو۔ ہانگ کانگ کی برطانوی پولیس بھی اس معاملے میں ضرور دلچسپی لے گی، جس کمپنی کے جہاز غائب ہوئے ہیں وہ برطانیہ کی کمپنی ہے اور جو انشورنس کمپنی ان نقصانات کا معاوضہ ادا کرے گی وہ کمپنی بھی برطانوی ہے۔ اس طرح اب چار ملکوں سے اس معاملے کا تعلق ہوا۔‘‘ ہاک بڑے اطمینان سے مسکرایا۔ برما کے پولیس افسر کی نگاہوں میں پیدا ہونے والا اطمینان اس کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکا۔
ہاک ایک بار پھر نقشے کی طرف مڑتے ہوئے بولا۔’’ ہم پیٹوک مائن کس طرح جا سکتے ہیں؟‘‘
یو من نے جواب دیا۔’’ ہوائی جہاز یا ہیلی کا پٹر کے ذریعہ سے۔ ان کے پاس ایک چھوٹا سا ایئر پورٹ بھی ہے۔ میں آپ کے لیے ابھی جہاز کا انتظام کرتا ہوں۔‘‘
اچانک ہی یومن کے انداز میں مستعدی آگئی تھی۔
پوپ ولیمس اپنے بنگلے کے برآمدے میں اس طرح پھر رہا تھا جیسے کسی شیر کو پنجرے میں قید کر دیا گیا ہو۔ اچانک ہی گھوم کر وہ ہاک کے سامنے آکھڑا ہوا جو بڑے اطمینان سے ایک آرام دہ کرسی میں دھنسا ہوا تھا۔ پوپ غرایا:
’’ انشورنس کمپنی۔۔۔اونھ۔۔۔انھیں اپنے پیسے کی فکر پڑی ہے۔ پائلٹوں کے بارے میں کسی نے کچھ سوچا ہے؟‘‘
ہاک نے اطمینان سے جواب دیا۔’’ ممکن ہے وہ محفوظ ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کسی مصیبت میں گرفتار ہوں۔‘‘
پوپ نے سر دنگاہ ہاک پر ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’جس جگہ یہ واقعہ پیش آیا ہے، وہ مشرق کا بالکل ناہموار علاقہ ہے۔ ان کے بارے میں کوئی اچھی امید رکھنا بے وقوفی ہی ہو گی۔‘‘
ہاک اپنی جگہ سے اُٹھتے ہوئے بولا۔’’ دونوں واقعات میں بڑی مطابقت ہے۔ دو جہاز دونوں ناتراشیدہ ہیرے لے کر جاتے ہیں اور دونوں ایک ہی علاقے میں غائب ہو جاتے ہیں۔ ہے نا؟‘‘
پوپ کی آنکھیں سکڑ گئیں ۔’’ انسپکٹر! مجھے معلوم ہے کہ تم کیا سوچ رہے ہو۔ اس دولت کو حاصل کرنے کے لیے بے شمار انسانوں کو اپنی زندگی دانو پر لگانی ہوگی۔ ‘‘
’’ کیا ان میں پائلٹ بھی شامل ہیں؟‘‘ ہاک نے پوچھا۔
بوڑھے نے تھکے تھکے سے انداز میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔’’ میں ان کے بارے میں سوچ چکا ہوں۔ مجھے ان پر مکمل اعتماد ہے۔ برسوں سے میری ان سے شناسائی ہے۔‘‘
اچانک ہی ایئر پورٹ پر کسی جہاز کے اسٹارٹ ہونے کا شور سنائی دیا۔ ہاک تیزی سے اس سمت مڑتے ہوئے بولا۔’’ وہ کیا ہے؟‘‘
پوپ برآمدے کی سیڑھیوں کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔’’ آؤ دیکھتے ہیں۔‘‘ باہر ایک جیپ کھڑی تھی۔ دوآ دمی اس میں سوار ہو گئے۔
’’ پوپ ولیمس! اس کو آپ اپنے لیے آخری موقع کہہ سکتے ہیں۔ اس پرواز کے بارے میں آپ قطعی طور پر فکر مند نہ ہوں۔ ہمیں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی۔ آپ تو موسیقی سے لطف اندوز ہوں۔‘‘ آل جونس نے کہا۔
جونس اس جہاز کا پائلٹ تھا جو تھوڑی دیر بعد پوپ کے ہیرے لے کر روانہ ہونے والا تھا۔ جونس نے نصف شب تک جہاز کا ایک ایک نٹ بولٹ چیک کیا تھا۔ اسے اپنے اوپر بڑا اعتماد تھا۔
ہاک کی عقابی نگا ہیں پائلٹ پر جمی ہوئی تھیں۔ اچانک اس نے پائلٹ سے کہا۔’’ تم کوئی دوسرا راستہ کیوں نہیں اختیار کرتے؟ اس خطرناک علاقے سے سفر کرنا ضروری تو نہیں ہے۔‘‘
ولیمس نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں بھی اس سے یہی کہہ رہا ہوں لیکن یہ تو اڑیل ٹٹو کی طرح ضدی ہے۔‘‘
جونس کے چہرے پر اچانک ہی کرب کے سائے پھیل گئے، مگر وہ پھر پر اعتماد نظر آنے لگا۔ وہ ہاک سے بولا:
’’انسپکٹر! اس راستے پر دو بہترین اور تجربے کا ر پائلٹ غائب ہوئے ہیں۔ جو کچھ ان کے ساتھ پیش آیا ہے وہ میرے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے اور میں اسی کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔‘‘
دس منٹ بعد ہاک اور ولیمس کی موجودگی میں جونس کا جہاز پرواز کر گیا۔ واپسی میں ولیمس نے ہاک سے کہا کہ جو نس ’’ایورن‘‘ کا سب سے بہترین پائلٹ ہے ۔ہاک نے چونک کر پوچھا کہ ایورن کون ہے؟
’’ایورن ایک فضائی کمپنی ہے ۔‘‘ ولیمس نے بتایا۔
اگلے آدھے گھنٹے تک ہاک ،کان کے علاقے میں مصروف رہا۔ اس نے تمام کارکنوں اور منتظمین سے سوالات کیے مگر سب لاحاصل ۔ کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا۔ ہاک سوچ رہا تھا کہ اگر یہ واقعات حادثے نہیں ہیں تو یہ میری زندگی کا جرائم کی دنیا کا کامیاب ترین ڈراما ہے۔کیا ایسا ممکن ہے کہ یہیں کا کوئی آدمی اندر کی معلومات باہر پہنچا رہا ہو۔ لیکن ان میں سے کسی نے بھی چند ہفتوں کے لیے وہ جگہ نہیں چھوڑی تھی۔ ان میں سے بیشتر تو کئی برسوں سے ولیمس کے لیے کام کر رہے تھے۔ وہ نہ صرف بوڑھے کی عزت کرتے تھے، اس سے محبت کرتے تھے بلکہ اس کی خاطر کچھ بھی کر سکتے تھے۔ اپنی سوچ میں گم وہ ولیمس کے بنگلے کی طرف چل دیا۔
اچانک ہاک نے ولیمس کو دیکھا۔ وہ بہت گھبرایا ہوا اور خوف زدہ تھا اور کیبن کے دروازے سے باہر آرہا تھا۔ انسپکٹر لپک کر کیبن میں پہنچا اور ولیمس سے بولا۔’’ کیا بات ہے؟‘‘
پوپ خالی خالی نظروں سے اُسے گھور رہا تھا۔’’ میں جونس کو کھو چکا ہوں۔ پہلے کی طرح اس بار بھی ریڈیو رابطہ ختم ہو گیا ہے۔‘‘
’’ اس بار تمھارا رابطہ اس سے کسی جگہ ٹوٹا تھا؟‘‘ ہاک کی آواز میں حکم تھا۔
’’ اس جگہ۔‘‘ پوپ نے دیوار پرٹنگے ہوئے نقشے پر ایک جگہ انگلی رکھتے ہوئے کہا۔
’’کب؟‘‘ ہاک کی آواز بہت تیز تھی۔
’’ تقریباً تین منٹ پہلے ۔‘‘ پوپ کا چہرہ دکھ اور پریشانی سے بے رونق ہو گیاتھا۔
اچانک ریڈیو آپریٹر گھبرایا ہوا اندر داخل ہوا اور بولا۔’’ ہمارا رابطہ اس سے اچانک منقطع ہوگیا ہے۔‘‘
ہاک نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔’’ حوصلہ رکھو اور کوشش کرتے رہو ۔‘‘ اس کے بعد پوپ کی طرف مڑ کر بولا۔’’ مجھے شروع سے آخر تک سارا قصہ سناؤ۔‘‘
پوپ نے کہا۔’’ ہم نے پہلے سے یہ طے کر لیا تھا کہ اس خطرناک علاقے پر پرواز کے دوران جو نس سے مسلسل رابطہ قائم رکھا جائے گا۔ پھر ایک منٹ تک تو پائلٹ مجھ سے باتیں کرتا رہا اور اگلے منٹ رابطہ بالکل ختم ہو گیا۔‘‘
ہاک نے تیزی سے کہا ۔’’ٹھیک ہے۔ رنگون میں پولیس ہیڈ کوارٹر سے فوری رابطہ قائم کرو اور ان سے کہو کہ لاؤس اور تھائی لینڈ کی پولیس سے ہمارے ساتھ تعاون کی درخواست کریں۔ میں وسیع پیمانے پر مکمل فضائی کھوج کرنا چاہتا ہوں۔‘‘یہ کہہ کر وہ مڑا اور تیزی سے دروازہ سے باہر نکل گیا۔
پوپ اس کی طرف بڑھتے ہوئے پریشانی سے بولا۔’’ تم کہاں جا رہے ہو ؟‘‘
ہاک، ولیمس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا رہا اور پھر بڑے پرسکون انداز میں بولا۔’’مسٹر ولیمس! اس بار گمشدہ جہاز تلاش کر لیا جائے گا۔‘‘
(۳)
کیپٹن یومن اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا ہاک کو دیکھ رہا تھا جو ایک لمبے چوڑے نقشے میں منہمک تھا۔ انٹر پول کا یا افسر ایک گھنٹہ پہلے رنگون پولیس ہیڈ کوارٹر پہنچا تھا۔ وہ یہاں آکر بہت مصروف رہا۔ چند باتوں کے علاوہ اس نے کوئی بات نہ کی۔ بس نقشے میں گم تھا۔ اچانک وہ سیدھا ہو کر کیپٹن یومن سے بولا۔’’ تم مجھے جنگل میں سفر کرنے کے لیے کوئی تربیت یافتہ اسکائوٹ دے سکتے ہو ؟ ایک ایسا آدمی جو اس علاقے سے اچھی طرح واقف ہو ۔‘‘
پستہ قد برمی کیپٹن نے اس کو قابل ستائش نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔’’ تمھارے ذہن میں آخر ہے کیا؟‘‘ لیکن ہاک تو ایک بار پھر نقشے میں گم ہو گیا تھا۔
اچانک وہ کیپٹن سے بولا۔’’ ادھر دیکھو، پیٹوک مائن کے لوگوں کا کہنا ہے کہ تین جہازوں کا رابطہ یہاں۔۔۔یہاں اور یہاں۔۔۔ منقطع ہوا تھا۔‘‘ ہاک نے ہانگ کانگ اور پیٹوک مائن کے درمیان فضائی راستے پر پنسل سے تین نشان لگاتے ہوئے کہا۔’’ تقریباً ہر موقع پر ایک ہی جگہ ۔۔۔ٹھیک ہے ؟‘‘ کیپٹن یو من نے اقرار میں سر ہلایا۔ ہاک نے ان نشانات سے آگے ایک دائرہ بناتے ہوئے کہا۔ ’’اس علاقے میں اب تلاش کا کام ہو رہا ہے۔‘‘
یو من نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔’’ اس علاقے میں درجن بھر ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر تلاش کے کام میں مصروف ہیں۔‘‘
ہاک نے پنسل ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کہا۔ ’’اب فرض کر لو کہ جہاز اس وقت آگے کی طرف پرواز نہیں کر رہا تھا جب اس کا رابطہ منقطع ہوا بلکہ یہ فرض کر لو کہ وہ واپس مڑ چکا تھا۔‘‘ کیپٹن نے اس کی بات سمجھ کر چونک کر اسے دیکھا۔ ’’پھر اس کے بعد وہ کسی جگہ نیچے آگئے۔۔۔یہاں۔‘‘ اس کی انگلی نقشے پر ایک جگہ گڑ گئی۔ہاک کی پنسل نے ایک دائرہ اور بنایا۔ اس بار پہلے کے نشانات سے تھوڑا پیچھے، خطر ناک مقام اور پیٹوک مائن کے درمیان۔ وہ سیدھا ہوا اور مسکراتے ہوئے بولا۔’’ اور یہ وہ مقام ہے جس کو میں دیکھنے جا رہا ہوں۔ کیا تم مجھے ایک اسکا ئوٹ فراہم کر سکتے ہو؟‘‘
کیپٹن یومن نے غیر یقینی انداز میں سرہلاتے ہوئے کہا ۔’’ ا سکا ئوٹ فراہم کرنا کوئی مسئلہ نہیں۔ سارجنٹ شنگ برما کا سب سے بہترین اور تربیت یافتہ اسکائوٹ ہے۔ لیکن اس علاقے میں پیدل سفر کرنا مناسب نہیں ہے۔ ایک چھوٹے سے علاقے کو دیکھنے میں ہی ہفتوں لگ جائیں گے۔ یہ مشرق کا سب سے زیادہ دشوار گزار جنگل ہے۔‘‘یہ کہتے ہوئے وہ ٹیلی فون کے پاس پہنچا اور ہاک سے بولا۔’’ میں ذرا فضائی تلاش والوں سے رپورٹ لے لوں ۔‘‘
’’ٹھیک ہے، تم کر لو مگر میں اپنی مہم کا آغاز زمین سے کروں گا۔ ایک جہاز جو غوطہ مار کر جنگل میں پہنچ جائے، وہ سمجھ لو بالکل غائب ہو گیا۔ فضا سے اس کو تلاش کرنا یا کسی مقام کا تعین کرنا بالکل ناممکن ہے۔‘‘ ہاک نے کہا۔
پستہ قدبر می کیپٹن نے اس کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔’’اور زمین پر اُسے تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسے گندم کے کھیت میں چاول کا دانہ تلاش کیا جائے گا۔‘‘
(۴)
جیپ جھٹکے کھاتی ہوئی کچی مٹی کی پگڈنڈی پر چلی جارہی تھی۔ اس کے چلنے سے مٹی اڑ رہی تھی۔ دریا کے کنارے پہنچ کر جیپ ایک جھٹکے سے رُک گئی، ہاک اور سارجنٹ شنگ کود کر جیپ سے اترے۔ مسلسل سفر کرنے سے ان کے جسم کا جوڑ جوڑ دُکھ رہا تھا۔ دونوں نے اتر کر ہاتھ پیروں کو اوپر نیچے حرکت دی تا کہ دوران خون ٹھیک ہو جائے اور جسم کو آرام ملے۔ سارجنٹ شنگ بھوری جلد والا صحت مند برمی اسکاؤٹ تھا۔ بات بات پر دانت نکال کر مسکرانا اس کی مستقل عادت تھی۔
شنگ نے کھنکھناتی ہوئی آواز میں ہاک سے کہا۔’’ جناب! اب ہمیں دائیں یا بائیں جانا چاہیے۔ آگے جانا ممکن نہیں ہے، کیوں کہ یہ جیپ تیر نہیں سکتی۔‘‘
اس کی بات پر ہاک بھی مسکرانے لگا۔ پچھلے تین دن سے وہ ساتھ ساتھ تھے۔ ہاک کے دل میں اس مضبوط جسم والے سارجنٹ کے لیے بڑی جگہ پیدا ہو گئی تھی۔ اس کی بچکا نہ حرکتیں لااُبالی طور طریقے اور اپنے مخصوص انداز میں انگریزی بولنے کا انداز ہاک کو بھا گیا تھا ۔ وہ نٹ کھٹ، شریف اور ضرورت کے وقت کام آنے والا سا تھی تھا۔
ہاک نقشہ لینے جیپ میں گیا۔ اس نے جیپ کے بونٹ پر نقشہ پھیلاتے ہوئے کہا۔’’شنگ! ٹھیک ہے اب ہمیں آگے نہیں جانا۔ یہ ایک چھوٹا سا دریا ہے جو دس میل تک بالکل سیدھا بہ رہا ہے۔ اس دریا کے بالکل اوپر اس کے ساتھ ساتھ گمشدہ جہازوں نے پرواز کی تھی۔ ہم دریا کے ان کناروں کے ساتھ سفر کریں گے اور اس جگہ تک جا پہنچیں گے جہاں جہاز غائب ہوئے تھے۔‘‘
شنگ نے تعظیماً جھکتے ہوئے کہا۔’’ آپ کا سوچنے کا انداز بہت خوب ہے۔یقینا دریا کے پانی کو دیکھ کر جہاز کے انجن فیل ہو گئے ہوں گے اور انھوں نے سفرجاری رکھنے کے بجائے دریا میں نہانے کو ترجیح دی ہو گی۔‘‘
ہاک نے دور جنگل میںپھیلے ہوئے بے ترتیب بلند و بالا درختوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔’’ ہمیںوہاں جا کر تلاش کرنا چاہیے۔‘‘
’’ جناب! تو پھر تلاش کا کام پیروں کے ذریعہ سے ہوگا۔ یہاں کوئی پگڈنڈی نہیں ہے جو ہماری رہنمائی کر سکے ۔‘‘ شنگ نے یہ کہہ کر اپنی را ئفلیں اور کندھے پر لٹکانے والے بیگ جیپ سے نکالنے شروع کر دیے۔
کئی گھنٹوں میں وہ صرف تین میل کا سفر طے کر سکے۔ ہاک نے اپنے کندھے سے بیگ اتارا اور دکھتے ہوئے شانوں کو ہلانے لگا۔ سارجنٹ شنگ کی اہمیت اس کی نظروں میں اور بھی بڑھ گئی تھی۔ واقعی اگر وہ نہ ہوتا تو جنگل کا یہ سفر مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا۔ دریا بڑے زور شور سے بہ رہا تھا، لیکن زیادہ گہرا نہ تھا۔ اس نے سوچا کہ اگر یہاں کوئی جہاز گرتا تو اس کا تباہ شدہ حصہ یا کچھ ٹکڑے یا ڈھانچہ وغیرہ کچھ تو یہاں ضرور ہوتا۔ لیکن وہ جگہ تو بالکل صاف تھی۔ ابھی وہ اپنی سوچ میں گم ہی تھا کہ ایک بھیانک چیخ سے جنگل گونج اٹھا۔ ہاک ٹھٹک کر رک گیا۔ اس کی انگلی رائفل کی لبلبی پر پہنچ گئی تھی۔ اچانک ہی اس نے جھاڑیوں میں غوطہ مارا اور چیخ کی سمت میں دوڑتا چلا گیا۔ شنگ نے چیخ کر اسے متنبہ کیا۔’’ دھیان سے جناب!‘‘ مگر ہاک کو سننے کی فرصت کہاں تھی۔ وہ جھاڑیوں میں بھاگتا ہوا ایک تنگ سی پگڈنڈی پر پہنچ گیا۔ وہاں کا منظر رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی تھا۔ ایک مقامی لڑکا دہشت زدہ انداز میں زمین پر پڑا ہوا تھا۔ ایک غراتا ہوا تیندوا اس سے تھوڑے فاصلے پر ایک درخت کی شاخ پر موجود تھا۔ تیندوے نے اپنے جسم کو اکڑایا اور پچھلی ٹانگوں پر بیٹھ کر لڑکے کی طرف چھلانگ مارنے کو تیار ہو گیا۔ پلک جھکتے میں ہاک نے فائر کر دیا۔ گولی کی تیز آواز سے تیندوا دہشت زدہ ہو گیا۔ وہ ہوا ہی میں تھا کہ گولی نے اسے آلیا۔ وہ لہراتا اور بل کھاتا ہوا ایک زوردار آواز کے ساتھ اس لڑکے سے بمشکل تمام دو گز کے فاصلے پر گرا۔ ہاک نے فوراً ہی زخمی تیندوے کے جسم میں دو گولیاں اور اتار دیں۔ اس کے ساتھ ہی اس نے زقند بھری اور خوف زدہ لڑکے کو کھینچتا ہوا زخمی درندے کے خوفناک پنجوں سے دور لے گیا۔ تیندوے نے آخری مرتبہ ایک زور دار جھر جھری لی۔ اس کا جسم تڑپااور پھر زمین پر گر کر ٹھنڈا ہو گیا۔
لڑکا ہاک کے کندھے پر لدا ہوا تھا۔ وہ بہت ہلکا پھلکا ساتھا۔ ہاک نے لڑکے کو زمین پر لٹایا۔ اس کا دل دھڑک رہا تھا۔ سر میں ایک زخم تھا جس سے خون بہ رہا تھا۔ ہاک نے کہا۔’’ تیندوے نے اس کو چھواتک نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے لائفل کی گولی اُچٹ کر اسے لگ گئی ہو۔‘‘ اس نے شنگ کو دیکھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے ہاک سے نگاہیں چار ہوتے ہی دانت نہیں نکالے تھے۔ وہ بالکل چپ چاپ کھڑا تھا۔ ہاک نے شنگ سے فرسٹ ایڈ کا بکس لانے کو کہا، لیکن شنگ نے تو اپنی جگہ سے حرکت تک نہ کی بس خاموش کھڑا رہا۔ ہاک کے دوبارہ دیکھنے پر اس نے کہا:
’’ معاف کیجیے جناب! یہ کام ممکن نہیں ہے۔‘‘
ہاک حیرت اور غصے سے اُچھل کر کھڑا ہو گیا:’’ کیا مطلب ہے تمھارا؟ ‘‘وہ زور سے دھاڑا۔
’’ کچھ نہیں جناب !‘‘ اس نے مڑ کر جنگل کی طرف اشارہ کیا اور کہا۔’’ مصیبت کی گھڑی آ پہنچی ہے۔‘‘
ہاک نے تیزی سے گھوم کر چاروں طرف نظر دوڑائی۔ جنگل میں ہر درخت اور ہر جھاڑی کی آڑ سے جنگلی لوگ نکلنے شروع ہو گئے تھے۔ ان کے چہروں پر ہاک کے لیے بڑی نفرت اور حقارت تھی۔ وہ بڑی کینہ تو ز نظروں سے اسے گھور رہے تھے۔ انھوں نے آہستہ آہستہ سب طرف سے شنگ اور ہاک کو حصار میں لے لیا اور پھر اپنا دائرہ تنگ کرنا شروع کر دیا۔ شنگ نے ان لوگوں کے بگڑے ہوئے تیوروں کا مطلب ہاک کو بتاتے ہوئے کہا کہ شاید یہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ آپ نے تیندوے کے ساتھ اس لڑکے کو بھی گولی ماری ہے۔ ہاک تشویش زدہ نظروں سے زخمی لڑکے کو دیکھ رہا تھا۔ وہ بدستور بے ہوش تھا اور خون اس کے زخم سے برابر نکل رہا تھا۔ ہاک نے تڑپ کرشنگ سے کہا۔’’ ان لوگوں سے کہو کہ ہمیں فرسٹ ایڈ بکس لانے دیں ورنہ خون بہنے سے اس کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ ‘‘
شنگ نے ان کی مقامی بولی میں اپنا مدعا بیان کیا مگر ان ہیبت ناک چہروں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ہاک کو غصہ آگیا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ کچھ بھی ہو جائے مگر ہر صورت میں اس زخمی لڑکے کی جان بچانی ہے۔ وہ بڑی تیزی سے اُٹھا اور کوئی پروا کیے بغیر زخمی کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے جھک کر لڑکے کو دیکھا اور جیب سے رومال نکال کر اس کا زخم پونچھنے لگا۔
’’ جناب! ‘‘سارجنٹ شنگ کی تنبیہ کرنے والی چیخ انٹرپول کے مایہ ناز افسر کے لیے کافی تھی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھے بغیر اپنے آپ کو ایک طرف گرادیا۔ تھڈ کی آواز کے ساتھ ایک تیز دھار کا چمکیلا خنجر ہاک کے کندھے سے چند انچ کے فاصلے پر نرم مٹی میں دھنس گیا۔ ہاک بالکل بلی کے سے انداز میں اپنے پیروں پر مستعد تھا۔ اسی دوران شنگ نے جھپٹ کر رائفل اٹھائی اور ایک ہی حرکت میں اس آدمی کی طرف فائر جھونک مارا جس نے ہاک پر خنجر پھینکا تھا۔ ایک زور دار آواز کے ساتھ ہی رائفل کی نال سے گولی نکلی اور کسی کو نقصان پہنچائے بغیر اس شخص کے سر پر سے گزرگئی۔ ہوا یوں کہ جیسے ہی شنگ نے فائر کیا ،ہاک نے جست لگا کر اس کی رائفل کی نال اوپراٹھادی اور اس طرح اس مقامی آدمی کی جان بچ گئی۔
ہاک نے حکمیہ انداز میں شنگ سے کہا۔’’ سارجنٹ کسی کو جان سے نہیں مارنا ہے۔‘‘
اچانک ہی شنگ کی آنکھوں کی سختی غائب ہو گئی اور وہ بالکل پُر سکون نظر آنے لگا۔ اس نے آگے بڑھ کر زمین میں دھنسا ہوا خنجر نکالا ۔ اس کو رائفل کی نال کے درمیان رکھ کر موڑا اور اس کی دھار کو کند کر دیا۔ اب یہ ایک بے مصرف اور بے ضرر ہتھیار تھا۔ اس نے خنجر کو اس آدمی کی طرف پھینکا۔ خنجر تھڈ کی آواز کے ساتھ ہی اس آدمی کے پیروں سے چند انچ پہلے مٹی میں دھنس گیا۔ اس نے ان لوگوں کی بولی میں کہا۔’’ تم ایک ننھے منے بچے ہو۔ کسی بچے کو تیز دھار کا خنجر اپنے پاس نہیں رکھنا چاہیے۔ اس سے انگلیاں زخمی ہو جانے کا خطرہ رہتا ہے۔‘‘
چند لمحوں میں سب کچھ ہو گیا۔ شنگ اب پھر سے پہلے والا کھلنڈرا اور بات بات پر دانت نکالنے والا شنگ بن گیا تھا۔ ہاک نے اندازہ لگایا کہ لوگ اب تذبذت کا شکا ر ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کریں۔ وہ بڑے اطمینان سے بیہوش پڑے ہوئے لڑکے کی طرف گھوما۔ ایک بار پھر ایک آواز نے اسے گھومنے پر مجبور کر دیا مگر اس بار اس آواز میں کوئی وارننگ نہیں تھی۔ لمبے قدوقامت اور گٹھیلے جسم کا مالک ایک شخص آہستہ آہستہ چلا آرہا تھا۔ اس کو دیکھ کر سب جنگلی مؤدب ہو گئے۔ یہ ان لوگوں کا سردار تھا۔ اس نے اپنا ہا تھ سلام کرنے کے انداز میں اٹھا کر کہا۔’’ میرا نام تانگ ہے۔ برائے مہربانی مجھے بتائیے کہ کیا معاملہ ہے۔‘‘
اس آدمی کو صاف اور شستہ انگریزی بولتے دیکھ کر حیرت سے ہاک کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ تانگ اس کی حیرت کو سمجھتے ہوئے بولا۔’’ بہت عرصے پہلے میں برطانوی فوج میں تھا۔‘‘
چند جملوں میں ہاک نے اسے ساری کہانی سنادی۔ اس کے بعد ہاک نے کہا۔’’لڑکا کس طرح زخمی ہوا اور کتنا زخمی ہے، یہ دیکھنے کا ہمیں موقع ہی نہیں دیا گیا۔‘‘ یہ کہہ کر ہاک نے گھیرا ڈالے ہوئے لوگوں کی طرف اشارہ کیا۔ اس سے پہلے کہ تانگ کچھ بولتا شنگ نے ہاک کو آواز دے کر کہا:
’’ جناب زخمی کو ہوش آ رہا ہے۔‘‘
ہاک اور تانگ تیزی سے اُدھر لپکے۔ اُس پر نظر پڑتے ہی تانگ کے منہ سے نکلا۔’’ارے یہ تو آوا ہے۔‘‘
لڑکے کے پپوٹوں میں حرکت ہوئی ،پھر اس نے پوری آنکھیں کھول دیں۔ ایک لمحے تک تو ان چہروں کو گھورتا رہا جو اس پر جھکے ہوئے تھے۔ پھر اس کی نگاہ ہاک پر جم گئی۔ آہستہ آہستہ اسے کچھ یاد آیا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اس نے آہستہ سے کچھ کہا۔ اس کی آواز سرگوشی سے زیادہ نہ تھی۔ شنگ کے مشاق کانوں نے وہ بات سُن لی۔ اس نے ہاک سے کہا۔’’ جناب! یہ تیندوے کو مارنے اور اپنی جان بچانے پر آپ کا شکریہ ادا کر رہا ہے۔‘‘
ہاک اس کی بات پر دل کھول کر ہنسا اور شنگ سے بولا کہ ’’ اس سے کہو تمھیں گولی مارنے پر مجھے بہت دکھ ہے۔‘‘
شنگ نے یہ بات لڑکے کو بتائی تو وہ پریشان ہو گیا۔ وہ ہمت کر کے تھوڑا سا زمین سے اٹھا اور منمناتی ہوئی آواز میں تانگ سے کچھ کہنے لگا۔ جب وہ اپنی بات ختم کر چکا تو تانگ ہاک کی طرف گھوما۔ اس کے ہونٹوں پر بڑی دلفریب مسکراہٹ تھی۔ اس نے ہاک کو بتایا:
’’ لڑکا کہتا ہے کہ تم نے اسے نہیں مارا ہے۔ جب تم نے اس کو زخمی تیندوے کے پنجوں سے بچانے کے لیے گھسیٹا تو راستے میں کسی اُبھری ہوئی چیز سے اس کا سر ٹکرا گیا تھا۔ ہو سکتا ہے وہ جھاڑیوں میں اُگی ہوئی کوئی سخت شاخ ہو۔‘‘
اس کے بعد تو ہاک اورشنگ کی زبر دست خاطر تواضع کی گئی۔ اب وہ ان کے واجب الاحترام مہمان تھے۔ تانگ اصرار کر کے انھیں اپنے ساتھ اپنے گا ئوں لے گیا تاکہ تیندوے کی موت پر منائے جانے والے جشن میں انھیں شرکت کروائے۔ تانگ سے ہی ہاک کو یہ بھی پتا چلا کہ اس آدم خور تیندوے نے پچھلے کئی ہفتوں سے اس علاقے میں دہشت مچارکھی تھی اور کئی انسانی جانیں لے چکا تھا۔
(۵)
اگلی صبح شنگ بہت زیادہ خوش نظر آ رہا تھا۔ اس نے چہکتے ہوئے ہاک سے کہا۔’’جناب! مزہ آ گیا۔ بڑا اچھا وقت گزرا ہے آپ کا۔‘‘ اس کے بعد اس نے اپنے بیگ کو کندھے پر اٹھایا تو اس کے منہ سے بیساختہ ایک کراہ نکل گئی۔ ہاک نے اس کو غور سے دیکھا اور پھر اسی کے انداز میں دانت نکال دیے۔ وہ اس کی انوکھی انگریزی کی نقل کرتے ہوئے بولا۔’’ واقعی سارجنٹ! تمھارا بھی تو اچھا وقت گزرا ہے۔‘‘
شنگ اپنے پیٹ پر بے چینی سے ہاتھ پھیر رہا تھا، ہاک سے بولا۔’’ جناب! جب کوئی کھانا کھاتا ہے تو کتنا اچھا لگتا ہے لیکن اس کے بعد کا وقت بڑا دردناک کا ہوتا ہے ۔‘‘
وہ دونوں اب تانگ کے گا ئوں سے رخصت ہونے کی تیاری کر رہے تھے۔ تیندوے کی موت پر منایا جانے والا جشن سارجنٹ کی توقعات سے بڑھ کر ثابت ہوا۔ اس نے اس جشن میں بڑے پر جوش انداز میں اور بڑی سرگرمی سے حصہ لیا تھا۔ اتنے میں قبیلے کے چند معززین کے ساتھ تانگ وہاں آگیا۔ اس نے ہاک سے کہا:
’’ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ تمھاری مددضرور کریں گے۔ اس سے ہمیں بڑی خوشی ہوگی۔ ‘‘
سارجنٹ شنگ نے ماتھے پر بل ڈال کر ہاک کو دیکھا۔ ہاک نے اس کو بتایا کہ میں نے گمشدہ جہازوں کی تلاش میں تانگ سے مدد کی درخواست کی ہے۔ دو آدمیوں کے تلاش کرنے سے یہ زیادہ بہتر ہے کہ بہت سے لوگ اس کام میں مصروف ہو جائیں۔
تانگ نے بیچ میں بولتے ہوئے کہا ۔’’میں نے دریا کے کنارے کے ساتھ ساتھ واقع تمام دیہات میں اپنے ہر کارے دوڑا دیے ہیں اور انھیں اچھی طرح سمجھا دیاہے کہ ہمیں کس چیز کی تلاش ہے۔‘‘
ہاک نے نقشہ نکال کر تانگ کے سامنے پھیلا دیا اور اس میں بنائے ہوئے دائرے پر انگلی رکھتے ہوئے کہا ۔’’ یہ وہ علاقہ ہے جس کی مجھے تلاش ہے۔‘‘
تانگ نے سنجیدگی سے کہا۔’’اگر وہ جہاز اس جنگل میں کہیں موجود ہیں تو ہم انھیں ضرور ڈھونڈ نکالیں گے۔ میرے آدمی تیندوا مارنے پر آپ کا شکریہ بھی تو ادا کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
دو دن بعد تانگ کے گائوں کے قریب ایک چھوٹی سی ہموار جگہ میں ایک ہیلی کاپٹرا ترا۔ اس میں سے کیپٹن یومن باہر آیا جہاں اس کے استقبال کے لیے ہاک اور شنگ موجود تھے۔ تھوڑی دیر تک وہ تینوں ہیلی کا پٹر کے گردش کرتے ہوئے پنکھوں کی ہوا میں خاموش کھڑے ایک دوسرے کو تکتے رہے۔ اس کے بعد یو من نے ہاک کے ریڈیائی پیغام کو دہراتے ہوئے ہیلی کاپٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’ ہیلی کاپٹر کی فوری ضرورت ہے ،گمشدہ جہاز کا پتا چل گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ میں بالکل ٹھیک جگہ پر آ گیا ہوں۔ جہاز کہاں ہے ؟‘‘ اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔
ہاک نے جواب دیا۔ تانگ کے آدمیوں کے کہنے کے مطابق یہاں سے آٹھ میل دور جنوب مغرب میں چلو جلدی کرو ۔ہم ایک نظر دیکھ لیں۔‘‘ ہاک بڑی تیزی سے ہیلی کا پٹر کی طرف جھپٹا۔ باقی لوگ بھی اس کے پیچھے چل دیے۔ دس منٹ بعد وہ اس علاقے کے گرد منڈلا رہے تھے جہاں کے لیے تانگ نے ہاک کے نقشے پر نشان لگایا تھا۔
’’ وہ دیکھو۔‘‘ دائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے ہاک زور سے چیخا۔ ہیلی کا پٹر غوطہ لگا کر اس کی طرف گھوم گیا۔ یہاں درختوں کی چوٹیوں کے درمیان اتنی جگہ تھی جہاں سے گزر کر جہاز بہ آسانی نیچے جا سکتے تھے۔ اس جگہ کے بالکل نیچے ایک مسطح سامیدان دکھائی دے رہا تھا۔ شاید یہی وہ جگہ تھی جس کی انھیں تلاش تھی۔ جیسے ہی ہیلی کا پٹرنے زمین کو چھوا، ہاک ایک چھلانگ لگا کر باہر نکلا اور ہیلی کا پٹر کے گردش کرتے ہوئے پنکھوں کے نیچے کھڑا ہو گیا۔ اس نے پائلٹ کو ہیلی کاپٹر کے انجن بند کرنے کا اشارہ دیا اور خود کھلے میدان کے لمبے اور تنگ پھیلائو کا بغور جائزہ لینے لگا۔ ہیلی کاپٹر سے یو من اور شنگ بھی اتر کر ہاک کے پاس آکھڑے ہوئے۔ اس نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔’’ کوئی بھی ماہر پائلٹ ایک چھوٹے سے ہوائی جہاز کو یہاں آسانی سے اُتار سکتا ہے۔‘‘
’’ بے شک اُتار سکتا ہے۔ لیکن کیا کسی نے اُتارا ہے ؟‘‘ یو من نے لق و دق علاقے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
سارجنٹ شنگ بھی بڑے چوکنا انداز میں ہر طرف دیکھ رہا تھا۔ اچانک اس کی عقابی نگاہوں میں وہ جگہ بہت جلد آگئی۔ اس مسطح میدان کے دوسرے کنارے پر موٹی موٹی اور اُلجھی ہوئی شاخوں کے درمیان ایک غیر قدرتی سانشان تھا۔ شنگ نے ہاک کی توجہ اس نشان کی طرف مبذول کراتے ہوئے کہا۔’’ جناب! سامنے دیکھے۔ کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے جو مجھے کھٹک رہی ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اس طرف دور تا چلا گیا۔ ہاک اور یومن اس کے پیچھے پیچھے تھے۔ یو من نے ہانپتے ہوئے ایک جگہ پہنچ کر دیکھا کہ وہاں جال لگا ہوا ہے۔ ہاک بھی اس کے پیچھے آپہنچا۔
’’ بہت خوب۔‘‘ کہہ کر ہاک نے بڑی تیزی سے جال کاٹنا شروع کر دیا۔ اچانک وہ رک گیا اور یو من سے بولا۔’’ تانگ کے آدمی دھو کا کھا گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک جہاز تلاش کر چکے ہیں جب کہ یہاں تینوں موجود ہیں۔‘‘
تھوڑی دیر میں جال کٹ گیا۔ سامنے ہی بلند و بالا درختوں کے جھنڈ میں تینوں جہاز بڑے قرینے سے ایک قطار میں بالکل درست حالت میں موجود تھے۔ ہاک نے تینوں جہازوں کا مکمل جائزہ لیا اور یومن کے پاس جاکر پر خیال انداز میں بولا۔’’ سب درست حالت میں ہیں۔ کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ تمام کنٹرول صحیح ہیں۔ پیٹرول کی سوئیاں اب بھی تین چوتھائی ٹنکی فل بتا رہی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس چیز نے انھیں نیچے اُترنے پر مجبور کر دیا۔ اور وہ بھی ایک ہی جگہ۔ آخر کیوں؟‘‘
’’ دس ہزار پاؤنڈ کے ناتراشیدہ ہیرے سب کچھ کروا سکتے ہیں ۔‘‘ کیپٹن یومن کا لہجہ بڑا سخت تھا۔
ہاک نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔’’ اس کا مطلب یہ ہے کہ پائلٹ مجرم ہیں۔ لیکن انھوں نے اس کام کے لیے اس قسم کی جگہ کا انتخاب کیوں کیا؟ میرے خیال میں اس جگہ سے بہتر یہاں ایسی سیکڑوں جگہیں ہوں گی جہاں وہ یہ سارا کام زیادہ آسانی سے کر سکتے ہیں۔ ‘‘ اس کی پیشانی پر لکیروں کا جال بچھ گیا۔
اچانک جھاڑیوں میں سرسراہٹ ہوئی۔ ان دونوں نے چوکنا انداز میں ادھر دیکھا۔ ہلتی ہوئی جھاڑیوں میں سے شنگ کا چہرا ابھرا۔ اس کے کندھے پر شکار کیا ہوا جانور لٹک رہا تھا۔ ان کو دیکھ کر اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’ آپ لوگ یہاں غور وفکر میں مصروف تھے، میں نے سوچا کہ کیوں نہ کچھ شکار کر لیا جائے۔ جھیل بالکل نزدیک ہی ہے۔ وہاں شکار بڑی وافر مقدار میں ملتا ہے ۔‘‘
ہاک مسکراتے ہوئے بولا ۔’’سارجنٹ! بے شک سوچنے کے لیے کھانے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اس وقت مجھے اس اہم ترین مسئلہ کی بھوک ہے، یہ حل ہو جائے تو میرا پیٹ بھر جائے گا ۔‘‘ ہاک کی نگاہیں تینوں جہازوں پر گڑی ہوئی تھیں۔ اچانک ہی اس نے مڑ کر کیپٹن یو من سے کہا۔’’ میرے خیال میں شنگ کو یہاں رک کر ان جہازوں کی نگرانی کرنی چاہیے۔ میں رنگون جا کر ایورن چارٹر کمپنی کی چھان بین کروں گا۔‘‘
کیپٹن یو من نے آمادگی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔’’ سارجنٹ کے لیے ضرورت کا سامان اور دوسری چیزیں پھینکوا دوں گا۔‘‘
(۶)
ایک بار پھر یومن کے دفتر میں ہاک اسی کرسی پر بیٹھا ہوا چھت میں گھومنے والے سست رفتار پنکھے کو اپنی ادھ کھلی نگاہوں سے گھور رہا تھا، ایورن کمپنی کی چھان بین میں اسے مایوسی ہوئی تھی۔ تینوں گم شدہ پائلٹوں کے ریکارڈ اور دیگر حوالہ جات بہترین تھے۔ خود کمپنی کی بھی بڑی اچھی ساکھ تھی۔ حقائق پر اس کا ذہن برا بر دوڑ رہا تھا۔ اس کے ذہن میں ایک گرہ سی تھی۔ اس کا دل کہتا تھا کہ وہ تینوں جہاز حادثاتی طور پر وہاں نہیں اترے ہیں بلکہ ان کی باقاعدہ وہاں تک رہنمائی کی گئی ہے۔ لیکن کس طرح؟ اس کا جواب شاید ’’ریڈیو‘‘ تھا۔
اچانک ہی ہاک تیزی سے کرسی سے اٹھا اور بولا۔’’ جلدی آؤ ۔‘‘
یو من نے لپک کر ہیٹ اٹھایا اور اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے بولا۔’’اب کہاں جا رہے ہو؟‘‘
’’ پیٹوک مائن میں ریڈیو آپریٹر سے بات کرنا چاہتا ہوں ۔‘‘ ہاک نے چلتے چلتے جواب دیا۔
پیٹر رو پر نے ان دونوں پولیس افسروں کو بتایا کہ پائلٹوں نے ہر مرتبہ غائب ہونے سے پندرہ منٹ پہلے ہم سے رابطہ قائم کیا تھا۔ یہ ہمارا مستقل طریق کا رتھا۔ ہاک نے کچھ جھنجھلاتے ہوئے کہا ۔’’ کیا تمھیں یقین ہے کہ تم سب کچھ بتا چکے ہو؟ کچھ رہ تو نہیں گیا ہے؟‘‘
’’جی ہاں، بالکل۔ البتہ یہ بات الگ ہے کہ انھوں نے کوئی غیر معمولی بات دیکھی ہو اور ہمیں اطلاع نہ دی ہو، لیکن حیرت ہے اگر ایسا واقعہ ہر مرتبہ ایسا ہوا ہو۔‘‘
ہاک نے حاکمانہ انداز سے کہا۔’’ مجھے ان تینوں کے آخری الفاظ بتاؤ جو انھوں نے رابطہ ختم ہونے سے پندرہ منٹ پہلے تم سے کہے تھے۔‘‘
’’ٹھہر و!‘‘ تینوں آدمی یہ گرجدار آواز سن کر مڑے۔ یوپ ولیمس دروازے میں کھڑا ہوا ہاک کو غصے کی نگاہوں سے گھور رہا تھا۔ پوپ ہاک سے بولا۔’’تم چاہے پیٹر پر کتنی ہی سختی کر لو، یہ وہی کچھ بتائے گا جو یہ جانتا ہے۔ ہاں جس وقت تینوں جہازوں سے رابطہ ختم ہوا، اس وقت تینوں مرتبہ اتفاق سے میں خود سیٹ کے پاس موجود تھا۔ ان تینوں نے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔ میری بات پر یقین کرو۔‘‘
ہاک نے بڑے اطمینان سے ولیمس کا شکر یہ ادا کیا۔ ہاک کی آنکھوں میں عجیب سی چمک پیدا ہو گئی تھی۔ شاید وہ کچھ کچھ سمجھ گیا تھا۔’’ دو سوال اور۔ آپ نے حال ہی میں اس قدر قیمتی چیزیں یہاں سے کیوں بھیجنی شروع کی ہیں؟ ‘‘ہاک نے بڑی سنجیدگی سے پوپ سے پوچھا۔
پوپ نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا۔’’تا کہ اپنے کان کنی کے کام کو جاری رکھ سکوں۔ میری تمام مشینری فرسودہ ہو چکی ہے۔ میں ان سب کو تبدیل کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے جدید مشینری پلانٹ کی فوری ضرورت ہے اور اس سب کام کو کرنے کے لیے روپے کی ضرورت تو ہوگی۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے۔‘‘
ہاک نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔’’ بالکل سمجھ گیا۔ ہاں یہ بتائیے کہ آپ نے یہ قیمتی جواہرات یہاں میرا مطلب ہے سائٹ پر کیوں رکھے ہے اس کی کوئی خاص وجہ؟ میرے خیال میں یہ کسی بینک میں زیادہ محفوظ رہتے ۔‘‘
ولیمس نے دانت نکالتے ہوئے کہا، ’’ اسے ہماری عادت سمجھ لو۔ فرینک اور مجھ جیسے بوڑھے لوگ بینک سے زیادہ واقف نہیں، اور نہ ہم نے پہلے کبھی بینک استعمال کیا تھا۔‘‘
’’ فرینک؟ ‘‘ہاک نے آگے جھکتے ہوئے پوچھا۔
پوپ نے دیوار پر ٹرانسمیٹر کے نزدیک ٹنگی ہوئی ایک تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔’’ فرینک پورٹر 20 سال سے میرا پارٹنر تھا۔ افسوس! چار ماہ پہلے وہ مر گیا۔‘‘
ہاک نے تصویر کا گہری نظر سے جائزہ لیا۔ یہ ایک بوڑھا آدمی تھا جس کا رنگ خاکستری تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں مچھلی کا شکار کرنے والی لمبی ڈنڈی اور دوسرے ہاتھ میں اس کی ڈور تھی۔ تصویر کے ایک کونے میں مٹی مٹی سی سیاہی سے گھسیٹ انداز میں مقام کا نام اور تاریخ بھی لکھی ہوئی تھی۔
پوپ ولیمس نے اپنے حافظے پر زور دیتے ہوئے کہا ۔’’یہ تصویر کوئی پانچ برس پہلے کی ہے ۔‘‘
ہاک نے سر ہلاتے ہوئے کہا ۔’’ غالباً انھیں مچھلی کے شکار کا بہت شوق تھا۔ شکریہ مسٹر ولیمس۔ میرا خیال ہے مجھے آپ سے جو کچھ معلوم کرنا تھا وہ آپ نے مجھے بتا دیا ہے ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر چلا گیا۔ کیبن سے باہر نکلتے ہی ہاک نے یو من کا باز وپکڑ کر ایک طرف گھسیٹتے ہوئے سرگوشی کے سے انداز میں کہا۔’’ کیپٹن! ولیمس پر نگاہ رکھنا۔ یہ تمھاری نظروں سے اوجھل نہ ہونے پائے۔ اس کو اس بات کا بھی علم نہیں ہونا چاہیے کہ ہم نے گمشدہ جہازوں کا پتا لگا لیا ہے۔‘‘
حیران پریشان یومن جلدی سے سر ہلا کر بولا۔’’کیا تمھیں اس بات کا یقین ہے کہ جو کچھ تم کر رہے ہو وہ حقیقت میں ہے بھی؟‘‘
ہاک نے تیزی سے جواب دیا۔’’ مجھے کسی حد تک سراغ مل گیا ہے۔‘‘
یومن نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔’’ اب کیا کرو گے؟‘‘
’’ اب مجھے ایک مردہ اور تین زندہ آدمیوں کی تلاش ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ہاک مڑا اور پیٹوک مائن کی ہوائی پٹی کی طرف روانہ ہو گیا۔ سارجنٹ شنگ ہاک کو دیکھ رہا تھا۔ تجسس سے اس کا برا حال تھا۔ ہاک نے ایک جگہ رک کر ایک درخت سے مضبوط ٹہنی توڑی اور اس ٹہنی کو لے کر جہازوں کی طرف چل پڑا۔ شنگ پیچھے پیچھے چلتے ہوئے بولا۔’’ جناب! آخر آپ کیا کرناچاہتے ہیں؟ مجھے بھی تو کچھ بتائیے۔‘‘
ہاک نے مسکراتے ہوئے جہاز کی پیٹرول کی ٹنکی میں ٹہنی ڈالی اور جب باہر نکالی تو سو کھی تھی۔ اس نے باری باری تینوں جہازوں کو چیک کیا۔ تینوں مرتبہ ٹہنی سوکھی ہی نکلی۔
’’یہ ہے وہ وجہ جس نے جہازوں کو نیچے اترنے پر مجبور کر دیا۔ ذرا پیٹرول کی ٹنکی والی سوئی کو دیکھو۔ اس میں اب بھی تین چوتھائی فل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اصل میں پیٹرول ظاہر کرنے والی ان سوئیوں کو جام کر دیا گیا تھا۔ ٹنکی میں پٹرول کی ایک بوند بھی نہیں ہے۔ اِن اطراف میں میلوں تک یہ وہ واحد مقام ہے جہاں جہاز اتر سکتا تھا۔ کسی کو اس بات کا علم تھا کہ اس میں کتنا پیٹرول ڈالا جائے گا تا کہ ایک مخصوص مقام پر پہنچ کر اس کے انجن کام کرنا بند کر دیں۔ اس کے بعد وہ ان سے ریڈیو پر رابطہ قائم کرتا تھا۔ بعد کا ڈراما آپ کو سب معلوم ہے۔ ‘‘
’’ مگر یہ سب کام کون کر رہا تھا جناب!‘‘ شنگ اس کی بات کو سمجھتے ہوئے بولا۔
’’پیٹوک مائن کا مالک اور اس کا ایک مردہ ساتھی۔‘‘ ہاک نے کہا۔’’ آؤ چلیں۔ اب مجھے پہلے شخص کی تلاش ہے جو مر چکا ہے اور مجھے اندازہ ہے کہ اس سے کہاں ملاقات ہو سکتی ہے۔ جھیل کے کنارے کے ساتھ ساتھ۔‘‘
جھیل کے کنارے کے ساتھ وہ دونوں تقریباً تین میل چل چکے تھے۔ اچانک شنگ ٹھٹک کر کھڑا ہو گیا۔ ہاک نے اُسے آرام سے ایک طرف کیا اور خود آگے بڑھ کر دیکھا ،سامنے دو گھنے اور بالکل گنجان درختوں کے نیچے ایک چھوٹی سی جھونپڑی نظر آ رہی تھی۔ اس کے تین طرف گھنے درخت اور جھاڑیاں تھیں۔ اس کو صرف ایک ہی طرف سے دیکھا جا سکتا تھا ورنہ سب طرف سے بالکل ڈھکی ہوئی تھی۔
اچانک فائر کی آواز سے جنگل گونج اُٹھا۔ دونوں نے چھلانگ مار کر اپنے آپ کو بچایا۔ گولی ہاک کے سر کے بالکل قریب درخت کے تنے سے ٹکرائی تھی۔ ہاک کی رگوں میں گویا پارہ بھر گیا۔ اُس نے شنگ کو حکم دیا۔’’ جھونپڑی کی طرف مسلسل فائر کر کے اُسے اُلجھائے رکھو۔ اتنی دیر میں میں صحیح پوزیشن لے لوں گا۔ اس کے بعد کوشش کرنا کہ وہ کسی طرح جھونپڑی کے دروازے پر آ جائے۔‘‘یہ کہہ کر ہاک جھاڑیوں میں بے آواز رینگ گیا۔ اس کے بعد والے لمحات شنگ کے لیے بڑے پر مسرت تھے۔ وہ اپنی پوزیشن بدل بدل کر فائر کر رہا تھا۔ اس میں اس کو بڑامزہ آ رہا تھا۔
اچانک ہی جھو نپڑی کے نزدیک ایک درخت کے پتوں میں حرکت پیدا ہوئی۔ شنگ نے دیکھا کہ دس فٹ بلند درخت کی ایک شاخ پر ہاک موجود تھا۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر شنگ کو اشارہ کیا۔ شنگ نے اپنے جھاڑی والے ہیٹ کو رائفل کی نال پر رکھ کر اوپر اٹھا دیا۔ یہ گویا اگلا فائر کرنے کی دعوت تھی۔ فائر ہوا۔ اس کے ہاتھ میں زبر دست جھٹکا لگا وہ چند لمحوں تک لڑھکتا چلا گیا۔ اچانک وہ کھڑا ہوا اور بغیر سوچے سمجھے جھو نپڑی کی طرف بھاگنے لگا۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔’’ مجھے مت مارو ۔مجھے مت مارو ۔‘‘دروازے کے سامنے پہنچ کر اس نے رائفل زمین پر پھینک دی اور ہاتھ بلند کر کے کھڑا ہو گیا۔ سیاہ وسفید بالوں والا ایک شخص جس کے چہرے اور آنکھوں سے سفاکی ٹپک رہی تھی ۔جھ نپڑی سے باہر آیا۔ اس کے ہاتھ میں رائفل تھی جس کی نال کا رخ شنگ کی طرف تھا۔ اس نے شنگ سے غراتی ہوئی آوازمیں پوچھا ۔’’کون ہو تم ؟‘‘
’’ شنگ اپنے ہاتھ اٹھائے اٹھائے آگے بڑھتے ہوئے بولا۔’’ جناب میں سارجنٹ شنگ ہوں۔ مجھ پر رحم کریں جناب!‘‘ اس کی آواز حلق سے نہیں نکل پا رہی تھی۔ آدمی نے اسے بڑی حقارت اور نفرت سے دیکھتے ہوئے کہا:
’’اوہ! تو وہ تم ہو جس کی مجھے تلاش تھی۔‘‘
اس نے را ئفل کی لبلبی پر انگلی رکھی ہی تھی کہ ہاک اس درخت سے کسی عقاب کی طرح اُڑتا ہوا اُس آدمی پر آ گرا۔ اتنی بلندی سے اس پر چھلانگ لگانے سے آدمی زمین پر گر کر بے بس ہو گیا۔ ہاک نے شنگ کی رائفل اٹھا کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔’’بہت خوب شنگ! تم نے تو کمال کر دیا۔ مگر تمھیں اتنا زیادہ خطرہ نہیں مول لینا چاہیے تھا۔‘‘
’’ جناب! اس کی توجہ مکمل طور پر اپنی طرف مبذول کرانے کے لیے اس سے بہترین طریقہ شاید کوئی نہ تھا۔‘‘ شنگ نے اپنا سر جھکاتے ہوئے کہا۔ اس نے زمین پرپڑے ہوئے آدمی کو دیکھ کر کہا۔’’ جناب! جہازوں کو غائب کرنے والا بھوت یہی ہے؟‘‘
ہاک نے کہا۔’’ ہاں، یہی ہے۔ سرکاری طور پر یہ چار ماہ پہلے مرچکا ہے۔ اس کا نام فرینک پورٹر ہے۔ اب ذرا دوسروں کو بھی تلاش کر لیں۔‘‘
ہاک جھو نپڑی کے اندر داخل ہو گیا اور جب واپس آیا تو اس کے ساتھ تینوںگم شدہ جہازوں کے پائلٹ تھے۔ وہ بری طرح لڑکھڑا رہے تھے۔ اندھیرے میںسے نکل کر اچانک سورج کی روشنی میں آجانے کی وجہ سے ان کی آنکھیں نہیںکھل پا رہی تھیں۔ یہ منظر دیکھ کر شنگ کی با نچھیں کھل گئیں۔
(۷)
پوپ ولیمس بڑی کھا جانے والی نظروں سے ہاک کو گھور رہا تھا۔ کیپٹن یومن نے قانونی طور پر اس کو اور اس کے تمام ساتھیوں کو حراست میں لے لیا تھا ۔ان سب کو ریڈیو والے کیبن میں قید کر رکھا گیا تھا۔ اب رنگون سے آنے والے جہاز کا انتظارتھا تا کہ ان سب کو یہاں سے لے جایا جائے۔
پوپ نے بڑے تلخ انداز میں ہاک سے پوچھا۔’’ ہم سے کیا غلطی ہوگئی تھی انسپکٹر؟‘‘
ہاک نے پورٹر کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔’’ مجھے اس تصویر سے رہنمائی ملی ہے۔ آکو جھیل ۔1955 ء‘‘
پوپ نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔’’ افسوس! اس معمولی سی غلطی کی وجہ سے ہم تمھارے ہاتھوں پھنس گئے۔ بیس سال کی سخت محنت اور مشقت کے بعد مجھے اور پورٹر کو بہت ساری دولت مل جاتی۔ ہم انشورنس کمپنی سے جہازوں کے ذریعہ سے بھیجے گئے جواہرات کی رقم بھی وصول کرتے، جہاز بھی ہمارے قبضے میں ہماری ملکیت ہو جاتے اور ہم صرف دوماہ میں ان ذریعوں سے حاصل کی ہوئی رقم کوتگنا کر لیتے۔‘‘
’’ دھوکا دہی سے۔‘‘ کیپٹن یو من دانت پیستے ہوئے بولا۔
یکا یک فضا میں ہوائی جہاز کا شور سنائی دیا۔ یومن کھڑکی میں جاکھڑا ہوا۔ رنگون سے جہاز آپہنچا تھا۔
یو من نے کہا ۔’’چلیے دولہا میاں! آپ کی برات تیار ہے اور براتی بھی ہیں اور دولہا میاں کے لیے سواری بھی آگئی ہے۔‘‘
ہاک نے شرارت سے کہا۔’’ اس بار جہاز میں ایندھن میں اپنے سامنے بھرواؤں گا۔‘‘
Facebook Comments