ہیرو
عبدالرشید فاروقی
۔۔۔۔۔۔۔
سمیرکو کتابیں سمیٹتے دیکھ کر پاکیزہ نے منہ بنایا اور بولی:
”یہ کیا،آپ تو کتابیں بیگ میں ڈال رہے ہیں!“
”اور کیا کروں، سمیر نے اس سے بھی زیادہ بر ا سا منہ بنایا۔“
”آپ نے ہوم ورک تو مکمل کیا نہیں…اور۔“
”بعد میں مکمل کر لوں گا، کھیلنے کا وقت ہوگیا ہے، اس لیے میں جا رہا ہوں۔“ سمیر نے اُٹھتے ہوئے کہا۔
”لیکن بھائی! کام کو اُدھورا نہیں چھوڑنا چاہیے، اگر آپ ہوم ورک مکمل کر لیں تو بہتر ہوگا۔“
”اپنی نصیحتیں، اپنے پاس رکھو، میں تو چلا۔“ سمیر نے تیز لہجے میں کہا اور کمرے سے نکل گیا۔
پاکیز ہ نے اپنا ہوم ورک مکمل کیا ہی تھا کہ امی اس کے پاس چلی آئیں۔ وہ سمیر کو کمرے میں نہ پا کر حیران رہ گئیں:
”پاکیزہ! یہ سمیر کہاں چلا گیا؟“
”بھائی اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے گیا ہے۔“
”کیا اس نے ہوم ورک مکمل کرلیا تھا؟“
”جی نہیں…“ پاکیزہ نے آہستہ سے کہا اور کمرے سے نکل گئی۔
O
اُسے سرجھکائے دیکھ کر انہوں نے اُس کے گال پر چٹکی لی اور بولیں:
”کیا بات ہے، یوں کیوں بیٹھے ہو؟“
سمیر نے سر اٹھا کر ایک نظر امی کو دیکھا اور پھر سر جھکا لیا۔ یہ دیکھ کر وہ تڑپ اُٹھیں:
”بیٹے! کیا بات ہے، سکول میں کوئی بات ہوئی ہے یا کسی دوست نے آج پھر کچھ کہا ہے۔“
وہ انہیں دیکھنے لگا اور پھر اس کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو نکل کر گالوں پر پھیل گئے۔ امی بے چین ہوگئیں:
”کیا ہوا میرے چاند کو…؟“
”وہ…وہ امی جان…“ سمیر بات پوری نہ کر سکا۔
”وہ کیا بیٹے…کیا ہوا…یہ تمہاری آنکھوں میں آنسو کیسے؟“
”امی جان! میں…میں ایسا کیوں ہوں۔“ سمیرنے بمشکل جملہ مکمل کیا۔
”کیسا…کیسے ہو تم؟“
اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کی آنکھیں اب مسلسل موتی گر ا رہی تھیں۔ اس کے آنسو امی کی بے چینی میں اضافے کا سبب بن رہے تھے۔ وہ ٹکر ٹکر اسے دیکھنے لگیں۔
”امی جان! وہ میرا دوست خالد ریاض ہے نا۔“
”کیا ہوا اُسے؟“
”اسے تو کچھ نہیں ہوا، امی…“
”تو پھر…“ انہوں نے جلدی سے پوچھا۔
”مجھ سے کچھ نہیں ہوتا ہے…“ سمیر نے بجھے بجھے لہجے میں کہا۔
”کیا مطلب…کیا نہیں ہوتا تم سے۔“
”امی! میں کسی کام کا نہیں ہوں…بالکل نکما ہوں۔“
”نکمے ہو…پہیلیاں کیوں بجھوا رہے ہو، صاف صاف کہو، کیا بات ہے؟“
”خالد ریاض نے آج پھر مجھے ہرا دیا ہے…وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی مجھ سے جیت گیاہے۔“ اس کے لہجے میں دُکھ امی نے صاف محسوس کیا۔بیٹے کی بات سن کر وہ چند لمحے خاموش رہیں، پھر کہنے لگیں:
”اگر تم ہمت، حوصلے سے کام لو تو اس سے جیت سکتے ہو۔ بیٹے! دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو زندگی کے ہر موڑ پر ہمت، جرات، بہادری اور حوصلے سے کام لیتے ہیں۔ ہمت ہارنے والے افراد کبھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتے…“
”میں بہت کوشش کرتا ہوں، اس سے جیت جاؤں لیکن وہ ہر جگہ اور ہمیشہ مجھ سے بازی لے جاتا ہے۔“ سمیر نے کہا۔ اس کے لہجے سے مایوسی صاف عیاں تھی۔
”بیٹے! خالد ریاض تم سے عمر میں بڑا ہرگز نہیں ہے، پھر وہ ہمیشہ تم سے جیت کیوں جاتا ہے۔ حالانکہ تم اچھی بلے بازی کر لیتے ہو۔“ وہ مسکرائیں۔
”بالکل…میرے دوسرے دوست بھی یہی بات کہتے ہیں، میری بلے بازی خالد ریاض سے اچھی ہے، لیکن…“ سمیر نے برا سا منہ بنایا۔جواب میں امی نے کچھ نہ کہا اور خاموشی سے باورچی خانے کی طرف بڑھ گئیں جب کہ قریب ہی بیٹھے سمیر کے ابا جان، ماں بیٹے کی گفتگو سن کر مسکرانے لگے۔
O
زویبہ کے رونے کی آواز سن کر وہ دوڑ کر کمرے میں پہنچیں تو دیکھا۔ سمیر اس کے بسکٹ اُٹھا کر کھا رہا تھا۔ ننھی زویبہ سے یہ زیادتی برداشت نہ ہوسکی، اس لیے وہ رونے لگی تھی۔امی کو دیکھ کر سمیر جلدی سے اُٹھا اور چارپائی پر جا کر بیٹھ گیا۔ انہوں نے اسے تیز نظروں سے گھورا:
”بڑے بھائی تو چھوٹی بہنوں کا خیال رکھتے ہیں…ایک تم ہو کہ۔“
”امی جان! بھوک لگ رہی تھی، اس لیے زویبہ کے بسکٹ کھانے لگا تھا۔“ اس نے آہستہ سے کہا۔
”بھوک لگ رہی تھی تو مجھ سے کہتے…تمہیں کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ تو میں دے ہی دیتی۔ ارے! تم کب سدھرو گے۔“ امی نے غصے سے کہا اور زویبہ کو اُٹھا کر کمرے سے نکل گئیں جب کہ وہ برے برے منہ بنانے لگا۔
O
”25دسمبر کو تمہاری سال گرہ ہے، کیا تم اس بار مجھے بلاؤ گے۔“ خالد ریاض نے سمیر کے کندھے پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
”ہاں، کیوں نہیں…میں تمہیں ضرور بلاؤں گا، اس کے باوجود کہ تم مجھے بلے بازی میں ہمیشہ ہرا دیتے ہو۔ کپتان کی نظروں میں تم ہیرو ہو اور میں زیرو…کیوں کپتان صاحب؟“ سمیر نے مسکراتے ہوئے امجد کی طرف دیکھا۔ وہ ان کے ٹیم کا کپتان تھا۔
”اس میں شک نہیں، خالد ریاض آج کل تم سے اچھی بلے بازی کر رہا تھا۔ تم تو ان دنوں شاہد خان آفریدی بنے ہوئے ہو۔جس طرح وہ بار بار بلے بازی میں فیل ہو رہا ہے، اسی طرح تم بھی ناکام جا رہے ہو…یہ یقینا ہیرو ہے۔“ امجد نے کہا۔
”اور ہیرو لوگ با ہمت اور با حوصلہ ہوتے ہیں…اور تم رہے کم ہمت…ہمت تو تم میں نام کو بھی نہیں ہے…کیوں دوستو؟“ خالد ریاض نے کہا تو سبھی ہنسنے لگے جب کہ سمیر برے برے منہ بنانے لگا۔
O
سبھی ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے کہ ایسے میں سمیر نے اعلان کرنے والے انداز میں کہا:
”ابا جان! میں نے ایک فیصلہ کیا ہے۔“
”شکر ہے…تم نے بھی کوئی فیصلہ کیا، ورنہ…“ امی نے مسکرا کر کہا تو ابا جان نے گھور کر ان کی طرف دیکھا:
”بیگم! آپ ذرا خاموش رہیں۔ مجھے بات کرنے دیں۔ ہاں تو بیٹا! تم نے کیا فیصلہ کیا ہے؟“ وہ سمیر کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولے۔
”میں نے فیصلہ کیا ہے، اس بار اپنی سال گرہ کے ساتھ ساتھ میں قائد اعظم محمد علی جناح کی سال گرہ بھی مناؤں گا۔“
”کیا مطلب؟“ انہوں نے کہا۔
”مطلب یہ کہ اس سال 25دسمبر کو میں اپنی سال گرہ کے ساتھ ساتھ قائد اعظم کی سال گرہ بھی مناؤں گا۔“ سمیر مسکرایا۔
”اور آپ ہمارا ساتھ دیں۔“ پاکیزہ نے جلدی سے کہا۔
”گویا 25دسمبر کو ہم سب مل کر سمیر اور قائد اعظم محمد علی جناح کی سال گرہ منائیں گے۔“
”بالکل۔“ سمیر نے خوش ہو کر کہا۔
”لیکن اس بار میرا رادہ ذرا مختلف ہے۔“ ابا جان کے چہرے پر نمودار ہونے والی مسکراہٹ کو دیکھ کر سمیر اور پاکیزہ حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر پاکیزہ کی آواز ابھری:
”اور آپ کا وہ مختلف ارادہ کیا ہے ابا جان؟“
”یہ کہ اس بار ہم صرف قائد اعظم محمد علی جناح کی سال گرہ منائیں گے۔“
”کیا مطلب!!!“ سمیر زور سے اُچھلا۔
”کس بات کا مطلب بتاؤں؟ میں نے کوئی مشکل بات نہیں کہی۔“ وہ مسکرائے۔
”ابا جان! آپ بھائی کی سال گرہ کیوں نہیں منائیں گے بھلا؟“ پاکیزہ نے پریشان ہو کر پوچھا۔ ننھی زویبہ منہ کھولے سب کی طرف دیکھ رہی تھی۔
”بات یہ ہے، مجھے بہادر، با ہمت، حوصلہ مند، بات کے پکے اور کام کے دھنی لوگوں سے پیار ہے، میں ان لوگوں کو بہت پسند کرتا ہوں، جو ہر مشکل کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں اور اکیلے ہی بہت کچھ کرنے کا حوصلہ اور یقین رکھتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح میں چونکہ یہ ساری خوبیاں تھیں، اس لیے میں تمہارے فیصلے کا احترام کرتا ہوں…اس سال قائد اعظم کی سال گرہ منائی جائے گی۔“
”آپ…آپ کا مطلب ہے، آپ صرف قائد کی سال گرہ منائیں گے…میری نہیں۔“
”آپ کو قائد سے محبت ہے؟“ ابا جان نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے سوال کیا۔
”جی ہاں وہ میرے ہیرو ہیں بلکہ سارے پاکستانیوں کے ہیرو ہیں، اسی لیے تو میں اور پاکیزہ ان کی سال گرہ منانا چاہتے ہیں۔“
”بچو! اگر تم واقعی قائد اعظم محمدعلی جناح سے پیار کرتے ہو اور وہ تمہارے ہیرو ہیں تو ان کی سال گرہ ضرور مناؤ۔“
”لیکن آپ نے ابھی ابھی کہا ہے، آپ صرف قائد کی سال گرہ منانا چاہتے ہیں…میری سال گرہ نہیں منائیں گے…آخر کیوں؟“ سمیر نے کیوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”اس لیے کہ میں کم ہمت لوگوں سے پیار نہیں کرتا…ڈرنے اور گھبرانے والے لوگ مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتے ہیں، آپ کی امی نے مجھے آپ کی باتوں اور حرکتوں کے بارے آگاہ کر دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں، آپ میں ہمت، حوصلہ، بہادری، اللہ اور خود پر یقین نہیں ہے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا ہے۔ اس سال تمہاری سال گرہ نہیں منائی جائے…صرف قائد کی سال گرہ منائی جائے گی۔“
سمیر اور پاکیزہ نے امی کی طرف دیکھا لیکن ان کے چہرے پر سنجیدگی کے آثار دیکھ کر ان کی آخری اُمید بھی گویا دم توڑ گئی۔ ان کے چہرے اُتر گئے۔ یہ دیکھ کر ابا جان بولے:
”سمیر! اگر تم چاہتے ہو، قائد کے ساتھ ساتھ اس گھر میں تمہاری سال گرہ بھی منائی جائے تو تمہیں ایک وعدہ کرنا ہوگا۔“ اباجان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
”وعدہ کرنا ہوگا…کیسا وعدہ؟“اس نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔اس سے پہلے کہ ابا جان کچھ کہتے، امی بول اُٹھیں:
”تمام انسان اللہ تعالیٰ نے ایک جیسے پیدا کیے ہیں۔ یہ ان کی محنت، حوصلہ اور یقین کی دولت ہی ہے جو انہیں دوسروں سے الگ کرتی ہے۔ انہیں ہیرو بناتی ہے۔ تم اپنے دوستوں سے کم نہیں ہو، اگر وہ تمہیں کسی بات یا کام میں پیچھے چھوڑ دیتے ہیں تو غور کرو، ایسا کیوں ہے؟ تم اپنے ہیرو قائد اعظم محمد علی جناح سے پیار کرتے ہو۔ انہوں نے تو کام، کام اور بس کام کرنے کی تلقین کی تھی اور تم ہو کہ سکول کا ہوم ورک بھی اُدھورا چھوڑ دیتے ہو، آج کا کام کل پر ڈال دیتے ہو۔ کم ہمتی کی باتیں میں نے تمہارے منہ سے کئی بار سنی ہیں۔ چھوٹوں کو تنگ کرنا اور انہیں تکلیف میں دیکھ کر مسکرانا تمہیں اچھا لگتا ہے۔“ امی کہتی چلی گئیں۔پاکیزہ خاموشی سے امی، ابو کی باتیں سن رہی تھی۔ جب کہ سمیر کی حالت یہ تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔
اس کی حالت کو محسوس کرتے ہوئے ابا جان کہنے لگے:
”اگر تم چاہتے ہو، 25دسمبر کو قائد کی سال گرہ کے ساتھ ساتھ، اپنی سال گرہ بھی مناؤ تو تمہیں ہم سے ایک وعدہ کرنا ہوگا۔“
”کیا؟“ سمیر نے آہستہ سے پوچھا۔
”یہ کہ تم اپنی ذات میں وہ تمام اچھی باتیں اور خوبیاں لاؤ گے جن کی وجہ سے محمد علی جناح، قائد اعظم اور ہیرو کہلائے۔ بیٹے! کسی بڑے آدمی سے محبت کی جائے تو ضروری ہے، اس کی شخصیت میں موجود خوبیاں اور اچھائیاں اپنی ذات میں لائی جائیں…محبت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم جن سے محبت کرتے ہیں، ان جیسابننے کی کوشش بھی کریں…ورنہ محبت کا دعویٰ سچ نہیں ہوگا۔ محض جھوٹ ہی ہوگا اور آپ جانتے ہیں، جھوٹ پر ٹکی زندگی مزا نہیں دیتی۔ زندگی میں مزا چاہتے ہو تو عمل کرو۔ ہر اچھی بات پر، اچھے قول پر۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے قوم کے نام بہت سے پیغامات اور نصیحتیں چھوڑی ہیں۔ اگرتم واقعی ان سے پیار کرتے ہو تو ان جیسا بننے کی کوشش کرو۔ یہی وعدہ میں تم سے لینا چاہتا ہوں۔ بولو، کرتے ہو مجھ سے وعدہ، تم ہیرو بنو گے۔ محمد علی جناح جیسے بنو گے۔ بیٹے! مایوسی کا دوسرا نام موت ہے۔ زندگی کو زندگی کی طرح جینا چاہتے ہو تو اس مایوسی کو کبھی خود پر حاوی ہونے نہ دینا۔“ ابا جان چپ ہو کر سمیر کی طرف دیکھنے لگے۔ وہ کئی لمحے خاموش رہا، پھر کہنے لگا۔ سب نے اس کے لہجے میں عزم کی بو صاف محسوس کی:
”ابا جان! بہت شکریہ! آپ نے میری آنکھیں کھول دیں۔ میں آج آپ سے وعدہ کرتا ہوں، قائد اعظم کی ساری خوبیاں اپنی ذات میں لانے کی کوشش کروں گا۔ میرے لیے دعا کیجئے گا۔“
”زندگی میں تم جب بھی کچھ اچھا اور سچا کرنے کی کوشش کروگے، میری اور تمہاری امی کی دعائیں، چپکے سے ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوجائیں گی۔“
”بس تو پھر ٹھیک ہے۔ میں قائد بنوں، نہ بنوں…ہیرو ضرور بنوں گا۔ ایک اچھا ہیرو جسے سب پیار کریں گے…ان شاء اللہ۔“
”ان شاء للہ۔“ ابا جان کے منہ سے نکلا۔
امی اور پاکیزہ کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی جب کہ ننھی زویبہ سر اُٹھا کر بھائی کو دیکھنے لگی۔
OOO