ہائے اللہ بھوت!
سعید لخت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امتحان قریب تھے ۔رات بھر پڑھ پڑھ کر پچھلے پہر آنکھ لگی ہی تھی کہ کسی نے جھنجھوڑ کر جگا دیا ۔میں سمجھا کوئی چور ہے ۔ ایک دم اٹھ کر بھاگا مگر چور نے راستے ہی میں پکڑ لیا اور آہستہ سے بولا’’ارے مِنّی ،میں ہوں ۔آنکھیں تو کھول ۔‘‘اب جو آنکھیں کھولیں تو ’’ارے آپا جان ،آآپ؟‘‘ بولیں ’’اور نہیں تو کیا چور؟سن تو سہی ۔یہ آوازیں کیسی آرہی ہیں ۔‘‘
میں نے کان کھڑے کئے تو ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی درد کے مارے کراہ رہا ہے’’اونھ۔اونھ۔ہوں ۔ ہوں ۔‘‘خوف کے مارے میری تو جان ہی نکل گئی ایک دم کود کر چارپائی سے اٹھا اور ایک ہی جست میں ابا جان کی چارپائی پر دھم سے جا گرا ۔وہ بے چارے میٹھی نیند سو رہے تھے ۔ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے اور گھبرا کر بولے ’’کیا بات ہے ،ِ منّی بیٹے؟‘‘
’’بھ بھ بھ بھوت‘‘میں نے کانپتے ہوئے کہا :’’اوپر چھت پر بھوت ہے ۔‘‘اس ہڑ بونگ میں امی جان کی بھی آنکھ کھل گئی تھی اور وہ سوالیہ نشان بنی ہماری صورت تک رہی تھیں۔
’’مِنّی کہتا ہے اوپر چھت پر کوئی بھوت ہے۔سوتے میں ڈر گیا ہے شاید‘‘اباجان نے امی کو سمجھایا۔وہ بولیں ’’ہے ہے !میں نہ کہتی تھی اس گھر میں ضرور کوئی نہ کوئی آسیب ہے۔کل دوپہر میں اوپر گئی تھی کہ اس کوٹھری کو کھول کر دیکھوں مگر دہشت ناک آوازیں سن کر الٹے پاؤں لوٹ آئی تھی۔‘‘
اباجان بولے ’’کیسی باتیں کرتی ہو؟بچے تو خیر بچے ہیں ،تم بھی جن بھوتوں سے ڈرتی ہو۔چلو بیٹا ،مجھے دکھاؤ کہاں ہے وہ بھوت؟‘‘
اوپر پہنچے تو آپا جان نے کہا ’’میں سو رہی تھی کہ کسی کے رونے کی آواز آئی ۔ایسا لگتا تھا جیسے کوئی کسی کا گلا گھونٹ رہا ہے۔‘‘
ابا جان بولے’’بیٹی ،شاید پڑوس میں کسی کو کوئی تکلیف ہو ۔‘‘
’’نہیں ابا جان ،یہ آواز تو یہیں کہیں سے آرہی ہے‘‘آپا جان نے کہا۔
ابّا جان نے پوچھا :’’یہیں کہیں ؟یعنی۔۔۔۔۔؟‘‘
آپا جان نے کہا :’’اس کوٹھری میں سے ۔۔۔۔‘‘اور ہم سب کی نگا ہیں کوٹھڑی کے پرانے دیمک لگے دروازے پر لگ گئیں جس پر ایک زنگ لگا تالا پڑا جھول رہا تھا۔چھت پر صرف یہی ایک کوٹھڑی تھی۔ابا جان آہستہ آہستہ اس کوٹھڑی کی جانب بڑھے اور قریب پہنچنے بھی نہ پائے تھے کہ اندر سے کسی نے ڈانٹ کر کہا ’’ہوں ہوں غرررر۔‘‘امی جان لزر کر بولیں ’’ہے ہے ! خدا کو مانو ۔ضرور کوئی نہ کوئی بھوت ہے۔‘‘
’’ابا جان ،صبح کو کیوں نہ دیکھیں ؟‘‘میں نے ہونٹوں پر زبان پھیر کر کہا ۔امی جان شہ پا کر بولیں ’’ہاں ہاں ،صبح کوئی دور تھوڑی ہے،اور پھر اس وقت تالا کھولنا بھی تو مشکل ہو گا ۔‘‘آپا جان نے بھی امی کی ہاں میں ہاں ملائی اور معاملہ صبح پر چھوڑ دیا گیا ۔
ہمیں پاکستان آئے کافی عرصہ ہو گیا تھا مگر ابھی تک ٹھور ٹھکانہ نصیب نہ ہوا تھا ۔ویسے ابا جان کو لاہور میں ایک دکان مل گئی تھی اور ہم لوگ اپنے ایک رشتے دار کے ہاں رہ رہے تھے ۔آخر بہت دوڑ دھوپ کے بعد یہ مکان ملا تھا اس میں دو کمرے تھے ۔وہ بھی چھوٹے چھوٹے ۔ایک ٹوٹا پھوٹا باورچی خا نہ تھا اور اوپر چھت پر ایک کوٹھڑی تھی جس میں وہ کم بخت بھوت تھا۔ جس رات یہ واقعہ پیش آیا ہمیں اس گھر میں آئے ہوئے تیسرا دن تھا ۔نیچے کے کمرے تو ہم نے جھاڑ پونچھ کر ٹھیک کر لیے تھے مگر اوپر کی کوٹھڑی ویسے ہی چھوڑ دی تھی کہ پھر کبھی فرصت میں اسے دیکھیں گے۔
وہ رات جوں توں کر کے کاٹی۔صبح ہوئی تو ہم سب اوپر پہنچے ۔اباجان نے کوٹھڑی کا تالا کھولا ۔کواڑ بہت پرانے تھے ۔اندر خدا جانے کیا کیا الا بلا بھری ہوئی تھی ۔ابا جان نے کہا اس کوٹھڑی کی آج ہی صفائی ہونی چاہئے مگر امی جان نے دہائی مچا دی ۔بولیں:’’پہلے مولوی صاحب کو بلا کر بھوتوں کو نکالو ۔پھر اس کوٹھڑی کو ہاتھ لگانا ۔ان بھوتوں کا کیا بھروسا ۔ذرا سی دیر میں لاکھ کا گھر خاک کر دیں ۔‘‘
ہوتے ہوتے یہ خبر سارے محلے میں مشہور ہو گئی ۔پڑوس کی عورتیں اور بچے ہمارے گھر میں آتے ہوئے گھبرانے لگے کہ کہیں بھوت انہیں نہ چمٹ جائیں ۔ابا جان حیران تھے،آپا جان پریشان ، میرا اور امی جان کا مارے خوف کے برا حال تھا۔
آخر ابا جان ایک مولوی کو لے آئے۔انہوں نے ایک سفید مُرغا حلال کیا ،ایک سیر حلوا پکوا کر فاتحہ دی اور دس روپے نذرانہ لے کر چلے گئے۔رات کو ہم سب کوٹھے پر چڑھے اور کان لگا کر سنا۔کوئی آواز نہ آئی۔پھر یکایک ہوا کا ایک جھونکا آیا اور اس کے ساتھ ہی اوں اوں غررررر کی آوازیں آنے لگیں ۔
صبح ہوئی تو ابا جان پھر مولوی صاحب کو پکڑ لائے ۔انہوں نے پھر کچھ پڑھا پھونکا اور پانچ سات روپے لے کر چلتے بنے ۔لیکن وہ آوازیں کسی صورت بند نہ ہوئیں ۔آپا جان جل کر بولیں ’’’اے امی ،بھوت ووت کچھ نہیں ہے ۔کوئی اور ہی بات ہے ۔‘‘
امی جان بولیں :’’چند کتابیں پڑھ کر تیرا دماغ خراب ہو گیا ہے ۔لو،میم صاحبہ اب بھوتوں کو بھی نہیں مانتیں ۔میں کہتی ہوں یہ بہت بڑی بلا ہوتی ہے ۔میرے ایک رشتے کی پھوپھی کے لڑکے کو ایک بھوت چمٹ گیا تھا ۔توبہ !توبہ!یا اللہ تو ہر بلا سے بچانا ۔مرتے مر گیا مگر بھوت نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا ۔‘‘
آپا جان بولیں ’’ارے امی ،وہ بھوت نہیں کوئی بھوتنی ہو گی ۔‘‘
امی جان غصے سے بولیں ’’اے چل نگوڑ ماری۔‘‘
ہمارے اسکول میں انگریزی کے ایک استاد تھے ،ماسٹر خوشی محمد جالندھری ۔ایک دن میں نے اس بھوت کا ان سے ذکر کیا تو وہ بولے ’’میاں ،یہ جہالت کی باتیں ہیں ۔بھوت پریت کوئی چیز نہیں ۔‘‘میں نے کہا ’’ہمارے گھر کی ایک کوٹھڑی میں سے عجیب و غریب آوازیں آتی ہیں ۔جیسے کوئی رو رہا ہے ۔جیسے کسی کا گلا گھونٹا جا رہا ہے ۔‘‘
بولے ’’ہشت!یہ سب تمہارا وہم ہے۔‘‘
میں بولا :’’وہم نہیں ماسٹر صاحب ۔آپ میرے ابا سے پوچھ لیجئے ۔‘‘
ماسٹر صاحب بولے ’’سچ مچ ؟بڑی عجیب بات ہے ۔اچھا،آج شام کو ہم تمہارے گھر آئیں گے۔‘‘
میں نے ماسٹر صاحب کوپتہ بتا دیا اوروہ شام کے وقت پہنچ گئے۔میں انہیں لے کر چھت پر گیا ۔اس وقت ہوا بہت تیز چل رہی تھی اور کوٹھڑی میں سے چیخنے چلانے کی آوازیں زور زور سے آرہی تھیں ۔میں تو دور کھڑا رہا مگر ماسٹر صاحب نے ایک دم دروازہ کھول دیا۔آوازیں رک گئیں ۔انہوں نے دروازہ بندکیا تو پھر آوازیں آنے لگیں ۔اب انہوں نے غور سے دروازے کو دیکھا ،اس کی درزوں میں جھانکا اور پھر کھل کھلا کر ہنس پڑے ۔میں نے پوچھا ،’’کیا بات ہے ماسٹر صاحب؟‘‘ بولے:’’بھئی ،تمہارابھوت پکڑا گیا۔ لو ،دیکھو۔بھوت کواڑوں کی ان جھریوں میں بند ہے۔‘‘
میں نے غور سے دیکھا ۔کواڑوں کے شگاف بڑے تھے اور ان کے بیچ میں مکڑیوں نے موٹے موٹے جالے تان رکھے تھے۔ماسٹر صاحب بولے ’’ِ منّی میاں ،دراصل یہ سب ہوا کا کیا دھرا ہے ۔جب ہوا کواڑوں کی درزوں یعنی شگافوں میں سے گزرتی ہے تو مکڑی کے جالوں سے ٹکراتی ہے اور جالے قسم قسم کی آوازیں پیدا کرتے ہیں ۔سمجھے؟اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب ہم کواڑ بند کرتے ہیں تو آوازیں آتی ہیں ،کھولتے ہیں تو رک جاتی ہیں۔‘‘
’’ ماسٹر صاحب ،آپ کو دیکھ کر بھوت بھاگ جاتے ہوں گے‘‘میں نے کہا ۔
بولے:’’یہ بات ہے ؟اچھا تم کاغذ سے ان شگافوں کو بند کر دو ۔پھر دیکھو کیسے آوازیں آتی ہیں ۔‘‘
میں نے کاغذ لگا کر تمام جھریاں بند کر دیں ۔ماسٹر صاحب نے کواڑ بند کر دیئے ۔ہم نے کافی دیر تک انتظار کیا مگر ایک آواز بھی نہ آئی ۔میرا حیرت کے مارے منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔
شام کو ابا جان آئے تو میں نے انہیں سارا واقعہ سنایا ۔بہت خوش ہوئے۔
آپا جان بولیں :’’وہ مُلا نگوڑمارا مفت میں بیس پچیس روپے کھا گیا ۔‘‘