ہاتھی کی سائیکل
ڈاکٹر رﺅف پاریکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ننھا ہاتھی جنگل میں صبح کی سیر کے لیے نکلا تھا لیکن جب اس کی نظر ایک چھوٹی سی خوب صورت سی دو پہیوں والی سائیکل پر پڑی تو وہ سیر کو بھول کر سائیکل کی طرف لپکا۔ سائیکل بہت صاف اور چمک دار تھی۔ نئی معلوم ہوتی تھی۔ کسی نے اُسے ایک درخت کے تنے کے سہارے کھڑا کر رکھا تھا۔ سائیکل کے قریب پہنچ کر وہ اسے غور سے دیکھنے لگا۔ ”واہ وا! کتنی خوب صورت سائیکل ہے۔“ ننھا ہاتھی دل میں سوچنے لگا۔ ”بالکل ویسی ہی ہے جیسی اس دن ایک بچے کے پاس دیکھی تھی۔“
ننھا ہاتھی سائیکل کو ہر طرف سے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کاش! ایسی سائیکل اس کے پاس بھی ہوتی۔ ”یہ سائیکل کس کی ہے؟“ اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔ پھر خود ہی کہنے لگا: ”اگر کوئی دیکھ نہیں رہا تو پھر یہ سائیکل میری ہوگئی۔“ یہ سوچ کر اس نے چاروں طرف دیکھا۔ جنگل سنسنا پڑا تھا۔ ”ہاں یہ سائیکل میری ہے۔“ یہ کہہ کر وہ خوشی خوشی اُچک کر سائیکل پر بیٹھ گیا۔ اس نے آہستہ آہستہ پیڈل مارنے شروع کردیے۔ سائیکل چلنے لگی۔
مارے خوشی کے ننھے ہاتھی کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ خوب ناچے، قہقہے لگائے۔ اب وہ سائیکل کو چوڑے راستے پر لے آیا اور تیز تیز پیڈل مارنے لگا، لیکن اس کا دل یکایک اداس ہوگیا۔ ”یہ سائیکل بہت اچھی ہے لیکن میری تو نہیں ہے۔ ہاں یہ سائیکل کسی اور کی ہے۔ تو کیا میں نے چوری کی ہے؟ کیا میں چور ہوں؟ نہیں نہیں، میں چور نہیں ہوں۔ مجھے تو یہ سائیکل جنگل میں پڑی ملی ہے۔ اس لیے میری ہوگئی۔ ہاں یہ میری سائیکل ہے۔“
یہ سوچ کر ننھے ہاتھی نے سائیکل کی رفتار اور تیز کردی۔ اتنے میں اُسے چوہا نظر آیا۔ چوہا ایک پرانے درخت کے کھوکھلے تنے میں بیٹھا کہانیوں کی کتاب پڑھ رہا تھا۔ ”کیا حال ہے بھائی چوہے۔“ ہاتھی نے ہاتھ لہرایا۔
پھر اس نے سائیکل روک دی اور بولا: ”میں اپنی سائیکل پر صبح کی سیر پر نکلا ہوں۔“
چوہا حیرت سے بولا: ”اپنی سائیکل پر؟ یہ سائیکل تمھاری کہاں سے ہوگئی؟“
ہاتھی نے جواب دیا: ”ہاں، ہاں یہ میری سائیکل ہے، دیکھ نہیں رہے اسے میں ہی چلا رہا ہوں۔“
چوہے نے کہا: ”لیکن تمھارے چلانے سے یہ سائیکل تمھاری نہیں ہوگئی۔ یہ اس بچے کی ہے جو جنگل کے ایک کونے میں چھوٹے سے مکان میں رہتا ہے۔ میں نے خود اسے یہ سائیکل چلاتے ہوئے دیکھا ہے، ہماری مس کہتی ہیں کہ کسی کی چیز پڑی ہوئی ملے تو اسے رکھ نہیں لیتے۔“
یہ سن کر ہاتھی نے فوراً سائیکل چلادی اور چوہے سے کہا: ”جاﺅ، جاﺅ اپنا کام کرو۔ یہ سائیکل میری ہے۔“
کہنے کو تو ہاتھی نے یہ بات کہہ دی تھی، لیکن وہ دل ہی دل میں ڈر رہا تھا کہ کہیں چوہا اس کی شکایت نہ کردے۔ اب وہ سائیکل تیز تیز چلانے لگا۔ اس نے سائیکل میں لگی ہوئی گھنٹی بجائی ’ٹرن ٹرن‘۔ گھنٹی بجانے میں اسے اتنا مزہ آیا کہ وہ بار بار گھنٹی بجانے لگا۔ خوشی سے اس نے ایک چنگھاڑ ماری اور پھر گھنٹی بجانے لگا۔
چوں چوں چڑیا اس وقت اپنے گھونسلے میں ناشتہ تیار کررہی تھی، جب اس نے گھنٹی کی ٹرن ٹرن اور ننھے ہاتھی کی چنگھاڑ سنی تو بولی: ”خیر تو ہے؟ اسکول نہ جانے پر جب ننھے ہاتھی کی پٹائی ہوتی ہے تو روز ہی چنگھاڑتا ہے مگر آج یہ گھنٹیاں کیوں بجارہا ہے؟“ اور جب اس کی نظر ننھے ہاتھی پر پڑی تو یہ دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ ننھا ہاتھی ایک انتہائی چمچماتی خوب صورت نئی سائیکل پر گھنٹی بجاتا گانا گاتا چلا آرہا ہے۔
”یہ ہاتھیوں کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آگیا کہ وہ اپنے بچے کو ایسی قیمتی سائیکل دلادیں۔ ہو نہ ہو اس نے یہ سائیکل کہیں سے ہتھیائی ہے۔“ چوں چوں چڑیا بڑبڑائی۔
یہ سوچ کر چوں چوں چڑیا پھر زور سے اُڑی تاکہ جنگل کے سب جانوروں کو یہ بتاسکے کہ ننھے ہاتھی کو کہیں سے سائیکل ہاتھ لگی ہے جس پر وہ بیٹھا چلا آرہا ہے، لیکن اس نے دیکھا کہ تمام جانور ایک جگہ جمع ہیں اور آپس میں مشورہ کررہے ہیں کہ یہ سائیکل کس کی ہے اور ننھے ہاتھی سے واپس کس طرح لی جائے۔ دراصل چوہے نے تمام جانوروں کو جمع کرکے انھیں ساری بات بتادی تھی۔ چوں چوں چڑیا بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئی۔ سب جانوروں نے فیصلہ کیا کہ یہ سائیکل ننھے ہاتھی سے واپس لے کر اس بچے کو دے دی جائے جو اس سائیکل کا مالک ہے۔
اتنے میں سائیکل کی ٹرن ٹرن سنائی دی اور ننھا ہاتھی سائیل پر آتا دکھائی دیا۔ ننھے ہاتھی نے جب دیکھا کہ تمام جانور ایک جگہ جمع ہیں اور اسے غور سے دیکھ رہے ہیں تو وہ گھبراگیا۔ جیسے ہی اس کی سائیکل ان جانوروں کے پاس پہنچی سب نے اسے گھیر لیا۔ ”یہ سائیکل تم نے کہاں سے خریدی؟“ خرگوش نے سائیکل پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
”خریدے گا بھلا کہاں سے، کسی کو ڈرا دھمکا کر لے لی ہوگی۔“ چوہے نے کہا۔
”نہیں، نہیں یہ سائیکل میں نے کسی سے چھینی نہیں ہے۔ یہ میری سائیکل ہے۔“ ننھے ہاتھی نے جواب دیا۔
”تو پھر بتاﺅ کہاں سے آئی تمھارے پاس؟“ لومڑی نے اسے ڈانٹ کر کہا۔ ” کہیں پڑی ہوئی ملی تھی تو اس کے مالک کو بھی ڈھونڈتے۔ بچہ جی چڑھ بیٹھے فوراً سائیکل پر اور ٹرن ٹرن سے سارا جنگل سر پر اٹھالیا۔“
ننھے ہاتھی نے جب دیکھا کہ اب اس کی خیر نہیں تو سامنے کھڑے ہوئے بندر کو ایک طرف دھکا دیا اور سائیکل تیزی سے نکال لے گیا۔ سارے جانور چلائے:”لینا، پکڑنا، دوڑو، جانے نہ پائے۔“
لیکن ہاتھی نے سائیکل کو بہت تیز چلایا اور کافی آگے نکل گیا۔ خرگوش نے کہا: ”میری رفتار تیز ہے، میں اسے پکڑلوں گا۔“ یہ کہہ کر وہ ننھے ہاتھی کے پیچھے لپکا۔ لومڑی اور چوہا بھی اس کے پیچھے بھاگے۔ چوں چوں چڑیا بھلا کب پیچھے رہتی۔ وہ بھی اڑتی ہاتھی کے پیچھے گئی۔ ننھے ہاتھی نے جو مڑ کر دیکھا تو خرگوش، لومڑی، چوہے اور چڑیا کو اپنا پیچھا کرتا پایا۔ چنانچہ اس نے سائیکل کی رفتار اور بڑھادی۔ اب سائیکل خطرناک حد تک تیز ہوچلی تھی اور ہاتھی کے قابو سے باہر ہونے لگی تھی۔ اتنے میں ایک بڑا سا پتھر سائیکل کے راستے میں آیا۔ اس سے ٹکرا کر سائیکل جو اچھلی تو ہاتھی اسے سنبھال نہ سکا اور سائیکل کے ساتھ اَڑ ا ڑَا ڑَا دَھم، زمین پر آرہا۔ ہاتھی کے سر پر شدید چوٹ آئی اور وہ بے ہوش ہوگیا۔
ہاتھی کو جب ہوش آیا تو وہ ہسپتال میں تھا۔ اس کے سر پر پٹی تھی۔سب جانور اس کے پلنگ کے پاس کھڑے تھے۔ ہاتھی کو ہوش آیا تو ممی ہاتھی نے کہا: ”دیکھو بیٹا اگر کوئی چیز کہیں پڑی ملے تو وہ ہماری نہیں ہوجاتی۔ تم نے کسی کی چیز لے لی اور پھر جھوٹ بھی بولا کہ یہ میری ہے۔ تمھیں اسی کی سزا ملی ہے۔“
ننھے ہاتھی نے کہا: ”امی مجھ سے غلطی ہوگئی۔ مجھے معاف کردیجیے۔“
پپا ہاتھی نے کہا: ”تمھیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا، یہ بہت اچھی بات ہے۔ ہم تمھارے لیے ایک ایسی ہی سائیکل لے آئیں گے، لیکن وعدہ کرو کہ آیندہ کوئی اچھی چیز لینے کو دل چاہے تو ہم سے کہو گے۔ ہم تمھیں لادیں گے۔“
”وعدہ، ابو وعدہ!“ ننھا ہاتھی جلدی سے بولا۔ سب جانوروں نے باری باری اسے مبارک باد دی اور چوں چوں چڑیا پھر جلدی سے اُڑگئی تاکہ جنگل میں یہ خبر سب کو سنادے کہ ننھے ہاتھی نے اپنی غلطی مان لی ہے۔