حقیر سی چیز
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
اسکول میں سالانہ کھیل ہونے والے تھے۔
ان کھیلوں میں دوڑ، تیرا کی، چھلانگ لگانے، رسہ کشی اور دوسرے بہت سے مقابلے شامل تھے۔ ہر کلاس میں ان مقابلوں کے لئے لڑکوں کے نام لکھے جا رہے تھے۔ پانچویں کلاس میں کلاس ٹیچر رضوان صاحب نام لکھ رہے تھے۔
”ہاں بھئی تم شکیل؟ تم تو سارے مقابلوں میں حصہ لو گے… اور تم جاوید؟“
”سر! دوڑ میں۔“
”اور تم راشد؟“
”میں تیرا کی میں حصہ لوں گا سر۔“
رضوان صاحب نام لکھنے سے پہلے ہر لڑکے کو غور سے دیکھتے۔ بہت سے لوگوں کو انہوں نے یہ کہہ کر بٹھا دیا کہ وہ کمزور ہیں۔ ان کی صحت اچھی نہیں ہے۔ ان لڑکوں میں ناصر، اسلم،بشیر اور فاروق شامل تھے۔ یہ چاروں دبلے پتلے لڑکے تھے۔ کلاس ٹیچر نے جب ان کے نام نہیں لکھے تو وہ اداس ہو کر بیٹھ گئے۔
شکیل کو بڑی خوشی ہوئی۔ اس نے دل میں سوچا:
”ہو…… ہو جھینگے کہیں کے…… اپنی صحت تو دیکھیں۔ چلے ہیں دوڑ میں اور رسہ کشی میں حصہ لینے…… کلاس کو ہروانا ہے کوئی ……؟“
شکیل کو اپنی صحت پر بڑا غرور تھا۔ یہ تو صحیح ہے کہ اس کی صحت بہت اچھی تھی۔ صرف دس برس کی عمر میں وہ بارہ تیرہ برس کا لگتا تھا۔ ہاتھ پاؤں مضبوط تھے، دیر تک دوڑنے یا تیراکی کرنے یا سائیکل چلانے پر بھی اس کا سانس نہیں پھولتا تھا۔ لیکن شکیل میں یہ بڑی خراب عادت تھی کہ وہ کمزور صحت والوں کا ہر وقت مذاق اڑاتا رہتا تھا اور بار بار اپنی اچھی صحت کی باتیں کرتا رہتا تھا۔
”میاں مجھے دیکھو۔ شیر کی طرح طاقت ور ہوں اور چیتے کی طرح پھر تیلا ہوں۔ تمہاری طرح سوکھے ہوئے بازو نہیں میرے۔ اور بھائی ناصر تم ذرا کچھ کھا پی لیا کرو۔ اتنی کنجوسی بھی اچھی نہیں۔ تمہیں تو میں پھونک مار دوں تو اڑ جاؤ گے۔ اور میاں فاروق اتنے دبلے پتلے جسم پر یہ مٹکا جیسا سر لے کر کیا کرو گے……؟ تم ذرا موٹے کپڑے پہنا کرو تا کہ نظر تو آؤ……!“
مقابلے شروع ہونے سے ایک دن پہلے تک شکیل صاحب خوب اکڑتے رہے۔ ”سوال ہی پیدا نہیں ہو تا کہ ہماری کلاس سے کوئی جیت سکے۔ آخر میں جو ہوں اس کلاس میں ……“
جس دن مقابلے شروع ہونے والے تھے، اسی دن اطلاع آئی کہ پانچویں کے طالب علم جاوید کی طبیعت بہت خراب ہے۔ اسے ہسپتال میں داخل کر دیا گیا ہے۔ جاوید بھی بہت اچھی صحت والا لڑکا تھا۔ شکیل اور دوسرے بچے بڑے حیران ہوئے کہ جاوید کو ہوا کیا۔ اسکول کی چھٹی کے بعد کلاس کے کئی بچے ہسپتال پہنچے۔ پتا چلا کہ جاوید سے ابھی کوئی نہیں مل سکتا……!“
شکیل نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا۔”جاوید کو کیا ہوا ہے انکل؟“
”کون وہ گیارہ نمبربیڈ والا بچہ……؟ بیٹا اس کے پاؤں میں ایک زنگ آلود سوئی چبھ گئی تھی۔“
”تو اس سے وہ بیمار ہو گیا؟“
”ہاں بیٹے…… زمین پر پڑی ہوئی چیزوں میں ایک قسم کے خطرناک جراثیم ہوتے ہیں۔ اگر یہ جراثیم کسی طرح ہمارے جسم میں پہنچ جائیں تو ہمیں بیمار کر دیتے ہیں۔“
”یہ جراثیم نظر نہیں آتے انکل……؟“
”نہیں بیٹے…… یہ جراثیم تو بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ ان کو تو باریک آلے کی مدد سے دیکھتے ہیں۔ اس آلے کو خردبین کہتے ہیں۔ انگریزی میں مائیکرو اسکوپ کہتے ہیں۔ یہ آلہ بہت چھوٹی چیزوں کو بڑا کر کے دکھاتا ہے۔“
”کتنا بڑا……؟“
”یوں سمجھ لو……“ ڈاکٹر صاحب سوچ میں پڑ گئے۔ ان کی ناک پر ایک مکھی آ بیٹھی، انہوں نے ہاتھ ہلا کر اسے اڑا دیا اور بولے:
”ہاں …… یوں سمجھ لو کہ اگر ایک مکھی کو آپ خرد بین سے دیکھ سکیں تو وہ چھ فٹ بڑی نظر آئے گی۔ جراثیم بہت ہی چھوٹے ہوتے ہیں۔ اگر ایک میٹر کے دس لاکھ حصے کر دیں تو ان میں سے تین چار حصوں کے برابر…… اچھا بیٹے مجھے جانا ہے۔“
”انکل ایک بات……جاوید کی صحت تو بہت اچھی ہے۔ اسے اتنے چھوٹے جراثیم نے بیمارکیسے کر دیا……؟“
”بیٹے ہر بچے کو بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے لگنے چاہئیں۔ جاوید کو شاید وہ ٹیکے لگے نہیں یا ان ٹیکوں میں کوئی خرابی تھی۔ ممکن ہے انہیں حفاظت سے فریج میں نہ رکھا گیا ہو یا وہ پرانے ہو چکے ہوں، اس سے یہ ہوا کہ جب یہ جراثیم سوئی چبھنے سے، جاوید کے جسم میں پہنچ گئے تو انہوں نے جاوید کو زیادہ بیمار کر دیا۔ اگر یہ ٹیکے لگے ہوتے تو شاید جاوید اتنا بیمار نہ ہوتا۔ اور بیٹے انسان چاہے کتنا ہی صحت مند اور موٹا تازہ کیوں نہ ہومگر یہ ننھے منے جراثیم اچھے بھلے انسان کو بیمار کر ڈالتے ہیں۔
”اس بیماری کا نام کیا ہے انکل؟“
”ا سے تشنج کہتے ہیں۔ انگریزی میں ٹٹانس۔“
”جاوید ٹھیک ہو جائے گا نا انکل؟“
”ہاں بیٹے ان شاء اللہ،آپ دعا کریں۔“ ڈاکٹر صاحب شکیل کے گال تھپتھپا کر آگے بڑھ گئے۔
ہسپتال میں جاوید کو دیکھ کر شکیل گھر واپس پہنچا تو سب سے پہلے اس نے وضو کر کے نماز پڑھی اور سچے دل سے دعا مانگی۔
”میرے اللہ میاں۔ اب میں کبھی غرور نہیں کروں گا۔ مجھے پتا چل گیا ہے کہ کسی کی صحت چاہے کتنی ہی اچھی ہو،بہت ننھے سے جراثیم تک اسے سخت بیمار کر سکتے ہیں۔ اللہ میاں جاوید کو شفاء دے اور مجھے میرے امی ابو،بہن بھائیوں اور سب کو ہر بیماری سے محفوظ رکھنا۔“
شکیل نے دعا مانگ کر ہاتھ اپنے منہ پر پھیرا تو اسے احساس ہوا کہ اس کے آنسو بہہ رہے تھے۔