حقیقت
مقبول انور داؤدی
۔۔۔۔۔
انفلوئنزا کی وبا میں میرے ابا اور امی اللہ کو پیار ے ہو گئے۔ اُس وقت میری عمر کوئی گیارہ سال ہوگی۔ دو بڑی بہنیں تھیں جن کی شادی ہو چکی تھی۔ ایک بہن اور ایک بھائی مجھ سے بھی چھوٹے تھے۔ گھرانا اچھا تھا۔ ابا مرحوم کو علم سے شوق ہی نہیں عشق تھا۔ فرمایا کرتے کہ میں اپنے بیٹے کو بڑا صاحب علم بناؤں گا لیکن قدرت اِن کے ارادوں پر مسکرا رہی تھی۔
ماں باپ کا انتقال کیا ہوا ہم پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ میں پڑھنا چاہتا تھا مگر پڑھنے کی کوئی صورت نہ تھی۔ رشتہ دار اور عزیز آتے، ماتم اور افسوس تو انہیں کیا کرنا تھا، صرف جائداد کو تا کنے آتے اور جس کے جو ہتے چڑھ جاتا، لے جاتا۔
گھر صاف ہو چکا تو اب سب بزرگوں کی صلاح کہیں ٹھہری کہ میں پڑھنے کا خیال ترک کر کے محنت مزدوری کروں اور چھوٹے بہن بھائی کے لیے روٹی مہیا کروں۔ میں نے بزرگوں کے کہنے پر عمل کیا اور امرتسر چلا گیا۔
امرتسر میں ایک بزرگ کے وسیلے سے ورکشاپ میں ملازمت مل گئی۔ میرا استاد ان پڑھ لیکن اپنے کام میں خوب ماہر تھا، دو چار اور شاگرد بھی تھے۔ ہمارا کام دُور سے کوئلہ لانا اور بھٹی دہکانا تھا۔ ناز و نعم میں پلا ہوا بچہ اس مشقت کو کب تک برداشت کرتا۔ اس سے میری صحت پر بھی بہت برا اثرپڑا، لیکن روزی کی فکر غریبوں کی صحت کو کیسے قائم رہنے دیتی ہے۔
چند ماہ اسی طرح گزر گئے۔ ایک دن ہمارے استاد آئے تو وہ بڑے کھوئے کھوئے سے تھے۔ سیدھے منہ بات کرنا تو الگ رہا کسی کی بات کا جواب بھی نہ دیتے تھے۔ چہرے سے معلوم ہو رہا تھا کہ کوئی بہت بڑا صدمہ گزرا ہے ۔ اس دن اُنھوں نے کام کو بھی ہاتھ نہ لگایا۔ سارے شاگرد حیران تھے اور استاد گم صم۔
آخر میں نے جرأت کر کے پوچھ ہی لیا کہ’’ اُستاد جی! کیا بات ہے، آج آپ اتنے غمگین کیوں ہیں؟ ‘‘
انھوں نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور کہنے لگے۔ ’’جاؤ بیٹا! آج آرام کرو۔ میری طبیعت خراب ہے۔‘‘ اور اس کے ساتھ ہی بے ساختہ یہ کلمہ بھی اُن کے منہ سے نکل گیا ۔’’ جب قسمت ہی خراب ہو اور تقدیر ہی اُلٹی ہو تو انسان کیا کر سکتا ہے ۔‘‘
میں نے اصرار کیا ۔’’ آپ بتائیں تو سہی کہ آپ کو کیا صدمہ پہنچا ہے؟‘‘
آخر بڑی مشکل سے کہا۔’’بیٹا ! کیابتائوں، میری قسمت پھوٹ گئی۔ میرے لڑکے شفیع کو تم جانتے ہی ہو۔اللہ آمین کا ایک ہی بیٹا ہے۔ رات اُس نے ماں کو بُری طرح مارا اور گھر سے زیور لے کر بھاگ گیا۔ آہ! اس کو میں نے بڑھاپے کا سہارا سمجھا تھا، وہ مجھے یوں دغا دے گیا۔ ‘‘
یہ کہتے ہوئے اُستاد کی داڑھی پر آنسو موتی بن کر چمکنے لگے۔ جب اُن کا دل ہلکا ہوا تو میں نے کہا ۔’’ اگر برا نہ مانیں تو عرض کروں ؟‘‘
’’جو چاہو کہو ،میں بدنصیب اب چھوٹوں کی باتیں بھی سنوں گا ۔‘‘
میں نے ڈرتے ڈرتے کہا ۔’’ اُستا د جی! آپ بڑے نیک انسان ہیں۔ لیکن ایک بات عرض کرتا ہوں کہ اب تو آپ بیٹے کی جدائی پہ آنسو بہا رہے ہیں ۔مجھے اندیشہ ہے کہ بچے کی غلط تعلیم و تربیت کی بدولت آپ کی ساری نیکیاں ہی ضائع نہ ہو جائیں۔‘‘
اُستاد صاحب حیران ہو کر بولے۔ ’’میری نیکیاں برباد ہو جائیں گی؟ آخر کیوں؟ میں نے کیا گناہ کیا ہے؟ یہ میری قسمت کا قصور ہے کہ میرا بیٹا نالائق نکلا۔ کون باپ چاہتا ہے کہ اُس کی اولاد نیک نہ ہو؟‘‘
میں نے کہا ۔’’ یہ تو کوئی نہیں چاہتا لیکن اس کے باوجو ماں باپ ہی بچے کے بگاڑ کا باعث ہوتے ہیں۔‘‘
وہ چمک کر بولے ۔’’تو کیا میں نے اپنے بچے کو خراب کیا ہے۔ کیسی احمقانہ باتیں کرتے ہو؟ ‘‘
میں نے کہا ۔’’میری بات سُن لیجئے۔ اس کے بعد آپ کو حق ہے کہ آپ مانیں یا نہ مانیں۔ یہ آپ کا ایک ہی لڑکا تھا۔ آپ نے اُسے بڑی منتوں سے پالا ہوگا ۔‘‘
کہنے لگے ۔’’تعویذ گنڈے کیے،مزاروں پر چڑھاوے چڑھائے ،نذر نیاز دی اور جب یہ کم بخت پیدا ہوا تھا تومیں نے پانچ سو روپیہ خرچ کیا تھا۔ ساری برادری کی دعوت کی۔ بھانڈ اور مراسی جھولیاں بھر بھر کرلے گئے ۔‘‘
میں نے بیساختہ کہا ۔’’ شاید جب اُس نے پہلی دفعہ ماں کو گالی دی ہو گی تو آپ نے لڈو بھی بانٹے ہوں گے؟ ‘‘
میری یہ بات سن کر استاد کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ حیران ہو کر بولے۔ ’’تم کو کیسے پتہ چلا۔ تم تو اس سے بہت چھوٹے ہو؟ ‘‘
میں نے کہا ۔’’میں نے سنا تو نہیں، لیکن عام طور پر ہمارے لاڈلے بچوں کا یہی دستور ہوتا ہے۔‘‘
ایک لمبی آہ بھر کر کہنے لگے ۔’’ جس دن اُس نے ماں کو گالی دی تھی ہم نے بیس سیر لڈو بانٹے تھے۔ ‘‘
میں نے کہا ۔’’اسی لیے تو میں نے عرض کیا ہے کہ آپ بیٹے کو نہ روئیں۔ اپنی غلط تربیت پر آنسو بہائیں اور خدا سے ڈریں جو آپ سے پوچھے گا کہ میں نے ایک معصوم کو تمہارے پاس بھیجا تھا جس کو تم نے اپنی غلط تربیت سے برا آدمی بنا دیا…‘‘
میں کچھ اور کہنا چاہتا تھا لیکن اُستاد فوراً سجدے میں گر گئے اور دیر تک آنسو بہاتے رہے۔