skip to Main Content
حق دار کون؟

حق دار کون؟

اعظم طارق کوہستانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈائیریکٹر صاحب نے نجانے کیا سوچ کر میرے ذمّے یہ کام لگایا کہ آفس کے لیے ایک ایماندار نوجوان کی ضرورت ہے اور تمھیں انٹرویو کر کے ایک نوجوان کی سلیکشن کرنی ہے۔ میں انکار کر کے ڈائیریکٹر صاحب کی ناراضی مول نہیں لینا چاہتا تھا لیکن اس معاشرے میں ایماندار نوجوانوں کی تعداد ’’اُونٹ کے منھ میں زِیرے‘‘ کے برابر ہے۔
بہرحال میں نے اخبار میں اشتہار دے دیا اور چند دن بعد ہی انٹرویو کے دن نوجوانوں کی ایک بڑی تعداددفترمیں موجود تھی۔ پہلا شخص جو آفس میں داخل ہواوہ خوبصورت چہرے، لانبے قد، بھری بھری داڑھی والا نوجوان تھا۔ میں بغیر وقت ضائع کیے اس نوجوان سے مخاطب ہوا۔ 
’’جی آپ کی تعریف۔۔۔‘‘
’’جی میرا نام محمد عمر حیات ہے اور میں نے اردو میں ایم اے کیا ہوا ہے۔‘‘
’’ہوں!‘‘ میں نے زور سے ہنکارا بھرا۔
’’تو مسٹر عمر حیات صاحب! اب تک آپ کتنی جگہ نوکریاں کرچکے ہیں؟‘‘
’’نو سر! یہ میری پہلی نوکری ہوگی اگر ۔۔۔؟‘‘ انہوں نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
’’ یعنی کہ آپ زندگی میں پہلی بار انٹرویو دے رہے ہیں؟‘‘ میں حیرت زدہ رہ گیا۔
’’نو سر ایم اے کیے ہوئے مجھے دو سال ہو گئے ہیں اور دو سال سے میں نوکری کی تلاش میں جوتیاں چٹخاتا پھر رہا ہوں لیکن قسمت نے اب تک ساتھ نہیں دیا اور جہاں ساتھ دیا بھی تو وہاں رشوت اور سفارش نے انٹرویو سے آگے بڑھنے نہیں دیا۔‘‘ محمد عمر حیات کے لہجے میں دکھ بخوبی محسوس کیا جاسکتا تھا۔ 
’’آپ اپنے ڈاکومنٹس (کاغذات) ساتھ لائے ہیں؟‘‘
’’جی ہاں سر یہ دیکھئے۔‘‘ اس نے اپنے ڈاکومنٹس میری طرف بڑھادیے۔ میں نے عمر حیات کے کاغذات دیکھے۔ وہ ہمارے ادارے کے معیار پر پورے اترتے تھے لیکن ہمیں ایک ایماندار شخص کی ضرورت تھی کیونکہ۔۔۔۔۔۔!!
’’اچھا تو مسٹر عمر حیات صاحب! اب آپ ہمارے کام کی تفصیل بھی سن لیجیے۔ ہمیں ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو ’’ایماندار ‘‘ہو کیونکہ پیسوں کے معاملے میں بڑے بڑوں کا ایمان ڈانواں ڈول ہوجاتا ہے اور اب تک ہمارے تین ایجنٹ پیسوں کی ہیرا پھیری کر چکے ہیں۔ یہ سرکاری نہیں بلکہ ایک پرائیویٹ ادارہ ہے اور پیسوں کی ہیرا پھیری کمپنی نے کبھی بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کی۔ اس لیے آج وہ تینوں ایجنٹ ’’جیل‘‘ کی ہوا کھا رہے ہیں۔ ہمارے لیے کسٹمرز (گاہک) پر اپنا اعتماد بحال کرانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ہمارے پاس ایماندار ایجنٹ ہوں۔ کیا تم یہ ثابت کر سکتے ہو کہ تم ایک ایماندار شخص ہو؟‘‘
’’سر میں آپ کی توقعات پر ان شاء اﷲ پورا اتروں گا۔‘‘ اس کے لہجہ میں بلا کا اعتماد تھا لیکن اِسی قسم کے اعتماد نے ہمیں تین بار دھوکہ دیا تھا۔
’’ٹھیک ہے تم جاسکتے ہو۔‘‘ میرے پاس بھی عارضی اور فرضی اعتماد کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ 
اس کے بعد باری باری مختلف نوجوان آتے گئے لیکن سوائے محمد عمر حیات، عبدالحمید اوراُسامہ فاروق کے اور کوئی مجھے متاثر نہ کرسکا۔ ادارے کو پہلے بھی تین ایجنٹ دھوکہ دے کر نقصان پہنچا چکے تھے۔ اس لیے اب کسی بھی شخص کو بَھرتی کرنے کے لیے ضروری تھا کہ اس کا امتحان لیا جائے۔ میں اِسی شش و پنج میں تھا کہ ان تینوں میں سے کون ادارے کے لیے بہتر ثابت ہوگا؟ 
’’سر نمازکا وقت ہو گیا ہے۔‘‘ چپڑاسی نے آکر اطلاع دی تو میں چونک اٹھا۔ آفس ساؤنڈ پروف ہونے کی وجہ سے اذان کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ مسجد کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے ایک انوکھے خیال نے میری مشکل حل کردی۔

*۔۔۔*۔۔۔*

وہ تینوں میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ تقریباً دو منٹ کی خاموشی کے بعد میں نے سکوت توڑا۔ ’’ہاں تو بھائیو! نوکری ہے ایک ۔۔۔اور افراد ہیں تین۔۔۔ مجھے جلد ازجلد ایک فرد کی تلاش تھی۔۔۔ لہٰذا تم لوگوں کا انٹرویو لیتے ہی میں نے ادارے کے تین افراد کو تم تینوں کے ایڈریس دے کر بھیجا اور تاکید کی کہ ان کے دوستوں اور محلے والوں سے معلوم کروکہ یہ تینوں کتنے ’’ایماندار‘‘ ہیں؟ ان تینوں نے آکر مجھے جو رپورٹ دی اس کے مطابق تو تم تینوں بہت ایماندار ہو اور پڑوسیوں کے علاوہ رشتہ داروں سے بھی مخلص ہو لیکن ۔۔۔‘‘ میں نے بات ادھوری چھوڑی۔
’’مگر کیا سر؟‘‘ وہ تینوں کورس کے انداز میں بولے۔
’’مگر وہ خاص ایمانداری والی خصوصیت تم تینوں میں سے صرف ’’ایک‘‘ میں پائی جاتی ہے۔‘‘
’’لیکن سر وہ ایک خوش نصیب کون ہے جو آپ اور آپ کے ادارے کی نظر میں ایماندار ہے۔ ‘‘ عبدالحمید کے لہجے میں تجسس بخوبی معلوم کیا جاسکتا تھا۔
’’وہ بھی بتا دوں گالیکن اس سے پہلے اس سوال کا جواب بھی دے دوں جو تم لوگ پوچھنا نہیں چاہتے۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ 
میرے خاموش ہوتے ہی ان کے چہروں پر پھیلے ہوئے تجسس اور بے چینی میں مزید اضافہ ہوگیا۔
’’سر ہم بہت بے چینی محسوس کر رہے ہیں۔‘‘ اُسامہ فاروق نے پہلو بدلتے ہوئے کہا۔
’’ تمہاری بے چینی ابھی چند لمحوں میں ختم ہوجائے گی۔‘‘ میں نے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا۔ ’’بات یہ ہے کہ اگر نوکری کا حقدار صرف ایک شخص ہے تو دوسرے دو اشخاص کو بلانے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔ اس کا جواب یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ باقی دو افراد کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوجائے تاکہ آئندہ وہ یہ غلطیاں نہ دہرائیں۔‘‘ 
میری بات سن کر وہ تینوں مجھ سے مزید مرعوب نظر آنے لگے۔ اب وہ بالکل خاموش ہوگئے۔۔۔ اور اپنی تمام توجہ میری جانب مبذول کردی۔ اس موقع پر اگر کوئی کاغذ بھی پھڑپھڑاتا تو ان تینوں کے چہروں پر ناگوار ی کے تاثرات اُبھر آتے۔ لیکن ۔۔۔اس وقت دفتر میں مکمل سکوت تھا۔ 
’’اس نوکری کے صحیح حقدار۔۔۔‘‘
بات ادھوری چھوڑ نا شاید میری عادت تھی۔ مگر اس وقت ان تینوں کے ہی دل دھڑک رہے تھے۔
’’مسٹر عمر حیات ہیں۔۔۔ کیوں کہ آپ دونوں کافی عرصے سے نماز کو ترک کیے بیٹھے ہیں جبکہ مسٹر عمر حیات پنجگانہ نماز باجماعت اداکرتے ہیں۔‘‘
’’لیکن سر۔۔۔‘‘
’’میں تمہاری بات سمجھ گیا ہوں۔‘‘ میں نے ان دونوں کو ٹوکتے ہوئے کہا۔ 
’’ لیکن حقیقت یہی ہے کہ جو شخص اپنے خالق ومعبود (رب) کے ساتھ بے ایمانی کر رہا ہو وہ شخص کسی ادارے کے ساتھ کیا ایمانداری کرے گا۔‘‘ میرے اس ایک جملے کی وجہ سے ان دونوں کے سرشرم سے جھک گئے تھے لیکن مجھے اُمید تھی کہ اب وہ اس غلطی کو عمر بھر نہیں دہرائیں گے اور یہی میری کامیابی تھی۔

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top