skip to Main Content

ہماری سکول بس

محمدعلی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج ایف۔ جی ۔ماڈل سکول آئی ۔ٹین ۔ ٹو اسلام آباد میں سہ ماہی امتحان شروع ہور ہے تھے۔ اسمبلی ہال میں تمام طلبہ جمع تھے۔ پہلا پرچہ اُردو کا تھا۔ تمام طالب علم خوب محنت کر کے آئے ہوئے تھے۔ اسمبلی کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا۔ اس کے بعد ایک بچے نے نعت شریف پڑھی۔ 
اسمبلی کے ختم ہوتے ہی تمام طلبہ لائینوں میں اپنی اپنی جماعتوں کی طرف روانہ ہوگئے۔ کمرہ جماعت میں سیٹوں پر اُن کے رول نمبر لکھے ہوئے تھے جن پر انھوں نے بیٹھنا تھا۔ تمام طلبہ اپنی مقررہ کردہ سیٹوں پر بیٹھ گئے۔ اب صرف پرچے کا انتظار باقی تھا۔ اس دوران کچھ طلبہ جوابی کاپی پر حاشیہ لگانے میں مصروف تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد پرچے سب طلبہ میں تقسیم ہوگئے تھے۔
’’یار پرچہ بڑا آسان آیا ہے۔ شکر ہے خدا کا اُس نے لاج رکھ لی۔‘‘ تمام طلبہ میں چہ مگوئیاں ہورہیں تھیں۔

اُن میں سے ایک طالب علم ایسابھی تھا جس کے دماغ میں کچھ اور ہی خیالات گردش کر رہے تھے۔ اس کا نام ریحان تھا۔ سکول میں سب سے دبلا پتلا طالب علم ہونے کا ریکاڈر اُ س نے قائم کیا تھا ۔ اُس کے اس پرچے کے بار ے میں عجیب قسم کے خیالات تھے۔ جو کہ تقریباً سچ ہی تھے۔
’’پرچہ تو آتا ہی آسان ہے۔ اگر کچھ نہیں آتا ہو پھر پرچہ بہت مشکل ہوتا ہے۔‘‘ریحان نے خود کلامی کی۔
ریحان نے پرچے پر نگاہ ڈالی۔ سب سے پہلا سوال یہ تھا۔
’’ہمار ی سکول بس‘‘پر 200سے 250 الفاظ میں مضمون لکھیں۔
’’ارے یار مارے گئے۔ میں تو میر اسکول مضمون یاد کر کے آیا تھا۔‘‘ ریحان نے غم زدہ لہجہ میں خود کلامی کی۔
’’ میرا سکول مضمون یاد کیا ہے۔ کوئی بات نہیں۔ اپنی طرف سے سکول بس کا مضمون بنا لیتا ہوں۔ چلو اس طرح ہی مضمون لکھ لیتا ہوں۔‘‘ ریحان نے خود کو تسلی دیتے ہوئے کہا
’’ہماری سکول بس‘‘ریحان نے کالے مارکر سے خوبصورتی کے ساتھ مضمون کا نام لکھا۔ بسمہ اﷲ الرحیم الرحمن پڑھ کر مضمون لکھنا شروع کیا۔
میرے سکول کا نام ایف ۔ جی ۔ ماڈل سکول
آئی ۔ٹین ۔ٹو اسلام آباد ہے۔ سکول بسیس تو بہت سی ہوں گی۔ لیکن ہماری سکول بس جیسی کوئی بس نہیں ہوگی۔ وہ بہت خوبصورت اور دلکش ،دلفریب بس ہے۔ اُس میں دو دروازے، پچاس سیٹیں، ایک کولر پانی کا اور پچیس کے قریب کھڑکیاں ہیں۔۔۔۔۔
ریحان نے چند سطور ہی لکھیں تو اُسے سر نور محمد کی بات یاد آئی جو اُنھوں نے مضمون لکھنے کے بارے میں بتائی تھی کہ مضمون میں چھوٹے چھوٹے اور سادہ فقرے استعمال کرنے چاہیے۔ اپنے مضمون میں کوئی غلط بات بالکل نہیں لکھنی چاہیے۔ ہمیشہ درست بات کو تحریر کرنا چاہیے۔
ریحان نے مضمون جہاں سے چھوڑا تھا وہاں سے آگے لکھنا شروع کیا۔
ہماری سکول بس جب اسٹارٹ ہوجائے۔ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آج پھر آفت کسی کے گلے میں پڑے گی۔ اﷲ تعالی ہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔(آمین)۔
کبھی خدانخواستہ بس میں سوار ہوگئے کہ گھر جلدی پہنچ جائیں گئے ۔لیکن بس کی مثال ایسی ہے کہ ایک پیدل آدمی بھی اس سے آگے نکل جائے۔

قدم قدم پر ایسے ڈولتی ہے کہ جیسے ہوا میں کٹی ہوئی پٹنگ ہو۔ جب غصے اس کے انجن میں پٹرول بن کر اُتر آئے’’سمجھو‘‘ باہر والوں کی خیرنہیں ہے۔۔۔۔۔
ریحان نے قلم کو سر میں کجھایا اور خود کلامی کرتے ہوئے کہا’’یار سر نے یہ بھی کہا تھا کہ موقع کی مناسبت کے مطابق اشعار کا استعمال بھی کرنا چاہیے۔‘‘
ریحان میں شاعر بننے کے تمام لوزامات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔کہیں جہگوں پر دوستوں نے اُس کے شعر سن کر خوب داد بھی دی تھی۔
ریحان نے سوچتے ہوئے کہا’’جب مضمون میں خود لکھ رہا ہوں تو اشعار بھی میرے پسند کے ہوں گے۔ ‘‘یہ کہہ کر ریحان نے جہاں سے مضمون چھوڑا تھا وہاں سے دوبارہ لکھنے لگا۔
بقلم شاعرہ:
قدم قدم پر یہ ڈولے
کبھی دھکے، کبھی ہچکولے
اندھا دھند جو بھاگتی جائے
تو چھوڑے دھوئیں کے مرغولے
چلتانہیں ہے اس پر بس
یہ ہے ہماری سکول بس
ریحان نے ایک شعر لکھنے کی بجائے پورا قطعہ لکھ دیا یہ سوچ کر کے اس سے مضمون کی خوبصورتی میں اضافہ ہوگا۔
سکول بس کی سیٹیں بہت خوبصورت اور انوکھی ہیں۔ انوکھی بات یہ ہے کہ جب سیٹ پرکوئی بیٹھے ، سیٹ اُس کا بوجھ برداشت نہیں کر سکے گی خود باخود نیچے چلی جائے گی۔ جو سیٹ پر بیٹھنا ہوتا ہے ایسا لگتا ہے وہ آرام کررہا ہے۔ سکول بس میں ایک بھی ہینڈل سلامت نہیں ہے جس کی مدد سے بس میں چڑھا جائے، سب اﷲتعالی کو پیارے ہوگئے ہیں۔ 
ہمارے سکول بس کی مثال ایسی ہے کہ:پکڑیں کھڑکی تو ہاتھ دروازہ آئے
ہمارے سکول بس میں بھی اﷲ کے فضل وکرم سے گئیر ہیں۔ جب ڈرائیور انکل کو زیادہ غصہ آتا ہے۔ تب وہ گئیر لگاتے ہیں۔ گئیر لگانے سے ایسا لگتا ہے جیسے کسی معصوم کی ہڈیاں توڑنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہو۔ گئیر لگانے کے بعد جو اس بے چاری بے جان بس پر ظلم ہوتا ہے،وہ اس کی برداشت سے باہر ہے۔ بس میں طلبہ ایک دوسرے کے اُوپر گرتے
ہیں۔جو طلبہ کھڑے ہوتے ہیں وہ بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بس کی بیٹری سے ہائے ہائے کی آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں۔ بیڑی اپنے آپ کو سنے لگتی ہے ۔ ریڈی ایڑ کا پیاس کے مارے بُرا حال ہوتا ہے۔ریڈی ایڑ صدائیں لگا رہا ہوتا ہے۔پانی۔۔۔۔۔پانی۔۔۔۔۔پانی۔۔۔۔۔
بریکوں سے بھی زور زور کی چیخوں کی آوازیں نکلتی ہیں۔ بریکیں کہتی ہے کہ مجھ ناکارہ چیز سے بھی محنت و مشقت لیتے ہو۔ خدا تم کو پوچھے گا۔ 
ایکسیلیٹر پاؤں سے چھوٹتا جاتا تھا۔ ٹائر بے چارے اپنے اُوپر ہونے والے ظلم و ستم کو سہار رہے تھے۔ بڑی لائٹوں کی آنکھوں میں سے آنسوؤں کا سیلاب رواں دواں تھا۔ چھوٹی لائٹیں اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو برداشت کر رہیں تھیں اور پوچھ رہی تھی کہ’’آخر کس جرم کی پائی ہے سزا‘‘
بس کے اندر بیٹھے طلبہ اپنی زندگی کی دعائیں مانگ رہے تھے ۔ اﷲتعالیٰ اس سکول بس کو اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔ (آمین)۔
’’کیوں کہ یہ ہے ہماری سکول بس‘‘
ریحان نے مضمون کا اختتام کرتے ہوئے خوش گوار موڈ میں ایک نظر گھڑی کو دیکھا جو ساڑھے دس بجا رہی تھی۔ ڈیڑھ گھنٹے میں اُسے باقی پرچہ بھی حل کرنا تھا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top