حل+واہ
محمد الیاس نواز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منوں حلوا سامنے رکھے بیٹھا ہے اور کھاتا نہیں،کہیں حلوائی اندھا…
رؤف پاریکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے ایک بات تو بتائیے۔۔۔ آپ کا کیا مشغلہ ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہمارے دوست عظیم نے ہمیں بتایا کہ ہر پڑھے لکھے، مہذب اور باذوق آدمی کا کوئی نہ کوئی مشغلہ ضرور ہوتا ہے تو ہم سوچ میں پڑگئے۔ اس وقت تک ہمارا کوئی مشغلہ نہ تھا۔
کیا ہم پڑھے لکھے نہیں؟
مہذب نہیں؟
باذوق نہیں؟
ہم نے اپنے آپ سے ایک سانس میں تین سوال کر ڈالے، جس سے ہماری سانس پھول گئی۔ جب سانس بحال ہوئی تو ہم اُٹھے اور آئینے کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ دانت پیس کر اور مکا ہوا میں لہرا کر ہم نے خود کو للکارا: ’’اُٹھ اور اپنے آپ کو پڑھا لکھا، مہذب اور باذوق ثابت کر۔
کیا تو جاہل ہے؟ ۔۔۔نہیں۔
کیا تو غیر مہذب ہے؟ ۔۔۔نہیں۔
کیا تو بدذوق ہے؟ نہیں، نہیں۔ ہرگز نہیں۔ تو پھر تیرا کوئی مشغلہ کیوں نہیں؟ اُٹھ اور کوئی مشغلہ پال اور اپنے آپ کو دوستوں میں سرخرو کر۔
یہاں پہنچ کر ہمیں علامہ اقبال یاد آگئے اور ہم جوش میں آکر ان کے مصرعے داغنے لگے جیسے دنادن توپ چل رہی ہو۔ مثلاً۔۔۔
خود ہی کو کر بلند اتنا کہ ہر مشغلے سے پہلے
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر
اُٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
لیکن علامہ اقبال کے ان جوشیلے مصرعوں نے ہم سے زیادہ ابا جان میں جوش پیدا کردیا جو برابر کے کمرے میں اخبار پڑھ رہے تھے۔ اُن کی آواز آئی: ’’رؤف بیٹے، طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘
یہ سنتے ہی ہم غڑاپ سے رضائی میں گھس گئے اور دل ہی دل میں مشغلوں کی فہرست بنانے لگے۔
ٹکٹ جمع کرنا، کرکٹ کھیلنا، تیراکی کرنا، کتابیں جمع کرنا، سکے جمع کرنا، پھول اُگانا، معلومات جمع کرنا، قلمی دوستی کرنا، کہانیاں لکھنا، جانور پالنا۔ یہ فہرست لمبی ہوتی چلی گئی اور خود ہمیں حیرت ہونے لگی کہ عین ہماری ناک کے آگے اتنے مشغلے پڑے ہوئے تھے اور آج تک ہمیں ایک نہ سوجھا۔۔۔ لعنت ہے ہماری ناک پر اور پتھر پڑیں ہماری سمجھ پر۔ یہاں پہنچ کر ہمارا حوصلہ اور اعتماد ذرا ہل گیا لیکن ہم نے فوراً علامہ اقبال کو مدد کے لیے آواز دی اور ان کی مدد سے اپنی خودی کو تھوڑا بلند کیا اور طے کیا کہ بس آج سے، ابھی، اسی وقت سے مشغلہ شروع۔
ہمارا پہلا مشغلہ کیا تھا؟ ٹکٹ جمع کرنا۔
اب ٹکٹ کہاں سے آئیں؟ گھر میں اِدھر اُدھر دیکھا۔ بڑی آپا کے نام ان کی ایک سہیلی نے امریکا سے ایک خط بھیجا تھا۔ اس پر ایک خوب صورت ٹکٹ لگا ہوا تھا۔ ہم نے فوراً لفافے پر قبضہ کیا لیکن تھے تو اناڑی۔ لفافے سے ٹکٹ اُتارنے کی کوشش میں ٹکٹ تو خیر پھٹ ہی گیا، لفافہ بھی تھوڑا سا پھٹ گیا۔ اتنے میں بڑی آپا بھی آگئیں۔ اُنھوں نے خط لینے اور بغیر اجازت ٹکٹ اُتارنے پر وہ اُدھم مچایا کہ ہمیں جان چھڑانی مشکل ہوگئی۔
اس کے بعد چار پانچ روز گزر گئے مگر کوئی ٹکٹ ہاتھ نہ لگا۔ یا اللہ! یہ لوگ جن کا مشغلہ ٹکٹ جمع کرنا ہوتا ہے، ٹکٹ کہاں سے حاصل کرتے ہیں؟ کسی نے بتایا کہ بعض دُکانوں پر استعمال شدہ ٹکٹ فروخت ہوتے ہیں تاکہ جو لوگ ٹکٹ جمع کرنے کا مشغلہ اختیار کرنا چاہیں، اُنھیں آسانی ہو لیکن ہم جب ایسی ہی ایک دُکان پر پہنچے تو استعمال شدہ ٹکٹوں کی قیمتیں سن کر ہمارے ہاتھوں کے توتے اُڑگئے۔ چنانچہ ٹھنڈے ٹھنڈے واپس گھر آگئے۔
گھر واپس آکر ہم بیمار مرغی کی طرح ’’جھورنے‘‘ لگے۔ دراصل ہم کوئی مشغلہ سوچ رہے تھے۔ آخر خاصی عقل خرچ کرنے کے بعد ہم نے ایک سستا سا مشغلہ تلاش کرہی لیا۔ اس طرح مشغلہ نمبر دو شروع ہوا۔ یہ تھا معلومات جمع کرنا۔ ہم نے ایک کاپی بنائی اور اس میں ساری دنیا کی معلومات لکھنے کا ارادہ کیا۔ ایک ہفتے بعد اس میں کچھ اس قسم کی باتیں لکھی ہوئی تھیں:
* دنیا کا سب سے لمبار دریا کون سا ہے؟ ابا جان نے کہا ہے کہ کسی کتاب میں سے دیکھ کر بتائیں گے۔
* دنیا میں سب سے زیادہ بارش کہاں ہوتی ہے؟ چھوٹی آپا کہتی ہیں کہ ایک جگہ ہے جس کا مشکل سا نام ہے۔ ابھی یاد تھا، ابھی بھول گئی۔ یاد آیا تو بتادوں گی۔ لیکن تمھیں کیا فرق پڑے گا؟ کون سا تم وہاں جاؤگے؟ اور جاؤ تو چھتری لے جانا۔
* ہوائی جہاز کب ایجاد ہوا اور کس نے ایجاد کیا؟ بھائی جان کہتے ہیں کہ میاں ہوا ہوگا ایجاد کبھی نہ کبھی اور کسی نہ کسی اللہ کے بندے نے ایجاد کردیا ہوگا۔ ہاں ہاں یاد آیا۔ کوئی دو بھائی تھے۔ کیا نام تھا بھلا سا؟ افوہ! ابھی یاد تھا۔ شاید وائٹ برادران، نہیں نہیں، ہائٹ برادران۔ خیر، چھوڑو لعنت بھیجو۔
جب ہم نے دیکھا کہ ہمارے بڑے ہماری معلومات میں کوئی اضافہ نہیں کرسکتے تو ہم نے خود ہی معلومات لکھنا شروع کردیں:
* بارش کے قطرے بادلوں سے نکل کر نیچے زمین کی طرف کیوں آتے ہیں؟ اوپر کیوں نہیں چلے جاتے؟
جواب: اس لیے کہ اُنھیں اوپر جانے کا راستہ معلوم نہیں۔
* کتا دُم کیوں ہلاتا ہے؟
جواب: اس لیے کہ دُم کتے کو نہیں ہلاسکتی ورنہ دُم کھڑی رہتی اور کتا ہلتا۔
* سورج کتنا گرم ہے؟
جواب: کبھی ہاتھ لگا کر نہیں دیکھا۔
معلومات سے بھری ہوئی یہ کاپی ایک روز ہم اسکول لے گئے اور دوستوں کو فخر سے دکھائی۔ اتفاق سے کسی لڑکے نے یہ کاپی سائنس کے اُستاد تک پہنچادی اور جب اُنھوں نے یہ معلومات کلاس میں پڑھ کر سنائیں تو پوری کلاس قہقہے مار کر ہنسنے لگی۔ اس دن کے بعد لڑکوں نے ہمارا نام ہی معلومات رکھ دیا۔
ہم نے اس مشغلے پر بھی لعنت بھیجی اور سکے جمع کرنے کی ٹھانی۔
سب سے پہلے ہم نے طے کیا کہ اپنے پیارے ملک پاکستان کے نئے اور پرانے سکے جمع کیے جائیں۔ اس کے بعد دنیا کے دوسرے ملکوں کے سکے بھی جمع کریں گے۔ پاکستان کے پرانے سکے تو ہمیں کہیں سے نہ مل سکے، اس لیے ہم نے نئے سکے ہی جمع کرنے شروع کردیے۔ دو دن میں ہمارے پاس جو سکے جمع ہوئے وہ یہ تھے:
دو روپے والے تین سکے
ایک روپے والے چار سکے
پانچ روپے والے دس سکے
دراصل یہ ہمارا دو دن کا جیب خرچ تھا اور یہ سب سکے مل کر ساٹھ روپے بنتے تھے۔ ہمارا یہ مشغلہ کامیابی سے چل رہا تھا اور ہم بہت خوش تھے لیکن خد اکا کرنا یہ ہوا کہ ہم نے اپنے گھر کی کھڑکی میں سے ایک بچے کو آئس کریم کھاتے دیکھ لیا۔ ہمارا دل للچاگیا لیکن جیب خرچ تو ہم لے چکے تھے۔ آخر ایک ترکیب سمجھ میں آئی۔ ہم نے جو سکے مشغلے کے طور پر جمع کیے تھے، وہ نکالے اور بازار سے آئس کریم لے کر کھالی۔ اس طرح ہمارا مشغلہ ہمارے پیٹ میں پہنچ گیا اور ہم پیٹ پر ہاتھ رکھ کر سوچنے لگے کہ اگلا مشغلہ کیا ہو؟
اگلا مشغلہ جو ہم نے اپنایا، وہ تھا کرکٹ کھیلنا، محلے میں کرکٹ ٹیم بنی ہوئی تھی۔ ہم اس میں شامل ہوگئے لیکن کچھ عرصے بعد اس مشغلے کو بھی ترک کرنا بڑا۔ وجہ؟ کوئی خاص نہیں۔ بس یوں ہی دو تین چھوٹی چھوٹی باتیں تھیں جو ہم کو ستاتی تھیں۔ مثلاً جب ہماری فیلڈنگ ہوتی تو ہم سے گیند نہ رُکتی اور نہ کیچ ہم پکڑ سکتے۔ باؤلنگ اوّل تو کپتان دیتا نہیں تھا اور باؤلنگ ملتی تو وہ پٹائی ہوتی کہ توبہ ہی بھلی۔ یہی نہیں، اصل ظلم تو اس وقت ہوتا جب سارے دن کی فیلڈنگ کے بعد ہماری بیٹنگ آتی اور مخالف ٹیم کے باؤلر جان بوجھ کر ایسی گیند کراتے جو ہمیں نظر ہی نہ آتی اور ہم انڈا لے کر آجاتے۔
اس سارے عرصے میں ہم نے صرف ایک کیچ پکڑا اور وہ اس طرح کہ ہم ہاتھ اُٹھا کر خدا سے دعا مانگ رہے تھے کہ یا خدا! میچ جلدی سے ختم کرادے تاکہ ہم گھر جاکے سوجائیں کہ دعا کے لیے اُٹھے ہوئے ہمارے ہاتھوں میں شپ سے کوئی چیز آکر پھنس گئی۔ ’’آؤٹ! آؤٹ!‘‘ کا شور مچا۔ ہم نے غور سے دیکھا تو ہمارے ہاتھوں میں گیند تھی۔ ہم نے کیچ پکڑا تھا لیکن ہم سمجھ گئے تھے کہ اس طرح کام نہیں چلے گا۔ اس لیے ایک اور مشغلہ اپنایا۔
اب ہمارا مشغلہ تھا کتابیں جمع کرنا لیکن ہمیں جلد ہی پتا چل گیا کہ کتابیں بہت مہنگی ہوتی ہیں۔ مگر ہم ہمت ہارنے والے نہ تھے۔ ہم نے اس کا بھی ایک علاج تلاش کرلیا۔ ہم باری باری سب دوستوں، رشتے داروں کے گھر جاتے اور ہر ایک سے ایک نہ ایک کتاب مانگ لاتے۔ کسی سے کہانیاں اور ناول مانگ لیے، کسی سے ڈکشنری لے لی، کسی سے نظموں کی کتابیں اُدھار مانگ لائے۔ تھوڑے ہی عرصے میں ہمارے پاس چالیس پچاس کتابیں جمع ہوگئیں جو ہم نے ایک شیلف میں سجادیں۔ یہ شیلف بھی ہمیں اپنے خالو سے اُدھار لانا پڑا تھا۔ اس کے بعد جو بھی گھر آتا، اسے ڈھیر ساری کتابیں دکھا کر خوب رعب جماتے۔ لیکن وہی ہوا جس کا ڈر تھا یعنی جن لوگوں سے ہم کتابیں اور شیلف لائے تھے، اُنھوں نے بے صبری دکھانی شروع کردی۔ ایک پڑوسی نے تو ایسا جھگڑا کیا کہ سارا محلہ سر پر اُٹھالیا۔ ایک اور صاحب مرنے مارنے پر تُل گئے۔ آخر گھر والوں نے سب کو ان کی کتابیں واپس دے دیں اور ہماری ایسی مرمّت کی کہ چھٹی کا دودھ یاد آگیا۔ چنانچہ ہم نے اس مشغلے پر بھی تین حرف بھیجے اور کوئی نیا مشغلہ سوچنے بیٹھے۔
سوچتے سوچتے ایک ایسا مشغلہ ہمارے ذہن میں آیا جس میں کوئی گڑبڑ نہیں تھی بلکہ مشہور ہونے کا امکان بھی تھا۔ یہ مشغلہ تھا کہانیاں لکھنا۔ ہم نے ردی فروش سے کچھ پرانے رسالے خریدے اور کچھ ہی دنوں بعد ہماری لکھی ہوئی کئی کہانیاں بچوں کے رسالوں کو روانہ ہوگئیں۔ اب ہم اس انتظار میں تھے کہ کب رسالے آئیں اور ہم مشہور ہوجائیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ رسالوں کے ایڈیٹروں نے بھی یہ سوچ رکھا تھا کہ اسے کوئی مشغلہ نہیں اپنانے دیں گے۔ کسی نے بھی ہماری کہانی نہیں چھاپی۔ ایک ایڈیٹر صاحب نے تو خط بھی لکھا کہ چوری کی کہانیاں بھیجنا بُری بات ہے۔ محنت کرکے خود لکھو۔ آخر ہم نے تنگ آکر تمام مشغلوں کو خدا حافظ کہہ دیا اور اپنے دوستوں میں صاف صاف اعلان کردیا کہ ہمارا کوئی مشغلہ نہیں ہے۔ ہم نہ تو پڑھے لکھے ہیں، نہ مہذب ہیں اور نہ باذوق اور یہ کہ آیندہ ہم سے یہ نہ پوچھا جائے کہ ہمارا مشغلہ کیا ہے۔
ویسے ایک بات تو بتائیے ۔۔۔آپ کا کیا مشغلہ ہے؟
*۔۔۔*
اس تحریر کے مشکل الفاط
مشغلہ: شغل
سُرخ رُو: کامیاب
ہاتھوں کے توتے اڑجانا: بے حواس ہوجانا
ٹھنڈے ٹھنڈے: آرام سے یا چپ چاپ
چھٹی کا دودھ یاد آنا: امن کا زمانہ افسوس کے ساتھ یاد آنا