skip to Main Content

ہمارے آقا ﷺ

علی اصغر چودھری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاتھیوں والا سال
پیارے بچو!آپ نے مکہ شریف کانام کئی بار سنا ہوگا اور اس پیارے شہر کو اکثر ٹی‘وی پر بھی دیکھا ہوگا۔یہ اس قدر پیارا شہر ہے کہ خود اللہ پاک نے قرآن مجید میں اس شہر کی قسم کھائی ہے۔یہ شہربیت اللہ شریف یعنی اللہ کے گھر کی وجہ سے ،جسے کعبہ شریف بھی کہتے ہیں‘مشہورہے‘اور آج سے تقریباًساڑھے چودہ سو سال پہلے بھی اس گھر کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔اس زمانے میں ملک یمن کا ایک حکمران ابرہہ تھا۔جس کو اس گھر کی شہرت سے حسد پیدا ہوا۔اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ حسد کی وجہ سے بڑی خرابیاں اور تباہیاں ہوتی ہیں ۔اس حکمران نے بھی ارادہ کر لیا کہ اس گھر کو تباہ کر دیا جائے۔
چنانچہ یہ ارادہ لیے ہوئے وہ اپنی ساٹھ ہزار فوج کے ساتھ روانہ ہوا جس میں نو ہاتھی بھی شامل تھے اور مکہ شریف کے قریب پہنچ کر رک گیا تا کہ اس کی فوج ایک لمبے سفر کے بعد کچھ آرام کر لے ۔اس کے سپاہیوں نے مکہ شریف کے سردار جناب عبدالمطلب کے ان اونٹوں کو پکڑ لیاجو وہاں چر رہے تھے ۔ان کا ارادہ یہ تھا کہ انہیں ذبح کر کے کھا جائیں ۔لیکن جب اس کی خبر سردار عبدالمطلب کو ملی تو وہ ابرہہ کے پاس پہنچے اور اس سے ان اونٹوں کو واپس کرنے کے لیے کہا مگر ابرہہ حیران ہو کر بولا۔
’’میں تو تمہارے کعبے کو گرانے آیا ہوں اور تم اس کے متعلق بات کرنے کی بجائے مجھ سے اونٹوں کی واپسی کے لیے کہہ رہے ہو۔‘‘
سردار مکہ نے جواب دیا۔
’’اے بادشاہ میں تو صرف اپنے اونٹوں کا مالک ہوں اور انہیں کے بارے میں تم سے درخواست کر رہاہوں ۔رہا کعبہ تو اس کامالک اللہ ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا۔‘‘
ابرہہ نے بڑے تکبر سے کہا:
’’تمہارا اللہ بھی اس کو مجھ نہ بچا سکے گا ۔‘‘
سردار مکہ نے اس کی طرف بغور دیکھا اور بولے :
’’تم جانو۔۔۔۔۔اور وہ جانے ‘‘
اور اس کے بعد اپنے اونٹ لے کر واپس مکہ شریف میں آگئے۔
دیکھا بچو !تکبر کی حد ہو گئی ہے۔ابرہہ اپنے آپ کوا للہ پاک سے بھی زیادہ زور والا سمجھ رہا تھا۔ حالانکہ اللہ سے بڑا کوئی بھی نہیں ہے۔
گھر واپس آکر سردار عبدالمطلب بڑے بڑے آدمیوں کو ساتھ لیے حرم شریف میں داخل ہوئے اور کعبہ کا غلاف اٹھا کر دعا کی اور بلند آواز سے کہا ۔
’’ خدایا۔بندہ اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے ،تو بھی اپنے گھر کی حفاظت کر۔ اس گھر کا دشمن تیرا دشمن ہے۔اپنی بستی کو تباہ کرنے سے ان کو روک دے ‘‘
پیارے بچو۔دعا کرنے کے بعد یہ عزت والے لوگ شہر کو چھوڑ کر پہاڑوں میں چھپ گئے تا کہ ابرہہ کے ظلم و ستم سے محفوظ رہیں ۔
دوسرے دن سورج نکلنے کے بعد ابرہہ نے اپنی فوج کوحکم دیا کہ کعبہ شریف گرانے کے لیے آگے بڑھے۔چنانچہ فوج اس طرح روانہ ہوئی کہ اس کہ آگے آگے ہاتھی تھے جن میں سے ایک پر ابرہہ سوار تھا ۔ مکہ کے لوگ خوف کے مارے پہاڑوں پر بیٹھے فوج کو دیکھ رہے تھے ۔وہ کمزور تھے اس لیے فوج کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے لیکن اس گھر یعنی کعبہ شریف کا مالک ۔۔۔۔۔اللہ پاک۔۔۔۔۔تو کمزور نہیں ہے۔اس کی قدرت ہر چیز اور ہر تجویز پر غالب ہے۔جو نہی یہ فوج ذرا آگے بڑھی تو آسمان پر دیکھتے ہی دیکھتے ابابیلوں کے جھنڈ نظر آنے لگے۔ آپ نے ابابیل تو دیکھا ہو گا۔ یہ ایک چھوٹا سا پرندہ ہوتا ہے ۔اللہ نے ان ابابیلوں کو اپنا لشکر بنا کر ابرہہ کی فوج کا مقابلہ کر نے کاحکم دیا۔
پیارے بچو !اس دلچسپ مقابلے پر ذرا غور کرو۔ایک طرف ابرہہ کی ساٹھ ہزار فوج اور نو ہاتھی تھے اور دوسری طرف ابابیلوں کا لشکر،لیکن ہوا یہ کہ ابابیلوں نے اس فوج پر سنگریزوں (پتھر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں )کی بارش برسا دی ۔جنہیں وہ اپنے پنجوں اور اپنی چونچ میں پکڑ کر لائے تھے ۔اللہ پاک کی قدرت سے پتھر کے ٹکڑے ابرہہ کی فوج پر بم بن کر گِرے اور تھوڑی ہی دیر میں یہ سارا لشکر خاک و خون میں تڑپنے لگا۔خود ابرہہ کا جسم یہ پتھر لگنے سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑا۔
ابرہہ جو ایک روز پہلے سردار عبدالمطلب سے کہہ رہا تھا کہ اس گھر کو میرے ہاتھ سے تمہارااللہ بھی نہیں بچا سکتا۔آج اس گھر کے مالک ۔۔۔اللہ پاک۔۔۔کے بھیجے ہوئے چھوٹے چھوٹے پرندوں کے پتھراؤ سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ختم ہو گیا اور اللہ پاک کا گھر سلامت رہا۔اللہ پاک نے یہ داستان قرآن پاک میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دی جو سورہ الفیل کے نام سے تیسویں پارے میں ہے تاکہ لوگ قیامت تک یہ نہ بھولنے پائیں کہ ہر متکبر کا یہی انجام ہوتا ہے اور اللہ ہر قدرت کا مالک ہے ۔وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔
یہ واقعہ مارچ ۵۷۱ء میں پیش آیا ۔یہ سال عام الفیل (ہاتھیوں والاسال)کے نام سے مشہور ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے آقا حضور کی ولادت
ابرہہ کی بربادی والے واقعے کو چالیس یا پچاس دن گزرے تھے کہ ۲۲اپریل ۵۷۱ء پیر کے دن ربیع الاول کی نو تاریخ تھی جبکہ موسم بہار اپنے جو بن پر تھااور سورج طلوع ہوئے تھوڑی دیر گزری تھی کہ سردار عبدالمطلب کے مرحوم فرزند جناب عبداللہ کی ایک لونڈی ام ایمن ان کے پاس اس وقت بھاگتی ہوئی آئی جب وہ کعبہ شریف کی دیوارسے ٹیک لگائے ہوئے تھے ۔اسے اس طرح بھاگتے ہوئے دیکھ کر وہ پریشان ہو گئے اور آہستہ سے بولے ’’یا اللہ خیر ہو۔‘‘
’’سردار آپ کو مبارک ہو۔آپ کے مرحوم بیٹے عبداللہ کے گھر لڑکا پیدا ہوا ہے۔‘‘
سردار عبدالمطلب کے فرزند جناب عبداللہ اپنے اس بیٹے کی پیدائش سے چند ماہ پہلے فوت ہو چکے تھے۔۔وہ بہت پیارے اور اپنے والدین کی آنکھوں کا تارا تھے۔سردار عبدالطلب کو یہ خوشخبری سن کر بہت خوشی ہوئی اور اسی وقت اپنے مرحوم فرزند جناب عبداللہ کے گھر پہنچے ۔جہاں ان کی بہو اور جناب عبداللہ کی بیوہ سیدہ آمنہ بچے کے پاس موجود تھیں۔
بچہ بہت خوبصورت اور پیارا تھا۔عزیز ساتھیو!آپ بھی اپنے ماں باپ کی آنکھوں کا تارا ہیں اور ان کی نظر میں بہت خوب صورت اور پیارے ہیں لیکن سردار عبدالمطلب کے پوتے جناب عبداللہ کے بیٹے اور سیدہ آمنہ کے لخت جگر تو ہمارے آقا حضورﷺ جو اللہ کے بعد سب سے بڑے ہیں ۔وہ نہایت ہی خوبصورت تھے۔اور ان کے جسم سے بھینی بھینی خوشبو آرہی تھی۔سردار عبدالمطلب نے انہیں پیار کیا۔ان کے لیے دعا کی اور خوشی خوشی واپس چلے گئے۔
تین دن تک توہمارے آقا حضورکو آپﷺ کی والدہ محترمہ سیدہ آمنہ نے دودھ پلایااور اس کے بعد ثوبیہ دودھ پلانے لگی آپﷺ کی ولادت کے سات دن بعد آپﷺ کے دادا سردار عبدالمطلب نے قربانی کی۔ قریش کو دعوت دی اور بڑی خوشی کا اظہار کیا۔ جب لوگ کھانا کھا کر فارغ ہوئے تو ایک آدمی نے پوچھا:
’’سردار آپ نے اپنے پوتے کانام کیا رکھا ہے؟‘‘
سردار عبدالمطلب نے خوشی سے جھومتے ہوئے کہا، ’’محمدﷺ‘‘لوگ اس عجیب و غریب نام کو سن کر حیران رہ گئے اور دوسرے آدمی نے کہا:
’’سردار آپ نے اپنے خاندانی ناموں کی بجائے یہ عجیب سانام کیوں رکھا‘‘
سردار عبدالمطلب نے کہا:
’’میں چاہتا ہوں کہ میرا بچہ دنیا بھر کی تعریف کامرکز ہو۔ آسمان پر بھی اس کی تعریف ہو اور زمین پر بھی یہ خالق کو پیارا ہو اور مخلوق کو بھی۔ ‘‘
پیارے بچو! لفظ محمدﷺ کے یہی معنی ہیں اور ہمارے آقا حضورﷺ کا پیارا نام محمدﷺ ہی ہے۔ اس نام میں بہت مٹھاس ہے اور جب یہ مبارک نا م لیا جائے یا سنا جائے تو آقا حضورﷺ پر درود سلام بھیجنا چا ہیے۔
پیارے بچو! چھوٹے سے چھوٹا درود شریف یہ ہے اسے یاد کر لیں ۔
اللھم صلی علی سیدنا محمد و بارک و سلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بی بی حلیمہؓ کے خیموں میں
عزیز دوستو!عرب میں یہ دستور تھا کہ اونچے گھرانوں کی شہری عورتیں اپنے بچو ں کو خود دودھ نہیں پلاتی تھیں ۔بلکہ دیہات سے غریب عورتیںآیا کرتی تھیں اور ان بچوں کو اجرت پر دودھ پلانے کے لیے اپنے ساتھ گاؤں میں لے جاتی تھیں ۔اس سال جو عورتیں مکہ شریف میں اس مقصد سے آئی تھیں ‘ان میں قبیلہ بنو سعد کے ابی زوہب کی بیٹی حلیمہؓ بھی تھی ،جو اپنے شوہر حارث بن عبدالعزی کے ساتھ تھی۔ غربت کی وجہ سے اس کا بیٹا عبداللہ بھی مناسب مقدار میں دودھ نہ ہونے کی وجہ سے اکثر روتا رہتا تھا۔ ان کی بکریاں بھی دبلی کم دودھ دینے والی تھیں۔ ان کا گدھا اور اونٹ دونوں ہی کمزور تھے۔حلیمہؓ مکہ شریف میں اس وقت پہنچی جب اس کی ساتھی عورتیں شہر کے امیر گھرانوں میں دودھ پینے والے بچے حاصل کر چکی تھیں اور اب صرف ہمارے آقاحضورﷺ ہی باقی رہ گئے تھے۔وہ آپﷺ کے گھر گئی اور آپﷺ کی والدہ محترمہ سیدہ آمنہ سے ان کے نور نظر جناب محمدﷺ کو اجرت پر دودھ پلانے کے لیے لے آئی۔
پیارے بچو ۔ہمارے آقا حضورﷺ کی برکت سے بی بی حلیمہؓ کی بکریوں کا دودھ بڑھ گیا اور جب یہ اپنے گاؤں کو واپس روانہ ہوئیں تو ان کے اونٹ اور گدھے کی رفتار بھی تیز ہو گئی تھی۔ہمارے آقا حضورﷺ نے کچھ عرصہ تک بی بی حلیمہؓ کا دودھ پیا۔اور تقریباًچار سال تک بنو سعد کے خیموں میں پرورش پاتے رہے ۔اس دورا ن بی بی حلیمہؓ آپ کوکئی بار لے کر مکہ شریف آئیں تاکہ آپﷺ کی والدہ محترمہ آپﷺ کو دیکھ کر خوش ہوں ۔بنو سعد کی بستی میں آپ بی بی حلیمہؓ کی بیٹی شیما اور اس کے بھائی عبداللہ کے ساتھ کھیلا کرتے تھے جہاں کھلی ہوا اور مناسب پرورش کی وجہ سے آپ کی صحت قابل رشک ہوگئی تھی ۔بی بی حلیمہ اور ان کا خاندان ہمارے آقا حضورﷺ کو اپنے پاس زیادہ سے زیادہ عرصے تک رکھنا چاہتے تھے تا کہ آپﷺ کی برکت کا فیض حاصل کرتے رہیں ۔لیکن سیدہ آمنہ کو اب اپنے نور نظر کی جدائی گوارا نہ تھی ۔اس لیے بی بی حلیمہؓ نے آپ کو سیدہ آمنہ کے سپرد کر دیا اور اپنی مزدوری اور انعام لیے ہوئے واپس اپنے گاؤں چلی گئی ۔
بنو سعد کے لوگ مدتوں تک ہمارے آقا حضورﷺ کے معصوم بچپن کی باتیں کیا کرتے تھے اور آپﷺ کی پیاری اور دل کولبھانے والی عادتوں کو یاد کر کے خوش ہوا کرتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آقا حضورﷺ دادا کے انتقال تک
پیارے بچو ۔آپ نے مکہ شریف کی طرح مدینہ شریف کو بھی اکثر ٹی وی پر دیکھا ہوگا۔یہ شہرمکہ شریف سے تقریباً۲۷۵میل شمال میں واقع ہے اور ہمارے آقا حضورﷺ کی مسجد اور آپﷺ کے سبز گنبد والے روضہ مبارک کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔اس شہر کو اس زمانے یثرب کہتے تھے۔ ہم آگے چل کر آپ کو بتائیں گے کہ اس کانام مدینہ شریف کیسے پڑا ۔
اس شہر میں ہمارے آقا حضورﷺ کے والد محتر م جناب عبداللہ دفن تھے اور وہ آپﷺ کی پیدائش سے چندماہ پہلے ملک شام سے ایک تجارتی قافلے کے ساتھ واپس آرہے تھے کہ اس شہر میں بیمار پڑے اور چند دن بعد فوت ہو گئے ۔ ان کے عزیزوں نے انہیں یہیں دفن کر دیا تھا۔
جب ہمارے آقا حضورﷺ کی عمر چھ سال کی ہوئی تو آپ کی والدہ محترمہ سیدہ آمنہ اپنے سسر سردار عبدالمطلب سے اجازت لے کر یثرب پہنچیں تا کہ اپنے مرحوم شوہر کی قبر کی زیارت کر سکیں ا ن کے ساتھ ہمارے حضورکے علاوہ آپﷺ کی نوجوان لونڈی ام ایمن بھی تھی جس کی عمر اس وقت تقریباً سولہ سترہ سال تھی۔جب کہ آپﷺ کی والدہ محترمہ کی عمر اندازاً تیس سال تھی۔
یثرب میں سیدہ اپنے عزیزوں کے ہاں ایک ماہ تک رہیں ۔اس عرصے میں ہمارے آقا حضورﷺ کے بہت سے ہم جولی بن گئے تھے اور آپﷺ نے اپنے ننھیال بنو نجار کی باولی (حوض ) میں تیرنا بھی سیکھ لیاتھا۔بچے آپﷺ کے ساتھ کھیلنے کوپسند کرتے تھے کیونکہ آپ کو لڑائی جھگڑ اپسند نہ تھا ۔جب ایک ماہ کے بعد سیدہ آمنہ یثرب سے واپس مکہ شریف روانہ ہوئیں تو آپ ﷺ کے ہم جولی بہت اداس ہوئے ۔وہ چاہتے تھے کہ آپﷺ وہاں سے نہ جائیں ۔جب سیدہ آمنہ واپسی پر ابواء کے مقام پر پہنچیں تو یکایک بیمار پڑیں اور جلد ہی فوت ہوگئیں ۔یہ عجیب درد ناک نظارہ تھا کہ چھ سال کا ایک معصوم بچہ اور سولہ سترہ سال کی لونڈی سیدہ آمنہ کی میت کے پاس انتہائی دکھ، غم اور بے بسی کے عالم میں موجود تھے اور خاندان کا کوئی بزرگ وہاں نظر نہیں آتاتھا۔گاؤں والوں نے سیدہ آمنہ کو دفن کیااور ام ایمن ہمارے آقا حضورﷺ کولیے اونٹنی پر سوار جوں توں کر کے مکہ شریف پہنچی۔
سردار عبدالمطلب اپنے پوتے کی اس یتیمی پر رو دیے اور انہوں نے انتہائی شفقت سے آپﷺ کو اپنے کلیجے سے لگا لیا ۔
آپﷺ کے دادا نے بڑی محبت سے آپﷺکی پرورش کی وہ آپ کو اپنے ساتھ اس گدی پر بٹھاتے تھے جو صرف سردار مکہ کے لیے مخصوص تھی اور کوئی دوسرا اس پر نہیں بیٹھ سکتا تھا۔یہ دادا کی اپنے پوتے کے ساتھ انتہائی محبت کا ثبوت تھا۔دن گزرتے گئے اور جب ہمارے آقا حضورﷺ کی عمر آٹھ سال دو ماہ اور دس دن کی ہوئی تو آپ کے دادا سردار عبدالمطلب بھی انتقال کر گئے۔جس کا آپ ﷺ کو بہت صدمہ ہوا اور آپ کو اپنی یتیمی اور تنہائی کا شدت سے احساس ہونے لگا ۔آپﷺ اپنے دادا کے جنازے کے ساتھ ساتھ روتے جاتے اور بار بار اس سے لپٹ جاتے تھے۔
دادا کے انتقال کے بعد ہمارے آقا حضورﷺ بہت غمگین رہنے لگے تھے۔کیوں کہ اس دنیا سے آپﷺ کے باپ‘ماں اور مہربان داداایک ایک کر کے سب جا چکے تھے ۔اسی اداسی اور غم میں آپ ﷺ کے والد مرحوم کی لونڈی ام ایمن تھی۔جو آپﷺ کی تمام ضروریات کاخاص خیال رکھتی تھی اور ہر وقت پیارو محبت سے دل بہلایا کرتی تھی۔
پیارے بچو یہی وہ نیک خاتون ہیں جسے ہمارے آقا حضورﷺ نے اپنی زندگی میں بارہا امی بعد امی کہا ہے اور حقیقی ماں کی طرح ان کی تعظیم کی ہے ۔یہ بڑے نصیب والی خاتون ہیں جن کے لیے آقا حضورﷺ اپنی چادر مبارک زمین پر بچھا دیا کرتے تھے تا کہ وہ اس پر بیٹھیں ۔پیارے بچو! ہمارے آقا حضورﷺنے ماں کی خدمت اور اس کی تعظیم کرنے کا ایسا عملی سبق دیا ہے جو قیامت تک نیک اولادوں کو اس پر عمل کرنے کی دعوت دیتا رہے گا ۔اگر ہمیں آقا حضورﷺ سے محبت کا دعویٰ ہے تو ہمارا فرض ہے ان کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے اپنی ماؤں کی خدمت کریں اور ان سے بڑے ادب کے ساتھ پیش آیا کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔

آقا حضورﷺ اور ان کے شفیق چچا
عزیزدوستو!ہمارے آقاحضورﷺ کے والد محترم کا انتقال آپ کی پیدائش سے چند ماہ پہلے ہو گیا تھا۔والدہ محترمہ اس وقت فوت ہو گئیں جب آپﷺ کی عمر مبارک چھ سال تھی پھر پرورش کی ذمہ داری آپ ﷺ کے دادا نے سنبھالی ۔اور جب آپ آٹھ سال دو ماہ اور دس دن کے ہوئے تو آپﷺ کے یہ بزرگ دادا بھی چل بسے۔ اس طرح آپ ﷺ اس دنیا میں بالکل تنہا رہ گئے ۔
آپ ﷺ کے بزرگ دادا بہت دور اندیش شخص تھے۔ انہوں نے اپنی موت سے کچھ دن پہلے اپنے بیٹے ابو طالب کو بلا کر وصیت کی تھی کہ میرے بعد اپنے اس یتیم بھتیجے کی پرورش نہایت ہمدردی اور محبت سے کرنا۔(بچو۔بعض تاریخ دان یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دوسرے بیٹے زبیر کو یہ وصیت کی تھی) چنانچہ جب سردار عبدالمطلب فوت ہوئے اور ان کی جگہ جناب ابو طالب سرداری کی گدی پر بیٹھے تو پہلی فرصت میں وہ ہمارے آقا حضورﷺ کو اپنے گھر میں لے آئے جہاں بڑی محبت سے اپنے بچوں کی طرح ان کی پرورش کرنے لگے ۔حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں سے بڑھ کر آپ کی خدت کی اور آقا حضور ان کے اس احسان کو سا ری عمر یاد کیا کرتے تھے ۔
جناب ابو طالب کے گھر میں یہ رواج تھا کہ کھاناایک جگہ رکھ دیا جاتا تھا اور سب بچے اکٹھے ہو کر اس پر ٹوٹ پڑتے اور لوٹ کھسو ٹ شروع ہو جاتی ۔مگر پیارے بچو ۔ہمارے آقا حضورﷺ نے کبھی اس لوٹ میں حصہ نہیں لیا ۔بلکہ چپ چاپ زمزم کے کنویں پر جاتے اور اس کا پانی پی کر صبر کرتے تھے کیوں کہ اس پانی میں یہ اثر ہے کہ وہ بھوک اور پیاس دونوں کو دور کرتا ہے اور کئی بیماریوں سے نجات دیتا ہے۔
اسی طرح کئی دن گزر گئے لیکن ایک دن آپ کی محترمہ چچی فاطمہ بنت اسد نے یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان کے بھتیجے اس لوٹ میں شامل نہیں ہوئے اور زمزم کے کنویں کی طرف چلے گئے ہیں ۔انہیں بہت افسوس ہوا کہ ان کا بھتیجا بھوکا رہتا ہے۔اس لیے جب آپ واپس گھر میں آئے تو انہوں نے کہا:
’’بیٹا ‘بھوکارہنے کی بجائے تم نے یہ بات مجھے کیوں نہ بتائی؟ میں تمہاراالگ بندو بست کر دیتی ۔‘‘
لیکن آپ نے فرمایا:
’’امی جان!میں زم زم کا پانی پی کر گزارہ کر لیتا ہوں ۔‘‘
آپ کی چچی صاحبہ آپ کی اس شرافت ‘صداقت اور صبر سے بہت متاثر ہوئیں اور انہوں نے دوسرے دن سے ہمارے آقاحضورﷺ کے کھانے کا بالکل علیحدہ بندوبست کر دیا۔تا کہ دوبارہ آپ ﷺ کو ایسی پریشانی نہ ہو ۔پیارے بچو! ہمارے آقا حضورﷺ کی یہ چچی صاحبہ حضرت علیؓ کی والدہ ہیں جنہوں نے آپﷺ کو اپنی حقیقی اولادکی طرح پرورش کیا اور حقیقی ماں کی طرح آپ ﷺ کی تمام ضروریات کا خیال رکھا ۔وہ دل و جان سے آپ کو چاہتی تھیں۔ آپﷺ کی پیارے پیاری عادتیں بھی ایسی ہی تھیں کہ ہر کوئی آپﷺ سے پیار کرتاتھا۔ان کے اس عمدہ سلوک کا یہ اثر ہوا کہ ہمارے آقا حضورﷺ نے انہیں بھی امی کے بعد امی کہااور بالکل حقیقی ماں کی طرح سمجھا ۔اس واقعے سے آپ یقیناًسمجھ گئے کہ ہمارے آقا حضورﷺ کے نزدیک ماں کا درجہ کتنا بلند ہے آپﷺ فرمایا کرتے تھے :
’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔‘‘
یعنی ماں کی خدمت کرنے والا جنت میں جائے گا ۔
پیارے بچو ! ام ایمن نے یہاں بھی آپﷺ کی بہت خدمت کی ۔آپﷺ کے چچا اور چچی دونوں آپﷺ کو بہت چاہتے تھے ۔اور اس گھر میں آپﷺ کو حقیقی والدین کا پیار ملا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ کی دعا اور بارش
پیارے بچو!ہمارے آقاحضور ابھی نوجوان تھے کہ ایک دفعہ مکہ شریف میں قحط پڑ گیااور لوگ بھوکے مرنے لگے ۔بارش نہ ہونے کی وجہ سے فصلیں سوکھ گئیں۔ جھاڑیاں اور گھاس بالکل خشک ہو کر رہ گئے۔بکریاں بھوک کی تاب نہ لاکر بہت دبلی ہوگئیں ۔اونٹ مریل سے ہو گئے تھے ۔اس وقت لوگ بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے۔اس لیے انہوں نے بارش بر سانے کے لیے اپنے بتوں سے خوب فریادیں کی۔روئے پیٹے کئی جانور قربان کیے مگر ان سب کی یہ کوشش بے کار گئی اور بارش بالکل نہ ہوئی۔بچو! یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کی بارش برسانے یا نہ برسانے کا سارا اختیار صرف اللہ پاک کو ہے کیونکہ وہی تو سب کا خالق اور قدرتوں کا مالک ہے ۔اسے چھوڑ کر لوگ جب دوسروں کو پکاریں گے تو ان کی شنوائی کیسے ہو گی۔
آخر کار تنگ آکر اور بالکل مایوس ہوکر لوگوں کا ایک گروہ ہمارے آقا حضورﷺ کے بزرگ چچا جناب ابو طالب کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے بارش کی دعا کرنے کی درخواست کی ان لوگوں کاخیال تھا کہ سردار عبدالمطلب کے بعد ان کے بیٹے (جناب ابو طالب )اب کعبہ شریف کے نگران ہیں ۔اس لیے اس بلند مرتبے کی وجہ سے انکی دعا قبول ہو گی اور بارش ہو جائے گی۔چنانچہ لوگوں کی فریاد سن کر جناب ابو طالب نے اپنے بھتیجے اور ہمارے آقا حضورﷺکو اپنے ساتھ لیا ۔لوگوں کو پیچھے آنے کے لیے کہا اور خود کعبہ شریف کی طرف روانہ ہوگئے۔
؂ یہ لوگ جب کعبہ شریف کے صحن میں جمع ہوئے تو گرمی کی شدت تھی۔زمین و آسمان تپ رہے تھے ۔بادل کا کہیں دوردور تک نشان نہ تھا۔اس عالم میں جناب ابو طالب نے اپنے پیارے بھتیجے کو کعبہ شریف کی دیوار کے ساتھ کھڑا کر کے کہا:
’’بیٹے۔اللہ پاک سے بارش کی دعا کرو ۔اللہ تمہاری دعا قبول کرے گا۔‘‘
آپ نے آسمان کی طرف دیکھا ۔اپنی مبارک انگلی سے اشارہ کیا اور بارش کی دعاکی ۔پیارے بچو ! آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ ابھی ہمارے آقا حضورﷺ اپنے چچا کے ساتھ گھر تک نہیں پہنچتے تھے کہ کالے کالے بادل امنڈ آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس قدر بارش ہوئی کہ جل تھل ہو گیا۔
اس بارش سے جنگل ہرے ہو گئے ۔گھاس اگ آئی ‘فصلیں لہلہانے لگیں ‘پرندے چہچہا اٹھے اور ہر چیز نے خدا کا شکر ادا کیا لوگوں کے دن پھر گئے ۔قحط سالی دور ہوئی ۔خوشحالی نے اپنے قدم جما لیے اور لوگوں میں مدتوں تک ہمارے آقا حضورﷺ کی اس دعا کے چرچے ہوتے رہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

شام کا سفر
جب آپﷺ کی عمر بارہ سال دو ماہ ہوئی تو آپﷺ کے چچا ابو طالب آپﷺ کو اپنے ساتھ شام کے ایک تجارتی سفر میں لے گئے اس سفر میں آپﷺ کی برکت سے جناب ابو طالب کو تجارت میں اس قدر نفع ہو اکہ اس سے پہلے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔اسی سفر میں اس قافلے کو ملک شام کی سرحد پر واقع ایک تجارتی منڈی بصریٰ میں ٹھہرنا پڑا ۔جہاں ایک عیسائی راہب (سادھو) اپنی خانقاہ میں رہتاتھا۔اور توریت ‘ زبور اور انجیل کا عالم تھا۔(پیارے بچو ! یہ تینوں کتابیں بھی خدا کی طرف سے حضرت موسیٰ ؑ ‘حضرت داؤد ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ پر نازل ہوئی تھیں لیکن جو کتابیں آج کل اس نام سے ملتی ہیں ۔ان میں خود غرض لوگوں نے ہزاروں سال پہلے کئی تبدیلیاں کرلی تھیں، اس لیے ان کے مضامین وہ نہیں رہے جواللہ پاک کی طرف سے ان بزرگ پیغمبروں پر نازل ہوئے تھے ۔)
اس راہب نے جب ہمارے آقا حضورﷺ کو اس قافلے میں دیکھا تو قافلے کو کھانے کی دعوت دی اور پھر لوگوں کے چلے جانے کے بعد تھوڑی دیر تک آپﷺ سے گفتگو کرنے کے بعد آپﷺ کے چچا سے کہا کہ یہ اللہ کے وہ نبی ہیں جن کا ذکر ہماری کتابوں میں ہے اور جن کی آمد کا ذکر سب نبیوں نے کیا ہے ۔
اس تجارتی سفر میں آپﷺ نے بہت سے علاقے دیکھے ۔طرح طر ح کے لوگوں سے ملے۔ تجارت کے رنگ ڈھنگ دیکھے ،اور بہت سی یادیں لیے ہوئے واپس مکہ شریف میں آگئے ۔اب آپ کو بھی تجارت میں دلچسپی پیدا ہونے لگی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔

حلف الفضول میں شرکت
پیارے بچو ! ان دنوں مکہ شریف میں کسی کی حکومت نہ تھی اور نہ کوئی ایسا ادارہ تھا جو شہر میں امن و امان قائم رکھ سکے ۔اس زمانے میں سارے عرب میں جہالت تھی۔لوگ نیکی بدی سے واقف نہ تھے ۔ جرم بہت ہوتے تھے ۔قتل‘چوری ‘ڈاکہ اور اغواوغیرہ کا زور تھا۔بس جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ تھا۔ان حالات میں مکہ شریف میں چند آدمیوں کو امن قائم رکھنے کی ضرورت کا شدت سے احساس ہوا ۔ ان میں سے زیادہ مشہور دو آدمی تھے ایک تو آپﷺ کے چچا تھے زبیر اور دوسرے ایک سردار عبداللہ بن جدعان ۔
ان دونوں نے لوگوں سے مل کر ایک انجمن بنائی تا کہ امن و امان کو قائم رکھنے اور بے گناہوں کو پریشان ہونے سے بچانے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھایا جائے۔یہ لوگ ایک مقررہ وقت پر عبداللہ بن جدعان کے گھر میں جمع ہوئے تا کہ جو شرائط طے ہوں انہیں لکھ لیا جائے اور اس پر لوگوں کے دستخط لے جائیں ۔اس معاہدے میں یہ باتیں طے کی گئیں تھیں:
۱۔ ہم ایک دوسرے کی حق تلفی نہیں کریں گے۔
۲۔ ہم طاقتور سے کمزور کا اور مقیم سے مسافر کاحق دلوایا کریں گے۔
۳۔ ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کرتے رہیں گے ۔
ْاس معاہدے کا نام حلف الفضول رکھا گیا ہے کیونکہ اس سے کئی سو سال پہلے ایسا ہی ایک معاہدہ تین آدمیوں نے لکھا تھا جن کے نام کا پہلا لفظ فضل تھااور فضل کی جمع فضول ہوتی ہے ۔اس لیے اس معاہدے کا نام فضول کا معاہدہ یعنی حلف الفضول طے پایا تھا۔اب ان لوگوں نے بھی اس نام کو پسند کیااور یہ معاہدہ لکھا گیا جس پر ان سب کی گواہی ثبت کر دی گئی لیکن لوگ اپنے اپنے گھر و ں کو واپس جانے لگے تو عبداللہ بن جدعان نے کہا:
’’ابھی یہ تحریر مکمل نہیں ہوئی ۔کیوں کہ اس پر ایک ایسے شخص کی گواہی کا ثبت ہو نا ضروری ہے جو مکہ شریف میں سب سے بڑھ کر امن پسند ‘صلح جو اور اپنے وعدے کا پابند ہے۔اس کی گواہی کے بغیر یہ معاہدہ بے وزن رہے گا ۔‘‘
لوگ عبداللہ کی بات سن کر حیران رہ گئے کیوں کہ شہر کے سب سے معزز لوگ تو وہاں موجود تھے ۔ انہوں نے حیرت سے پوچھا وہ کون آدمی ہے تو عبداللہ نے مسکراتے ہوئے کہا:
’’زبیر کا بھتیجا ۔عبدالمطلب کا پوتا اور عبد اللہ کالخت جگر محمدﷺ‘‘
جناب محمدﷺ کااسم گرمی سن کر لوگ بے اختیار بول اٹھے کہ عبداللہ نے بالکل سچ کہاہے ۔ پیارے بچو! جانتے ہو اس وقت آپﷺ کی عمر کتنی تھی۔بس آپ ہی کی عمر کے برابر تھی یعنی صرف سولہ سال۔
پیارے بچو ۔دیکھا آپ نے اچھی خوبیاں کس طرح عمر کے ہر حصے میں قابل قدر ہوتی ہیں ۔اگر آپ بھی اچھی خوبیاں رکھتے ہیں تو آپ کی قدرو قیمت کو ہر جگہ محسوس کیا جائے گا۔
غرض ہمارے آقاحضورﷺ کو وہاں پر بلایا گیا اور جب آپﷺ نے اس معاہدے پر اپنی گواہی ثبت کی تو آپﷺ کے چچا زبیر نے خوشی کے عالم میں کہا:
’’میرا بھتیجا امن کا پیامبر اور صلح کامجسمہ ہے ۔بنو ہاشم کو مر حوم عبداللہ کے اس فرزند پر فخر ہے ۔محمد واقعی بہت خوبیوں کے مالک ہیں ۔‘‘
پیارے بچو !ہمارے آقا حضورﷺ اکثر فرمایا کرتے تھے :
’’میں عبداللہ بن جدعان کے گھر حلف لینے کے لیے شریک ہوا تھااور سرخ اونٹوں کے گلے کے عوض بھی اس شرکت کے اعزاز سے دست بردار ہونا نہیں چاہتا اور اگر اب زمانہ اسلام میں بھی مجھے کوئی اس کی دہائی دے کر پکارے تو میں اس کی مدد کو دوڑ وں گا ۔‘‘
اسی طرح آپﷺنے چھوٹی سی عمر میں بھی امن و امان قائم کرنے میں بھر پور حصہ لیا ۔اور لوگوں سے اپنی امن پسندی اور اور سچائی کو لوہا منوایا۔

۔۔۔۔۔۔

بازار عکاظ کا تاجر
عزیز ساتھیو! ہمارے آقاحضورﷺ نے پیشے کے طور پر تجارت کو پسند فرمایااور جوانی کی حد تک پہنچتے پہنچتے ایک کامیاب تاجر ‘امین اور صادق کے لقب سے پکارے جاتے تھے ۔لوگ آپﷺ کی دیانت ‘امانت اور شرافت سے بے حد متاثر تھے۔ اس معاملے میں بڑے بڑے گھاک تاجر بھی آپﷺ کے مقابلے میں کوئی نمایاں مقام حاصل نہ کر سکتے تھے ۔آپ ﷺ نے بچپن اور نوجوانی میں اجرت پر بکریاں چرا کر اپنے چچا کی مالی مدد بھی کی تھی اور اب جوان ہو کر تجارت میں ان کاہاتھ بٹانے لگے تھے ۔
پیارے بچو ! تجارت کا پیشہ اختیار کر کے ہمارے آقا حضورﷺنے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ تجارت سب سے اچھا پیشہ اور ترقی کرنے والا ذریعہ معاش ہے اور اس میں کامیابی کے لیے امانت ‘دیانت اور صداقت ضروری ہے ۔
مکہ شریف سے کافی دور طائف اور نخلہ کے درمیان عکاظ کے مقام پر ایک تجارتی میلہ لگتا تھا ۔ جس میں سامان کے بدلے سامان کاکثرت سے لین دین ہوتاتھا۔ نقد رقم سے بھی خریدو فروخت ہوتی تھی اور یہ میلہ کئی دن تک اپنے عروج پر رہتاتھا۔اس میلے میں ہمارے آقا حضوربھی تجارت کیا کرتے تھے ۔ایک بار اسی میلے میں ایک تاجر عبداللہ بن ابی الحمساء نے آ پ سے ایک سودا طے کیا اور کہنے لگا:
’’یا محمدﷺ ۔آپ تھوڑی دیر تک یہیں ٹھہریں ،میں ابھی آتا ہوں ۔‘‘
اور یہ کہہ کر وہ اپنے کسی کام سے چلا گیا مگر کسی مصروفیت کی وجہ سے اسے یہ بات یاد نہ رہی اور تین دن گزر گئے ۔تیسرے دن یہ بات یاد آئی تو اسے بہت افسوس ہوا اور بھاگم بھاگ اس جگہ پہنچا تویہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ہمارے آقا حضورﷺ وہاں پر موجود ہیں۔ اسے سخت ندامت ہوئی اور اس نے آگے بڑھ کر کہا :
’’یا محمد ﷺ! مجھے بے حد افسوس ہے کہ میں وقت پر نہ پہنچ سکا ۔دراصل میں اس معاملے کو بالکل ہی بھول گیا تھا۔لہٰذا مجھے معاف کر دو ۔‘‘
پیارے بچو ۔ذرا سوچو یہ کس قدر تکلیف دہ بات تھی کہ ایسے آدمی کو معاف کر نا بڑا مشکل معلوم ہوتا ہے ۔لیکن ہمارے آقا حضورﷺ نے ناراضی تو کیا ناگواری تک کا اظہار نہ کیا بلکہ اس کی طرف شفقت سے دیکھتے ہوئے فرمایا:
’’عبداللہ تم نے مجھے مشقت میں مبتلا کیا۔میں تین دن تک متواتر تمہارے انتظار میں رہا ہوں ۔‘‘
’’پیارے محمدﷺ ۔آپ کتنے اچھے ہیں ۔لوگ سچ کہتے ہیں، آپ واقعی امین اور صادق ہیں ۔‘‘
آپﷺ پر ہزاروں درودو سلام ہوں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شام کا تا جرانہ سفر
مکہ شریف میں ایک بہت معزز خاتون رہتی تھیں جن کا نام خدیجہؓ تھا۔ ان کے والد کا نام خویلد تھا،جو بہت بڑے تاجر تھے لیکن فوت ہو چکے تھے۔یہ خاتون دو دفعہ بیوہ ہو چکی تھیں۔یعنی آپ کے دو خاوند انتقال کر چکے تھے ۔اس لیے انہوں نے شادی کرنے کی بجائے تجارت کے شغل کو اپنے لیے پسند کر لیا تھا ۔ان کے پاس بہت سے لونڈی غلام تھے۔ روپے پیسے کی ریل پیل تھی ۔سامان تجارت سے گودام بھرے ہوئے تھے ۔اونٹ اور گھوڑے بھی ان کے پاس کافی تھے۔وہ اپنا سامان ایجنٹوں کے ذریعے دوسرے ملکوں میں بھیجا کرتی تھیں اور انہیں معقول اجرت اور کمیشن دیا کرتی تھیں ۔
جب ہمارے آقا حضورﷺ کی دیانت ‘شرافت اور صداقت کے چرچے ان تک پہنچے اور انہیں معلوم ہوا کہ مرحوم عبداللہ کے فرزند جناب محمدﷺ بہت کامیاب اور دیانتدار تاجر ہیں تو انہوں نے چاہا کہ اس دفعہ اپنا سامان تجارت جناب محمدﷺ کے ذریعے دوسرے ملکوں کو بھیجا جائے ۔یہ سوچ کر انہوں نے آپﷺ کو ملاقات کے لیے بلوایا اور سامان تجارت لے کر ملک شا م جانے پر راضی کر لیا۔انہوں نے آپﷺ کو دوسروں سے زیادہ کمیشن اور اجرت دینے کا وعدہ بھی کرلیا۔ اس سفر میں خاتون مکہ سیدہ خدیجہؓ نے آپ کے ہمراہ اپنا ایک غلام میسرہ بھی بھیجا تھاتا کہ واپسی پر سفر کے حالات بتائے ۔اگر چہ ہمارے آقا حضورﷺ کا پہلا تاجرانہ سفر تھا۔لیکن اللہ پاک نے آپﷺ کو اس میں اتنی برکت دی کہ آج تک خاتون مکہ کو ا س قدر منافع کبھی نہ ملا تھا۔انہوں نے حسب وعدہ آپﷺ کو دوسروں سے کہیں زیادہ کمیشن اور اجرت دی اور آپ ﷺ سے درخوات کی کہ آپﷺ ہی ان کا سامان تجارت لے کر دوسرے ملکوں میں جایا کریں چنانچہ آپﷺ نے ان کے سامان تجارت کے ساتھ اکثر دوسرے ملکوں کی سیر کی۔
آپﷺ کے حسن اخلاق سے خاتون مکہ بہت متاثر ہوئیں اور جب میسرہ نے راستے کے حالات بتائے اور انہیں معلوم ہوا کہ مال کی نمائش ‘ بھاؤ چکانے کا انداز‘سامان کی پرکھ اور لین دین کی خوبیاں ان میں موجود ہیں ۔اس کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی اور وہ ا س قدر پر وقار ‘خوش اخلاق ‘برد باد اور میٹھا بولنے والے ہیں کہ لوگ بے اختیار ان کو چاہنے لگتے ہیں تو سیدہ خدیجہؓ نے میسرہ کے مشورے پر اپنا سارا کاروبار ہمارے آقا حضورﷺ کے سپرد کر دیااور خود بے فکر ہو گئیں ۔
پیارے بچو! دیکھا آپ نے سچائی میں کس قدر کشش اور قوت ہے اور دیانت اور امانت کس طرح انسان کو کامیاب بناتی اور اس کے کاروبار میں برکت پیدا کرتی ہے۔ ہمارے آقا حضورﷺ کا فرمان ہے کہ سچا تاجر قیامت کے دن صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ کھڑا ہوگا ۔اس لیے عزیز دوستو! اگر آپ تاجر بنیں تو ہر حال میں دیانت داری سے کام لیں ۔

۔۔۔۔۔۔

خاتون مکہ سے نکاح
ہمارے آقا حضورﷺ جب پہلی بار اپنے چچا جناب ابو طالب کے ہمراہ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ ملک شام گئے تھے تو آپﷺ کی عمر اس وقت بارہ سال دو ماہ تھی لیکن خاتون مکہ کا تجارتی مال لے کر خود تاجرانہ حیثیت سے ملک شام گئے تو آپﷺ کی عمر ۲۳یا ۲۴ سال تھی اور آپ ﷺ بہت خوبصورت اور بھر پور جوان تھے ۔
پیارے بچو ! خاتون مکہ سیدہ خدیجہؓ بھی اپنی شرافت اور اخلاقی خوبیوں کی وجہ سے مکہ شریف میں طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں اور لوگ ان کی بہت قدر کرتے تھے ۔وہ مکہ کی امیر ترین خاتون اور بہت کامیاب تاجرہ بھی تھیں۔ ان کے پہلے دو خاوند انتقال کر چکے تھے اور اس وقت ان کے تین بچے بھی تھے ۔ اب انہوں نے ہمارے آقا حضورﷺ کی بہترین خوبیوںُ عالی خاندان اور صحت و تندرستی کومد نظر رکھتے ہوئے آپ ﷺ سے نکاح کر لینے کا ارادہ کر لیا تا کہ زندگی میں تنہائی محسوس نہ ہو اور مشکلات میں انہیں آپﷺ کا سہارا مل سکے۔انہوں نے اس معاملے پر کئی روز تک خوب غور کیا اور آخر کار یہ طے کر لیا کہ یہ نکاح ان کے لیے ضروری ہے کیوں کہ ہمارے آقاحضورﷺ ایک بے مثل انسان تھے۔اگرچہ ان سے پہلے مکہ شریف کے کئی بڑے بڑے سردار ان سے نکاح کی درخواست کر چکے تھے ۔لیکن انہوں نے ہر کسی کو انکار کر دیا تھا ۔ مگر اب تو معاملہ ہمارے آقا حضورﷺ جیسے بے مثال جوان سے تھا۔
خاتون مکہ نے آپﷺ سے نکاح کا ارادہ کر لیا لیکن خود بات چیت کرنے کی بجائے اپنی ایک بہتریں سہیلی عطیہ کی معرفت آپﷺ کو اپنے ارادے کی اطلاع دی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اپنے چچا کی رضا مندی کے بغیر کوئی جواب نہیں دے سکتا ۔اس کے بعد آپﷺ نے مہربان چچا جناب ابو طالب سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا:
’’بھتیجے خدیجہؓ بے شک مال دار خاتون ہے اور لوگ اسے طاہرہ کہتے ہیں لیکن تم بھی ماشاء اللہ صادق اور امین ہو ۔خدیجہؓ کی طرف سے نکاح کا پیغام دراصل تمہاری خوبیوں کا اعتراف ہے۔ وہ بے شک دور اندیش اور عقل مند خاتون ہے جس نے تمام سرداروں کو ٹھکراکر تمہیں خود پسند کیا۔ البتہ ایک بات کھٹکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ عمر میں تم سے پندرہ سال بڑی ہے اور اس کے تین بچے بھی ہیں اور اس کے پہلے اس سے دو شوہر فوت ہو چکے ہیں ۔
آپﷺ نے اپنے چچا کی یہ بات سن کر فرمایا:
’’چچا! مجھے ان باتوں کی پروا نہیں ہے ۔میں نے انہیں پاک باز‘بردبار اور سمجھ دار پایاہے۔‘‘
جناب ابو طالب نے اپنے بھائیوں اور بہنوں سے بھی مشورہ کیا اور سب نے اس رشتے کو پسند کر لیا ۔چنانچہ چند دن کے بعد آپﷺ کا نکاح سیدہ خدیجہ سے ہو گیا اور تھوڑے ہی دنوں کے بعدسیدہ خدیجہ کی درخواست پر آپﷺ ان کے گھر رہنے لگے۔یہ مبارک جوڑا دنیا کا بہترین جوڑا تھا۔جس پر عرش سے فرش تک دعاؤں اور برکتوں کی بارش ہو رہی تھی ۔خاتون مکہ سید ہ خدیجہؓ سے نکاح کے وقت آپ ﷺ کی عمر پچیس سال دو ماہ اور دس دن تھی ۔اور سیدہ خدیجہؓ کی عمر چالیس سال تھی ۔
ان پر ہزاروں درود و سلام ہوں۔

۔۔۔۔۔۔

آپ کی مصروفیتیں
پیارے بچو ! اس زمانے میں سارے عرب میں شراب نوشی ‘جواء بازی ‘ قتل و غارت ‘لوٹ مار اور ظلم و ستم زوروں پر تھے اور تقریباًہر شخص کسی نہ کسی گناہ میں مبتلا تھا مگر ہمارے آقاحضورﷺ ہی ایک ایسے انسان تھے جو ہر قسم کی برائی سے پاک تھے۔بلکہ آپﷺ تو اس قسم کے لوگوں سے میل بھی نہیں رکھتے تھے۔بچپن سے جوانی کے ان دنوں تک آپﷺ کی زندگی اجلی چاندنی کی مانند صاف ستھری تھی۔ آپ پھولوں سے بڑھ کر معصوم تھے اور آپ ﷺ کی جوانی کلیوں سے زیادہ بے داغ اور شبنم سے بڑھ کر پاکیزہ تھی۔یہ حقیقت تھی کہ مکہ شریف کو آپﷺ پر ناز تھا۔
اب سیدہ خدیجہؓ کا تمام تجارتی کاروبار آپﷺ کے سپرد تھا۔اس لیے آپ خود دوسرے ملکوں میں سامان لے کر نہیں جاتے تھے بلکہ غلاموں اور نوکروں سے کام لیا جاتا ہے ۔تاہم تاجر کی حیثیت سے آپﷺ کا چرچا دور دراز تک پھیل چکا تھا۔ کپڑے کے ایک تاجر اور ابو قحافہ کے بیٹے جناب ابو بکرؓ آپ ﷺ کے دوست بن چکے تھے ۔سیدہ خدیجہ کے بھتیجے حکم بن حزام قبیلہ ازد کے سردار اور بہترین طبیب ضماد اور ایک کامیاب تاجر قیس مخزومی آپ کے دوستوں میں شامل تھے۔ یہ لوگ مکہ کے اشراف تھے۔آپ ﷺ اکثر فرصت کے اوقات میں ان دوستوں کے ساتھ سیر کرتے ‘ کشتیاں دیکھتے اور تیر اندازی کرنے کے لیے مختلف جگہوں پر جا یا کرتے تھے۔ ان کی مجلسیں اس قدر پاکیزہ ہوتی تھیں کہ مکہ کی دوسری مجلسوں میں اکثر ان کا چرچا ہوتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔

حجر اسود
عزیزساتھیو!حجر پتھر کوکہتے ہیں اور اسود کا مطلب کالاہے یعنی حجراسود کالے پتھر کو کہتے ہیں لیکن یہ کالا پتھر جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں ایسا عام کالا پتھرنہیں ہے جو پہاڑوں میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔ بلکہ اس پتھر کاخاص نام ہے جو کعبہ شریف کی دیوار میں چاندی کے فریم میں لگا ہوا ہے ۔یہ کعبہ شریف کے دروازے کے پاس جنوب مشرقی سمت میں لگایا گیا ہے اور کعبہ شریف کا طواف کرنے (چکر لگانے)والا یہاں سے چکر لگانے شروع کر دیتا ہے اور اسے بوسہ بھی دیتا ہے۔ یہ پتھر بہت مقدس اور پاک شمار ہوتا ہے کیونکہ اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبے کی تعمیر کے وقت وہاں لگایا تھا۔ کعبہ شریف کی یہ چار دیواری صدیوں سے مکہ شریف میں موجود تھی اور لوگ دور دور سے اس کی زیارت کے لیے آیا کرتے تھے جسے حج کرنا کہتے ہیں ۔
جب ہمارے آقا حضورﷺ کی عمر ۳۵ سال کی ہوئی تو شدید بارشوں کی وجہ سے مکہ شریف میں سیلاب آگیا اور پہاڑوں سے بہہ کر آنے والے پانی نے کعبہ شریف کی دیواروں میں دراڑیں ڈال دیں جس سے ان کے گر جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔یہ دیکھ کر مکہ شریف کے بڑے بڑے لوگ ایک جگہ جمع ہوئے اور اس خطرے کے پیش نظرانہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ان دیواروں کو گرا کر انہیں بنیادوں پر نئی دیواریں تعمیر کر دی جائیں ۔یوں تو انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا مگر دیواروں کو گرانے سے ڈرتے تھے۔کیونکہ انہیں یمن کے حاکم ابرہہ کا حشر یاد تھا جو کعبہ شریف کو گرانے آیا تھا لیکن اپنی ساری فوج کے ساتھ وہیں تباہ ہو گیا تھا۔اس لیے لوگوں کو یہ خدشہ تھا کہ جو شخص کعبہ شریف کی دیواریں گرائے گا وہ بھی تباہ ہو جائے گا۔
ایک دن سب لوگ ایک مقررہ وقت پر کدالیں لیے کعبہ شریف کے صحن میں جمع ہو گئے (بچو کعبہ شریف کے صحن کو حرم شریف کہتے ہیں )لیکن آگے بڑھ کر دیوار گرانے کا آغاز کرنے کی کسی کو ہمت نہ ہوئی تھی۔آخر ایک بوڑھے قریشی سردار ولید بن مغیرہ نے کہا:
’’مجھے کدا ل دو میں دیواروں کو گرانے کا آغاز کروں ۔‘‘
لوگوں نے اسے کدال دے دی۔ وہ اسے لیے ہوئے دیوار پر چڑھ گیا اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے لگا:
’’اے رب کعبہ! ہمارا ارادہ نیک ہے۔ ہم تیرے گھر کو دوبارہ بنانا چاہتے ہیں۔ تو ہماری مدد کر اور ہمیں عذاب سے بچا۔‘‘
اس کے بعد اس نے کدال سے دیوار گرانی شرو ع کردی۔ لوگ چپ سادھے اس کی طرف حیرت سے دیکھتے رہے ۔ان کا خیال تھاکہ ولید پر ابھی عذاب نازل ہوگا لیکن کافی دیر تک کچھ نہ ہوا تو لوگوں کاخوف جاتا رہا اور وہ بھی دیواریں گرانے میں مصروف ہو گئے پھر تو دیکھتے ہی دیکھتے ساری دیواریں گرا دی گئیں ۔
اب نئی تعمیر کا مرحلہ شروع ہوا۔اور جب دیواریں آدمی کے قدکے برابر ہو گئیں تو حجر اسود کو ا س کی جگہ پر لگانے کا جھگڑا پیدا ہوا کیونکہ ہر شخص یہ چاہتا تھا کہ اس برکت والے کام کو خود کرے اور کسی دوسرے کو اس کا موقع نہ دے ۔یہ بات یہاں تک بڑھی کہ خونریزی کا خطرہ پیدا ہو گیا۔کیونکہ اپنے آپ کو چھوٹا سمجھنے پر کوئی بھی تیار نہ تھا۔
جب یہ خطرہ حد سے بڑ ھ گیااور لوگوں نے ایک دوسرے پر تلواریں نکال لیں تو قریش کے سب سے بوڑھے سردار ابو امیہ نے کہا:
’’میری بات سنو!‘‘
لوگ اس کی آواز سن کر اس کے گرد جمع ہو گئے اور اس نے کہا:
’’کعبہ شریف تو امن کی جگہ ہے مگر تم یہاں فساد پھیلا رہے ہو ۔اگر تم فتنہ و فساد مٹانا چاہتے ہو تو اس قریشی کو ثالث (فیصلہ کرنے والا)بنا لوجو اب باب الصفا کے راستے سب سے پہلے اندر داخل ہو۔‘‘
یہ تجویز بہت معقول تھی ۔لوگوں نے لڑنا جھگڑنا بند کر دیا اور سب کی آنکھیں اس دروازے کی طرف لگ گئیں جسے باب الصفا کہتے ہیں ۔
پیارے بچو ! خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اس دروازے کے راستے سب سے پہلے ہمارے آقا حضورﷺ اندر داخل ہوئے ۔لوگوں نے آپﷺ کو دیکھا توخوشی کے عالم میں بے اختیار پکار اٹھے :
’’امین آگیا۔ہم اس کے فیصلے پر راضی ہیں۔ ‘‘
جب آپ اس مجمعے کے قریب آئے تو ابو امیہ نے آپﷺ کو ساری بات بتائی ۔آپﷺ نے اپنی چادر مبارک زمین پر بچھا دی ۔حجر اسود کوا س پر رکھااور پھر سرداروں سے کہا کہ چادر کے کونے تھام لو اور اسی طرح حجر اسود کو دیوار کے پاس اس جگہ تک لے جاؤ جہاں اسے لگانا ہے۔جب لوگ حجر اسود کوا س طرح اٹھائے ہوئے اس جگہ پہنچے تو آپﷺ نے حجر اسود کو اپنے مبارک ہاتھوں سے اٹھا کر دیوار میں لگا دیا ۔اس طرح یہ فتنہ و فساد ٹل گیاجو تھوڑی دیر پہلے تک سب کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔
عزیز دوستو! دیکھا آپ نے کہ ہمارے آقا حضورﷺ نے کس خوش اسلوبی سے اس مسئلے کوحل کر دیا اور کسی کو اعتراض کا موقع بھی نہ ملا،بلکہ سب راضی ہو گئے۔ ہمیں بھی فتنہ و فساد کو مٹانے کی بھر پور کوشش کر کے اپنے آقا حضورﷺ کی سنت پر عمل کرنا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔

غار حرا
مکہ شریف کے مشر ق میں اڑھائی تین میل کے فاصلے پر ایک پہاڑ ہے جسے جبل نور کہتے ہیں۔ پہلے اسے جبل حرا کہا جاتا تھا۔اس میں بلندی پر ایک غار ہے جسے غار حرا کہتے ہیں ۔ہمارے آقاحضورﷺ نے اپنی عمر کے انتالیسویں سال اس غار کو اس لیے پسند کیا تھا کہ وہاں تنہائی میں اللہ کی عبادت کیا کریں گے۔تاکہ شوروغل اور دوسرے دنیاوی کاموں سے دوررہیں۔ آپﷺ کا دستور تھا کہ پانی کا مشکیزہ اور ستو کا تھیلا اپنے ساتھ لے جاتے اور اکثر کئی کئی دن تک اس غار میں رہ کر اللہ پاک کی عبادت کیا کرتے تھے۔
جب آپ کی عمر چالیس سال اور گیارہ دن ہو گئی تو ایک رات اللہ کا فرشتہ جبریل آپﷺ کے پاس آیا اور کہا:
’’اے محمدﷺ !بشارت قبول فرمائیے ۔آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں اللہ کا فرشتہ جبریل ہوں ۔‘‘
اس روز۹ربیع الاول اور پیر کادن تھا جو سن عیسوی کے لحاظ سے ۱۲ فروری ۶۱۰ء ہوتا ہے ۔
فرشتہ تو یہ کہہ کر غائب ہو گیا لیکن ہمارے آقا حضورﷺ کو گھبراہٹ سی ہو گئی ۔آپ غار سے نکل کر سیدھے گھر پہنچے اور اپنی بیوی سیدہ خدیجہؓ کو یہ واقعہ سنایا تو انہوں نے کہا:
’’اللہ آپ کو غمگین نہ کرے گا کیونکہ آپ ﷺ عزیزوں اور دوستو ں سے بہت اچھا سلوک کرتے ہیں ۔کمزوروں ‘ناتوانوں اور غریبوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ۔جن کے پاس نہیں ہوتا ان کو دیتے ہیں ۔ مہمانوں کی تواضح کرتے ہیں ۔مشکل حالات میں بھی سچ اور حق کی حمایت کرتے ہیں ۔‘‘
دوسرے دن سیدہ خدیجہؓ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پا س لے گئیں جو بہت بوڑھے اور عیسائی عالم تھے ۔آپ ﷺ نے جب انہیں یہ واقعہ سنایا تو انہوں نے کہا:
’’یہ وہی فرشتہ ہے جو اللہ نے موسیٰ ؑ کی طرف بھیجا تھا۔کاش میں آپ کے زمانہ نبوت میں قوی جوان ہوتا ۔کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپﷺ کی قوم آپﷺ کو نکالے گی کیونکہ ہر نبی کی قوم نے اس سے دشمنی کی ہے ۔اگر میں زندہ رہا تو آپﷺ کی پر زور مدد کروں گا۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔

قرآن مجید کا آغاز
پیارے بچو !ہمارے آقا حضورﷺ کو جب غار حرا میں اسی طرح عبادت کرتے ہوئے چھ ماہ اور گزر گئے تو ۸ رمضان ،جمعے کی رات یعنی ۱۷؍ اگست ۶۱۰ ء کو جبریل امین پھر آپ کے پاس غار میں آئے اور آپﷺ کو پڑھنے کے لیے کہا لیکن آپﷺ نے فرمایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔
عزیز دوستو!نبی کا استاد دنیا کا کوئی شخص نہیں ہو سکتا ۔نبی تو اللہ پاک کے شاگرد ہوتے ہیں اور وہی انہیں تمام علم سکھاتا ہے۔ اسی واسطے نبی کے علم سے خود دنیا بھر کے انسان سبق سیکھتے ہیں اور دنیا کاکوئی آدمی نبی کے علم کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
ہمارے آقا حضورﷺکا جواب سن کر جبریل امین نے آپﷺ کو اپنی آغوش میں لے کر زور سے دبایااور کہا آپ پڑھیے ۔ایسا تین مرتبہ کرنے کے بعد جب جبریل امین نے کہاآپ پڑھیے تو آپ ﷺ نے پڑھنا شروع کر دیا ۔سب سے پہلی آیات جو آپﷺ کو جبریل امین نے پڑھائیں، ان کا ترجمہ مندرجہ ذیل ہے۔ یہ قرآن مجید کے تیسویں پارے کی سورہ اقراء کی پہلی پانچ آیات ہیں :
’’پڑھو (اے نبی ﷺ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیاجمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کو پیدا کیا پڑھو اور تمہارا رب کریم ہے۔جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا انسان کو وہ علم دیا جسے وہ جانتا نہ تھا۔‘‘
یہ تھا قرآن مجید کا آغاز یعنی قرآن مجید کی سب سے پہلی آیات یہ تھیں۔ اس کے بعد ۲۳ برس تک متواتر تھوڑا تھوڑا قرآن مجید ہمارے آقا حضورپر نازل ہوتا رہا یعنی اللہ کا پیغام آپﷺ کے پاس پہنچتا رہا۔
پیارے بچو ! اللہ پاک نے اپنے پیارے نبی کے ذریعے ہمیں سب سے پہلا حکم پڑھنے اور قلم کے ذریعے علم سیکھنے کا دیا ہے ۔لہٰذا آپ دل لگا کر پڑھیں اور خوب علم حاصل کریں ۔
یہ سبق پڑھا کر جبریل امین تو چلے گئے اور ہمارے آقا حضورﷺ اس وقت اپنے گھر واپس آگئے جہاں آپﷺ نے یہ سارا ماجرا اپنی بیوی سیدہ خدیجہؓ کو سنایا تو انہوں نے سچے نبی کی سچی زبان سے سچے خدا کا سچا پیغا م سن کر کلمہ پڑھااور مسلمان ہو گئیں۔ اس طرح سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف سیدہ خدیجہؓ کو حاصل ہوا۔دن نکلنے پر جب آپﷺ نے اس بات کا ذکر اپنے دوست جناب ابوبکر سے کیا تو انہوں نے بھی بلا تامل اسلام قبول کر لیااور ان کے بعد آپﷺ کے چچا زاد بھائی جناب علیؓ اور آپ کے آزاد کردہ غلام جناب زیدؓ بھی کلمہ پڑھ کر اسلا م میں داخل ہو گئے ۔
اب دوسرے کئی خوش نصیب چھپ چھپا کر مسلمان ہو گئے تا کہ کافر انہیں تنگ نہ کریں اور یہ تعداد رفتہ رفتہ بڑھتی رہی۔ کافر کئی خداؤں ‘بتوں اور دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرتے تھے لیکن اسلام ان سب کا انکار کرتا اور صرف ایک خدا کی عبادت کرنے کا حکم دیتا ہے۔
آپ اسلام کی تبلیغ کرتے رہے اور خوش بخت آپﷺ کی بات مان کر اسلام میں داخل ہوتے گئے لیکن یہ سب کام کافروں سے چھپ کر کیاجاتا تھا۔تا ہم ان تک اس بات کی بھنک پہنچ گئی تھی۔مگر انہوں نے سوچاکہ یہ چند سر پھر ے لوگ ہیں خود ہی ختم ہو جائیں گے ۔ہمیں ان سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔اس لیے شرو ع شروع میں ان لوگوں نے مسلمانوں کو خاص اہمیت نہ دی ۔

۔۔۔۔۔۔۔

دارالارقم
جب مسلمانوں کی تعداد رفتہ رفتہ چالیس تک پہنچ گئی تو کسی ایسی جگہ کی تلاش ہوئی جہاں چھپ کر باجماعت نماز پڑھی جائے اور آقا حضورﷺ کے وعظ کو سنا جائے۔ مکہ شریف میں ایک صاحب ارقم نام رہا کرتے تھے جو اب مسلمان ہوچکے تھے۔ انہیں جب اس ضرورت کی اطلاع ملی تو انہوں نے ہمارے آقا حضور ﷺ سے عرض کیا حضورﷺ میرا مکان جو شہر سے ذرا ہٹ کر ہے اس مقصد کے لیے حاضر ہے ۔آپﷺ کو اس سے خوشی محسوس ہوئی اور ان کے لیے دعا کی۔یوں دارالارقم (ارقم کا گھر) پہلا اسلامی تبلیغی سنٹر بن گیا۔
پیارے بچو! جس شخص نے ہمارے آقا حضورﷺ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ،ان پر ایمان لایااور سچے دل سے مسلمان رہا۔اسے صحابی کہتے ہیں۔ اب تمام صحابی اس گھر میں جمع ہوتے ،وہاں نماز پڑھتے اور حضور کی پیاری پیاری باتیں سنا کرتے تھے۔لیکن یہ سارا کام خفیہ ہی کیا جاتا تھااور اس بات کی بڑی احتیاط کی جاتی تھی کہ راز فاش نہ ہونے پائے۔ ہمارے آقا حضورﷺ کا زیادہ وقت اسی اسلامی تبلیغی مرکز میں گزرتا تھااور صحابہ کی ایک جماعت وہاں موجود رہتی تھی ۔

۔۔۔۔۔۔

بنو ہاشم کو اسلام کی دعوت
ان ہی دنوں میں اللہ پاک نے اپنے فرشتے جبریل امین کے ذریعے حکم بھیجا کہ اب آپﷺ اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈرائیں۔ چنانچہ آپﷺ نے اس کی تعمیل میں اپنے خاندان بنو ہاشم کی دعوت کی اور جب لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا:
’’اے حاضرین!‘میں تم سب کے لیے دنیا و آخرت کی بہترین چیز لے کر آیا ہوں اور میں نہیں جانتا کہ عرب بھر میں کوئی شخص بھی اپنی قوم کے لیے اس سے بہتر اور افضل کوئی شے لایا ہو۔مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں آپ لوگوں کو اس کی دعوت دوں ۔بتاؤ تم میں سے کون میرا ساتھ دے گا؟‘‘
آپ کی بات سن کر سب چپ ہوگئے لیکن حضرت علیؓ نے کہا:
’’یا رسول اللہ۔ میں آپ کا ساتھ دوں۔ ‘‘
آپ نے آخر میں اپنے خاندان کے ایک ایک فرد کانام لے کر فرمایا:
’’تم سب آگ کے عذاب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کرو ۔میں خدا کی پکڑ سے تم کو نہیں بچا سکتا، البتہ میرے مال میں سے تم لوگ جو کچھ چاہو مانگ سکتے ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اعلانیہ دعوت اسلام
کچھ دنوں کے بعد آپ ﷺ کو اللہ پاک کی طرف سے دوسرا حکم ملا کہ ‘’’اے نبی آپﷺ کو جوحکم دیا گیاہے ۔اسے کھلے بندوں کہیے اور مشرکوں کی پرواہ نہ کیجیے۔‘‘
آپﷺ نے اس حکم کی تعمیل کے لیے ایک دن صبح کے وقت شہر کی ایک پہاڑی (کوہ صفا) پر کھڑے ہو کر لوگوں کو جمع ہونے کے لیے پکارا۔اور جب بہت سے لوگ جمع ہو گئے تو آپﷺ نے فر مایا:
’’کیا تم مجھے سچا سمجھتے ہو یا جھوٹا؟ ‘‘
لوگوں نے کہا، ’’آپ یقینا‘‘ امین (دیانت دار ) اور صادق (سچے ) ہیں۔ ‘‘
اس پر آپ نے فرمایا:
’’میں تمہیں خدا کے عذاب کے آنے سے پیشتر خبردار کرتاہوں ۔تم لوگ اپنی جانیں بچانے کی فکر کرو۔میں خدا کے مقابلے میں تمہارے کسی کام نہیں آسکتا ۔قیامت کے روز رشتے دار صرف متقی اور پرہیزگار لوگ ہوں گے ۔ایسانہ ہو کہ دوسرے لوگ نیک اعمال لے کر آئیں اور تم لوگ دنیا کا وبال سر پر اٹھائے آؤ ۔اس وقت تم پکار و گے یا محمدﷺ مگر میں مجبور ہوں گا کہ تمہاری طرف سے منہ موڑ لوں ۔
ہاں تم لاالہ الا اللہ کے قائل ہو جاؤ ۔تو میں تمہارے رب کے ہاں تمہارے حق میں اس کی شہادت دوں گا اور اس کلمے کی بدولت عرب تمہارے تابع اور عجم تمہارا مطیع ہو گا۔‘‘
لیکن لوگوں پر اس کا الٹا اثر ہوا۔وہ اپنے عقیدے کو چھوڑنے پر تیار نہ ہوئے اور آپ کا ایک چچا ابو لہب اول فول بکتا ہوا وہاں سے چلا گیا جس کے ساتھ ہی سارا ہجوم تتر بتر ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے آقا حضورﷺ پر ظلم و ستم
مکہ شریف کے کافروں اور مشرکوں کو اب یہ خوب معلوم ہو چکا تھا کہ ہمارے آقا حضورﷺ کیا چاہتے ہیں ۔یہ لوگ بت پرستی کرتے تھے اور آپﷺ اسے مٹانا چاہتے تھے تا کہ صرف ایک خدا کی عبادت کی جاسکے اور یہ لوگ مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اور حساب کتاب کو نہیں مانتے تھے لیکن آپ ﷺ انہیں بتاتے تھے کہ مرنے کے بعد ایک دن یعنی قیامت کے روز تمہیں پھر جی اٹھنا ہے تا کہ اللہ پاک کے دربار میں پیش ہو کر اپنے اعمال کا حساب دے سکو۔ پھر نیک لوگ جنت میں جائیں گے اور برے لوگ دوزخ میں سزا بھگتیں گے ۔کافروں اور مشرکوں کو یہ دونوں باتیں نا پسند اور نامنظور تھیں لیکن نبی کاکام تو اللہ کا پیغام اس کی مخلوق تک پہنچانا ،اس پر عمل کر کے دکھانا اور نیک لوگوں کی جماعتیں تیار کرنا ہے اور وہ اس کام کو کسی قیمت پر بھی نہیں چھوڑ سکتا ۔چنانچہ ہمارے آقا حضورﷺ بھی اس کام میں تن من دھن سے مصروف ہو گئے ۔
کافروں نے جب یہ دیکھا کہ لوگ آپﷺ کا پیغام سنتے اور اس پر ایمان لے آتے ہیں اور مسلمانوں کی تعداد ہر روز بڑھتی ہے تو انہوں نے آپﷺ کوہرممکن طریقے سے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت مسلمان اگر چہ اپنے ایمان کاکھل کر اظہار نہیں کرتے تھے پھر بھی کافر لوگ انہیں سخت تکلیفیں دیتے تھے ۔رفتہ رفتہ ان ظا لموں کی جرأت اس قدر بڑھ گئی کہ آپﷺ پر ہاتھ اٹھانے سے بھی باز نہ رہے ۔ہوا یوں کہ ایک روز جب کہ آپ حرم شریف (کعبہ شریف کے صحن ) میں موجود تھے کفا ر نے آپ ﷺ کو گھیرے میں لے لیا اور چاہا کہ آپﷺ پر ہاتھ اٹھائیں لیکن عقبہ بن ابی معیط نے آگے بڑھ کر آپﷺ کی گردن مبارک میں اپنا ایک کپڑا ڈال کر اسے بل دنیا شروع کر دیا تا کہ آپﷺ کا گلا گھونٹ دے ۔
پیارے بچو ! کعبہ شریف تو امن کی جگہ ہے۔ یہاں کسی پر بھی ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں ہے لیکن ظالموں نے یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہمارے آقا حضورﷺ پرہاتھ اٹھایا۔ جنہیں اب سے کچھ عرصہ پہلے تک وہ مکہ شریف کا سب سے زیادہ شریف ‘دیانت دار ‘عقل مند اور سچا انسان کہا کرتے تھے ۔لیکن آج اس سچے انسان کی سچی باتوں کو جھٹلاتے تھے اور آپﷺ کو جھوٹا کہتے تھے۔
ان ظالمو ں کے ہجوم میں آپﷺ گھر ے ہوئے تھے اور عقبہ آپﷺ کا گلا گھوٹنے کے لیے کپڑے کو بل دے رہا تھا۔ بظاہر تھوڑی دیرتک ایک بہت بڑا حادثہ ہونے والا تھا۔ اتنے میں آپﷺ کے رفیق حضرت ابوبکرؓ وہاں اتفاقاًآنکلے اور جب انہوں نے آپﷺ کی یہ حالت دیکھی تو بے اختیار آگے بڑھ کر عقبہ کو دھکا دیا۔ کپڑا آپ کی گردن سے اتار کر پھینک دیا اور روتے ہوئے ان ظالموں سے مخاطب ہو کر کہا:
’’کیا تم ایک شخص کو صرف اس قصور میں مار ڈالنے کی کوشش کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے ۔‘‘
عزیز ساتھیو!کافروں نے ہمارے آقا حضورﷺ کو چھوڑ کر حضرت ابو بکر کو پیٹنا شروع کر دیا اور اس قدر پیٹا کہ وہ بے ہوش ہو گئے اور لوگ ان کو اسی حالت میں چھوڑ کر بکتے ہوئے چلے گئے ۔
ہمارے آقا حضورﷺ کا چچا ابو لہب آپﷺ کاجانی دشمن تھا۔ اسے دین اسلام سے نفرت تھی، اس لیے وہ ہر موقع پر آپﷺ کی مخالفت کیا کرتا تھا۔آپ تبلیغ کے لیے جہاں بھی تشریف لے جاتے، وہ ظالم وہاں پہنچ جاتااور لوگوں سے کہتا، ’’یہ دیوانہ ہے، اس کی بات نہ سنو۔‘‘ اور اسی پر بس نہیں کرتا تھا بلکہ اکثر پتھر مار مار کر زخمی بھی کر دیتا تھا۔
پیارے بچو ! اس دین کی تبلیغ اور لوگوں کو رب کاراستہ بتانے کے لیے ہمارے آقا حضورﷺ نے ان گنت مصیبتیں برداشت کیں ۔لیکن کبھی مایوس نہ ہوئے بلکہ آپﷺ نے اپنا کام جاری رکھا ۔اللہ پاک نے بھی آپ کو کئی بار فر مایا ہے:
’’پس اے نبی ﷺ ۔تم نصیحت کیے جاؤ۔‘‘
یہ ظالم لوگ خدا کا پیغام سننے اور سمجھنے کی بجائے آپﷺ کو تنگ کرنے او ر دین کا راستہ روکنے کے لیے بہت عجیب و غریب باتیں کہا کرتے تھے ۔کوئی کہتا تھا آپﷺ کے پاس عمدہ سا باغ نہیں ہے اس لیے میں آپﷺ کی بات نہیں مانتا ۔دوسرا بولتا تھا کہ اگر آپﷺ کے پاس ایک چشمہ ہوتا تو میں آپ ﷺ کو سچا مانتا۔تیسرا بکتا تھا اگر آپﷺ سچے نبی ہوتے تو فرشتوں کی ایک جماعت آپﷺ کے ساتھ ہوتی اور لوگوں کوکہتی کہ اس نبی کو مانو۔ایک ظالم کہا کرتا تھا کہ میں تو آپﷺ پر اس وقت تک ایمان نہیں لاؤں گا جب تک آپ میرے سامنے آسمان پر نہ چڑھ جائیں اور وہاں سے لکھی کتاب لے کر نہ آئیں ۔کئی لوگ طنزیہ کہتے تھے کہ خدا سے میرے نام ایک خط لکھوا کر لاؤ تا کہ میں مسلمان ہو جاؤں اور یہ بات تو سب مشترکہ طور پر کہتے تھے کہ اگر آپﷺ سچے نبی ہیں تو آسمان کا ٹکڑا ہم پر گرا دیں لیکن ہمارے آقا ہمیشہ فرماتے تھے :
’’میں تو اللہ کا پیغام لانے والا ایک انسان ہوں اور اس کی مرضی کے خلاف کوئی بات نہیں کر سکتا۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ کے خلاف تجویزیں
؂ مکہ شریف کے کافروں نے ایک بار اس بات پر غور کیا کہ باہر سے جو لوگ آتے ہیں وہ جب جناب محمدﷺ سے ملتے ہیں تو ان کی بات سنتے اور مان لیتے ہیں، اس طرح مسلمانوں کی جماعت بڑھ رہی ہے ،جس کا روک دینا ضروری ہے ۔اس لیے ہمیں مل کر کوئی ایسی تجویز سوچنی چاہیے کہ جس پر عمل کرنے سے باہر والے لوگ نہ ان کی بات سنیں اور نہ اسے مانیں۔ چنانچہ اس مجلس میں ہر کسی نے اپنی اپنی تجویز پیش کی ۔کسی نے کہا ان کو کاہن کہیں۔ دوسرے نے کہا شاعر کہیں، لیکن ایک بوڑھے ولید نے تجویز پیش کی کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ ہمار ے اندر ایک جادو گر پیدا ہو گیاہے جو اپنے کلام سے خاندان کے ٹکڑے کر دیتا ہے اور عزیزوں کو آپس میں لڑا دیتا ہے، اس لیے آپ اس کی بات ہر گز نہ سنیں کیوں کہ اس کلام میں اثر ہے کہ جس کے کان تک اس کی آواز پہنچے گی وہ ضرور اس کے جال میں پھنس جائے گا۔اس تجویز کو سب نے پسند کیا ۔اور اسی پر عمل کرنے کا وعدہ بھی کرلیا۔
اس کے ساتھ انہوں نے کئی کمیٹیاں بنائیں جن کے سپرد علیحدہ علیحدہ کام تھا۔ ایک کمیٹی کاکام آپ ﷺ کے پیچھے شرارتی بچوں کو لگانا تھا تاکہ وہ آپﷺ پر آوازیں کسیں ‘شور مچائیں ‘دھول پھینکیں اور خوب تنگ کریں ۔دوسری کمیٹی کاکام تھا کہ آپﷺ کے خلاف لوگوں میں غلط اور جھوٹا پرو پیگنڈہ کریں ۔تیسرے کمیٹی کے سپرد یہ ڈیوٹی تھی کہ وہ باہر سے آنے والوں کو آپﷺ سے نہ ملنے دیں چنانچہ یہ شریر لوگ اپنے اپنے گندے اور گھناؤنے منصوبوں پر بڑے زور شور سے عمل کرتے اور کسی موقعے کو ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔
ایک روز ایک ادرشی اس وقت حرم کعبہ میں آیا جب وہاں بہت سے لوگ بیٹھے تھے۔اور ہمارے آقا حضورﷺ ان سے کافی ہٹ کر عبادت میں مشغول تھے۔ ادر شی نے ان لوگوں سے کہا کہ ابو جہل نے (جو مکہ شریف کا ایک سردار اور آپﷺ کا سخت مخالف تھا) مجھ سے اونٹ خریدا تھااور کہا تھا کہ چند روز کے اندر اندر اس کی قیمت ادا کر دوں گا۔میں کئی بار اس کے دروازے پر گیاہوں۔ پہلے تووہ اقرار کرتا تھا مگر آج اس نے قیمت ادا کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے اور جان سے مار ڈالنے کی دھمکی دی ہے۔خدا کے لیے میر ی مدد کرو اور مجھے ابو جہل سے اونٹ کی قیمت دلوادو۔
’’ادرشی بھائی (ہمارے آقا حضورﷺ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) وہ دیکھو سامنے جو صاحب بیٹھے ہیں ان سے کہو ۔یہ تمہاری رقم ابو جہل سے واپس دلوا سکتے ہیں ۔وہ ان کی بات مانتا ہے ۔‘‘
وہ بے چارہ آپﷺ کے پاس پہنچا اور اپنی کہانی سنائی تو آپﷺ فوراً اس کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو گئے ۔کافروں نے بھی ایک آدمی آپﷺ کے پیچھے لگا دیا تاکہ واپس آکر سارا ماجرا سنائے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ابو جہل آپﷺ کو مارنے سے دریغ نہ کرے گا۔لیکن جب آپﷺ اس کے دروازے پر پہنچے اور اسے باہر بلا کر ادرشی کی رقم دینے کے لیے فرمایا تو ابو جہل انکار نہ کر سکا اور اس نے کسی چوں چرا کے بغیر ادرشی کی ر قم وا پس کر دی ۔وہ دعائیں دیتا ہوا چلا گیا اور کافروں کے بھیجے ہوئے آدمی نے جب واپس آکر انہیں یہ سارا ماجرا سنایا تو انہیں سخت غصہ آیا کہ ابو جہل نے موقعے سے فائد ہ کیوں نہ اٹھایا۔
وہ سارے ابو جہل کے پاس آئے اور جب اس سے جناب محمدﷺ پر ہاتھ نہ اٹھانے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ میں نے ان کے دائیں بائیں نیزہ لیے کچھ صورتیں دیکھی تھیں اور مجھے اپنی جان کا خطرہ ہو گیاتھا ۔یہ سن کر لوگوں کے منہ لٹک گئے ۔
پیارے بچو!یہ ہمارے آقا حضورﷺ کا معجزہ تھا اور اللہ پاک نے اپنے حبیب کی حفاظت کا خفیہ بندوبست کر دیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔

کافروں کا پہلا وفد
جناب ابو طالب کے پاس
مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعدادسے خوف زدہ ہو کر کافروں نے نہایت سنجیدگی سے ا س کا راستہ روکنے کی تجویزوں پر غور کرنا شروع کر دیااور پھر ایک وفد تیار کیا جو ایک دن آپﷺ کے چچا جناب ابو طالب کی خدمت میں حاضر ہوا ۔انہوں نے ان لوگوں کی تعظیم کی اور بڑی عزت سے بٹھا کر ان کے آنے کا مقصد دریافت کیا تو رئیس وفد عقبہ نے کہا :
’’آپ کا بھتیجا ہمارے بتوں کو برا بھلا کہتا رہتا ہے اور لوگوں کو ایک نئے دین کی دعوت دے کر ان کے عقیدے خراب کر رہا ہے۔ ہم نے سوچا تھا کہ چند دن کے بعد اس سے باز آجائے گا مگر ا ب یہ معاملہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ آپ ا سے روک دیں ورنہ اس کا نتیجہ اچھا نہ ہوگا۔‘‘
جناب ابو طالب نے ہمارے آقا حضورﷺ کو بلا بھیجا اور جب آپﷺ وہاں پہنچے تو انہوں نے کہا ،’’بھتیجے یہ سردار ان قریش کہہ رہے ہیں کہ ہمارے دیوتاؤں کو برا کہنا چھوڑ دیں ۔‘‘آپﷺ نے ان کی بات سن کر فرمایا:
’’چچا اگر یہ لا الہ الا اللہ کے قائل ہو جائیں تو عرب و عجم کے مالک ہو جائیں گے۔ ‘‘یہ کلمہ سن کر کافروں کے تن بدن میں آگ سی لگ گئی اور انہوں نے کہا:
’’یہ کلمہ ہی ہمارے درمیان سارے جھگڑے کی بنیاد ہے ۔ہم اپنے اتنے سارے معبودوں ‘ خداؤں اور دیوتاؤں کو چھوڑ کر صرف ایک خدا پر کیسے ایمان لے آئیں اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو جانے والی بات کوکیسے مان لیں جب کہ ایسا ہو نا ناممکن ہے ۔‘‘
چنانچہ یہ وفد اپنے مقصد میں ناکام واپس لوٹ گیا اب کافروں نے مسلمانوں کو سخت تنگ کرنا شروع کر دیا۔بلالؓ ،عمارؓ ، یاسرؓ ، ابو فکیہہؓ ،جناب عثمانؓ اور مصعبؓ کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا تھا۔ جب یہ مصیبتیں حد سے بڑھ گئیں تو آپﷺ نے انہیں حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کی اجازت دے دی تا کہ روز روز کی ان بلاؤں سے نجات حاصل کر سکیں ۔
پیارے بچو !کتنے ایمان والے تھے وہ لوگ جنہوں نے کفار کے ہاتھوں ہر قسم کی تکلیفیں برداشت کیں ۔اپنا گھر بارچھوڑ کر پردیس میں چلے گئے لیکن ایمان کو نہ چھوڑا۔ایسے ہی لوگوں کے لیے اللہ پاک نے جنت کا وعدہ کیا ہے ۔عزیز دوستو!ایمان اتنی قیمتی چیز ہے کہ دنیا بھر کی تکلیفوں کو اس کی خاطر بر داشت کیا جاسکتا ہے ۔پیارے بچو!جانتے ہوایمان کس کو کہتے ہیں ۔ایمان کا مطلب خدا کو ایک ماننا اور اسے سب قدرتوں اور خزانوں کا مالک اور خالق جاننا، حضرت محمد ﷺ کو اللہ کے آخری نبی ماننا‘ قرآن مجید کو خدا کاآخری کلام ماننا،مرنے کے بعد قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہونے اور اللہ پاک کے دربار میں اپنے کاموں کا حساب دینے کے لیے حاضر ہونا تا کہ نیک لوگ جنت میں جائیں اور برے لوگ دوزخ کے عذاب میں جلتے رہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

کفار کاآخری وفد
جناب ابو طالب کے پاس
کفار کچھ عرصے تک تو حالات کا جائزہ لیتے رہے۔ انہوں نے کئی بار جناب ابو طالب سے ان کے بھتیجے کی شکایت بھی کی لیکن مقصد حل نہ ہوتے دیکھ کر ایک دن ایک بڑا وفد لے کر آخری فیصلے کی خاطر جناب ابو طالب کے پاس پہنچے اور ان سے کہا کہ اپنے بھتیجے کو یہاں بلائیں تا کہ فیصلہ کیا جا سکے ۔
جب آپ ﷺ وہاں تشریف لائے توکفارنے آپﷺ سے کہا :
’’اگر آپ ہمارے معبودو ں کو برا کہنا چھوڑ دیں اور ہمارے مذہب میں کیڑے نہ نکالیں تو ہم اس کے عوض میں آپﷺ کو مندرجہ ذیل چیزیں دے سکتے ہیں ۔
۱۔ اگر آپﷺ دولت چاہتے ہیں تو ہم آپﷺ کے قدموں میں دولت کے ڈھیر لگا دیتے ہیں ۔
۲۔ اگر آپﷺ کسی عورت سے شادی کرنا چاہتے ہیں توہم اسے حاضر کر دیتے ہیں ۔
۳۔ اگر سرداری چاہیے تو ہم آپﷺ کو اپنا سردار مان لیتے ہیں ۔
۴۔ اگر جنون یا دیوانہ پن کی بیماری ہے تو ہم اس کا علاج کرا دیتے ہیں ۔
۵۔ اگر کوئی اور خواہش ہے تو بتائیے ہم اسے پورا کر دیتے ہیں ۔
لیکن آپﷺ اپنے دین کو اپنے تک ہی محدود رکھیں ۔نہ اس کا چرچا کریں اور نہ ہمارے دیوتاؤں کو برا کہیں ‘ورنہ ہم سخت کارروائی بھی کر سکتے ہیں ۔‘‘
آپ کے چچا جناب ابو طالب نے چاہا کہ آپ ان لوگوں کی یہ بات مان لیں کہ ان کے بتوں کو برا نہ کہیں لیکن آپﷺ نے ان کی یہ بات سن کر فیصلہ کن انداز میں فرمایا:
’’چچا جان !اگر سورج میرے دائیں ہاتھ پر اور چاند بائیں ہاتھ پر رکھ دیا جائے تو بھی میں یہ کام نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ یا تو اللہ اسے کامیاب فرمادے یا میں اس راہ میں ہلاک ہو جاؤں ۔‘‘
آپ کاپہاڑوں سے زیادہ مضبوط ارادہ دیکھ کر جناب ابو طالب نے کہا:
’’بھتیجے !تم اپنا کام جاری رکھو اور جو چاہو کرو۔خدا کی قسم میں کسی چیز کی وجہ سے بھی تمہیں دشمنوں کے حوالے نہ کروں گا۔‘‘
پیارے بچو !آپﷺ نے نبیﷺ کے ایمان کی مضبوطی کو یقینامحسوس کیا ہوگا۔اللہ پاک اور ہمارے آقا حضورﷺ کا بھی ہم سے یہی مطالبہ ہے کہ ہم بھی اپنے ایمان کو بہت مضبوط رکھیں یعنی اللہ پاک اور اس کے نبیﷺ کے احکام کی خوب دل لگا کر تعمیل کریں اور کبھی نافرمانی نہ کریں اور اگر کبھی غلطی سے ایسا ہوجائے تو فوراً اپنے رب پاک سے اس کی معافی مانگ لیں ۔وہ بہت مہربان ہے ہماری غلطی کو معاف فرمادے گا اورخوش بھی ہوگا کہ میرا بندہ سدھر گیا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آقا حضورﷺ کے جانثار
ایک دن ہمارے آقا حضورﷺ کوہ صفا پر بیٹھے عبادت میں مشغول تھے کہ ابو جہل نے تنہا دیکھ کر آپﷺ کو تنگ کرنے کا ارادہ کر لیا اور وہاں پہنچ کر آپﷺ کو دھمکیاں دینے لگا کہ ہمارے بتوں کو برا کہنا چھوڑ دو۔آپ ﷺ نے اس کی ساری بکواس کا کوئی جواب نہ دیا بلکہ خاموشی سے عبادت کرتے رہے مگر کوئی جواب نہ پاکر ابو جہل کا غصہ بھڑک اٹھا۔اور اس نے آپﷺ کے سر مبارک پر اپنی کمان اس زور سے ماری کہ خون کی لکیر بہہ نکلی ۔جسے دیکھ کر اسے ایک خاص قسم کی تسلی ہوئی اور بکتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
ان منظر کو عبداللہ بن جدعان کی لونڈی دیکھ رہی تھی اور مارے غصے کے آگ بھبوکا ہو رہی تھی مگر کچھ کر نے کی طاقت نہ رکھتی تھی اس لیے راستے سے ہٹ کر ایک پتھر پر بیٹھ گئی جیسے کسی کا انتظار کر رہی ہو۔ تھوڑی دیر گزری ہوگی کہ ایک مضبوط پہلوان سر پر سیا ہ عمامہ لپیٹے تیر کمان اٹھائے وہاں سے گزرا ۔ لونڈی اسے دیکھ کر شور مچانے لگی جب وہ قریب آیاتو لونڈی نے کہا کہ آپ ﷺ کے بھتیجے جناب محمد کو ابو جہل نے پہلے خوب تنگ کیاپھر کمان مار کر ان کا سرزخمی کر دیا ہے۔ کیاآپ کمزور ہو گئے ہیں کہ لوگ آپ کے بھتیجے پر ہاتھ اٹھانے لگے ہیں ۔‘‘
پہلوان کو یہ سن کر بہت سخت غصہ آیااور اور بے اختیار بول اٹھا، ’’کیاآج بنو ہاشم کو اس قدر کمزور سمجھا گیا ہے کہ اب محمدﷺ پر ہاتھ اٹھنے لگے ہیں ۔میں اس ہاتھ کو توڑ دوں گا جو میرے بھتیجے کی طرف بڑھے گا ۔‘‘
پہلوان یہ کہہ کر تیزی سے حر م کعبہ کی طرف بڑھا اور لونڈی اپنے مالک کے گھر چلی گئی ۔
حرم کعبہ میں اس وقت بہت سے قریشی گپ شپ میں محوتھے اور ابو جہل بڑھ بڑھ کر باتیں بنا رہا رہا تھا۔ پہلوان اسے دیکھ کر آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے آگے بڑھ کر ابو جہل کو دھمکاتے ہوئے کہا:
’’کیا تم نے محمدﷺ کو اکیلا اور لاوارث سمجھ رکھا ہے ۔کیا اس پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے تجھے بنو ہاشم کا ذرہ بھر خیال نہ آیا؟‘‘
ابو جہل اس پہلوان کو خوب جانتا تھا کہ یہ بات کا پکااور تلوار کا دھنی ہے ۔اس نے ڈرتے ڈرتے کہا:
’’تم تو خوامخواہ ناراض ہو رہے ہو۔اسے منع کردو کہ ہمارے بتوں کو برا نہ کہا کرے ورنہ… ‘‘
ابو جہل ابھی اپنی بات بھی پوری نہ کرنے پایا تھا کہ اس پہلوا ن نے اپنی کمان مار کر اسے زخمی کر دیااور اس نے گھبرا کر پوچھا:
’’کیا تم بھی مسلمان ہو گئے ہو ؟‘‘
پہلوان نے انتہائی جوش و جذبہ سے کہا، ’’ہاں میں بھی مسلمان ہو گیا ہوں ۔ تم جوکچھ کر سکتے ہو کر لو ۔‘‘
پہلوان کی یہ بات سن کر قریش سناٹے میں آگئے اور ابو جہل وہاں سے بھاگ نکلا۔
اس کے بعد پہلوان وہاں سے نکل کر کوہ صفا پر ہمارے آقا حضورﷺ کے پاس پہنچا ۔ابھی تک آپ ﷺ کے سر مبارک سے خون رس رہا تھا۔
پہلوا ن نے آپﷺ کے قریب پہنچ کر کہا:
’’بھتیجے خوش ہو جاؤ میں نے تمہارا بدلہ لے لیا ہے ۔‘‘
آقا حضورﷺ نے پہلوان کو محبت بھری نظروں سے دیکھااور نہایت سکون سے فرمایا:
’’چچا مجھے ان باتوں سے خوشی نہیں ہوتی ،ہاں تم مسلمان ہو جاؤ مجھے بے حد خوشی ہو گی ‘‘
پہلوان نے آپ ﷺ کی طرف بغور دیکھاذرا سی دیر کے لیے رکااور پھر بولا :
’’بھتیجے اگر تم اسی میں خوش ہو کہ میں مسلمان ہو جاؤ ں ۔تو لو میں مسلمان ہوتا ہوں ۔‘‘
اور یہ کہہ کر بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھا آقا حضورﷺ کا چہرہ مبارک خوشی سے کھل اٹھا اور دعا کی، ’’خدایا !حمزہؓ کو ثابت قدم رکھ۔ ‘‘
پیارے بچو!یہ پہلوان ہمارے آقا حضورﷺ کے چچا حمزہؓ تھے جو مکہ شریف کے بہت بہادر اور مضبوط پہلوان تھے۔وہ آپﷺ سے عمر میں دو سال بڑے تھے اور ہمجولی بھی تھے ۔
حمزہؓ کے قبول اسلام کو ابھی چند ہی روز گزرے تھے کہ ایک دن مکہ شریف کے دوسرے بہادر پہلوان عمرؓ بن خطاب نے ہمارے آقا حضورﷺ کی جان سے کھیلنے کا ارادہ کر لیا ۔عمرؓ بہت مضبوط اور سخت گیر آدمی تھے اور جو ارادہ کر لیتے تھے اسے پورا بھی کر گزرتے تھے ۔انہوں نے تلوار سنبھالی اور ارقم کے گھر کا رخ کیا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ہمارے آقا حضورﷺ انہیں وہاں ہی ملیں گے۔
عمرؓ جب راستے میں اپنی بہن فاطمہؓ کے گھر کے پاس سے گزرے توانہیں ایسا معلوم ہوا کہ اندر کوئی پڑھ رہا ہے۔انہیں تشویش ہوئی اور دروازہ کھٹکھٹایا تا کہ اندر داخل ہوں اور دیکھیں کون پڑھ رہا ہے اور کیا پڑھ رہاہے ۔
اس وقت ان کی بہن فاطمہ قرآن مجید کی سورۃ طہٰ پڑھ رہی تھیں ۔ ان کے شوہر سعیدؓ اور ان کے استاد وہاں موجود تھے ۔عمرؓ کی آواز سن کر فاطمہ نے قرآن مجید کے ورق چھپا دیے اور استادبھی ایک جگہ چھپ گئے ۔دروازہ کھو لا گیا۔عمرؓ اندر داخل ہوئے ۔وہ سخت طیش کے عالم میں تھے۔انہوں نے پوچھا: ’’تم کیا پڑھ رہے تھے ؟‘‘
ان کی بہن نے کہا، ’’کچھ نہیں۔ ‘‘
لیکن عمرؓ تو ان کی آواز سن چکے تھے اس لیے اور بھی زیادہ آگ بگولہ ہو گئے اور بغیر کچھ سنے اپنے بہنوئی سعید سے گتھم گتھا ہو گئے۔ جب ان کی بہن فاطمہ اپنے شوہر کو بچانے کے لیے آگے بڑھی تو انہوں نے اسے بھی مار مار کر لہولہان کر دیا لیکن اس شیر دل خاتون نے نہایت وقار سے کہا:
’’عمر!تم جو چاہو کرو!ہم مسلمان ہو چکے ہیں ۔‘‘
یہ الفاظ تیر کی طرح عمرؓ کی سینے میں اتر گئے اور انہوں نے اپنی بہن سے کہا :
’’تم جو کچھ پڑھ رہے تھے ‘مجھے دکھاؤ۔‘‘
فاطمہ نے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے قرآن مجید کے یہ ورق ایک جگہ سے نکالے اور عمرؓ کے ہاتھ میں دے دیے۔عمرؓ نے جب ان کو پڑھا تو ان کے دل کی حالت تبدیل ہو گئی ۔ان کا ضمیر جاگ اٹھا اور اللہ کے کلام پاک کے رعب و جلال سے کانپنے لگے ۔
پیارے بچو! جو آدمی قرآن مجید کو پڑھ کر اسے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ،اس پر واقعی اللہ پاک کی محبت اور ہیبت طاری ہوجاتی ہے اور اس کی زندگی میں زبردست انقلاب آجاتا ہے۔اللہ پاک آپ کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ آپ قرآن مجید سمجھ کر پڑھیں اور اس پر عمل کریں تا کہ دنیا اور آخرت کی کامیابی آپ کو نصیب ہو۔
عمرؓ اپنی بہن کے گھر سے نکلے اور سیدھے ارقم کے گھر پہنچے ۔دروازہ کھٹکھٹایااور صحابہ جو وہاں موجود تھے، ان کو وہاں دیکھاتو ان پر خوف طاری ہو گیا اور طرح طرح کے وسوسے دل میں پیدا ہونے لگے ۔ لیکن جب دروازہ کھلنے کے بعد ہمارے آقا حضورﷺ نے اس کی چادر کو پکڑ کر جھٹکا دیااور پوچھا،’’ابن خطاب تمہیں کیا چیز یہاں لائی ہے؟واللہ میں سمجھتا ہوں کہ تم باز نہ آؤ گے جب تک اللہ تم پر کوئی سخت آفت نازل نہ کردے۔‘‘
آقا حضورﷺ کے رعب سے عمرؓ کا سر جھک گیااور انہوں نے دھیمی سی آواز میں کہا، ’’حضورﷺ! مسلمان ہونے کے لیے آیا ہوں ۔‘‘
مسلمانوں نے یہ سن کر خوشی سے نعرہ تکبیر بلند کیااور پہاڑیاں گونج اٹھیں ۔یہ نبوت کا چھٹا سال تھا۔ان دونوں پہلوانوں کے اسلام قبول کرنے کے بعد کافروں پر دہشت سی طاری ہوگئی اور مسلمانوں کے حوصلے بڑھ گئے۔ اب وہ کھلم کھلا حرم کعبہ میں جانے اور عبادت کر نے لگے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بنو ہاشم کی نظر بندی
قریش نے جب یہ دیکھا کہ مسلمانوں کی طاقت اب پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے ۔تو انہوں نے مشورہ کر کے یکم محرم۷ء بعثت یعنی ۶۱۷ کو ایک معاہدہ لکھا جس میں بنو ہاشم کا مقاطعہ (قطع تعلق کرنا) لکھا گیا تھا۔یعنی وعدہ کر لیا گیاتھاکہ اب حضورﷺکے خاندان بنو ہاشم سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھیں گے اور نہ ان کے ساتھ کسی قسم کا لین دین کریں گے۔ ان حالات میں بنو ہاشم مجبور ہو گئے کہ مکہ شہر چھوڑ کر سامنے ایک پہاڑی پر جو جناب ابو طالب کی ملکیت تھی، پناہ گزین ہو جائیں۔ اس کو شعب ابی طالب کہتے تھے۔ یہ سخت مصیبت کا دور تھا ۔کسی کو ان کے پاس جانے کی اجازت نہ تھی ۔نہ ہی کسی تاجر کی ہمت تھی کہ وہاں جا سکے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ بنو ہاشم کا خوراک کا ذخیرہ رفتہ رفتہ ختم ہوگیا اور وہ فاقہ کرنے لگے۔ جب بچے بھوک کے مارے چلاتے تھے تو قریش بہت خوش ہوتے تھے کہ ہمارے بت ان سے ہمارا انتقام لے رہے ہیں ۔
لیکن کچھ عرصہ بعد حکیم بن حزام اور دوسرے ہمدردوں نے چوری چھپے خوراک کا ذخیرہ بنو ہاشم تک پہنچاناشروع کر دیا ۔یوں اس تکلیف دہ حالت میں جب تین سال گزر گئے تو ایک روز ہمارے آقا حضور ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب سے فرمایا:
’’چچا میرے رب نے مجھے اطلاع دی ہے کہ کفار نے ہمارے خلاف جو معاہدہ لکھ کر کعبہ کی دیوار سے لٹکایا تھا۔ اس تحریر کو دیمک چاٹ گئی ہے اور صرف اللہ کا نام باقی رہ گیا ہے۔آپ قریش کو اس کی اطلاع دیں اور ان پر واضح کر دیں کہ اب تمہارا مقاطعہ خود بخود ختم ہو گیا ہے ۔‘‘
چنانچہ جب مقاطعے کی تحریر دیکھی گئی تو آپﷺ کی بات بالکل صحیح نکلی ۔قریش پر دہشت سی طاری ہوگئی اور ان میں سے اکثر لوگ مقاطعے کوتوڑنے پر رضامند ہوگئے لیکن اکثریت اب بھی مقاطعے کے حق میں تھی۔تاہم ہشام ‘زبیر ‘زمعہ ‘مطعم اور ابو البختری نے بنو ہاشم کو ا س نظر بندی سے آزاد کرانے کے لیے ہتھیار سجائے اور مل جل کر شعب ابو طالب سے انہیں واپس شہر میں لے آئے اور یوں انتہائی مصیبت ‘فاقہ کشی اور پریشانی کے یہ تین سال پورے ہوئے ۔
پیارے بچو! ذرا غور کرو دین اسلام کے خاطر ہمارے آقا حضورﷺ نے کس قدر تکلیفیں برداشت کی ہیں ۔

۔۔۔۔۔

غم کا سال
بنو ہاشم کو اس نظر بندی سے آزاد ہوئے ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ جناب ابو طالب بیمار ہو گئے اور کفار قریش ان کی بیمار پرسی کے لیے جمع ہوئے۔ ان کے دل میں یہ بات بھی تھی کہ موقع پا کر محمدﷺ کے خلاف بھی کچھ باتیں کریں گے۔ یہ پچیس آدمیوں کا گروہ تھا جس میں قریش کے سب سے بڑے بڑے سردار شامل تھے۔ یہ آقا حضورﷺ کی نبوت کا دسواں سال تھا ۔قریش نے جناب ابو طالب کی صحت و تندرستی دریافت کرنے کے بعد جب موقع مناسب دیکھا تو انہیں ہمارے آقا حضورﷺ پر چند پابندیاں لگانے کے لیے کہا اور ان پر زور دیا کہ زندگی اور موت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ دنیا سے رخصت ہو جانے کا ایک وقت مقرر ہے اس لیے آپ اپنے بھتیجے کومنع کر دیں کہ نہ ہمارے بتوں کو برا کہے، نہ ہمارے دین کے خلاف باتیں کرے ۔پیارے بچو ! ہمارے آقا حضورﷺ بھی اس وقت اپنے چچا کے پاس موجودتھے ۔آپﷺ نے ان کی باتیں ماننے سے صاف انکار کر دیا جس سے قریش سخت غصے کے عالم میں یہ کہتے ہو ئے وہاں سے چلے گئے کہ
’’یہ جادوگر ہے سخت جھوٹا ہے۔اس نے سارے خداؤں کی جگہ بس ایک خدا بنا لیاہے۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے اور اس سے بھی زیادہ بڑی عجیب بات یہ ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو نا ہے۔آخر اس پر کیسے یقین لے آئیں۔ چلو‘اور ڈٹے رہو اپنے معبودوں کی حمایت پر ۔یہ باتیں تو صرف ہم کو بے وقوف بنانے اورہم پر حکومت کر نے کے لیے کہی جا رہی ہیں ۔کیا ہمارے درمیان بس ایک یہی ایساشخص رہ گیا ہے کہ جس پر اللہ کا ذکر نازل کیاگیا ہے ۔‘‘
کچھ دنوں کے بعد جناب ابو طالب کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو قریش کا ایک اور وفد ان کے پاس اس وقت آیا جبکہ آقا حضورﷺ بھی ان کے پاس موجود تھے اور انہوں نے ان لوگوں کو ہمارے آقا حضورﷺ کے بارے میں وصیت کی ۔
‘‘میں تمہیں محمد ﷺ کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ ان کے ساتھ بھلائی سے پیش آنا کیونکہ وہ قریش میں امین اور تمام عرب میں سب سے زیادہ سچے آدمی ہیں ۔اور میں جانتا ہوں کہ عرب کے تمام لوگ ان کی دعوت اسلام قبول کریں گے۔‘‘
پھر انہوں نے اپنی اولاد اور افراد خاندان سے مخاطب ہو کر کہا ۔تم اس وقت تک خیر سے ہو جب تک کہ محمدﷺ کی بات سنتے رہو گے اور ان کے کلمے کی پیروی کرتے رہو گے ۔
ان کی یہ بات سن کر ہمارے آقا حضورﷺ نے اپنے چچا جان سے کہا:
’’چچا جان آپ ان کو تو نصیحت کر رہے ہیں مگر خود اپنے آپ کو کیوں چھوڑ رہے ہیں ۔اگر آپ کلمہ پڑھ لیں تو قیامت کے دن مجھے آ پ کی شفاعت کرنے کا موقع مل جائے گا۔‘‘
آپﷺ کی بات سن کر ابو جہل اور عبداللہ بن امیہ بھڑک اٹھے اور جناب ابو طالب کو کلمہ پڑھنے سے باز رکھنے کے لیے بو لے :
’’اے شیخ !کیا آپ اپنے باپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جائیں گے ؟‘‘
وہ برا بر باتیں کہتے رہے اور ابو طالب نے ہمارے آقا حضورﷺ سے مخاطب ہو کر کہا:
’’بھتیجے اگر مجھے ان لوگوں کو برا بھلا کہنے اور قریش کو میری نسبت یہ گمان کرنے کا اندیشہ نہ ہوتا ‘ کہ میں نے موت سے گھبرا کر کلمہ پڑھ لیا تو بلا شبہ کلمہ پڑھ لیتا۔‘‘
پھر تھوڑی دیر تک خاموش رہنے کے بعدبڑی مشکل سے یہ چند الفاظ ادا کیے:
’’بھتیجے میں مر جاؤں تو تم اپنے دادا کے ننھیال بنی نجار کے پاس یثرب چلے جانا کیوں کہ وہ اپنے گھروں کی حفاظت میں سب لوگوں سے بڑھ کر سخت ہیں ۔‘‘
اس کے بعد ان کا سانس اکھڑ گیا اور جان نکل گئی۔
ہمارے آقا حضورﷺ کو اس کا بہت دکھ ہوا ‘انہوں نے آپ ﷺ کی پرورش کی تھی۔ کافروں کے مقابلے پر آپﷺ کے لیے ایک مضبوط سہارا ثابت ہوئے تھے۔اس لیے آپ ﷺ ان کی موت سے کئی دن تک اداس رہے ۔
۱۰ء بعثت کاماہ رمضان ابھی ختم نہیں ہونے پایا تھا اور جناب ابو طالب کو فوت ہوئے چند ہی روز گزرے تھے کہ آپ ﷺ کی بیوی سیدہ خدیجہؓ چند روز تک بیمار رہنے کے بعد انتقال کر گئیں جس کا آپ ﷺ کو بہت زیادہ صدمہ ہوا اور گھر کی ساری رونق جاتی رہی ۔وہ آپﷺ کی بہت معاون ومدد گار تھیں اور مشکلات میں آپ ﷺ کی ڈھارس بندھاتیں اور حوصلہ بڑھایا کرتی تھیں ۔انہوں نے تن من دھن سے پچیس سال تک آپﷺ کی اس قدر خدمت کی تھی کہ آپﷺ زندگی بھر انہیں یاد کرتے رہے ۔
آپ ﷺ اکثر فرمایا کرتے تھے ۔
۱۔ وہ مجھ پر ایمان لائیں جب اوروں نے کفر اختیار کیا۔
۲۔ انہوں نے میری تصدیق کی جب اوروں نے مجھے جھٹلایا۔
۳۔ انہوں نے اپنے مال میں مجھے شریک کیا جب اوروں نے مجھے کسب مال سے روکا ۔
۴۔ خدا نے ان کے بطن سے اولاد دی جب کہ کسی دوسری بیوی سے نہیں ہوئی ۔
اب آپ تبلیغ کے لیے گھر سے باہر تشریف لے جاتے تو گھر میں موجود چھوٹی بچیوں ام کلثومؓ اور فاطمہؓ کی نگرانی کرنے والا کوئی نہ ہوتا تھااور گھر کا انتظام درہم برہم ہو کررہ گیا تھا۔
ان تمام صدموں کی وجہ سے یہ سال عام الحزن یعنی غم کاسال کہلاتاہے ۔کچھ عرصہ بعد آپ ﷺ نے مکہ شریف کی ایک انتہائی شریف معزز اور زیادہ عمر والی بیوہ یعنی زمعہ کی بیٹی سیدہ سودہؓ سے نکاح کر لیا تا کہ بچیوں کی خبر گیری اورگھر کی نگرانی کرنے کے سے فرصت ملے اور پورے سکون کے ساتھ دین اسلام کی تبلیغ کر سکیں ۔
اسی سال آپﷺ نے اپنے رفیق ابو بکر کی بیٹی سیدہ عائشہؓ سے بھی نکاح کر لیا تا کہ دین کی تبلیغ کے لیے عورتوں میں کام کر سکیں کیونکہ وہ جوان اور ذہین تھیں اور بہت لائق ہو نے کی وجہ سے انہوں نے آئندہ سالوں میں دین کی بہت خدمت کی تھی ۔

۔۔۔۔۔۔۔

طائف میں
پیارے بچو! مکہ شریف سے تقریباً ۷۵ میل جنوب مشرق میں ایک شہر واقع ہے جسے طائف کہتے ہیں یہ شہر ہمارے آقا حضورﷺ کے زمانے میں بھی مشہور تھا ۔اور یہاں انگور اور انجیر کے بہت بڑے بڑے باغات تھے ،یہاں موسم ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے مکہ شریف کے رئیس گرمیاں گزارنے کے لیے آیا کرتے تھے اوریوں بھی اس شہر میں بڑے بڑے امیر اور تاجر لوگ رہتے تھے۔
ہمارے آقا حضورﷺ نے سیدہ سودہؓ سے نکاح کے کچھ دنوں کے بعد اسلام کی تبلیغ کی خاطر طائف کا سفر اختیار کیا۔کیونکہ اب مکہ شریف میں ساری تبلیغی محنت بے کار ہوتی جا رہی تھی اور جو لوگ مسلمان ہو چکے تھے ۔بس وہی مسلمان تھے باقی ہر وقت اسلام کی مخالفت میں کمر بستہ رہتے تھے ۔ طائف کے اس تبلیغی سفر میں آپﷺ کے ہمراہ آپ ﷺ کے آزادکردہ غلام زیدؓ تھے۔آپﷺکے پاس کوئی سواری نہ تھی اور مالی کمزوری کی وجہ سے کسی سواری کا بندوبست بھی نہ ہو سکتا تھا ۔
آپﷺ پیدل سفر کرتے تھے اور راستے میں جہاں موقع ملتا تھا لوگوں کو اللہ کا پیغا م سناتے تھے مگر لوگوں پر کچھ اثرنہ ہوتاتھا ۔اسی طرح منزل بہ منزل آپﷺ طائف پہنچے اور سوچا کہ یہاں کے سب سے بڑے سردار سے تبلیغ کا آغاز کر نا چاہیے ۔تا کہ اگر وہ مسلمان ہو جائے تو باقی کام آسان ہو جائے گا اور اس کی طرف دیکھ کر دوسرے لوگ آسانی سے اسلام قبول کر لیں گے ۔اس سردار کا نام عمر و بن عمیر تھا۔ اس کے تین لڑکے تھے ۔عبد یا لیل ‘مسعود اور حبیب لیکن یہ لوگ اس قدر بد بخت تھے کہ انہوں نے آپﷺ کا پیغام سننے کی بجائے شہر کے لفنگوں کو آپﷺ کے پیچھے لگا دیا۔تا کہ وہ آپ ﷺ کو خوب تنگ کر کے شہر سے نکال دیں ۔نتیجہ یہ ہوا کہ آپﷺ شہر میں جہاں بھی گئے اور جس کسی سے بھی آپ ﷺ نے بات کی ۔ہر ایک نے آپﷺ کی بات سننے سے انکار کر دیا ،برا بھلا کہا اور دھمکیاں دیں، فوراً شہر سے نکل جانے کو کہا۔ آپﷺ تقریباًایک ہفتے تک اس شہر میں پریشان ہوتے رہے ۔لیکن کہیں بھی آپﷺ کی بات نہ سنی گئی ۔بلکہ ایک دن بہت سے لونڈے لفنگے اکٹھے ہوئے اور انہوں نے آپﷺ پر پتھراؤ شروع کر دیا ۔چنانچہ آپﷺ بھی سخت زخمی ہوئے اور زیدؓ بھی لہولہان ہو گئے ۔
آپﷺ دونوں کے پیچھے شہر کے بدمعاش ایک میل تک شور مچاتے، دھول پھینکتے اور پتھر مارتے چلے گئے اور جب دیکھا کہ اب یہ دونوں شہر سے کافی دور نکل گئے ہیں تو واپس لوٹ آئے اور آپ زیدؓ کے ساتھ ایک سردار عتبہ کے باغ میں جو سڑک کے ساتھ ہی تھا، اس حالت میں داخل ہوئے کہ سر سے پاؤں تک خون بہہ رہا تھا اور بدن درد کے مارے چور تھا۔آپ ﷺ نے اس باغ میں سستانے کا ارادہ کر لیااور ابھی تھوڑی دیر ہی بیٹھے ہوئے گزری تھی کہ عتبہ کا غلام عداس انگوروں کی ایک پلیٹ لئے ہوئے آپﷺ کے پاس آیا اور کہاکہ میرے آقا نے آپﷺ کے لیے یہ انگور بھیجے ہیں۔ آپ ﷺ نے عداس کو اسلام کی دعوت دی تو وہ اسلام لے آیا اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔
آپﷺ باغ سے نکل کر جب ایک مقام پر پہنچے تورات ہونے والی تھی، اس لیے وہاں ٹھہر گئے اور درد بھری دعا کرتے ہوئے کہا:
’’الٰہی ‘اپنی قوت کی کمی ،اپنی بے سروسا مانی اور لوگوں کے مقابلے میں اپنی بے بسی کی فریاد تجھی سے کرتا ہوں۔تو سب رحم کر نے والوں میں سے زیاد ہ رحم کرنے والا ہے ۔درماندہ اور بے کسوں کا پروردگارتو ہی ہے ۔‘‘
پیارے بچو ! اللہ کا پیغام دوسروں تک پہنچانے کے لیے خواہ کسی قسم کی تکلیفیں پیش آئیں ان سے بد دل نہیں ہو نا چاہیے بلکہ اپنے کام کو نہایت جوانمردی اور حوصلے سے جاری رکھنا چاہیے۔ اگر مشکلات بڑھ جائیں تواللہ پاک کے حضورعاجزی سے دعا کرنے کو نہ بھولناکیونکہ دعا سے دل کو تسکین ہوتی ہے ۔ مصیبت دور ہو جاتی ہے اور اللہ کی رحمت اپنا سایہ کر دیتی ہے ۔
یہ دن آپﷺ کی زندگی کا سخت ترین دن تھا ۔ایک بار آپﷺ کی بیوی سیدہ عائشہؓ نے آپﷺ سے دریافت کیا:
’’یا رسول اللہ ! کیا آپﷺ پر غزوہ احد کے دن سے بھی زیادہ سخت دن کوئی گزرا ہے ؟‘‘تو آپ ﷺ نے فرمایا:
’’میری قوم کی طرف سے اور جو تکلیفیں پہنچیں سو پہنچیں ۔مگرسب سے بڑھ کر سخت دن وہ تھا جب میں نے طائف میں عبد یالیل کے سامنے اسلام کی دعوت رکھی اور اس نے رد کر دیااور اس درجہ صدمہ ہوا کہ قرن الثعلب کے مقا م تک جا کر بمشکل طبیعت سنبھلی ۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔

معراج کا سفر
اللہ پاک نے ہمارے آقا حضورﷺ پر اپنی بہت زیادہ مہربانیاں کرنے کے لیے آپ کو ۲۷ رجب ۱۰ء بعثت پیر کی رات کو آسمان پر بلایا ۔ہوا یوں کہ آپﷺ رات سوئے تھے کہ جبریل امین آئے اور ایک سواری جسے براق کہتے ہیں پیش کی ۔آپ ﷺ اس پر سوار ہوئے ۔اور پہلے بیت المقدس (جو آج کل اسرائیل کے قبضے میں ہے )پہنچے ۔جہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کی بنائی ہوئی مسجد میں تمام نبی موجود تھے ۔نماز کا وقت تھا۔ آپﷺ نے امامت کی اور سب نبیوں نے آپﷺ کے پیچھے نماز پڑھی ۔ وہاں سے رخصت ہو کر آپﷺ جبریل امین کے ساتھ آسمانوں میں سے ہوتے ہوئے ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں سے آگے جانے کی اجازت جبریل امین کو بھی نہ تھی۔آپ ﷺ نے آسمانوں پر مختلف نبیوں سے ملاقات کی اور ان سے باتیں کیں ۔جس جگہ سے جبریل امین کو بھی آگے جانے کی اجازت نہ تھی۔ اسے سدرۃ المنتہیٰ کہتے ہیں لیکن ہمارے آقا حضورﷺ اس جگہ سے بھی آگے تشریف لے گئے اور ایک جگہ جا کر اللہ پاک سے ملاقات ہوئی۔ پانچ نمازیں پڑھنے کاحکم ہوا۔ آپﷺ کوجنت کی سیر کرائی گئی ۔ دوزخ بھی دکھائی گئی ۔آپﷺ نے اللہ پا ک کی بہت سی قدرتیں دیکھیں اور پھر براق پر سوار ہو کر واپس بیت المقدس پہنچے ۔جہاں فجر کی نماز کے لیے نبیوں کی صفیں تیار کھڑی تھیں۔ آپﷺ نے ان کو نماز پڑھائی اور براق پر سوار ہوکر واپس مکہ تشریف لے آئے ۔لوگوں کو جب آپﷺ نے یہ واقعہ سنایا تو کافروں نے مذاق اڑایا اور کئی کمزور ایمان والے مسلمان بھی شک میں پڑگئے ۔کیونکہ مکہ شریف سے بیت المقدس تک کا فاصلہ دو ماہ میں پورا ہوتا ہے ۔اور آسمان پر جانے والی بات ان کو سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ پیارے بچو! خداکی قدرت سے کوئی چیز نا ممکن نہیں۔ اللہ جو چاہتا ہے کرتاہے اورجس چیز کاحکم دیتا ہے فوراً ہو جاتی ہے ۔
کافروں نے جب آپﷺ کے رفیق حضرت ابو بکرؓ سے اس بات کا ذکر طنز کے طور پر کیا تو انہوں نے کہا:
’’اگر جناب محمد ﷺ نے یہ واقعہ بیان کیا ہے تو ضرور سچ ہے۔ اس میں تعجب والی کون سی بات ہے۔ میں تو ہر روز سنتا ہوں کہ ان کے پاس آسمانوں سے پیغام آتے ہیں اور اس واقعے کی تصدیق کرتا ہوں ۔‘‘
قرآن مجید میں سورہ بنی اسرائیل میں وہ تمام احکام درج ہیں جو معراج کی رات اللہ پاک نے جاری کیے تھے ۔اور جن پر عمل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے ۔پیارے بچو! آپ بھی ان احکامات کے متعلق معلومات حاصل کریں تا کہ آپ ان پر عمل کر کے اپنی دنیا اور آخرت سنوار سکیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

یثرب کے مسلمان
جب ہمارے آقا حضورﷺ کو قریش مکہ کے مسلمان ہو جانے کی امید نہ رہی تو آپﷺ نے دوسرے قبیلوں کو دعوت دی اور حج کے دنوں میں آپﷺ حاجیو ں سے ملتے اور انہیں خدا کا پیغام سناتے ۔ پیارے بچو! ۱۱ء بعثت (۶۲۰ء ) کے ایام حج میں آپ رات کے وقت جب تبلیغ کے لیے مکہ شریف سے ذرا ہٹ کر عقبہ کے مقام پر پہنچے ۔تو وہاں آپﷺ کو یثرب کے چند حاجی بیٹھے آپس میں باتیں کرتے ہوئے نظر آئے۔ آپﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے۔ ا ن سے باتیں کیں اور اسلام کی دعوت پیش کی تو انہوں نے اسے نہایت خوشی سے قبول کر لیا۔آپﷺ کو اس سے بے حد مسرت ہوئی ۔ یہ یثرب میں اسلام کی پہلی آواز تھی جو ان حاجیوں کے ذریعے وہاں پہنچی ۔انہوں نے وہاں جا کر اپنے لوگوں کو پیارے نبی اور اسلام کے متعلق بہت سی باتیں بتائیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگلے سال یعنی۱۲ء بعثت میں حج کے لیے یثرب سے آنے والوں میں بارہ آدمیوں کا ایک ایسا گروہ بھی تھاجن میں چھ تو پہلے والے مسلمان تھے اور چھ آدمی آپﷺ کی زبان مبارک سے اللہ کا پیغام سن کر مسلمان ہو گئے ۔
اب یثرب میں اسلا م کی تبلیغ کرنے والے بارہ آدمی ہو گئے اور ان کی کوششوں سے تیسرے سال یعنی ۱۳ء بعثت ( جولائی ۶۲۲ء) میں یثرب سے تہتر مردوں اور دوعورتوں کا ایک قافلہ مکہ شریف پہنچااور انہوں نے ہمارے آقا حضورﷺ سے ملاقات کے لیے ایک پروگرام بنایا۔جس کے مطابق ایام حج کی آخری رات کو ہمارے آقا حضورﷺ اپنے چچا عباسؓ کے ساتھ ان کے خیموں میں گئے ۔یہ ساری بات خفیہ رکھی گئی تھی تا کہ مکہ والوں کو ا س کی خبر نہ ہو ۔ان لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ آپﷺ کے ہاتھ پر سچے اور پکے مسلمان رہنے کی بیعت کی اور پھر آپ ﷺ کو دعوت دی کہ آپﷺ مکہ چھوڑ کر یثرب میں ان کے پاس آجائیں تا کہ اسلام کی تبلیغ کاکام کھلے بندوں کیا جائے اور وہ لوگ آپﷺ کے معاون و مدد گارہو نگیں ۔
آپﷺ نے اس دعوت کو قبول کر لیااور فرمایا:
’’میرا مرنااور جینا اب تمہارے ساتھ ہے ۔میں تمہارا ہوں اور تم میرے ہو۔‘‘
اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا، ’’اب تم لوگ اپنی اپنی قیام گاہوں کو واپس چلے جاؤ۔‘‘
آپ ﷺ نے ان کی در خواست پر اپنے ایک صحابی حضرت مصعبؓ کو ان کا معلم بنا کر ان کے ساتھ روانہ کیاتا کہ وہ یثرب میں اسلام کی تبلیغ بھی کریں ۔
یہ تاریخ اسلام کا سنہری واقعہ ہے‘کیونکہ یہ اسلام کی سیاسی زندگی کا سنگ بنیاد ہے اور اسی نقطہ سے مسلمانوں کا عروج شروع ہوتا ہے ۔اب مسلمانوں کو ایک مرکز مل گیا تھا،جو اسلامی ریاست کے لیے بہت ضروری تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکی ظالموں کا ٹولہ
ہمارے آقا حضورﷺ کی عمر مبارک کے ۵۳ سال ختم ہو کر ۵۴واں سال شروع ہونے والا تھا کہ ۲۷ صفر ۱۴ ء بعثت کومکہ شریف کے ظالموں کا ایک گروہ جس میں تیرہ سردار شامل تھے اور دارالندوہ میں جمع ہوا ،جوان لوگوں کا اسمبلی ہال تھا۔وہا ں اس بات پر غور کیا گیا کہ جناب محمدﷺ سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے کون سی تدبیر پر عمل کیا جائے کیوں کہ انہیں معلوم ہو چکا تھا کہ یثرب کے دو قبیلے اوس اور خزرج کے بہت سے معزز لوگ جناب محمد ﷺ کی حمایت کے لیے تیار ہو چکے تھے ۔اور یہ قریش کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی۔اس مجلس میں مندرجہ ذیل تجویزیں پیش کی گئی تھی۔
۱۔ آپ ﷺ کو بیڑیاں پہنا کر ایک ایسی جگہ قید کر دیا جائے جہاں سے جیتے جی رہا نہ ہوسکیں ۔
۲۔ آپﷺ کے گلے میں طوق اور زنجیریں ڈال کر کسی مکان میں قید کر دیا جائے اور اس کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے ۔
لیکن ان دونوں تجویزوں کو اس لیے رد کر دیا گیا کہ مسلمان ہر حال اور ہر قیمت پر اپنے آقا کو چھڑا کر لے جائیں گے۔
۳۔ ایک سرکش اونٹ پر بٹھا کر کسی غیر علاقے کی طرف نکال دیاجائے۔
لیکن اسے یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ جناب محمد ﷺ بہت جادو بیان آدمی ہیں۔ یہ جہاں بھی جائیں گے لوگوں کا دل موہ لیں گے ۔
۴۔ چو تھی اور آخری تجویز ابو جہل نے پیش کی اور اس کا لب لباب یہ تھا کہ ہر قبیلے سے ایک ایک نوجوان منتخب کیا جائے اور سب مل کر جناب محمدﷺ پر اس وقت حملہ کر دیں جب وہ صبح نماز کے لیے اپنے گھر سے باہر نکلیں ۔اس طرح بنو ہاشم ( حضورﷺ کاخاندان )تمام قبیلوں سے انتقام نہ لے سکے گا۔
اس تجویز کو اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔اور یہ طے پایا کہ آج رات آپﷺ کے مکان کا خفیہ طور پر گھیراؤ کیاجائے اور صبح اپنی تجویز پر عمل کر کے ان سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارہ حاصل کیا جائے ۔لیکن ان کی اس تدبیر پر تقدیر ہنس رہی تھی ۔کیونکہ سب اختیارات تو اللہ پاک کے پاس ہیں ۔وہ ہر کسی کی تدبیر کو ناکام کر سکتا ہے۔اس بات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ پاک نے فرمایاہے :
’’اور وہ وقت یاد کرو جب کافر تمہارے بارے میں چالیں چل رہے تھے کہ تمھیں قتل کر دیں یا تمہیں جلاوطن کر دیں ۔وہ اپنی چال چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھااور اللہ سب سے عمدہ چال چلنے والا ہے ۔‘‘
آپ نے آنے والے واقعات کے پیش نظر بہت پہلے مسلمانوں کو یثرب کی طرف ہجرت کر نے کا حکم دیا تھا اور سب مسلمان ایک ایک کر کے چھپتے چھپاتے یثرب پہنچ چکے تھے ،اس لیے مکہ شریف میں اب صرف ہمارے آقا حضورﷺ ،آپﷺ کے رفیق ابو بکرؓ اور آپﷺ کے پیارے چچا زاد حضرت علیؓ ہی رہ گئے تھے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہجرت
۲۷صفر، ۱۴بعثت جمعہ کی رات تھی جب کہ کافروں کے چودہ سرداروں نے ہمارے آقا حضورﷺ کے مکان کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ ان میں خود آپﷺ کے ایک بدبخت چچا ابو لہب بھی شامل تھا۔جو ہمیشہ آپﷺ کی مخالفت کیا کرتا تھا۔ان لوگو ں نے بڑاخفیہ اور خطر ناک منصوبہ بنا لیا تھا لیکن پیارے بچو! اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب ہمارے آقا حضورﷺ کو شروع میں ہی اس کی اطلاع دے دی تھی اور یہاں سے ہجرت کر جانے کاحکم بھی دے دیا تھا۔اس لیے آپﷺ نے دوپہر کے وقت جب کہ سارے بازار سنسان اور گلیاں ویران ہوتی ہیں، اپنے گھر سے نکل کر اپنے رفیق حضرت ابوبکرؓ کوجاکر اس بات کی خبر دے دی تھی اور انہیں ہجرت کے لیے تیار رہنے اور بندو بست کرنے کا بھی اشارہ کر دیا تھا۔
آپ ﷺرات کے پہلے حصے میں ہی اپنے مکان سے باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ سب کافر نیند میں مدہوش ہیں۔ آپﷺ ان کے درمیان سے گزر کر حضرت ابو بکرؓ کے مکان پر پہنچے ۔وہ بالکل تیار تھے۔ دونوں رات کی تاریکی میں مکہ شریف کی جنوب کی طرف روانہ ہو گئے اور چھ میل کا سفر طے کر کے دن نکلنے سے پہلے پہلے جبل ثور کے غار تک پہنچ گئے تا کہ اس میں پناہ لے سکیں ۔
پیارے بچو!یثرب تو مکہ کے شمال میں واقع ہے اور آپﷺ کو ہجرت کر کے جانابھی یثرب ہی میں تھا ۔لیکن اس کے باوجود آپﷺ نے جنوب کا سفر کیوں اختیار کیا؟اس کا جواب یہ ہے کہ آپﷺ خوب جانتے تھے کہ کافر آپﷺ کی تلاش میں یثرب جانے والے راستوں میں آپﷺ کو تلاش کریں گے اور جنوب کی طرف جانے کا انہیں خیال تک نہ آئے گا اس لیے آپﷺ نے جنوب کا سفر اختیار کیا۔
صبح کے وقت جب کافر آپﷺ کے مکان میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ آپﷺ کے بستر مبارک پر حضرت علیؓ سو رہے تھے جنہیں آپﷺ نے اس لیے وہاں چھوڑا تھا کہ دوسرے دن لوگوں کی وہ امانتیں جو انہوں نے آپ ﷺ کے پاس رکھی ہوئی تھیں انہیں واپس کر کے یثرب کی طرف روانہ ہو جائیں ۔
پیارے بچو ! دیکھو یہ کتنی ایمان بڑھانے والی بات ہے کہ لوگ تو آپﷺ کی جان کے لاگو ہو رہے ہیں اور آپ ﷺ کو ان کی امانتیں لوٹانے کی فکر ہے۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ آپﷺ کو امین کہا کرتے تھے اور دشمنی اور مخالفت کے باوجود اپنی امانتیں آپﷺ کے پاس ہی رکھوایا کرتے تھے ۔ کیونکہ اس وقت بنکوں وغیرہ کا رواج نہیں تھا ۔ لوگوں کو آپﷺ کے پاس امانتیں رکھتے ہوئے یہ یقین ہوتا تھا کہ ان کے ضائع ہو جانے کا کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ہمیں بھی امانت میں خیانت کرنے سے بالکل پر ہیز کر نا چاہیے تاکہ آقا حضورﷺکی خوشنودی حاصل کر سکیں ۔
کافروں نے جب دیکھا کہ جناب محمدﷺ گھر میں موجود نہیں ہیں تو ان کی تلاش میں تمام پہاڑوں ‘ راستوں ‘جنگلوں اور بیابانوں میں پھیل گئے۔ آپﷺ کی گرفتاری پر بھاری انعام کا اعلان کر دیا لیکن یہ سب لوگ آپﷺ کو شمال کی جانب ہی ڈھونڈتے رہے اور جنوب کی طرف جانے کا خیال تک نہ آیا۔
پیارے بچو ! مکہ شریف کاا یک مشہور کھوجی کر زنامی تھا۔ وہ ظالم آپﷺ کے پاؤں کے نشانات دیکھتا ہوا آدمیوں کے ساتھ غارثور تک پہنچ گیا۔لیکن اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کی حفاظت کے لیے مکڑی کو غار کے منہ پر جالا تن دینے کاحکم دے دیا تھاا س لیے جب کرز اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں پہنچا تو انہوں نے کہا یہ جالا ثابت کرتا ہے کہ ا س کے اندر کوئی بھی موجود نہیں کیونکہ اگر کوئی آدمی اس کے اندر داخل ہوتا تو جالا قائم نہ رہتا ۔یوں یہ لوگ آپﷺاور حضرت ابو بکرؓ کے بالکل قریب پہنچ کر بھی ناکام و نامراد واپس لوٹ آئے اور کافروں کی چال کو اللہ کی چال نے مات کر دیا۔
پیارے بچو ! جب یہ کافرغار کے دہانے پر کھڑے باتیں کر رہے تھے تو حضرت ابوبکرؓ کوبہت فکر ہو گئی تھی مبادا یہ لوگ ہمیں دیکھ لیں اور پھر آقاحضورﷺ کی جان کو خطرہ پیش آجائے ۔انہیں یوں فکر مند دیکھ کر آپﷺ نے جب اس پریشانی کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے عرض کیا آقاحضورﷺ کہیں یہ ہمیں دیکھ نہ لیں ۔اس پر آپﷺ نے فرمایا:
’’اے ابوبکر غم نہ کر۔اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘
آپﷺ اس غار میں تین دن تک رہے اور ستو کھا کر گزارہ کرتے رہے۔ تیسرے دن صبح کے وقت حضرت ابوبکرؓ کے بیٹے عبداللہ اپنے والد کے غلام عامر بن فہیرہ اور ایک راستہ دکھانے والے شخص عبداللہ بن اریقط کے ساتھ دو انٹنیاں لیے جبل ثور کے دامن میں پہنچے اور اس کی اطلاع آپﷺ کو غار میں جا کر دی ۔آپﷺ غار سے نکلے اور ایک اونٹنی پر اپنے رفیق حضرت ابو بکرؓ کے ساتھ سوار ہوئے جب کہ دوسری اونٹنی پرعبداللہ بن اریقط اور عامر بن فہیرہ سوار ہوئے اور یہ مختصر سا قافلہ یثرب کی طرف اس راہ پر چل دیا جوبہت دشوار گزار تھااور بہت کم لوگ اس راہ پر سفر کرتے تھے ۔یہ یکم ربیع الاول (۱۶ ستمبر ۲۶۶ء)پیر کا دن تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

سراقہ
آقا حضورﷺ کا یہ مختصر سا قافلہ ساحل سمندر سے ذرا ہٹ کر اپنے سفر پر یثرب کی طرف جا رہا تھا کہ قدید کے رئیس سراقہ بن مالک بن جعشم نے جب دو اونٹوں کو تیز تیز جاتے ہوئے دور سے دیکھا تو اسے شک ہوگیا کہ یہ ضرور جناب محمدﷺ اور آپ کاساتھی ہیں، اس لیے انعام کے لالچ میں اس نے اپنی تلوار سنبھالی ‘ترکش اٹھایا، کمان لٹکائی ‘گھوڑے پر سوار ہوااور آپﷺ کے تعاقب میں گھوڑے کو سرپٹ چھوڑ دیا ۔وہ جلد ہی آپﷺکے قریب پہنچ گیا۔حضرت ابو بکرؓ نے جو آپﷺ کے ساتھ اونٹنی پر سوار تھے جب ایک مسلح شخص کو اپنے اس قدر قریب دیکھا تو بہت پریشان ہوئے۔ انہیں آقا حضورﷺ کی سلامتی بہت عزیز تھی اور ذرا سے خطرے سے بھی پریشان ہوجاتے تھے کہ آقا حضورکوکوئی تکلیف نہ ہونے پائے ۔
ابوبکرؓنے آقا حضورسے عرض کیا کہ ایک مسلح شخص ہمارے تعاقب میں بہت قریب آ پہنچا ہے تو آپﷺ نے فرمایا فکر نہ کرو اور پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی:
’’الٰہی اس کی شرارت سے بچا۔‘‘
پیارے بچو ! آقا حضورﷺ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلتے ہی سراقہ کا گھوڑا پیٹ تک زمین میں دھنس گیااور اس پر سخت دہشت طاری ہو گئی۔ اسے یقین ہوگیا کہ ان پر ہاتھ ڈالنا نا ممکن ہے،بلکہ اسے تو اپنی جان کا خطرہ پیدا ہو گیا تھااور اس نے پکار کر کہا:
’’میں سراقہ بن مالک بن جعشم ہوں اور آپﷺ سے امان چاہتا ہوں ۔‘‘
اس کا مقصد یہ تھا کہ اسے معافی دی جائے اور اس کی جان بخشی کی جائے۔ اس کی یہ پکار سن کر آقا حضورﷺ نے دعا کی اور اس کا گھوڑا زمین سے باہر آگیا ۔اب سراقہ کی جان میں جان آئی اور وہ گھوڑے سے اتر کر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:
’’حضورﷺمجھے معاف کیا جائے اور امان نامہ لکھ دیا جائے تا کہ بعد میں مسلمان تنگ نہ کرنے پائیں ۔‘‘
آقا حضورﷺ نے عامرؓ بن فہیرہ کو جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے، حکم دیا کہ سراقہ کو امان (معافی) کی تحریر لکھ دی جائے چنانچہ عامرؓ نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر امان نامہ لکھ کر سراقہ کے حوالے کیا۔سراقہ نے عرض کیا حضورﷺ میرے لائق کوئی خدمت ہوتو حکم کریں۔ اس پر آقاحضورﷺ نے فرمایا:
’’بس اپنی جگہ پر ٹھہرے رہواور کسی کو ہم تک پہنچنے نہ دو۔ ‘‘
اس نے تعمیل ارشاد کے لیے سر جھکادیااور اور جب وا پس لوٹنے لگا تو آقاحضورﷺ نے فرمایا:
’’سراقہ اس وقت تمہاری کیا شان ہوگی جب تم کسریٰ (شہشاہ ایران)کے کنگن پہنو گے۔ ‘‘
سراقہ یہ سن کر حیرت زدہ سا ہوگیا اور اس بات پر یقین نہ آتا تھاکہ حضورﷺخود تو پریشانی کے عالم میں اپنے دشمنوں سے چھپتے ہوئے اپنا وطن چھوڑکر دوسری جگہ جا رہے ہیں اور مجھے ایران جیسی بڑی سلطنت کے شہنشاہ کے کنگن پہننے کی خوشخبری دے رہے ہیں جو بظاہر ناممکن سی بات ہے لیکن اسے یہ بھی خیال آتا تھا کہ ابھی چند منٹ پہلے آپﷺ کی بد دعا سے اس کا گھوڑا اس قدر پتھریلی زمین میں یکایک پیٹ تک دھنس گیاتھااور باوجود سارازور لگانے کے باہر نہ نکل سکا تھااور پھر آپﷺ کی دعا سے ہی باآسانی باہر نکل آیا تھا۔یہ ضرور اللہ کے نبی ہیں اور ان کی یہ بات بھی پوری ہو گی ۔
پیارے بچو !اس واقعے کے کئی سال بعد جب ہمارے آقاحضورﷺ نے مکہ شریف کو فتح کرنے کے بعد حنین میں کافروں کو زبر دست شکست دی اور چند دن تک وہاں جعرانہ کے مقام پر ٹھہرے تاکہ لوگوں کو انعام و اکرام بھی دیں تو سراقہ وہاں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور امان نامہ پیش کر کے عرض کیا:
’’حضورمیں سراقہ بن مالک ہوں اور یہ آپﷺ کی تحریر ہے ۔‘‘
تو آقا حضورنے فرمایا’’آج وعدہ پورا کرنے کا دن ہے، قریب آجاؤ۔‘‘
سراقہ حضورﷺ کے قریب ہوا اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیااور آپﷺ سے بہت سا انعام و اکرام پایا۔
پیارے بچو !آپ سوچ رہے ہوں گے کہ سراقہ نے کب اور کس طرح کسریٰ کے کنگن پہنے ہوں گے سو ہم آپ کو یہ واقعہ بھی بتاتے ہیں۔ بچو! یہ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے آقاحضورﷺ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی ہر بات بہر حال پوری ہونی تھی کیونکہ آپﷺ تو اللہ کے بہت پیارے نبی تھے۔
اس واقعے کے کئی سال بعد جب حضرت عمرؓ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ ہوئے تو ان کے عہد میں ایران کا مشہور شہر مدائن فتح ہوا۔کسریٰ اسی شہر میں رہتا تھااور اس کے محلات وغیرہ بھی یہیں تھے۔ مسلمانوں نے شہر فتح کرنے کے بعد کسریٰ کے محلات کا تما م سامان مال غنیمت کے طور پر جمع کر کے مدینہ شریف میں خلیفہ کے پاس بھیج دیا۔ اس سامان میں کسری کے کنگن ‘اس کا کمر پٹہ اور تاج بھی شامل تھا ۔ حضرت عمرؓ نے جب اس سامان کودیکھا تو انہیں اپنے آقا حضورﷺ کی پیش گوئی یا دآئی اور فرمایا:
’’ سراقہ کو بلاؤ۔‘‘
جب سراقہ وہاں حاضر ہوئے تو اس وقت یہ مسلمان ہو چکے تھے ۔حضرت عمرؓ نے یہ چیزیں سراقہ کو پہنا کر کہا ہاتھ اٹھاؤاور کہو
’’تعریف ہے اس خدا کی جس نے یہ چیزیں کسریٰ بن ہر مز سے چھین لیں جو یہ کہتا تھا کہ میں لوگوں کا رب ہوں اور انہیں بنی مدلج کے ایک بدو سراقہ بن مالک بن جعشم کو پہنا دیا۔‘‘
حضرت عمرؓ اس کے ساتھ ساتھ اللہ اکبر‘اللہ اکبر کا نعر ہ لگاتے جاتے تھے۔ اس طرح ہمارے آقا حضورﷺ کہ یہ پیش گوئی پوری ہوئی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ام معبد
غار ثور سے روانہ ہو کر جب آپ قدید کے ریگستان میں پہنچے تو پہلے سراقہ والا واقعہ پیش آیا اور جب کچھ آگے بڑھے تو راستے کے ایک کنارے پر چند خیمے نظر آئے ۔جن میں ایک بوڑھی عورت عاتکہ بنت خالد موجود تھی۔جوام معبد کے نام سے مشہور تھی ۔یہ عورت مسافروں کی خدمت کرتی، ان کے لیے کھانے پینے والی چیزیں جمع رکھتی، ٹھہرنے کے لیے مناسب بندوبست رکھتی تھی۔ جب آپ وہاں پہنچے تو ساتھیوں سمیت سستانے کے لیے ٹھہرگئے ۔
تھوڑی دیر کے بعد جب حضرت ابوبکرؓ نے بڑھیا سے کھانے پینے کی چیزوں کے متعلق دریافت کیا تو اس نے کہا بیٹا بد قسمتی سے آج میرے پاس ایسی کوئی چیز بھی نہیں ہے جسے پیش کر سکوں۔ حتیٰ کہ دودھ تک بھی نہیں ہے اور بکریاں چرنے کے لیے دور جا چکی ہیں ۔یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ کو فکر ہوئی کہ آقا حضور ﷺ کے لیے کھانے پینے کاکیا بندوبست کیا جائے لیکن جب آقا حضورﷺ کی نگاہ خیمے میں بندھی ہوئی ایک بکری پر پڑی تو آپﷺ نے ام معبد سے فرمایا:’’اگر اجازت ہوتو اس سے دودھ حاصل کر لیں ‘‘
جواب میں بڑھیا نے عرض کیا کہ یہ بہت بوڑھی ‘دبلی اور مریل سی بکری ہے جو چل پھر بھی نہیں سکتی اوراس کا دودھ کافی عرصے سے خشک ہو چکا ہے۔اس سے دودھ کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ہاں آپ کوشش کر کے دیکھ لیں مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔
ہمارے آقا حضور نے بڑھیا سے اجازت پا کر بکری کو تھپکی دی۔ اس کے تھنوں پر اپنا مبارک ہاتھ پھیرا ۔اللہ سے دعا کی اور برتن رکھ کر دودھ دوہنا شروع کر دیا۔پیارے بچو!اللہ کے حبیب کی دعا ہو ۔ ان کے مبارک ہاتھ ہوں اور بکری دودھ نہ دے یہ کیوں کر ممکن ہے۔خدا کی قدرت اس مریل بکری نے اس قدر دودھ دیا کہ برتن لبالب بھر گیا اور بڑھیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی ۔پیارے بچو !یہ ہمارے آقا حضورﷺ کا معجزہ تھا۔
اس دودھ کو پی کر سب سیر ہو گئے اور باقی دودھ ام معبد کے حوالے کر کے خود سفر پر روانہ ہو گئے۔ شام کو جب اس کا شوہر گھر آیا اور اس نے برتن میں کافی دودھ دیکھا تو حیران ہو کر بولا’’ام معبد یہ دودھ کہاں سے آگیا ہے ۔‘‘
بڑھیا نے اسے ساری داستان سنائی تو حیرت کے مارے اس نے زبان اپنے دانتوں میں داب لی اور بولا ’’ان کا حلیہ بیان کرو ۔‘‘بڑھیانے آپﷺ کا سراپا اس خوبی سے بیان کیا کہ آج تک سیرت کی تمام کتابوں میں اس سے بہتر کسی نے بیان نہیں کیا۔بعد میں یہ دونوں میاں بیوی مسلمان ہو گئے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قبا میں استقبال
پیارے بچو ! آپ کو یاد ہوگا کہ یثرب کے مسلمانوں نے ایا م حج میں ہمارے آقا حضورﷺ کو مکہ چھوڑ کر یثرب میں جانے کی دعوت دی تھی اور یہ بھی عرض کیا تھا کہ آپﷺ کی محبت میں ہماری جان اور ہمارا مال سب کچھ قربان ہوگا اور آپ ﷺ نے اس دعوت کو قبول کر لیا تھا ۔چنانچہ پرو گرام کے مطابق آپ ﷺ نے مکہ چھوڑا ۔تین دن تک غار ثور میں پناہ لی اور پھر وہاں سے روانہ ہوکر منزلیں طے کرتے ہوئے یثرب کے قریب پہنچ گئے ۔ یثرب کے تمام قبیلوں کو آپﷺ کی ہجرت کی خبریں مل چکی تھیں ۔ اس لیے سب لوگ نہایت بے تابی سے آپﷺ کا انتظار کیا کرتے تھے ۔لیکن یثرب سے تین میل جنوب کی طرف مکہ کی راہ پر واقع ایک بستی قبا نامی تھی ۔جس کے رہنے والے سورج طلوع ہونے سے دوپہر تک بستی سے باہر نکل کر آپﷺ کا انتظار کیا کرتے تھے ۔لیکن انہیں اس بات کا علم نہ تھا کہ آقا حضورﷺ وہاں کب پہنچیں گے ۔
۸ربیع الاول ۱ ھ یعنی ۱۴ء بعثت (۲۳ستمبر ۶۲۲ء )پیر کا دن تھا جب آپ ﷺ کا قافلہ قبا کے قریب پہنچا ۔اس وقت دوپہر ہو چکی تھی اور لوگ آپ ﷺ کا انتظار کر کے واپس اپنے گھروں کو جا چکے تھے ۔ کیونکہ اب گرمی ناقابل برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ قبا کا ایک یہودی کسی کام سے اپنے مکان کی بالائی منزل پر گیا اور جب اس نے کھڑکی سے شاہراہ مکہ کی طرف دیکھاتو اسے دو اونٹ نظر آئے جن پر آدمی سوار تھے ۔جب یہ سوار ذرا قریب آئے تو اس نے سمجھ لیا کہ یہ تومسلمانوں کے سردار جناب محمد ﷺ ہیں۔ اس سے صبر نہ ہوسکا اور زور سے پکارا:
’’مسلمانوتمہارے سردار آ پہنچے ہیں۔ ‘‘
اس کی آواز سنتے ہی قبا کی بستی نعرہ تکبیر سے گونج اٹھی اور لوگ آپﷺ کے ا ستقبال کی خاطر دوڑ پڑے ۔
آپ ﷺ قبا کی بستی سے تھوڑی دور ہی اونٹنی سے اترے اور ایک کھجور کے سائے میں سستانے کے لیے تشریف فرما ہوئے ۔استقبال کرنے والے لوگ جب آپﷺ کے قریب پہنچے تو حضرت ابو بکرؓ نے اپنی چادر سے آقا حضورﷺ پر سایہ کر دیا تا کہ لوگ آپﷺ کو پہچان لیں ۔
استقبال کرنے والوں میں قباکے مہاجر اور انصار سب شامل تھے جن کی مجموعی تعداد پانچ سو تک پہنچ گئی تھی۔یہ لوگ اچھے کپڑے پہن کر اور ہتھیار سجا کر بڑی سج دھج سے یہاں پہنچ رہے تھے اور ان کے پہنچنے کا سلسلہ ظہر تک جاری رہا۔جب ان کی آمد ختم ہوئی تو آپﷺ ان کے ساتھ قبا میں داخل ہوئے اور ایک عمر رسیدہ انصاری کلثومؓ بن ہدم کے ہاں مہمان ہوئے ۔جہاں آپﷺ نے پانچ روز تک قیام فرمایااور مسجد قبا تعمیر کی۔

۔۔۔۔۔۔۔

یثرب میں آمد
جب آپﷺ کو قبا میں ٹھہرے ہوئے پانچ روز گزر گئے تو ۱۲ ربیع الاول ۱ھ جمعے کے روز تقریباً دس بجے یثرب کی طرف روانہ ہوئے کیونکہ آپ ﷺ کی منزل یثرب ہی تھی ۔راستے میں دونوں طرف انصارو مہاجرین کی جماعتیں آپﷺ کے استقبال کے لیے موجود تھیں۔ ہر شخص کا چہرہ خوشی کے مارے جگمگا رہا تھا۔قدم قد م پر فضا تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھتی تھی ۔آپﷺ کے پیچھے آنے والوں کی تعداد بھی کافی تھی۔اونٹنی کی رفتار بہت سست تھی کیونکہ لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے راستہ تنگ ہو گیا تھا۔ جب یہ جلوس بنی سالم کی بستی میں پہنچا تو جمعہ کا وقت ہوگیا۔اسی لیے ان کی مسجد جسے مسجد غبیب کہتے ہیں ، جمعے کی نماز ادا کی گئی۔ یثرب کی سر زمین میں آقا حضورﷺ کی امامت میں پڑھا جانے والا یہ پہلا جمعہ تھا ۔اللہ پاک ان سب سے راضی ہوں ۔
نماز جمعہ کے بعد یہ قافلہ یثرب کی طرف روانہ ہوا ۔راستے میں دونوں طرف لوگ آپﷺ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے قرار کھڑے تھے۔ہر شخص بہت خوش تھا۔راستے میں آنے والی بستیوں کے لوگ آپﷺ سے درخواست کر تے تھے کہ حضورﷺ آپ ہمارے ہاں ٹھہریں لیکن آپﷺ فرماتے تھے :
’’میری اونٹنی کا راستہ چھوڑ دو ۔یہ اللہ کی طرف سے اس کام کے لیے مقرر کی گئی ہے۔‘‘
جب آپﷺ اپنے دادا کی ننھیال بنو نجار کے محلے میں پہنچے تو وہاں چھوٹی چھوٹی بچیاں یہ گیت گا رہی تھیں :
’’ہم بنو نجار کی لڑکیاں ہیں ۔
کیا ہی اچھے ہمسائے ہیں محمدﷺ‘‘
آپﷺ ان کے پاس رک گئے اور بڑی شفقت سے آپﷺ نے ان سے پوچھا:
’’کیا تم مجھے سے محبت رکھتی ہو؟‘‘
معصوم لڑکیاں بیک زبان بول اٹھیں ۔’’ہاں، یا رسول اللہ۔‘ ‘
آپ نے فرمایا،’’خدا کی قسم تم لوگ مجھے سب سے بڑھ کر محبوب ہو۔‘‘
پیارے بچو !ہمارے آقاحضورﷺ بچوں سے بڑی محبت کیا کرتے تھے۔اتنی محبت کہ جس کا تصور بھی ہم نہیں کرسکتے ۔آپﷺ ان کے والدین سے بڑھ کر محبت کیا کرتے تھے۔کتنے خوش نصیب تھے وہ بچے جنہوں نے آپﷺ کی محبت کا لطف اٹھایا۔
؂ آپﷺ کی اونٹنی چلتے چلتے اس جگہ جا کر بیٹھ گئی جہاں اب مسجد نبوی واقع ہے۔ آپﷺ اونٹنی سے اتر گئے اور حضرت ابوایوبؓ (جن کا اصلی نام خالد بن زید تھا)کی درخواست پر ان کے مکان میں تشریف لے آئے ۔جہاں آپﷺ نے کئی ماہ تک قیام فرمایا۔
پیارے بچو!ہم نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم آپ کو یثرب کانام مدینہ رکھنے کی وجہ بتائیں گے ۔ سو آپ جان لیں کہ عربی زبان میں شہر کو مدینہ کہتے ہیں ۔جب ہمارے آقاحضورﷺ یثرب میں آکر آباد ہوگئے تو لوگ محبت سے اس شہر کو مدینۃالنبی یعنی نبی کا شہر کہنے لگے جو رفتہ رفتہ مدینہ مشہور ہوااور ہم اس شہر کی عظمت کی وجہ سے اسے مدینہ منورہ کہتے ہیں۔ اب اس شہر کو یثرب کہنا درست نہیں ہے ۔
عزیز ساتھیو!اس شہر میں بھی آقاحضورنے سب سے پہلے مسجد بنوائی۔ یہ مسجد اس جگہ بنائی گئی تھی جہاں آپﷺ کی اونٹنی بیٹھ گئی تھی۔پھر اس کے ساتھ چند حجرے بنوائے گئے جن میں آپﷺ نے مستقل رہائش اختیار کی۔آپﷺ کے گھر والے سب ان ہی حجروں میں رہتے تھے۔ ان حجروں میں سے ایک حجرے میں آپﷺ کا روضہ مبارک ہے۔
پیارے بچو!جہاں یہ مسجد بنائی گئی تھی۔وہاں کھجور کا ایک چھوٹا سا تنا موجود تھااور جب ہمارے آقا حضورﷺ خطبہ دیا کرتے تھے تو اکثر اس تنے کا سہارا لیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک انصاری لکڑی کابنا ہوا منبر لے آیا اور اس جگہ رکھ دیا جہاں کھڑے ہو کر آپﷺ خطبہ دیا کرتے تھے۔ دوسرے دن جب آپ ﷺ خطبہ دینے کے لیے اس منبر پر تشریف فرما ہوئے تو مسجد میں رونے کی آواز آئی۔ نمازی بہت حیران ہوئے کہ کھجور کا تنا کس طرح بچوں کی مانند رو رہا تھا۔عزیز دوستو!یہ ہمارے آقاحضورﷺ کا معجزہ ہے اور اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ہر شے آپﷺ سے کس قدر محبت کرتی تھی ۔کھجور کا تنا آپ ﷺ کی اتنی جدائی بھی برداشت نہ کر سکا کہ آپﷺ اس کا سہارا لینے کی بجائے منبر کا سہارا لیا کریں ۔آپﷺ اس کے رونے کی آواز سن کر منبر سے اترے۔ اس کے پاس تشریف لے گئے اور اسے اپنی آغوش میں لے کر اس پر اپنا مبارک ہاتھ نہایت محبت اور شفقت سے پھیرتے رہے۔یوں آپﷺ کی آغوش میں جانے کے بعد اس نے رونا بند کر دیا ۔بالکل اسی طرح جیسے بچہ اپنی ماں کی آغوش میں جانے کے بعد رونا بند کر دیتاہے ۔
عزیز دوستو!ہم پر افسوس ہے کہ ہم انسان ہو کر بھی آقا سے اتنی محبت نہیں رکھتے جتنی کھجور کے اس تنے کو آپﷺ سے تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

مدینہ کی اسلامی ریاست
عزیزدوستو۔مدینہ منورہ کوئی بہت بڑا شہر نہیں تھا۔اور نہ ہی اس میں زیادہ امیر لوگ رہتے تھے بلکہ یہ ایک چھوٹا سا شہر تھا۔جہاں کثرت سے کھجوروں کے باغات تھے۔اس لیے جب مہاجرین کی کافی تعداد یہاں جمع ہو گئی تو انکی رہائش ‘خوراک ‘روزگار اور رشتہ داری کے متعلق کئی مسئلے اٹھ کھڑے ہوئے جن کے بہترین حل کے لیے ہمارے آقاحضورﷺ نے مہاجرین اور انصار کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا ۔ آپﷺ ایک مہاجر کانام لیتے تھے اور پھر ایک انصاری کانام لے کر فرماتے تھے ۔تم دونوں آپس میں بھائی بھائی ہواور اس کے بعد وہ دونوں سگے بھائیوں کی طرح رہتے تھے ۔اس طرح آہستہ آہستہ مہاجرین کو اپنے پاؤ ں پر کھڑا ہونے کاموقع ملااور انصار کا بوجھ بھی کم ہو گیا۔مہاجرین کھیتی باڑی ‘محنت ‘مزدوری اور تجارت کرکے اپنے انصاری بھائیوں کی مدد کرتے تھے۔
ا س طرح مسلمانوں کے آپس کے تعلقات کو مضبوط بنانے کے بعد ہمارے آقا حضورﷺ نے یہودیوں سے جو مدینہ منورہ میں رہتے تھے ،سیاسی تعلقات قائم کرنے کے لیے بعض شرطوں پر ان سے باقاعدہ معاہدہ کر لیا۔یہ دنیا کی سب سے پہلی تحریر تھی۔پھر آپﷺ نے مدینہ منورہ کے ارد گرد بہت دور دور تک فوجی مہمات بھیج کر جنہیں سرایا کہتے ہیں ۔مختلف قبیلوں سے امن و سلامتی کے اقرار نامے لکھوائے ا ور ان لوگوں پر واضح کر دیا کہ مسلمانوں کوکمزور نہ سمجھا جائے ۔
پیارے بچو! مسلمانوں کے دشمن یعنی مکہ شریف کے قریش مسلمانوں کی اس ترقی اور خوش حالی کی خبریں سن کر مارے غصے کے آگ بگولا ہوجاتے تھے ۔انہوں نے بھی محسوس کر لیا تھا کہ مسلمان اب ایک مضبوط طاقت بن چکے ہیں اور اگر انہیں جلدی ہی تباہ نہ کیا گیا تو پھر خودان (قریش ) کی تباہی لازمی ہوگی۔پس مکہ شریف میں قریش نے سب سرداروں کاایک اجلاس طلب کیااور اس میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا کہ مدینہ منورہ میں مسلمانو ں کوکس طرح تباہ کیا جا سکتا ہے۔انہیں یہ خوب معلوم تھا کہ مسلمانوں نے مدینہ منورہ سے دوردور تک تمام قبیلوں کے ساتھ دوستی کے تعلقات قائم کر لیے ہیں اور یہ سب قبیلے ضرورت کے وقت ہماری مدد نہیں کریں گے ۔یہ بات ان کے لیے بڑی خطر ناک تھی لیکن ابو جہل نے کہا کہ مدینہ یں دو قبیلے ہیں اوس اور خزرج ۔جو آج سے کچھ عرصہ پہلے تک ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے ‘ لیکن اسلام نے انہیں آپس میں بھائی بھائی بنا دیا ہے ۔اگر کسی طریقے سے ان کے اندر پھر وہی پرانی دشمنی تازہ کر دی جائے تو مسلمانوں کی طاقت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی اور ہم انہیں نہایت آسانی سے تباہ کر سکیں گے ۔تمام کافروں نے اس کی تجویز سے اتفاق کیا اور اسے کامیاب بنانے کے لیے مدینہ منورہ کے ایک منافق عبداللہ بن ابی سے رابطہ قائم کرنا مناسب سمجھا ۔پیارے بچو! اس وقت مدینہ منورہ میں مسلمانوں کے اندر ایک ایسا گروہ پایا جاتا تھا جسے منافق کہتے ہیں ۔یہ لوگ اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے ظاہری طور پر مسلمان بن گئے تھے مگردل سے مسلمانوں کے خلاف اور کافروں کے ساتھی تھے اور مسلمانوں کی تباہی کے منتظر تھے۔اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ایسے منافق لوگوں کو ہم قیامت کے دن دوزخ کے سب سے نچلے حصے میں جہاں سخت عذاب ہوگا، ڈال دیں گے ۔کیونکہ یہ مسلمانوں کے لیے کافروں سے بڑھ کر خطر ناک ہیں ۔عزیز دوستو! آپ تو جانتے ہی ہیں کہ چھپا دشمن کھلے دشمن سے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے ۔
خزرج کا یہ رئیس یعنی عبداللہ بن ابی خود منافق بھی تھا اور مدینہ کے منافقوں کا سردار بھی تھا ۔اسے مسلمانوں سے اس لیے سخت چڑ تھی کہ وہ مدینہ منورہ میں کیوں آ گئے ہیں کیونکہ وہ خود مدینے کا حکمران بننے کے خواب دیکھا کرتا تھا ۔ابو جہل کی تجویز کے مطابق اسے ایک خط لکھا گیا کی تم نے ہمارے جس آدمی کو اپنے ہاں پناہ دی ہے اس (یعنی جناب محمدﷺ ) سے لڑو اوراسے اس کے تمام ساتھیوں سمیت اپنے شہر سے نکال دوورنہ ہم تم پر حملہ کر کے تمہارے مردوں کو قتل کر دیں گے اور تمہاری عورتوں کو اپنے قبضے میں لے لیں گے ۔یہ بہت بڑی دھمکی تھی۔
عبداللہ بن ابی کوجب یہ خط ملا تو اس نے منافق ساتھیوں کو ایک جگہ جمع کیااور مل کر سب آدمی مسلمانوں کے خلاف تدبیریں سوچنے لگے ۔لیکن اس بات کی خبر ہمارے آقا حضورتک پہنچ گئی اور آپ ﷺ فوراًاکیلے ہی ان کی مجلس میں تشریف لے گئے اور فرمایا:
’’یہ خط لکھ کر قریش نے تمہارے ساتھ داؤ کھیلا ہے۔اگر مسلمانوں سے لڑو گے تو اپنے فرزندوں اور بھائیوں سے لڑو گے جو مسلمان ہو چکے ہیں ۔اس طرح دونوں طرف تمہارا ہی نقصان ہو گالیکن اگر تمہیں قریش سے لڑنا پڑا تو یہ غیروں سے مقابلہ ہو گا۔‘‘
آقا حضورﷺ کی یہ بات سن کر ان کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ اپنے ارادے سے باز آگئے ۔
قریش مکہ کو جب اپنی تدبیر کے ناکام ہونے کا پتہ چلا تو سخت چکرائے اور اس کا بدلہ لینے کے لیے انہوں نے مسلمانوں کے مال مویشی پر چوری چھپے ڈاکے مارنے شروع کر دیے اور مدینہ شہر پر حملہ کرنے کے ساتھ ساتھ افواہیں پھیلا کر مدینہ کے لوگوں کو ہراساں کرنے لگے چنانچہ مدینہ میں رات کو پہرہ لگایا جاتا تھا تا کہ تاریکی میں دشمن حملہ نہ کر دے ۔

۔۔۔۔۔

بدر کی جنگ
چونکہ مسلمانوں کو قریش کی طرف سے کسی وقت بھی حملے کا خطرہ تھا ا س لیے وہ بہت چوکنا ہوگئے تھے اور انہوں نے قریش کے ان راستوں پر گشت شروع کر دیا تھا جن سے گزر کر وہ ملک شا م میں تجارت کے لیے جایا کرتے تھے ۔ان ہی دنوں میں آقا حضورﷺ کو خبر ملی کہ قریش کا ایک بڑا تجارتی قافلہ ملک شام سے واپس مکہ شریف جا رہا ہے۔اور قریش نے یہ طے کر لیا کہ اس سامان تجارت سے جو منافع ہو گا وہ مسلمانوں کے خلاف جنگی تیاریوں پر خرچ کیا جائے گا اس لیے آپﷺ نے اس پر چھا پہ ضروری سمجھا تا کہ کافروں کی طاقت کو کچلا جا سکے ۔اس پر آپﷺ ۳۱۳مجاہدین کو اپنے ہمراہ لے کر اس راستے کی طرف روانہ ہوئے ۔جہاں سے یہ تجارتی قافلہ گزرنے والا تھا۔
اتفاق کی بات ہے کہ کافروں کو بھی مسلمانوں کے اس عملی قدم کی اطلاع مل گئی اور انہوں نے اپنے قافلے کو بچانے کے لیے ایک ہزار لڑنے والے جمع کیے اور انہیں خوب اسلحہ اور ضروری سامان دے کر اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار کیا جو بڑی تیز رفتاری سے مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے ۔
پیارے بچو !جب ہمارے آقا حضورﷺ مدینہ سے تقریباًاسی میل دور بدر کے مقام پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ قریش کا تجارتی قافلہ اپنا راستہ بدل کر دوسری راہ سے مکہ شریف کی طرف نکل گیا ہے اور قریش کا لشکر بدر کے بالکل قریب آ پہنچا ہے آپﷺ نے وہاں ڈیرے ڈال دیے تا کہ ا س لشکر کا مقابلہ کیا جائے ورنہ کافر یہ سمجھیں گے کہ مسلمان ڈر گئے ہیں ۔رمضان کی ۱۷تاریخ ۲ھ جمعے کا دن تھا جب دونوں لشکر بدر کے مقام پرایک دوسرے کے سامنے آگئے۔ قریش کا لشکر بڑا تھا اور اس کا ہر لڑاکا سامان جنگ سے خوب لیس تھا لیکن مسلمانوں کا لشکر بھی بہت چھوٹا تھا اور ان کے پاس تیر‘ تلوار اور نیزے وغیرہ کی بہت کمی تھی۔
جنگ شروع ہونے سے پہلے آقا حضورﷺ نے اللہ پاک سے دعا کی :
’’اے اللہ !یہ قریش ہیں ۔یہ اپنے غرور کے نشے میں مست ہو کر اس لیے آرہے ہیں کہ تیرے بندوں کو تیری اطاعت سے روکیں اور تیرے رسول کو جھٹلائیں ۔پس اے اللہ اپنی نصرت (مدد) کو بھیج جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کر رکھا ہے ۔اے اللہ ان کو ہلاکت میں ڈال دے۔‘‘
اس کے بعد جنگ کی ابتدا ہوئی اور عرب کے دستور کے مطابق قریش کے لشکرمیں تین پہلوان شیبہ اس کا بھائی عتبہ اور اس کا لڑکا ولید باہر آئے اور مسلمانوں کو مقابلے کے لیے پکارنے لگے۔ ادھر مسلمانوں کے لشکر میں حمزہؓ ‘ علیؓ اور عبیدہ بن حارث ان کے مقابلے پر نکلے۔ دونوں طرف سے بہادری کے جوہر دکھائے گئے لیکن مسلمان پہلوانوں نے تھوڑی دیر میں تینوں کافروں کوموت کے گھاٹ اتار دیا۔جس سے کافروں پر دہشت سی طاری ہو گئی ۔
اب عام لڑائی شروع ہوئی قریش نے بھی زور دار حملہ کیا مگر مسلمان چٹان کی طرح راستے میں کھڑے ہو گئے اور تلواریں چلنے لگیں ۔ہمارے آقا حضورﷺ نے پھر ہاتھ پھیلا کر نہایت عاجزی سے اللہ پاک سے دعا کی اور کہا:
’’خدایا ۔تو نے مجھ سے جووعدہ کیا ہے اسے پورا کر۔ خدایا اگر یہ چند آدمی (مسلمان ) آج مٹ گئے تو پھر قیامت تک تیری پوجا کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔‘‘
پیارے بچو۔آپ اس بات پر غور کریں کہ خود اللہ کے حبیب مشکل کے وقت اللہ ہی سے دعا مانگتے ہیں اور وہ بھی نہایت عاجزی سے ۔اس میں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ ہم بھی مشکل کے وقت صرف اور صرف ایک اللہ کو جو ہمارا خالق اور مالک ہے پکاریں اور دوسروں کا دروازہ نہ کھٹکھٹائیں ۔
اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کی یہ دعا سن لی اور مٹھی بھر مسلمانوں کو قریش کے زبر دست لشکر کے خلاف فتح عطافرمائی۔ ستر کافر قتل ہوئے ۔ستر گرفتار ہوئے ۔بہت سے زخمی ہوئے اور باقی ماندہ اپنا سامان اور اپنے بھائیوں کی لاشیں چھوڑ کر مکہ شریف کی طرف بھاگ نکلے ۔
جنگ کے بعد ابو جہل کے سر کو دیکھ کر آپﷺ نے فرمایا :
یہ اس امت کا فرعون اور کفر کی عمارت کی چوٹی ہے ۔اس کے بعد اللہ پاک کا شکر کرتے ہوئے کہا:
’’اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اللہ ہی کے لیے حمد و شکر ہے ۔جس نے مدد کا وعدہ سچ کر دکھایا ہے اور اپنے بندے کی مددکی اور تمام گروہوں کو اس اکیلے خدا نے شکست دے دی ۔‘‘
جنگ کے بعد مسلمانوں نے مال غنیمت جمع کیااور لشکر اسلام مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں آقا حضورﷺ نے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کو قتل کروادیا کیونکہ ان دونوں نے مسلمانوں پر بہت ظلم و ستم توڑے تھے ۔
کافروں کی اس شکست نے ان کی کمر توڑ دی اور عرب میں مسلمانوں کی طاقت کا چرچا ہو نے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احد کی جنگ
ہمارے آقا حضورﷺ کے چچا عباسؓ ابھی تک مکہ میں ہی تھے ۔انہوں نے نہ تو ہجر ت کی تھی اور نہ ہی اپنے مسلمان ہو جانے کو کسی پر ظاہر کیا تھا۔لوگ انہیں ابھی تک پرانے ہی دین کا پابند سمجھتے تھے لیکن وہ دل سے مسلمان ہو چکے تھے اور اپنے بھتیجے یعنی ہمارے آقا حضورﷺ کی بھلائی کے لیے اندر ہی اندر کام کرتے رہتے تھے ۔ایک دن انہیں معلوم ہوا کہ قریش کا اجلاس ہونے والا ہے وہ بھی اس میں شامل ہوئے ۔وہاں یہ طے کیا گیا کہ مدینہ منورہ پر ایک زبردست حملہ کر کے مسلمانوں کو تباہ کر دیا جائے۔ عباسؓ نے موقع پا کر اس کی اطلاع دینے کے لیے ہمارے آقاحضورﷺ کے نام چٹھی لکھ کر ایک تیز رفتار شتر سوار کے ہاتھ ان کے پاس بھیج دی ۔یہ سوار ۳ شوال ۳ھ کو خط لے کر مدینہ منورہ پہنچا اور آقاحضورﷺ کو دے کر واپس چلا آیا۔عباسؓ نے اس خط میں لکھا تھاکہ قریش نے شام سے آنے والے تجارتی قافلے کا تمام منافع اسلحہ خرید نے اور جنگی تیاریاں کرنے میں خرچ کر دیا ہے اور اب ایک زبردست لشکر لے کر بہت جلد مدینہ منورہ پر حملہ کرنے والے ہیں ۔اس میں تین ہزار جنگجو سپاہی ‘بہت سااسلحہ اور خوراک کاسامان اور کئی گانے بجانے والی عورتیں شامل ہیں اور ابو سفیان اس لشکر کا سالار ہے ۔
یہ لشکر مکہ شریف سے روانہ ہو کر ۱۳ شوال ۳ء کومدینہ منورہ کے شمال مغرب میں شہر سے تین میل کے فاصلے پر واقع احد پہاڑ کے پاس پہنچااور اس کے دامن میں ڈیرے ڈال دیے ۔
ادھر آقا حضور ﷺ نے بھی خط ملنے کے فوراً بعد جنگی تیاریوں کا حکم دیا تھا اور جب قریش کے لشکر نے احد کے پاس ڈیرے ڈال دیے تو آپﷺ نے جاسوسی کے ذریعہ ان کے حالات معلوم کیے اور ۱۵ شوال ۳ھ بروز ہفتہ ایک ہزار جانثا روں کا لشکر لے کر احد کی طرف روانہ ہو گئے لیکن جب مدینہ منورہ سے تھوڑی دور گئے تو عبداللہ بن ابی جو منافقوں کا سردار تھا اور اس لشکر میں اپنے ساتھیوں سمیت شامل تھا۔ اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر اس لشکر سے یہ کہتا ہوا علیحدہ ہو گیا کہ میری بات نہیں مانی گئی۔ میں کہتا تھا شہر کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے لیکن آپ ﷺ احد کی طرف روانہ ہو گئے ہیں۔اس لیے میں علیحدہ ہو تا ہوں ۔اس طرح اب لشکر میں صرف سات سو آدمی رہ گئے لیکن یہ بڑے اونچے درجے کے مسلمان تھے اور ہر مشکل کا مقابلہ کرنے والے تھے۔
سات سو مجاہدین کے اس لشکر نے جبل احد کے پاس پہنچ کر ڈیرے ڈالے اور آقا حضور ﷺ نے پچاس تیر اندازوں کا ایک گروہ احد پہاڑ کے ایک درے جبل عینین پر مقرر فرمایا تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ نہ کر سکے اور اس گروہ کو تا کید فرمائی:
’’ہمیں فتح ہو یا شکست تم کسی حالت میں اس جگہ کو نہ چھوڑنا۔‘‘
پیارے بچو! بڑے گھمسان کی جنگ ہو ئی ۔دونوں طرف کے بہادروں نے اپنے جو ہر دکھائے لیکن کافر مسلمانوں کی تلواروں کے سامنے رک نہ سکے اور بھاگ نکلے۔ ان کے بہت سے آدمی قتل ہو چکے تھے اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اب یہ مکہ جا کر ہی رکیں گے لیکن عزیز دوستو!ہوا یہ کہ مسلمان تو ان کا سامان لوٹنے میں مشغول ہو گئے ۔حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ دور تک بھاگتے ہوئے کافروں کا پیچھا کرتے۔ مسلمانوں کو یوں کافروں کا سامان لوٹتے اور کافروں کو یوں بھاگتے ہوئے دیکھ کر جبل عینین پر موجودہ سپاہیوں میں سے بہت سے اپنی جگہ چھوڑ کر سامان لوٹنے میں لگ گئے حالانکہ ان کے امیر نے انہیں آقا حضور ﷺ کی نصیحت بھی یاد دلائی مگر ان کا خیال تھا کہ جنگ تو ختم ہو گئی ہے ۔لہٰذا اب یہاں موجود رہنے کی کیا ضرورت ہے۔
عزیز ساتھیو! کافروں کے لشکر میں ایک بہادر سپاہی خالد بن ولید تھا (جو بعد میں مسلمان ہو کر بہت مشہور کمانڈر ہوئے ) اس نے جب دیکھا کہ جبل عنین خالی ہے اور مسلمان لڑنے کی بجائے سامان اکٹھا کر رہے ہیں توا س نے گھڑ سواروں کا ایک دستہ اپنے ساتھ لیااور اس پہاڑی کے پیچھے سے چکر کاٹ کر مسلمانوں پر بڑا زور دار حملہ کر دیا۔مسلمان سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ کافروں کی تلوار کا شکار ہونے لگے ۔
پیارے بچو ! آپ نے غور کیا اپنے آقا کی بات نہ ماننے کا یہ نتیجہ ہوا کہ پہلے تو یہ کافروں کو مار رہے تھے اور اب کافر انہیں مار رہے تھے ۔کیونکہ جو بھی آقا حضورﷺکاحکم نہ مانے گا وہ یقینانقصان اٹھائے گا اور ہماری بہتری اسی میں ہے کہ ہم آقا حضورﷺ کا ہر حکم ہر حا ل میں مانیں خواہ ہمیں کتنی ہی تکلیف کیوں نہ ہوکیو نکہ اسی میں ہماری کامیابی ہے۔
کافروں کے اس اچانک حملے سے مسلمانوں کی صفیں بکھر گئیں اس صورت سے وہ گھبرا گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے مسلمان شہید ہو گئے ۔اتنے میں بھاگنے والے کافر بھی یہ نظارہ دیکھ کر پلٹ آئے اور انہوں نے بھی مسلمانوں پر بڑے زور کا حملہ کر دیا۔ ا س طرح مسلمان دونوں طرف سے کافروں میں گھر گئے اور سنبھلنے سے پہلے تقریباًستر مسلمان شہید ہو گئے اور بہت سے زخمی ہو کر بے بس ہو گئے۔ کافروں نے اس موقع کو غنیمت جان کر ہمارے آقاحضورﷺ کو گھیرے میں لے لیا۔اس وقت آپﷺکے ساتھ بہت تھوڑے سے مسلمان تھے ۔اس لیے کافرآسانی سے آپ ﷺ کے نزدیک پہنچ گئے ۔آپﷺ کی جان کو سخت خطرے میں دیکھ کر ادھر لپکے اور اپنی جانوں کی قربانی دے کر کافروں کو پیچھے ہٹا دیا۔حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے اس موقعے پر اس قدر پھرتی اور تیزی سے تیر چلائے کہ کافروں کے آگے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے اور آقاحضورﷺ نے خوش ہو کر فرمایا:
’’سعدؓ تیر چلاؤ میرے ماں باپ تم پر قربان۔ ‘‘
یہ فرمان حضرت سعدؓ کے لیے بڑے فخر کی بات تھی اور آپ ساری عمر اس پر ناز کرتے رہے ۔ایک صحابیہ بی بی ام عمارہؓ نے بھی ایسی بہادری دکھائی کہ کافروں کے منہ موڑ دیے اور آقا حضورکے پاس کسی کافر کو پھٹکنے تک نہ دیا۔بلکہ آپﷺ پر ہونے والے کئی وار روکے ۔کافروں نے جب دیکھا کہ ہم اب آقا حضورﷺ تک نہیں پہنچ سکتے کیونکہ اس وقت بہت سے مسلمان وہاں جمع ہو چکے تھے تو انہوں نے آپﷺ پر پتھر مارنے شروع کر دیے جن سے آپﷺ کی پیشانی اور رخسار زخمی ہو گئے ۔دو دانت بھی شہید ہو گئے اور آپﷺ کے چہرہ مبارک سے خون بہنے لگا۔
اب کافروں کا زور جاتا رہاتھااور آپﷺ کے گردان کا گھیرا بھی ٹوٹ چکا تھا لیکن ایک ظالم ابی بن خلف کسی نہ کسی طرح سے آپ ﷺ کے قریب پہنچ گیا اور آپﷺ کو مقابلہ کرنے کے لیے کہا۔آپ ﷺنے حضرت زبیرؓ سے ان کا نیزہ لے کر اس کافر کی گردن میں مار دیا اور یہ چیختا ہوا بھاگ نکلا۔ پھر مکہ پہنچنے سے پہلے ہی مر گیا۔
پیارے بچو! اس قدر خطر ناک حالت کے باوجود ہمارے حضورﷺ تیروں اور نیزوں کی بارش میں بھی چٹا ن کی طرح ایک ہی جگہ جم کرکھڑے رہے اور مسلمانوں کا دل بڑھاتے رہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ایسی سخت جنگ میں ہم نے حضورﷺ کو چٹان کی طرح مضبوط دیکھا۔جنگ بند ہو گئی اور جب میدان جنگ کی طرف نظر دوڑائی تو ستر شہیدوں کی لاشیں میدا ن میں بکھری ہوئیں نظر آئیں ۔جن میں حضورﷺ کے پیارے چچا حضرت حمزؓ ہ بھی شال تھے۔ کافروں نے ان کے ناک، کان اور ہونٹ کاٹ دئیے تھے اور پیٹ چاک کر کے کلیجہ بھی نکا ل کر پھینک دیا تھا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ ان کے ہاتھ سے بے شمار کافر قتل ہوئے تھے اور انہوں نے جوش انتقام میں ان کی لاش کی بے حرمتی کی تھی ۔آقا حضو رﷺ کو اپنے پیارے چچا کی لاش کی یہ حالت دیکھ کر بہت دکھ ہوااور آپﷺ کی مبارک آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔
ان تمام شہیدوں کو وہیں دفن کر دیا گیا اور زخمیوں کو مدینہ منورہ پہنچایا گیا ۔کافروں پر مسلمانوں کا ایسا رعب طاری ہو گیا تھا کہ مسلمانوں کے اس قدر نقصان کے با وجود کافر فتح یا شکست کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی میدان چھوڑ کر بھاگ گئے اور انہوں نے کئی میل تک دور جانے کے بعد رات گزارنے کے لیے پڑاؤ کیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جبل عینین پر موجود تیر اندازوں کی غلطی سے مسلمانوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا لیکن قریش مکہ ان کو شکست نہ دے سکے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کافروں کی دھو کابازیاں
عزیز دوستو! صفر ۴ ھ کا واقع ہے کہ ہمارے آقا حضورﷺ کے پاس مدینہ منورہ میں عضل اور قارہ قبیلوں کے سات آدمی حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم مسلمان ہو چکے ہیں اور ہمارے قبیلوں کے دوسرے لوگ بھی مسلمان ہو نا چاہتے ہیں، لہٰذا ہمارے ساتھ اسلام کی تبلیغ کرنے والوں کا گروہ عاصم بن ثابت کے ساتھ بھیجیں تا کہ وہ ہمارے لوگوں کو دین کی دعوت دیں ۔ان کی ا س درخواسست کو قبول کرتے ہوئے آپ نے عاصمؓ کی ہمراہی میں چھ آدمیوں کو بھیجا ۔
لیکن پیارے بچو! ان ظالموں کی نیت کھوٹی تھی۔ ان کے د ل بغض سے بھرے ہوئے تھے اور وہ جھوٹ موٹ کے مسلمان بنے ہوئے تھے ۔انہوں نے مدینہ شریف سے بہت دور رجیع کے کنویں کے قریب اپنے ایک سو تیر اندازوں کو چھپا دیا تھاتا کہ وہ مسلمانوں پر یکایک حملہ کر کے ان سب کو شہید کر دیں ۔چنانچہ جب مسلمانوں کا یہ قافلہ رجیع کے پاس پہنچا تو ان چھپے ہوئے تیر اندازوں نے یکایک حملہ کر دیا۔ مسلمانوں نے بھی اپنی ہمت کے مطابق ان کا مقابلہ کیا مگر وہ سو آدمی تھے اور مسلمانوں کی تعداد سات تھی اس لیے پانچ آدمی تو شہید ہو گئے اور دو آدمیوں کو کافروں نے گرفتار کر لیااور مکہ لے جا کر ان کو دشمنوں کے ہاتھ بیچ دیا جنہوں نے ان دونو ں کوپھانسی چڑھا دیا ۔پیارے بچو ! اللہ کے ان نیک بندوں نے نہ تو کافروں کی منتیں کیں کیونکہ مسلمان کافر کے سامنے نہیں جھکتا اور نہ ہی کوئی گلہ شکوہ یا فریاد کی کیونکہ اللہ کی مرضی پر راضی رہنا ہی بڑے حوصلے کا کام اور انعام کا باعث ہے۔ یہ دونوں پھانسی پر چڑھ کر شہید ہو گئے ۔
عزیز دوستو! جو آدمی اللہ کی راہ میں مارا جائے اسے شہید کہتے ہیں اور اللہ پاک اسے جنت میں بڑے بڑے درجے دیتے ہیں۔ اس درد ناک واقعے کا ہمارے آقاحضورﷺ کو سخت صدمہ ہوا ۔آپ اپنے ان دوستوں کو اکثر یاد کیاکرتے تھے ۔
پیارے بچو! کافر تو اپنی ذلیل حرکتوں سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر وقت کوئی نہ کوئی ترکیب سوچا کرتے تھے۔اس واقعے کے کچھ عرصے بعد ایسا ہی ایک اور حادثہ پیش آیا ۔ہوا یوں کہ ایک شخص ابو براء عامر بن مالک کلابی آقا حضورﷺ کے پاس آیااور عرض کیا حضورﷺ میرے ساتھ تبلیغ کرنے والوں کی ایک جماعت بھیجیں جو ہمارے قبیلوں میں پہنچ کر اسلام کی تبلیغ کریں ۔آپﷺ نے اس شخص پر اعتماد کر کے ستر قاریوں کی ایک جماعت اس کے ساتھ روانہ کر دی ۔یہ لوگ بہت اونچے درجے کے مسلمان تھے ۔لیکن جب مدینہ شریف سے کافی دور آگے معونہ کے کنویں پر پہنچے تو بنی سلیم کے کئی قبیلوں نے مل کر ان پر حملہ کر دیا۔چونکہ یہ حملہ اچانک ہوا تھا اور یہ بزرگ قاری لڑنے کے لیے نہیں نکلے تھے اور ان کے پاس لڑائی کا سامان بھی کم تھا اس لیے دشمن ان پر غالب آگئے اور یہ ساری جماعت لڑتے ہوئے شہید ہوگئی۔ صرف ایک قاری کعب بن زیدؓزخمی ہو نے کے باوجود بچ گئے اور کسی نہ کسی طرح مدینہ منورہ پہنچ کر انہوں نے آقا حضورﷺ کی خدمت میں اس درد ناک واقعے کی تفصیل بتائی ۔اس ظلم و ستم اور دھوکا دہی کا آپ کو سخت صدمہ ہوا اور آپﷺ کی مبارک آنکھو ں سے بہت دیر تک آنسو بہتے رہے۔
یہ اتنا بڑا صدمہ تھا کہ ہر مسلمان کا دل دکھتا تھااور آقاحضورﷺ ان محبوب بندوں کو یاد کر کے ان کے غم میں بے چین ہو جایا کرتے تھے ۔
آپ بہت زیادہ مہربان ‘رحم اور معاف کر دینے والے تھے لیکن ظلم کی یہ دو وارداتیں معاف کر دینے کے قابل نہیں تھیں اس لیے آپﷺ نے ایک ماہ تک فجر کے بعد روزانہ ظالموں اور قاتلوں کے حق میں بددعا کی جسے قنوت نازلہ کہتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

خندق کی جنگ
جنگ احد کے خاتمے پر قریش تو وہاں سے بھاگ نکلے تھے لیکن مکہ شریف میں جا کر انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے جنگ لڑی مگر مسلمانوں پر مکمل فتح نہ پا سکے اس لیے ایک بار پھر جنگی تیاریوں میں لگ گئے تا کہ مدینہ منورہ پر اب کی بار پوری قوت سے حملہ کیا جائے اور مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے ۔جب قریش کی ان جنگی تیاریوں کی خبر ہمارے آقا حضورﷺ کو ملی تو آپﷺ نے بھی مقابلے کے لیے بہت کچھ کرنے کا بندوبست کیا۔اس وقت مدینہ منورہ کے تین طرف کھجوروں کے گھنے باغات تھے ۔اس قدر گھنے کہ زیادہ آدمیوں کا اکٹھے ہوکر وہاں سے گزرنا ممکن نہ تھا۔اس لیے قریش کے لشکر کا ان طرفوں سے کوئی خطرہ نہ تھا لیکن شہر کی شمالی سمت ایسی تھی کہ دشمن بلا روک ٹوک شہر میں داخل ہو سکتا تھا۔ اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ اس سمت کو محفوظ بنانے کے لیے کوئی مناسب تجویز سوچی جائے ۔ ہمارے آقا حضورﷺ کے ایک پیارے صحابی حضرت سلمان فارسیؓ تھے جو ایران کے رہنے والے تھے اور وہاں کی جنگوں کے طریقے سے خوب واقف تھے۔ انہوں نے آپﷺ کو مشورہ دیا کہ شہر کے شمال میں ایک خندق کھو دی جائے تاکہ دشمن اسے پار کر کے شہر میں داخل نہ ہو سکے اور ان کے بڑھتے ہوئے قدم رک جائیں ۔ان کی یہ تجویز منظور کر لی گئی اور خندق کی کھدائی کاکام بڑے زور و شور سے شروع ہو گیا اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ ہمارے آقا حضورﷺ بھی یہ خندق کھودنے میں برابر شریک رہے ۔
یہ سخت سردی کے دن تھے ۔شہر میں خوراک بہت کم تھی ۔اس لیے سردی تھکاوٹ اور بھوک کے مارے مسلمانوں کی حالت غیر ہونے لگی۔ خود آقا حضورﷺنے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیا تھا تاکہ زیادہ کمزوری کا احساس نہ ہونے پائے ۔ان حالات میں بھی اللہ کے نیک بندے برابر اللہ کی راہ میں کام کرتے تا کہ اسلام کا بول بالا ہو۔ایک دن حضورﷺ کے ایک نوجوان صحابی حضرت انسؓ آپﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب کہ آپﷺ کے تقریباًاسی صحابہ وہاں موجودد تھے۔حضرت انسؓ کے والدنے انہیں آقا حضورﷺ کے پاس اس لیے بھیجا تھا کہ آپﷺ کو تنہائی میں ان کے گھر آنے اور کھانا کھانے کی دعوت دے اور تاکید کر دی تھی کہ جب آپﷺ بالکل اکیلے ہوں اس وقت یہ بات کہنا۔لیکن حضرت انسؓ اسی صحابہ کوو ہاں موجود پا کر خاموش رہے اور جب آقا حضورﷺ کی نظر مبارک ان پر پڑی تو پوچھا، ’’انسؓ تمہارے والد نے تمہیں بھیجا ہے ؟‘‘
انہوں نے عرض کیا ،’’ہاں یا رسول اللہ۔ ‘‘
فرمایا،’’کھانے کے لیے گھر بلایا ہے ؟‘‘
حضرت انسؓ نے عرض کیا، ’’ہاں یا رسول اللہ۔‘‘
آقا حضورﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا،’’چلو !ابو طلحہؓ کے گھر۔ ‘‘
حضرت انسؓ یہ سن کر بہت گھبرائے۔ بھاگم بھاگ گھر پہنچے اور والد کو بتایا کہ آقا حضورﷺاسی صحابہ کے ساتھ وہاں تشریف لا رہے ہیں ۔
ابو طلحہؓ نے اپنی بیوی ام سلمہؓ (والدہ انسؓ )کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا، ’’اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں ۔‘‘
اس اثنامیں آقاحضورﷺ اپنے اسی صحابہ کے ساتھ وہاں تشریف فرما ہوئے جنہیں ابو طلحہ نے چٹائیوں پر بٹھا دیااور خودد آہستہ آہستہ سے آپﷺ سے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ! گھر میں صرف ایک روٹی اور کپی میں گھی کے چند قطروں کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا، ’’تم روٹی اور گھی کی کپی لے آؤ۔‘‘
ابو طلحہ نے دونوں چیزیں حاضر خدمت کر دیں تو آپ ﷺ نے گھی کی کپی کو روٹی پر الٹایا جس میں سے چند قطرے گھی کے نکلے آپﷺ نے اپنی مبارک انگلی سے ان کو روٹی پر لگا دیا تو روٹی پھولنے لگی اور کافی بڑی ہوگئی ۔آپ نے دعا کی، ’’اللہ کے نام سے شروع اور اے اللہ اس میں بر کت ڈال دے ۔‘‘ پھر آپ نے اس پر ایک کپڑا ڈال دیااور صحابہؓ سے فرمایا :
’’دس دس آدمی یہاں آتے جاؤ اور کپڑا ہٹائے بغیر اس کے اندر سے روٹی کے ٹکڑے توڑ توڑ کر کھاتے جاؤ۔‘‘
پیارے بچو!اللہ کی قدرت اسی صحابہ اس ایک روٹی کے ٹکڑے کھا کھا کر سیر ہوگئے اور جب ان کے جانے کے بعد کپڑا ہٹایا گیاتو روٹی بد ستور اتنی ہی تھی۔ یہ ہمارے آقا حضورﷺ کا معجزہ تھا۔
ادھر مسلمانوں نے خندق کی کھدائی مکمل کی۔ ادھر قریش کا لشکر مدینہ منورہ کے سامنے آ پہنچا ۔ان کے لشکر کی تعدادچار ہزار کے قریب تھی مگر ا ن کے ساتھ دوسرے قبیلوں کے لشکر جو ا ن کی مدد کے لیے وہاں آ گئے، ان کی تعداد ملا کر تقریباًبیس ہزار ہو گئی تھی ۔جب کہ ان کے مقابلے پر مدینہ منورہ میں صرف تین ہزار مجاہدین تھے جو بھوک اور تھکاوٹ کی وجہ سے بہت کمزوری محسوس کر رہے تھے ۔انہیں باہر سے امداد ملنے کی کوئی امید نہ تھی ۔اس کے علاوہ انہیں مدینے میں رہنے والے یہودیوں سے بھی ہر وقت خطرہ تھا کیونکہ یہ لوگ اپنے وعدے کے پابند اور زبان کے پکے نہیں تھے ۔
دشمن نے خندق پار کرنے کی کئی بار کوشش کی مگر اس میں کامیاب نہ ہو سکے اور دونوں طرف سے تیر چلانے اور پتھر مارنے کی کارروائیاں برابر ہوتی رہیں۔ ایک دن دشمنوں کے ایک شہسوار عمرو بن عبدود نے اپنے گھوڑے کو زور سے دوڑایااور خندق کے قریب پہنچ کر گھوڑے نے جو چھلانگ لگائی تو خندق کو پار کر لیا۔اس طرح یہ مسلمانوں کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے وہاں پہنچنے میں مسلمانوں کو مقابلے کے لیے للکارا ۔اس کی للکار سن کر حضرت علیؓ آگے بڑھے ۔زبر دست جنگ ہوئی عمرو زیادہ عمر والا اور تجربہ کار انسان تھااور حضرت علیؓ جو ابھی جوان ہی تھے لیکن اللہ پاک نے حضرت علیؓ کی مدد کی اور انہوں نے ایک بار اچھل کر اس زور سے اس کافر پر تلوار کا وار کیا کہ وہ کٹ کر گر ا اور گرتے ہی مر گیا۔یہ دیکھ کر کافروں پر دہشت طار ی ہوگئی کیونکہ ان کا یہ شہسوار ایک ہزار سوار کے برابر مانا جاتا تھا۔
اب کافروں نے دیکھا کہ خندق کو پار کر نا مشکل بھی ہے اور اگر پار کر ہی لیا تو مسلمانوں کی تلوار کا شکار ہو جائیں گے اس لیے انہوں نے خندق کی دوسری جانب سے مسلمانوں پر سارا دن برابر تیر اندازی کی اور پتھر پھینکے یہ اس قدر سخت مقابلہ تھا کہ مسلمانوں کے لیے اپنی محفوظ جگہوں سے نکلنا محال ہو گیااور خود آقاحضورﷺ کی مسلسل چار نمازیں قضاہوگئیں۔ آخر آقا حضورﷺ نے اپنے اللہ پاک سے مدد کی دعا کی اور پیارے دوستویہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اللہ جب چاہتا ہے، جو چاہتا ہے کر سکتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کی مدد نظر نہ آنے والے لشکروں سے بھی کرتا ہے ۔اللہ پاک نے اپنے حبیب پاک ﷺ کی دعا قبول کر لی اور ایک اندھیری رات میں اس قدر ٹھنڈی اور تیز و تند ہوا چلائی کہ کافروں کے خیموں کی میخیں اکھڑ گئیں اور خیمے گر پڑے ۔چولہے گر گر پڑے۔ اونٹ اور گھوڑے بھاگ نکلے اور ریت اور مٹی وغیرہ آنکھوں میں پڑ جانے کی وجہ سے سخت بد حواس ہو گئے ۔
پیارے بچو !اس قدرسرد بھیانک اور طوفانی رات میں محفوظ جگہوں سے باہر نکلنے کے لیے کسی کا دل نہ چاہتا تھا۔لیکن آقا حضورﷺ چاہتے تھے کہ کافروں کے لشکر کا حال معلوم کیا جائے اس لیے آپ ﷺ نے جاسوسی کی خاطر اپنے ایک پیارے صحابی حضرت حذیفہؓ کو حکم دیا کہ تم کافروں کے لشکر میں جاؤ اور ان کا حال معلوم کر کے واپس آجاؤ ۔آقاحضورﷺ کے اس حکم کے مطابق حضرت حذیفہؓ خیمے سے باہر نکلے ۔اندھیرے میں چلتے ہوئے ایک جگہ سے خندق پار کی اور چپ چاپ دشمنوں کے لشکر میں پہنچ گئے۔ وہ لوگ اپنے بچے کھچے خیموں میں دبکے بیٹھے تھے ۔البتہ ان کا سالار ابو سفیان اپنے مضبوط خیمے میں آگ تاپ رہا تھااور اس کے سامنے چند آدمی بیٹھے ہوئے تھے ۔حضر ت حذیفہؓ بھی اپنا چہرہ چھپائے ہوئے ان میں جا کر بیٹھ گئے۔ ابو سفیان کہہ رہا تھا:
’’ہمارے جانور ہلاک ہو رہے ہیں ۔خوراک کا سامان ختم ہو چکاہے۔ اس تیز ہوا نے تباہی مچا دی ہے۔ اب جنگ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں لہٰذا یہاں سے کوچ کر جانا چاہیے اور میں نے تو ارادہ کر لیا ہے کہ دن نکلنے سے پہلے پہلے واپس مکہ کی طرف روانہ ہو جاؤں گا۔‘‘
حضرت حذیفہؓ نے واپس آکر حضورﷺ کو اپنی جاسوسی کی ساری تفصیل بتائی۔ جب دن نکلا تو اہل مدینہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ قریش کا لشکر اور ان کے مدد گار سب وہاں سے جا چکے ہیں اور میدان میں ان کی دیگیں اور چولہے الٹے ہوئے ہیں۔ خیمے گرے ہوئے ہیں اور جگہ جگہ مرے ہوئے اونٹ اور گھوڑے دکھائی دیتے ہیں۔
اس جنگ میں جسے جنگ خندق اور جنگ احزاب بھی کہتے ہیں مسلمانوں کے پانچ مجاہد شہید ہوئے جب کہ چار کافر بھی قتل ہوئے تھے ۔دن نکلنے پر آقا حضورﷺ نے ان لشکروں کے ناکام و نا مراد لوٹ جانے پر فرمایا۔
’’اب ہم ان (قریش ) پر چڑھائی کریں گے
اور وہ ہم پر چڑھائی نہیں کر سکیں گے‘‘
پیارے بچو! اس کے بعد ایسا ہی ہوا کہ کافروں کو مسلمانوں پر چڑھائی کرنے کی پھر کبھی ہمت نہ ہوئی اور مسلمان ہی ان کے علاقوں میں جا کر فتح پرفتح حاصل کرتے رہے ۔دیکھا آپ نے اللہ پاک اپنے نیک بندوں کی کس طرح مدد کرتا ہے اور کس طرح چھوٹے چھوٹے لشکروں کو بڑے بڑے لشکروں کے خلاف کامیابی عطا فرماتاہے ،کیونکہ وہ سب قدرتوں کا مالک ہے ۔ہمیں بھی اسی سے مدد مانگی چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حدیبیہ کا صلح نامہ
ذیقعدہ ۶ ھ میں آقا حضورﷺ نے عمرہ کا اراد ہ کیا۔پیارے بچو! عمرہ بھی ایک طرح کا حج ہی ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ حج تو ذی الحجہ کے مہینے میں ہوتاہے اور عمرہ جب بھی چاہیں کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے کسی مہینے یا دن اور تاریخ کی پابندی نہیں ہے۔ اس کاثواب بھی حج کے برابر ہوتا ہے ۔حج تو امیر آدمیوں پر فرض ہے لیکن عمرہ کسی پر بھی فرض نہیں ہے۔ یہ صرف اللہ کی رضا مندی کے لیے کیا جاتا ہے۔ آقا حضورﷺ نے اپنے ارادے سے تمام صحابہ کو بھی آگاہ کیااور حکم دیا کہ جو بھی آپ ﷺ کے ساتھ عمرہ کے لیے جانا چاہے تیار ہو جائے ۔
چنانچہ یکم ذی قعدہ ۶ھ آپ ﷺ نے عمرے کے لیے احرام (حج کے لیے مقرر کیا گیا لباس) باندھا اور اپنے چودہ سو صحابہؓ کے ساتھ مکہ شریف کی طرف روانہ ہوئے اور قربانی کے جانور بھی اس قافلے کے ساتھ تھے ۔آپﷺ کا دستور تھا کہ جب بھی آپﷺ سفر پر روانہ ہوتے تو شہر سے باہر نکل کر یہ دعا کیا کرتے تھے :
’’خدا تو ہی ہمارا سفر کا ساتھی ہے۔ تو ہی ہمارے بال بچو ں کا نگہبان ہے۔خدایا سفر کی تکلیفوں اور واپس آکر بال بچوں کو برے حال میں دیکھنے کی مصیبت سے پناہ مانگتا ہوں ۔ خدایا ہمارے سفر کوکم کر دے اور ہمارے لیے آسان بنا دے۔‘‘
جب یہ قافلہ ذوالحلیفہ کے مقام پر پہنچا تو آپ ﷺ کو معلوم ہوا کہ قریش کو آپﷺ کے آنے کی خبر مل گئی ہے اور انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ آپﷺ او ر آپ ﷺ کے ساتھیوں کوکسی قیمت پر مکہ شریف میں داخل نہ ہونے دیں گے اور انہوں نے آپﷺ کا راستہ روکنے کے لیے لشکر بھی تیار کر لیا ہے یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا:
’’قریش کا برا ہو ‘انہیں جنگ کھا گئی ہے ۔خدا نے مجھے جس کام کے لیے بھیجا ہے ،خدا کی قسم اس کے لیے برابر جہاد کرتا رہوں گا یہاں تک کہ خدا اسلام کو غالب کر دے یا مجھے موت آجائے۔ ‘‘
اس کے بعد آپﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر پہنچ کر سب کو ٹھہرنے کاحکم دیا ۔تا کہ دیکھیں قریش کیا کرتے ہیں۔ اس جگہ پانی کی کمی تھی ۔اس لیے صحابہؓ نے آپ سے عرض کیا کہ پانی ہمارے پاس سے ختم ہو چکا ہے اور یہاں اس کے ملنے کی کوئی امید بھی نہیں ہے کیونکہ وہاں جو کنواں تھاوہ بالکل خشک ہو چکا تھا۔ آپﷺ اس کنویں کی منڈیر پر تشریف فرماہوئے۔ کلی کے لیے پانی منگوایا اور پھر کلی کرنے کے بعد اس پانی کو کنویں میں ڈال دیا۔خدا کی قدرت کنوئیں سے دھواں سا اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا کنواں پانی سے بھر گیا عزیز دوستو !یہ بھی ہمارے آقا حضورﷺ کا معجزہ تھا۔
اب پانی کی کمی دور ہو گئی اور اللہ نے اپنے ان چودہ سوپیارے بندوں کے لیے پانی کا مستقل بندوبست کر دیا جس کا فائدہ آس پاس کے لوگ مدتوں تک اٹھاتے رہے ۔حدیبیہ کے مقام پر قریش کا جو آدمی سب سے پہلے آقا حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا وہ بدیل بن ورقا تھا۔جس نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ وہاں حاضر ہو کر آقا حضورﷺ سے دریافت کیا کہ آپﷺ کس غرض سے یہاں تشریف لائے ہیں ۔جواب میں آپ ﷺنے فرمایا:
’’ہم صرف بیت اللہ کی زیارت کے لیے آئے ہیں۔‘‘یہ سن کر بدیل بولا، ’’لیکن قریش نے قسم کھائی ہے کہ آپﷺ کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیں گے ۔‘‘آقاحضورﷺ نے فرمایا، ’’جو ہمیں روکے گا ہم مجبوراًاس سے لڑیں گے۔ ‘‘
بدیل نے مکہ واپس جا کر قریش کو بتایا کہ جناب محمد ﷺ اور ان کے ساتھی صرف عمرہ کی غرض سے آئے ہیں ۔ان کا ارادہ لڑنے کا نہیں ہے نہ ان کے پاس لڑا ئی کے لیے اسلحہ ہے۔ ا ن کے ساتھ قربانی کے جانور بھی موجود ہیں ۔اس لیے انہیں عمرہ کر نے سے نہ روکا جائے لیکن قریش نے یہ باتیں سن کر اسے ڈانٹا اور کہا کہ وہ کسی قسم کی رعایت دینے کو تیار نہیں ہیں اور جناب محمدﷺ ہمارے شہر میں بلا اجازت داخل نہیں ہو سکتے ۔
پیارے بچو !مکہ شریف تو امن کا شہر ہے ا ور بیت اللہ شریف میں پناہ لینے والے شخص پر دشمن بھی ہاتھ نہیں اٹھا سکتا تھا ۔لیکن قریش ایسے ظالم تھے کہ آقاحضورﷺ کو عمرے کے لیے بھی وہاں تک جانے نہیں دینا چاہتے تھے ۔قریش نے اس پر ہی بس نہیں کی بلکہ ستر آدمیوں کا ایک دستہ تیار کر کے حدیبیہ کی طرف روانہ کیا تا کہ جہاں کوئی اکا دکا مسلمان نظر آئے اسے بلا دریغ شہید کر دیا جائے لیکن یہ دستہ مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوااور آقا حضورﷺ نے اپنی شان رحم وکرم سے کام لیتے ہوئے اسے رہا کر دیااور انہیں کوئی سزا نہ دی ۔
آپﷺ نے حضرت عثمانؓ کو یہ معاملہ سلجھانے کے لیے مکہ شریف بھیجا تا کہ وہ قریش سے مل کر بات کریں اور انہیں سمجھائیں کہ ہم تو صرف عمرہ کرنے کی غرض سے یہاں آئے ہیں اس لیے ہمارا راستہ نہ روکا جائے۔لیکن قریش اپنی ضد پر قائم رہے اور حضرت عثمان سے کہا کہ اگر آپ طواف کرنا چاہتے ہیں تو کر لیں مگر انہوں نے قریش کی اس اجازت کو ٹھکرادیااور فرمایا جب تک آقا حضورﷺ اور سارے ہمراہی طواف نہ کریں گے میں اکیلا ہر گز نہیں کروں گا۔ان کا یہ جواب سن کر قریش غصے سے بھڑک اٹھے اور انہوں نے حضرت عثمانؓ کو واپس جانے سے روک دیا۔
پیارے بچو !اللہ کا ذکر کرتے ہوئے بیت اللہ شریف کے ارد گرد چکر لگانے کو طواف کرنا کہتے ہیں اس کابہت ثواب ہے ۔عزیز دوستو! آپ نے دیکھا حضرت عثمانؓ کے د ل میں آقا حضورﷺ کی کتنی گہری اور سچی محبت تھی کہ آقاحضورﷺکے بغیر اکیلے طواف کرنابھی انہیں گوارا نہ تھا۔
جب حضرت عثمانؓ وقت مقررہ پر واپس حدیبیہ میں نہ پہنچے تو مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ انہیں شہید کر دیا گیا۔آقاحضورﷺ نے جب یہ افواہ سنی تو اس وقت آپﷺ ایک درخت کے نیچے تشریف فرماتھے۔آپﷺ نے سب صحابہؓ کو وہا ں جمع ہونے کاحکم دیااور جب سب جمع ہوگئے تو فرمایا:
’’اب ہم اس مقام سے اس وقت تک نہ ہٹیں گے جب تک قریش سے جنگ نہ کر لیں ۔آؤ جنگ کے لیے بیعت کرو۔‘‘
تمام صحابہؓ نے مرنے مارنے کے لیے حضورﷺ کے مبارک ہاتھ پر بیعت کی ۔قرآن مجید میں اس کو بیعت الرضوان کہا گیا ہے اور اللہ پاک نے فرمایاہے :
’’اللہ مومنوں سے راضی ہواجب وہ تیرے ہاتھ پر درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے۔ ‘‘
قریش کو جب معلوم ہوا کہ مسلمانوں نے مرنے مارنے پر قسم کھا لی ہے تو ان پر خوف طاری ہو گیا ۔ کیونکہ وہ بدر اور احزاب کی جنگوں میں مسلمانوں کی بہادری اور جانثاری کا تجربہ کر چکے تھے اس لیے انہوں نے اپنے ایک سردار سہیل بن عمرو کو اپنا سفیر بنا کر آقا حضورﷺ کے پا س اس غرض سے بھیجا کہ صلح کی بات چیت کی جائے ۔یہ شخص بہت عقل مند تھا ۔اس کے آنے اور بات چیت کرنے سے مسلمانوں اور کافروں کے درمیان چند شرطوں پر صلح ہو گئی جن میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ مسلمان اس سال عمرہ کیے بغیر واپس لوٹ جائیں گے اور آئندہ سال عمرہ کریں گے ۔اگر چہ مسلمانوں کو بعض شرطیں نا پسند تھیں لیکن جب اللہ پاک نے فرمایا،’’ہم نے آپ کو کھلی فتح عطا کی ۔‘‘
تو مسلمانوں کو اطمینا ن ہو گیا ۔چنانچہ دوسرے سا ل مسلمانوں نے عمرہ کیااور چند سال کے اندر اندر بے شمار آدمیوں نے اسلام قبول کر لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمی دعوت اسلام
۷ ھ میں آقا حضوﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی جسے مہر کے طور پر خطوں پر لگایا جاتا تھا۔تا کہ یہ خط سرکاری خطوط سمجھے جائیں۔ پھر آپﷺ نے بہت سے ملکوں کے حکمرانوں کو اسلا م کی دعوت قبول کر نے کے لیے خط لکھے جن میں سے حبشہ کے حاکم نجاشی نے اسلام قبول کر لیا۔روم کے بادشاہ ہرقل نے اسلام تو قبول نہ کیامگر سفیر کی عزت کی لیکن ایران کے بادشاہ خسرو پرویز نے اسلام بھی قبول نہ کیااور آپﷺ کے سفیر حضرت عبداللہ کوڈانٹ کر دربار سے نکلوادیا۔اور آپ ﷺ کا مبارک خط پھاڑ ڈالا۔ واپسی پر جب حضرت عبداللہ نے آپﷺ کو یہ واقعہ سنایا تو آپﷺ نے فرمایا،’’خدا اس کی حکومت ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔‘‘چنانچہ کچھ عرصہ بعد ایسا ہی ہوا اور مسلمانوں نے ایران کو فتح کر لیا جس کے بعد خسرو کے خاندان کی حکومت ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی ۔مصر کے بادشاہ مقوقس نے آپﷺ کے خط کو بڑی عزت سے خوشبو لگا کر ایک صندوقچی میں محفوظ کر لیا۔اس نے اسلام تو قبول نہ کیالیکن آپﷺ کے سفیر حضرت حاطبؓ کو بہت سا انعام دیااور آقاحضورﷺ کے لیے دو لونڈیاں ‘ایک سفید خچر اور کچھ کپڑے دے کر واپس کر دیا۔
آقاحضورﷺ کے سفیروں میں سب سے برا سلوک حضرت حارثؓ سے کیا گیا۔ انہیں بصرہ کے حاکم کے پاس خط مبارک دے کر بھیجا گیا تھا‘لیکن جب وہ موتہ کے پاس پہنچے تو وہاں کے حاکم شرجیل نے انہیں بلا وجہ شہید کرادیا۔حالانکہ سفیروں کو قتل کرنا تمام دنیا میں برا سمجھا جاتا تھا۔جب اس ظالمانہ کارروائی کی خبر آقا حضورﷺ کو ملی تو آپﷺ نے اس کا بدلہ لینے کے لیے ایک لشکر موتہ بھیجا جس کا ذکر ہم آئندہ صفحات میں کریں گے۔ان سفیروں کے علاوہ آپﷺ نے بہت سے دوسرے سفیر بھی بھیجے تھے تاکہ اسلام کا پیغام دوسرے ملکوں تک پہنچ جائے۔

۔۔۔۔۔

جنگ خیبر
پیارے بچو !خیبر ایک علاقہ ہے جو مدینہ منورہ سے شمال کی جانب تقریباًایک سو میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ بڑا سر سبز علاقہ تھااور یہاں یہودی رہتے تھے (جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے ہونے پر بڑا تکبر کیا کرتے تھے )یہ بڑے مغرور‘خوشحال اور طاقت ور لوگ تھے ان کے بہت سے قلعے تھے جن پر انہیں بہت ناز تھا۔یہ لوگ مسلمانوں کے سخت دشمن تھے اور ان کے خلاف اکثر جنگی تیاریاں کیا کرتے تھے ۔ایک بار جب ان کی جنگی تیاریوں کی اطلاع ہمارے آقا حضور ﷺ کو ہوئی تو آپﷺ نے یہودیوں کو مدینہ پر حملہ کرنے سے پہلے ہی ان کے اپنے علاقے میں جا کر سزا دینے کا ارادہ کر لیا۔کیونکہ دشمن کو اسی کی سر زمین میں گھس کر شکست دینا بڑے نفع کی بات ہے ۔
ہمارے آقاحضورﷺ محرم ۷ ھ میں سولہ سو مجاہدین کا لشکر لے کر خیبر کی طرف روانہ ہوئے تا کہ یہودیوں کو ان کی سر زمین میں شکست دی جائے۔یہودیوں کے قلعوں میں سب سے زیادہ مشہور اور مضبوط قموص کا قلعہ تھا جس پر انہیں بہت ناز بھی تھااور ان کے خیال میں یہ فتح نہیں کیا جا سکتا تھا۔وہاں ان کا مشہور پہلوان مرحب رہتاتھا۔جس کی سارے عرب میں دھوم مچی تھی۔مسلمانوں نے اچانک خیبر میں پہنچ کر جنگ شروع کر دی اور ایک ایک کر کے ان کے سارے قلعے فتح کر لیے لیکن قموص کا قلعہ فتح ہونے میں نہیں آتا تھا ۔اگر چہ اس کے ارد گرد لڑائی بھی ہر روز ہوتی تھی ۔آخر ایک دن حضورﷺ نے حضرت علیؓ کوایک دستے کاسالار بنا کر قموص فتح کرنے کے لیے روانہ فرمایا۔حضرت علیؓ خود بھی بہت بہادر تھے اور مجاہدوں کو لڑواتے بھی خوب تھے۔انہوں نے قلعہ کے سامنے کھڑے ہو کر دشمن کو للکارا تو ان کا پہلوان مرحب بڑے فخر و غرور سے میدان میں آیااورمسلمانوں کی طرف سے حضرت محمدﷺ بن مسلمہ مقابلے کے لیے نکلے۔ دونوں پہلوانوں نے اپنی بہادر ی، ہوشیاری اور جانبازی کے خوب خوب جو ہر دکھائے لیکن آخر کار محمدؓ بن مسلمہ نے اسے قتل کر دیا ۔
اپنے بھائی کو یوں قتل ہوتے دیکھ کر اس کابھائی یا سر جو خود بھی بہت بڑاپہلوان تھا میدان میں آیا لیکن مسلمانوں کی طرف سے حضرت زبیرؓ نے اپنی تلوار کے ایک ہی وار سے اسے مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیا۔یہودیوں پر دہشت طاری ہو گئی وہ بھاگ کر اپنے قلعے میں گھس گئے اور اس کا دروازہ بند کر لیا لیکن مسلمانوں نے بڑا زور دار حملہ کیا۔کچھ مجاہد قلعہ کی دیواروں پر چڑھ کر اس کے اندر کود گئے ۔حضرت علیؓ نے قلعہ کا مضبوط دروازہ توڑ دیااور مسلمان قلعے کے اندر داخل ہو گئے جہاں ایک سخت جنگ کے بعد یہودیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور جان بخشی کی درخواست کی۔ آقا حضورﷺ نے اس شرط پر معاف فرمادیا کہ وہ خیبر چھوڑ کر کسی اور جگہ چلے جائیں ‘چنانچہ وہ خیبر چھوڑ گئے اور مسلمان پوری طرح ان کے قلعوں، باغوں اور زمینوں پر قابض ہو گئے ۔
مسلمانوں نے چند دن تک وہاں قیام کیااور جب واپس روانہ ہونے لگے تو حضرت علیؓ کے سگے اور حضورﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر بن ابی طالب جو کئی سال سے ہجرت کر کے حبشہ میں چلے گئے تھے۔وہاں پہنچ گئے جنہیں دیکھ کر سب مسلمانوں کوخوشی ہوئی لیکن آقاحضورﷺ نے محبت او رخوشی کے عالم میں ان کو اپنے گلے سے لگا لیاان کی پیشانی کو بوسہ دیااور فرمایا:
’’ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں خیبر کی زیادہ خوشی ہے یا جعفر کے آ نے کی۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔

جنگ موتہ
پیارے بچو! ہم نے عالمی دعوت اسلام کے باب میں آپ کو بتایا تھا کہ حضورﷺ کے ایک سفیر حضرت حارثؓ کوموتہ کے حاکم شرجیل نے بلا وجہ شہید کرادیاتھا اور آقاحضورﷺ نے فرمایاتھاکہ ہم اس کا بدلہ لیں گے اور اس ظالم کو سزا دیں گے ۔کیونکہ سفیروں کا قتل تو دنیا بھر میں کہیں بھی جائز نہیں سمجھا گیا تھا۔
چنانچہ آپﷺ نے ۸ ہجری میں تین ہزار مجاہدین کا لشکر اس مقصد کے لیے موتہ کی طرف روانہ کیااور ان سے فرمایا:
’’اس لشکر کے امیر زید بن حارثؓ ہوں گے۔ اگر وہ قتل کر دیے جائیں توجعفر بن ابی طالب ہوں گے ۔اگر وہ بھی قتل کر دیے جائیں تو عبداللہ بن رواحہ امیر ہوں گے ۔اور اگر وہ بھی قتل ہوجائیں تو مسلمان اپنی مرضی سے جس کو چاہیں امیر مقرر کر لیں ۔‘‘
’’اس مقا م تک جاؤ جہاں حارثؓ بن عمیر نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے جان دی تھی۔ وہاں جو لوگ ملیں انہیں اسلا م کی دعوت دو۔ اگر وہ اسلام کی دعوت قبول کر لیں تو جنگ کی ضرور ت نہیں ہے ۔اور اگر وہ اسے قبول نہ کریں تو ان سے جنگ کرو اور خدا سے مدد مانگو۔‘‘
جب یہ لشکر مدینہ شریف سے روانہ ہوا تو شرجیل کو بھی اس کی اطلاع مل گئی۔ اس نے روم کے بادشاہ ہرقل سے مدد مانگی ۔اس وقت ہرقل اپنی فوجو ں کے ساتھ خود بھی اسی جگہ کے قریب ہی موجود تھا اور اس کی فوجوں کے سات دوسرے کئی قبیلوں کے جنگجو لوگ بھی شامل تھے۔ اس طرح ان کی تعداد ایک لاکھ سے کچھ زیادہ ہی تھی۔
مسلمانوں کوجب یہ خبر ملی تو انہیں تشویش ہوئی اور انہوں نے ارادہ کیا کہ آقاحضورﷺ سے مدد مانگی جائے لیکن ان کے سالار حضرت عبداللہ بن رواحہ نے کہا:
’’بھائیو!ہم تو شہادت کے شوق میں نکلے ہیں اور اب اس کے پوراہونے کا وقت آگیاہے۔ ہماری منزل ہمارے سامنے ہے ۔پھر اس کی طرف قدم بڑھانے میں اس قدر سوچ بچار کی کیا ضرورت ہے۔ ہم تعداد اور قوت کے سہارے پر جنگ نہیں کرتے ۔اگر فتح حاصل کریں تو بے شک ہمارے لیے بھلائی ہے اور اگر شہادت پائیں تو بھی ہمارے لیے بہترین اجر ہے ۔
مسلمانوں میں زبردست جوش پھیل گیااور تین ہزار مجاہدین کا یہ چھوٹا سا لشکر کفار کے ایک لاکھ لشکر سے لڑ گیا اور اس قدر حیرت انگیز بہادری دکھائی کہ کافروں پر دہشت طاری ہوگئی ۔انہیں خطرہ پیدا ہو گیا کہ اگر مدینہ سے مسلمانوں کی مدد کے لیے اور کوئی لشکر آگیاتو پھر ان کی خیریت نہیں ۔مسلمانوں کے تینوں سالار زید،ؓ جعفرؓ اور عبداللہؓ بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے اور مسلمانوں نے حضرت خالدؓ بن ولید کو اپنا سالار بنا لیا جنہوں نے بڑی حکمت عملی اور بہادری سے مسلمانوں کو کافروں کے اس بڑے لشکر سے بچا لیا۔اس جنگ میں ان کے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹی تھیں اور آقا حضورﷺ نے انہیں سیف اللہ (اللہ کی تلوار) کاخطاب عطا فرمایا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فتح مکہ
پیارے بچو ! صلح حدیبیہ کے بعد بنو خزاعہ کا قبیلہ مسلمانوں کا دوست بن گیا اور اس صلح نامے کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو مسلمانو ں کے دوستوں سے جنگ کرے ۔مسلمان ان کی مدد کرنے کے پابند ہوں گے ۔قریش نے دوسروں کے ساتھ مل کر شعبان ۸ ہجری میں بنو خزاعہ پر اچانک حملہ کر کے ان کے کئی آدمی مار دیے ۔اور ان کا سردار عمرو بن سالم مدینہ شریف میں آقا حضورﷺ کی خدمت میں فریاد کرنے اس وقت حاضر ہوا جب آپ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ اس نے قریش کی وعدہ خلافی اور ظلم و ستم کی داستان ایسے دردناک لہجے میں سنائی کہ خودآقا حضورﷺ کی مبارک آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آپﷺ نے فرمایا:
’’اے عمرو! تمہاری ضرور مدد کی جائے گی۔ اگر میں نے تمہاری ایسی مدد نہ کی جیسی خاص اپنی جان کی کرتا ہوں تو گویا میں نے تمہاری مدد نہیں کی۔‘‘
قریش کی اس بد عہدی کی وجہ سے حدیبیہ کاصلح نامہ خود بخود ختم ہو گیا تھا، اس لیے آقاحضورﷺ رمضان المبارک ۸ ہجری دس ہزار مجاہدوں کے ساتھ مکہ شریف کی طرف روانہ ہو گئے تا کہ قریش کو اس کے ظلم و ستم کی سزا دیں۔ آپ ﷺ منزلیں طے کرتے ہوئے جب مرا لظہران میں پہنچے جہاں سے مکہ شریف چند میل پر ہے تو آپﷺ نے لشکر کو ٹھہرانے کاحکم دیا ۔اس وقت رات شروع ہو چکی تھی۔ آپ ﷺ نے مجاہدین سے ارشاد فرمایا کہ آج رات لشکر کا ہر دستہ اپنا اپنا کھانا پکانے کے لیے الگ الگ چولہے جلائے تا کہ دور سے دیکھنے والوں کو اسلامی لشکر کی تعداد زیادہ نظر آئے ۔یہ ایک جنگی تدبیر تھی جس سے دشمن کو بدحواس کیا جا سکتا تھا۔ادھر اہل مکہ کوبھی اسلامی لشکر کے آنے کی خبر مل چکی تھی ۔اس لیے انہوں نے مسلمانوں کے پڑاؤ کے قریب پہنچ کر دیکھا تو انہیں دوردور تک چولہے جلتے ہوئے اور لشکری گھومتے پھرتے نظر آئے ۔مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر ان کے حواس باختہ ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ دیکھو مسلمان اتنی بڑی فوج لے کر آگئے ہیں ۔اب اہل مکہ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔اس کے بعد وہ ابو سفیان کو اپنے ساتھ لے کر آقاحضورﷺکی خدمت میں پہنچے ۔جہاں تھوڑی دیر تک گفتگو کرنے کے بعد ابو سفیان مسلمان ہو گئے ۔دوسرے دن یعنی ۲۰ رمضان ۸ ہجری (۱۱فروری ۶۳۰)جمعہ کے مبارک دن کو صبح کے وقت ابو سفیان نے ایک اونچی چٹان پر کھڑے ہو کر لوگوں کو اسلامی لشکر کی آمد کی خبر دی اور انہیں کہا کہ اپنی جانیں بچانے کے لیے یا تو بیت اللہ کے صحن میں جمع ہو جائیں یامیرے گھر آجائیں یا اپنے اپنے گھر کا دروازہ بند کر کے اپنے گھر میں بیٹھے رہیں ۔لوگ خوف کے مارے مختلف جگہوں میں بھاگ بھاگ کر پناہ لینے لگے ۔جب اسلامی لشکر شہر میں داخل ہوا تو ایک جگہ پر مختصر سی جھڑپ ہوئی اور کفار کئی لاشیں چھوڑ کر بھاگ نکلے باقی تمام راستوں سے اسلامی لشکر نہایت امن سے شہر میں داخل ہوا۔
پیارے بچو! اس موقع سے آٹھ سال پہلے ہمارے آقاحضورﷺ نے رات کی تاریکی میں مکہ شریف کو اس حال میں چھوڑا تھاکہ آپﷺ کی جان کو ہر دم خطرہ تھا ۔اور صرف حضرت ابو بکرؓ ہی آپ ﷺ کے ساتھی تھے۔لیکن اللہ کے فضل و کرم سے آج آپﷺ دن کی روشنی میں اس شان سے شہر میں داخل ہو رہے تھے کہ دس ہزار مجاہدین آپ کے ہمراہ تھے اور خود اہل مکہ کو اپنی جان بچانے کی فکر تھی۔مکہ شریف کے رہنے والوں نے ہمارے آقا حضورﷺکو تیرہ سال تک شہر میں تنگ کیا تھا۔ آپﷺ کو بیت اللہ میں نماز ادا کرنے کی اجازت نہ تھی ۔آپﷺ جب گھر سے باہر تشریف لاتے تھے تو لوگ آپﷺ پر پھبتیاں کستے، دھول پھینکتے اور آپﷺ کی جان سے کھیلنے کے لیے موقعے کی تلاش میں رہتے تھے ۔لیکن آج تمام لوگ بیت اللہ شریف کے صحن میں مجرموں کی طرح سر جھکائے آپﷺ کے سامنے کھڑے تھے۔اور اپنے ظلم و ستم کو یاد کر کے اپنے انجام کے خوف سے ڈر رہے تھے ۔انہیں یقین تھا کہ ان سے بدلہ لیا جائے گا اور انہیں سخت سزادی جائے گی ۔
آقاحضورﷺ جب شہر میں داخل ہوئے تو اپنی اونٹنی پر سوار تھے۔ سر مبارک اللہ کے سامنے جھکا ہوا تھا۔ زبان پر اللہ پاک کی حمدو ثنا تھی ۔مسلمان آپﷺ کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں چل رہے تھے ۔اور مکہ والے حیرت سے ان کو دیکھ رہے تھے ۔آپﷺ بیت اللہ کے پاس پہنچ کر اپنی اونٹنی سے اترے۔ اس کے اندر تشریف لے گئے اور وہاں موجود ۳۶۰بتو ں کو اپنی کمان کی نوک مار مار کر گراتے ہوئے یہ آیت تلاوت فرماتے تھے :
’’کہہ دو حق ظاہرہو گیااور باطل برباد ہوا ۔اور باطل اسی لیے آیا تھا کہ برباد ہوکر رہے ۔‘‘
اس کے بعد آپﷺ نے وہاں نفل اداکیے اور پھر باہر تشریف لا کر بیت اللہ شریف کے دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر صحن پر نگاہ ڈالی جو مجرموں ‘ظالموں اور مشرکوں سے بھرا ہواتھا۔ آپ ﷺ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’جانتے ہو میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟‘‘
ان لوگوں کو اپنے وہ تمام ظلم یاد آگئے جو انہوں نے آقاحضورﷺپر کیے تھے۔ وہ کچھ دیر خاموش رہے پھر بہت سے لوگ بول اٹھے :
’’آپ کریم ہیں ‘کریم کی اولاد ہیں، آپﷺ سے صرف خیر اور بھلائی کی امید ہے۔‘‘
ان کی یہ بات سن کر ہلکی سی مسکراہٹ آپﷺ کے چہرہ مبارک پر نظر آئی اور فرمایا:
’’آج میری طرف سے تم پر کوئی سزا نہیں۔ جاؤ ،تم سب آزاد ہو۔ ‘‘
پیارے بچو!آپ نے دیکھا ہمارے آقاحضورﷺ کس قدر مہربان ‘رحم دل اور انصاف کرنے والے تھے کہ ایسے ظالم لوگوں کو بھی آپﷺ نے خوش دلی سے معاف کر دیاجو تیرہ سال تک متواتر آپ ﷺکو مکہ میں تنگ کر تے رہے اور آٹھ سال تک مکہ سے باہر بھی آپﷺ سے جنگیں کرتے رہے لیکن آپﷺ نے اپنے تمام دکھ بھلا دیے اور ان لوگوں کو معاف کر کے ہمارے لیے ایک ایسا نمونہ پیش کر دیا کہ اگر ہم سب اپنے اپنے دشمنوں کو اس طرح معاف کر دیا کریں تو پورے ملک میں امن و سلامتی کے پھول کھلنے لگیں اور لوگ نہایت سکون سے زندگی گزار یں ۔

۔۔۔۔۔۔۔

جنگ حنین
مسلمانوں کے ہاتھوں سے مکہ شریف کی فتح نے پورے عرب کے کافروں اور مشرکوں کو جھنجھوڑکر رکھ دیا تھا اور وہ ان کی بڑھتی ہوئی طاقت کو اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگے کیونکہ انہیں بت پرستی اور شرک چھوڑنا گوارہ نہ تھا۔اورا سلام انہی کو مٹانے آیا تھا ،اس لیے یہ قبیلے نہایت پردہ داری سے مسلمانوں کے خلاف جنگی تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔ ایسا ہی ایک قبیلہ بنو ہوازن تھا جو مکہ شریف سے بہت دور آباد تھا۔اسی قبیلے کی ایک عورت حلیمہؓ نے آقا حضورﷺ کو بچپن میں دودھ پلایا تھا۔ان میں لڑنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ان کے پاس اسلحہ بھی بہت تھااور ان کا ارادہ تھاکہ مکہ شریف پر حملہ کر کے مسلمانوں کو تباہ کر دیا جائے ۔
جب آقاحضورﷺ کو ان کی جنگی تیاریوں کی خبر ملی تھی تو آپﷺ نے اپنے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن ابی حداد کو جاسوسی کے لیے بنو ہوازن کی طرف بھیجا جو کچھ دن وہاں گزار کر واپس آئے اور آپ ﷺ کو واقعات ‘حالات اور مقامات کی تفصیل بتائی آقاحضورﷺ نے حالات پر غور کرنے کے بعدفرمایا کہ ہم مکہ میں ان کا انتظار نہیں کریں گے تا کہ ان کے آنے اور لڑائی چھڑجانے سے مکہ کی عزت اور حرمت کو نقصان نہ پہنچے ۔اس لیے لشکر کو تیاری اور روانگی کاحکم دیا گیا۔ مجاہدین کی تعداد بارہ ہزا ر تھی ۔یہ لشکر۱۱ شوال ۸ ہجری میں اوطاس کے مقام پر پہنچا ۔بنو ہوازن کے لوگ چالا ک تھے۔ انہیں مسلمانوں کی آمد کا پتہ چل گیاتھا۔اس لیے انہوں نے بہت سے تیر انداز ان کی راہ میں چھپادیے تا کہ جب مسلمان ان کی زد میں آئیں، وہ فوراًان پر تیر چلانے شروع کر دیں ۔پیارے بچو! ان کی یہ چال کامیاب ہو گئی۔ مسلمانوں کے لشکر کے آگے وہ لوگ تھے جو نئے مسلمان ہوئے تھے یا مال غنیمت کے لالچ میں ان سے مل گئے تھے ۔اس لیے بے فکری سے بڑھتے چلے جا رہے تھے لیکن جب یہ بنو ہوازن کے تیر اندازوں کی زد میں آئے تو انہوں نے اس قدر شدید تیر اندازی کی کہ ان کے قدم اکھڑ گئے اور جم کر نہ لڑ سکنے کی وجہ سے الٹے پاؤں مکہ کی طرف بھاگ نکلے ۔ان کی بھگڈر کا باقی لشکر پر بھی بہت برا اثر پڑااور اس کی ترتیب ختم ہوگئی جس سے لشکر پر بد حواسی طاری ہو گئی اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ایک جگہ پر آقاحضورﷺ تن تنہا اپنے خچر پر سوار رہ گئے ۔جب کہ ان کے پا س صرف بارہ آدمی تھے ۔اس خطرناک اور نازک موقعے پر آپ ﷺ دشمن کے بڑھتے ہوئے لشکر اور ان کی تیر اندازی میں چٹان کی طرح موجود تھے اور بڑے رعب اور جلال سے فرمایا:
’’میں کوئی جھوٹا نبی نہیں ہوں ‘میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۔‘‘
وہاں آپ ﷺ کے ساتھ موجود ہونے والے مجاہدوں میں زیادہ آپﷺ کے قریبی رشتے دار اور پیارے دوست تھے اور ان میں حضرت انسؓ کی والدہ ام سلمہؓ بھی شامل تھیں جن کے ہاتھ میں خنجر تھااور کہہ رہی تھیں اگر کوئی کافر ادھر آیاتو اس کاپیٹ چاک کر دوں گی۔
آپ ﷺ نے اپنے چچا حضرت عباسؓ سے فر مایاکہ لوگوں کو جمع ہونے کے لیے پکاریں ۔ان کی آواز بہت بلند تھی اور دور دور تک سنائی دیتی تھی۔انہو ں نے زور سے پکارا:
’’اے گروہ انصار !اے حدیبیہ میں درخت کے سایہ تلے بیعت کرنے والو۔‘‘
یہ آواز سنتے ہی مسلمان پورے جوش و جذبے کے ساتھ وہاں جمع ہو گئے اور انہوں نے اس شدت سے حملہ کیا کہ بنو ہوازن ان کے سامنے نہ ٹھہر سکے اور اپنے مال و اسباب اور بیوی بچو ں کو چھوڑ کر بھاگ نکلے ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے میدان میں چھ ہزار عورتیں اور بچے، چالیس ہزار بکریاں‘چوبیس ہزار اونٹ ‘بہت سا نقد اور دوسرا مال و اسباب بکھرا ہوا رہ گیا ‘جو آپ ﷺ نے لشکر میں تقسیم فرمایا۔
اس جگہ پر آپﷺ نے ۱۵ دن تک قیام فرمایا۔یہاں بی بی حلیمہؓ کی بیٹی شیما جو قیدی عورتوں میں شامل تھیں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپﷺ کو یا د دلایا کہ حلیمہؓ کی بیٹی ہوں اور میں نے آپﷺ کو بچپن میں کھلایا تھا۔یہ سن کر آپﷺ کی مبارک آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور بی بی حلیمہؓ کی محبت اور یاد نے آپﷺ کو بے چین کر دیا۔آپﷺ نے اسے بہت سا انعام و اکرام دے کر آزاد کر دیااور وہ دعائیں دیتی ہوئی واپس چلی گئی۔ چند دن بعد بنو ہوازن کا ایک وفد یہاں آپﷺ کی خدمت میں حاضرہوا اور اپنے قید ی بال بچوں کی رہائی کے لیے درخواست کی۔ آپ ﷺ نے ان پر رحم کرتے ہوئے ان کے سب بال بچوں کو آزاد کر دینے کا حکم دے دیا۔یوں بنو ہوازن ناکام و نامراد ہو کر رہ گئے اور مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تبوک
مدینہ منورہ سے تقریباًپانچ سو میل شمال کی جانب تبوک کا شہر ہے جس کے آس پاس روم کے بادشاہ قیصر کی فوجیں اور غسانیوں کے لڑاکا گروہ اکٹھے ہو رہے تھے۔ یہ رجب ۹ ھجری کی بات ہے، ان کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی طاقت کو مدینہ میں پہنچ کر ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے اور موتہ کی جنگ کا بھی بدلہ لیا جائے ۔جس میں مسلمانوں کے تین ہزار کے لشکر نے ایک لاکھ مشرکین کامنہ توڑ دیا تھااور ان بڑے بڑے لشکروں کو اپنی بے عزتی کاخیال ستاتا رہتا تھا۔
آقا حضورﷺ کو جب ان لشکروں کی خبر ملی تو آپﷺ نے اپنے جاسوسوں کے ذریعے ان خبروں کی تصدیق کرائی اور جب ان کی جنگی تیاریوں کے متعلق یقین ہوگیاتو آپﷺ نے ارادہ کر لیا کہ دشمن کو سرحد پر ہی روک دیا جائے تا کہ اس کاحوصلہ پست ہوجائے ۔اگر چہ منزل بہت دور تھی۔گرمی بھی شدید تھ۔قحط کا زمانہ تھا۔کھجوروں کے پھل پکنے والے تھے۔ سامان اور اسلحہ بھی مناسب مقدار میں موجود نہ تھا مگر آقاحضورﷺ نے تیاری اور روانگی کاحکم دے دیا۔ چنانچہ جمعرات کے روز یہ لشکر روانہ ہوا۔اس میں تیس ہزار مجاہدین اور دس ہزار اونٹ گھوڑے شامل تھے اور عرب کی تاریخ میں اس سے بڑا لشکر آج تک نہیں دیکھا گیا تھا۔یہ لشکر جب راستے میں ثمود کی قو م کے اجڑے ہوئے کھنڈر ا ت میں سے گزرا تو آپ ﷺ نے فرمایا کوئی یہاں کا پانی استعمال نہ کرے اور ہر شخص جلد از جلد ان سے گزر جانے کی کوشش کرے کیونکہ اس علاقے پر خدا کا عذاب نازل ہو چکا تھا۔
یہ لشکر رجب ۹ ہجری (نومبر ۶۳۵)میں تبوک پہنچا اور وہاں ڈیرے ڈال دیے۔ آپ اس لشکر کے ساتھ ۲۰دن تک وہا ں ٹھہرے لیکن دشمن کا دوردور تک نشان نہ تھا۔کیونکہ نہ تو غسانیوں کو ہمت ہوئی کہ مسلمانوں سے لڑیں اور نہ ہی قیصر کی فوجو ں میں اس کا حوصلہ تھا۔وہ سب اس بات سے خوفزدہ ہو گئے تھے کہ مسلمان اتنے بہادر ہیں جو اپنا علاقہ چھوڑ کر لڑنے کے لیے ہمارے علاقے میں داخل ہو گئے ہیں۔ یہ کوئی معمولی طاقت نہیں ورنہ اتنی دور آنے کی جرات نہ کرتے۔ انہیں یقین ہو گیاتھا کہ مسلمانوں کے نزدیک جنگ زندگی اور موت کا کھیل ہے جو انہیں بے حد پسند ہے ۔
ان ہی دنوں میں جب آپﷺ وہاں ٹھہرے ہوئے تھے آس پا س کے کئی قبیلے آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صلح کی بات چیت کرکے امان نامے حاصل کیے۔ اس کے بعد آپﷺ واپس مدینہ تشریف لے آئے ۔
پیارے بچو!یہ آپ کی زندگی کا آخری جنگی سفر تھا۔

۔۔۔۔۔

آخری حج
ذیقعدہ ۱۰ھ میں ہمارے آقا حضور ﷺمدینہ منورہ سے حج کے لیے مکہ شریف کی طرف روانہ ہوئے اور تمام علاقوں میں اعلان کر وایاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس حج میں شامل ہوں ۔اس سفر میں آپﷺ کی تمام بیویاں اور پیارے رفیق آپﷺ کے ہمراہ تھے۔ لوگ کثرت سے اس سفر میں شامل ہوگئے اور جب حج کے دنوں میں عرفات کے میدان میں لوگ جمع ہوتے ہیں۔تو آپ ﷺ آخری خطبہ دینے کے لیے اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور جب میدان کی طرف دیکھاتو چاروں طرف دور دور تک آپﷺکے امتی موجود تھے اور میدان انسانوں کاٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر معلوم ہو تا تھا۔
اس وقت عرفات میں موجود حاجیوں کی تعداد تقریباًایک لاکھ چوبیس ہزار تھی جن کے چہرے خوشی کے مارے چمک رہے تھے۔ وہ آپﷺ کو اپنے درمیان دیکھ کر سچی خوشی محسوس کر رہے تھے ۔آپ ﷺ کو بھی انہیں دیکھ دیکھ کر بہت مسرت ہوتی تھی۔
آپ ﷺنے وہاں حج کا خطبہ دیا جو آپﷺ کا آخری خطبہ تھا۔کیونکہ یہ حج بھی آپﷺ کی زندگی کا آخری حج تھا۔یہ خطبہ اسلامی تاریخ کا سنہری باب ہے اور علم و حکمت کی باتوں کا انمول مجموعہ ہے۔ آپ ﷺ نے بہت سی نصیحتیں کرتے ہوئے فرمایا:
’’تما م تعریفیں صرف اللہ ہی کے لیے ہیں۔ہم اسی کی حمد کرتے ہیں ۔اسی سے مدد طلب کرتے ہیں۔اسی سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں اور اسی کے حضور ندامت کا اظہار کرتے ہیں ۔
ہم اپنے دلوں کو خرابیوں اور اپنے اعمال کی برائیوں کے مقابلے میں اسی سے پناہ مانگتے ہیں۔ جسے اللہ سیدھے راستے پرچلنے کی توفیق دے اسے کوئی دوسرا گمراہ نہیں کر سکتااور جسے وہی ہدایت کی توفیق نہ دے اسے کوئی سیدھے راستے پر نہیں چلا سکتااور میں اس حقیقت کا اعلان کرتا ہوں کہ:۔
اللہ کے سوا کوئی اللہ نہیں ہے۔
وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔
محمدﷺ اس کا بندہ اور اس کا رسولﷺ ہے ۔
اللہ کے بندوں میں تم کو اسی کی عبادت کی نصیحت کرتاہوں اور تر غیب دلاتاہوں ۔
اے لوگوں !تمہارے خون اور تمہارے مال تمہارے لیے (ایک دوسرے ) کے لیے حرام کر دیے گئے ہیں حتیٰ کہ تم اپنے رب کے حضور جا کے پیش ہو جاؤ۔
جیسے کہ اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں تمہارا یہ دن حرام (حرمت والا۔عزت والا) ہے ۔
سو جس کے قبضے میں کوئی امانت ہو تو اسے اس مالک کو ادا کر دے ۔
اے لوگو۔مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔
کسی شخص کے لیے اس کے بھائی کا مال (لینا) اس کی رضامندی کے بغیر جائز نہیں میرے بعد کہیں (اس محبت کو ترک کر کے ) پھر کافروں کے ڈھنگ اختیار کر کے ایک دوسرے کی گر دنیں نہ کاٹنے لگنا۔
اے لوگو!میرے بعد کوئی نیا نبی آنے والا نہیں ہے اور نہ تمہارے بعد کوئی امت بر پا کی جانے والی ہے ۔‘‘
اس کے بعد اور بھی بہت سی نصیحتیں ارشاد فرمائیں اور پھر لوگوں سے فرمایا،’’تم لوگوں سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم بتاؤ کہو گے کیا؟‘‘لوگوں نے کہا، ’’ہم گواہی دیتے ہیں کی آپ ﷺ نے پیغام پہنچا دیا۔ امت کو نصیحت کر نے کا حق ادا کر دیا۔حقیقت سے سارے پردے ہٹا دیے اور اللہ کی امانت کوہم تک ٹھیک ٹھیک پہنچا دیا۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آخرت کا سفر
پیارے بچو ! اس دنیا سے ہر کسی کو رخصت ہونا ہے ۔موت ایک لازمی چیز ہے جو غریب اور امیر چھوٹے اور بڑے ہر کسی کو آئے گی۔ اس سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ جب ہمارے آقاحضورﷺ کی عمر ۶۳ سال ہوئی تو آپﷺ اس دنیا کو چھوڑنے کی تیاریا ں کرنے لگے ۔ماہ سفر ۱۱ ہجری میں ہی آپﷺ کی طبیعت کچھ ناساز ہو گئی تھی۔اور جب آپﷺ اسی ماہ کے آخر میں ایک دن احد کے قبرستان میں تشریف لے گئے تا کہ اپنے شہید ساتھیوں کے لیے دعا کر سکیں ۔تو واپسی پر آ پﷺ کے سر مبارک میں شدید درد ہونے لگا تھا۔جس کے بعد بخار ہو گیااور آہستہ آہستہ کمزوری بڑھنے لگی ۔آپﷺ نے اپنی دوسری بیویوں سے اجازت لے کر حضرت عائشہؓ کے حجرے میں قیام فرمایااور اپنی وفات تک یعنی متواتر سات روز تک وہیں تشریف فرما رہے ۔
جب کمزوری زیادہ بڑھ گئی اور مسجد میں جا کر نماز پڑھنا مشکل ہو گیا تو آپ ﷺ نے حضرت ابو بکرؓ کو حکم دیا کہ وہ آپﷺ کی جگہ نماز پڑھایا کریں۔ اپنی وفات سے تقریباً پانچ روز پہلے آپﷺ نے مسجد میں جو آخری نماز پڑھی وہ جمعرات کے دن ظہرکی نماز تھی ۔اسی نماز کے بعد آپﷺ نے مسلمانوں سے آخری خطاب بھی کیا تھا۔
پیارے بچو !آپﷺ کو بیمار ی کی وجہ سے کمزوری ہوتی جا رہی تھی۔آپﷺنے ۱۲ ربیع الاول ۱۱ھ پیر کے دن تقریباً دس بجے آخری بار فرمایا:
’’یہود و نصاریٰ پر لعنت ہو انہوں نے اپنے پیغبروں کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا ہے ۔
لونڈی اور غلام کے بارے میں اللہ سے ڈرو انہیں کپڑے پہناؤ۔پیٹ بھر کر کھانا کھلاؤ اور ان کے ساتھ نرمی سے بات کرو ۔‘‘
اس کے بعد آپﷺ کو زیادہ کمزوری ہو گئی اور آپﷺ نے فرمایا:
نماز ۔نماز اور تمہارے لونڈی غلام۔‘‘
پھر اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور تین بار فرمایا:
(بس اب اور کوئی نہیں صرف رفیق اعلیٰ درکار ہے )
اس کے بعد آپﷺ کی مبارک روح نے آپﷺ کے مبارک جسم کا ساتھ چھوڑ دیااور اس دنیا سے رخصت ہوگئی ۔
منگل کے دن آپﷺ کو حضرت علیؓ اور فضل بن عباسؓ نے غسل دیا۔اور تین سوتی چادروں میں آپﷺ کو کفنایا گیا پھر حضرت ابو بکرؓ کے بتانے پر آپﷺ کے لیے اسی حجرے میں قبر کھودی گئی۔
نماز جنازہ کے لیے پہلے مردوں کی جماعتیں باری باری نماز ادا کر کے حجرے سے باہر چلی جاتی تھیں ۔کیونکہ اس میں زیادہ آدمی جمع ہونے کی گنجائش نہ تھی ۔پھر عورتوں کی باری آئی اور جنازہ پڑھنے کا یہ سلسلہ لگاتار منگل اور بدھ وار کی درمیا نی رات تک جاری رہا۔جنازے کی اس نماز میں کوئی امام نہیں ہوتا تھا۔بلکہ لوگ خود ہی اپنی اپنی نماز پڑھ کر چلے جاتے تھے ۔
جب جنازہ پڑھنے کا سلسلہ ختم ہوا تو حضرت علی ؓ ‘فضل بن عباس ؓ ‘اسامہ بن زیدؓ اور اوسؓ بن خولی قبر مبارک میں اترے اور آپﷺ کامبارک جسم قبر میں رکھ کر دفن کر دیا۔
یہ حجرہ بہت مدت تک اسی حالت میں رہا پھر اس کا دروازہ بند کر دیاگیا۔
پھر ا س کے اردگرد ایک اور چار دیواری بنا کر اس پر چھت ڈال دی گئی اور مدتوں بعد موجودہ عمارت اور گنبد کی تعمیر کی گئی ہے ۔ان عمارات کے اندر حجرہ ابھی تک اپنی اصلی حالت میں موجود ہے ۔
یہ حجرہ اب دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل کی دھڑکن بن گیا ہے ۔اور دنیا کے کونے کونے سے مسلمان ا س کی زیار ت کے لیے مدینہ شریف جاتے ہیں۔ اسی روضے میں آپ کے دور فیق ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی دفن ہیں ۔
پیارے بچو !اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و مدد گار ہو اور پیارے نبیﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے آقا حضورﷺ کی زندگی
۱۔ چہرہ مبارک: آپ ﷺ کا چہرہ مبارک چودہویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا۔اور آپ ﷺ سب سے زیادہ خوب صورت تھے۔
۲۔ خوشبو: آپ کے بدن مبارک اور پسینے سے خوشبو آتی رہتی تھی اور جو شخص آپﷺ سے مصافحہ کرتا تو اس شخص کو تمام دن اپنے ہاتھ میں خوشبو محسوس ہوتی تھی۔
۳۔ اخلاق: آپﷺبہترین اخلاق کے سب سے اونچے درجے پر تھے۔اور آپﷺ لوگوں کو دنیا میں اخلاق سکھلانے کے لیے تشریف لائے تھے۔
۴۔ حلیمی اور بردباری : آپﷺ بہت مہربان، نرم دل اور کثرت سے معاف فرمانے والے تھے۔ آپﷺ نے اپنی حیات مبارک میں کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا تھا۔
۵۔ صبر : آپﷺ کو دشمنوں نے بہت تنگ کیا تھامگر آپ صبر کرتے رہے اور آپﷺ تو صبر کا پہاڑ تھے۔
۶۔ وعدے کی پابندی : آپ سے بڑھ کر کوئی وعدے کا پابند نہ تھا۔ آپﷺ نے دشمنوں سے کیے ہوئے وعدے بھی پورے کیے۔
۷۔ بہادری: آپﷺ تمام جنگوں میں مشکل ترین لمحات میں بھی اپنی جگہ پر چٹان کی مانند تشریف فرما رہے ۔
۸۔ سخاوت : آپ ﷺ بے حد سخی تھے بلکہ قرض لے کر بھی محتاجوں کی مدد فرمایا کرتے تھے اور کوئی مال و دولت وغیرہ اپنے گھر میں نہیں رکھتے تھے۔بلکہ ہر چیز خیرات کر دیتے تھے۔
۹۔ قناعت اور توکل : آپ ﷺ ہر چیز خیرات کر دیتے تھے اور دوسرے دن کے لیے کسی چیز کا ذخیرہ بنا کر نہیں رکھتے تھے ۔
۱۰۔ دیانت اور امانت : دشمن بھی اپنی امانتیں آپﷺ کے پا س رکھوایا کرتے تھے کیونکہ آپ ﷺ بے حد دیانت دار تھے ۔
۱۱۔ تواضح اور عاجزی : آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے، ’’ مسلمانو! میری تعریف حد سے زیادہ نہ کرو۔ ‘‘ آپﷺ کو فخرو غرور ہر گز پسند نہ تھا۔
۱۲۔ نرمی اور شفقت : آپﷺ ہر کسی سے محبت و پیارکا سلوک کرتے تھے۔ بچوں کے ساتھ آپﷺ کا پیار تو بہت مشہور ہے ۔
۱۳۔ پرہیز گاری : آپﷺ دعا فرمایا کرتے تھے، ’’ اے اللہ مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں ہی دنیا سے اٹھا ۔اور مسکینوں کے گروہ میں میرا حشر فرما۔‘‘
۱۴۔ اللہ کا خوف : آپﷺ سارا دن اللہ کے خوف سے بے چین رہا کرتے تھے۔
۱۵۔ نرم دل : کسی دکھ والی بات کو سن کر یا دیکھ کر آپﷺ کی آنکھوں میں آنسو آجایا کرتے تھے ۔
۱۶۔ رحم دلی: آپ ﷺ حد سے زیادہ رحم دل تھے اور دشمنوں سے بھی نیک سلوک کیا کرتے تھے ۔
۱۷۔ چال اور نشست : آپﷺ چلتے تو نیچی نگاہ زمین کی طرف رکھتے ۔لوگوں کے ساتھ چلتے تو سب سے پیچھے ہوتے کوئی سامنے آتا تو پہلے آپ ہی سلام کرتے ۔عاجزانہ صورت سے بیٹھتے ۔غریبوں مسکینوں کی طرح بیٹھ کر کھانا کھاتے ۔
۱۸۔ حسن سلوک : آپ ﷺ زبان مبارک سے وہی بات فرماتے جس میں ثواب ملے ۔کوئی پر دیسی آتا تو اس کی خبر گیری کرتے ۔ہر شخص کے ساتھ ایسا برتاؤکرتے جس سے ہر شخص کو یہی محسوس ہو تا کہ حضور ﷺ کو میرے ساتھ سب سے زیادہ محبت ہے۔ اگر کوئی شخص بات کرنے بیٹھ جایاتو جب تک وہ نہ اٹھے آپﷺ بھی نہ اٹھتے تھے۔
۱۹۔ گھریلو زندگی : آپﷺ جب گھر میں تشریف رکھتے تو گھر کے کاموں میں مصروف رہتے ۔خالی اور بے کار کبھی نہ بیٹھتے تھے۔ معمولی معمولی کام بھی خود انجام دے لیتے تھے۔مثلاًگھر کی صفائی ‘ مویشی کو چارہ دینا ‘اونٹ اور بکری کا انتظام فرمانااور بکری کا دودھ نکالنا، خادم کے ساتھ مل کر کام کر لیا کرتے تھے ۔ آٹا گندھوا دیتے تھے ۔بازار سے خود سودا خریدنے جاتے تھے اور کپڑے میں باندھ کے لے آتے ۔ اپنا جوتا خود گانٹھ لیتے ۔ اپنے کپڑے میں خود پیوند لگاتے ۔
۲۰۔ نیند: سوتے وقت یہ دعا پڑھتے تھے ۔ترجمہ، ’’اے اللہ میں تیرا نام لے کر مرتااور جیتا ہوں ۔‘‘
جاگنے کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے ،’’سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے ہمیں مار کر زندگی بخشی اور ہم کو اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے ۔‘‘
سونے سے پہلے مبارک آنکھوں میں سرمہ لگاتے ‘مسواک کرتے، وضو کرتے اور پھر سوتے تھے ۔
۲۱۔ کھانا : کھانے سے پہلے ہاتھ دھوتے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر کھانا شروع کر دیتے۔ اور کھانا کھانے کے بعد یہ دعا پڑھتے ۔ترجمہ، ’’سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں کھلایااور پہنایا اور مسلمان بنایا۔‘‘
۲۲۔ لباس: آپ سادہ ‘صاف اور عموماًسفید لباس پہنتے تھے اور سبز رنگ کا لباس بھی آپ کو بہت پسند تھا۔خوشبو استعمال فرماتے تھے۔ مبارک داڑھی اور سر کے بالوں میں تیل لگاتے اور کنگھی کرتے تھے۔ ناخن زیادہ نہیں بڑھنے دیتے تھے ۔
۲۴۔ مسکرانا: منہ کھول کر نہیں ہنستے تھے بلکہ تبسم فرماتے تھے ۔یعنی مسکرایا کرتے تھے ۔
۲۴۔ مزاح : اپنے دوستوں سے ہلکا پھلکا اور پاکیزہ مذاق بھی فرماتے تھے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے آقا حضورﷺ نے فرمایا
پیارے بچو ! گزشتہ صفحات میں ہم نے آپ کو اپنے آقا حضور کی زندگی کے متعلق چند ضروری باتیں بتائی ہیں تا کہ آپ بھی ان پر عمل کر کے ثواب اور برکت حاصل کریں ۔اسی باب میں ہم آپ کو اپنے آقا حضورﷺ کے چند احکام بتاتے ہیں تا کہ آپ ان پر عمل کر کے دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کریں ۔یاد رکھیے! جس نے آقا حضورﷺ کی باتوں کو مانااور ان پرعمل کیا،وہی آدمی کامیاب، نیک اور خوش نصیب ہے اور جو نا فرمان رہا وہی بد نصیب ہے ۔
۱۔ایک اللہ سے ڈرو اور اس کاحکم مانو ۔
۲۔ ماں باپ کی نافرمانی نہ کرو۔
۳۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ۔
۴۔ فرض نماز کبھی نہ چھوڑو۔
۵۔ہر گناہ سے بچو۔
۶۔اپنی زبان کو قابو میں رکھو اور جھوٹ نہ بولو‘ غیبت اور چغلی نہ کرو ۔گالی نہ دو۔
۷۔ صفائی اختیار کروا ور مسواک کثرت سے کرو۔
۸۔ہر وقت اللہ کو یا د رکھو۔
۹ ۔ کثرت سے دعا ئیں مانگو۔
۱۰۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی رضاماں باپ کی رضا میں اور اللہ کا غصہ ماں با پ کے غصے میں پوشیدہ ہے ۔
۱۱۔ ماں باپ کا نافرمان آدمی جنت میں نہ جائے گا ۔
۱۲۔ مان باپ کے مرنے کے بعد ان کے لیے دعا کرتے رہو۔
۱۳۔ بھائی ‘بہنوں اور رشتے داروں کاحق ادا کرو۔
۱۴۔ اللہ اس پر رحم نہیں کرتا جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا ۔
۱۵۔ حلال روزی کما کر کھاؤ۔
عزیز بچو ! اللہ پاک آ پ کو آقا حضور کی محبت عطافرمائے اور ان کے احکام کی تابع داری کرنے کی توفیق دے ۔آپ نے جو کچھ پڑھا اسے دوسروں تک بھی پہنچائیں تا کہ وہ بچے بھی فائدہ اٹھاسکیں ۔اللہ پاک آپ کا حامی و ناصر ہو اور دنیااور آخرت میں کامیابی عطا فرمائے ۔(آمین )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top