ہم اور ہماری عید
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
کلاس روم کا منظر جس کے طلباء ایک معلوماتی مقابلے میں شریک ہیں۔
۔۔۔۔۔
اُردو کے ٹیچر،ہاشمی صاحب کلاس روم میں داخل ہوئے تو تمام لڑکے تعظیم کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ہاشمی صاحب نے اشارے سے سب کو بیٹھنے کے لیے کہا اور خود بھی کرسی پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے پوری کلاس پر نظر ڈالی اور بولے:
”ہاں بھئی، آج رمضان المبارک کی تیس تاریخ ہے، برکتوں والا یہ مہینہ اب رخصت ہو رہا ہے۔ اس کا آخری عشرہ یعنی آخری دس دن تو بہت اہم ہوتے ہیں، کیونکہ ان دس دنوں میں ہی ہمیں شب قدر کو تلاش کرنا ہوتا ہے۔ آپ لوگوں نے روزے، تو پورے رکھے نا؟“
”جی ہاں…“ تمام لڑکوں نے کورس میں جواب دیا۔
”شاباش، اچھا بھئی، عید کے موقعے پر میں آپ لوگوں کو ایک تحفہ دینا چاہتا ہوں لیکن میں یہ تحفہ یوں ہی نہیں دوں گا، اس کے لیے باقاعدہ مقابلہ ہو گا۔“
”کس چیز کا سر؟ جوڈو کراٹے کا؟“ جمیل نے جو بہت شریر تھا، جھٹ سے پو چھا۔
”نہیں نہیں،جسمانی لڑائی نہیں بلکہ ذہنی لڑائی کا مقابلہ، ہم ایسا کرتے ہیں کہ آج ایک مقابلہ معلومات رکھ لیتے ہیں۔ یہ مقابلہ دو گروپس کے درمیان ہوگا۔ گر وپ اے میں میرے دائیں ہاتھ والی بنچوں کے لڑکے ہوں گے اور گروپ بی میں،میرے بائیں ہاتھ والی بنچوں کے لڑکے شامل ہوں گے۔ ٹھیک ہے؟ میں سوال کروں گا۔ ہر سوال کے پانچ نمبر ہوں گے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سارے سوالات عیدکے بارے میں ہوں گے۔“
”اور سر تحفہ کیا ہے؟“ رشید نے بے چینی سے پوچھا۔
”وہی بتارہا ہوں، جو گروپ مقابلہ جیت لے گا وہ اس کپ کا حق دار ہو گا۔“ ہاشمی صاحب نے اپنا بیگ کھولا اور اس میں سے ایک چمکتا ہوا کپ نکال کر میز پر رکھ دیا۔ لڑکے سنبھل کر بیٹھ گئے۔
”اچھا بھئی، گروپ اے سے سوال، بتائیے عید الفطر کب سے منائی جارہی ہے؟“
نسیم نے ہاتھ بلند کیا۔”سر یہ حضرت آدم ؑکے زمانے سے منائی جارہی ہے۔“
”غلط… اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ہجرت کے بعد سے منائی جارہی ہے۔ جب حضور اکرم ﷺ ہجرت فرما کر مکہ سے مدینہ منورہ پہنچے تو آپﷺ نے دیکھا کہ مدینہ منورہ کے لوگوں نے سال میں دو دن مقرر کیے ہوئے ہیں۔ جن میں وہ کھیل تفریح کرتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں۔ آپﷺ نے دریافت کیا کہ یہ دو دن کیسے ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ ہم اسلام سے پہلے ان دنوں میں تفریح کرتے اور خوشیاں مناتے تھے۔ حضور ﷺنے فرمایا:
’اللہ نے ان دو دنوں کے بدلے،ان سے بہتر دو دن مقرر فرمائے ہیں۔ ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحی۔‘اب بی گروپ سے سوال، بتائیے نمازِ عید کب سے ادا کی جار ہی ہے؟“
مہتاب نے ہاتھ بلند کیا اور اجازت ملنے پر بولا۔”سر! دو ہجری میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تھے، ان کے بعد یکم شوال کو پہلی بار عید کی نماز باجماعت ادا کی گئی۔“
”بالکل ٹھیک، شاباش۔ گروپ بی کے پانچ نمبر ہو گئے۔مانیٹر! ذرا بلیک بورڈ پر یہ نمبر لکھ دینا۔“ مانیٹر نے اٹھ کر نمبر لکھ دیے۔
ہاشمی صاحب نے چشمہ اتار کر میز پر رکھتے ہوئے کہا۔”گروپ اے سے سوال، بتائیے عیدالفطرکیوں منائی جاتی ہے؟“
کلاس کا سب سے صحت مند لڑکا جمال اُٹھ کھڑا ہوا اور بولا۔”سر ایک تو یہ کہ رمضان المبارک میں قرآن پاک نازل ہوا، دوسرے یہ کہ مسلمان اس ماہ میں روزے رکھتے ہیں، تراویح پڑھتے ہیں اور اللہ کی عبادت زیادہ سے زیادہ کرتے ہیں تو اس خوشی میں عید مناتے ہیں۔“
”بالکل ٹھیک اور اس سے دنیا بھر کے مسلمانوں میں اتحاد کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے۔“ ہاشمی صاحب نے جمال کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا،”گروپ اے کے بھی پانچ نمبر لکھیں بھئی… اور مانیٹر اب تم درست جواب آنے پر لکھتے رہنا۔ گروپ بی سے سوال۔”بتائیے صدقہ فطر یا فطرہ کیا ہوتا ہے۔ آپ بتائیے ضمیر، آپ بڑی دیر سے ہاتھ اٹھار ہے ہیں؟
ضمیر اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور بولا۔”سر ہر مسلمان مرد اور عورت کو عید کے دن فجر سے پہلے پہلے کچھ رقم غریبوں کو دینی ہوتی ہے۔ یہ فطرہ کہلاتا ہے۔“
”کتنی رقم؟“
”سر یہ تو صحیح پتا نہیں۔“
”خیر، چلئے میں آپ کا جواب درست مانے لیتا ہوں۔ دراصل فقہا نے تقریباً دو سیر گیہوں یا اس کی قیمت دینے کے لیے کہا ہے۔ یہ اس لیے عید سے پہلے دیا جاتا ہے کہ کوئی غریب اگر عید کی تیاری نہ کر سکا ہو، نیا لباس نہ بنو اسکا ہو تو وہ بھی عید کی کچھ تیاری کرلے اور اُسے بھی خوشی ہو، بہت سے لوگ عید کی نماز کے بعد فطرہ ادا کرتے ہیں، یہ درست نہیں ہے۔ اچھا بھئی گروپ اے بتائیے، وہ کون سے کام ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن فر ما یا کرتے تھے۔ کوئی سے پانچ بتا دیں؟“
”جی سر مجھے معلوم ہے۔“ احتشام نے جلدی سے کہا۔”غسل کرنا، مسواک کرنا، اچھے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا اور… اور عیدگاہ میں بہت جلدی پہنچنا۔“
”واہ بھئی احتشام آپ کی تو یادداشت بہت اچھی ہے۔ اب گروپ بی مزید ایسے کام بتائیے جو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے روز انجام دیا کرتے تھے۔“
نوشاد کھڑا ہو گیا اور کھنکار کر گلا صاف کرنے کے بعد بولا۔”سر عید گاہ جانے سے پہلے فطرہ ادا کر دینا،عید گاہ جانے سے پہلے سویاں کھانا،عید کی نماز عید گاہ میں پڑھنا اور سر ایک راستے سے پیدل عید گاہ جانااور دوسرے راستے سے واپس آنا۔“
”بالکل درست ہے، اس میں ایک بات واضح کر دوں، نوشاد نے بتایا کہ عید گاہ جانے سے پہلے سویاں کھانا سنت ہے، تو اصل بات یہ ہے کہ کوئی سی بھی میٹھی چیز کھانا سنت ہے، سویوں کی پابندی نہیں ہے۔ اب گروپ اے کی باری ہے، بتائیے عید کی نماز کی اذان، نماز سے کتنی دیر پہلے ہوتی ہے؟“
”سر ایک گھنٹہ پہلے۔“ نسیم نے کہا۔
”جی نہیں عید کی نماز کی اذان نہیں ہوتی۔ گروپ بی بتائیے عید کی نماز میں کتنی زائد تکبیریں ہوتی ہیں۔“
”سرچھ ہوتی ہیں۔“ مہتاب نے بتایا۔
”درست ہے، اب گروپ اے والے جواب دیں، کیا عید کے دن روزہ رکھا جا سکتا ہے؟“
”نہیں سر، عید کے دن روزہ رکھنا کون پسند کرے گا۔“ جمال نے برا سا منہ بناکر کہا۔
”جواب تو درست ہے لیکن یہ پسند نا پسند کی بات نہیں، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عید کے دن روزہ رکھنے سے خود منع فرمایا ہے۔ اچھا بھئی گروپ بی ذرا یہ بتائیے کہ اگر کسی وجہ سے آپ کو عید کے دن عید گاہ پہنچنے میں دیر ہوگئی اور آپ جب عید گاہ پہنچے تو نمازی گلے مل رہے تھے تو کیا آپ گھر جا کر اکیلے عید کی نماز ادا کر سکتے ہیں؟“
”جی ہاں سرکیوں نہیں۔“ دبلے پتلے فیروز نے کہا۔”میں نے خود پچھلے سال گھر آکر نماز پڑھی تھی۔“
”جی نہیں فیروز صاحب، آپ نے غلطی کی۔ آپ کے گھر والوں کو چاہیے کہ آپ کو صحیح بات بتاتے۔ عید کی نماز ادا کرنے کے لیے جماعت شرط ہے…ہاں بھئی ذرا بورڈ کی پوزیشن دیکھیں۔ ہم نے دونوں گروپوں سے پانچ پانچ سوال کیے۔ گروپ اے نے تین سوالوں کے درست جواب دیے، اس طرح اسے پندرہ نمبر ملے۔ گروپ بی کے چار جواب درست تھے، اس طرح اُس نے بیس نمبر حاصل کر کے آج کا کپ جیت لیا ہے۔ گروپ بی کو یہ کامیابی مبارک ہو۔ خیر اس طرح کی ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے، پھر کبھی کوئی مقابلہ کروائیں گے، اس میں گروپ اے والے ذرا تگڑی تیاری کر کے آئیں۔ تو ممکن ہے مید ان ان ہی کے ہاتھ ر ہے۔ اچھا بھئی۔“ ہاشمی صاحب نے چشمہ اُٹھا کر پہن لیا۔
”آپ سب کو عید کی پیشگی مبارک باد، ان شاء اللہ عید کی چھٹیوں کے بعد ملاقات ہوگی۔“
اسی وقت چھٹی کی گھنٹی بج گئی۔