skip to Main Content
ہم ایک ہیں

ہم ایک ہیں

جب چار بھائیوں نے اپنی ذہانت سے ایک ہونے کا ثبوت دیا

کردار:
سیٹھ۔: ایک چالاک دکاندار
کلو: سیٹھ کا ملازم
حلیم، کلیم، جمال، کمال: سائیں عبداﷲ کے بیٹے

پہلا منظر

 

(سیٹھ کی دکان)
(سیٹھ کسی خیال میں کھویا ہوا اپنی دکان میں بیٹھا ہے، سوچتے سوچتے سر اٹھا کر اس طرح چٹکی بجاتا ہے جیسے کوئی اچھی سی ترکیب ذہن میں آئی ہو۔ پھر ملازم کو آواز دیتا ہے۔)

 
سیٹھ۔: ’’کلو، اوکلو!‘‘

 
کلو: (دکان کے دروازے سے اٹھ کر آتا ہے) ’’جی سرکار۔‘‘

 
سیٹھ: ’’دیکھ، حلیم کے گھر جا کر کہنا، سیٹھ صاحب ملنے آئیں گے۔‘‘

 
کلو: ’’وہی سائیں عبداﷲ کے بیٹے نا؟ ‘‘

 
سیٹھ: ’’ہاں ہاں وہی، اب تو شاید وہاں کئی بار جانا پڑے۔‘‘

 
کلو: ’’ہاں سرکار ضرور جائیں، پڑوسیوں کا بھی حق ہوتا ہے۔ آپ اُن کے باپ کے جنازے میں بھی نہیں گئے تھے۔ جناب! وہ غریبوں کا بڑاخیال رکھنے والے تھے۔‘‘

 
سیٹھ: ’’بس بس، میرے سامنے اس بڈھے کی تعریف مت کر۔ بڈھا بہت چالاک تھا۔ زمین خریدلی۔ باغ خرید لیے۔ شہر میں کارخانہ لگا لیا، پھر میرے مقابلے میں دکان کھول لی۔ خیر اب دیکھ لوں گا میں۔‘‘

 
کلو: ’’سرکار! وہ مر گئے۔ اب اُن کی کیا برائی کرنا۔‘‘

 
سیٹھ: ’’بس جو میں کہہ رہا ہوں وہ کر‘‘ (کلو چلا جاتا ہے)

دوسرا منظر

(حلیم اور کلو، سائیں عبداﷲ کی اوطاق میں بیٹھے ہیں، سیٹھ داخل ہوتا ہے)

 
سیٹھ: ’’آداب عرض کرتا ہوں، حلیم صاحب!‘‘

 
حلیم اور کلیم: ’’آداب عرض، تشریف لائیے۔ آپ تو کبھی بھولے سے بھی ہمیں نہیں پوچھتے۔ آج کیسے زحمت فرمائی؟‘‘

 
سیٹھ: ’’بھئی میں آپ سے معذرت چاہنے آیا ہوں کہ آپ کے والد کے جنازے میں شریک نہیں ہوسکا۔ اس دن دراصل مجھے بہت تیز بخار تھا۔ بلکہ بخار تو اسی دن آگیا تھا جس دن میں سائیں سے اسپتال میں مل کر آیا تھا۔ پھر دو ہی دن بعد تو ان کا انتقال ہوگیا۔‘‘

 
حلیم: ’’اچھا! آپ دو روز قبل ملے تھے والد صاحب سے!‘‘

 
سیٹھ: ’’وہ تو جب انہوں نے جمال اور کمال کو وصیت کرنی شروع کی تھی تبھی میں سمجھ گیا تھا کہ اب ان کا چل چلاؤ ہے۔‘‘

 
حلیم: ’’اچھا! آپ کے سامنے خوب باتیں کررہے تھے؟‘‘

 
سیٹھ: ’’باتیں! انہوں نے تو اس اٹیچی کو بھی خود ہی کھولا تھا جس میں دس ہزار اشرفیاں رکھی تھیں اور میرے ہی سامنے دونوں کو ہدایت کی تھی کہ چاروں بھائی برابر برابر بانٹ لینا۔‘‘

 
حلیم: (کلیم کی طرف دیکھتے ہوئے) ’’ایسی کسی رقم کا ذکر تو ان دونوں نے ہم سے نہیں کیا۔‘‘

 
سیٹھ: ’’بھئی! معاف کرنا۔ میں بھی کیا نادان ہوں، خواہ مخواہ آپ کے خاندانی معاملات کا ذکر لے بیٹھا۔‘‘

 
حلیم: ’’دراصل والد صاحب نے زندگی ہی میں ہم میں سے ہر ایک کو الگ الگ حصہ دے دیا تھا۔ مجھے باغ دلوا دیا تھا۔ انہیں زمین دلا دی تھی۔ جمال کو برف کا کارخانہ لگوا دیا تھا اور کمال کو ادویہ کی دکان کرادی تھی۔ اسی وقت سے وہ دونوں شہر میں رہتے ہیں اور ہم لوگ یہاں۔ ان اشرفیوں کا مرحوم نے کبھی ذکر تک نہیں کیا۔‘‘

 
سیٹھ: ’’میاں تم بزرگوں کو نہیں جانتے، وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ رقم چھپا کر رکھتے ہیں تاکہ اخیر عمر میں اولاد کی محتاجی نہ ہو۔‘‘

 
کلیم: ’’بھائی صاحب! آپ کو یاد ہوگا، ابا جان مرحوم ہمیشہ ایک اٹیچی اپنے پاس رکھتے تھے۔‘‘

 
حلیم: ’’اُس میں تو اُن کے وظائف وغیرہ کی کتابیں رہتی تھیں، مگر ممکن ہے یہ رقم بھی اُسی میں ہو۔‘‘

 
کلیم: (سیٹھ سے) ’’ایک چھوٹی سی سیاہ رنگ کی اٹیچی تھی نا؟‘‘

 
سیٹھ: ’’ہاں، کچھ ایسی ہی تھی مگر میں ناحق یہ بات زبان پر لایا، مجھے معلوم ہوتا کہ یہ بات کھلی نہیں ہے تو میں ہر گز اسے زبان پر نہ لاتا، میرے لیے تو تم چاروں برابر ہو۔‘‘

 
کلیم: ’’بھائی صاحب! معاملہ ابھی تازہ ہے کل ہی شہر چل کر دونوں سے بات کرنی چاہیے۔ وہ تو مطمئن ہوں گے کہ ہمیں اس رقم کا علم ہی نہیں۔ بس صبح ہی چلیے۔‘‘

 

تیسرا منظر

(حلیم، کلیم، جمال اور کمال بیٹھے تیز تیز گفتگو کررہے ہیں)

 
جمال: معاف کیجیے حلیم بھائی، ہم اس چکر میں آنے والے نہیں ہیں۔ ہمیں پہلے ہی معلوم ہو گیا تھا کہ آپ دیگچی والی رقم ہضم کرنے کے لیے یہ اشرفیوں کا ڈراما رچائیں گے۔‘‘

 
حلیم: ’’دیگچی کیسی؟‘‘

 
کمال: ’’جی ہاں! آپ کو دیگچی کا حال کیا معلوم ، وہ تو ہماری گھڑونچی کے نیچے چھپی ہوئی تھی نا؟ بہتر یہ ہے کہ آپ دیگچی والی رقم میں سے نصف ہم دونوں کے حوالے کر دیں۔‘‘

 
کلیم: ’’میاں! ہوش کی دوا کرو۔ یہ کیا اتنی دیر سے دیگچی دیگچی کی رَٹ لگا رکھی ہے۔ سیدھی طرح اُن اشرفیوں کا حساب کرو جو اباجان مرحوم نے اسپتال میں تمہارے حوالے کی تھیں۔‘‘

 
جمال: ’’وہ آپ کو دی ہوں گی۔ ہمیں ان کا کوئی علم نہیں۔‘‘

 
حلیم: ’’جی نہیں، آپ ہی کو نہیں، ہمیں بھی خوب علم ہے۔ ہمیں یہ بات ایک ایسے معتبر شخص نے بتائی ہے جو اشرفیاں دیتے وقت خود وہاں موجود تھا۔‘‘

 
کمال: ’’مجھ سے پوچھیے وہ معتبر آدمی کون تھا! وہ شیطان تھا جس نے آپ کو دیگچی والی رقم ہضم کرنے کے لیے اشرفیوں کا الزام لگانے کی ترکیب بتائی ہے۔ آپ سمجھتے ہیں ہم لوگ شہر میں بے خبر بیٹھے ہیں۔ اﷲ کا شکر ہے گاؤں میں ہمارے کچھ ہمدرد موجود ہیں، جنہوں نے زمین میں گڑی ہوئی دیگچی نکلنے کی ساری کیفیت ہمیں لکھ بھیجی۔‘‘

 
حلیم: (اس طرح سر ہلاتا ہے گویا بات سمجھ میں آگئی ہے) ’’الحمد ﷲ میں سارا معاملہ سمجھ گیا۔‘‘

 
کلیم: ’’کیا معاملہ سمجھ گئے۔‘‘

 
کمال: (ڈانٹ کر بات کاٹتے ہوئے) ’’بات سنو! جمال تمہیں وہ پرچہ کلو دے گیا تھا نا؟‘‘

 
جمال: ’’میں اس بارے میں کچھ نہیں بتا سکتا مجھے اﷲ کی قسم دلائی گئی ہے۔‘‘

 
حلیم: ’’بھس میں چنگی ڈال جما لو دُور کھڑی، وہ تو ہمیں بھی دلائی گئی ہے۔ لیکن میں نام لیے بغیر بتا تا ہوں کہ جس نے تمہیں دیگچی والی غلط بات لکھی ہے اسی نے ہمیں بتایا تھا کہ ابا جان مرحوم نے تم لوگوں کو ہم چاروں کے لیے اشرفیاں دی تھیں۔‘‘

 
کلیم: ’’لاحول ولاقوۃ! وہ شخص اس قدر فریبی ہے!‘‘

 
کمال: ’’آپ پوری بات کہیے۔‘‘

 
حلیم: ’’ہاں ہاں پوری بات کہہ رہا ہوں۔ وہ شخص جس روز تعزیت کے بہانے ہمیں بہکانے آیا تھا، اسی روز عصر کے وقت اس کا ملازم مجھے بس اسٹاپ پر ملا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ جمال میاں کو تعزیتی پرچہ دینے جا رہا ہوں۔‘‘

 
کلیم: ’’یہی تو میں کہتا تھا کہ جو شخص ابا جان کی زندگی میں کبھی ان سے نہ ملا ہو، ان کے جنازے تک میں شریک نہ ہوا ہو، اسے ہم دونوں سے ایک دم ایسی ہمدردی کیوں کر ہوگئی!‘‘

 
جمال: ’’حلیم بھائی! آپ نے بالکل بجا فرمایا، ایک ہی شخص ہے جس نے ہمیں اور آپ کو بہکایا ہے۔ اﷲ کا شکر ہے کہ اس کا منصوبہ ناکام ہوگیا۔‘‘

 
(اچانک سیٹھ اندر داخل ہوتا ہے)

 
جمال: ’’تشریف لائیے!‘‘

 
سیٹھ: (گھبرا کر چاروں کو دیکھتے ہی) ’’معاف کیجیے میں پھر آؤں گا۔ ‘‘(جانے کے لیے مڑتا ہے)

 
حلیم:’’ سیٹھ صاحب! سنیے تو، ارے ایسی بھی کیا جلدی، آپ تو رک ہی نہیں رہے۔ اچھا چلتے چلتے ایک بات تو سنتے جائیے۔ ایک مختصر سی بات۔‘‘

 
سیٹھ: (دروازے پر رُک کر)’’ کیا؟‘‘

 
حلیم:’’ یہ کہ ہم ایک ہیں‘‘(سیٹھ گھبرا کر دوسرے بھائیوں کو دیکھتا ہے)

 
کلیم، جمال اور کمال: ہاں ہم ایک ہیں۔ (سیٹھ تیزی سے کمرے سے نکل جاتا ہے)

 

(پردہ گرتا ہے۔۔۔)
*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top