skip to Main Content
حادثے کے بعد

حادثے کے بعد

حماد ظہیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرا نام فراز ہے اور میں چھٹیاں گزارنے کراچی آیا ہوں۔ پہلے میں کراچی ہی میں اپنے چچا کے گھر رہتا تھا پھر جب کمال صاحب یہاں آئے تو مجھ پر ترس کھا کر اپنے ساتھ لاہور لے گئے اور جہاں وہ خود کام کرتے تھے، وہیں مجھے بھی ملازمت دلا دی۔
کمال صاحب چچا کے دوست ہیں اور چچا جان ہمارے محسن۔ جب بچپن ہی میں ہمارے ماں باپ کا انتقال ایک حادثہ میں ہو گیا تھا تو انہوں نے ہی میری اور شہزاد کی پرورش کی۔ شہزاد میرا جڑواں بھائی ہے۔ ہم دونوں کی شکلیں تو ایک سی ہیں لیکن مزاج میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ چچا چچی کے علاوہ گھر میں ان کا بیٹا دانیال اور بیٹی مائرہ رہتے ہیں۔
چچا اپنے محدود وسائل کے باوجود کبھی ہماری پڑھائی میں رکاوٹ نہیں بنے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ آخر کی جماعتوں میں مجھے ان کا صرف اخلاقی تعاون ہی حاصل تھا، فیس مجھے خود سے ٹیوشن پڑھا کر دینی ہوتی۔ اخلاقی تعاون بھی ایک طرح سے غنیمت تھا کیونکہ چچی کا دباؤ تھا کہ ہمیں کسی کام دھندے سے لگایا جائے تاکہ آمدنی میں کچھ اضافہ ہو۔
چچی کی بات آدھی پوری ہوگئی۔ میں تو نہیں البتہ شہزاد کام پر لگ گیا۔ اس لیے نہیں کہ اسے چچی کا اور گھر کے خرچوں کا بڑا خیال تھا بلکہ اس لیے کہ وہ پڑھائی سے کوسوں دور بھاگتا تھا۔ چچی کو تو بس ایک ہی بندے کا خیال تھا، دانیال کا۔ جو کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا تھا۔ بے جا لاڈ پیار نے اسے ضدی اور بدتمیز بنا دیا تھا۔ موٹا وہ پہلے ہی تھا، دماغ پر بھی کافی چربی چڑھی تھی۔ مائرہ اس کی چھوٹی بہن ہے۔ وہ دانیال کی الٹ ہے، بس یہی اس کی تعریف کے لیے کافی ہے۔
’’میں یہاں نہیں رہ سکتا بھائی جان! آپ خود تو مزے سے لاہور چلے گئے اور مجھے یہاں مصیبت میں چھوڑ دیا۔‘‘ شہزاد بلبلا کر بولا۔
وہ میرا جڑواں بھائی تھا۔ ہم دونوں کی عمریں برابر تھیں۔ پھر بھی وہ مجھے بھائی جان کہا کرتا۔ شاید اس لیے کہ میں سنجیدہ زیادہ تھا یا پھر شاید اس لیے کہ وہ ہر ذمہ داری کے کام میں مجھے آگے کرکے خود پیچھے ہٹنا چاہتا تھا۔
’’ارے ارے! تمہیں کیا پتا! آفس کا کتنا مشکل مشکل کام کرنا پڑتا ہے۔ دماغ سوکھ جاتا ہے اکاؤنٹس دیکھتے دیکھتے، کبھی کبھی تو شام دیر تک بھی بیٹھ کر سر کھپانا پڑتا ہے۔‘‘ میں نے جلدی جلدی بتایا۔
’’اور وہ جو تم کہہ رہے تھے کہ ٹھنڈے اے سی والے کمرے میں بیٹھتے ہو، گدی والی سیٹ ہوتی ہے بڑی سی میز ہے، ہر گھنٹے بعد چاے ملتی ہے؟‘‘ اس نے یاد دہانی کرائی۔
’’بڑی سی میز اس لیے ہے کہ اس میں بڑی بڑی فائلیں رکھی ہوتی ہیں۔ جن سب پر مجھے اکیلے کام کرنا ہوتا ہے اور چاے سے میں کوئی مزہ نہیں لے پاتا۔ اس سے تو صرف گھومتا ہوا دماغ تھوڑی دیر کے لیے درست ہوتا ہے۔‘‘ میں نے توجیہہ کی۔
’’اور وہ جو صاف ستھرا بڑا سا گھر ہے۔ جس میں روشن دان ہیں۔ پھول اور کیاریاں ہیں؟‘‘
’’وہاں دو آفت کے پرکالے بچے بھی ہیں جو میرا ناک میں دم کیے رہتے ہیں!‘‘
یہ میں نے کمال صاحب کے بچوں کا ذکر کیا تھا۔ جویریہ اور عمار۔ آفت کے پرکالے میں غلط کہہ گیا۔ وہ آفتوں کے پرکالے تھے۔
’’بھلا یہ بھی کوئی مسئلہ ہے۔ اصل تو چچی، دانیال اور مائرہ کو بھگتنا ہے۔‘‘ شہزاد نے منھ بنایا۔
’’ہائیں ہائیں۔ یہ مائرہ بے چاری نے ایسا کیا کردیا۔‘‘
مائرہ میری بے حد چہیتی بہن تھی۔ اس کے خلاف مجھے ایک لفظ بھی سننا گوارا نہ تھا۔
’’ہر وقت ٹسوے بہاتی رہتی ہے کہ فراز بھائی تو میرا یہ کام کردیتے تھے۔ فراز بھائی تو مجھے وہاں لے جاتے تھے۔ مجھے فلاں فلاں مضامین پڑھا دیا کرتے تھے۔ میرا ہوم ورک کرا دیا کرتے تھے وغیرہ وغیرہ۔‘‘ شہزاد نے نقل اتاری۔
’’تو میرے جانے کے بعد تم بھی اس کے بڑے ہو۔ ایک آدھ کام اگر کر دو گے بہن کا تو گھس نہیں جاؤگے۔‘‘ میں جل کر بولا۔
’’ نابابا۔۔۔ میں نے تو صاف منع کر دیا کہ خبردار میرے سامنے اس طرح کی کوئی بات کی۔ ایسا ڈانٹا ہے کہ اب جرأت نہیں کرے گی۔‘‘
’’اتنی ہی ہمت ہے تو چچی اور دانیال کو دکھاؤ، معصوم بچی کو کیوں ڈانٹ دیا؟‘‘ میں چراغ پا ہوگیا۔
’’تم ہی نے رٹ لگائی ہوئی تھی کہ محسن ہیں، محسن ہیں، ورنہ کب کا گھر بار چھوڑ کر بھاگ گیا ہوتا، خیر اس بار تو تمہارے ساتھ ہی جاؤں گا۔ کچھ بھی کرلو۔‘‘ وہ اٹل لہجے میں بولا۔
’’تمہیں ٹکٹ کوئی نہیں دلانے والا؟‘‘ میں نے خبردار کیا۔
’’اس کا انتظام میں خود کر لوں گا اور تمہاری ہی ٹرین کے کسی اور ڈبے میں چڑھ جاؤں گا۔‘‘وہ پاؤں پٹختا ہوا چل دیا۔
میں شہزاد کو سمجھانا چاہتا تھا لیکن اس کا وقت نہیں تھا۔ مجھے واپس لاہور جانا تھا۔ بچپن سے میں جس گھر میں پلا بڑھا تھا۔ میرے لیے وہ چھوڑ کر جانا اتنا تکلیف دہ نہیں ہوتا تھا جتنا مائرہ کے آنسو ہوتے تھے۔ چچی کو اس کی پڑھائی پیسوں کا ضیاع لگتی تھی۔ دانیال اس پر ایسے حکم چلاتا تھا جیسے وہ اس کی نوکرانی ہو۔ شہزاد کی طبیعت میں بھی شفقت کچھ کم ہی تھی۔ چچا زیادہ تر گھر سے باہر ہوتے تھے اور اگر ہوتے بھی تو سوتے تھے۔ لے دے کر صرف میں تھا جو اس کے بھائی جان کے فرائض نبھا رہا تھا یا شاید اس کی علم دوستی تھی جسے میں بجھنے نہ دینا چاہتا تھا۔ ان چیزوں سے دامن چھڑا کر بڑی مشکل سے میں گھر سے نکلنے میں کامیاب ہوا۔
چچا آج گئے نہیں تھے۔ اس لیے کہ انہیں مجھے ساتھ لے کر ریلوے اسٹیشن جانا تھا۔ شہزاد کا خیال تھا کہ یہ میری نہیں بلکہ اس نوکری کی محبت تھی جو مجھے ملی تھی اور جس کی بدولت کل کو وہ بھی مجھ سے فیض یاب ہوتے تھے۔ انہوں نے مجھے رکشے میں ریلوے اسٹیشن چھوڑا اور ڈبے میں سیٹ تلاش کرکے مجھے بٹھا کر واپس ہوئے۔ میں منتظر ہی رہا کہ وہ مجھ سے کوئی بات کریں۔ کچھ مانگیں یا کوئی وعدہ لیں مگر وہ چپ ہی رہے۔
میں نے خود ہی کہا: ’’چچا! میں تھوڑا سا قدم جما لوں، پھر ان شاء اﷲ ہم سب کے دن پھریں گے۔‘‘ انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور واپس اترگئے۔

*۔۔۔*

’’میرے بچے کا حادثہ ہو گیا ہے، خدا کے لیے میری کچھ مدد کرو۔ میں نے فوراً اپنے گاؤں پہنچنا ہے، میرا جوان بیٹا بستر مرگ پر ہے، میری جیب خالی ہے، خدا کے لیے۔‘‘
’’ یہ فقیر لوگ بھی کس قدر تخلیق کار ہیں۔ ہر جگہ موقع اور محل کے حساب سے اپنی پریشانی بناتے ہیں۔‘‘ میں نے دل ہی دل میں داد دی۔ وہ منگتا لوگوں سے فریاد کرتا میرے قریب آگیا۔ میں نے اپنی جیب وغیرہ سمیٹ لی، مبادا کہ کہانی سننے میں میں اپنے کسی اثاثہ سے محروم نہ ہوجاؤں۔ اثاثہ تو چھوٹا لفظ تھا۔ اس شخص کو دیکھتے ہی میں اپنے ہوش و حواس ہی کھو بیٹھا۔

*۔۔۔*

 شہزاد کی سنیے۔۔۔

بھائی جان کے ساتھ عارضی لاڈ پیار دیکھ کر میرا خون کھول گیا۔ چچی نے دروازے تک آکر رخصت کیا۔ روٹی باندھ کر دی۔ چچا رکشہ لے کر آئے اور اسے لے کر اسٹیشن روانہ ہوگئے۔ بات یہ نہیں تھی کہ مجھے بھائی جان سے حسد تھا۔ اصل بات تو یہ تھی کہ یہ سب ان کی نوکری اور اس سے آنے والے پیسے کے لیے تھا۔ اگر خون کے رشتہ کی بات ہوتی تو میرا بھی وہی رتبہ ہوتا۔ چلو وہ نہیں تو انیس بیس کا فرق ہوتا مگر یہاں تو زمین آسمان کا فرق تھا۔ مجھے ہر وقت گھر سے طعنے ہی سننے کو ملتے۔ ایک یا دو وقت کی روٹی بھی بھیک کی طرح ملتی۔ حالانکہ میں بھی گھر کی کمائی میں حصہ دار تھا۔ ہر طرح کے اونچے نیچے کام کیے میں نے۔ کبھی کسی الیکٹریشن کے ساتھ لگا رہا تو کبھی پلمبر کے ساتھ۔ کبھی مکینک کی دکان پر کام کیا تو کبھی دھوبی کی دکان پر استری کی۔ لوگوں کے جوتے تک پالش کیے، مگر چچی نے پھر بھی ہمیشہ یہی کہا کہ یہ کام چور ہے۔ کام میں دل نہیں لگاتا۔
میرا چچی سے ایک ہی سوال تھا کہ اگر میں کام چور ہوں تو پھر دانیال کیا ہے؟ اسکول بھی وہ کبھی کبھی جاتا ہے مگر ایک چیز میں وہ ہمیشہ وہاں کامیاب رہا۔ باقاعدگی سے فیل ہونے میں۔ گھر میں اس کے دو ہی کام تھے۔ ایک کھانا اور دوسرا مستقل موٹا ہوتے رہنا۔ اس کا وقت بھی انتہائی قیمتی تھا یعنی ہر وقت سونے کا وقت تھا۔ 
اسکول تو محض نام کا تھا۔ دراصل تو وہ یونی ورسٹی کا طالب علم تھا جہاں اس کی استانی اس کی اماں تھیں۔ جن سے وہ جلی کٹی باتیں کرنے اور طعنے کوسنے دینے میں پی ایچ ڈی کررہا تھا۔
یہ سارے جوابات تو میرے اپنے تھے۔ چچی کے خیال میں تو وہ ابھی ’’بچہ‘‘ تھا۔ بہرحال میرے لیے گھر کی شکل تک دیکھنا دشوار تھا۔ میں فارغ بھی ہوتا تو ادھر ادھر وقت گزاری کرلیتا۔ بالکل ہی مجبور ہو کر رات کو گھر جاتا جہاں کھانے سے زیادہ سننے کو ملتا۔ میرا بس نہیں چلتا تھا کہ کس طرح یہاں سے کہیں دور بھاگ جاؤں۔
بھائی جان سے ساتھ لے جانے کا کہا تو انہوں نے حسب توقع صاف منع کردیا۔ وہ تو ہمیشہ کے ڈرپوک ہیں۔ کچھ نیا کرنے میں ہمیشہ ان کی جان نکلتی ہے۔ چاہتے تو کسی بھی بہانے سے مجھے لاہور لے جاتے۔ وہاں جا کر بھی کچھ نہ کچھ تو کہہ ہی سکتے تھے اور پھر میں نے وہاں کون سا گھر بیٹھ کر دانیال کی طرح روٹیاں توڑنی تھیں۔ ہزار طرح کے کام آتے تھے۔ کوئی نہ کوئی کر ہی لیتا مگر بھائی جان!
وہ تو سمجھ رہے تھے کہ میں لاہور جانے کے لیے ٹکٹ کا محتاج ہوں اور چونکہ کوئی بھی ٹکٹ دلانے والا نہیں ہے لہٰذا میں لاہور نہیں جانے والا۔ میں نے تو جانے کہاں کہاں سے پیسے جمع کر لیے اور اب میں ہوائی جہاز سے بھی لاہور جا سکتا تھا۔
اپنا کچھ خاص سامان میں نے رات ہی ایک جگہ باندھ لیا تھا۔ چچی کو جاتے جاتے ایک جھٹکا دینا چاہتا تھا۔ لہٰذا ایک آدھ اور حرکت بھی کر ڈالی اور صبح بظاہر کام پر جانے کے لیے نکلا لیکن اسٹیشن جانے کی پوری تیاری کرلی۔
لیکن چچا کو بھی بھائی جان کے ساتھ جاتا دیکھ کر میری عقل نے مجھے مشورہ دیا کہ ریلوے اسٹیشن پر مڈبھیڑ ہوگئی تو سب کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔ لہٰذا اپنا رخ بس اسٹینڈ کی جانب موڑ دیا۔ لاہور کا ٹکٹ کٹایا اور محو سفر ہوگیا۔ بھائی جان ہوتے تو آدھا سفر اس افسوس میں گزار دیتے کہ گھر سے بھاگ کر جا رہا ہوں اور باقی آدھا اس سوچ میں کہ وہاں جا کر کیا کرنا ہے اور کیا ہوگا لیکن میں موقع پر ہی فیصلہ کرنے والوں میں سے تھا۔ لہٰذا میں نے راستے بھر نظاروں کا لطف اٹھایا۔ مجھے خوشی تھی کہ آنے والی جگہ چاہے جیسی بھی کیوں نہ ہو۔ چچا کے گھر سے ضرور بہتر ہوگی۔
جگہ تو شاید اچھی ہی آتی۔ مگر خبر اندوہ ناک آئی۔ بس اڈہ ہی پر اخبار والے کو چلاتے سنا کہ لاہور آنے والی ٹرین کو حادثہ پیش آگیا ہے اور کئی لوگ ہلاک ہو گئے ہیں۔
میں ہر واقعہ کے لیے تیار تھا لیکن اس کے لیے نہیں۔ میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ یہ دعا کرتا ہوا کہ بھائی جان بچ گئے ہوں۔ ریلوے اسٹیشن کی طرف دوڑا جہاں معلوماتی سینٹر قائم کیا گیا تھا، کچھ ہلاک شدگان کی تصدیق ہوگئی تھی لیکن زیادہ تر ابھی گم نام تھے۔ حادثے کے بعد لگ جانے والی آگ نے بہت کچھ ختم کر دیا تھا۔ ریلوے والوں نے کہا۔ زندہ بچ جانے والوں اور زخمیوں کے ناموں کی لسٹ جاری کر دی۔ پہلے میں نے خود ڈھونڈا لیکن میری حالت ٹھیک نہیں تھی پھر میں نے دوسروں سے بھی ڈھونڈوا لیا مگر بھائی جان کا نام نہ بچنے والوں میں تھا نہ زخمیوں میں۔
میرا سر چکرا رہا تھا اور میں گرنے کے قریب تھا۔ یا پھر شاید میں چکرا کر گر ہی رہا تھا کہ کسی کے بازوؤں نے مجھے تھام لیا۔
’’ تم نے اپنا نام بچ جانے والوں میں کیوں نہیں لکھوایا؟‘‘ وہ شخص بولا۔ بات میرے سر کے کافی اوپر سے نکل گئی۔میں نے اسے دیکھنے کی کوشش کی مگر منظر دھندلا رہا تھا۔
’’فراز! تم ٹھیک تو ہو؟‘‘ بے ہوش ہونے سے پہلے جو آخری جملہ میں نے سنا وہ یہ تھا۔

*۔۔۔*

میں ٹھیک نہیں تھا۔ میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی تھی۔ منگتا کوئی اور نہیں بلکہ میرا استاد تھا۔ جس نے مجھے بچپن میں کئی سبق پڑھائے تھے۔ آج اسے اس حال میں دیکھ کر میرا رواں رواں کانپ گیا تھا۔
’’استاد جی! میں فراز۔۔۔ یہ رہا آپ کا ٹکٹ اور اس میں کچھ رقم ہے۔‘‘
میں نے ایک ہاتھ سے انہیں ٹکٹ پکڑایا اور دوسرے سے اپنی نقدی اور ان کے شکریہ کے الفاظ اور آنسوؤں کے بوجھ سے بچنے کے لیے جلدی سے اپنا سامان اٹھا کر چل دیا۔
میں دوسری طرف سے نکلا تاکہ چچا نہ ٹکرا جائیں ورنہ وہ ابھی واپس ٹرین میں لے جا کر میرا ٹکٹ اور پیسے استاد جی سے لے کر میرے حوالے کرتے اور کھری کھری الگ سناتے۔ لیکن کیا اس طرح گھر واپس جانے سے وہ چین سے بیٹھ جائیں گے؟ یہ میں نے نہیں سوچا تھا۔ میں ان سے ادھار لے کر لاہور چلا جاؤں گا اور پھر وہاں جا کر چکا دوں گا! میں نے سوچا۔
انہی سوچوں میں غلطاں و پیچاں میں سست روی سے چلا جا رہا تھا کہ مجھے تین غنڈوں نے آلیا۔ نیا نویلا مسافر سمجھ کر انہوں نے مجھے لوٹنے کی کوشش کی مگر میں تو نرا کنگلا نکلا۔ طیش میں آکر انہوں نے میرا سامان لے لیا اور قمیص تک اتار لی۔ یہی نہیں بلکہ اپنا غصہ میرے اوپر لاتوں اور گھونسوں کی شکل میں نکال کر میرا حلیہ ہی بالکل بگاڑ دیا۔ آتے ہوئے میں ساز و سامان اور پیسوں کے ساتھ رکشے میں آیا تھا۔ اب میں لٹا پٹا پیدل گھر جارہا تھا۔
محلہ میں داخل ہی ہوا تھا کہ کالو حلوائی نے صدا لگائی: ’’او شہزادے! کس کو پیٹ کر آرہا ہے۔ جلدی گھر چلے جا، تیرا چاچا سمجھ رہا ہے تو چوری کرکے بھاگا ہے۔‘‘ شاید میری پٹائی زیادہ ہوگئی تھی۔ اس لیے دماغ کام نہیں کررہا تھا۔ سمجھ ہی نہ آیا کہ یہ کالو نے کیا کہا ہے اور وہ تو مجھ سے کبھی اس لہجہ میں بات نہیں کرتا تھا۔ میں اس کے قریب ہوگیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’او شہزاد پتر! تیرے گھر والے سمجھ رہے ہیں کہ تو فراز باؤ کے پیچھے گھر سے پیسے چرا کر لاہور چلا گیا ہے۔ جلدی گھر جا ورنہ تیری چاچی تو پولیس میں رپورٹ کرا دے گی تیری۔‘‘ کالو ہنس رہا تھا جبکہ میں اس کی بات ہضم کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ سر پر ایک زوردار چپت لگی۔ مڑ کر دیکھا تو چچا جان تھے۔
’’چلو گھر!‘‘ انہوں نے بس اتنا ہی کہا۔
میں دل ہی دل میں سیاق و سباق بناتے ہوئے خاموشی سے ان کے پیچھے چلا جا رہا تھا۔ استاد جی والے واقعہ پر کافی ڈانٹ ڈپٹ کی توقع تھی۔ چچی نے بھی ایک ہنگامہ کھڑا کردینا تھا۔
’’یا تو صرف لٹیروں کی بات بتاؤں؟‘‘ میں نے سوچا لیکن لٹیرے بھلا ٹرین میں کہاں سے آگئے اور ٹکٹ کیوں لیتے۔
’’پکڑا گیا ناں چور۔۔۔ بڑا آیا لاہور بھاگے گا، بھائی کے پیچھے، چل نکال میرے سارے پیسے؟‘‘ چچی کی نفرت بھری آواز آئی۔ میں ہونقوں کی طرح انہیں تکے جارہا تھا۔ بھلا میں نے ان سے کب پیسے لیے؟
’’چلو شہزاد، واپس کرو چچی کے پیسے، کیوں ایسی حرکت کرتے ہو کہ خاندان کی عزت اچھلے، فراز کو دیکھو پڑھ لکھ کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے گیا ہے۔‘‘ چچا نے کہا تو مجھے کالو حلوائی کی بات کچھ کچھ سمجھ آئی۔
مار کھانے کے بعد میرا حلیہ بگڑ گیا تھا۔ سب سمجھ رہے تھے کہ میں لاہور چلا گیا ہوں لہٰذا مجھے شہزاد سمجھا جا رہا تھا اور شہزاد شاید واقعی پیسے چرا کر ٹرین کے کسی ڈبے میں سوار ہو چکا تھا۔
’’ارے دے گا کہاں سے؟ حلیہ نہیں دیکھ رہے شہزادے سلامت کا۔ کسی جوئے میں سب کچھ ہار کر لڑبھڑ کر آرہا ہے۔ ہاے میرے پیسے۔ ہاے تمہارا آوارہ خاندان!‘‘ چچی نے الٹا چچا کے اور دراصل ہمارے خاندان کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا۔
فی الوقت صورت حال بہت خراب تھی۔ چچا جواب طلب نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ اگر میں اپنی حقیقت بتاتا ہوں تو دوہری بے عزتی ہوگی۔ ایک تو اپنے اس طرح واپس آجانے کی اور دوسری شہزاد کی چوری اور بھاگ جانے کی بات کی تصدیق ہوجانے کی۔ میں نے فی الموقع شہزاد بننے کا فیصلہ کرلیا۔
’’میں نے کوئی چوری نہیں کی۔ مجھے ایک بہت ضروری کام پڑ گیا تھا۔ اس لیے میں نے لیے ہیں پیسے اور جلد ہی واپس کر دوں گا!‘‘ میں نے اپنی عادت کے برخلاف اور شہزاد کے بمطابق تیز لہجے میں کہا۔
’’دیکھو ذرا دیکھو! ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری، دو دن کھانا بند کر دوں گی نا تو سب عقل ٹھکانے آجائے گی۔‘‘
چچی نے کہا تو مجھے ایک دھچکا لگا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ شہزاد کے ساتھ اس قسم کا برتاؤ برتا جاتا ہے۔ جب ہی تو وہ یہاں سے بھاگ گیا۔ مجھے کچھ کچھ احساس ہوا۔
’’آپ کے ہاتھ میں نہیں ہے میرا رزق۔ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ آپ نہیں دو گی تو وہ اس سے بہتر دے گا اور جتنا میں کماتا ہوں ۔ ہوٹل سے بھی کھاؤں تو اس سے اچھا مل جائے گا۔‘‘ میں بھی بدتمیزی پر اتر آیا۔
’’تو پھر رہو بھی جا کر ہوٹل میں۔ ذرا کرایہ معلوم کر لینا کتنا ہے ایک دن کا۔ اس گھر کو تو مفت کا ہوٹل بنایا ہوا ہے۔‘‘ چچی سے ہلکی پھلکی جھڑپ تو چلتی رہتی تھی لیکن ان کا یہ روپ میں آج پہلی مرتبہ دیکھ رہا تھا۔
’’بند کرو یہ لڑائی جھگڑا۔ شہزاد! تمہیں ایسا کیا ضروری کام پڑ گیا تھا؟‘‘ چچا نے مداخلت کی۔
’’چلو اب یہ بھی سوچنا پڑے گا۔‘‘ میں نے خود سے کہا۔
’’وہ کام پورا ہوا ہوتا تو بتاتا نا۔ اس سے پہلے ہی ڈاکوؤں نے لوٹ لیا۔‘‘ میں نے جھوٹ میں سچ ملایا۔
’’ڈاکو بھلا تجھے کیسے لوٹ سکتے ہیں۔ سب تو تیرے یار دوست ہیں۔‘‘چچی نے لقمہ دیا۔
’’کہاں ہوا یہ واقعہ؟‘‘ چچا نے پوچھا۔
’’اس۔۔۔ س۔۔۔اسٹیڈیم کے پاس!‘‘
’’اسٹیشن بولو نا۔۔۔ بات کیوں بدل دی۔ اجی میں بتاتی ہوں ضروری کام۔ ٹرین پر بیٹھ کر لاہور جانا چاہتا تھا بھائی کے پیچھے۔ یہاں چچا کی کمائی پر گزارا نہیں ہو رہا۔ بھائی کی کمائی پر عیش کرنے جا رہا تھا۔‘‘ چچی نے واقعی زہر اگلنے میں ڈبل ڈگری لی ہوگی۔ میں پاؤں پٹختا ہوا اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔
کچھ ہی دیر میں دروازہ پر بڑبڑاہٹ ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ مائرہ آئی تھی۔ اس کے ہاتھ میں روئی اور ٹنکچر تھا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ بری طرح گھبرا گئی اور تیزی سے واپس مڑ گئی۔ اب مجھے خیال آیا کہ میں شہزاد تھا۔ ورنہ فراز ہوتا تو وہ میری مرہم پٹی کیے بغیر نہ جاتی۔
اگلے ہی دن گھر میں ایک ہنگامہ مچا ہوا تھا۔ خبر آئی تھی کہ لاہور کے قریب ٹرین کو حادثہ پیش آگیا ہے اور کئی افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔ چچا معلوماتی کیمپ جارہے تھے۔ میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ مائرہ نے رو رو کر اپنا برا حال کر لیا تھا۔ مجھ سے دیکھا نہ جا رہا تھا اور ایک لمحہ کو میں نے سوچا کہ میں اس کو اپنی حقیقت بتا دوں، مگر اس کا وقت نہ تھا۔ کیمپ میں زخمی اور زندہ بچنے والوں کی لسٹ موجود تھی۔ چچا فرازکا نام ڈھونڈ رہے تھے جبکہ میں شہزاد کا۔ دونوں ہی ناکام رہے۔ چچا بالکل ساکت ہوگئے۔ میں نے ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ میرے لیے رو بھی سکتے ہیں، لیکن کتنی عجیب بات تھی کہ جس کے لیے وہ رو رہے تھے۔وہ ان کی آنکھوں کے سامنے کھڑا تھا۔

*۔۔۔*

ایسا لگا کہ کسی نے مجھے اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا ہو۔ میں نے پٹ سے آنکھیں کھولیں اور ہڑبڑا کر اردگرد دیکھا۔ مجھے سمندر میں نہیں بلکہ سمندر کو مجھ پر انڈیلا گیا تھا۔ میں بستر پر تھا اور پانی میں نہایا ہوا۔
سب سے پہلے مجھے جو نظر آیا وہ دو دانت تھے جو کسی خرگوش کے دانت کی طرح منھ سے باہر آرہے۔ وہ ایک بچی تھی جس کی آنکھوں سے شرارت اور ہاتھوں سے پانی ٹپک رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک جگ تھا۔ جو ابھی ابھی مجھ پر انڈیلا گیا تھا۔ پانی یخ تھا لیکن پھر بھی میرا خون کھول گیا۔ میں ایک دم اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’پاپا۔۔۔ میں نے ٹھیک کر دیافراز بھائی کو۔ اب ڈاکٹر کو بلانے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ وہ چلائی۔
’’تم نے کیوں صحیح کر دیا۔ میں اپنی مشین میں سیل ڈال رہا تھا، مجھے صحیح کرنا تھا۔‘‘ میں نے دیکھاوہ ایک لڑکا تھا۔
میں سارا غصہ پانی بھول گیا اور حیرت سے گھر کو تکنے لگا۔ صاف ستھری دیواریں، بڑی بڑی کھڑکیاں، ہوادار اور روشن ماحول۔ فرش پر موزائیک، اعلا فرنیچر اور آ۔۔۔ آ۔۔۔ آہ!‘‘
میری چیخ نکل گئی۔ اس لڑکے نے میری پیٹھ پر کوئی چیز بڑی زور سے چبھو دی تھی۔ میں نے کراہ کر دیکھا تو وہ کھلونا ڈرل مشین تھی مگر پھر بھی کم از کم انسانوں میں سوراخ کرنے کی نہیں تھی۔ میں نے وہ اس کے ہاتھ سے جھپٹ لی تو اس نے شور مچانا شروع کر دیا۔
’’پاپا، دیکھیں فراز بھائی نے میری ڈرل مشین چھین لی۔‘‘ پاپا دوسرے کمرے سے برآمد ہوئے تو میں نے انہیں پہچان لیا۔ وہ کمال صاحب تھے۔
’’اب کیا حال ہے فراز بیٹے؟‘‘ انہوں نے شفقت سے پوچھا۔
’’ٹھیک!‘‘ کہہ تو دیا لیکن میری دماغی حالت قطعاً ٹھیک نہیں تھی۔ بھائی جان کی موت۔ میرا گھر سے بھاگنا وغیرہ سب باتیں ایک دم ذہن کے پردے پر آگئیں۔ سمجھ نہ آیا کہ انہیں کیسے سب کچھ بتاؤں۔
’’جویریہ کی بچی، تمیز نہیں ہے تمہیں بھائی کے اوپر ٹھنڈا پانی الٹ دیا اور وہ بھی پورا جگ۔ چہرہ پر چند چھینٹے مار دیتی تو اس سے بھی کام ہوجاتا۔ میں نے دیکھا پیچھے سے ایک خاتون اس بچی کو ڈانٹتی ہوئی آرہی تھیں جس کے دانت خرگوش جیسے تھے۔
’’ہاں ہاں! میں نے تو کہا تھا کہ چہرہ پر چند طمانچے مار دو، یہ ٹھیک ہوجائیں گے، مگر اس نے سنی ہی نہیں۔‘‘ اس لڑکے نے بھی اپنی بہن کو قصوروار ٹھہرایا۔ یہ یقیناًعمار ہو گا۔ بھائی جان نے بتایا تھا ان بچوں کے متعلق۔
’’بے چارہ سفر کرکے تھکا ماندہ آرہا ہے اور آپ لوگوں نے اسے تفتیش کے لیے گھیر لیا۔ ذرا دم تو لے لینے دیں۔ چلو فراز بیٹا۔ فریش ہولو۔ پھر کھانا کھا کر آرام کر لو۔ کمال صاحب کی بیگم نے کہا جن کو بھائی جان آنٹی کہتے تھے۔ میں نے سوچا کہ یہ وقت تفصیلات کے لیے مناسب نہیں کھانا وغیرہ کھا کر پھر ساری تفصیل بتاؤں گا۔ سب لوگ ایک طرف کو چل دیے۔ میں بھی آہستہ آہستہ ان کے پیچھے ہولیا۔
’’ارے بیٹا! آپ یہاں کہاں آرہے ہو، اپنے کمرے میں جاؤ۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ ہاں۔‘‘ میں نے سر پر ہاتھ مارا جیسے بالکل بھول ہی گیا تھا اور پھر واپس مڑگیا۔ میں نے سوچا دوسری طرف میرا ہی کمرا ہوگا۔ لیکن وہاں تو کئی دروازے نظر آئے۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ اب کس میں جاؤں۔ بالآخر یہ فیصلہ کیا کہ ایک ایک کرکے سب ہی دیکھ لیتا ہوں، جہاں دل ٹھہرا وہیں ڈیرہ ڈال دوں گا۔
پہلا دروازہ کھولا تو اندر بہت سی کتابیں وغیرہ نظر آئیں، یہی ہو گا بھائی جان کا کمرہ، میں نے سوچا، مگر اندر جا کر دیکھا تو صرف میز اور کرسیاں وغیرہ ہی تھیں، بستر نہ تھا۔
’’اتنا اچھا قالین بچھا ہے، شاید بغیر بستر ہی کے سوجاتے ہوں۔‘‘ میں نے سوچا۔ لیکن دوسرے کمرے بھی دیکھ لینے چاہیے، آخر اتنے سارے کمروں میں ہے کیا؟ دوسرا کمرہ عجیب وغریب کھلونوں سے بھرا تھا۔ بھالو بلیاں اتنی تھیں کہ ایک جنگل کا سا سماں معلوم ہوتا تھا۔
’’میں تو شاید یہاں رہ سکتا تھا لیکن بھائی جان نہیں۔‘‘
اگلا کمرہ دیکھا تو وہ تھوڑا چھوٹا تھا اور مختلف انواع و اقسام کے سامان سے بھرا پڑا تھا۔ مجھے اس قسم کے سامان سے عشق تھا، لیکن میں وہاں سو نہیں سکتا تھا، کیونکہ وہ اسٹور تھا۔
آخر کار ایک بیڈ روم نما کمرہ ملا، جس میں بھائی جان کی کچھ چیزیں بھی نظر آئیں، میرے آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ عمر میں میرے برابر تھے، مگر ہمیشہ میں نے انہیں بڑوں کا درجہ دیا تھا اور اکثر اوقات وہ اپنا بڑا پن نبھاتے بھی تھے۔
میں حقیقت حال سنانے کی تیاری کے لیے ذہن میں تمہید باندھتا ہوا غسل خانے میں گھسا تو سب الفاظ پھسل گئے۔ شیشہ کی طرح چمکتا فرش، بڑا سا باتھ ٹب اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔ یہ یقینی بات تھی کہ اگر ہمارے کراچی کے گھر میں ایسا غسل خانہ ہوتا تو میں اپنے کمرے کے بجاے اس میں رہنا زیادہ پسند کرتا۔
ماحول میں ایسا کھویا تھا کہ حقیقت بتانے کی تیاری نہ کرسکا۔ سوچا کہ جو منہ میں آیا بول دوں گا۔۔۔ یا پھر تھوڑا اور ٹھہر کر بتادوں گا۔
اسی سوچ و بچار میں دروازہ کو ہاتھ لگایا ہی تھا کہ زور سے اچھل کر گرا۔ مجھے کرنٹ کا شدید جھٹکا لگا تھا۔ باہر سے عمار کے ہنسنے اور بھاگنے کی آواز آئی۔
اب کی مرتبہ میں سنبھلتے سنبھلتے نکلا اور پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے کھانے کی میز پر پہنچا۔ جہاں سب ہی لوگ موجود تھے۔ بخیریت پہنچنے پر میری جان میں جان آئی اور میں نے کرسی گھسیٹ کر بیٹھنا چاہا۔
کرسی کا کھینچنا تھا کہ میرے سامنے رکھی پلیٹ گلاس پیالہ اور چمچ کانٹے دھڑا دھڑ چھلانگ لگا لگا کر زمین میں گرنے لگے اور جو ٹوٹنے کی سکت رکھتے تھے، وہ یہ سعادت بھی حاصل کر گئے۔ میں بالکل بوکھلا گیا، سمجھ ہی نہ آیا کہ یہ سب کیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ کرسی میں کوئی مقناطیسی قوت ہو جس نے سب کو کھینچ ڈالا ہو۔ آنٹی کرسی سے اٹھ کر بھاگی بھاگی میری طرف آئیں، میں سجھ گیا کہ اتنا قیمتی ڈنر سیٹ خراب کرکے بڑا نقصان کر دیا ہے، اب تو میری خیر نہیں۔ وہ آتے ہی بولیں۔ ’’چوٹ تو نہیں لگی بیٹا، دور ہٹو یہاں سے کہیں کوئی کانچ نہ چبھ جائے۔‘‘
میں رونے کے موڈ میں تو پہلے ہی تھا، آنکھوں سے آنسو پٹ پٹ ٹپکنے لگے۔ آج تک اتنے پیار سے میں نے کوئی جملہ نہ سنا تھا۔ کوئی دور پرے کی آنٹی اتنے پیار سے بات کرسکتی ہیں تو ماں کتنا پیار کرتی ہوگی، تبھی تو اس کی محبت کی مثالیں خدا دیتا ہے۔ لیکن مجھے اس کا اندازہ آج ہی ہوا تھا۔
مجھے روتا دیکھ کر کمال صاحب بھی تسلیاں دیتے رہے، جویریہ اپنی شرارت کی کامیابی بھول کر مجھے ٹیڑھی آنکھوں سے دیکھنے لگی جبکہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ بھائی جان کو کھو دینے کے بعد اگر مجھے یہ ہنستا مسکراتا خاندان مل رہا ہے تو مجھے اپنی حقیقت بتا کر اسے کھونا نہیں چاہیے۔

*۔۔۔*

مائرہ کا رو رو کر برا حال تھا۔ چچا بھی گم صم تھے۔ چچی بولیں: ’’چلیے اب جانے بھی دیجئے۔ ہماری تو قسمت ہی خراب ہے۔ ایک امید بنی تھی کہ کوئی ڈھنگ سے کمائے گا تو زندگی میں کچھ آرام آئے گا، وہ بھی گئی۔‘‘
’اوہ۔۔۔ یعنی افسوس انہیں میرا نہیں بلکہ میری کمائی سے آنے والے آرام کے جانے کا تھا۔‘ میں نے سوچا۔
’’ اچھا ہوگیا۔ ہم جاہلوں کے خاندان میں نہ جانے کہاں سے آگیا تھا، پڑھا لکھا۔‘‘ دانیال بے غیرتوں کی طرح ہنسا۔ میرا خیال تھا کہ چچا کو فوراً آگے بڑھ کر اسے ایک زوردار طمانچہ رسید کرنا چاہیے، مگر ایسا نہ ہوا۔ میرا خون کھول اٹھا۔ میں نے تہیہ کر لیا کہ اس دانیال کے بچے کو کوئی نہ کوئی سبق ضرور سکھاؤں گا۔
’’او جاہلوں کے سردار! تمہاری تو خوش قسمتی تھی کہ ایک تو پڑھا لکھا مل گیا تھا۔ ورنہ تمہاری موجودگی میں تو شاید علم بھی گھر میں قدم رکھنے سے پہلے دس بار سوچتا۔‘‘ میں جل کر بولا۔
’’ارے خود کون سا پڑھ لیا جو اتنا اکڑ رہے ہو۔ پانچویں جماعت بھی جس طرح پاس کی تھی میں جانتی ہوں۔‘‘ چچی حقارت سے بولیں۔
’’جیسے بھی کی تھی، کی تو ایک ہی دفعہ میں تھی نا۔ اس کی طرح چھٹی میں چھ سال تو نہیں گذارے۔‘‘ میں نے دانیال پر طنز کیا۔
’’بس کرو یہ لڑائی جھگڑا۔ گھر میں موت ہو گئی ہے اور تم لوگوں کو لڑنے ہی سے فرصت نہیں۔‘‘ چچا جان نے بات ختم کرنے کی کوشش کی۔
’’آپ دانیال کو سمجھائیں نا، خوشی منا رہا ہے بھائی جان کی موت کی۔‘‘ میں نے انہی پر چڑھائی کی۔
’’اور یہ جو رو رو کر ادھ موئی ہوئی جا رہی ہے۔ یہ نظر نہیں آرہی تمہیں؟‘‘ چچی نے مائرہ کی طرف اشارہ کیا تو میرا کلیجا کٹ گیا۔
’’چل اٹھ۔۔۔ منھ ہاتھ دھو اور کل سے گھر کا کام سنبھالو۔ تجھے پڑھائی کرانے والا گیا۔‘‘ انہوں نے مائرہ کو حکم دیا۔
’’خبردار! ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ مائرہ اپنی پڑھائی جاری رکھے گی۔‘‘ میں بے ساختہ بولتا چلا گیا۔ سب مجھے حیرت سے تکنے لگے۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ کچھ غلط ہو گیا ہے۔ شہزاد کے اندر سے اصلی فراز نکل آیا ہے۔ میں نے جلدی سے بات بنائی۔ ’’اب بھائی جان نہیں ہیں تو ان کے مشن کو میں پورا کروں گا۔‘‘
’’بڑا آیا ان کے مشن کو پورا کرنے والا۔ اپنا اور اس کا فرق تو دیکھ۔‘‘ چچی نے کہا تو میں سوچنے لگا۔ اب وہ بتائیں گی کہ میں پانچ جماعتیں پاس، وہ بارہ سے بھی آگے پڑھنے والے، لیکن انہوں نے کہا۔ 
’’وہ آٹھ ہزار کمانے والا اور تو آٹھ سو۔ تیری سنے گا کون؟‘‘
’’ہاں ہاں زیادہ اکڑ دکھائی تو گھر سے باہر نکال دوں گا۔‘‘ دانیال نے بھی اکڑ کر کہا۔
’’چپ کرو دریائی گھوڑے۔ تم صرف اپنی چارپائی ہی سے اٹھ کر دکھا دو، گھر سے باہر میں خود چلا جاؤں گا اور ہاں۔ کل اگر مائرہ اسکول نہیں گئی تو انجام کے ذمہ دار آپ لوگ خود ہوں گے۔‘‘ میں سوچے سمجھے بغیر بول گیا۔
’’تم ہمیں دھمکی دے رہے ہو؟‘‘ چچا بولے۔
’’جی نہیں خوش خبری سنا رہا ہوں۔‘‘ میں پاؤں پٹختا ہوا اپنے کمرے میں چلاگیا۔

*۔۔۔*

وہ ایک پتلا سا دھاگا تھا۔ جو کرسی کے پائے سے لے کر اسی چھوٹے سے میز پوش تک باندھا گیا تھا جس پر میرے لیے برتن سجے تھے۔ ادھر میں نے کرسی کھینچی اور ادھر وہ میز پوش مع اپنے ساز و سامان کے زمین بوس ہوگیا۔ میں چاہتا تو سیدھی سیدھی شکایت لگا سکتا تھا اور بھائی جان ہوتے تو شاید یہی کرتے، بلکہ بھائی جان کو تو یہ دھاگا نظر ہی نہ آتا، لیکن میں فراز نہیں شہزاد تھا۔ میں نے اس کا دوسرا طریقہ سوچا۔
جویریہ نے جب دیکھا کہ میں نے دھاگا دیکھ لیا ہے تو وہ بھی جلدی سے دوڑی آئی اور بظاہر کانچ اٹھانے کے دھاگا کھولنے لگی۔ جیسے ہی کرسی سے دھاگا کھلا۔ میں نے اسے اسی کی کلائی میں گھما کر سختی سے باندھ دیا۔
’’ہاے اﷲ!‘‘ اس کی چیخ نکل گئی۔
’’کیا ہوا بیٹا؟‘‘ کمال صاحب نے پوچھا تو وہ بلبلا کر رہ گئی۔ میری شکایت لگاتی تو خود ہی پکڑی جاتی۔
’’کچھ نہیں۔‘‘ اس نے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔
’’اچھا تم لوگ ہٹو کانچ کے پاس سے، صفائی بعد میں ہوجائے گی، پہلے کھانا کھا لو۔ جویریہ تم کچن سے دوسرے برتن لے آؤ۔‘‘ آنٹی نے کہا۔
’’جی اچھا۔‘‘ جویریہ نے کہا اور کلائی کی گرہ کھولنے لگی، مگر ایک ہاتھ سے اسے کھولنا اتنا آسان نہ تھا۔ بالآخر اس نے میز پوش بھی اٹھایا اور اپنے آگے چھپاتے ہوئے کچن کو دوڑ گئی۔ بھائی جان خواہ مخواہ ہی ان بچوں سے پریشان تھے۔ میں تو انہیں چار روز میں ٹھیک کردوں گا۔ میں نے سوچا اور بیٹھ گیا۔
’’اور فراز بیٹے، کراچی جا کر میرا کام کیا یا بھول گئے؟‘‘ کمال صاحب مسکرا کر بولے۔ ابھی تک تو میں جویریہ اور عمار ہی کے حملوں کی زد میں تھا۔ اب یہ جملہ بھی کسی حملے سے کم نہ تھا۔ میں نے تھوک نگلا اور انہی کی طرح مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ہاں کیوں نہیں، بھلا آپ کا کام میں کیسے بھول سکتا تھا۔‘‘ میں نے ان کا بھروسہ جیتنے کے لیے کہہ تو دیا لیکن میرے اچھوں کو بھی نہیں پتا تھا کہ وہ کام کیا تھا۔ اب میں اس سوچ میں تھا کہ کیسے وہ کام انہی کے منھ سے اگلواؤں لیکن مجھے کچھ نہ کرنا پڑا۔ وہ خود ہی بولے: ’’تو چلو نکالو کتاب۔‘‘
’’ارے بچے کو کھانا تو کھا لینے دیں، بالکل پولیس والے بنتے جا رہے ہیں آپ تو۔‘‘ آنٹی میرے لیے کسی فرشتے سے کم نہیں تھیں۔ جویریہ برتن میرے آگے رکھنے لگی۔ سوچنے کے لیے چند لمحے اور مل گئے۔ نہ جانے یہ کتاب کیا بلا تھی۔ جس کی مجھے الف بے بھی نہیں معلوم تھی۔
’’مجھ سے پنگا لیکر آپ نے اچھا نہیں کیا۔ اب دیکھیں میں کیا کرتی ہوں۔‘‘ جویریہ نے اپنی کلائی سہلاتے ہوئے دھمکی دی۔
’’یہ کتاب کون سی تھی؟‘‘ میں نے الٹا اسی سے مدد لی۔ 
’’ارے بھلکڑ! وہی اکاؤنٹس کی کتاب جس کا آپ نام بھول گئے تھے۔‘‘ نام تو خیر اب پتا چل نہیں سکتا تھا۔ میں نے کتاب کو ضائع کرنا ہی مناسب سمجھا۔
’’وہ تو میرے سارے سامان کے ساتھ ٹرین ہی میں کہیں رہ گئی۔ مجھے کچھ ہوش ہی نہ تھا۔‘‘ میں نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
’’چلو کوئی بات نہیں۔‘‘ انکل بولے تو میں خوش ہو گیا کہ جان چھوٹی، مگر ان کا حملہ جاری تھا۔ 
’’اس کا نام تو دیکھ ہی لیا ہوگا تم نے، ہم یہیں سے خرید لیں گے۔‘‘
’’جی جی۔۔۔ نم۔۔۔ نام تو دیکھ ہی لیا تھا۔‘‘ میں بظاہر مسکراتے ہوئے اور اندر ہی اندر روتے ہوئے بولا۔
’’ مگر وہ اتنا مشکل تھا کہ مجھے یاد ہی نہیں ہوا۔‘‘ مجھے اچانک بہانہ سوجھا۔
’’کیا آپ فراز کو کھانا کھانے دیں گے یا اس کا کھانا کمرے میں بھجوانا پڑے گا؟‘‘ آنٹی ناراض ہو کر بولیں۔
’’کھانے کے ساتھ کچھ بادام بھی کھلائیے۔ شاید یاد ہی آجائے۔‘‘ انکل نے کہا تو سب ہی ہنس پڑے۔

*۔۔۔*

مسئلہ صرف یہ نہیں تھا کہ پیسوں کا انتظام کرنا تھا۔ بلکہ مسئلہ یہ بھی تھا کہ کتنے پیسوں کا انتظام کرنا تھا۔ یہ بھی نہیں پتا تھا۔ اب چونکہ میں قبول کرچکا تھا کہ میں نے ہی نکالے ہیں لہٰذا پوچھ بھی نہیں سکتا تھا۔ عجیب کشمکش کا شکار تھا۔ چچی نے خود ہی بات چھیڑ دی۔ ’’پیسے کب چکائے گا تو؟‘‘
’’تھوڑے سے تو ہیں، کیوں اتنی جان جارہی ہے!‘‘ میں نے نپا تلا جملہ بولا اور تاثرات بھانپنے لگا۔
’’تھوڑے سے؟ پورے چار یا پانچ ہزار تھے۔‘‘ چچی کی بات سے مجھے شبہ کی بو آئی۔ یقیناًکم ہوں گے، وہ حرصاً بڑھا کر بتا رہی تھیں۔
’’سوچ لیں، چالیس یا پچاس ہزار تو نہیں تھے؟‘‘ میں نے طنزاً کہا۔
’’تین تو تھے ہی تھے۔‘‘ 
میں دل ہی دل میں مسکرایا۔ پھر بولا۔ ’’چچا! کیا ہو سکتے ہیں ان کے پاس تین ہزار؟‘‘
چچا کو بھی اندازہ تھا۔ وہ خاموش رہے۔
’’ارے ایک ہزار تو آپ ہی نے دیے تھے نا مجھے، جس پر پان کا کتھا لگا تھا اور ایک میرے پاس پچھلے ماہ کا تھا۔‘‘ چچی نے انہیں یاد دلایا۔
’’بس دو ہی تھے، جو میں نے نکالے، جب جی ہوگا لوٹا دوں گا!‘‘ میں نے بات کاٹی۔ مبادا وہ یاد دلاتے دلاتے پانچ چھ تک پہنچ جائیں۔
وہ ناجانے کیا کیا بڑبڑاتی ہوئی باورچی خانے میں چلی گئیں۔ آج تو میں نے شہزاد ہونے کا خوب فائدہ اٹھایا ورنہ فراز ہوتا تو پورے پانچ ہزار بھر رہا ہوتا۔ مائرہ نے ایک ایک روٹی میرے اور چچا کے پاس رکھی۔ دانیال کی روٹی اس نے اس کو چارپائی ہی پر دی۔ ویسے تو یہ اس کے سونے کا وقت تھا لیکن کھانے کے وقت کسی اچھے خواب کی طرح جاگ کر گزار لیتا تھا۔ چچی نے اسے ایک روٹی اور لا کر دی تو میرا منھ بن گیا۔ چلو مجھے نہ دیتیں چچا جان کو دے دیتیں، کم از کم اس کاہل الوجود کو تو نہ دیتیں۔
میں نے دانت بھینچ کر اپنی جیب میں رکھے ہتھیار کو چیک کیا۔ یہ میں نے جویریہ سے ضبط کیا تھا جو کمال صاحب کی بیٹی تھی۔ یہ ایک کٹرتھا جو اسٹیشنری میں استعمال ہوتا تھا لیکن اس سے اس نے میری آستین والی قمیصوں کو آدھی آستین اور پینٹ کو کاٹ کر نیکر بنادیا تھا۔ میں غیر محسوس طریقے سے دانیال کی چارپائی کے قریب ہو گیا اور نظر بچا کر اس کی ایک رسی چھوڑ کر دوسری رسی کاٹتا چلا گیا۔ شاید مجھے یہ حرکت کبھی خواب میں بھی نہ سوجھتی، لیکن جس کا چاقو میرے پاس تھا۔ شاید اسی کا دماغ بھی آگیا تھا۔ دانیال کو میں نے باتوں میں لگا لیا۔
’’مجھے گھر سے نکالو گے، شکل دیکھی ہے کبھی، جب تک گھر کا دروازہ بڑا نہ کرا لیا جائے تم تو خود باہر نہیں نکل سکتے۔ قیدی ہو تم اب قیدی۔‘‘
’’تمہیں باہر نکالنے کے لیے مجھے باہر نہیں جانا پڑے گا، یہیں سے ایک کک ماروں گا، فٹ بال کی طرح جاؤ گے باہر۔‘‘ دانیال اپنے تئیں انتہائی مزاحیہ بات کرکے خود ہی ہنسنا شروع ہوگیا۔ میں نے موقع غنیمت جان کر اس کی ایک روٹی کھسکا دی۔ اب وہ میری جیب میں تھی۔
’’ہاں میرا تو واقعی مسئلہ نہیں، البتہ پریشان ہوں کہ تمہارا جنازہ لے جانے کی مصیبت تو ہمیں ہی بھگتنا پڑے گی، دیوار کے اوپر سے لے جانا پڑے گا، میرے خدایا! اٹھائے گا کون، کرین کو بلائے گا کون، میت گاڑی کے بجاے ٹرک کو لائے گا کون۔‘‘ میں نے نوحہ پڑھنا شروع کردیا۔
’’چپ کر بدتمیز، اول فول بکے جا رہا ہے۔‘‘ چچی نے اندر سے ہانک لگائی۔
میں نے شہزاد کا لبادا کیا اوڑھا، اپنے آپے سے باہر ہو گیا تھا۔ اپنی شخصیت کے لبادے میں جو کچھ نہ کر پاتا تھا۔ اب بے دھڑک کررہا تھا۔
’’ارے آگے تو سنیے۔ نہلائے گا کون۔ تھان کے تھان کفن کے لیے لائے گا کون، اور پھر دفنائے گا کون، سارے گورکن تو قبر کھودنے کے خوف سے گھر بھاگ گئے ہوں گے۔‘‘ میں کہتے کہتے اس سے کافی دور آگیا۔ اسی وقت اسے احساس ہوا کہ اس کی ایک روٹی غائب ہے۔
’’میری روٹی کہاں گئی؟‘‘
’’پیٹ ہی میں گئی ہوگی بے چاری۔‘‘ میں جھٹ بولا۔
’’نہیں میں نے نہیں کھائی۔‘‘ وہ روہانسا ہوگیا۔
’’باتوں باتوں میں تمہیں اندازہ ہی نہ ہوا۔‘‘ میں نے اس کی توند کی طرف اشارہ کیا تو وہ دونوں ہاتھوں سے توند ادھر ادھر کرکے ڈھونڈنے لگا۔
’’روٹی توند کے نیچے نہیں بلکہ توند کے اندر ہے۔‘‘ میں نے کہا تو وہ بری طرح چڑ گیا اور بیٹھے بیٹھے ہی چارپائی پر اچھل کر رونے کی اداکاری کرنے لگا۔
’’اسی نے لی ہے میری روٹی۔ چور ہے یہ چور۔ چور۔ چور۔ چور۔‘‘ اس نے شور مچانا شروع کر دیا۔
اندر سے چچی بھی بھنائی باہر نکل آئیں۔ چچا بھی اٹھ کر اس کی طرف بڑھے۔ مائرہ بھی دیکھ رہی تھی کہ ہو کیا رہا ہے۔ عین اسی وقت زوردار دھم کی آواز آئی۔ چارپائی ٹوٹ چکی تھی اور دانیال زمین بوس ہو چکا تھا۔ چچا چچی حیرت سے دیکھنے لگے۔ حالانکہ دانیال کے بعد کوئی بات اتنی حیران کن نہیں تھی، لیکن کافی دیر تک جب وہ ساکت رہے تو میں نے محسوس کیا وہ دانیال کو نہیں دیکھ رہے بلکہ اس چیز کو دیکھ رہے ہیں جسے خود دانیال بھی حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ میں بھی جلدی سے قریب ہوا اور پھر میری آنکھیں بھی پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

*۔۔۔*

میں ہر طرح کے حملہ سے نپٹنے کے لیے تیار تھا۔ دروازے کھڑکیاں بند کر لی تھیں اور بھی کمرے کی باقی چیزوں کو اچھی طرح چیک کر لیا تھا۔ مبادا کسی میں کرنٹ آرہا ہو، یا پھسل جائے یا گر جائے۔ میرے خیال میں ایسی صورت حال میں کسی بھی قسم کا حملہ ہونا محال تھا اور اگر ہوتا بھی تو میں اس سے ڈرنے والا نہ تھا۔ جب انکل کا مشکل حملہ سنبھال گیا تھا تو یہ جویریہ کیا چیز تھی۔
دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ میں اور زیادہ چوکنا ہو گیا۔ میں نے بغیر کسی چیز کو ہاتھ لگائے چابی کے سوراخ سے باہر جھانکا تو مجھے دو بچے کھڑے نظر آئے۔ لیکن وہ نہ جویریہ تھی اور نہ ہی عمار۔ مجھے ان کا آنا سمجھ نہ آیا۔
کون ہو تم لوگ اور یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘ میں نے زوردار آواز میں پوچھا۔
’’لو۔۔۔ یہ تو چھٹیوں میں ہمیں بھول ہی گئے۔‘‘ باہر سے آواز آئی۔
’’صاف صاف بتاؤ، میں تمہاری باتوں میں آنے والا نہیں۔‘‘ مجھے یقین تھا پیچھے کہیں وہ آفت کی پرکالی ضرور موجود تھی۔
’’ارے بچو! کیا ہوا، فراز کا دروازہ بند ہے کیا؟‘‘ آنٹی کی آواز آئی اور پھر وہ قریب آکر بولیں۔
’’فراز بیٹے۔ دروازہ کھولو۔ تم سے ٹیوشن پڑھنے والے بچے آئے ہیں۔‘‘
’’ٹیوشن اور مجھ سے۔‘‘ میرے اوپر سے گویا ایک طوفان گزر گیا۔ میں نے دروازہ کھولا تو دونوں بچوں کے ساتھ آنٹی کھڑی تھیں۔ بولیں۔ ’’فراز! تم نے کہا تھا کہ تم واپس آکر جویریہ اور عمار کو بھی ٹیوشن پڑھاؤ گے۔ کیا سوچا تم نے اس بارے میں؟‘‘
’’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ دراصل۔ ‘‘ میں بری طرح بوکھلا گیا۔ یہی دو بچے ٹیوشن کے لیے کیا کم تھے کہ اوپر سے جویریہ اور عمار بھی۔ پانچ جماعتیں جس طرح میں نے پاس کی تھیں۔ اس کے بعد تو خود مجھے ٹیوشن پڑھنے کی ضرورت تھی۔
’’بس اب اور کوئی بہانہ نہیں، جب تم اپنے جیب خرچ کے لیے پڑوس کے بچوں کو پڑھا سکتے ہو تو اپنے چھوٹوں کو بھی پڑھاؤ گے اور تمہیں مجھ سے ان کی فیس بھی لینی پڑے گی۔‘‘ انہوں نے فیصلہ صادر کیا۔
’’بب۔۔۔ بات فیس کی نہیں ہے آنٹی۔‘‘ میں کوئی بہانہ سوچنے کی کوشش کررہا تھا۔
’’جو بھی بات ہے، میں نہیں سنوں گی۔ جویریہ ، عمار چلو اپنے بیگ لے کر آجاؤ۔ فراز بھائی کے پاس۔ یہ آج ہی سے تمہیں ٹیوشن پڑھائیں گے۔‘‘ انہوں نے صدا لگادی۔ میں ماتھے کا پسینہ خشک کررہا تھا۔
کچھ ہی دیر میں جویریہ اور عمار بھاری بھر کم بیگ ٹانگے یوں دوڑتے ہوئے میری طرف آئے جیسے کوئی بپھری ہوئی فوج دوسرے ملک پر چڑھائی یا فوج کشی کرتی ہے۔ میں اپنے آپ کو ہر قسم کے حملے کے لیے تیار سمجھ رہا تھا،۔ مگر اس قسم کی صورتحال میرے وہم و گمان تک میں نہ تھی۔ ایک دو نہیں بلکہ چار عدد بچے میرے سر پر سوار تھے۔ جنھیں مجھے وہ کچھ پڑھانا تھا جو خود میں نے بھی کبھی نہ پڑھا تھا۔ بھائی جان نے جاتے جاتے مجھے کس مشکل میں پھنسا دیا تھا۔ جس سے نکلنے کا میرے پاس اب کوئی چارہ نہ تھا۔

*۔۔۔*

زمین پر دانیال تھا۔ اس کے برابر میں اس کا تکیہ اور اس کے ساتھ ہی ہزار کے دو نوٹ جو تکیہ کے نیچے سے نکل کر گرے تھے۔ بات اگر عام سے نوٹوں کی ہوتی تو خیر تھی، مگر ان میں سے ایک نوٹ پر پان کا کتھا بڑے مخصوص انداز میں لگا ہوا تھا۔ چچی نے بھی تصدیق کردی۔
’’ارے یہ تو وہی میرے دو ہزار روپے ہیں جو۔۔۔؟‘‘ انہوں نے اتنا کہہ کر میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
بات خوشی کی تھی، مگر بات تھی پشیمانی کی
میرے دو ہزار مل چکے تھے مگر کمبخت دانیال کے پاس کہاں سے آئے تھے۔ میں نہ جانتا تھا۔ لینے کا اقرار بھی کرچکا تھا ورنہ صاف ظاہر تھا کہ دانیال ہی چور بنتا۔ اب میرے پاس سے تو چوری ہوگئے اور دانیال کے پاس سے برآمد ہوگئے۔ بظاہر میں کیس سے بری ہو گیا تھا مگر پھر بھی سب مجھ ہی سے صفائی چاہتے تھے۔ میں نے دماغ کو چاروں طرف دوڑایا تو آخر کار مجھے دانیال ہی نظر آیا۔ میں نے اس کی طرف اشارہ کرکے کہا۔
’’اس کے پاس سے نکلے ہیں۔ اسی سے پوچھئے!‘‘ سب اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔ مجھے سوچنے کا کچھ اور وقت مل گیا لیکن ساتھ ساتھ دانیال کا جواب سننا بھی ضروری تھا۔
’’مم مم مجھے نہیں پتا یہ میرے پاس کہاں سے آگئے؟‘‘ وہ ہکلایا۔ کیا آسان جواب اس نے دیا تھا۔ سب پھر میری طرف مڑ گئے۔ میں نے بالکل دانیال ہی کی نقل اتاری۔
’’مم مم مجھے بھی نہیں پتا یہ اس کے پاس کہاں سے آگئے!‘‘
’’دانیال سچ سچ بتاؤ۔ کہاں سے آئے یہ پیسے؟‘‘ چچا نے کچھ سختی سے پوچھا۔
’’ارے کہہ تو رہا ہے اسے نہیں پتا!‘‘ چچی نے اس کی حمایت کی۔
’’ٹھیک ہے کسی کو نہیں پتا تو میرے ہی ہوں گے۔‘‘ میں نے آگے بڑھ کر وہ نوٹ اٹھالیے۔
’’ارے تیرے کہاں سے ہو گئے، یہ تو میرے ہیں۔‘‘ چچی نے جھپٹنا چاہا۔
’’آپ کو میں نے جب واپس کرنے ہیں، تب کر دوں گا۔‘‘ میں نے انہیں مضبوطی سے مٹھی میں بند کرلیا۔
’’ادھر لا، چور کہیں کے۔‘‘ وہ چلائیں۔ چور کا لفظ سننا تھا میری خون کی گردش تیز ہو گئی۔ یقیناًدماغ کی رفتار بھی تیز ہی ہوگئی ہوگی تبھی میں کہتا چلا گیا۔
’’چور میں نہیں دانیال ہے۔ اس کے دوست چور ہیں۔ مجھ سے جنہوں نے پیسے چھینے وہ لوٹ مار کرکے دانیال کو بھی حصہ دیتے ہوں گے۔ یہ تو اتفاق ہے کہ وہی نوٹ گھوم کر اس کے پاس آگئے جو آپ کے تھے اور یہ پکڑا گیا، ورنہ کوئی اور نوٹ ہوتے، تب بھی آپ کو یہ پوچھنا چاہیے تھا کہ تمہارے پاس سے دو ہزار آئے کہاں سے، کون سا تم کوئی کام کاج کرتے ہو۔۔۔بتاؤ؟‘‘ میں نے کہتے کہتے طوفان کا رخ دانیال کی طرف موڑ دیا۔
’’وہ ۔۔۔ وہ ۔۔۔ بب۔۔۔ کیا؟‘‘ وہ بوکھلا گیا۔
’’ دیکھا۔۔۔ دیکھا۔۔۔ چوری کھل گئی تو کیسا گھبرا گیا۔‘‘
’’میں نہیں دیتا ویتا پیسے، اپنے چور بیٹے سے لے لیں۔‘‘ میں نے دونوں کو ایک ساتھ چوٹ کی اور اپنے کمرے میں آگیا۔ میں دل ہی دل میں شکر ادا کررہا تھا کہ ایک مصیبت سے جان چھوٹ گئی۔ لیکن ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ مجھے باہر سے آواز آئی۔ 
’’چل۔۔۔ واپس بدل یونی فارم اور آکر برتن مانجھ۔ آج ہی قینچی سے کاٹ دوں گی تیرا یونیفارم!‘‘ چچی یقیناًمائرہ سے کہہ رہی تھیں اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ اتنا جھگڑا کرنے کے بعد مائرہ کے اسکول کے متعلق کیا کوئی میری بات سنے گا؟

*۔۔۔*

’’اے۔ بی۔سی۔ اس کے بعد کیا آتا ہے مس؟‘‘ جویریہ اپنے ابو کا بڑا سا چشمہ لگائے اداکاری کررہی تھی۔
’’بدتمیز لڑکی! کیا میں تمہیں مس نظر آتا ہوں۔‘‘ میں نے غصہ کی اداکاری کی، کیونکہ اس وقت میں اتنا پریشان تھا کہ اور کوئی جذبہ اس پر غالب نہیں آسکتا تھا۔
’’سوری۔۔۔ سوری ۔۔۔ ون ۔۔۔ ٹو۔۔۔ تھری۔ اس کے بعد کیا آتا ہے سر؟‘‘ اس نے دوبارہ پوچھا۔
’’گو۔۔۔ سنا نہیں ریسنگ میں یہی کہتے ہیں، ون ۔ ٹو۔ تھری۔ گو۔‘‘ عمار نے بتایا۔ مجھے لگا کہ وہ مجھے کہہ رہا ہے۔ یعنی مجھے اب یہاں سے بھاگ جانا چاہیے۔ بات اب میرے بس سے باہر ہے۔
’’تم لوگ میرا منھ کیا دیکھ رہے ہو۔ چلو اپنی اپنی کتاب نکالو؟‘‘ میں نے کچھ وقت حاصل کرنے کے لیے کہا۔
’’کونسی کتاب سر؟ انگلش، میتھس یا سوشل اسٹیڈیز؟‘‘ جویریہ نے گویا تین بم برسائے۔ میرے دل میں ایک ایک کرکے پھٹے۔ اول تو مجھے ان مضامین کے متعلق کچھ پتا نہ تھا اور اگر تھوڑا بہت تھا بھی تو میں نے یہ اردو میں پڑھے تھے۔ انگریزی میں تو مجھے ان کے نام ہی ڈراؤنے لگ رہے تھے۔
’’اردو کی۔۔۔ سب سے پہلے اردو پڑھیں گے۔‘‘ میں نے بچے کچھے حوصلے کے ساتھ کہا۔
’’اردو میں تو مجھے مترادف متضاد اور جمع الجمع کا ہوم ورک ملا ہے۔‘‘
’’دیکھو میں صرف اردو پڑھاؤں گا، یہ تم کون سا ہوم ورک بتارہی ہو؟‘‘ میں گھبرا گیا۔
’’یہ اردو ہی ہے سر!‘‘ اس نے اردو پر زور دیا۔ نا جانے یہ کون سی کلاس میں پڑھایا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے لاہور کا نصاب کراچی سے مختلف ہو، یا یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ لاہور کی ا ردو ہی کراچی سے مختلف ہو۔۔۔ خیر جو بھی تھی، تھی بڑی خوفناک۔
’’پہلے تم سب لوگ مجھے اپنی اپنی کلاس بتاؤ۔‘‘ میں ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرح بولا۔
’’میں چوتھی میں۔‘‘ پڑوس کی بچی بولی۔
’’میں پانچویں میں۔‘‘ بچہ بولا۔
’’ میں چھٹی میں۔‘‘ عمار بولا۔
اور میرے لیے تو اب ساتویں کے علاوہ کچھ بچا نہیں ورنہ اچھی خاصی ترتیب آؤٹ ہو جائے گی۔ اس ترتیب کو سنتے ہوئے مجھے ایک احمقانہ سا خیال آیا لیکن اس وقت یہی میرے لیے تنکے کا سہارا تھا۔
آج تم لوگ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ جویریہ عمار کو پڑھادے، عمار اس بچے کو اور یہ بچہ اس بچی کو۔ آخر سب دوسرے کے بعد والی کلاس ہی میں ہیں نا۔‘‘
’’لیکن پھر مجھے کون پڑھائے گا؟‘‘ جویریہ بولی۔
’’آئی۔‘‘ میرے منھ سے نکلا۔
’’مطلب آپ، تو میں بولیں نا۔‘‘
’’آئی۔‘‘ میرے منھ سے دوبارہ نکلا۔ میں نے دیکھا عمار مجھے پرکار کی نوک بار بار چبھورہا تھا۔
’’میں چیک کررہا تھا کہ یہ ٹھیک ہے یا نہیں کیونکہ کاغذ میں تو نہیں پھنس رہا تھا۔‘‘
’’ایسا کرو تم مجھ سے دوستی کر لو۔‘‘ میں عمار کو نظر انداز کرتا ہوا جویریہ سے بولا۔
’’ہائیں، کیوں؟‘‘
’’بس کرو۔ دشمنی ختم۔‘‘ میں نے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔
’’لیکن مجھے کیا فائدہ؟‘‘
’’اووں۔‘‘ میں سوچتے ہوئے بولا۔ ’’اگر تم امی ابو سے کوئی فرمائش کرو گی تومیں تمہاری طرف داری کروں گا۔‘‘
’’وہ تو میں ویسے ہی منوالوں گی۔‘‘ اس نے منھ بنایا۔
’’اچھا۔ یہ بتاؤ تمہاری پاکٹ منی کتنی ہے؟‘‘ میں نے اسے پیسے کالالچ دیا۔
’’ہاں یہ ہوئی نا بات۔‘‘ وہ خوش ہو کر بولی۔
’’بس تم ان سب کو دیکھ لیا کرو، میں ان کی آدھی فیس تمہیں دے دیا کروں گا۔‘‘
’’آدھی نہیں پوری؟‘‘ اس نے آنکھیں نکالیں۔
’’ ایک شرط پرکہ انہیں خرچ میرے ذریعہ کرو گی یعنی میں پیسے دینے کے بجاے اس سے تمہیں کوئی چیز دلا دوں گا۔‘‘ 
میں نے سوچا۔ یہ ایک بہتر طریقہ ہے، ورنہ اس کے والدین پوچھ سکتے تھے کہ اس کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے۔ اب وہ اس چیز کو میرا دیا ہوا تحفہ کہہ سکتی تھی۔
’’ڈن!‘‘ جویریہ خوشی سے بولی اور اپنی کتابیں ایک طرف کرکے باقی بچوں کے قریب ہوگئی۔ کتابیں ایک طرف کرنے میں ایک کاغذ نکل کر میرے سامنے آگیا۔ میں نے اسے اٹھا کر ایک سرسری سی نگاہ ڈالی اور واپس کرنا چاہا۔ مگر نگاہ اس پر ٹک کر رہ گئی۔ اس کاغذ پر تھا ہی کچھ ایسا۔

*۔۔۔*

میں بظاہر ایک جنگ جیت کر آرہا تھااور ایسے میں فوراً دوسری جنگ چھیڑنا آسان نہ تھا۔ نہ اس میں کامیابی کے امکان تھے، مگر معاملہ مائرہ کا تھا۔ اس کی پڑھائی اور اس کی لگن کا تھا۔ وہ لگن جو اس کے اندر خود میں نے پیدا کی تھی۔ اب میں اس کو اپنی آنکھوں کے سامنے مٹتے نہ دیکھ سکتا تھا۔ میں باہر نکلا اور مائرہ اور اس کے کمرے کی راہ میں سینہ تان کر کھڑا ہوگیا۔
’’تم اسکول جاؤ، میں دیکھ لوں گا۔‘‘ میں نے مائرہ سے کہا۔
’’ارے تم کیا دیکھ گے، میں دیکھوں گی اب تمہیں۔‘‘ چچی باورچی جانے سے مع ہتھیار باہر نکلیں۔ ان کے ہاتھ میں بیلن تھا۔ ذہن پر اچانک دو شعر آکر گزر گئے۔
تم جو مارو گی مجھے بیلن، 
میری جانب سے بھی چمٹا آئے گا
یہ خبر ذاتی ہے اخباری نہیں
آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا
لیکن کہنے کا وقت نہ تھا، کرنے کا تھا۔ میں نے آہنی ہاتھوں سے ان کا بیلن قابو کرلیا۔
’’خبردار جو تو گئی، چل اندر۔‘‘ انہوں نے مائرہ سے کہا۔
’’فوراً اسکول جاؤ۔۔۔ چلو۔۔۔‘‘ میں نے صرف کہا نہیں بلکہ اچھا خاصا دھکا بھی دے دیا۔ چچی کچھ اور کہنے کے لیے منھ کھولنا ہی چاہتی تھیں، میں نے ان کے منھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ شکر ہے مائرہ چلی گئی۔
’’ میں تجھے گھر سے باہر نکال دوں گی۔‘‘ ہاتھ ہٹتے ہی انہوں نے مجھے دھمکی دی۔
’’وہ تو میں روزانہ خود ہی جاتا ہوں۔‘‘
’’واپس بھی تو آجاتا ہے، میں تیرے لیے دروازہ بند کردوں گی۔‘‘
’’میں دیوار پھلانگ کر آجاؤں گا۔‘‘ میں ڈھٹائی سے بولا۔
’’تجھے ایک نوالہ نہ دوں گی۔‘‘
’’خدا کھلاتا ہے، ہوٹل سے کھلا دے گا۔‘‘
’’سب کو منع کر دوں گی، پیسے پیسے کو ترسے گا۔‘‘
’’تو میں اس صندوق سے نکال لوں گا جس میں آپ نے یہ عمر بھر کا خزانہ جمع کیا ہوا ہے۔‘‘
ان کا ایک پرانا صندوق تھا جس کی چابی ہر وقت ان کے پاس رہتی تھی اور ہمیں کبھی نہ بتایا گیا تھا کہ آخر اس میں ہے کیا۔ چچی کے چہرہ پر ایک رنگ آکر گزر گیا، بلکہ پھر تو کئی رنگ آنے لگے، تکلیف جھلکنے لگی اور وہ بڑی مشکل سے بولیں۔
’’مجھے انجائنا کا درد ہو رہا ہے، فوراً موٹر سائیکل نکالو اور مجھے ہسپتال چھوڑو۔‘‘
وہ شاید فائل وغیرہ لینے اندر چلی گئیں جب کہ میں بائیک کے پاس آگیا، مگر میرا ذہن سائیں سائیں کررہا تھا، کیونکہ مجھے بائیک چلانی تو درکنار، اسٹارٹ تک کرنا نہیں آتی تھی۔ یہ کام تو صرف شہزاد ہی کیا کرتا تھا۔ اس وقت کوئی بھی بہانہ نہ صرف غیر اخلاقی اور غیر انسانی ہوتا بلکہ شاید اقدام قتل تک جا پہنچتا۔ میں ایک بڑی مشکل میں تھا۔

*۔۔۔*

نہ وہ کسی نصابی کتاب سے تعلق رکھتا تھا نہ ہی کسی کہانی کی کتاب سے۔ وہ تو کسی کاپی سے پھاڑا ہوا ایک صفحہ تھا جس پر ایک نقشہ بنا تھا اور کچھ نشانات لگے تھے۔ میں لاکھ ان پڑھ ضرور تھا، مگر میری چھٹی حس اور اس قسم کے معاملات میں مشاہداتی حس بے حد تیز تھی۔ مجھے فوراً اندازہ ہو گیا کہ یہ کسی غلط کام کی پلاننگ کے لیے تیار ہوا ہے۔
’’تمہیں یہ کہاں سے ملا؟‘‘ میں نے جویریہ سے پوچھا۔
’’ یہ میں نے ابو کا چشمہ اٹھایا تو اس کے ساتھ ہی رکھا ہوا تھا۔‘‘
’’ مجھے دکھائیں، مجھے دکھائیں ، کہیں یہ میری اڑنے والی سائیکل کا نقشہ نہ ہو جسے میں ایجاد کررہا ہوں۔‘‘ عمار جھپٹا۔ مگر میں نے اسے پرے ہٹا دیا۔
اوہ ۔۔۔ اس کا مطلب ہے کہ کمال صاحب کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہیں۔میں نے دل ہی دل میں سوچا۔ضروری نہیں کہ یہ کوئی غیر قانونی کام ہی ہو، ہو سکتا ہے کہ کچھ اور ہو۔میں نے دل کو تسلی دینے کی کوشش کی مگر میری حس نے اسے کسی طرح قبول نہ کیا۔
آخر میں نے کمال صاحب ہی سے گفتگو کرنا مناسب سمجھی۔ میں چاہتا تو اس کاغذ کو یکسر نظر انداز کردیتا مگر میرا مزاج اس طرح کے تجسس میں دلچسپی لینے پر مجبور کررہا تھا۔ میں نے جویریہ سے چشمہ بھی واپس لیا اور دونوں چیزیں لے کر کمال صاحب کے پاس پہنچا۔
’’ یہ جویریہ آپ کی چیزیں اٹھا لائی تھی، میں نے سوچا کہیں آپ کو ضرورت نہ ہو۔‘‘ میں نے چشمہ اور کاغذ ان کے آگے رکھا۔ کاغذ کو خاص طور پر انہیں دکھاتے ہوئے رکھا اور ان کے چہرے کے تاثرات نوٹ کرنے کی کوشش کی مگر وہاں کوئی تغیر نہ آیا۔ میں نے سرسری کاغذ دیکھ کر ماتھے پر شکنیں ڈالیں اور پوچھا۔
’’یہ کیسا کاغذ ہے انکل؟‘‘ انہوں نے کاغذ ہاتھ میں لیا اور بغور دیکھتے ہوئے بولے۔
’’ہاں، یہ مجھے فیکٹری میں ایک شخص نے لا کر دیا تھا۔ نہ مجھے اس کی بات سمجھ آئی نہ ہی یہ کاغذ، نا جانے کیا بلا ہے؟‘‘
’’کیا آپ کو وہ شخص یاد ہے؟‘‘ میں فوراً بولا۔
’’نہیں بیٹا، تمہیں پتا تو ہے کہ میں آفس کے کاموں میں کیسا الجھا ہوتا ہوں۔ بس یہ ہے کہ وہ کوئی مزدور تھا۔‘‘
’’آپ کو اس سے کچھ سمجھ نہیں آیا؟‘‘ میں پراسرار انداز میں بولا۔
’’ نہیں ، کیا تم کچھ سمجھ پائے۔‘‘ 
’’جی۔۔۔ میرا خیال ہے کہ یہ کسی کو اغوا کرنے کی، یا کچھ چرانے کی پلاننگ ہے۔‘‘
’’کیا!‘‘ وہ چونک پڑے۔ پھر بہت شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے بولے۔
’’تم یہ بات آخر کیسے کہہ سکتے ہو؟‘‘
میں ان کے سوال سے نہیں بلکہ شک بھرے لہجہ سے بری طرح گھبرا گیا۔ اس سوال کا کوئی ٹھوس جواب بھی میرے پاس نہ تھا۔۔۔ اور نہ ہی مجھے اس قسم کی کارروائیوں کو پکڑنے کا تجربہ تھا کہ میں اسے بروقت پکڑ کر ہی ثابت کر دیتا۔ جبکہ میرے اس بیان پر وہ مجھ ہی پر جرائم پیشہ ہونے کا شک کررہے تھے۔

*۔۔۔*

میں نے بائیک کاہینڈل پکڑا اور اسٹینڈ اٹھایا۔ اس کا وزن ہی مجھے کافی زیادہ لگا۔
’’سائیکل تو تم نے کبھی چلائی نہیں ہے، یہ بھاری بھر کم گھوڑا کیسے سنبھلے گا، اور اسٹارٹ ہونے کے بعد تو یہ بدک بھی جائے گا ۔‘‘ میرے اندر سے آواز آئی۔
’’اسٹارٹ کرنا آتا ہوگا تو نوبت آئے گی نا!‘‘ میں نے ہی جواب دیا۔
سوال جواب کا وقت نہ تھا چاچی کسی بھی وقت آجائیں اور میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
’’ کیوں نہ میں اس کا پیٹرول خالی کردوں، نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری!‘‘ میں نے سوچا اور ٹنکی کھول دی۔
’’ اب کیا پیٹرول نکالنے کے لیے بائیک کو الٹا کرنا پڑے گا؟‘‘ میں سوچ کر ہی لرز گیا ۔ کبھی اچکے دوستوں میں بیٹھا ہوتا تو پیٹرول چوری کرنے کا کوئی طریقہ سوچا ہوتا اور اس وقت اسے آزماتا۔ مگر افسوس تھا مجھ پر کہ ہمیشہ شریف اور پڑھاکو ہی دوست بنائے، جو بڑے ہو کر بائیک کا انجن تو بنا سکتے تھے، مگر شاید بائیک چلانا ان کے بس سے باہر ہوتا۔
چچی کے قدموں کی آواز آنے لگی، پھر انہوں نے کہا۔
’’ارے تو ابھی تک اس کے آئینہ میں اپنی شکل دیکھ رہا ہے، نکال باہر!‘‘
میں نے حسرت سے بائیک کو، اور پھر دروازے کو دیکھا، لیکن فوراً ہی وہ خوشی میں تبدیل ہوگئی۔ دروازے کا کونہ اکھڑا ہوا تھا اور وہاں سے ایک ننھی منی کیل جھانک رہی تھی۔ مجھے کیل کی آواز سنائی دی۔ 
’’ آبیل! مجھے مار!‘‘
میں نے بڑے ہی جوش و خروش سے اس کی فرمائش پوری کر دی اور پھر مجھے اس کے ہمت اور حوصلہ کی اصل وجہ سمجھ آئی۔ وہ یقیناًیہ بات جانتی تھی کہ چھری خربوزہ پر گرے یا خربوزہ چھری پر ، نقصان خربوزہ ہی کا ہوتا ہے۔
ٹائر ایک دھماکہ سے پھٹ گیا۔ چاچی نے دل تھام لیا، مجھے بھی خدشہ ہوا کہ کہیں انجائنا دل کے دورے میں نہ تبدیل ہوجائے۔ لہٰذا جلدی سے بولا۔
’’اچھا ہوا۔ اس پر آپ کو اس حالت میں لے جانا مناسب بھی نہیں تھا، میں ابھی رکشہ لے کر آتا ہوں۔‘‘
میں نے کہا اور کچھ سنے دیکھے بغیر جلدی سے باہر نکل گیا۔ رکشہ جلد ہی مل گیا۔ چاچی کو بٹھا کر ہسپتال لے گیا، شکر تھا کہ وہ خیر خیریت سے وہاں پہنچ گئیں۔ شاید طبیعت بھی کچھ بہتر ہوگئی، تبھی بولیں
’’اب تو دفعان ہوجا، میں آجاؤں گی واپس!‘‘
میں آہستہ آہستہ واپس ہوا، یہ سوچتے ہوئے کہ ان کی طبیعت کی خرابی معمول کے مطابق ہوئی تھی یا میرے صندوق کے ذکر پر۔
گھر میں ایسی کوئی قیمتی چیز نہ ہوتی تھی کہ جسے لاک کرکے یا چھپا کر رکھا جاتا مگر یہ صندوق ہمیشہ مقفل رہتا۔ بات اگر صرف یہی ہوتی تو شاید اتنے اچھنبے کی نہ ہوتی، مگرکبھی اگر اس کا ذکر آتا تو ہمیشہ ٹال دیا جاتا، ایک مرتبہ چچی خود ہی اس کی چابی کہیں رکھ کر بھول گئی تھیں تو انہوں نے آفت مچا دی تھی کہ چوری ہوگئی اور ہو نہ ہو شہزاد نے کی ہے۔ جا کر بھی وہ صندوق کے پاس بیٹھ گئیں کہ کوئی اس میں سے کچھ نکال نہ لے۔ پھر چچا سے کہہ کہہ کر تالے والے کو بلو ایا ، تالا بدلوایا اور نئی چابیاں ہاتھ میں آئیں تو سکھ کا سانس لیا ۔ بعد میں جب پرانی چابی انہی کے پاس سے نکلی تو خفت اٹھائی۔ لیکن اس سب سے یہ ضرور ثابت ہو گیا تھا کہ جیسے جادوگرنی کی جان طوطے میں ہوتی ہے، ان کی بھی جان اس صندوق میں تھی اور میرے خیال میں اس میں بھلا پیسوں یا زیوارات کے کیا ہو سکتا تھا ۔ اگر ایسا تھا تو وہ بڑی بے وقوف تھیں کہ تنگی کی زندگی گزار رہی تھیں، جبکہ اس مال سے وہ ٹھاٹھ کے ساتھ رہ سکتی تھیں۔ بہرحال ہمارے لیے صندوق ایک بڑا راز تھا۔
’’سنو! میں تمہیں ایک راز کی بات بتانا چاہتا ہوں۔‘‘کسی نے راہ چلتے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے دیکھ کر تو میری سانس ہی رک گئی۔

*۔۔۔*

’’ وہ ۔۔۔ میں نے دراصل فلموں میں ایسا ہوتے دیکھا ہے۔‘‘ میں نے اپنے اوپر قابو پاتے ہوئے کہا۔
’’ لیکن تم نے تو کہا تھا کہ تمہیں فلموں سے کوئی دلچسپی نہیں۔‘‘ وہ ابھی تک شک ہی میں تھے۔
مجھ سے بھی کیا غلطی ہوئی کہ فلموں کا تذکرہ کر بیٹھا، جب بھائی جان کی اداکاری کررہا تھا تو جاسوسی ناول کا کہنا چاہیے تھا۔ مگر پھر ان کے نام کون بتاتا؟ پھنسنا تو وہاں بھی۔ یہ بھائی جان بھی عجیب تھی، آخر کیوں نہیں رکھتے تھے فلموں دلچسپی اور چلو اگر بیزار طبیعت کے تھے بھی تو ضرورت کیا تھی سارے زمانے میں ڈھنڈورا پیٹنے کی کہ مجھے فلموں سے کوئی دلچسپی نہیں۔
ہوسکتا ہے کمال صاحب نے کبھی دکھانے کا کہا ہو، تو چلو ان کا دل رکھنے کے لیے ہی کہہ دیتے کہ دیکھتا ہوں۔ اگر یہ کر لیا ہوتا تو آج کم از کم ان کا بھائی تو مشکل میں نہ پھنستا۔
لیکن وہ اب دنیا میں نہیں تھے۔ لہٰذا ان کی طرف سے بھی اگر کچھ کرنا تھا تو میں نے ہی کرنا تھا۔
’’ جی عام فلموں سے نہیں ہے دلچسپی، لیکن ڈاکومنٹری سے تو ہے۔‘‘
’’ لیکن ڈاکومنٹری میں بھلا جرائم وغیرہ کہاں دکھائے جاتے ہیں۔‘‘ کمال صاحب بھی لٹھ لے کر پیچھے پڑے تھے ۔
’’جی ڈاکومنٹری میں تو خود ’’ڈاکو ‘‘ آتا ہے، جرائم دکھانے کی ضرورت ہی نہیں!‘‘ میں نے بھدا سا مذاق کیا اور خود ہی ہنسنے لگا۔
’’بہرحال مجھے ان باتوں پر کوئی یقین نہیں ہے۔ اگر تمہیں اتنا ہی شوق ہے تو کل جب میرے ساتھ آفس چلنا تو دیکھ لینا۔
’’ کل تک تو بہت دیر ہو چکی ہوگی۔ چلنا ہے تو ابھی چلنا ہوگا۔‘‘ میں اپنی طبیعت کے مطابق سوچے سمجھے بغیر بول گیا، یہ تک نہ دیکھا کہ اب فراز بن کر اسی کے مطابق بولنا ہے ورنہ زبان سے نکلا ہوا کوئی ایک ہی لفظ میری حقیقت ظاہر کردے گا۔
’’ ہوں۔۔۔‘‘ کمال صاحب نے ایک لمبا ہنکارا بھرا اور پھر ایک جھٹکے سے کھڑے ہوگئے۔
’’چلو تو پھر ابھی چلو۔‘‘ وہ شاید میری بدلی ہوئی شخصیت سے کچھ الجھن کا شکار تھے اور اسے جلد حل کر لینا چاہیے تھے۔
میرے پاس نفی کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور مجھے بالکل نہیں پتا تھا کہ وہاں جا کر میں کسی ٹھوس نتیجہ تک پہنچ پاتا۔
ہم دونوں چلنے لگے تو عمار اور جویریہ بھی پڑھائی وغیرہ چھوڑ کر ہمارے ساتھ چلنے کی ضد کرنے لگے۔
’’ ہم کوئی سیر و تفریح پر نہیں جا رہے، کام سے جارہے ہیں۔‘‘کمال صاحب بولے۔
’’فیکٹری جا رہے ہیں۔‘‘ میں بولا۔ میری خواہش تھی کہ وہ دونوں ساتھ چلیں تاکہ کمال صاحب کا دھیان بٹے اور وہ زیادہ سوالات نہ کرسکیں۔
’’ابو آپ ہمیں آج تک فیکٹری لے کر نہیں گئے، اب اس سے اچھا موقع کب ملے گا!‘‘ جویریہ بولی۔
’’لے چلتے ہیں، معائنہ ہی تو کرنا ہے، میں ڈسٹرب نہیں ہوں گا۔‘‘ میں نے تائید کی۔
وہ دونوں مزید کچھ کہے سنے بغیرہی گاڑی میں گھس گئے۔ ہم دونوں بھی بیٹھے اور روانہ ہو گئے۔ میں نے کاغذ نکالا اور بغور اسے دیکھنے لگا۔ میں اس میں اتنا محو ہو گیا کہ مجھے خبر ہی نہیں ہوئی کہ کب فیکٹری آبھی گئی۔
’’سیڑھیاں کہاں ہیں؟‘‘ میں ڈرامائی انداز میں بولا۔
’’لیں وہ تو ہمارے گھر ہی میں تھیں، ان کے لیے یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی۔‘‘ جویریہ نے منہ بنایا۔
’’چپ رہو بے وقوف۔ دیکھ نہیں رہی کہ ان کے ہاتھ میں خزانے کا نقشہ ہے۔ سیڑھیوں کے بعد وہ کسی کنویں کا پوچھیں گے، پھر جلے ہوئے درخت کا پھر غار کے دہانے کا جس سے ایک سرنگ نکلتی ہوگی۔‘‘عمار کی بات کمال صاحب نے کاٹی۔
’’وہ تو پچھلی طرف ہے، اسٹور کے پاس۔‘‘
’’تو پھر فوراً چلیں، اسی سرنگ کے آخری سرے پر تو خزانہ ہوگا۔‘‘
ہمیں وہیں چلنا ہے۔‘‘ میں نے عمار کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
ہم فیکٹری کی عمارت کے اندر داخل ہو گئے۔ وہاں مکمل اندھیرا تھا۔ کمال صاحب نے لائٹ جلانے کی کوشش نہیں کی، ان کے ہاتھ میں ٹارچ تھی، راستوں سے بھی اچھی طرح واقف تھے لہٰذا تیز تیز چلتے جارہے تھے۔ 
یہاں تک کہ آخری کنارے پر پہنچ کر جب وہ مڑے تو ٹھٹھک کر رک گئے، ٹارچ بند کر دی اور آنکھ پھاڑ پھاڑ کر کچھ دیکھنے لگے۔

*۔۔۔*

دیکھنے میں وہ انسان کم اور دیو زیادہ لگتا تھا۔ لمبا چوڑا، ہٹا کٹا، موٹا تازہ! لیکن کپڑے اس کے پرانے اور بوسیدہ سے تھے، ایسے ہی جیسے پرانی جنوں اور پریوں کی کہانیوں میں ہوتے ہیں۔
میں نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی ،مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔
ایک لمحہ کے لیے میں نے اپنی بصارت کو پس پشت ڈال کر سماعت پر توجہ دی۔ اس نے کسی راز کی بات کی تھی۔
’’ کیسا راز؟‘‘ میں نے ہمت کرکے پوچھا۔
’’ ایک بڑا راز۔۔۔ تمہارا راز۔۔۔ حادثہ کا راز۔‘‘ میں ایک لمحہ کو ساکت ہوگیا۔ شاید اسے میرے فراز ہونے کا علم تھا، شاید یہ شہزاد کے حادثہ میں ہلاکت والی بات جانتا تھا، تو آخر مجھے کیا بتانا چاہتا تھا اور کیوں ، کیا یہ مجھے بلیک میل کرنا چاہتا تھا۔
ابھی میں اتنے سارے سوالات کی زد ہی میں تھا کہ ایک اور آواز آئی۔
’’چلو فراز۔۔۔ میرے ساتھ چلو، یہ آدمی پاگل ہے، اس کی کچھ مت سنو!‘‘
میں ہکا بکا رہ گیا۔’’اے خدا، کیا یہاں پر کسی کو میری اصلیت پتا ہے، یا پھر میرے چہرے پر میرا نام ظاہر ہو گیا ہے؟‘‘
میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ میرے اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ انہوں نے اس دیوہیکل آدمی سے میرا ہاتھ چھڑایا اور مجھے اپنی گاڑی میں کھینچ لیا۔ جلد ہی ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ پیچھے سے اس آدمی کی آواز آئی۔
’’ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ تمہاری اصلیت اور کرتوت ساری دنیا کو بتا دوں گا۔‘‘
’’پاگل ہے، کوشش کرو کہ اس سے دور رہو اور اگر یہ کوئی ایسی ویسی بات کرے بھی تو دھیان مت دو۔‘‘ ہیڈ ماسٹر صاحب بولے۔ ویسے تو وہ بڑی نفرت اور غرور سے بات کیا کرتے تھے، لیکن آج ناجانے کیوں اتنے مہربان ہوگئے تھے۔
لیکن میں حیران اس بات پر تھا کہ انہیں میرے فراز ہونے کا کیسے پتا چلا۔ میں نے جاننے کے لیے ہوا میں تیر چھوڑا اور بچے کچھے شک کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔
’’ لیکن میں تو شہزاد ہوں۔‘‘
’’اچھا اچھا۔۔۔ میرا تو چونکہ فراز سے ہی لمبا واسطہ رہا اس لیے میں سمجھا تم فراز ہو۔ خیر وہ کدھر ہے؟‘‘
’’ وہ تو لاہور چلا گیا۔‘‘ میں نے سکھ کا سانس لیا۔
’’دیکھو پڑھ لکھ کر وہ کیسے ترقی کر گیا۔ میں نے ہمیشہ اسے پڑھائی کی تلقین کی اور جتنا بھی ہو سکا مدد کی۔‘‘
’’ ہیں؟ ‘‘ میں نے دل ہی دل میں سوچا ’’انہوں نے تو کبھی میری کسی طرح کی مدد نہیں کی۔‘‘
’’ کس طرح کی مدد کی آپ نے فراز کی؟‘‘ میں نے انجان بنتے ہوئے پوچھا۔
’’ارے آئے دن کے خرچے، کبھی کتابوں کے تو کبھی کسی چیز کے، اکثر تو اس کی فیس معاف کرنا پڑتی تھی، تمہیں بتایا نہیں اس نے؟‘‘
میرا خون کھول اٹھا، کیونکہ یہ سراسر جھوٹ تھا، شاید ایک مرتبہ فیس معاف کی بھی تھی تو آدھی اور وہ بھی میرے بے حد رونے پیٹنے کے بعد اور انتہائی نخوت سے احسان جتاتے ہوئے اور اس وقت تو ایسے نیک بن رہے ہیں جیسے حکیم محمد سعید ہوں۔ ابھی اگر میں کہہ دیتا کہ میں فراز ہی ہوں تو ایک بھی بات ثابت کرکے دکھاتے۔
’’ مجھے تو ہمیشہ یہ ہی بتایا کہ بہت تنگی سے پڑھائی کی ہے اور کسی نے کوئی مدد نہیں کی۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ دراصل میں نے ہی کہا تھا کہ میری نیکی کا چرچا نہ کرنا۔‘‘ اس مرتبہ انہوں نے محمد شاہ تغلق بننے کی کوشش کی۔
میرا دل چاہا کہ جوتا اتاروں اور اس وقت تک انہیں اس سے ماروں جب تک وہ ان جھوٹوں کا اقرار نہ کرلیں۔ مگر بہت صبر کیا اور کہا
’’دوسروں کو منع کیا اور خود اپنے منہ سے کررہے ہیں۔ سیدھی سیدھی بات تھی، لیکن میں نے کچھ اس انداز سے کی کہ انہیں طمانچہ کی طرح لگی۔ وہ ایک لمحہ کو تو بھونچکے رہ گئے، پھر تیز لہجہ میں بولے
’’ اس لیے بتا رہا ہوں تاکہ تم بھی پڑھ لکھ لو اور کسی کام کے بنو!‘‘
’’تو کیا میری پڑھائی کا بھی سارا خرچہ آپ ہی اٹھائیں گے؟‘‘ میں طنزیہ لہجہ میں بولا۔
’’ ہاں اٹھا لوں گا، بس تم اس پاگل شخص سے نہ ملنا۔‘‘
انہوں نے کہا اور گاڑی رکوا دی، میرا محلہ جو قریب آگیا تھا۔
میں اتر گیا اور ان کے آخری جملے پر غور کرنے لگا۔ مجھے جیسے انہوں نے کہا ہو۔
’’اس شخص سے نہ ملنے کی قیمت میں تمہیں تمہاری پڑھائی کا خرچہ اٹھا کر دے دوں گا۔‘‘
تو کیا وہ شخص اتنا اہم تھا، یا اس کا مجھ سے ملنا، یا پھر وہ بات جو وہ بتانا چاہتا تھا، یا پھر اس بات کا مجھے ہی پتا چلنا، کیونکہ روکا تو مجھے جا رہا تھا۔
میں نے خود کو بے حد تجسس میں گھرا پایا۔
لیکن اکیلے تجسس نے مجھے نہیں گھیرا تھا ، بلکہ اور بھی کچھ تھا کیونکہ مجھے آواز آئی۔
’’شہزادے، آج تو تو بچ کر نہیں جا سکتا۔‘‘

*۔۔۔*

وہاں ایک دو نہیں بلکہ کئی لوگ پہلے ہی موجود تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ ہم عمارت کے اندر تھے اور وہ عمارت کے باہر۔ ہمارے بیچوں بیچ لوہے کی ایک مضبوط اور اونچی گرل تھی۔
’’لائٹیں نہ جلانے کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ ہماری موجودگی یا آمد سے بے خبر رہے۔
’’اتنے سارے لوگ! آخر یہ کرنا کیا چاہتے ہیں؟‘‘
کمال صاحب نے مجھ سے سرگوشی کی۔
’’ جو بھی کرنے آئے ہیں غیر قانونی یا غلط کام ہی ہوگا، اندازہ ہے کہ چوری کرنے آئے ہیں۔‘‘
’’ لیکن وہ اندر داخل کیسے ہوں گے، دروازہ تو بند ہے؟‘‘
وہ مجھ سے یوں سوالات کررہے تھے گویا یہ سارا پلان میں نے ہی ترتیب دیا ہو۔
’’ یا تو اسے کاٹیں گے، جو کہ بہت مشکل ہے یا پھر وہ چھت پر کمند اندازی کرکے ان سیڑھیوں سے نیچے آئیں گے جو عین ممکن ہے۔‘‘
’’لیکن اس صورت میں وہ اسٹور تو نہیں جا سکیں گے، وہ تو بند ہے۔‘‘
میں نے وہ کاغذ نکالا اور کمال صاحب کو دکھایا۔’’ یہ دیکھیں ، یہ نشان کہتا ہے کہ اسٹور سے کوئی چیز یہاں سیڑھیوں کے پاس لائی گئی ہے، جسے وہ لوگ اوپر لے جائیں گے۔‘‘
’’لیکن باہر تو نہ لے جاسکے نا؟‘‘
’’وہاں سے اٹھا کر نیچے پھینک دیں گے!‘‘ تمہارے پلان مکمل کیا۔
’’چاہے اندر کی چیزوں کا مربہ بن جائے۔‘‘ میں نے منہ بنایا۔
’’ویسے یہ جوں جوں کیا ہوتا ہے سر، میں نے اس کے مربہ کا بہت چرچہ سنا ہے؟‘‘ جویریہ نے بھی منہ کھولا۔
’’ابھی کوئی کلاس نہیں ہو رہی، ہم خطرہ میں گھرے ہیں۔‘‘ میں نے یاد دلایا۔
’’ میں پولیس کو فون کرتا ہوں۔‘‘ کمال صاحب نے کہا اور اندر کی طرف دوڑ لگا دی۔
لیکن مجھے پتا تھا کہ یہ خطرہ کا حل نہیں ہے، پولیس ناجانے کب آئے گی، یہاں تو کام منٹوں میں ہوجائے گا۔
اتنے سارے لوگ بغیر ہتھیار کے تو ہوں گے نہیں اور اگر ہوتے بھی تو بھی ہم بچے ان کا کیا بگاڑ لیتے۔
وقت بہت کم تھا کیونکہ اگر وہ لوگ اندر آجاتے تو چوری روکنا تو درکنار، جان بچانا مشکل ہوجاتا۔
ٹارچ کمال صاحب ہی لے گئے تھے، لہٰذا واپس جانا بھی ممکن نہ تھا کہ کسی چیز سے ٹکرا جاتے تو سب کو خبر ہوجاتی۔
’’دیکھو اگر وہ لوگ سیڑھی سے اندر آجاتے ہیں تو تم دونوں اس میز کے پیچھے دبک جانا۔ کسی قسم کاشور نہ کرنا، یہ باتیں نہ کھانسی وغیرہ ورنہ ہم سب پھنس جائیں گے۔‘‘میں نے انہیں ہدایات دیں۔
’’ایسے میں وہ لوگ گرل پر چڑھنا شروع ہو گئے۔ جو کافی چوڑی اور اونچی تھیں۔
’’اوہ۔ اگر یہ چھت تک جاتی ہے تو انہیں آنکڑے کی ضرورت ہی نہیں۔‘‘ میں نے سوچا اور بے بسی سے انہیں گرل پر چڑھتا دیکھتا رہا۔
وہ پانچ سے سات آدمی تھے جو تیزی سے گرل پر چڑھتے جا رہے تھے۔اونچائی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی اور خطرہ ہمارے سر سے قریب ہوتا جا رہا تھا۔
اچانک زوردار چیخوں کی آواز آئی اور وہ سارے اچھل اچھل کر زمین پر گرنے لگے۔

*۔۔۔*

خطرہ۔۔۔ وہ خطرہ تھا جس نے مجھے گھیرا تھا۔ تھا بھی مع اہل و عیال اور ساز و سامان سے لیس۔
وہ پانچ سات لڑکے تھے جو شاید لڑکر نہیں آئے تھے، لیکن جانا لڑکے ہی چاہتے تھے۔ مجھے شہزاد سمجھ رہے تھے۔ اسی لیے یہ تعداد زیادہ تھی۔ ورنہ فراز بے چارے کے لیے تو کوئی اکیلا ہی کافی تھا۔
لیکن مجھے اس وقت شہزاد بننا تھا تاکہ کچھ تو رعب قائم رہے۔۔۔ ورنہ تو وہ لوگ مجھے بے دریغ دھو ڈالتے۔ لیکن ایسا وہ کیوں کررہے تھے۔ اس کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ نہ جانے شہزاد نے ان سے کیوں دشمنی مول لے لی تھی۔ جس کی قیمت مجھے چکانی پڑ رہی تھی۔ مفت لی ہوتی تو کم از کم یہ تو نہ ہوتا۔
’’ٹھیک ہے، آج بچ کر نہیں جاؤں گا، تھوڑی پٹائی کرکے چلے جاؤں گا!‘‘ میں نے بظاہر بہادر بنتے ہوئے کہا۔
’’اس دن تو ہم کم ہونے کی وجہ سے مار کھا گئے، ہمت ہے تو آج کچھ کرکے دکھاؤ۔‘‘
’’کس دن؟‘‘ اندر سے آواز آئی، لیکن میں نے ضبط کرتے ہوئے بھولنے کی اداکاری کی۔
’’کتنے کم تھے اس دن؟‘‘
’’صرف تین ہی تو تھے۔‘‘ اس نے ایسے کہا جیسے تین ایک سے بھی کافی پیچھے جا کر آتا ہو یا ایک بٹا تین ہو۔
’’لیکن میرے لیے تو وہ تین ہی تیرہ کے برابر ہوتے۔ تم تو سات سات لے آئے ہو جو مجھے ساٹھ ساٹھ دکھائی دے رہے ہیں۔‘‘ میرے اندر سے ڈری ڈری آواز آئی۔
’’دیکھو بھئی تم باری باری لڑکے لارہے ہو پٹوانے کے لیے، یہ مجھے بالکل پسند نہیں۔ آج سات لائے ہو، کل دس لے آؤ گے۔ سب کو ایک ساتھ ہی لے آؤ تاکہ ایک ہی دفعہ میں کام ختم ہو۔‘‘
بظاہر میں نے انہیں باتوں میں لگا لیا تھا لیکن میں ان کی تیاریوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ تیاری سے مراد یہ نہیں کہ انہوں نے بال کیسے بنائے تھے یا پتلون کی کریز ٹھیک تھی یا نہیں، بلکہ یہ کہ ان کے پاس میری تواضع کا کیا کیا سامان موجود تھا۔ کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا تھا تو کسی کے پاس زنجیر، کوئی لوہے کی راڈ اکھاڑ لایا تھا تو کوئی گھر سے بلا اور ہاکی اٹھا لایا تھا۔
میں نے اپنے ہاتھ دیکھے جو بالکل خالی تھے۔ اس وقت تو ان میں سے بھی طاقت رخصت ہوگئی تھی۔
’’طاقت کی طرف دیکھنا حماقت ہے۔ صرف عقل ہی ان کو ہرا سکتی ہے یا یوں کہو کہ تمہیں بچا سکتی ہے۔‘‘ اندر سے آواز آئی۔ مگر عقل سوچنے کے لیے وقت مانگ رہی تھی جو اب مزید ملتا نظر نہیں آرہا تھا۔
’’فرار۔‘‘ اندر سے ترکیب آئی۔
’’تین کے لیے تو ہاتھ ہی کافی تھے، لیکن اب تو لگتا ہے پاؤں کو بھی زحمت دینا پڑے گی۔‘‘ 
میں نے بے باکانہ انداز میں کہا۔ یوٹرن لیا اور سرپٹ دوڑ لگا دی۔
وہ سب ’ارے ارے‘ کرتے رہ گئے۔ مگر شاید مجھے چھوڑنے کے موڈ میں نہیں تھے، لہٰذا فوراً ہی پیچھے دوڑ پڑے۔ اب مجھے اندازہ ہوا کہ میں دوڑنے میں بھی کوئی خاص اچھا نہیں تھا اور کیسے ہوتا۔ بھاگنے کا کوئی تجربہ بھی تو نہیں تھا۔ کبھی پڑھائی سے بھاگا نہ کام کاج سے بھاگااور نہ ہی کبھی حالات سے بھاگا۔ لہٰذا یہ بھاگنا اب بہت مشکل پڑرہا تھا۔
لڑکوں کا اور میرے درمیان فاصلہ لمحہ بہ لمحہ کم ہوتا جارہا تھا اور ان کے سامان کا شور مجھے جنگی جہازوں کی گھن گرج معلوم ہورہی تھی۔
میرے سست دوڑنے کی ایک وجہ اندر کی آوازیں بھی تھیں جنہوں نے مجھے تنگ کررکھا تھا اور ٹھیک سے بھاگنے بھی نہیں دے رہی تھیں۔ ان میں سے چیدہ چیدہ یہ تھیں۔
تم جو اتنا بھاگ رہے ہو تو آخر بھاگ کر جاؤ گے کہاں؟ اور اگر کہیں وقتی طور پر دبک بھی گئے تو تمہارا گھر تو انہوں نے دیکھا ہی ہوا ہے۔
اور اگر گھر میں انہوں نے کسی وجہ سے ہاتھ نہ ڈالا تب بھی کب تک تم ان سے چھپو گے، آخر محلے میں تو نکلو گے ہی، کیا بزدل بن کر رہوگے۔
اول تو یہ تمہیں اگلے پینتیس سیکنڈ میں آلیں گے، لہٰذا اس کے اندر اندر کوئی ترکیب سوچو جو اس طرح بھاگنے کی بزدلانہ، نہ ہو۔
’’ تم چپ ہوگے تو ہی میں کچھ سوچوں گا نا اور اطلاعاً عرض ہے کہ یہ بزدلانہ ترکیب تم ہی نے بتائی تھی۔‘‘
میں بھناکر بولا۔ اندر والے سے پیچھا چھڑا کر میں نے بیرونی امداد کی تلاش شروع کی تو کچھ قریب آتی دکان پر ایک جار رکھا نظر آیا۔ یہ آٹو پارٹس کی دکان تھی اور اس جار کے اندر لوہے کے بال سپرنگ بھرے تھے۔ اگلے پانچ سیکنڈ میں میرے دماغ کے پردے پر ایک مختصر دورانیے کی فلم چل چکی تھی۔ جس میں عمار نے تسبیح کے دانے میرے کمرے کے باہر بکھیر دیئے تھے اور میں کمرے سے نکلتے ہی یوں پھسلا تھا کہ لاکھ کوشش کے باوجود سنبھل نہ پایا تھا۔
اگلے ہی لمحے بال بیئرنگ میرے ہاتھوں میں آئے اور بارش کے قطروں کی طرح سڑک پر برس گئے۔ میرے ساتوں خیر خواہ فرش چاٹنے پر مجبور ہوگئے۔ خوش نصیب تھے کہ انہیں رات کے بجاے دن میں اور آسمان کے بجاے زمین ہی پر تارے دیکھنا نصیب ہو گیا تھا۔

*۔۔۔*

تارے ہی کیا، آنکھوں کے آگے چاند سورج ناچ گئے ہوں گے۔ آخر وہ سب گرے ہی اتنی بری طرح تھے۔ مگر کیسے، یہ ایک اور معما تھا۔ کیا یہاں کوئی اور پارٹی بھی موجود تھی۔ جس نے انہیں گرایا تھا، مگر کون اور کہاں۔
سوال بڑھتے ہی جارہے تھے اور جواب کسی کا نہ تھا۔ مگر بغیر جواب کے بھی، سوالات بہت پریشان کن تھے۔ 
’’مجرم پارٹیوں کی زد میں اگر آجاتے، تو ہم بے چارے تو بے موت مارے جاتے۔‘‘
ایسی صورتحال میں تو یہاں سے نکل جانے ہی میں عافیت تھی۔ جان بچانا مقدم تھا۔ فیکٹری کے سامان کی قربانی دی جا سکتی تھی۔
لیکن تجسس کے مارے بھی جان نکلی جارہی تھی کہ یہ مجرم لوگ تھے کون۔ ایک تو چلو کارخانے ہی کے بگڑے ہوئے ملازمین ہوسکتے تھے، مگر دوسرے۔
’’ کھی کھی کھی۔‘‘ عمار کی ہنسی کی آواز آئی۔
’’ شیش۔‘‘ میں نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر چپ رہنے کا اشارہ کیا۔
’’ ان سے مت ڈریں، یہ اب نہیں اٹھ سکتے۔‘‘
’’ لیکن ان کے علاوہ کوئی اور بھی ہے جس نے انہیں گرایا ہے، شاید سائلنسر لگی بندوق سے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ انہیں بندوق سے نہیں بجلی سے گرایا گیا ہے۔ اگر یہ بلب ہوتے تو اب جل رہے ہوتے۔‘‘ جویریہ نے کہا اور ایک طرف اشارہ کرکے دکھایا۔ میں نے دیکھا بجلی کے سوئچ بورڈ سے ایک تار نکل کر گرل تک جا رہا تھا اور یہ اسی کی کارروائی تھی۔
’’ارے باپ رے، کس نے کیا یہ؟‘‘ میرے پوچھنے پر جویریہ نے عمار کی طرف اشارہ کر دیا۔ 
’’اف خدایا۔‘‘ میں سرتھام کر رہ گیا۔ یہ بچے یقیناًاتنے خطرناک ضرور تھے کہ بھائی جان جیسا ذہین آدمی بھی ان سے زچ تھا۔
’’ہائیں، تم لوگ تو میرے پیچھے اوپر آرہے تھے، اب زمین میں پڑے آرام کیوں کررہے ہو؟‘‘ ایک آواز چھت سے آئی۔ شاید وہ بچ کر چھت پر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس لیے کہ
راتیں دیں آرام کو تونے
بخشے ہیں دن کام کو تونے
جویریہ نے لہک لہک کر پڑھنا شروع کر دیا۔
’’ اور عقل دی استعمال کو اس نے، چپ ہو کر نیچے بیٹھ جاؤ، اگر وہ سیڑھیوں سے نیچے آگیا تو ہماری خیر نہیں۔‘‘ میں نے انہیں زبردستی بٹھایا۔
’’ہوں، یعنی اس کے لیے بھی کچھ سوچنا پڑے گا۔‘‘ عمار نے انگلی سر پر رکھ کر سوچنا شروع کر دیا۔
’’وہ وہ وہ باس۔۔۔‘‘ ایک زمین پر پڑا مجرم ہکلایا۔ 
’’دیکھا، ابھی تک ہے کرنٹ اس کے اندر۔‘‘ عمار خوش ہو کر بولا۔
’’ کیا وہ وہ لگا رکھی ہے۔ ایک گرل نہیں چڑھی گئی۔‘‘اوپر سے آواز آئی۔
’’ یہ ۔۔۔ یہ ۔۔۔ یہ ۔۔۔ گرل باس۔‘‘
’’لگتا ہے پورا چار سو چالیس وولٹ تھا۔‘‘ جویریہ کہہ رہی تھی۔ 
’’ان چار سو بیس لوگوں کے لیے ہونا بھی دو ہاتھ آگے ہی کا چاہیے۔‘‘
ایسے میں ہمیں باس بھی گرل پر آتا اور پھر اچھل کر گرل سے دور جاتا دکھائی دیا۔
’’چلو شکر ہے۔ اب خطرہ ہم سے دور ہے، چھپ چھپاتے یہاں سے نکل چلتے ہیں۔‘‘ میں نے ان دونوں کو چلنے کا اشارہ کیا اور وہ میرے پیچھے پیچھے آنے لگے۔ سامنے سے کمال صاحب تیز تیز چلتے آرہے تھے، میں نے انہیں بھی دائیں پلٹنے کا اشارہ کیا۔
وہ جو اچانک پلٹے تو ان کا بازو ایک اونچے اسٹول سے ٹکرا گیا۔ وہ بھی لوہے کا تھا اور اس پر اوزار بھی کئی سارے سجے ہوں گے جو دھڑا دھڑ زمین پر گر کر طبلہ بجانے لگے۔
’’واہ کیا میوزک ہے۔‘‘ عمار بولا۔
’’جل ترنگ۔‘‘ جویریہ نے وضاحت کی۔ جبکہ باہر سے آواز آئی۔
’’ ہتھیار نکال لو اور عمارت کو ہر طرف سے گھیر لو، یہاں جو کوئی بھی تھا، اس کا زندہ بچ کر جانا ہماری موت ہوگی۔‘‘ ہم چوہے دان کی طرح پھنس چکے تھے اور بہت جلد انہوں نے ہم سب کو پکڑ لینا تھا۔

*۔۔۔*

وقت بالکل نہیں تھا، بہت جلد انہوں نے اٹھنا تھا اور مجھے پکڑ لینا تھا۔
مزید بھاگنا فضول تھا۔ میں نے آٹو پارٹس کی دکان میں کسی اور ہتھیار کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔ اس مرتبہ میری نگاہ کیمیائی ہتھیار پر جا کر رکی۔ سنا تھا اس کا استعمال ممنوع ہے لیکن اس سے کئی مرتبہ سے زیادہ سنا تھا کہ ’’ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔‘‘
چشم زدن میں تیزابی پانی کی بوتل میرے ہاتھ میں تھی نہ جانے اس کا وہاں کیا استعمال تھا لیکن اس وقت تو وہ میرے لیے آب حیات کا کام کررہا تھا۔
میں نے بوتل پر اس کی تیزابیت دیکھی جو خطرناک نہ تھی۔ بس پھر کیا تھا۔ بال بیرنگ کے بعد ان لڑکوں کو تیزابی بارش کے بھی مزے کرا دیئے۔ اس وقت تک ان پر انڈیلتا رہا جب تک کہ بوتل خالی نہ ہوگئی۔
اس چال کا بھی خاطر خواہ اثر ہوا اور سب اپنے اپنے ہتھیار چھوڑ کر اپنی آنکھیں اور منھ ملنے لگے جہاں انہیں شدید جلن شروع ہو گئی تھی۔
’’تم سب کی خیریت اسی میں ہے کہ فوراً یہاں سے بھاگ جاؤ اورجا کر پانی سے منھ دھو لو۔ ورنہ کچھ اوردیر یہیں رک گئے تو کسی کو منھ دکھانے کے قابل نہ رہو گے۔‘‘ میں نے نصیحت کی۔
’’اگر انہوں نے تمہاری نصیحت نہ مانی اور جاتے جاتے تمہیں بھی منھ دکھانے کے قابل نہ چھوڑا، تو؟‘‘ اندر سے آواز آئی۔
’’ تو کیا۔۔۔ میں کبھی منھ دکھائی کی رقم اور تحائف نہ لے سکوں گا۔‘‘ میں نے جل کر جواب دیا۔
پھر فوراً ہی سوچا کہ بات تو ٹھیک ہے۔ لہٰذا بغیر ہتھیار کھڑے ہونا شیر کے آگے نوالہ رکھنے کے مترادف ہے اور شیر بھی کیسا، بھوکا اور بپھرا ہوا۔ آٹو پارٹس کی دکان اس وقت مجھے اسلحہ ڈپو دکھائی دے رہی تھی۔ اس مرتبہ میں نے آگ کی ہولی کھیلنے کا منصوبہ بنایا۔
مٹی کے تیل کے کنستر سے مگا بھر کر تیل نکالا اور دوسرے ہاتھ میں لائٹر تھام لیا۔
’’ہے کسی میں ہمت تو بڑھائے قدم آگے، پہلے وہ تیل میں نہائے گا، پھر اس تیل کو یہ لائٹر بجھائے گا۔‘‘ میں نے بجاے کچھ اور کہنے کے لائٹر آگے کرکے جلانا شروع کردیا۔
’’کھچ کھچ کھچ۔‘‘ خوفناک آواز کے ساتھ اس میں سے نکلتی چنگاریوں اور شعلوں نے ماحول پر ہیبت طاری کردی۔
لڑکے بنا لڑے ہی ایک ایک کرکے کھسکنا شروع ہو گئے، یہاں تک کہ وہاں صرف ان کا لیڈر رہ گیا۔
’’پٹ کر جاؤ گے یا دوستی کرکے؟‘‘ میں نے مگا اور لائٹر ایک طرف رکھا اور آستین چڑھاتے ہوئے بولا۔ بظاہر تو میرے اندر سے اطمینان کے آبشار بہہ رہے تھے لیکن اندر سے میری نظریں مگے اور لائٹر پر تھیں کہ ادھر اس نے کوئی حرکت کی اور ادھر میں نے انہیں اٹھایا۔
وہ خاموش ہی کھڑا رہا۔ مجھے یہ تک تو پتا نہیں تھا کہ وجہ کیا ہے ورنہ اس سے ہی کوئی بات نکالتا۔
’’ پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟‘‘ اندر سے آواز آئی۔
’’او بھائی کچھ بولو گے بھی کہ نہیں، وقت نہیں ہے میرے پاس۔‘‘ میں نے طنزیہ لہجہ اپنایا۔
وہ اب بھی ٹکر ٹکر مجھے دیکھے جارہا تھا۔ نہ جانے مجھ میں ایسا کیا تھا۔ یہ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ غصے میں دیکھ رہا تھا یا افسوس میں۔ حد تو یہ تھی کہ مجھے اس کا نام تک پتا نہ تھا۔ کیسی عجیب صورتحال تھی کہ میں ایک ایسے مسئلے میں پھنسا تھا جس میں میری جان تک جا سکتی تھی، مگر اس کے سر پیر تک کا مجھے معلوم نہیں تھا۔‘‘
ایسے میں مجھے کسی نے پیچھے سے پکڑ لیا۔میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ بھاگنے والے لڑکے راستہ گھوم کر پیچھے سے بھی آسکتے ہیں۔میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔

*۔۔۔*

’’کیا داخلی دروازہ بند ہے؟‘‘ میں نے جلدی سے پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ کمال صاحب پریشانی سے بولے۔
آپ ہی کو یہاں کی زیادہ معلومات ہیں۔ فوراً دوڑئیے اور جا کر دروازہ اندر سے بند کر لیجئے۔‘‘ میں نے انہیں ہدایات دیں۔
’’ ہم سب ہی دوڑ کر دروازے سے باہر نہ نکل جائیں۔‘‘ جویریہ نے بھی منھ کھولا۔
’’وہاں سے گاڑی تک جانے میں اور پھر گاڑی نکالنے میں کافی وقت لگے گا۔ وہ لوگ گولیاں چلا دیں گے۔ آپ تو جائیں۔‘‘ میں نے پہلے جویریہ اور پھر کمال صاحب سے کہا۔ وہ ایک بار پھر دوڑ گئے۔
’’ لیکن آخر ہم کتنی دیر اندر چھپے رہیں گے آخر کو تو وہ اندر آہی جائیں گے۔‘‘ میں نے آہستہ سے خودکلامی کی۔
’’وہ کیسے؟‘‘ عمار نے پوچھا۔
’’کوئی دروازہ توڑ کر یا کسی طرح چھت پر پہنچ کر سیدھا سیڑھیوں سے نیچے۔‘‘
’’ تو ہم چھت پر پہنچ کر انہیں اوپر چڑھنے سے روک دیتے ہیں۔‘‘ جویریہ نے چیونگم منھ میں رکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ہاں ۔ ہم ان سے کہہ دیں گے کہ نہ آؤ اور وہ نہیں آئیں گے۔‘‘ میں نے منھ بنایا۔
’’ ہم اوپر سے ان کو پتھر مارنا شروع کردیں گے۔‘‘ عمار خوش ہو کر بولا، جیسے یہ اس کا پسندیدہ مشغلہ ہو۔
’’جیسے تم کوؤں کو مارتے ہو۔‘‘ جویریہ نے اضافہ کیا۔
’’لیکن چھت پر اتنے پتھر ہوں گے بھی یا نہیں؟‘‘ میں اس ترکیب میں بالکل سنجیدہ ہوگیا۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا تھا بلکہ کنکروں کا۔
’’یہ ان بوریوں میں جو اتنا سامان بھرا ہے، یہی لے چلتے ہیں، اسی کی بوچھاڑ کردیں گے۔‘‘ جویریہ بولی۔ میں نے ایک بوری کھول کر دیکھی تو اس میں پلاسٹک کا سامان تھا۔ اس سے ان کو چوٹ نہیں پہنچائی جا سکتی تھی۔
’’ لو یہ کیمیائی ہتھیار موجود ہے ہم پتھروں کے دور کی باتیں کررہے ہیں۔‘‘ جویریہ نے آگ بجھانے والے آلے کی طرف اشارہ کیا۔
’’ ہوں زبردست ، بس اسے لے کر اوپر چلتے ہیں۔‘‘ میں نے جلدی سے ایک سلنڈر لیا اور اوپر کو دوڑا۔ جبکہ عمار اور جویریہ دوسرا لانے کی کوشش کرنے لگے۔ جب تک وہ ایک لے جانے میں کامیاب ہو ئے۔ میں ایک اور اوپر لے جا چکا تھا۔ اگلے چکر میں، میں مع کمال صاحب اوپر آیا۔
مجرم یا تو اگلے دروازے پر تھے، یا پچھلے پر۔ کمال صاحب اور جویریہ کو ایک ایک سلنڈر تھما کر پچھلی جانب کھڑا کیا،جبکہ میں اور عمار ایک ایک سلنڈر لیے اگلوں کی خیریت پوچھنے آگئے۔ 
’’ون۔۔۔ ٹو۔۔۔ تھری۔‘‘
چار سلنڈر کے ناب ایک ساتھ ٹوٹے اور پھر مجرم جھاگ اور فوم کی بارش میں ڈوبتے نظر آئے۔ 
’’واہ۔۔۔ واہ، یہ ہو ا نہ کام۔‘‘ کمال صاحب نے بچوں کی طرح خوش ہو کر تالیاں بجائیں۔
’’ناکام نہیں پاپا۔ کامیاب۔‘‘ جویریہ نے بڑی بوڑھیوں کی طرح سمجھایا۔
’’ میرے پاس پٹاخے بھی ہیں، انہیں پھوڑیں گے تو وہ سمجھیں گے کہ فائرنگ ہو رہی ہے۔‘‘ عمار نے ایک اور ہتھیار نکالا۔
’’ٹھہرو۔ میں ایک دو پتھر جمع کر لوں۔ جیسے ہی تم پٹاخہ چھوڑو گے، میں پتھر زمین یا دیوار پر ماروں گا۔تب ہی صحیح غلط فہمی پیدا ہوگی۔‘‘ میں نے جوش سے کہا۔
’’صحیح غلط فہمی۔‘‘ جویریہ نے اردو گرامر کی کلاس شروع کرنی چاہی، لیکن وقت نہ تھا، میں نے جلدی سے کچھ پتھر جمع کیے اور عمار کو اشارہ کیا۔
بس پھر کیا تھا، سچی مچ ہی کی فائرنگ شروع ہو گئی ۔ چھت سے دھماکوں کی آواز اور نیچے سے زمین اور دیوار پر سخت چیز ٹکرانے کی پٹ پٹ۔‘‘
مجرم اتھل پتھل ہوئے، گرتے پھسلتے سب ہی وہاں سے بھاگ نکلے۔
’’واہ فراز بیٹے، تم نے تو کام کر دکھایا۔‘‘ کمال صاحب نے داد دی۔
فراز بھا ئی جان ہوتے تو اس کا غذ کو پلٹ کر اس پر حساب کتاب کررہے ہوتے، یہ تو شہزاد تھا جو بھانپ گیا۔‘‘ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔
’’افسوس کہ کام آدھا ہی ہوسکا۔ چوری بچ گئی مگر مجرم بھی بچ گئے۔‘‘ میں نے مٹھیاں بھینچیں۔
’’اور ہم بھی تو بچ گئے، شکر کریں۔‘‘ جویریہ چیونگم چباتے ہوئے بولی۔
’’ اس جیا کی بچی نے آگ بجھانے والے آلے کا مشورہ دیا۔ اس لیے وہ بچ گئے، ورنہ میں تو پرنٹر کا کالا پاؤڈر نکالنے کا سوچ رہا تھا، اس سے سب مرجاتے۔‘‘ عمار نے اپنی ریسرچ بتائی۔
’’چلو چلو، تم تو پتھر مارنے کا مشورہ دے رہے تھے۔‘‘ جویریہ نے نفی کی۔
’’ جو بھی ہے اس سے یہ ثابت ہوا کہ عقل سے بڑی سے بڑی جنگ بھی جیتی جاسکتی ہے۔‘‘ کمال صاحب بولے۔
’’یہ والی جیتی تو نہیں، بلکہ ڈرا ہوئی ہے۔‘‘ عمار نے تصحیح کی۔
’’ جی نہیں، میں بالکل ڈری ہوئی نہیں ہوں، تم ہو گے ڈرے ہوئے۔‘‘ جویریہ نے جملہ اچکا۔
باتیں کرتے کرتے ہم لوگ گاڑی تک آگئے تھے، ابھی یہ گاڑی کھول کر بیٹھنے ہی والے تھے کہ ہمیں ایک کڑک دار آواز سنائی دی۔
’’ہاتھ اوپر اٹھا دو۔ خبردار جو کوئی ہلا۔‘‘ اندھیرے میں ہمیں کئی ساری بندوقوں کی چمک دکھائی دی۔ چوہے دان سے نکلنے کے باوجود ہم چوہوں کی طرح پھنس چکے تھے۔

*۔۔۔*

باہر کی کیا اندر کی بھی بولتی بند ہو گئی۔ میں جو ابھی تک شہزاد بن کر بڑے بڑے دعوے کررہا تھا۔ ایک ہی لمحے میں فراز بن کر سب بھول گیا۔ پہلے تو شاید وہ لڑکے مجھے ادھ موا کرکے چھوڑ بھی دیتے لیکن اب ان کے ساتھ جو سلوک میں کرچکا تھا۔ اس کے بعد مجھے اپنی فاتحہ سامنے نظر آرہی تھی۔کاش میں نے معاملہ کو اتنا طول دینے کے بجاے جلدی سے لیڈر سے جان چھڑائی ہوتی۔
’’بڑا شوق چڑھ رہا تھا نا دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا، اب کیا کروگے؟‘‘ اندر کا آدمی جاگا۔
’’ہمیشہ طنز ہی کرتے رہتے ہو، کبھی تو کوئی اچھا مشورہ بھی دے دیا کرو۔‘‘ میں جل کر بولا۔
’’اچھا تو فرزانہ سوچ چھوڑو اور شہزادانہ رویہ اپناؤ، یہ یاد رکھو تمہارا بحیثیت شہزاد ان پر بہت رعب بیٹھا ہوا ہے۔‘‘ اندر سے مشورہ آیا۔
’’اور جو طیش اور غصہ بھرا ہے وہ؟‘‘
’’تو ٹھیک ہے، گر پڑو ان کے قدموں پر اور رونا گڑگڑانا شروع کر دو۔‘‘ اندر سے بھی جلی بھنی آواز آئی۔
’’جلدی بتاؤ بھائی دوستی کرنی ہے یا نہیں، تاکہ میں ان کی چٹنی بنانے کا فیصلہ کروں۔‘‘ میں نے لیڈر کے سامنے اپنی بات یوں دہرائی جیسے پیچھے سے پکڑے جانے کا مجھے کوئی فرق نہ پڑا ہو۔
ابھی میرا جملہ پورا ہوا ہی تھا کہ پیچھے سے مجھے زوردار چانٹا پڑا۔ مجھے چھوٹی چھوٹی چڑیاں اپنے سر کے گرد منڈلاتی دکھائی دیں۔لیڈر بے ہنگم انداز میں ہنسنے لگا۔ ایسے جیسے کہہ رہا ہو، اب چٹنی ہماری نہیں بلکہ مربہ تمہارا بنے گا۔
’’تو میری چٹنی بنائے گا شہزادے، اپنے حمید چاچا کی؟‘‘ پیچھے سے آواز آئی۔
میں نے مڑ کر دیکھا تو میری بھی جان میں جان آئی۔ وہاں صرف ایک ہی شخص کھڑا تھا اور وہ بھی لڑنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ وہ حمید چاچا تھے۔ جن کی دکان پر کسی زمانے میں شہزاد کام کیا کرتا تھا۔
’’ نہیں چاچا، میں سمجھا پھر اس کے گرگے آگئے۔‘‘ میں نے اپنا گال سہلایا۔ دل ہی دل میں شکر ادا کررہا تھا کہ کسی نئی مصیبت سے بچا، چلو ایک تھپڑ ہی کے صدقے لیکن چاچا نے مجھے ابھی تک چھوڑا نہیں تھا۔
’’آپ میرا کندھا تو چھوڑیں۔‘‘ میں نے کندھا چھڑانے کے لیے زور لگایا۔
’’کندھا تو میں تیرا چھوڑ دوں گا، پہلے یہ بتا کہ اتنا سارا میرا سامان تونے سڑک پر پھینک دیا، اس کے پیسے کون بھرے گا؟‘‘میرے چہرے کی ساری بشاشت غائب ہوگئی۔ ایسا لگا کہ چاچا نے دوسرے گال پر بھی ویسا ہی ایک اور تھپڑ رسید کردیا ہو۔

*۔۔۔*

کامیابی کے نشے میں اس پر تو ہمارا دھیان ہی نہیں گیا کہ وہ چور کہیں دبک کر بیٹھ سکتے ہیں اور تاک لگا کر ہمیں نشانہ بنا سکتے ہیں۔سارا نشہ چور چور ہوگیا۔ اتنی ساری اٹھی ہوئی بندوقوں میں ہاتھ گرائے رکھنا ان کی توہین تھی، لہٰذا ہمیں بھی ہاتھ اٹھانے پڑگئے۔
’’یہ بھی کہہ رہے ہو کہ ہاتھ اٹھا دو اور یہ بھی کہ ہلنا نہیں۔یہ دونوں چیزیں بھلا بیک وقت کیسے ہوسکتی ہیں؟‘‘ جویریہ نے ہاتھ اٹھائے بغیر ہی اعتراض کیا۔
’’پہلے ہاتھ اٹھا دو، پھر ہلنا نہیں، سمجھی بے وقوف!‘‘ عمار نے سمجھایا۔
’’اوہ!‘‘ جویریہ نے جلدی سے کہا اور ہاتھ اٹھا دیئے۔
مجھے سوچ سوچ کر افسوس ہو رہا تھا کہ کہاں میں نے ان شریف لوگوں کو موت کے منھ میں پھنسا دیا۔ یہ تو نہ صرف بھائی جان کے محسن تھے، بلکہ مجھے بھی انہوں نے بیٹے کا سا پیار دیا تھا اور آج ہیرو بننے کے چکر میں، میں نے سب کی نیا ڈبو دی تھی۔ میری جگہ فراز بھائی جان ہوتے تو اس کاغذ کو نظر انداز کر دیتے اور یہ سب سکون سے گھر میں بیٹھے سوپ پی رہے ہوتے۔
مجھے ان کو بچانا ہوگا۔ ہر قیمت پر، چاہے میری اپنی جان ہی کیوں نہ داؤ پر لگ جائے۔‘‘ میں نے سوچا۔
’’اوپر سے کچھ لوگوں نے فائرنگ کی ہے۔ تمہارے دشمن وہ ہیں، ہم نہیں۔ ہم تو نہتے ہیں۔‘‘ میں نے غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی۔
’’ہمارا تو خیال ہے کہ وہ تم ہی ہو۔‘‘ ہنس کر کہا گیا۔
’’یقین نہ آئے تو ہماری تلاشی لے لو۔‘‘ جویریہ بولی۔ عمار اسے گھورنے لگا۔ نہ جانے اس کی جیب میں کیا کیا بھرا رہتا تھا۔ خود کو سائنسدان سمجھتا تھا۔
میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں عمار کو منع کیا کہ کسی قسم کی ہوشیاری دکھانے کی کوشش نہ کرے۔ اس وقت خود کو معصوم اور بھولا بھالا ثابت کرکے جان چھڑانی تھی۔ بھاری بوٹوں کی آواز کے ساتھ ایک ہیولہ آگے بڑھا۔ میری تو سانس ہی رکی ہوئی تھی۔ مگر عمار نے زوردار قہقہہ لگایا۔
’’ارے، یہ تو پولیس ہے۔‘‘
ہم سب نے دیکھا وہ واقعی پولیس والا تھا۔ شاید پولیس اور غنڈوں کی آواز میں اتنا فرق نہیں تھا کہ ہم پہچان پاتے۔ ہم سب نے سکون کا سانس لے کر ہاتھ نیچے کر دیے۔
’’اوئے اوپر کرو ہاتھ، ہمارے پاس مصدقہ اطلاع ہے کہ تم لوگ یہاں چوری کررہے تھے۔‘‘
’’تو تلاشی لے لیں نا کہ ہم نے کیا چوری کیا ۔۔۔ اوئی۔‘‘ جویریہ بولی۔
’’اوئی۔‘‘ اس نے عمار کے پیر مارنے پر کیا تھا۔
اس نے سرگوشی کی: ’’یہ تم تلاشی دلوانے سے باز نہیں آسکتی کیا۔ میری جیب میں جاسوس الیکٹرانک مچھر کی تفصیلات ہیں۔‘‘
’’بھئی میں نے ہی آپ کو فون کیا تھا۔‘‘ کمال صاحب سمجھاتے ہوئے بولے۔
’’تو پھر بتائیں کہاں ہیں چور؟‘‘
’’وہ سب بھاگ گئے۔‘‘ عمار جلدی سے بولا۔
’’لیکن کیسے؟‘‘ پولیس والا حیرت سے بولا تو کمال صاحب نے بے بسی سے میری طرف دیکھا، گویا وہ حقیقت حال بتانے سے لاچار ہوں۔
عمار نے اچانک اندر کی طرف دوڑ لگا دی اور بولا۔ ’’ایسے!‘‘
’’جی۔ وہ ہم نے انہیں مختلف طریقوں سے ڈرایا دھمکایا تو وہ بھاگ گئے۔‘‘ مجھے اندازہ تھا کہ وہ مختلف طریقے پولیس والوں کو بتانا اور سمجھانا آسان کام نہ تھا۔
’’ہاہاہاہا۔‘‘ پولیس والے نے زوردار قہقہہ لگایا۔
’’ذرا ہمیں بھی تو اسی طرح ڈراؤ دھمکاؤ، شاید ہم بھی بھاگ جائیں۔‘‘ وہ بولا۔
’’آئیے ہم اسی جگہ چلتے ہیں پھر ہی کچھ سمجھ آئے گا۔‘‘
کمال صاحب بولے اور پیچھے کی طرف چل دیئے ۔ ہم اور پولیس والے بھی محتاط انداز میں ان کے پیچھے ہو لیے۔ پچھواڑے میں پہنچ کر انہوں نے کہا۔
’’وہ سارے چور دراصل یہ گرل چڑھ رہے تھے۔‘‘ 
’’چلو بھئی چار جوان ذرا گرل چڑھ کر دکھاؤ۔‘‘ اس نے اشارہ کیا تو چار پولیس والے جلدی جلدی گرل چڑھنے لگے۔
’’ان کا سربراہ، ان سے پہلے ہی گرل چڑھ کر چھت پر پہنچ چکا تھا۔‘‘ میں نے بتایا۔
’’چلو میں بھی چڑھ جاتا ہوں، ابھی ناکارہ نہیں ہوا۔‘‘
’’سر کہیں یہ ان کی کوئی چال نہ ہو۔‘‘ اس کا اسسٹنٹ بولا۔
’’تم ان پر بندوقیں تانے رکھو، یہ چوزے بھلا کیا چال چلیں گے۔‘‘ اس نے طنزیہ ہنسی ہنسی اور بولا۔
’’ پھر کیا ہوا تھا؟‘‘
’’ پھر ہم نے گرل پر کرنٹ چھوڑ دیا تھا۔‘‘ میں نے بتایا۔
’’لیکن کیسے؟‘‘ وہ حیران ہو کر بولا۔
’’ ایسے!‘‘ اندر سے عمار کی آواز آئی اور پھر وہ پولیس والوں کی چیخوں میں دب گئی۔ پولیس والے پکے ہوئے آموں کی طرح دھڑدھڑ زمین پر گرنے لگے۔
’’ کیا عملی مثال دی ہے۔‘‘ جویریہ نے تالی بجائی۔
پولیس والا بھنا کر اٹھا اور کپڑوں کی گرد جھاڑتے ہوئے بولا۔
’’اب ہم بھی کچھ پریکٹیکل کرکے دکھائیں گے، لے چلو ان سب کو تھانے اور بند کر دو حوالات میں۔‘‘ اس کے غصے سے لگ رہا تھا کہ وہ جیسا کہہ رہا ہے ویسا کر بھی گزرے گا۔

*۔۔۔*

زندگی بھی کیسی عجیب ہوگئی تھی۔ ایک مسئلے سے پوری طرح نکلا نہیں تھا کہ دوسرا سر جھکاے لائن میں کھڑا ہوتا تھا۔ اب حمید چاچا کو پیسے کہاں سے دیتا۔ دور دور تک کوئی آسرا نہ تھا۔
’’دور دور تک کوئی آسرا نہیں، لیکن شہ رگ سے قریب اﷲ کا آسرا تو موجود ہے۔‘‘ اندر والا واعظ بن کر بولا۔
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے جلدی سے اس کی بات سے اتفاق کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے لیڈر کے بجاے ایک مرغا کھڑا ہے۔ 
غیبی امداد سمجھ کر میں نے اسے گردن سے پکڑا اور حمید چاچا کے سامنے لاکھڑا کیا۔
’’انہوں نے کیا تھا مجھ پر حملہ، اب یہی بھرے گا سارے پیسے۔‘‘
’’لو بھلا۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ تمہارے جو پیسے میری طرف نکلتے ہیں اس میں سے کاٹ لوں گا۔‘‘ حمید چاچا بولا۔
’’نہیں۔ بلکہ وہ پیسے سارے کے سارے میں ہی وصول کروں گا۔‘‘ میں نے شہزاد کی طرح اکڑ کر کہا۔ دل ہی دل میں اﷲ کا شکر ادا کیا کہ جس نے جاتے ہوئے پیسے بچا کر الٹا دلوا دیئے۔
اس سے پہلے کہ وہ گئے ہوئے لڑکے دوبارہ واپس ہی آجاتے یا کوئی نیا مسئلہ سر نکال لیتا، میں نے وہاں سے بھاگ لینے ہی میں عافیت سمجھی۔
گھر پہنچا تو دروازے پر شہزاد کے کچھ دوستوں کو کھڑے پایا۔
’’ ہاں بھئی شہزاد سے کچھ کام ہے؟‘‘ میرے منھ سے نکل گیا جیسا کہ میں ان سے ہمیشہ کہا کرتا تھا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ وہ سب چونک پڑے۔
’’ارے یار کیا حال ہیں، کیسے ہو؟‘‘ میں نے جلدی سے شہزاد بن کر نعرہ مارا۔
’’تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘ ایک دوست نے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔
’’ٹھیک کہاں سے ہوگی، انہوں نے دوبارہ حملہ کر دیا۔ سات لڑکے لائے تھے اس دفعہ!‘‘ میں نے لفظوں کی ہیرا پھیری سے کام چلایا کہ نام تک تو مجھے پتا نہیں تھے۔ 
’’کس نے؟‘‘
’’کیسے دوست ہو۔ دشمنوں کا نام تک نہیں پتا۔‘‘ میں نے اندر ہی اندر شہزاد کے دوستوں کو کہا، پھر بولا۔
’’ارے وہی جو پچھلی مرتبہ تین پٹ کر گئے تھے مجھ سے۔‘‘ میں نے کسوٹی کا ایک اور اشارہ دیا۔
’’اچھا! اس شیدے کے بچے نے ابھی تک پیچھا نہیں چھوڑا۔‘‘ کسی عقلمند نے اسے پہچان ہی لیا، جس کو اشارہ کافی ہوگیا تھا۔
’’ پھر آج کیا ہوا؟‘‘
’’ہونا کیا تھا، دھو ڈالا آج بھی سب کو۔‘‘ میں نے فخر سے بتایا پھر فوراً ہی شکایتی لہجہ اپنایا۔
’’اور یہ مشکل وقتوں میں تم لوگ گدھے کے سینگ کیوں بن جاتے ہو؟‘‘
’’تاکہ اچھے وقتوں میں ہم بکرے کے سینگ بن سکیں۔ چلو فوراً ہمارے ساتھ ۔۔۔ یاد نہیں کہ آج فارم ہاؤس چلنا تھا۔‘‘
’’فارم ہاؤس۔۔۔ نہیں یار، بہت تھک گیا ہوں، آرام کروں گا، تم لوگ چلے جاؤ۔‘‘ میں نے جان چھڑانی چاہی۔
’’ یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے، تم ہی نے تو ہم سب کو تیار کیا، بکنگ کرائی، اب تم یوں پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔‘‘
میں نے سر پیٹ لیا۔ شہزاد کے دشمنوں اور اس کے دوستوں کے مشغلوں نے مجھے تنگ کردیا تھا۔
سوچا تھا اتنا کچھ ہونے کے بعد گھر جا کر لمبا آرام کروں گا اور سکھ کے چند سانس لوں گا مگر وہ چیزیں کیسے لے سکتا تھا جو ابھی میرے مقدر میں تھی ہی نہیں۔
اب انہوں نے مجھے زبردستی فارم ہاؤس لے جانا تھا اور پھر مجھے ایسے ایسے کھیل تماشوں میں اور مشاغل میں گھسیٹنا تھا جن سے مجھے سخت چڑ تھی۔
مجھے تو یہ سب دیکھنا ہی زہر لگتا تھا نہ کہ اب مجھے خود یہ سب بھگتنا تھا۔ میں کانپ کر رہ گیا اور فرار کی کوئی راہ سوچنے لگا۔جس نے تھوڑی دیر پہلے کئی دشمنوں کو لمبا لٹا دیا تھا اب چند دوستوں کے آگے بالکل بے بس تھا۔ کچھ ہی دیر میں شہزاد کے دوست مجھے کسی بکرے کی طرح گھسیٹتے ہوئے لے جارہے تھے اور مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں فارم ہاؤس کے بجاے کسی تھانے میں جارہا ہوں۔

*۔۔۔*

’’کیا ہم واقعی کسی تھانے جا رہے ہیں؟‘‘ عمار نے پوچھا۔
’’ہاں بالکل، وہ تمہیں قید کرکے ویسا ہی کرنٹ کا جھٹکا لگائیں گے۔‘‘ جویریہ نے قیاس آرائی کی۔
’’ہم تو اپنی گاڑی میں جارہے ہیں، بھاگ نکلتے ہیں۔‘‘ اس نے مشورہ دیا۔
جویریہ نے خاموشی سے اپنے انگوٹھے سے پیچھے کی طرف اشارہ کردیا۔ جہاں پولیس موبائل ساتھ ساتھ آرہی تھی۔
’’ میرے پاس خطرناک پاؤڈر ہے، کہو تو پیچھے پھینک دوں، سارا منظر دھندلا کردے گا۔‘‘ عمار نے اپنی جیبیں ٹٹولیں۔
’’خبردار۔۔۔ اتنی مشکل سے تو انکل نے معافی تلافی کرکے جان چھڑائی ہے، تم پھر پھنسا دوگے۔‘‘میں نے اچک کر اس کا ہاتھ پکڑا۔
’’ جان چھڑائی ہے تو پھر تھانے کیوں جارہے ہیں؟‘‘ اس نے جویریہ کو گھورا۔
’’رپورٹ درج کرانے۔‘‘ ہم گاڑی میں ہی بیٹھے رہے، کمال صاحب رپورٹ درج کرا کر آگئے۔ عمار تو بہت ضد کررہا تھا اندر جانے کی، لیکن مجھے پتا تھا کہ اندر گیا تو ’’اندر‘‘ ہوجائے گا، اس کی حرکتیں ہی ایسی تھیں۔
مرتے دھرتے گھر پہنچے تو آنٹی کو منتظر پایا۔
’’ہاں بھئی، اکیلے اکیلے کہاں سے گھوم کر آرہے ہیں سب؟ مجھے کیوں نہیں لے کر گئے تھے؟‘‘
’’بس آپ ہی کی کمی تھی، باقی تو سب کردار موجود تھے۔ بادشاہ۔ وزیر۔ چور۔ سپاہی۔‘‘
’’تو ملکہ کو کیوں بھول گئے تھے۔‘‘ آنٹی ہنس کر بولیں۔
جویریہ اور عمار جلدی جلدی انہیں تفصیلات سنانے لگے۔ کمال صاحب اپنے کمرے کی طرف بڑھے تو میں نے بھی جانا چاہا۔
’’ارے فراز بیٹا! تم رکو، ایک کام ہے تم سے۔‘‘ 
آنٹی بولیں تو میرے دل سے بے اختیار نکلا۔ ’’خدایا خیر۔‘‘
دھڑکتے دل کے ساتھ بڑی مشکل سے میں نے روداد ختم ہونے تک صبر کیا۔
’’جی آنٹی؟‘‘ میں نے یاد دلایا۔ مبادا کہ وہ آج کے واقعات پر تبصرہ شروع کر دیں۔
’’ہاں ۔ ہاں۔ چلو بیٹا اسٹڈی روم چلو، یہاں تو ان کا شور شرابا ہی ختم نہیں ہوگا۔‘‘
’’اسٹڈی روم۔‘‘مجھے ایسا لگا گویا ٹارچر سیل کہا گیا ہو۔ میں بڑے سے بڑے خطرے میں بے دھڑک کود سکتا تھا، لیکن یہ پڑھائی لکھائی کے کمرے میں قدم رکھنا میرے بس کی بات نہیں تھی۔
’’وہ۔۔۔ ابھی تو بہت تھکن ہو رہی ہے۔ ضروری کام نہیں تو کل کرلیں گے۔‘‘
یہ ’’کل‘‘ ہی تھا جو اب تک میری مدد کررہا تھا کیونکہ یہ کبھی نہیں آتا۔ جس دن بھی اسے دیکھو یہ آگے ہی کھڑا ہوتا ہے۔
’’نہیں بیٹا، کام ضروری بھی ہے اور فوری بھی۔‘‘ مادرانہ محبت ان میں اتنی تھی کہ جی کرتا تھا کہ جان نچھاور کردوں مگر اسی محبت کے رشتہ کو قائم رکھنے کے لیے اور اپنا راز بچانے کے لیے میں اسٹڈی روم جانے سے انکاری تھا۔ سوچا ان سے کام رستہ ہی میں پوچھ لیتا ہوں۔ اگر مشکل ہوا تو کسی بہانے سے رک جاؤں گا۔ 
’’کام کیا ہے آنٹی، مجھے تجسس ہورہا ہے؟‘‘ ظاہراً میں نے کہا ورنہ حقیقتاً تو مجھے ڈپریشن ہو رہا تھا۔ 
’’تم نے مجھے ایک اچھی سی تقریر لکھ کر دینی ہے۔‘‘ انہوں نے بم پھوڑا۔ مجھے کسی بہانے کی ضرورت ہی نہ رہی۔ میں ویسے ہی بوکھلا کر پھسلا اور دھڑام سے زمین بوس ہو گیا۔ تقریر کیا مجھے تو ٹھیک سے لکھنا تک نہ آتا تھا۔ کسی بہانے سے نہ بھی لکھتا تب بھی افسوس تھا کہ جنہیں جان تک دینے کو تیار تھا۔ تھوڑا بھی پڑھنے لکھنے میں دل لگا لیا ہوتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ بظاہر میرا وجود زمین پر گرا تھا، لیکن حقیقتاً میں خود کی نظروں میں بھی گر گیا تھا۔ اب تو راز فاش ہونا یقینی تھا۔

*۔۔۔*

میرے لیے یہ ایسا ہی تھا کہ گویا مجھے جنگل میں لے جایا جا رہا ہو۔ ناجانے لوگوں کو فارم ہاؤس جا کر کیا مزہ آتا ہے۔ مجھے تو اپنے بستر کے علاوہ کہیں نیند بھی نہیں آتی۔ کمال صاحب کے یہاں لاہور گیا تھا، تو کتنا صاف ستھرا، پرسکون اور آرام دہ ماحول تھا، پھر بھی مطابقت ہوتے ہوئے کئی دن لگ گئے تھے۔ اوہ کمال صاحب۔۔۔ کتنے اچھے آدمی تھے وہ اور کیا ہی اچھے دن تھے جو میں نے وہاں گزارے۔ وہ اور آنٹی کتنی محبت سے پیش آتے تھے مجھ سے۔ یااﷲ! دنیا کے سارے لوگ ان جیسے ہوتے تو کیسا ہوتا۔ مگر دو آفت کے پرکالے بھی تو تھے وہاں، جنہوں نے میری جان عذاب کررکھی تھی۔ خیر اتنا تو برداشت کیا جا سکتا ہے۔ کیا وہ سب اب تک میرا انتظار کررہے ہوں گے؟ کتنی اچھی زندگی تھی جسے چھوڑ کر میں یہاں شہزاد بنا ہوا تھا!
’’او۔۔۔ واپس آجاشہزادے، کچھ نہیں کہا جائے گا!‘‘ کسی نے ہانک لگائی۔
’’ہاں۔۔۔ ہاں!‘‘ میں جیسے بے ہوشی سے ہوش میں آیا۔
’’کہاں کھو گئے تھے یار، انجوائے کرو سفر کو۔ کب تک یوں بوریت رہے گی۔‘‘ ایک لڑکا بولا۔
’’بس وہ ذرا تھک بہت گیا ہوں نا، شاید اس لیے۔‘‘ میں نے بہانہ بنایا۔
’’چلو بھئی ہمیں خود ہی ہلا گلا کرنے پڑے گا، ہمارا لیڈر تو آج چھٹی پر ہے۔‘‘ کسی نے اعلان کیا اور پھر وین عجیب و غریب قسم کے بے ڈھنگے گانوں اور شور سے ڈوب گئی۔ ان لڑکوں کے گلے ہی کیا کم تھے کہ کسی نے چمچ گلاس اور کسی نے دیگچی ڈھول کی طرح بجانی شروع کردی۔
دم تو میرا پہلے ہی گھٹ رہا تھا اب سر بھی پھٹنے لگا۔ کچھ دیر تو میں نے بے حد تحمل سے برداشت کیا، مگر آخر کار لاوا ابل ہی پڑا۔
’’بند کرو یہ غل غپاڑہ۔۔۔ تم لوگ زبان چلا رہے ہو یا سر پر ہتھوڑے، کچھ تو اپنی اشرف المخلوقات ہونے کا ثبوت دو۔‘‘ میں چیخ پڑا۔ سب اچانک سے تھم گئے اور مجھے یوں دیکھنے لگے گویا میں ہی کسی دوسری دنیا کی مخلوق ہوں۔ کچھ دیر کے لیے ایسی خاموشی ہو گئی کہ میں بھی گھبرا گیا۔ وہ مجھے یوں گھور رہے تھے کہ جیسے میرے شہزاد ہونے پر انہیں شک ہو گیا ہو۔ مجھے بھی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔
’’تمہارا بھانڈا کوئی اور نہیں پھوڑے گا، تم خود ہی چھوڑو گے۔ دیکھ لینا۔‘‘ اندر سے آواز آئی۔
’’جو ہتھوڑے میں اپنے دماغ پر کھا رہا تھا اس سے یہ کہیں بہتر ہیں کہ میں ایک ہی ہتھوڑا مار کر بھانڈا پھوڑ دوں۔‘‘ میں نے بھی جھلا کر کہا۔
’’تو پھر اب ڈر کیوں رہے ہو، چپ کیوں سادھ لی ہے۔ کھڑے ہو کر اعلان کرو کہ تم شہزاد نہیں بلکہ فراز ہو۔ یہ لوگ تمہارا پیچھا چھوڑیں اور اپنی راہ لیں۔‘‘ اندر والا بھی جل کر بولا۔
’’لگتا ہے، اس کی طبیعت کچھ خراب ہے۔‘‘ کسی نے اندازہ لگایا۔
’’کچھ نہیں، کافی خراب لگ رہی ہے۔ اب تم لوگ مجھے زبردستی لے جا کر خود ہی اپنی پکنک خراب کررہے ہو۔‘‘
’’اے مسٹر۔۔۔ کیا تمہاری یادداشت کمزور ہے۔ بھول گئے کہ پچھلے ہفتے کون اچھل اچھل کر سب کو فارم ہاؤس کے لیے تیار کررہا تھا۔ ہم تمہیں نہیں بلکہ تم ہم سب کو لے جارہے ہو۔‘‘ 
میں سر پکڑ کر رہ گیا۔ کس قسم کے شوق پالے تھے میرے بھائی نے۔ کہیں تو میرے جڑواں ہونے کا ثبوت دیا ہوتا۔ساتھ ہی میں یہ بھی تصور کرنے کی کوشش کرنے لگا کہ وہ اچھلتا ہوا کیسا لگتا ہوگا اور مبادا کہیں بطور شہزاد مجھے بھی اچھلنا پڑ گیا تو کیا ہوگا، کیا میں اچھل بھی پاؤں گا یا نہیں۔
’’کوئی کسی کو نہیں لے جا رہا کیونکہ وین رک چکی ہے اور فارم ہاؤس آچکا ہے۔‘‘ میں نے سکھ کا سانس لیا مگر ایک ہی لے سکا کیونکہ ڈرائیور کی آواز آئی۔
’’یہ چوکیدار رسید مانگ رہا ہے۔ اس کے بغیر اندر جانے نہیں دے گا۔‘‘
’’ہاں ہاں۔۔۔ ہم کون سا رسید دیئے بغیر اندر جا رہے ہیں، آخر سب ہی نے اس کے لیے پیسے دیئے تھے، چلو شہزاد نکالو رسید۔‘‘ کوئی بولتا چلا گیا اور مجھے ایسا لگا جیسے مجھ سے رسید نہ مانگی جا رہی ہو بلکہ پے در پے تھپڑ رسید کیے جا رہے ہوں۔

*۔۔۔*

پہاڑ سے گر کر اٹھنا آسان تھا، مگر نظروں سے گر کر نہیں۔ اسی لیے مجھے ایسا لگا کہ گرتے ہی مجھ پر منوں ٹنوں بوجھ لاد دیا گیا ہو۔ یہ سوچ بھی اٹھنے میں رکاوٹ تھی۔نہ اٹھوں گا تو پھر تقریر لکھنی پڑے گی اور لکھنے سے پہلے سوچنی بھی پڑے گی، تو اگر سوچنی ہی ہے تو اس سے جان چھڑانے کی ترکیب ہی کیوں نہ سوچوں۔
’’ارے بیٹا! دیکھ کر چلا کرو، چوٹ تو نہیں لگی؟‘‘ آنٹی نے شفقت سے پوچھا۔
دل تو چاہا کہہ دوں کہ لگی ہے لیکن پھر وہ پریشان ہوجاتیں اور بھاگ دوڑ میں لگ جاتیں، یہ مجھے گوارا نہ تھا۔ سوچا موچ کا کہہ دوں، مگر اس کا بھلا کیا فائدہ تھا، تقریر تو ہاتھ سے لکھنی تھی۔ اوہ کلائی میں بھی تو موچ آسکتی ہے۔ آخری خیال سے کچھ ڈھارس ہوئی اور میں کلائی کو موڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔
’’نہیں! سب ٹھیک ہے، بس یہ ہاتھ۔۔۔‘‘ میں نے جملہ ادھورا چھوڑ کر کلائی گھمانے کی کوشش کی۔
’’ٹھیک کہاں ہے۔ مجھے لگتا ہے جھٹکا آگیا ہے۔ ابھی فیضو بابا سے دوا لگواتی ہوں۔ وہ ماہر ہیں اس طرح کے کاموں کے۔‘‘ وہ فیضو بابا کو آواز دیتی وہاں سے دوڑ گئیں اور میں خود کو انتہائی گھٹیا تصور کرتے ہوئے ملامت کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد فیضو بابا میری کلائی کی مالش کررہے تھے، جبکہ ضرورت تو دماغ کو تھی۔
’’آنٹی! آخر آپ کو تقریر لکھوانے کے لیے میرا خیال ہی کیوں آیا؟‘‘
’’ارے، اتنی جلدی بھول گئے، پچھلی مرتبہ تو خود آپ نے بااصرار لکھ کر دی تھی۔ وہ سب لوگوں کو اتنی پسند آئی کہ اب کی بار میں نے فیصلہ کر لیا کہ میری تقریر آپ ہی لکھوگے۔‘‘ انہوں نے بتایا تو میں نے دانت بھینچ لیے۔ یہ بھی فراز بھائی جان ہی کا کارنامہ نکلا۔ انہوں نے شاید کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا تھا جس سے میں پھنس جاؤں اور میرا راز افشاں ہوجائے۔ ضرورت کیا تھی زبردستی تقریر لکھ کر دینے کی۔ بھئی پڑھے لکھے لوگ تھے، لکھ ہی لیتے خود۔ مگر ناجانے کیا ضرورت تھی اپنی علمیت اور قابلیت جھاڑنے کی۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے بارہا یہ کہا تھا: ’’جا بیل۔۔۔ شہزاد کو مار۔‘‘ 
’’ارے ہاں۔ میں تو بالکل بھول ہی گیا ، بلکہ مجھے تو اب اس کا موضوع تک یاد نہیں۔‘‘
’’ فیضو بابا۔ کلائی چھوڑیں ٹخنے کو چیک کریں، لگتا ہے چوٹ عقل پہ لگی ہے۔‘‘ جویریہ کی آواز آئی۔
’’چلو بھاگو یہاں سے فوراً۔‘‘ آنٹی نے اسے بھگایا اور پھر بولیں۔
’’یتیم بچوں سے ہمدردی پر تھا، یاد آیا؟‘‘
’’جی جی۔۔۔‘‘ یاد تو نہیں البتہ سمجھ آگیا کہ کیوں انہوں نے بااصرار لکھا ہوگا۔ اگر مجھے لکھنا آتا ہوتا تو شاید میں اور زیادہ ڈوب کر اپنی محرومیوں کا ذکر کرتا۔
’’بس اس مرتبہ بھی ملتا جلتا عنوان ہے، معذور بچوں سے ہمدردی کے متعلق لکھنا ہے۔‘‘
’’ملتا جلتا۔‘‘ میرے ذہن میں طبل بجا۔
’’آپ نے وہ تقریر کہیں سنبھال کر رکھی تھی؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’بھئی میں نے تو اسے فائل کرلیا تھا۔‘‘
’’ بس پھر ذرا وہ فائل تو لائیے۔‘‘ میں خوش ہو کر بولا۔
میرے نیم مجرمانہ ذہن میں ترکیب آگئی تھی۔ وہی ترکیب جس کی مدد سے میں نے کسی طرح پانچ جماعتیں پاس کی تھیں۔ آنٹی فائل میں صفحات پلٹتی ہوئی داخل ہوئیں۔ میں نے نپا تلا خطرہ مول لیا اور اندازے سے بولا۔
’’دیکھئے، ابتدا میں تو بچوں کا ذکر ہے وہ تو وہی رہے گا۔‘‘
’’بالکل ٹھیک اور اس کے اور ان سے متعلق شعر اور اقوال ہیں، وہ بھی ایسے ہی رہیں گے۔‘‘ انہوں نے اضافہ کیا۔
’’یہ بتائیے کہ کیا یہ تقریر اسی جگہ کرنی ہے جہاں پہلے کی تھی؟‘‘
’’نہیں، یہ تو الگ جگہ ہے۔‘‘
’’بس تو سمجھئے کہ سب کچھ وہی رہے گا، صرف ایک بنیادی تبدیلی ہوگی۔‘‘ میں نے بڑے اعتماد سے کہا۔
’’وہ کیا؟‘‘
’’یتیم بچے ماں باپ کی دولت سے محروم ہوتے ہیں اور معذور بچے اعضا کی دولت سے، محرومیاں دونوں ہی جگہ ہیں۔‘‘
’’ہوں۔۔۔ لیکن دونوں میں کافی فرق ہے۔‘‘ انہوں نے اختلاف کیا۔
بس یہ تھوڑا سا حصہ آپ خود سے بول لیجئے گا، باقی پچھلی والی تقریر کر دیجئے، یاد کرنے کی زحمت سے بھی بچ جائیں گی۔‘‘ میں نے فیصلہ سنایا۔ انہوں نے پہلے فائل کو اور پھر میری کلائی کو دیکھا اور آخر کار اثبات میں سر ہلا دیا۔
میں جان چھوٹنے اور عزت بچنے پر خدا کا شکر ادا کرنے لگا۔ ایسے میں کمال صاحب وہاں آئے اور بولے: ’’فراز بیٹا! آفس میں تمہارا کافی کام جمع ہو گیا ہے، کل سے تم آفس چلو، صبح آٹھ بجے ناشتے کی میز پر ہونا۔‘‘
انہوں نے اٹھ کر کہاتھا لیکن میرے چہرے پر بارہ بج گئے۔ یہاں تو کسی نہ کسی حیلے بہانے سے بات چھپی رہ گئی لیکن آفس کے آٹھ گھنٹے میں تو ایک منٹ نہ چھپ سکے گی۔ جب میں کوئی کام ہی نہ کر پاؤں گا تو سب کو پتا چل جائے گا کہ میں فراز نہیں ہوں۔

*۔۔۔*

’’جب تم نے یہ طے کر ہی لیا تھا کہ تم اب فراز نہیں ہو، بلکہ شہزاد ہو تو تمہیں ایک عدد زنبیل بھی حاصل کرلینی چاہیے تھی، تاکہ تم سے جو مطالبات ہوتے رہیں، وہ تم اس میں سے نکال نکال کر پورے کرسکوں۔‘‘ اندر کے آدمی نے مضحکہ اڑایا۔
’’اگر میرے پاس کوئی زنبیل آجائے تو میں اس میں سے کچھ نکالنے سے پہلے تمہیں اس کے اندر ڈالوں گا۔‘‘ میں نے تلملا کر کہا۔
’’کیسی رسید؟‘‘ میں دوستوں سے بولا۔
’’ لو۔۔۔ کر لو بات! خزانے تک پہنچنے کے بعد پوچھ رہے ہیں کونسی چابی؟‘‘
’’فارم ہاؤس کی بکنگ کی رسید، ہم سب سے تم نے زبردستی پیسے نکلوا کر جمع کیے تھے، جو تمہیں یہاں جمع کرانے تھے؟‘‘ ایک لڑکے نے یاد دلایا۔
’’ تم لوگوں کا ہی قصور ہے، مجھے موقع ہی کہاں دیا گھر پہنچنے کے بعد۔۔۔ ویسے ہی میں سات لڑکوں کی ٹھکائی کرکے آرہا تھا۔ کم از کم یاد تو دلا دیتے کہ یہاں یہ چاہیے ہوگا۔‘‘ میں شہزاد بن کر برس پڑا۔ میں نے پڑھا تھا کہ حملہ کرنا بہترین دفاع ہے، سو یہاں بالکل ٹھیک ثابت ہوا۔ سب لڑکے دم سادھ کر بیٹھ گئے۔
’’چلو، اندر چل کر بات کرتے ہیں، کوئی نہ کوئی تو ہوگا جو ہماری بات سمجھے گا۔‘‘ ایک لڑکے نے تجویز دی۔
’’اور نہیں تو کیا، اب واپس تھوڑا ہی جائیں گے ایک رسید کے لیے۔‘‘ کسی اور نے تائید کی۔
’’ٹھیک ہے چلو۔‘‘ میں نے کمر کسی اور رعب سے چلتا ہوا اندر چلا۔ آفس کا پتا کرکے ہم وہاں پہنچے۔ 
راستہ بھر میں رسید نہ لانے کے بہانے سوچتا رہا۔ گم ہوسکتی ہے یا پھر جیب سے نکل کر اڑسکتی ہے۔یا کپڑوں ہی میں دھل سکتی ہے، کچھ نہیں تو ڈکیتی میں پیسوں کے ساتھ جا سکتی ہے وغیرہ لیکن وہ تیاری ہی کیا جو میرے کام آجائے۔ جواب مکئی تھا تو سوال چنا اور وہ بھی لوہے کا۔
آفس میں موجود شخص مجھے دیکھتے ہی بولا۔ ’’لاؤ شہزاد ، وعدہ کے مطابق بقیہ پیسے دو اور رسید لے لو۔‘‘ اس کی فرمائش سن کر مجھے صرف ایک ہی چیزکا خیال آیا۔
زنبیل!
پے در پے جسمانی اور دماغی حملوں سے میں بالکل چت ہو گیا تھا اور اب مجھ میں دماغ دوڑانے کی قطعاً کوئی ہمت نہ تھی۔ میں نے سوچنا چھوڑ دیا۔ اور دوستوں کی طرف اشارہ کیا کہ اسے جواب دیں۔ ’’لالہ، تم پیسوں کی فکر نہ کرو، وہ جمع ہو گئے تھے، بس ہم لانا بھول گئے ہیں۔‘‘ لڑکے کی بات پر لالہ نے زوردار قہقہہ مارا اور بولا۔ 
’’یہ بہانہ میں نرسری کلاس میں اپنی مس کو سناتا تھا، جب ہوم ورک نہیں کیا ہوتا تھا۔‘‘ اس نے کہا۔
’’تو پھر پاس ہو گئے نرسری میں یا وہیں سے پڑھائی چھوڑ دی۔‘‘ ناچاہتے ہوئے بھی میرے منھ سے جملہ پھسل پڑا۔ لالہ مجھے خونخوار نظروں سے گھورنے لگا۔
’’ایسے نہ دیکھ لالہ! ابھی تمہیں پتا چلے گاکہ یہ کیا کرکے آرہا ہے تو تمہاری نظریں خود ہی بدل جائیں گی۔‘‘
’’ذرا میں بھی تو سنوں؟‘‘ لالہ نے کان آگے کیے۔
’’وہ شیدے کا گروپ، جس نے تمہارے فارم ہاؤس میں توڑ پھوڑ مچائی تھی، اس کے سات بندوں کی دھنائی کر کے آرہا ہے یہ۔‘‘
’’کیا سب کی دھنائی کی؟‘‘ لالہ حیرت اور خوف کے ملے جلے لہجے میں بولا۔ 
’’مطلب جان سے نہیں مارا لیکن پھر بھی بہت مارا۔‘‘ لڑکے نے وضاحت کی تو کچھ کچھ مجھے بھی سمجھ آیا۔
’’ٹھیک ہے، دے دینا پیسے بعد میں، یہ لو اجازت!‘‘ لالہ نے متاثر ہونے سے زیادہ ڈر کر ایک کاغذ ہمیں پکڑا دیا جس کی مدد سے ہماری بس فارم ہاؤس کے اندر آگئی۔ پہنچنے کی دیر تھی۔ لڑکے یوں نکل کر بھاگے جیسے اسکول کی چھٹی ہو گئی ہو یا قیدی جیل سے چھوٹے ہوں۔ نجانے ان کو ایسی کیا دلچسپیاں تھیں، جس میں سے مجھے تو ایک نظر نہ آتی۔ میرے لیے تو اب یہاں وقت گزارنا ایک مصیبت سے کم نہ تھا۔
ذرا ہی دیر میں سب لڑکے کسی نہ کسی مشغلے میں منہمک ہوگئے۔ 
’’ادھر آؤ ادھر آؤ۔‘‘ کچھ دوستوں نے مجھے جھولے پر بلانا چاہا۔
’’نا بابا نا۔‘‘ میں نے منھ بسور کر صاف انکار کر دیا۔
’’یار مجھے ذرا بال تو کرا دو۔‘‘ ایک لڑکا ہاتھ میں بلا لیے بولا۔
’’جلدی کیا ہے، پوری ٹیم جمع ہو تب کھیلنا۔‘‘ میں نے جان چھڑائی۔
آگے کیا دیکھتا ہوں کہ باقی سارے لڑکے سوئمنگ پول میں گھسے ہوئے ہیں اور عجیب عجیب تماشے کررہے ہیں۔ ایک لڑکا سکہ اچھال کر پانی میں غرق کر دیتا ہے اور پھر باقی سب غوطہ لگا کر اسے ڈھونڈتے ہیں۔ پہلے تو میں نے ان کے اس احمقانہ کھیل پر لاحول پڑھا پھر بولا۔
’’ہمارے سکے پر اسلامی جمہوریہ پاکستان لکھا ہوتا ہے۔اس کو پھینکنا بے حرمتی ہے۔‘‘
’’ہم غیر ملکی سکہ پھینک رہے ہیں۔ فکر نہ کرو اور تم بھی آکر شامل ہوجاؤ۔‘‘
’’نہیں بھئی مجھے نہیں آنا پانی میں۔‘‘ میں نے کنی کترائی۔
’’ارے ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی فارم ہاؤس آئے اور پانی میں نہیں؟‘‘
’’میرے ساتھ تو ایسا ہی ہوگا، دیکھ لینا۔‘‘ میں نے یقین سے کہا لیکن اگلے ہی لمحے میں اپنے یقین کے ساتھ سوئمنگ پول کے اندر تھا۔ پیچھے سے کسی نے مجھے زوردار دھکا دیا تھا اور کہا تھا۔
’’شہزاد جیسا اچھا تیراک اور پانی میں نہ جائے۔ یہ بھلا ہم کیسے دیکھ سکتے ہیں۔‘‘
شہزادچاہے کتنا اچھا تیراک ہو، مگر حقیقت یہ کہ مجھے تو تیراکی کی الف بے تک نہیں آتی تھی۔ میں لمحہ بہ لمحہ ڈوبتے ہوئے سطح سے قریب ہوتا جا رہا تھا۔
کتنی انوکھی بات تھی کہ دشمن لڑکے تو میرا بال بھی بیکا نہ کرپائے تھے اور دوستوں نے مجھے موت کے منھ میں دھکیل دیا تھا۔

*۔۔۔*

فیصلہ یہ نہیں کرنا تھا کہ بہانے کی کیا گنجائش ہے بلکہ یہ کرنا تھا کہ بتانے کی کب تک گنجائش ہے۔ سب سے بہتر تو یہ تھا کہ ابھی رات ہی کو بتا دیتا تو کم از کم رات سکون سے کٹ جاتی۔ مگر اتنا دھوکہ دینے پر مجھ کو گھر میں رکھا جانا یا نکال باہر کیاجانا، اس کا اندازہ نہ تھا۔ دوسری صورت یہ تھی کہ صبح ناشتے کی میز پر بتایا جاتا، اس طرح بھی بات گھر ہی میں رہ جاتی ورنہ اگر آفس پہنچ جاتے تو وہاں نہ جانے کس قسم کے لوگ ہوتے اور میرے اس بہروپ پر نہ جانے کیا سزا تجویز کرتے جلدی کا کام شیطان کا کام ہوتا ہے۔ لہٰذا رات کو بتانے کا فیصلہ ناشتے تک مؤخر کیا اور آفس جا کر بتانا بہت دیر تھی، جس میں اندھیر ہوتی ہے لہٰذا اس تک بھی بات نہ ٹالی۔ صبح ناشتے کی میز پر مجھے حقیقت حال بتانی تھی۔ رات کاٹی خدا خدا کرکے!
مقررہ وقت سے پہلے ہی میں ناشتے کی میز پر موجود تھا۔ ایک ایک کرکے باقی لوگ بھی آگئے۔ رات بھر میں، میں نے جو جملہ تیار کیا تھا وہ یہ تھا۔
’’میں فراز نہیں بلکہ ان کا جڑواں بھائی شہزاد ہوں۔‘‘ اس کے آگے کا سب کچھ میں نے حالات پر چھوڑ دیا تھا۔ سب جلدی جلدی ناشتہ کررہے تھے، جب کہ میرے حلق سے ایک نوالہ نہیں اتر رہا تھا۔
’’بھئی ہمارے فراز بیٹے نے ہاتھ میں چوٹ ہونے کے باوجود میرے لیے ایک شاندار تقریر تیار کر دی ہے۔‘‘ آنٹی نے تعریفی لہجے میں کمال صاحب کو بتایا۔
’’ارے تو کیا زبانی املا کرائی؟‘‘
’’ نہیں بس تھوڑا دماغ چلایا اور تقریر تیار۔‘‘ انہوں نے ستائش کی۔
’’بس یہ آخری پیار بھرے جملے سن لو۔ اس کے بعد تو بے نقط کے جملے ہی سہنے پڑیں گے۔‘‘ میں نے خود سے کہا۔
’’بھئی ہم کیا بتائیں۔ اس نے تو آفس میں بھی ایسی جگہ بنالی ہے کہ اس کی غیر موجودگی میں کئی رپورٹیں رک گئیں۔‘‘ کمال صاحب نے بھی تعریف کی تو میرا سر ندامت سے اور جھک گیا۔
’’جگہ کیسے بنائی ہے بابا، جیسے چوہے اپنا بل بناتے ہیں؟‘‘ جویریہ نے طنز کیا۔
’’ نہیں، جیسے شہری کسی غار میں سکونت اختیار کرتے ہیں۔‘‘
’’یاخدایا، آج ہی میں اپنی حقیقت بتانے جا رہا ہوں تو آج موضوع مجھ ہی پر ٹکا ہوا ہے، ہرا گلا جملہ میرے ارادوں کو کمزور کرتا جا رہا تھا مگر مجھے یہ احساس بھی تھا کہ اگر ابھی نہ بتایا تو آفس جا کر بڑی اجتماعی بے عزتی ہوگی۔ کافی ہمت جمع کرکے میں جملے کو دماغ سے اتار کر زبان تک لایا ہی تھا کہ آنٹی بولیں۔
’’ارے بیٹا! تم ٹھیک سے کھا کیوں نہیں رہے ہو؟‘‘ میں نے سوچا۔ جو اب کے بجاے جملہ ہی بول دوں مگر اس سے پہلے ہی جویریہ بولی۔
’’لگتا ہے انہیں آملیٹ میں نمک مرچ کم لگ رہا ہے۔ یہ لیں۔‘‘ اس نے فوراً نمک دانیوں کا سیٹ میری طرف بڑھا دیا۔ اس وقت تک ہمت پھر ٹوٹ چکی تھی۔ میں موقع ہی تلاش کرتا رہ گیا اور سب کا ناشتہ اختتام کے قریب ہو گیا۔ سوچا پانی پی کر ایک آخری کوشش کروں۔ پانی کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ عمار بولا۔
’’ارے آپ نے اتنا سارا نمک گرا دیا۔‘‘
اس نے اشارہ کیا تو میں نے دیکھا کہ میری پلیٹ سے کچھ ہی آگے واقعی کچھ نمک گرا ہوا ہے۔ میں نے حیرت سے اسے انگلی سے اٹھایا کہ چکھ کر دیکھوں کیا واقعی نمک ہے۔
’’نہیں نہیں! گندہ ہو گیا ہے کھائیں مت۔‘‘ اس نے چیخ کر منع کیا۔
’’بہرحال، یہ مجھ سے نہیں گرا۔‘‘ میں نے دھیمے سے کہا۔
اور دوبارہ پانی کے گلاس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ ابھی پانی کا گلاس میرے ہاتھ میں آیا ہی تھا کہ عمار جلدی سے اٹھ کر میرے پاس سے گزرا اور میری کہنی پر ایک زوردار ٹہوکا دیا۔ پانی چھلک کر میرے ہاتھ پر بہا اور مجھے یوں لگا کہ میں نے اپنی انگلی آگ میں ڈال دی ہو۔

*۔۔۔*

لگتا تو یہی تھا کہ موت میرے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑگئی ہے۔ غنڈوں کے ہاتھوں نہ آسکی تو دوستوں کی آڑ میں حملہ کر بیٹھی۔ 
؂اپنوں نے مجھے مارا، غیروں میں کہاں دم تھا
البتہ ڈوب میں ایسی جگہ رہا تھا جہاں پانی ’’کم‘‘ نہ تھا۔
’’ہاں بھئی، اندر والے، مرتے وقت کی دعا تو بتا دو تاکہ چین سے مرسکوں، اب کیوں چپ بیٹھے ہو۔‘‘ میں نے اندر والے سے پوچھا۔
’’دعا کا تو وقت نہیں، اب تو بس کلمہ پڑھو!‘‘ اندر سے آواز آئی۔ میں نے دل ہی دل میں کلمہ پڑھا۔یہاں تک کہ پول کی سطح تک پہنچ گیا۔ پہلے سطح پر میرے پاؤں لگے پھر ہاتھ۔ مجھے لگا میں قبر میں پہنچ چکا ہوں، مگر قبر کافی بڑی اور گہری تھی، پانی سے بھری ہوئی۔ کسی کی بات یاد آئی کہ ڈوبنے والے کو بھی شہادت ہی کا کوئی درجہ ملتا ہے۔ اطمینان ہوا۔ پھر ایک ایک کرکے نظروں میں ماضی کی تصاویر چلنی شروع ہوگئیں۔
واہ پانی کے اندر کتنا سکون تھا! ماں باپ کو کبھی دیکھا نہ تھا ورنہ سب سے پہلے وہ نظر آتے۔ شہزاد مجھے دوسرے جہاں میں ماں باپ کے ساتھ ہی خوش آمدید کہتا نظر آیا۔
’’چلو، خاندان یہاں مکمل نہ تھا، تو وہاں تو مکمل ہوگا!‘‘ پھر چچا چچی اور دانیال مجھے یوں خدا حافظ کرتے دکھائی دیے گویا ٹرین میں سوار کرا کے بھیج رہے ہوں۔
’’ارے مائرہ کہاں ہے؟‘‘ میرے ذہن میں خیال کوندا۔
’’وہ تو اکیلی رہ جائے گی، پڑھ لکھ بھی نہ پائے گی، تم اس کے بھائی جان کو جان سے مار رہے ہو۔‘‘ اندر سے آواز آئی تو ایک جھٹکا لگا۔ میں نے مٹھیاں اور ہونٹ بھینچے ۔سارے جسم کی طاقت پاؤں میں جمع کی اور زوردار چھلانگ لگائی۔ لگتا تو ایسا ہی تھا کہ کسی راکٹ کی طرح نکلوں گا اور پانی کی سطح کو چیرتا ہوا ۔۔۔ہوامیں پرواز کرجاؤں گا اور مریخ ہی پر پہنچ کر دم لوں گا مگر بمشکل تمام ہاتھ ہی سطح تک پہنچ پائے۔
انسان تو فقط ارادہ اور کوشش ہی کا مکلف ہے، کرنے والی ذات تو اﷲ کی ہوتی ہے۔ اچانک ہی مجھے بے شمار ہاتھوں نے تھام لیا اور مجھے اوپر اٹھاتے چلے گئے یہاں تک کہ میں پورا کا پورا پانی سے باہر نکل آیا۔ سب سے پہلے تو میں نے سانسیں لیں اور پانی نکالا۔ منھ، آنکھ، کان ناک ہر چیز سے پانی ہی بہہ رہا تھا۔ کچھ سمجھ آرہا تھا نہ ہی دکھائی دے رہا تھا۔ 
پھر مجھے یوں لگا کہ میں کسی گھوڑے پر سوار ہوں جو دوڑتا ہی جا رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اب مجھے لڑکوں کے شور و غوغا اور نعروں کی بھی آوازیں آنی شروع ہوگئیں۔ میں نے آنکھیں مسلیں اور دھندلا دھندلا منظر بھی نظر آنا شروع ہوگیا۔ میں واقعی حرکت میں تھا، جبکہ چل بھی نہیں رہا تھا اور اردگرد شہزاد کے دوست خوشیاں منا رہے تھے۔
’’اوہ۔ اب سمجھ آیا۔ شاید میں ڈوب کر مرچکا ہوں، اور اب میری روح کو کہیں لے جایا جا رہا ہے اور میں نہ نظر آنے والے ہاتھ اور چیز پر سوار ہوں، اور میری روح شاید انہیں نظر نہیں آرہی۔ شاید یہ لڑکے میرے مرنے کا غم کر رہے ہیں جو مجھے خوشیوں کے مشابہ لگ رہا ہے۔ ویسے بھی لڑکے جب شور مچاتے ہیں تو کچھ پتا نہیں چلتا کہ سرور میں ہیں یا تکلیف میں۔ اوہ۔ یہ تو شاید واقعی سرور میں ہوں گے کیونکہ اوپر تو میری روح آئی ہے، جسم تو پانی کے اندر ہی ڈوبا ہوگا۔‘‘ میں نے سوچا پھر اپنے تئیں ہی بولا:
’’ارے نالائقو! اتنا شور مچانے سے پہلے یہ تو دیکھ لو کہ میں زندہ بھی ہوں یا مرگیا۔ تم لوگ اپنے ہلے گلے میں لگے ہوئے ہو اور ادھر میں لاش میں تبدیل ہوچکا ہوں۔ بس دو منٹ اور مزے کر لو، پھر جب میری لاش اوپرآئے گی تو مزہ آئے گا تمہیں۔ تمہاری پکنک تو غارت ہوگی ہی، ساتھ ہی پیسے بھی اب تمہیں خود ہی بھرنے پڑیں گے۔ بلکہ چچا چچی تو شاید کفن دفن بھی تم ہی لوگوں کے ذمہ ڈال دیں، آخر ڈبویا بھی تو مجھے تمہی لوگوں نے ہے، ہاہاہا!‘‘ میں روح سے بدروح میں تبدیل ہوتا گیا ، مگر پھر فوراً ہی مجھے ایک زوردار تھپڑ پڑا اور یکدم سارا منظر واضح ہوگیا۔

*۔۔۔*

تکلیف کی شدت سے میری چیخ نکل گئی اور میں انگلی کو یوں جھٹکنے لگا گویا اس میں واقعی آگ لگ گئی ہو جو اس طرح بجھ جائے گی۔ اوروں کو توشاید اندازہ نہ ہو مگر میں نے تو پھونک تک ماری۔ میں یوں جھٹکے کھا رہا تھا جیسے مجھے کرنٹ لگ گیا ہو۔
’’ارے کہیں پانی بہت گرم تو نہیں تھا؟‘‘ آنٹی تشویش سے بولیں۔
’’مجھے تو لگتا ہے کہ ماما نے پانی کی جگہ گرما گرم چاے نہ بھر دی ہو۔‘‘ جویریہ نے اندازہ لگایا۔ کمال صاحب تو اٹھ کر میرے پاس آگئے اور انگلی کو حیرت سے دیکھنے لگے۔
’’اس کی کھال تو واقعی عجیب سی ہوگئی ہے، لگتا ہے کوئی خطرناک کیمیکل لگا ہے۔‘‘ وہ بولے اور پھر ڈرتے ڈرتے پانی کا جگہ کھول کر دیکھنے لگے۔
’’لگ تو پانی ہی رہا ہے۔‘‘
’’ارے میں نے پیا تھا ابھی ناشتے سے پہلے، مجھے تو کچھ نہیں ہوا۔‘‘ جویریہ بولی اور پھر مضحکہ خیز انداز میں اپنی زبان باہر نکال کر دیکھنے کی کوشش کرنے لگی۔ جس سے اس کی آنکھیں اور شکل جوکروں جیسی ہو گئی اور بے اختیار میری ہنسی نکل گئی۔
’’تھان کی طرح لمبی ہے تمہاری زبان۔۔۔ مگر اس طرح نظر نہیں آئے گی۔‘‘ میں بولا۔ انگلی کی تکلیف کچھ کم ہوگئی تھی جبکہ کمال صاحب پانی کو قطرہ قطرہ اپنے ہاتھ پر ٹپکا کرچیک کررہے تھے۔
ایسے میں میری نظر اس نمک پر پڑی جو میز پر گرا ہوا تھا۔ 
’’اوہ!‘‘ میرے منھ سے نکلا۔ انگلی کا صرف وہی حصہ جلن محسوس کررہا تھا جہاں وہ سفوف لگا تھا۔ 
’’انکل، مسئلہ پانی میں نہیں، بلکہ اس سفوف میں ہے۔‘‘ میں نے گتھی سلجھائی۔
’’مگر یہ یہاں آیا کیسے؟‘‘ 
عمار جو آہستہ آہستہ دروازہ تک پہنچ ہی گیا تھا۔ تیر کی طرح اندر غائب ہوگیا۔
’’یہ بھی بھلا کوئی پوچھنے والی بات ہے، ایک ہی تو ہے گھر میں پاگل سائنسدان۔ بس اس کا اس ہفتے کا جیب خرچ بند۔‘‘
’’میں نے نہیں گرایا تھا یہ ڈرائی ایسڈ، پتا نہیں کہاں سے آگیا۔‘‘ عمار نے اندر جھانک کر احتجاج کیا۔
’’ٹھہرو، میں بتاتی ہوں کہاں سے آیا تھا۔‘‘ آنٹی نے کہا اور اسے چپت رسید کرنے اس کے پیچھے دوڑیں۔
’’چلو بھئی، یہ ٹام اینڈ جیری تو اس گھر میں ہوتا ہی رہتا ہے، ہم آفس چلتے ہیں۔‘‘ انکل بھی یہ کہہ کر چل دیے اور میں ایک بار پھر اپنے راز کا بار خود ہی اٹھائے ہوئے رہ گیا۔ ظاہر ہے ایسے حالات میں یہ بتانا ممکن نہ رہا تھا۔
آفس مجھے صاف صاف پھانسی دکھائی دے رہا تھا۔ وہاں جاناتھا اور سیدھا سیدھا سولی چڑھ جانا تھا۔ کیونکہ جو پہلا کام وہاں کہا جاتا، چاہے وہ کتنا ہی آسان کیوں نہ ہو، وہ مجھے نہ آتا تھا اور پھر افشا راز اور بے عزتی اور دربدری۔۔۔ میں کانپ کر رہ گیا۔
’’ایک دن اور ٹال جاؤ شہزادے، آج رات کھانے پر بتادینا۔‘‘ میں نے سوچا۔
’’ٹھیک ہے کوشش کرتا ہوں۔‘‘ میں نے عزم کیا۔ کمال صاحب جلد ہی تیار ہو کر آگئے اور حیرت سے بولے۔
’’ارے فراز، تم ابھی تک یہیں ہو، تیار نہیں ہوئے؟‘‘
’’وہ۔۔۔ انکل، ہاتھ میں موچ بھی ہے، اوپر سے جل گیا، سوچتا ہوں کوئی کام تو کرنہ سکوں گا، کیوں نہ آج آفس نہ جاؤں۔‘‘
’’بھلے کوئی کام نہ کرو، مگر چلنا تو پڑے گا ہی۔ باس کو جب میں نے بتایا تو انہوں نے تاکیداً تمہیں آج سے لانے کا کہا تھااور میں نے حامی بھی بھر لی تھی۔‘‘ کمال صاحب بولے۔
’’تو انہیں یہ بتا دیجئے گا نا!‘‘ میں نے مسمسی صورت بنا کر انہیں اپنی کلائی موڑ کر اور انگلی لٹکا کر دکھائی۔
’’کیا ہو گیا ہے فراز۔ تم بہادر لڑکے ہو۔ چلو ہمت کرو اور پانچ منٹ میں باہر آؤ، میں گاڑی میں تمہارا انتظار کررہا ہوں۔‘‘
وہ تو یہ کہہ کر باہر نکل گئے اور میرا مارے پریشانی سے دم نکلنے لگا۔

*۔۔۔*

شاید میرا دم ابھی نہیں نکلا تھا، کیونکہ ایک آواز بھی آئی۔ ’’شہزاد کے بچے، کیا اول فول بکے جارہے ہو، کس کی لاش، کیسی لاش؟‘‘ 
میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نیچے دیکھا تو مجھے شہزاد کے دوست حیرت سے تکتے نظر آئے اور مزید نیچے دیکھا تو پتا چلا کہ مجھے کسی نے اپنے کندھے پر اٹھایا ہوا ہے۔ 
’’ہائیں تو کیا میں زندہ ہوں؟ مگر کیوں، مطلب کیسے اور کندھے پر کیوں ہوں؟ اور سب میرے گرد کھڑے ہو کر شور کیوں مچا رہے ہیں؟‘‘ مجھے تو سمجھ نہ آرہا تھا۔ 
’’ارے۔۔۔ ارے مجھے نیچے اتارو، یہ مجھے اوپر کیوں اٹھایا ہوا ہے؟‘‘ میں یکدم گویا ہوش میں آگیا اور چلایا۔
’’اس لیے کہ مرا ہوا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔‘‘ کسی نے کہا۔
’’ہاں، ہاں سوا لاکھ کلو کا، مجھ سے پوچھو۔‘‘ جو لڑکا مجھے کندھے پر اٹھایا ہوا ،بولا۔
’’تو کیا میں واقعی مرا ہوا ہوں؟‘‘ میں بڑبڑایا۔
’’تم نے تو کمال کر دیا شہزاد، طبیعت خراب ہوتے ہوئے بھی ایک ہی ڈائیو میں سکہ نکال لائے! تم واقعی ہیرو ہو۔‘‘
’’کیسا سکہ؟‘‘ میں حیرت سے بولا تو ایک لڑکے نے میری بھنچی ہوئی مٹھی کھولی جس میں ایک عدد بڑا سا غیر ملکی سکہ جکڑا ہوا تھا۔
’’اوہ۔۔۔ تو اب مجھے اپنے نکالے جانے کی اور کندھے پر اٹھائے جانے کی وجہ سمجھ آئی۔ مطلب یہ کہ ابھی ماں باپ اور شہزاد سے ملاقات نہیں لکھی تھی اور چچا چچی کو مزید کچھ دن برداشت کرنا تھا۔ 
’’دھڑام۔‘‘
مجھے بے دردی سے زمین پر لڑھکا دیا گیا۔ میری کراہ نکل گئی۔ چچی چچا سے پہلے تو کچھ دیر ان لڑکوں کو اور اس فارم ہاؤس کو برداشت کرنا تھا جو میں بالکل بھول ہی گیا تھا۔ میں نے ان لوگوں سے دور رہنے ہی میں عافیت جانی اور گوشہ نشین ہو گیا ۔ بڑی مشکل اور صبر سے میں نے وقت گزارا اور کسی طرح واپسی کا وقت آیا۔ چلتے وقت فارم ہاؤس والا پھر سے سر پر سوار ہو گیا۔ 
’’ ہاں بھئی کب کرو گے حساب چکتا؟‘‘
’’ابھی، بس گھر جاتے ہی۔ یقین مانو پیسے جمع تھے، بس شہزاد لانا بھول گیا۔‘‘ ایک لڑکے نے لالہ کو تسلی اور مجھے دھمکی دی۔
’’ٹھیک ہے، یہ راجو وہیں رہتا ہے۔ یہ تمہارے ساتھ جائے گا اور ابھی پیسے وصول کرے گا!‘‘ لالہ نے ایک لڑکے کو ہمارے ساتھ کردیا۔ جو کسی بلا کی طرح میرے سر پر سوار ہوگیا۔
واپسی کے سارے راستے میں یہی سوچتا رہا کہ پیسے کہاں سے دوں گا۔ لگتا ہے شہزاد نے ان پیسوں سے لاہور جانے کا انتظام کیا تھا یا ساتھ ہی لے جارہا تھا۔ مگر وہ اس کے ساتھ ہی ختم ہوچکے تھے اور میں بالکل خالی ہاتھ تھا۔ سوچا گھر پہنچ کر چچا سے ادھار مانگ لوں گا، مگر کیا وہ مجھے ادھار دیں گے بھی؟ اس کا کوئی بھروسا نہ تھا۔خیر جو بھی ہوگا، گھر پہنچ کر دیکھا جائے گا۔ تھک ہار کر میں نے فیصلہ کیا اور دماغ کو خالی چھوڑ دیا۔ 
گھر پہنچ کر لڑکے اور راجو دروازے ہی پر رک گئے اور میں اندر پہنچا۔ یہ جان کر تو میرا حلق ہی خشک ہو گیا کہ چچا گھر میں موجود نہیں ہیں۔ چچا ہی کیا، کوئی بھی نہ تھا۔ لڑکے اور راجو تلوار بنے سر پر لٹک رہے تھے اور میرے پاس پیسوں کے انتظام کا کوئی راستہ نہ تھا۔
کسی استاد سے سنا تھا کہ اگر تھوڑی عقل استعمال کی جائے تو ہر کمزوری کو طاقت بنایا جا سکتا ہے اور ہر بدقسمتی کو خوش قسمتی۔ میں نے سوچنا شروع کیا تو اندر سے آواز آئی۔
’’کسی کا گھر میں موجود نہ ہونا مشکل نہیں بلکہ موقع ہے، چچا ہوسکتا ہے پیسے ہوتے ہوئے بھی نہ دیتے، مگر تم اب خود ہی ڈھونڈ کر حاصل کرلو۔‘‘
’’چپ کرو بے شرم، مجھے چوری کا مشورہ دے رہے ہو۔‘‘ میں نے اسے ڈانٹا۔
’’ان سے کیا چوری جو بغیر چوری ہی کے تم پر چوری کا الزام لگا چکے ہیں۔‘‘
میں تذبذب میں پڑ گیا۔ سوچا بعد میں کسی طرح واپس کردوں گا اور کون سا عیش کرنے کے لیے لے رہا ہوں، یہ تو مصیبت سر سے ٹالنے کے لیے مجبوری ہے۔
کون سا تمہارے چچا تمہارے لیے قارون کے خزانے چھوڑ کر گئے ہیں، پہلے کچھ ڈھونڈ تو لو، پھر اتنا سوچنا۔‘‘ اندر سے جلی بھنی آواز آئی۔
میں نے سرسری سی تلاش کا آغاز کیا، دوچار چیزیں کھسکائیں، طاق، دراز پر ہاتھ مارے۔ چھن کی آواز آئی، آواز بہت معمولی تھی لیکن میرے ذہن میں زوردار چھناکے ہونے لگے۔ وہ چچی کے اس صندوق کی چابی تھی، جو بچپن ہی سے ہم سب کے لیے ایک راز تھا اور آج اس راز سے پردہ اٹھانا بہت آسان ہو گیا تھا۔

*۔۔۔*

گاڑی میں بیٹھ کر تو اپنے راز سے پردہ اٹھانا اور بھی آسان تھا۔ وہاں صرف میں تھا اور کمال صاحب لیکن زبان ایسی من بھر کی ہوگئی تھی کہ ہلانا مشکل تھا اور ہونٹ ایسے خشک ہو گئے تھے کہ سانس بھی آتے جاتے اٹک رہی تھی۔
میں نے کچھ بولنے کی کوشش کی مگر ایسا لگا کہ بہت بھاری چٹان کو دھکا دے رہا ہوں، جو ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ بہت ہمت جمع کرکے بڑی مشکل سے کہا۔ ’’انکل‘‘ آواز ایسی دھیمی نکلی کہ مجھ تک بھی بمشکل پہنچی۔
’’دیکھو فراز، رات کے واقعہ کا کسی سے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’جی، وہ تو ٹھیک ہے لیکن میں آپ کو یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ۔۔۔‘‘ میں نے گفتگو کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا جملہ شروع کیا مگر کمال صاحب نے اسے کاٹ دیا۔
’’کوئی بھی مصلحت ہو یا کوئی بھی فائدہ، یہ بات آپ کسی کو نہیں بتائیں گے۔‘‘ انہوں نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔
’’نہیں انکل! میں تو دراصل یہ بتانا چاہ رہا تھا۔‘‘
’’بھئی منع کر دیا ناکہ کچھ نہیں بتانا۔ بس اب میں کچھ نہیں سنوں گا ورنہ مجھے ڈر ہے کہ تمہارے دلائل کے آگے اپنا فیصلہ نہ بدلنا پڑ جائے۔‘‘ انہوں نے ڈرے ڈرے انداز میں کہا۔
’’میں تو کوئی اور۔۔۔‘‘ میں نے کہنا چاہا۔
’’بس بھئی خاموش۔ سفر کی اور صبح کی دعائیں پڑھو۔ باتیں کرنے کے لیے تو بہت وقت ہے۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے خود ہی جلدی جلدی کچھ پڑھنا شروع کردیا مبادا کہ میں کچھ اور کہہ بیٹھوں۔ میں ایک بار پھر چاروں شانے چت تھا اور اپنی عزت کا جنازہ اٹھانے آفس کی جانب بڑھ رہا تھا۔
سنا تھا کہ بے عزتی تو اسی کی ہوتی ہے جس کی عزت ہوتی ہے۔ آفس پہنچ کر تو مجھے ایسی عزت دی جانے لگی کہ مجھے سمجھ نہ آتا تھا کہاں چھپ جاؤں۔ چپڑاسی سے لے کر آفیسر اور منیجر تک مجھ سے یوں گرمجوشی سے مل رہے تھے گویا میں ان کا بہت بڑا محسن ہوں۔ بھائی جان نرم دل بھی تھے اور ہمدرد بھی۔ یقیناًانہوں نے اپنی خوش اخلاقی سے یہاں سب ہی کو رام کر رکھا تھا۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کمال صاحب جیسے بڑے آفیسر کا قریبی ہونے کی وجہ سے بھی لوگ زیادہ اہمیت دے رہے ہوں۔ جو بھی تھا، مجھ سے بالکل ہضم نہیں ہو رہا تھا اور ہوتا بھی کیسے، میں اس کے قابل بھی تو نہ تھا۔ اب تو مجھے اپنی عزت کا جنازہ اور بھی بڑا اور پررونق نظر آیا۔ ساتھ ہی ساتھ بھائی جان کے بڑے پن کا بھی احساس ہوا۔
مہمان خصوصی کے سے انداز میں سب سے ملتا ملاتا میں اپنی۔۔۔ بلکہ بھائی جان کی میزتک پہنچا۔ بھائی جان کا تصور کرکے تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ یہی وہ کرسی تھی جس پر بھائی جان بیٹھتے ہوں گے۔ یہی وہ جگہ ہے جس کے متعلق میں ان سے کہتا تھا کہ مزے سے بیٹھ کر چاے پیتے ہیں اور عیش کرتے ہیں۔ کبھی کبھی میں بھی اس طرح کی سیٹ کے خواب دیکھتا تھا اور آج یہ مجھے ملی تھی تو ایسا لگتا تھا گویا اس میں کانٹے اگ آئے ہوں۔ وہ جگہ جسے میں بہت آرام دہ تصور کرتا تھا اب مجھے کاٹ کھانے کو دوڑ رہی تھی۔ پھر مجھے فائلوں کا ڈھیر نظر آیا۔
’’بڑی سی میز اس لیے ہے کہ اس میں بڑے بڑے بہت سے کھاتے اور فائلیں رکھی ہوتی ہیں، جن سب پر مجھے اکیلے کام کرنا ہوتا ہے اور چاے سے میں کوئی مزہ نہیں لے پاتا، اس سے تو صرف گھومتا ہوا دماغ تھوڑی دیر کے لیے درست ہوتا ہے۔‘‘ بھائی جان کا کہا ہوا جملہ میرے دماغ میں گونجا۔
میں نے آہستہ سے ایک فائل کھسکائی اور بڑی عقیدت سے اسے کھولا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اندر بے شمار کیڑے ہیں جو نمبروں کی شکل میں ادھر ادھر رینگ رہے ہیں۔ کیا پتا نمبر ہی ہوں جو میری آنکھوں کو آسمان کے تاروں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے تو کبھی سو سے اوپر گنتی نہیں گنی تھی یا پانچ چھ ہزار سے اوپر نمبر نہیں لکھا تھا۔ یہاں تو اتنے ہندسے تھے کہ اکائی دہائی گننے میں دن پورا ہوجاتا۔
’’فراز صاحب۔‘‘
میں نے گھبرا کر فائل بند کردی اور آفس میں واپس آگیا۔ پیچھے ایک باوردی چپڑاسی مودب کھڑا تھا۔ 
’’جج جی!‘‘ میں ایسے گھبرا کر بولا جیسے مجھے کوئی غلط کام کرتے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا ہو۔
’’آپ ابھی تک سیٹ پر بیٹھے کیوں نہیں؟‘‘
’’وہ۔۔۔ میں۔۔۔ سیٹ۔‘‘ میرے منھ سے بے ہنگم نکلا اور میں سیٹ کی طرف بڑھا۔
’’اب کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ اس نے کہا۔
’’ہیں۔‘‘ میرے منھ سے نکلا، کیا اسے میری حقیقت پتا چل گئی تھی ، مگر کیسے؟
’’مگر کیسے، مطلب کیوں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ایم ڈی صاحبہ! آپ کو یاد کررہی ہیں۔‘‘ میں نے آنکھیں ملیں کیونکہ چپڑاسی کی جگہ اب مجھے پھانسی گھاٹ کا جلاد کھڑا نظر آرہا تھا۔
’’چلیے جناب، کمال صاحب بھی وہیں آپ کا انتظار کررہے ہیں۔‘‘
’’چلو اچھا ہے۔‘‘ میں نے سوچا۔’’ ایک ہی بار میں اپنی کہانی سنا کر خلاصی ہوگی، ورنہ پہلے ایم ڈی پر حقیقت کھلتی، پھر کمال صاحب کو الگ سنانا پڑتا۔‘‘
میں چپڑاسی کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ ذہن میں ایک ہی بات تھی کہ ان کا پہلا سوال چاہے کوئی بھی ہو میرا جواب ایک ہی ہوگا۔
’’میں فراز نہیں بلکہ اس کا بھائی شہزاد ہوں۔‘‘
اسی کا رٹا لگاتے ہوئے ایم ڈی کے آفس میں پہنچا اور ساکت ہوگیا۔ آفس بے شک بہت بڑا اور شاندار تھا مگر مجھ پر سکتہ کردینے والی شخصیت وہ خاتون تھیں جو میز کے پیچھے ایک بڑی سی کرسی پر براجمان تھیں۔
ناجانے کیوں میرا جی چاہا کہ میں ان کے قدموں میں بیٹھ جاؤں اور ان سے پریوں اور شہزادوں کی کہانی سنوں۔ ان کی شخصیت کی جاذبیت مجھے ان کی طرف کھینچتی لے گئی۔ یہاں تک کہ میں ان کے سامنے کی کرسی پر بیٹھ گیا اور ان کی بات کا انتظار کرنے لگا۔ مجھے بے حد افسوس تھا کہ ان کی پہلی ہی بات پر میں انہیں حقیقت بتا کر معاملہ رفع دفع کرنے والا تھا۔۔۔ لیکن جی تو چاہتا تھا کہ ان کے پاس گھنٹوں بیٹھا رہوں۔
’’یااﷲ۔۔۔ کیا یہ شہر محبتوں اور الفتوں کا شہر ہے کہ یہاں جو بھی ملتا ہے اسی قسم کا ہوتا ہے۔‘‘
میں نے دل ہی دل میں سوال کیا اور ایم ڈی کی بات پر کان لگا دیے۔ جملہ میری زبان پر تیار رکھا تھا جو ان کی بات ختم ہوتے ہی میں نے بولنا تھا لیکن جیسے جیسے میں ان کی بات سنتا گیا جملہ خود بخود غائب ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ جب ان کی بات ختم ہوئی تو میں اپنا ارادہ مکمل طور پر تبدیل کرچکا تھا۔ ان کی بات ہی ایسی تھی۔

*۔۔۔*

چابی اور تالے کا فاصلہ فقط چند گز کا تھا لیکن مجھے ایسا محسوس ہوا کہ گویا برسوں کی مسافت ہو۔ ویسے تو چچی ہم دونوں بھائیوں اور اکثر اوقات مائرہ سے بھی کافی باتیں چھپا کر رکھتی تھیں، شاید مائرہ کو بھی وہ اپنی بیٹی سے زیادہ ہماری بہن سمجھتی تھیں لیکن یہ صندوق ایک ایسا راز تھا، جس سے نبیل اور مائرہ بھی ناواقف تھے۔
اس صندوق کے متعلق ہر کسی کی اپنی اپنی اختراع تھی۔ شہزاد کا خیال تھا کہ چچی پہلے سلطانہ ڈاکو وغیرہ رہی ہیں اور اسی زمانے کا لوٹا ہوا سامان ان کے اس صندوق میں بند ہے۔ اس کو وہ لوگوں میں اس لیے ظاہر نہیں کرتیں کہ مبادا کسی نے اپنی یا اپنے باپ دادا کی کوئی چیز پہچان لی تو کیا ہوگا۔ ان کا راز افشا ہوجائے گا۔
مائرہ کا خیال تھا کہ اس میں چچی کے جہیز کے برتن تھے۔ جو کہ ان کے رشتہ داروں اور والدین کی آخری نشانی تھے۔ جب آئے دن گھر میں برتن ٹوٹنا شروع ہوئے تو انہوں نے بچے کھچے اس صندوق میں بند کرکے تالا لگا دیا اور انہیں کبھی نہ استعمال کرنے کا عہد کیا۔ ان کے خیال میں اگر یہ تالا کھلا تو برتن خود ہی سے باہر نکل نکل کر ٹوٹنا شروع ہوجائیں گے۔
نبیل سمجھتا تھا کہ اس کی والدہ کا تعلق کسی شاہی خاندان سے ہے اور اس میں ان کے آباء و اجداد کے شاہی زیورات، موتی اور خزانہ محفوظ ہے۔ یہی نہیں بلکہ کچھ اور خزانے جو چھپا دیئے گئے ان کے نقشے بھی اس میں محفوظ ہیں اور چچی اس وقت کا انتظار کررہی ہیں جب ان کے خاندان کا کوئی روپوش بادشاہ یا شہزادہ واپس آئے گا تو وہ اسے اسی کے حوالے کریں گی۔ اس پر شہزاد نے کہا تھا کہ ان تمام بادشاہوں اور شہزادوں کی روحیں بھی اسی صندوق کے اندر پھڑپھڑا رہی ہیں، آئیں گی کہاں سے!
میرا اس بارے میں کوئی خاص خیال نہ تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ چچی اس میں پیسے بچا بچا کر جمع کررہی ہیں اور ایک دن وہ اس کو کھول کر اس سے اپنے وہ سارے شوق پورے کریں گی جو چچا نے پورے نہیں کیے۔ جس میں سر فہرست ایک لمبی سی کار میں بیٹھ کر دن بھر سیر کرنا تھا۔
میں نے پنکھا بند کر دیاکہ کہیں میرے صندوق کھولتے ہی بے شمار نوٹ ادھر ادھر نہ اڑ جائیں۔ بہت احتیاط سے چابی تالے میں ڈالی۔ دل بری طرح دھک دھک کررہا تھا۔ گو کہ مجھے کسی بات پر یقین نہ تھا، پھر بھی بس یہی لگتا تھا کہ ادھر میں نے صندوق کھولا اور ادھر اس میں سے بحری قزاقوں کے توتے اڑے یا برتن ادھر ادھر بدکنے اور ٹوٹنے لگے یا پھر بے شمار شاہی بدروحیں نکل کر مجھ سے چمٹیں!
’’کلک‘‘ تالا کھل گیا، مگر صندوق کھولنے کی جرات نہ ہوئی۔ پیچھے سے دروازہ کھٹکھٹانے کی اور دوستوں کی بے چین آواز آئی۔
’’او بھائی جلدی لے آؤ، ویسے ہی مارے تھکن کے برا حال ہے۔‘‘
یاد آگیا کہ میرے سر پر کچھ لوگ بہ شکل مصیبت سوار ہیں۔ ساتھ ہی یہ احساس بھی ہوا کہ میں اکیلا نہیں، کوئی مسئلہ ہوا تو آواز دے دوں گا!
صندوق کا دروازہ اٹھا لیا اور ساتھ ہی میرے ماتھے پر کئی شکنیں پڑ گئیں! ظاہر ہے صندوق میں کچھ ایسا تھا کہ جہاں تک ہم چاروں میں سے کسی کی بھی سوچ نہیں گئی تھی۔
وہ چند عامیانہ سے استعمال کے کپڑے اور اسی طرح استعمال کی کچھ چیزیں تھیں۔ جو قیمتی تو ہر گز نہ تھیں، البتہ اپنی وضع سے کئی سال پرانی معلوم ہوتی تھیں۔
’’شاید ان کپڑوں وغیرہ کے نیچے چچی نے کچھ چھپایاہوا ہو؟‘‘ اندر سے کافی دیر بعد آواز آئی۔
میں نے وہ سامان ہٹا ہٹا کر نیچے دیکھنے کی کوشش کی مگر نتیجہ بے سود۔ ہاں البتہ یہ ضرور دیکھا کہ سامان صرف زنانہ نہ تھا بلکہ کچھ مردانہ سامان بھی موجود تھا۔
’’مگر کس کا؟‘‘ ایک بہت بڑا سوال ابھرا جس کا کوئی چھوٹا سا جواب بھی ابھی میرے پاس نہ تھا۔
سامان آگے پیچھے کرتے کرتے میرے ہاتھ ایک سخت چیز لگی۔ شاید کوئی گتّا وغیرہ تھا۔ میں نے احتیاط سے اسے نکالا اور پلٹ دیا۔
اسے دیکھتے ہی مجھے اپنے بڑے سوال کا نصف جواب مل گیا۔ مگر ساتھ ہی ایک چیز کو دیکھ کر میں ٹھٹھکا۔

*۔۔۔*

انہوں نے نہ مجھ سے بھائی جان کا گزشتہ کام کرنے کو کہا نہ ہی کسی اگلے کا تقاضہ کیا۔ نہ کوئی ایسا کام کہا جس میں لکھت پڑھت شامل ہو۔ بلکہ ان کا مطالبہ تو سراسر میرے مزاج اور شوق سے مطابقت رکھتا تھا۔ وہ بولیں۔
’’فراز! آپ نے اپنی محنت اور لیاقت سے اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ میں اہم جگہ بنالی ہے۔ لیکن اس وقت میری نظر میں آپ کی اہمیت سازش کے منصوبہ کو بروقت بھانپ لینے کی وجہ سے اور بڑھ گئی ہے اور میری خواہش ہے کہ آپ اپنی اکاؤنٹس کی کرسی دوبارہ سنبھالنے سے پہلے اس سازش کے تانے بانے ڈھونڈیں، کیونکہ اس دن سارے مجرم فرار ہو گئے تھے اور وہ بہت جلد دوبارہ اپنے منصوبہ پر عمل پیرا ہوں گے۔‘‘
کمال صاحب نے ایم ڈی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’تمہیں چند دنوں تک کوئی کام نہیں دیا جائے گا، بظاہر بھلے تم اکاؤنٹس کے رجسٹروں میں گم رہنا لیکن میڈم چاہتی ہیں کہ تم سب سے مل کر اس کا سراغ لگاؤ، اس کے لیے کیا تمہارے ذہن میں کوئی ترکیب ہے؟‘‘ 
انہوں نے پوچھا تو میں خوش ہو کر بولا۔
’’ہاں ہاں کیوں نہیں۔۔۔ تعارف کے بہانے میں سب سے مل کر انٹرویو کر لیتا ہوں۔‘‘
’’تعارف۔۔۔ وہ تو تمہارا چار ماہ پہلے ہی کرا دیا گیا تھا اور گزشتہ مہینوں میں تم آفس اور فیکٹری کے بیشتر لوگوں کو اچھی طرح جان چکے ہو۔‘‘ وہ چونک کر بولے۔
’’اوہ‘‘ میں تو بھول ہی گیا تھا کہ میں شہزاد ہوں جو فراز کے روپ میں ہوں۔ میں نے گھبرا کربات بنانے کی کوشش کی۔
’’ میرا مطلب ہے کہ میری ٹرین کو حادثہ ہوا تھا نا تو اگر ایسا ہوجائے کہ ہر ایک باری باری میری تعزیت کرلے۔‘‘
’’تعزیت یا عیادت؟‘‘ ایم ڈی گھور کر بولیں۔
’’جی جی وہی، گھبراہٹ میں زبان پھسل گئی۔‘‘
’’لیکن تم زخمی کہاں ہو؟‘‘ کمال صاحب بولے۔
میں نے جلدی سے انہیں جلی ہوئی انگلی اور موچ والی کلائی مزید ٹیڑھی کرکے دکھائی۔
’’اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ تم آڈٹ کرنے کے بہانے ہر کسی سے ملوگے۔‘‘ ایم ڈی نے فیصلہ سنایا جبکہ میں دل ہی دل میں بولا: ’’کم از کم اس آڈٹ کا مطلب تو بتا دیں، تب ہی تو کرسکوں گا۔‘‘
’’میں تمہارا ٹرانسفر کرسی میں کررہی ہوں۔ وہاں دلاور صاحب تمہاری مختصر ٹریننگ بھی کریں گے اور پھر تمہیں ہر ڈیپارٹمنٹ میں بھی لے جائیں گے۔‘‘
’’کرسی؟ یہ بھلا کونسی بلا ہے؟‘‘ ایک بار پھر مجھے دل ہی دل میں سوچنا پڑا۔
’’کیا تم اس کے لیے تیار ہو؟‘‘
’’جی۔۔۔ جی ہاں!‘‘ قدرت نے جہاں اتنی مدد کرہی دی تھی تو میں کیوں پیچھے ہٹتا۔ لہٰذا حامی بھر لی۔
’’ٹھیک ہے کمال صاحب، آپ انہیں دلاور صاحب کے پاس بھیجیں، میں احکامات جاری کرتی ہوں۔‘‘
کمال صاحب اٹھ کھڑے ہوئے ، جبکہ میں بیٹھا ہی رہا۔ جی ہی نہیں چاہ رہا تھا وہاں سے اٹھنے کا۔
’’آپ۔۔۔ آپ کا نام کیا ہے؟‘‘ میں بالاخر پوچھ ہی بیٹھا۔
’’تمہیں بھلا نام سے کیا مطلب؟‘‘ کمال صاحب نے تنبیہہ کی۔
’’سعدیہ فہیم الدین۔‘
میرے چہرے پر ایک مسکراہٹ آگئی۔ نام پوچھنے سے میرا مقصد فقط ان سے بات کرنا تھا اور جواب آنے کا مطلب تھا کہ کوئی نہ کوئی احساس تو ان کے دل میں بھی تھا۔
’’تمہارے والدین کہاں ہوتے ہیں؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’جی وہ اس دنیا میں نہیں ہیں۔ مجھے تو ان کی شکل بھی یاد نہیں۔ بچپن ہی میں ایک حادثہ میں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ ‘‘ میں افسردگی سے بولا۔
’’حادثہ کس طرح کا حادثہ؟‘‘ ایم ڈی اپنی کرسی سے کھڑی ہوگئیں، جبکہ میں اور کمال صاحب انہیں حیرت سے دیکھنے لگے۔

*۔۔۔*

وہ ایک تصویر تھی۔ کسی نوبیاہتے جوڑے کی۔ رنگوں اور خستگی سے کافی پرانی لگتی تھی۔ اس کے باوجود میاں اور بیوی کے چہروں کی مسکراہٹ بالکل تازہ تھی۔ ناجانے کیوں میرے بھی چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔
سوال کا نصف جواب مجھے مل گیا تھا کہ یہ سب سامان انہی دونوں کا ہے، کیونکہ تصویر میں پہنا گیا ایک کپڑا بھی صندوق میں موجود تھا۔
لیکن یہ دونوں کون تھے۔ یہ اب اس سے بھی بڑا سوال بن گیا تھا۔
ایک لمحہ کے ہزارویں حصہ میں یہ خیال آیا کہ کہیں یہ ہمارے ماں باپ نہ ہوں مگر پھر فوراً ہی یہ سوچ کر اس کی تردید ہوگئی۔ خیال آیا کہ اگر ایسا ہوتا تو چچی کبھی بھی ان کے سامان کو یوں سنبھال کر نہ رکھتیں۔
کچھ دیر کے لیے تو میں اس تصویر میں کھو سا گیا۔ اسی میں کھوئے کھوئے اچانک مجھے ایک جھٹکا لگا اور مجھے حال میں واپس آنا پڑا۔
تصویر میں موجود خاتون نے بالکل ویسا ہی لاکٹ پہنا ہوا تھا جیسا میں نے چچی کو ہمیشہ پہنے دیکھا تھا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ گویا کہ وہ وہی تھا۔
’’ہوسکتا ہے کہ یہ تصویر والی خاتون چچی کی بہن ہو اور انہوں نے یہ لاکٹ اس کی نشانی کے طور پر پہنا ہوا ہو؟‘‘ اندر والے کی آواز آئی۔
’’تو کیا یہ ہمارے والدین ہوسکتے ہیں؟‘‘ میں نے الٹا اس سے سوال کردیا۔
’’کبھی نہیں کیونکہ اس صورت میں چچی تمہاری خالہ بھی ہوئیں اور کوئی بھی خالہ، بھلے دنیا کے کسی کونے سے تعلق رکھتی ہو، اپنے بھانجوں کے ساتھ وہ برتاؤ نہیں کرسکتی جو موصوفہ چچی صاحبہ آپ لوگوں کے ساتھ کرتی ہیں۔‘‘ اندر والے کی دلیل زوردار تھی۔
’’تو کہاں ہیں ان کی یہ بہن اب؟‘‘ میں نے پھر پوچھا۔
’’ہوسکتا ہے بچھڑ گئی ہوں، یا روٹھ ہی گئی ہوں یا مجھے کیا پتا، خود ہی چچی سے پوچھ لو۔‘‘
’’او بھائی۔۔۔ سو گئے کیا؟‘‘ باہر سے پھر صدا آئی۔
میں نے جلدی سے صندوق بند کیا۔ تصویر اپنی جیب میں سرکائی اور باہر نکل آیا۔
’’یار وہ پیسے میں نے چچا کے پاس رکھوائے تھے، مگر وہ تو گھر پر ہیں ہی نہیں، پتا نہیں کہاں رکھ گئے۔‘‘ میں نے بہانہ بنایا۔ اندر والے کی بات سے سولہ آنے استفادہ کر رہا تھا کہ کمزوری یا بدقسمتی کو خوش قسمتی میں بدلو اور اس پر بجاے پریشان ہونے کے الٹا اس کا فائدہ اٹھاؤ۔
’’ لو ۔۔۔ بھلا، اتنی دیر خوار کرایا اور جواب صفر ٹکا۔‘‘
’’میں تو پیسے لے کر ہی ٹلوں گا۔‘‘ راجو مصمم ارادہ سے بولا۔
’’تو ٹھیک ہے، کھڑے رہو آدھی رات تک، نا جانے کب آئیں گے اس کے چچا۔‘‘ کسی نے کہا۔
میں نے سکھ کا سانس لینے کا سوچا ہی تھا کہ کسی نے نعرہ لگایا۔
’’لو چلو! وہ آہی گیا۔‘‘ میں نے دیکھا ۔ دور کہیں رکشے میں چچا چچی بیٹھے چلے آرہے ہیں۔
’’ لو انہیں بھی ابھی ہی آنا تھا۔ دس منٹ اور لگا دیتے تو کیا قیامت آجاتی؟‘‘ میں نے ہونٹ کچکچاے۔
چند ہی لمحوں بعد وہ رکشا گھر کے سامنے رک چکا تھا اور چچا کھانستے ہوئے جب کہ چچی ہانپتی کانپتی اس میں سے اتر رہی تھیں۔
راجو نے آنکھوں ہی آنکھوں سے میری طرف دیکھ کر چچا کی طرف اشارہ کیا۔ شاید اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔
’’کیوں جمع ہو تم سب یہاں؟‘‘ چچا نے ڈانٹنے کے سے انداز میں پوچھا۔
’’لو! اس مزاج میں تو مل چکے پیسے۔‘‘ اندر والے نے ہاتھ جھاڑے۔
’’وہ ۔۔۔ دراصل ۔۔۔‘‘ راجو مدعا بیان کرنے لگ گیا۔
’’ابھی ابھی آرہے ہیں پکنک سے۔‘‘ میں نے جلدی سے بات کاٹی۔ ورنہ یہ سن کر کہ چچا نے میرے پیسے رکھے ہوئے ہیں ان کا پارہ اور چڑھ جاتا۔
لڑکوں کو چپ کراکے میں بھی چچی چچا کے پیچھے اندر ہو لیا اور دل ہی دل میں وہ جملہ سوچنے لگا جس سے اس وقت کسی طرح وہ پیسے مل جائیں اور یہ مصیبت کا ٹولہ سر سے ٹلے۔
لیکن قسمت بھلا مجھے موقع ہی کب دیتی ہے، اس سے پہلے کہ میں کچھ بول یا سوچ ہی پاتا، چچی نے بم پھوڑ دیا۔
اندر سے ان کی کڑک دار آواز سنائی دی۔
’’ہائیں۔۔۔ یہ میرے صندوق کا تالا کس نے کھولا؟‘‘

*۔۔۔*

مجھے رہ رہ کر چچی پر غصہ آنے لگا۔ جب کبھی اس حادثہ کا تذکرہ آتا وہ فوراً بات بدل دیتیں۔ کبھی کبھی چچا رو میں بہہ کر کچھ بتانے بھی لگتے تو بات کاٹ دیتیں اور اگر ان سے صراحتاً پوچھا جاتا کہ ہمارے والدین کا حادثہ کب ہوا؟ کیسے ہوا؟ اس کی دیگر تفصیلات کیا ہیں تو کہتیں:
’’حادثہ سے بڑا سانحہ یہ ہوا ہے کہ تم دونوں ہمارے گلے پڑ گئے ہو۔‘‘
’’جی، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مجھے اس حادثے کی کوئی تفصیل نہیں پتا۔‘‘ میں نے ایم ڈی کے سامنے لاچاری ظاہر کی۔
’’کہیں یہ وہی حادثہ تو نہیں جس میں ایک گاڑی کھمبے سے ٹکرا گئی تھی؟‘‘ ایم ڈی کافی بے چین دکھائی دیتی تھیں، ناجانے کیوں؟
’’میڈم، میں نے بتایا تو کہ مجھے چچا چچی نے یہ تک نہیں بتایا ہے کہ حادثہ گاڑی کا تھا، بس کا یا ٹرین کا!‘‘
ٹرین کا نام لیتے ہوئے مجھے بھائی جان کی الم ناک موت ایک بار پھر یاد آگئی اور میری آواز بھرا گئی۔
’’چچا، چچی۔‘‘ ایم ڈی کی آواز سے کچھ مایوسی نظر آئی۔ کچھ دیر خاموشی رہی۔
’’ میڈم، میں لے جاؤں فراز کو؟‘‘ کمال صاحب نے پوچھا۔
’’ جی! ‘‘ وہ دھیمے سے بولیں۔
میں کمال صاحب کے پیچھے پیچھے بوجھل قدموں سے نکل آیا۔ عجیب سی کیفیت ہورہی تھی۔ کبھی اپنے اوپر غصہ آتا کہ اپنے والدین کی موت تک کی معلومات نہیں اور کبھی خود ہی پر ترس آنے لگتا۔
انہوں نے چپڑاسی کو میرے ساتھ کردیا اور میں اس کے ہمراہ ایک اور چھوٹی سی عمارت تک پہنچ گیا۔ جہاں بڑا بڑا لکھا تھا۔ ’’کیوسی(QC)‘‘
’’اوہ تو وہ کرسی کے بجاے یہ بلا تھی۔‘‘ میں نے دل ہی دل میں تصحیح کی۔
اس کا مطلب مجھے ہر گز سمجھ نہ آتا اگر آگے میں ایک اردو بورڈ نہ دیکھ لیتا جس پر لکھا تھا ’’کوالٹی کنٹرول ڈیپارٹمنٹ۔‘‘
کچھ ہی دیر بعد چپڑاسی مجھے ایک الول جلول سے پروفیسر صاحب کے پاس بٹھا کر چلا گیا۔
ان کے سر کے بال کچھ بھورے اور باقی سب سفید تھے۔ آنکھوں پر موٹاسا چشمہ اور ہاتھ میں قلم تھا۔
سفید لیب کوٹ پہنے وہ بالکل ایک سائنسدان معلوم ہوتے تھے۔
’’سر دلاور!‘‘ انہوں نے تیز تیز کہا اور ہاتھ آگے بڑھایا۔
’’ کیا آپ کسی کالج یا اسکول میں پڑھاتے ہیں؟‘‘ میں نے ہاتھ ملاتے ہوئے الٹا سوال کر دیا، وجہ نام میں ’’سر‘‘ لگانا تھی۔
’’نہیں، لیکن اگر پڑھاتا تو یونیورسٹی میں پڑھاتا۔‘‘ سارے بڑے بڑے پروڈکشن منیجر میرے شاگرد ہیں۔‘‘
’’اوہ ۔۔۔ میں دراصل ۔۔۔‘‘ میں نے سمجھانے کا مشکل کام شروع کیا۔
’’ ہاں ہاں مجھے پتا ہے۔ حماقت کی انتہا ہے۔ بھلا اکاؤنٹس کا بندہ کیوسی کا آڈٹ کرے گا۔‘‘ انہوں نے حقارت سے ناک بھوں چڑھائی۔ 
’’ایسا نہیں ہے جی! پہلے میں آپ کی شاگردی میں ٹریننگ حاصل کروں گا اور کیوسی کا آدمی بن جاؤں گا۔ پھر آپ کی آڈٹ میں مدد کراؤں گا۔‘‘ میں نے سعادت مندی سے کہا۔
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے، دیکھتے ہیں تم میں کتنا مغز ہے۔ کل صبح صبح آجانا ورنہ دیر کی تو میں کام میں لگ جاؤں گا!‘‘ انہوں نے مجھے وہاں سے ٹالنے کی کوشش کی۔
میں بھی بلا چوں و چرا ں وہاں سے نکل آیا۔ نکل تو آیا لیکن اب مجھے بالکل یہ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ واپسی کا راستہ کدھر سے ہے۔ آیا تو میں چپڑاسی کے ساتھ تھاوہ بھی سوچوں میں گم گشتہ، لہٰذا رستہ کا دھیان ہی نہیں دے پایا تھا۔
’’ کہیں بھی چلتے ہیں، کوئی ملے گا تو پوچھ لیں گے۔‘‘ میں نے سوچا اور ایک طرف چل دیا۔ کیوسی کا شعبہ کچھ سنسان سنسان سا تھا۔ ابھی میں چند کمرے ہی آگے بڑھا ہوں گا کہ اندر سے ایک آواز آئی جس نے میرے پاؤں جکڑ لیے۔
اور پوری بات سنتے سنتے تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ کوئی کہہ رہا تھا۔
’’لو تجربہ کامیاب ہوگیا۔ اب اس سے کیے جانے والے قتل کو کوئی قتل نہیں کہہ سکے گا۔‘‘

*۔۔۔*

مجھ سے بہت بڑی بھول ہوئی تھی جو میں صندوق کا تالا بند کرنا بھول گیا تھا! اور یہ بھول میری ساری کارروائی کا پردہ چاک کردینے کے لیے کافی تھی۔ ابھی چچی صندوق کھولتیں تو انہیں سامان کی بے ترتیبی چیخ چیخ کر یہ بتا دیتی کہ کسی نے اس کی تلاشی لی ہے اور پھر تصویر کی غیر موجودگی بھی ایک بم گرا دیتی۔
میں نے بے اختیار اپنی جیب پر ہاتھ پھیرا تو میرا سانس اوپر کا اوپر ہی رہ گیا۔
’’بہت خوب میاں! اور وہ گرنے والا بم پھٹے گا اس وقت جب وہ تصویر آپ کی جیب سے برآمد ہوگی، اور کس پر پھٹے گا، یہ بتانے کی شاید ضرورت نہیں!‘‘ اندر والا بڑی سفاکی سے بولا۔
’’چپ رہو۔۔۔ میرا سانس تصویر کی وجہ سے نہیں رکا ہے؟‘‘ اندر والا بھی حیران رہ گیا۔
’’اس لیے کہ صندوق کی چابی بھی بے دھیانی میں میں نے اپنی جیب میں رکھ لی ہے!‘‘ میں نے دھماکہ کیا تو اندر والے کی بھی چیخ نکل گئی۔
پھر بولا ’’ بڑا کہتے ہونا کہ کمزوری کو طاقت بناؤ، بدقسمتی کو خوش قسمتی میں بدلو، اب ذرا کرکے دکھاؤ تو مانوں!
’’شہزا ۔۔۔د! ادھر آؤ۔‘‘ چچی کڑکیں
پیش خیمہ تھا کہ اس کے بعد گرجنا اور برسنا بھی ہوگا۔ میں من من بھر کے پاؤں گھسیٹتا ہوا اندر کی طرف چلا۔ اپنے آپ کو سمجھا رہا تھا کہ ظاہر یہی کرنا ہے جیسے کچھ نہ ہوا ہو۔
’’جی چچی؟‘‘ میں نے انتہائی بھولپن سے کہا۔
’’قربان جاؤں تمہارے بھولے پن پہ، ساری دنیا میں سب سے سیدھے اور شریف لڑکے تو تم ہی ہونا۔‘‘چچی کڑوے پن سے بولیں۔
’’ کیا ہوا چچا؟‘‘ میں نے چچا کی طرف دیکھا تو انہوں نے صندوق کی طرف اشارہ کر دیا۔
’’جی کیا ہوا اسے، ٹھیک ٹھاک تو رکھا ہوا ہے!‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔
’’اس کا تالا کھلا ہوا ہے، تمہاری عقل دانی کی طرح۔‘‘ 
’’ہائیں، یہ عقل دانی کیا ہوتی ہے،اور اس کے کھلے ہوئے ہونے کا کیا مطلب ہے؟‘‘ اندر والا حیرت سے پوچھنے لگا۔
’’ یہ عورتیں اپنے مطلب کی اردو بولتی ہیں اور ضرب المثل اور محاورے ایجاد کرنا ان کا محبوب مشغلہ اور بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے، اور اکثر اس کا کوئی واضح مطلب، مفہوم بھی نہیں ہوتا۔‘‘ میں نے بھنا کر جواب دیا۔
پھر لاپروائی سے کندھے اچکائے اور چچی سے بولے۔
’’آپ ہی بند کرنا بھولی ہوں گی، آپ کے علاوہ بھلا کون چھوتا ہے اس صندوق کو۔‘‘
انہوں نے ایک لمحہ تو مجھے دیکھا جیسے میری بات کے ٹھیک یا غلط ہونے کا اندازہ لگا رہی ہوں، پھر جلدی سے آگے بڑھ کر وہ تکیہ الٹ دیا جس کے نیچے سے میں نے چابی نکالی تھی۔
وہاں ظاہر ہے، کچھ نہیں تھا۔ میرا دل بہت زور زور سے دھڑکنے لگا۔ شامت بہت قریب تھی۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ اندر آنے سے پہلے میں تصویر اور چابی دونوں کو کہیں باہر ہی چھپا آتا، مگر میں تو اس شان سے مقتل کو آیا تھا کہ پھانسی کا پھندا گلے میں ہار کی طرح ڈالا ہوا تھا۔
’’جل تو، جلال تو ، آئی بلا کو ٹال تو۔‘‘
شہزاد بننے کے بعد سے یہ میرا پسندیدہ وظیفہ تھا۔
’’ذرا میرا پرس تو اٹھائیے گا؟‘‘ چچی نے چچا سے کہا۔
اس سے پہلے کہ چچا پوری بات سن ہی پاتے میں لپک کر پرس کے پاس پہنچ چکا تھا۔ آخر کو یہ سنہری موقع کیسے ہاتھ سے جانے دیتا۔
’’دیکھو کیسے میں ایک بار پھر اﷲ کی مدد سے اپنی بدقسمتی کو خوش قسمتی میں بدل رہا ہوں۔ شکر ہے کہ چابی باہر نہیں چھپائی تھی۔‘‘ میں نے اندر والے سے کہا اور انتہائی صفائی سے چابی جیب سے نکال کر چچی کے پرس میں لڑھکا دی۔ پرس لے جا کر چچی کو دیا اور مسمسی سی صورت بنا کر کھڑا ہو گیا۔
انہوں نے جلدی سے اس میں دیکھا تو چابی سامنے ہی پڑی دکھائی دی۔ اگر تکیہ کے نیچے سے نکلتی تو پھر بھی شک مجھ پر جا سکتا تھا، مگر یہ پرس تو وہ ابھی خود ہی باہر سے لے کر آرہی تھیں لہٰذا اپنا سا منھ لے کر رہ گئیں۔
’’تم نے میری غیر موجودگی میں اسے کھولا تو نہیں؟‘‘
انہوں نے کھسیانے لہجہ میں پوچھا۔
’’ابھی کھول کر دیکھ لیں پتہ چل جائے گا!‘‘ میں نے اشتیاق سے صندوق کی طرف دیکھا جیسے اس کے کھلنے اور اندر دیکھنے کے لیے بری طرح بے چین ہوں۔
’’ ابھی تمہارے سامنے تو اپنے دوستوں کے ساتھ باہر کھڑا تھا، پکنک سے ابھی آئے ہیں یہ لوگ!‘‘ چچا نے معاملہ نمٹانے کے کوشش کی۔
’’کھول کر چیک کرلیں نا‘‘ میں نے چچی سے بچوں کی طرح ضد کی تو انہوں نے جلدی سے تالا دبا دیا ۔
کلک کی آواز کے ساتھ ہی میری سانس میں سانس آئی۔ مگر باہر سے دوسری آواز نے میرے ساتھ بالکل مختلف کیا۔ راجو کہہ رہا تھا۔
’’ بھائی۔ جلدی لے آؤ پیسے!‘‘
میں نے گھبرا کر چچا کی طرف دیکھا، مگر بجائے میرا مسئلہ سننے کے انہوں نے مجھے ایک اور خنجر گھونپ دیا۔ بولے 
’’ یہ حمید چچا کیا کہہ رہے تھے تمہارے متعلق؟‘‘
لگتا تھا کہ حمید چاچا نے لڑکوں سے میری لڑائی اور اپنی دکان کے نقصان کی شکایت چچا سے کردی تھی۔ اور شاید ازالہ کے پیسوں کا تقاضہ بھی۔۔۔ ایک بار پھر لینے کے دینے پڑ گئے تھے!

*۔۔۔*

یوں کہنا زیادہ مناسب تھا کہ کھجور سے گرا اور آسمان پر اٹکا۔ نکلا تھا چوری کا سراغ لگانے اور پالا پڑ گیا تھا قتل کی سازش سے۔
’’ بھائی یہ کھیل اب بہت خطرناک ہوچکا ہے، جان تک کے لالے پڑ سکتے ہیں، بہتر ہے کہ ا س میں سے نکل جاؤ۔‘‘ میں نے دل ہی دل میں سوچا مگرفوراً ہی ایم ڈی کا خیال آیا۔ ان کے بھروسہ کا بھرم رکھنے کے لیے میں نے فوراً یہ خیال جھٹک دیا۔
جس کھڑکی سے یہ آواز آئی تھی وہ کچھ اونچائی پر تھی۔ میں دیوار پر بنے ڈیزائن کی کگر پر پاؤں ٹکا کر اونچا ہوا اور آہستہ سے کھڑکی میں جھانکا ۔ اندر دو لوگ موجود تھے۔ اچھی بات یہ تھی کہ ان دونوں ہی کی پیٹھ میری طرف تھی لہٰذا میں بغیر نظر میں آئے ان کی باتیں سن سکتا تھا، مگر اس کا نقصان یہ تھا کہ میں بھی ان کی شکل نہ دیکھ سکتا تھا۔
’’ یہ تو فوراً جا کر بھائی کو بتانا پڑے گا ، اسے اس کے بننے اور استعمال کرنے کی بہت جلدی تھی۔‘‘ ان میں سے ایک بولا تو میں نے مٹھیاں بھینچ لیں۔ کیا برا تھا اگر وہ بھائی کا نام لے لیتا۔ کم از کم ایک سرا تو میرے ہاتھ لگتا۔
’’چلو!‘‘ انہوں نے کہا اور تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئے۔ بظاہر وہ مجھ سے چند قدم ہی کے فاصلہ پر ہوں گے لیکن حقیقتاً بہت دور تھے۔ کیونکہ میں عمارت کی پچھلی جانب تھا اور وہ عمارت کی اگلی جانب نکل رہے تھے۔ جبکہ عمارت میرے دائیں اور بائیں دونوں جانب کافی پھیلی ہوئی تھی اور گھوم کر جانے میں مجھے کافی وقت لگنا تھا۔
میں زمین پر اترا اور دوڑ لگا دی۔ راستے میں یہ خیال بھی آیا کہ میں دائیں جانب سے عمارت گھوم کر سامنے پہنچوں گا، اگر وہ بائیں جانب سے نکل گئے تو شاید ہاتھ ہی سے نکل جائیں۔
میں نے رفتار اور بڑھا دی، دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ وہ باہر نکل کر دائیں طرف مڑ گئے ہوں تاکہ باآسانی مل جائیں اور شاید شکل بھی دکھ جائے۔
مگر سامنے پہنچ کر دیکھا کہ وہ دور بائیں طرف جا رہے ہیں۔ غنیمت تھا کہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوئے تھے، میں نے سانس کھینچا اور دوبارہ دوڑ لگا دی۔
یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ یہ دوڑنا بھاگنا، اچھلنا کودنا میرے لیے قطعی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ میں گھنٹہ گھنٹہ بھر انتہائی تیزی سے دوڑ سکتا تھا۔ پڑھنا لکھنا اگر میری کمزوری تھی تو جسمانی مشقت برداشت کرنا میری صلاحیت۔ کئی طرح کے کھیل کھیلنا جانتا تھا، لڑ بھڑ بھی سکتا تھا اور تو اور کئی کئی گھنٹہ باآسانی تیر بھی سکتا تھا۔
تیرنے سے مجھے اچانک یاد آیا کہ میری ایما پر میرے کئی دوستوں نے ایک فارم ہاؤس جانے کا پروگرام بنایا تھا اور جس کے لیے میں نے ان سے پیسے بھی جمع کر لیئے تھے، وہ میں نے اپنے ایک پرانے کپڑے کی جیب میں رکھے تھے، جو کہ وہیں کراچی میں رہ گئے۔
میرا اور ان دونوں کا فاصلہ بھی بہت تھوڑا رہ گیا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ یہاں لوگوں کی آمدورفت بہت کم ہے اور میں نظروں میں آسکتا ہوں۔ میں جلدی سے ایک دیوار کے قریب ہو گیا اور ایک ستون کی آڑ لے لی۔
’’ کیا ہوا۔ رک کیوں گئے؟‘‘ آگے والوں میں سے ایک بولا۔
’’ بس یونہی پیچھے دیکھ رہا تھا کہ کوئی ہمیں یہاں آتے ہوئے دیکھ تو نہیں رہا۔‘‘
’’دیکھ بھی لے تو کیا بگاڑ لے گا، اب تو بہت جلد یہاں بھائی کا راج ہونے والا ہے۔‘‘ دوسرا ہنسا اور آگے بڑھ گیا۔
اﷲ کا شکر تھا کہ عین موقع پر میں کونے میں ہو گیا تھا، ورنہ مڈبھیڑ پکی تھی۔
محتاط انداز میں تعاقب کرتا ہوا میں ان کے پیچھے ایک اسٹور نما جگہ پہنچ گیا۔ اسٹور کیا تھا کباڑ خانہ تھا، جہاں خراب مشینری اور بے کار پرزہ جات کا ڈھیر جمع تھا۔
’’تم لوگ اس وقت کیوں آئے ہو؟‘‘ اندر سے دھاڑ سنائی دی۔
’’ وہ ۔۔۔ ہم نے وہ محلول تیار کر لیا ہے جس کے کھانے سے کچھ دیر بعد حرکت قلب عام انداز میں بند ہوجائے گی۔‘‘ ایک جلدی سے بولا۔
’’لیکن تمہیں چھٹی کے وقت تک انتظار کرنا چاہیے تھا، اگر کوئی تمہارا آنا جانا دیکھ لے گا تو مسئلہ ہوجائے گا۔‘‘ دھاڑ دار آواز دوبارہ آئی۔
کوئی اور ہوتا تو اتنی خوفناک آواز سن کر بھاگ ہی نکلتا، مگر میں تجسس کے مارے عین دروازہ کے قریب لگ کر کھڑا ہو گیا۔ احتیاط سے اندر جھانکا تو دونوں نوواردوں کے ساتھ مجھے ایک موٹا تازہ غنڈہ نما آدمی دکھائی دیا۔ میری صحت کچھ ایسی رہی تھی کہ اس قسم کے لوگوں کو ایک ہی نگاہ میں پہچان جاتا تھا۔ لہٰذا میں جان گیا کہ یہ کوئی عام غنڈہ نہیں بلکہ بہت ہی چھٹا ہوا بدمعاش ہے۔
’’ میں نے تو اسے سمجھایا کہ ابھی نہ جاؤ، مگر اس نے کہا کہ بھائی کو جلدی ہے اس لیے ابھی جاؤں گا۔‘‘
’’ جلدی تو مجھے واقعی تھی، کیونکہ بڈھے کے مرنے کی عمر نکلی جارہی ہے۔ اگر اس کو ابھی نہ مارا تو پھر ناجانے وہ کب مرے۔‘‘
’’ کک کون بڈھا بھائی؟‘‘ ایک نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔
میں نے بھی کان لگا دیئے ، مگر بھائی کا جواب سن کر تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

*۔۔۔*

’’ جی کیا کہہ رہے تھے؟‘‘ ساری الف لیلہ جانتے ہوئے بھی میں نے مرے مرے انداز میں پوچھا۔ سوچ رہا تھا کہ ان کی ڈانٹ تو کسی نہ کسی طرح کھا ہی لوں گا، مگر ان پیسوں کا کیا ہوگا جو ان سے لے کر مجھے راجو کو دینے ہیں۔
’’وہ کہہ رہے تھے کہ انہوں نے کئی بار تمہیں دوبارہ دکان پر واپس کام پر آنے کو کہا ہے، مگر تم جواب ہی نہیں دیتے ہو۔‘‘
’’ہیں !!‘‘ میں چونک پڑا۔ اپنی سماعت پر یقین نہ آیا۔ کان میں انگلی کا خلال کرتے ہوئے بولا ۔
’’ کیا کہا آپ نے مطلب کیا کہا انہوں نے؟‘‘
’’وہاں سے تمہیں مناسب پیسے مل جایا کرتے تھے، پھر تم کیوں وہاں نہیں جاتے جبکہ وہ تمہیں بلا بھی رہے ہیں۔‘‘ چچا نرم لہجہ میں بولے۔
سب سے پہلے میں نے اپنی سوچوں کو یکجا کیا۔ دماغ تھوڑا جگہ پر آیا تو غور کرنا شروع کیا کہ چچا نے آخر کہا کیا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ بات سمجھ آئی اور کچھ یاد آنا بھی شروع ہوا۔
شہزاد نے بتایا تھا کہ اس نے حمید چا چا کی دکان اس لیے چھوڑی ہے کیونکہ وہ اسے پیسے پورے نہیں ادا کرتا اور اب تک اس کے کافی پیسے حمید چاچا کی طرف رہ گئے ہیں۔
’’وہ جب تک میرے پچھلے پیسے نہیں چکا دیتے میں کچھ نہیں سوچ سکتا!‘‘ میں نے دو ٹوک لہجہ میں جواب دیا۔
’’ یہ لو۔۔۔ انہوں نے پیسے بھجوا دیئے ہیں۔‘‘ چچا بولے۔
اور جیب سے کچھ پیسے نکال کر مجھے تھمانے لگے۔
چچی انہیں بری نظروں سے گھور رہی تھیں، جیسے وہ یہ پیسے خود ہڑپنے کے چکر میں ہوں اور چچا کی یہ ’’ایمانداری‘‘ انہیں ایک آنکھ نہ بھائی ہو۔
میں نے جلدی سے وہ پیسے جھپٹے مبادا کہ چچی کی تیز نظروں سے کہیں بھسم ہی نہ ہوجائیں۔
’’ ٹھیک ہے، اب میں سوچوں گا۔‘‘ میں نے باہر کی طرف دوڑ لگاتے ہوئے کہا۔ دل ہی دل میں شکر کررہا تھا کہ راجو کا منھ بند کرنے کی یہ سبیل ہوئی۔ 
باہر پہنچ کر میں نے وہ پیسے بغیر گنے ہی راجو کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔ لڑکے انتہائی بیزاری کے عالم میں مجھے برا بھلا کہہ رہے تھے۔
راجو نے پیسے گنے اور سوالیہ لہجہ سے میری طرف دیکھنے لگا جیسے کہہ رہا ہو کہ ’’یہ تو کم ہیں؟‘‘
’’ بس یہی ہیں، چپ چاپ لے جاؤ، باقی حساب پھر کبھی ہو جائے گا۔‘‘ میں نے تحکمانہ لہجہ اختیار کیا تو اس نے بھی اسی پر اکتفا کیا۔ یقیناًوہ مزید انتظار کا عذاب جھیلنے کے موڈ میں نہیں تھا۔
میں بھی یکے بعد دیگرے حوادث سے بری طرح تھک چکا تھا لہٰذا بستر پر آنکھیں بند کرکے لیٹ گیا اور گزشتہ واقعات پر غور کرنے لگا ۔ کوئی تو اچھی چیز تھی جو میرے ذہن میں واضح نہیں تھی اور کھٹک رہی تھی۔
’’ارے بھائی ، یہی تصویر کا معاملہ؟‘‘ اندر والا چمک کر بولا۔
’’نہیں، کوئی اور بات ہے۔ تم ذرا دیر چپ رہو اور مجھے سوچنے دو۔‘‘
غور کرتے کرتے آخر کار میری سوئی ایک جگہ اٹک ہی گئی۔ جب ذہن کے پردے پر پرنسپل صاحب اور وہ عجیب و غریب آدمی تھا، جو مجھے کچھ بتانا چاہتا تھا۔ اس کے الفاظ میرے کانوں میں گو نجنے لگے۔
’’ایک بڑا راز۔۔۔ تمہارا راز۔۔۔ حادثہ کا راز!‘‘
شاید اسے میرے فراز ہونے اور ٹرین کے حادثہ کے متعلق پتا تھا، لیکن اگر ایسا تھا تو پرنسپل صاحب نے اس سے دور رہنے کا کیوں کہا ۔ پھر اس کی پرنسپل صاحب کو دی گئی دھمکی بھی مجھے یاد آگئی، جب اس نے کہا تھا کہ ’’ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا، تمہاری اصلیت اور کرتوت ساری دنیا کو بتاؤں گا۔‘‘
’’آخر پرنسپل صاحب کی اصلیت کیا تھی، ان کے کرتوت کیا تھے؟‘‘ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔
’’تمہیں خود ہی اب اس کا پتا چلانا ہوگا، یا تو خود ہی یا پھر اس عجیب و غریب آدمی کو ڈھونڈ کر۔‘‘ اندر سے آواز آئی۔
’’ہاں ہاں بڑا آسان کام ہے، پرنسپل صاحب سے پوچھوں گا تو وہ تو فوراً ہی بتا دیں گے اور وہ آدمی تو گھر کے دروازہ پر کھڑا میرا انتظار کررہا ہوگاناں۔‘‘میں نے اندر والے کا مضحکہ اڑایا۔
ابھی میرا جملہ مکمل ہوا ہی تھا کہ میں بستر سے کئی انچ اوپر اچھل پڑا، کیونکہ اسی وقت دروازہ کی گھنٹی بجی تھی۔
’’ارے سنسنی خان، کیوں اتنا حیران ہوتے ہو۔ دروازہ کی گھنٹی تو کوئی بھی بجا سکتا ہے، دیکھو دانیال آیا ہوگایا پھر تمہارا ہی کوئی دوست!‘‘ اندر والے نے جھاڑا۔
میں جلدی سے اٹھا اور دھک دھک کرنے دل کے ساتھ دروازہ پر پہنچا۔ لیکن دروازہ پر کھڑے شخص کو دیکھ کر تو میرے دل نے دھک دھک کرنا بھی بند کر دیا۔

*۔۔۔*

’’ایم ڈی کا باپ!‘‘ بھائی نے سفاکی سے کہا تھا۔
میں تو سمجھ رہا تھا کہ یہ ان کا آپس کا کوئی معاملہ ہوگا کسی سپر وائزر یا چوکیدار وغیرہ کو راستے سے ہٹانا ہوگا تاکہ چوری یاواردات کرنے میں آسانی ہو، مگر یہاں تو معاملہ ہی سر سے اونچا تھا۔
’’بھائی، اس محلول کو استعمال کرنے کی کچھ احتیاطیں ہیں، کیونکہ یہ بہت جلدی ہوا میں اڑجاتا ہے اور ۔۔۔‘‘
ایک نے جلدی جلدی بتانا شروع کیا ہی تھا کہ بھائی نے اس کی بات کاٹ دی۔
’’چپ !‘‘ وہ سہم کر چپ ہو گیا۔
’’ میرا آدمی ان کے باورچی خانے میں پہلے ہی سے ملازم بھرتی ہوچکا ہے، آج رات میں اس سے تمہاری ملاقات کرا دوں گا، اسے ہی سمجھا دینا جو کچھ سمجھانا ہو۔ مجھے یہ کام کل صبح تک مکمل چاہیے!‘‘بدمعاش بھائی زہریلے انداز میں بولا۔
’’ جی۔۔۔ جی بھائی بالکل ہوجائے گا۔‘‘
’’اچھا یہ بتاؤ کہ فراز تمہارے ڈیپارٹمنٹ میں کیا کررہا تھا؟‘‘
میں اس بری طرح چونکا کہ گویا اچھل پڑا۔ یعنی اس کی نظروں میں میری اتنی اہمیت تھی کہ اس نے میرا تذکرہ کیا۔
’’یہ۔۔۔ یہ تو ہمیں نہیں پتا۔‘‘
’’تو پھر یہ بھی نہیں پتا ہوگا کہ اس سے پہلے اسے ایم ڈی نے اپنے کمرے میں بلایا تھا۔‘‘
میں سانس روک کر رہ گیا۔ وہ اس حد تک باخبر تھا، کہیں اس کا کوئی مخبر اس وقت بھی تو میرے پیچھے نہیں تھا، میرے اندر سنسنی دوڑ گئی۔
’’ بھائی آپ اس کی فکر بالکل نہ کریں، وہ تو انتہائی بودا لڑکا ہے!‘‘ ایک نے کہا تو مجھے سخت برا لگا۔
’’ہاں ہاں۔۔۔ لڑکیوں جیسا نازک مزاج ہے، چھپکلی سے ڈر گیا تھا۔ ایک دفعہ اور ایک دن جب اکاؤنٹس کے لڑکے دوڑ لگا رہے تھے تو اوّل تو تیار ہی نہیں ہو رہا تھا، اور ہوا بھی تھا تو سب سے پیچھے رہ گیا تھا، ہانپتا کانپتا۔۔۔ بے چارہ!‘‘ دوسرے نے بھی بھائی جان کامضحکہ اڑایا تو میرا خون جوش مارنے لگا۔
’’وہ بھائی جان تھے، شریف آدمی، لیکن اب تمہارا پالا شہزاد سے پڑا ہے، جسے ابھی تم نہیں جانتے۔‘‘ میں نے دل ہی دل میں انہیں دھمکی دی۔
’’اور پھر میں نے تو ہلکی سی انگڑی دے کر ایسا گرایا تھا کہ آنسو آگئے تھے بے چارے بچے کی آنکھوں میں، وہ بھی چند قطرے خون نکلنے پر۔‘‘ کیوسی کے آدمی نے جب اپنا کارنامہ بتایا تو میری آنکھوں میں تو خون اتر آیا۔
’’سب چھوڑو۔۔۔ یہ بتاؤ کسی نے تمہیں یہاں آتے ہوئے دیکھاتو نہیں؟‘‘ بھائی نے پھر تسلی چاہی۔
’’بالکل نہیں، میں نے تو ادھر مڑنے سے پہلے پیچھے مڑ کر اچھی طرح تسلی بھی کرلی تھی۔‘‘ ایک گردن اکڑا کر بولا۔
’’خیر! آئندہ یوں کام کے اوقات میں منھ اٹھائے مت چلے آنا، اگر کسی کو بھنک بھی پڑی تو تمہاری خیر نہیں۔‘‘ بھائی نے یوں چبا چبا کر کہا جیسے انہیں کچا ہی چبا جائے گا۔
میرے ذہن میں اسی وقت ایک خیال کوندا۔ پرخطر خیال، مگر میں بھلا خطرات سے ڈرنے والا کہاں تھا۔ میں نے فوراً اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کرلیا، گو کہ اس دوران اگر بھائی دیکھ لیتا تو جان کا خطرہ تھا، مگر بدلہ بھی تو بھائی جان کا لینا تھا اور ضروری تھا۔
اندر بات تقریباً ختم ہو چکی تھی اور وہ دونوں اب باہر نکلنے ہی والے تھے کہ میں نے اسٹور کا پھاٹک نما بڑا دروازہ زور سے کھینچا اور وہ چر مر کی سیٹی دار آوازیں نکالتا دھڑ سے بند ہو گیا۔ میں نے تسلی سے اسے باہر سے مقفل کیا اور واپس دوڑ لگا دی، جبکہ مجھے پیچھے سے دروازہ پیٹنے کی آوازیں آرہی تھیں۔
میں نے نہ صرف یہ واضح کردیا تھا کہ میں نے انہیں وہاں جاتے ہوئے دیکھا ہے، بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا تھا کہ میں نے ان کا تمام منصوبہ بھی سن لیا ہے۔ اب ان دونوں سے بھائی جان کا بدلہ اس بھائی نے بڑی تفصیل سے لینا تھا۔ جس کے بارے میں سوچ کر ہی میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
بہرحال، مجھے نہ صرف اتفاقاً مجرموں کا پتا چل چکا تھا، بلکہ میں نے ان کو پنجرہ میں بند بھی کردیا تھا۔
میں تیز تیز قدم اٹھاتا سیدھا ایم ڈی صاحبہ کے دفتر میں پہنچا، سیکریٹری سے لڑتا جھگڑتا کہ بہت اہم کام ہے، ایم ڈی کے سامنے پہنچ گیا اور بولا۔
’’ کمال صاحب کو بھی بلا لیجئے بہت اہم بات ہے اور انہیں یہاں سے بھیج دیجئے!‘‘ میں نے سیکٹری کی طرف اشارہ کیا۔
اس کے جاتے ہی میں نے کہا۔
’’ پرانے سامان کے اسٹور کا انچارج آپ کے والد کے قتل کی سازش کررہا تھا، میں نے اسے اور اس کے دو ساتھیوں کو وہیں بند کر دیا ہے، فوراً گارڈر کو بھیج کر انہیں گرفتار کروا لیجئے۔‘‘
میرے لحاظ سے تو انہیں فوراً چونک پڑنا چاہیے تھا اور پریشان ہونا بھی لازمی تھا، لیکن وہ انتہائی سکون سے بولیں۔
’’فراز! آپ کہیں زیادہ جاسوسی ناول تو نہیں پڑھتے، یا پھر اسی قسم کی فلمیں تو نہیں دیکھتے۔ مجھے لگتا ہے آپ نے کوئی خواب دیکھا ہے یا گمان ہی گمان میں یہ سب بڑے مجرم پکڑ لیے ہیں۔‘‘ وہ مسکرائیں۔
’’خدا کے لیے میری بات کا یقین کیجئے اور فوراً کسی کو وہاں بھیج تو دیجئے ، ورنہ وہ نکل جائیں گے۔‘‘ میں نے التجا کی۔
انہوں نے فون پر کسی کو ہدایات دیں، ایسے میں کمال صاحب بھی آگئے۔ فون رکھ کر وہ بولیں۔
’’فراز، وہ اسٹور تو نا جانے کب سے بند پڑا ہے اور اس کا کوئی انچارج نہیں۔‘‘
’’تو اس کی چابیاں کس کے پاس ہوتی ہیں؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’گارڈز کے پاس ہی ساری چابیاں ہوتی ہیں۔‘‘
’’ کبھی تو کوئی اس کا انچارج رہا ہوگا؟‘‘ میں نے آس سے پوچھا۔
’’پانچ سات سال پہلے ایک صاحب تھے، مگر ان کا انتقال ہوگیا تھا۔‘‘میں سر سہلا کر رہ گیا۔
’’معاملہ کیا ہے؟‘‘ کمال صاحب نے پوچھا۔
’’کیوسی سے دولوگ نکل کر اس پرانے اسٹور گئے اور وہاں ایک غنڈہ نما شخص کو ایک محلول دیا جس کے پینے سے حرکت قلب بند ہوجاتی ہے اور قتل محض طبعی موت لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ محلول ایم ڈی کے والد کو پلا کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیں گے۔‘‘ میں نے جلدی جلدی واقعہ بیان کیا۔
’’ مجھے لگتا ہے کہ یہ سب خواب و خیال میں ہوا ہے۔‘‘ ایم ڈی صاحبہ نے اضافہ کیا۔
ایسے میں فون کی گھنٹی بجی، ایم ڈی نے اسے سنا اور مسکرانے لگیں۔ پھر فون رکھ کر بولیں۔
’’ لیں ثابت ہوگیا۔ ابھی گارڈز نے اسٹور کھولا تو وہاں کوئی نہیں ہے!‘‘ ان کے ساتھ ساتھ اب کمال صاحب بھی مجھے مسکرا مسکرا کر دیکھنے لگے گویا کہہ رہے ہوں کہ ’’ میاں خیالی دنیاؤں سے واپس آجاؤ۔‘‘ جبکہ میرا دل تو چاہ رہا تھا کہ زمین کھل جائے اور میں اس میں کہیں چھپ کر ان کی نگاہوں سے بچ جاؤں۔

*۔۔۔*

سنا تو یہ بھی تھا کہ پیچھے مڑ کر دیکھنے والے پتھر کے ہو جاتے ہیں۔لیکن میں تو آگے ہی دیکھ رہا تھا اور پتھر کا ہو گیا تھا۔میں نے دروازے کو سختی سے تھام لیا جیسے سامنے کوئی طوفان ہو اور مجھے اس سے اڑ جانے کا خطرہ ہویا کوئی بلا ہو جو مجھے نگل جائے گی۔یا کوئی ہوا ہو کہ جس کی دہشت سے میں زمین میں دھنس جاؤں گا۔حالانکہ وہاں اور کوئی نہیں بلکہ پرنسپل صاحب کھڑے تھے۔
’’میاں!تم دل ہی دل میں سوچ رہے تھے یاٹیلی فون پہ؟لگتا ہے ان کے خلاف جو بھی پلان بنا رہے تھے،سب انہیں پتا چل چکا ہے۔‘‘اندر والے نے ڈرایا۔’’ابھی تو یہ سب سوچے ہوئے چند منٹ بھی نہیں گزرے،کیا سائنس نے اتنی ترقی کر لی؟‘‘میں نے بھی اندر والے سے الٹا سوال ہی کر ڈالا۔
’’سائنس تو ہے کسی گھر کی کنیز،جنات تو پلک جھپکتے میں تخت سبا حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچا دیاکرتے تھے۔‘‘
’’جج…..جی،جنات!‘‘میرے منھ سے پھسل پڑا۔
’’دماغ تو ٹھیک ہے!میں تمہیں جن نظر آتاہوں!‘‘پرنسپل صاحب غراے۔
’’اوہ…..نن نہیں،میرا مطلب تھا’جناب‘۔آئیے آئیے اندر۔‘‘میں حواسوں پر واپس آگیا۔
’’میں بیٹھنے کے لئے نہیں آیا۔‘‘انہوں نے یوں ناک سکیڑ کر کہا گویا کہہ رہے ہوں کہ اس فقیر خانے میں بھلا کیسے بیٹھ سکتا ہوں۔
’’تو پھر کھڑے رہیے،بلکہ ایک ٹانگ پر کھڑے ہو جائے،میری بلا سے۔‘‘اندر والا بھی ناک چڑھا کر بولا۔
’’تو بتائیے کیسے آنا ہوا، کوئی کام تھا تو مجھے بلا لیا ہوتا۔‘‘میں سعادت مندی سے بولا۔
’’تمہیں کیا بذریعہ کبوتر پیغام بھیجتا،فون تک تو ہے نہیں تمہارے یہاں،بلاتا کیسے؟‘‘
’’مطلب ڈرائیور کے ہاتھ بلا بھیجا ہوتا،اسی گاڑی میں پہنچ جاتا آپ کی طرف۔‘‘میں نے ترکیب بتائی۔
’’اچھا اچھا،بس ٹھیک ہے، کل صبح میرے دفتر پہنچو،ایک کام نکالا ہے تمہارے لیے۔لوگ تو بہت تھے اس کام کے لیے ،مگر جیسے تمہارے بھائی فراز پر احسان کیا تھا،ایسے ہی سوچا تم پر بھی کر دوں۔‘‘پرنسپل بولے تو میرا خون کھول اٹھا۔
’’تو رکھئے یہ احسان کا ٹوکرا اپنے پاس۔اس میں میرے کام سے زیادہ آپ کے مطلب نہ چھپے ہوں تومیرانام بھی فراز نہیں‘‘میں نے دل ہی دل میں سوچا،شکر ہے بولا نہیں ورنہ راز ہی کھل جاتا کہ میں فراز نہیں ہوں۔
’’آپ کے تمام احسانات کا بدلہ ایک نہ ایک دن ضرور چکاؤں گا،میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘میں بظاہر مسکرا کر مگر اندر ہی اندر دانت بھینچ کر بولا۔
’’مجھے تو نہیں لگتا کہ وہ سن کبھی آئے گا ،البتہ تم کل ضرور آجانا۔‘‘انہوں نے تاکیداً کہا اور پلٹ گئے۔
’’دال میں اتنا کچھ کالا ہے کہ اسے تو اب کالی دال ہی کہو۔ورنہ یہ احسان کرنے کے لئے اتنے بے چین نہ ہوتے۔‘‘اندر والا بولا۔
’’اور میں ان کے قریب رہ کر ان کے کرتوت جاننے کا موقع نہیں گنواؤں گا ورنہ تو ابھی ان کی یہ پیشکش ان کے منھ پر دے مارتا۔‘‘میں نے جواب دیا۔یہی سوچتے ہوئے میں مڑا تو دیکھا کہ دانیال کھڑا مجھے گھور رہا ہے۔
’’یہ تم کیوں میرے راستے میں دیوار بنے کھڑے ہو؟‘‘میں نے جھنجھلا کر پوچھا۔
’’میں دیوار نہیں پہاڑ ہوں۔‘‘وہ اکڑ کر بولا۔
’’ریت کی دیوار ہو یا رائی کا پہاڑ، سب برابر ہے۔‘‘میں نے کندھے اچکاے۔
’’تمہارے لئے میں رائی کا نہیں بلکہ برائی کا پہاڑ ہوں۔‘‘
میری ہنسی نکل گئی ،احمق ہوتو ایسا۔
’’تم اس آدمی کا کوئی کام نہیں کروگے۔ورنہ میں امی کو بتا دوں گا۔‘‘اس نے گویا دھمکی دی۔
’’چچی جان …….سنتی ہیں……..میں کل پرنسپل صاحب کا کام کرنے جاؤں گا،اطلاعاً عرض ہے۔‘‘میں نے باآوازبلند ہانک لگائی۔
’’میں انہیں اور ابا کو یہ بھی بتا دوں گا کہ وہ یقیناًتم سے کوئی نیچ اور گھٹیا کام کرائیں گے کیونکہ پڑھے لکھے تو تم ہو نہیں۔‘‘دانیال طنزاً بولا۔
’’چچا جان آپ بھی سن لیں ،میں وہاں پونچھا لگانے اور گٹر صاف کرنے جا رہا ہوں۔‘‘میں بھی طنزاً بولاتو دانیال لا جواب ہو گیا۔میں نے راستے سے ہٹانے کے لئے مکا دکھایا۔شہزاد نے ایک دفعہ اسے مکے رسید کیے تھے،اس کے بعد سے وہ اسے اسی طرح مکے بنا کر ڈرایا کرتا تھا۔
میرے مکے سے توشاید اس کی داڑھ بھی گیلی نہ ہوتی مگر اسے شہزاد کا سمجھ کر وہ راستے سے ہٹ گیا۔آگے بڑھا تو مجھے مائرہ کے کمرے میں بھی روشنی نظر آئی۔یہ دونوں بھی کہیں گئے ہوئے تھے اور اب واپس آگئے تھے۔بے اختیار میرے قدم اس کے کمرے کی طرف اٹھ گئے اور یہ میری غلطی تھی۔کیونکہ جیسے ہی میں کمرے میں داخل ہوا مائرہ بولی۔’’آپ شہزاد بھائی نہیں بلکہ بھائی جان ہیں۔‘‘
میرے ہاتھوں کے توتے اڑ گئے۔ایسا لگا جیسے یہ جملہ اس کے منھ سے نہیں بلکہ کسی توپ سے نکلا ہواورکسی گولے کی طرح ہو کر میرے دل پر لگا ہو۔

*۔۔۔*

اتنا افسوس مجھے ان غنڈوں کے نکل جانے کا بھی نہیں ہوا تھا،جتنا کہ اپنے غلط ثابت ہونے کا تھا۔کاش میرے پاس جاسوسی کرداروں کی طرح کا کوئی چھوٹا سا کیمرہ وغیرہ ہوتا تو میں چند خفیہ تصاویر ہی لے کر اپنی صداقت ثابت کرتا۔صداقت تو خیر مجھے اب بھی ثابت کرنی ہی پڑے گی ورنہ یہ جو ساری عزت اور اعتماد ہے اس کا جنازہ نکل جائے گا۔میں نے سوچا’’میں اپنی سچائی ثابت کر سکتاہوں۔‘‘میں جلدی سے بول پڑا۔یہ سوچے سمجھے بغیر کہ’کیسے؟‘
’’کیسے؟‘‘کمال صاحب اور ایم ڈی ساتھ ساتھ بولے۔تو پھر سوچنا ہی پڑا۔
’’اسٹور میں جاکر،ایم ڈی صاحب کا جانا مناسب نہیں،کمال صاحب اور کچھ لوگ ساتھ چلیں تو ابھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔‘‘کمال صاحب فوراً تیارہوگئے۔
’’یہاں بھی اس کے جاسوس موجود ہیں جو اسے پل پل کی خبر دیتے ہیں۔بہتر ہے کچھ اور مختلف جگہوں سے لوگ بلائیں تاکہ مجھ پر زیادہ شک نہ رہے۔‘‘کمال صاحب نے تو منھ بنایا مگر ایم ڈی نے احکامات دے دیے اور تھوڑی دیر میں چار پانچ لوگ آگئے۔ان کے ساتھ کمال صاحب بھی چلے اور میں راستے میں سوچنے لگاکہ آخر میں یہ بات ثابت کیسے کروں گا۔
’’چلو وہیں پہنچ کر دیکھا جائے گا۔‘‘میں نے ذہن کو پرسکون چھوڑ دیا۔میں اسی قسم کا لڑکاتھا،آگے کا سوچ سوچ کر زیادہ پریشان نہیں ہوتا تھا۔
’’آخروہاں ایسا کیا ہے فراز؟‘‘کمال صاحب نے پوچھا تو میں نے جلدی سے انگلی ہونٹوں پر رکھ کر انہیں آہستہ بولنے کا کہااور پھر سرگوشی کی۔
’’جہاں تین تین لوگ موجود تھے،وہاں کچھ نہ کچھ تو ہوگا،یہی تو ڈھونڈنے جا رہے ہیں۔‘‘میری اس بات سے کمال صاحب کا سارا سسپنس ختم ہو گیا اور ایک بار پھر ان کا منھ بن گیا۔اسٹور کے باہرگارڈ موجودتھے۔ان کے سربراہ نے آگے بڑھ کر تالا کھولا۔جی تو چاہ رہا تھا کہ اس سے کچھ سوالات کروں مگر اس طرح میں کھل کر نظروں میں آجاتا۔
’’ہم سب کو یہاں کیوں لایا گیا ہے؟‘‘میں نے بھولے پن سے باقی لوگوں کے دل کی ترجمانی کی۔
’’آپ سب لوگ اس جگہ کا معائنہ کریں اور کوئی غیرمعمولی بات یا چیز ملے تومجھے بتائیں۔‘‘کمال صاحب نے بات بنائی۔
سب لوگ اسٹور میں آگے پیچھے پھیل گئے جبکہ میں سیدھا اسی جگہ پہنچا جہاں میں نے اس غنڈے اور اس کے ساتھیوں کو دیکھاتھا۔جاسوسی قصوں میں پڑھا تھا کہ مجرم کاپتا،رومال یا پین وغیرہ گر جاتا ہے جس کی مدد سے اسے ڈھونڈلیا جاتا ہے مگر یہاں ایسا کچھ نہ تھا۔
’’سر!یہ دیکھئے یہ کیا ہے؟‘‘ایک کونے سے آواز آئی تو مجھ سمیت سب اس طرف لپکے۔دیکھا تو وہاں ایک اسٹول دیوار کے ساتھ رکھا تھا جبکہ اسی قسم کا ایک برابر میں گرا پڑا تھا۔میں نظر اٹھائی تو اوپر ایک روشندان کھلا نظر آیا۔
’’یہ تو کوئی خاص چیز نہیں۔اکثر چیزیں یونہی الٹی پلٹی پڑی ہیں۔‘‘کمال صاحب اب تک کافی بور ہو چکے تھے۔لوگ وہاں سے چھٹ گئے تو میں آہستگی سے بولا۔
’’اوپر دیکھئے،سارے روشندان بند ہیں۔بھلے ان میں سے بہتوں کا شیشہ ٹوٹا ہواہے۔مگر صرف یہی روشن دان کھلا ہے۔‘‘
’’ان اسٹولوں کو ایک کے اوپر ایک رکھ کرمجرم اس روشن دان سے فرارہوئے ہیں اور آخری والے نے ٹھوکرمار کر اسے گرادیاتاکہ پتا نہ چلے۔‘‘میں نے سمجھایا۔
’’یہ صرف اور صرف قیاس ہے۔‘‘کمال صاحب نے یقین نہ کیا۔
’’تو پھر اس اسٹول کو اوپر رکھیے اور چڑھ کر دیکھئے،ضرورروشن دان پر مٹی کے نشانات بنے ہوں گے۔‘‘میں نے ایک اور قیاس کر ڈالا اور ساتھ ہی اسٹول اٹھا کر دوسرے پر رکھنے لگا۔
مگر اس سے پہلے کہ میں اسٹول رکھتا میری آنکھیں چمک اٹھیں۔اسٹول ہی پر کچھ جوتوں کے نشانات صاف دیکھے جا سکتے تھے اور اس کے اوپر چڑھنے کی کوئی ضرورت باقی نہ رہی تھی۔کمال صاحب بھی مان گئے اور ہم واپس ہو لیے۔کیوسی کے سامنے سے گزرتے ہوئے میں نے پوچھا۔
’’یہاں کل کتنے آدمی کام کرتے ہوں گے؟‘‘
’’یہی کوئی دس بارہ‘‘کمال صاحب نے بتایا۔
’’بس دس بارہ۔‘‘میں خوش ہو کر بولا۔
’’کیوں،اس میں اتنا خوش ہونے والی کون سی بات ہے؟‘‘وہ حیران ہو کربولے۔
’’آپ ان سب کواپنے آفس میں بلوائیں،میں با آسانی ان دونوں کی نشان دہی کر لوں گا۔‘‘میں جوش میں بولا۔
’’فراز بیٹا!دیکھو……..یہ آفس ہے۔یہاں یوں ایک منٹ پر تماشا لگاناکوئی مناسب بات نہیں۔‘‘
’’چاہے وہ لوگ ایم ڈی صاحبہ کے والد کو قتل کر دیں۔‘‘میں نے بھی الٹا سوال کرڈالا۔
’’چلو بلوا لیتا ہوں لیکن آج کے لئے بس یہ آخری ہوگااور دلاور صاحب سنکی آدمی ہیں اور وہ یوں آسانی سے نہیں آئیں گے۔‘‘
’’ان کی ضرورت بھی نہیں۔وہ تو اپنی دنیا میں اتنے مگن ہیں کہ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے ڈپارٹمنٹ میں لوگ قتل کی سازشیں کر رہے ہیں۔‘‘کچھ دیر میں کچھ لوگ کمال صاحب کے دفتر میں تھے۔وہ سب کیوسی کے تھے۔میں نے پہچاننے کی کافی کوشش کی،مگر وہ دونوں نظر نہیں آئے۔میں چونکہ خود سے سوالات کرنا نہیں چاہتا تھا،لہٰذا میں نے ایک کاغذ اٹھا کر اس میں لکھنا شروع کر دیا،جیسے کوئی کام کر رہا ہوں اور کمال صاحب کو ٹہوکا دیا تاکہ وہ دیکھیں۔میں نے لکھا تھا۔
’’باقی کدھر ہیں؟‘‘کمال صاحب نے پوچھ لیا۔
’’ایک تو غیر حاضر ہے اور دو مل نہیں رہے۔‘‘جواب سن کر میرے خون کی گردش تیز ہو گئی۔‘‘
’’نام۔‘‘میں نے لکھا۔
لیکن اس سے پہلے کہ کمال صاحب پوچھتے،فون کی گھنٹی بجی۔انہوں نے ریسیور اٹھا کر کان سے لگایااور دوسری طرف کی بات سننے لگے۔اچانک ان کے چہرے پر ایک تغیر رونماہوا اور ریسیور ان کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔

*۔۔۔*

اس اچانک حملے سے میں بالکل گنگ ہو گیا۔سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں یا کیا بولوں۔گوکہ جب سے میں نے شہزاد کا روپ دھارا تھامجھ پر مستقل اسی قسم کے حملے ہو رہے تھے لیکن وہ سب کے سب دماغ یا جسم پر ہوئے۔یہ پہلا تھا جو دل پر ہوا تھا اور مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں کھڑے کھڑے پگھل رہا ہوں۔
مائرہ سے مجھے بے حد لگاؤ تھا ۔وہ میری سگی بہن تو نہیں تھی اس کے باوجود میں اسے بڑے بھائیوں کی طرح چاہتا تھا۔چچا چونکہ اکثر مسائل میں الجھے رہتے تھے،لہٰذا کافی معاملات میں میں ہی اس کی سرپرستی اور راہنمائی کرتا تھا۔خصوصاً پڑھائی لکھائی کے معاملے میں،جس کی چچی بہت خلاف تھیں لیکن میں ہمیشہ لڑ بھڑ کر اس کی طرف داری کرتا ۔
شہزاد کی موت پر اپنی موت کا ڈراما کرنے پر جس قدر وہ روئی تھی اس سے میرا دل کٹ گیا تھا،مگر میں مجبور تھا کہ اپنی حقیقت واضح نہیں کر سکتا تھا اور اب یہ بات اتنی آگے بڑھ گئی تھی کہ اب اگر بتاتا تو اور زیادہ جھوٹا اوردھوکے باز سمجھا جاتا۔ساری دنیا کی آنکھوں میں تو دھول جھونک دی تھی مگر دل کی آنکھوں نے مجھے پہچان لیاتھا۔
’’کیا میں اپنی حقیقت بتا دوں؟‘‘ میں نے اندر والے سے سوال کیا۔
’’ہر کام سوچ سمجھ کر کیا کرو۔پہلے اس کے فوائد اور نقصانات سوچ لینا پھر ہی کوئی قدم اٹھانا۔‘‘اندر والے نے ڈرایا۔یہی فرق تھا مجھ میں اور شہزاد میں۔میں سوچتا بہت ہوں اور وہ کر جاتا تھا۔
’’بتائیے ناں۔آپ بھائی جان ہی ہیں ناں۔‘‘اس نے بے چین ہو کر دوبارہ کہا۔میرے دل سے ایک آہ نکلی،مگر میں نے اسے زبان تک نہ آنے دیا۔
’’ہوں تو میں شہزاد ہی مگرتمہارے بھائی جان کی کمی پوری کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہوں۔‘‘میں نے بات بنائی۔
’’جھوٹ!‘‘اس نے بس اتنا ہی کہا۔
’’وہ کیسے؟‘‘مجھے اس کے یقین پر حیر ت ہوئی۔
’’ابھی پچھلے دس منٹ سے جس قسم کی با محاورہ اردو آپ بول رہے تھے،وہ تو شہزاد بھائی بول ہی نہیں سکتے۔‘‘اس نے وجہ بتائی اور شاید بالکل درست ہی بتائی۔مجھ سے یقیناًبولنے میں بداحتیاطی ہوئی تھی۔
’’بس اتنی سی بات۔‘‘میں ہنسا۔
’’دراصل تم نے بھائی جان کی موجودگی میں میری باتیں کبھی سنی ہی نہ ہوں گی۔ان ہی سے تو سیکھے یہ محاورے بلکہ کچھ اور بھی آتے ہیں،کہو تو سناؤں۔‘‘
میں نے ٹھیٹھ شہزاد کا لہجہ اپنایا۔
اس نے منھ دوسری طرف کر لیا اور ہچکیاں لے لے کر رونے لگی،شاید اس نے تصور ہی تصور میں مجھے دوبارہ زندہ کر لیا تھاجسے میں نے پھر مار دیا۔جی میں آیا کہ اس کے کان میں جا کر کہہ دوں کہ میں ہی فراز ہوں مگر جلدی سے اس خیال کو جھٹک دیا۔زیادہ دیر رکتا تو شاید بتا ہی دیتا لہٰذا وہاں سے چل پڑا چلتے ہی چلتے اس کو تسلی دی۔
’’مرنے والے لوٹ کر نہیں آتے مائرہ مگر ان کی کمی کو پورا کرنے کو کوشش کی جا سکتی ہے۔چاہو تو تم مجھے بھائی جان کہہ بھی لیا کرو اور سمجھ بھی لیا کرو۔‘‘بہت بوجھل دل لیے میں وہاں سے روانہ ہوااور دماغ کو آنے والے کل کے لیے تیار کرنے کی کوشش کی، اسی میں رات گزری اور صبح ہوتے ہی میں پرنسپل صاحب کے دفتر میں پہنچ گیا۔
کل جو خود چل کر میرے پاس آئے تھے،مجھے آتے جاتے اپنے آفس کے باہر بیٹھا دیکھتے رہے اور بے اعتنائی برتتے رہے۔کافی انتظار کے بعد مجھے بلایا اور پھر تذلیل آمیز انداز میں بولے۔
’’تمہیں اتنا تیارویار ہو کر آنے کی کیا ضرورت تھی۔میں نے تمہیں اپنی جگہ قائم مقام پرنسپل بننے کے لیے توبلایا نہیں،بلکہ حقیقتاً توتم آفس کے کسی کام کے قابل نہیں ہو۔‘‘میرا خون کھول اٹھا۔
’’تو پھر کیا یوں ذلیل کرنے کے لئے بلایا تھا؟‘‘اندر سے آواز آئی لیکن میرا اپنا کام اس سے وابستہ تھا،ان کی کھوج لگانے کا،لہٰذا صرف اسی بر بریک لگا دی۔
’’تو پھر……‘‘
’’تو پھر یہ کہ سر ایاز ذکر کر رہے تھے کہ انہیں ایک ڈرائیور چاہئے،مجھے تمہارا خیال آگیا۔‘‘میرا دماغ گھوم گیا،میں تو سمجھ رہا تھا کہ پرنسپل صاحب کے پاس کوئی کام ہوگا یا پھر اسکول ہی کے اندر،مگر یہ تو بڑے دور کی کوڑی تھی۔دوسرے یہ کہ مجھے ڈرائیونگ کی حرف تہجی تک نہ آتی تھی۔میں اٹھ کھڑا ہوا۔
’’ارے ارے کیا ہوا،کیا تمہیں گاڑی نہیں چلانی،میں نے تو سنا ہے کہ آتو میٹک بڑی اچھی گاڑی چلاتے ہیں اور تمہیں تو اس کا شوق بھی بہت ہے۔‘‘پرنسپل صاحب کا لہجہ حیرت انگیز طور پر بدل گیا۔
’’مگر کثر آٹو مکینکس کے پاس لائسنس نہیں ہوتا،یہ نہیں سنا آپ نے؟‘‘میں نے طنزاً کہا۔
’’بن جائے گا،میں بنوا دوں گا۔‘‘انہوں نے پیشکش کی تو مجھے ان میں اپنے مفاد کی بو بہت زور سے آئی۔
’’میں آپ کا یہ احسان کیسے اتاروں گا سر؟‘‘میں نے بھی پینترہ بدلا۔
’’ہوں……یہ کی نا کام کی بات!بس مجھے یہ رپورٹ چائیے کہ وہ آج کل کس کس سے مل رہے ہیں اور کس قسم کی باتیں کررہے ہیں۔‘‘
’’اب آپ نے بھی کی نا،کام کی بات!‘‘اندر والا خوش ہو کر بولا۔بلی تھیلے سے باہر آگئی تھی۔پرنسپل صاحب کے جو بھی کرتوت تھے اس کا سرا سر ایاز سے جڑتا تھااور میں اب اس بنکر میں باقاعدہ داخل ہو چکا تھا۔لیکن یہ چکر کیا تھا،اسے جاننے کے لئے میں بے چینی سے مرا جا رہا تھا۔

*۔۔۔*

’’آپ لوگ جائیے‘‘کمال صاحب نے کیوسی کے لوگوں سے کہا اور وہ بھی تجسس سے بھرے ہوئے وہاں سے روانہ ہو گئے۔
’’آپ ان دونوں کا نام تو پوچھ لیتے ،وہی تو مجرم ہیں،آخر ان کے ناموں کے بغیر ہم ان دونوں تک کیسے پہنچیں گے۔وہ پکڑیں جائیں گے تو ہی بھائی کا سراغ ملے گااور پھرپوری سازش بے نقاب ہو جائے گی۔‘‘میں جلدی جلدی بولتا چلا گیا۔
’’ایسا کچھ نہیں ہوگا۔‘‘کمال صاحب نے کہا تو مجھے لگا کہ جیسے وہ بھی مجرموں کے ساتھی ہیں۔
’’وہ کیوں؟‘‘میری آواز کافی بلند تھی۔
’’اس لیے کہ ان دونوں کی لاشیں اسٹور کے پیچھے والے علاقے سے مل چکی ہیں۔‘‘اب ہاتھ سے کچھ چھوٹنے کی باری میری تھی،مگر ہاتھ میں قلم تھا،میں نے بے حرمتی جانتے ہوئے نہ چھوڑا۔
’’کیا!‘‘میں نے اولاً افسوس سے اورپھر ملی جلی خوشی سے کہا۔افسوس اس بات کاکہ تفتیش کا سرا ہا تھ سے چلاگیا اورخوشی اس بات کی کہ میری سچائی ثابت ہو گئی اور کچھ اس طرح ہوئی کہ سر چڑھ کر بول رہی تھی۔ایسے میں دروازہ کھلا اور ایم ڈی صاحبہ بھی گھبرائی گھبرائی اندر داخل ہوئیں۔
’’فراز کی بات سچ نکلی اور اب باباکی جان یقیناًخطرے میں ہے۔‘‘ان کے ہاتھ پاؤں پھول چکے تھے۔
فوراً گھرمیں پولیس کا پہرہ لگوائیے۔‘‘کمال صاحب نے مشورہ دیا۔
’’گارڈ تو موجود ہیں ہی اور پولیس تو باہر کا وار روکے گی،جبکہ اس غنڈے نے کہا تھا کہ اس کا آدمی پہلے ہی گھر کے اندرملازم بھرتی ہوچکا ہے۔‘‘میں نے ایک اور راز سے پردہ اٹھا یا۔میں اتنا سچا ثابت ہو چکا تھا کہ انہوں نے میری بات کا یقین کرنے میں ایک سیکنڈ نہ لگایااور نہ یہ پوچھا کہ کیسے،کب وغیرہ۔بلکہ ایم ڈی بولیں۔
’’ہمیں فوراً گھر چلناچاہئے،سازش کا پتا چلنے کے بعدوہ لوگ جلدی کریں گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے ۔‘‘کمال صاحب بھنویں اچکا کر بولے جیسے کہہ رہے ہوں کہ میں وہاں جا کر کیا کروں گا۔
’’آپ دونوں میری ہی گاڑی میں بیٹھیے،میں بس ابھی آئی۔‘‘انہوں نے کمال صاحب کا انداز بھانپ کر جلدی سے کہا تاکہ وہ کوئی بہانہ نہ کردیں،وہ یقیناًمجھے لے جانا چاہتی تھیں،مگر کمال صاحب کے بغیر ایسا کرتے ہوئے ہچکچا رہی تھیں۔
ان کی گاڑی میں بیٹھنا بھی ایک عجب تجربہ تھا۔گوکہ ذہن قتل کی سازش میں الجھا ہوا تھا،پھر بھی کچھ چیزیں محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا۔
گاڑی تھی یاکوئی جن۔ایم ڈی اسے انگریزی میں احکام دیتیں اور یہ عمل کرتی۔دروازہ کھولنا ہو یا لاک کرنا ہو،یا ٹھنڈے پانی کی بوتل مانگنی ہو،خود بخود ایک چھوٹے سے فریج سے نکل کر آجاتی۔گوکہ اسے چلا تو ڈرئیور ہی رہا تھااور وہ چل بھی انہی سڑکوں پر رہی تھی جن گے گڑھے کمر میں درد کر دیتے مگر اس میں تو یوں لگ رہا تھا جیسے پانی پر تیر رہی ہو۔ایک اسکرین لگی تھی جس پر ٹی وی کی طرح آگے یا پیچھے کا منظر صاف دیکھا جا سکتا تھا۔سیٹ پر بیٹھنے کے بعد اس میں یوں ہوا بھری تھی کہ ہمارے جسموں کے مطابق اس کی شکل ہو گئی تھی۔غرض ایسی گاڑی میں بیٹھنا تو کیا،اس سے پہلے بطور مکینک کبھی ایسی گاڑی دیکھنی بھی نصیب نہ ہوئی ۔ہمارے گھروں کے بستر اور صوفے اتنے آرام دہ نہ تھے جتنی اس گاڑی کی سیٹیں تھیں۔جی چاہا کہ ایم ڈ کا گھر کہیں بہت ہی دور ہو جو کئی گھنٹے کے سفر کے بعد بھی نہ آئے اور میں یوں ہی اس میں مزے سے بیٹھا رہوں۔
’’آخر ہم بابا کے لئے کریں گے کیا،سارے کے سارے ملازمین پر پابندی تو لگا نہیں سکتے، ان کے اکثر کام ملازمین ہی تو کرتے ہیں۔‘‘ایم ڈی تفکر سے بولیں۔
’’جی یاد آیا غنڈے نے کہا تھا کہ اس کا آدمی باورچی خانے میں بھرتی ہوا ہے۔‘‘میں نے ایک اور شوشہ چھوڑا۔
’’پھر تو ہم سب ہی خطرے میں ہیں،سب کا کھانا پینا تو وہیں بنتا ہے۔‘‘
’’سارے باورچیوں کو فارغ کرکے نئے رکھ لیں۔‘‘کمال صاحب نے مشورہ دیا۔وہ ضرور ایک سمجھ دار آدمی تھے مگر ان معاملات میں یوں ہی اٹکل لگاتے تھے۔
’’کیاخبر باورچی کے علاوہ بھی کہیں ان کا آدمی ہو،یا پھر نئے باورچیوں کا کیا بھروسہ،کب کسی لالچ میں ان سے مل جائیں۔‘‘میں نے مجرمانہ سوچ اختیار کرتے ہوئے خیال ظاہر کیا۔
’’پھر کیا کریں آخر؟‘‘ایم ڈی لاجواب ہو کر بولیں۔
’’گھر میں کتنے افراد ہیں؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’بس دو ہم باپ بیٹی اور باقی سارے ملازمین۔‘‘
’’تو مسئلہ حل ہو گیا ۔‘‘میں نے تالی بجائی۔
’’وہ کیسے؟‘‘
’’آپ دونوں کچھ عرصہ ہمارے ساتھ کمال صاحب کے گھر چل کر رہ لیں۔‘‘میں نے مشورہ دیا۔
’’کیا!‘‘ایم ڈی اور کمال صاحب دونوں کے منھ سے بیک وقت نکلااور پھر کمال صاحب مجھے اس بری طرح گھورنے لگے جیسے کچا ہی چبا جائیں گے۔

*۔۔۔*

سر ایاز ایک مشفق استاد تھے۔ میں نے ان سے کئی سال پڑھا تھا۔ میری نظر میں ان کی شخصیت کسی طرح بھی مشکوک نہ تھی۔ ان کا اور پرنسپل صاحب کا اگر آپس میں کوئی معاملہ چل رہا تھا تو میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا تھا کہ وہ حق پر ہوں گے اور پرنسپل صاحب غلط۔
سر ایاز کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے یہ سوچ رہا تھا کہ وہ معاملہ کس بہانے سے معلوم کروں گا، یہی نہیں بلکہ بطور ڈرائیور جا رہا ہوں اور گاڑی ہی چلانی نہیں آتی، اس کا کیا بہانہ کروں گا؟
’میاں تھوڑا آہستہ چلو گے تب ہی تو کچھ سوچ پاؤ گے نا، تم تو سرپٹ دوڑے چلے جارہے ہو!‘ اندر والا بولا۔
’اس لیے دوڑ رہا ہوں تاکہ میری دیکھا دیکھی عقل کے گھوڑے بھی دوڑ سکیں۔‘ ابھی اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ عقل تو کیا خود کو بھی رک جانا پڑا۔ سامنے سر ایاز جو آگئے تھے۔
’’ارے فراز! تم یہاں کیا کررہے ہو؟‘‘ میرے اوپر سے ایک رنگ آکر گزر گیا۔ یہ انہوں نے مجھے کیسے پہچان لیا تھا؟ عادتاً بولا ہوگا۔ میں نے خود کو تسلی دی۔
’’وہ آپ کی ڈرائیوری کے لیے!‘‘ میں نے فراز والی بات کو یکسر نظر انداز کیا۔
’’تو اس کے لیے تو شہزاد کو آنا تھا؟‘‘ انہوں نے سوالیہ لہجہ اپنایا۔
’’تو میں بھی تو شہزاد ہی ہوں!‘‘ میں نے حیرانی ظاہر کرنے کی کوشش کی۔
’’بہت خوب۔ چلو ذرا میرے کمرے میں آؤ۔‘‘ وہ واپس اپنے کمرے کی طرف چل دیے۔ میں بل کھاتا لہراتا ان کے کمرے میں پہنچا۔
’’اپنا بایاں ہاتھ اٹھاؤ!‘‘ انہوں نے کہا تو میں نے اٹھا دیا۔
’’بیٹھو!‘‘ وہ دوبارہ بولے۔ ’’ایسی کیا مجبوری ہے کہ تم شہزاد بنے ہو فراز!‘‘
’’ہائیں!‘‘ میں اچھل پڑا۔ ان کا لہجہ ہی اتنا پختہ تھا۔
’’مم میں شہزاد!‘‘ میرے منھ سے نکلا۔
’’دیکھو میں تم دونوں کو بچپن سے جانتا ہوں۔ مجھ سے جھوٹ نہیں بول سکتے۔‘‘
چچا چچی نے تو پہچانا ہی نہ تھا۔ مائرہ کو جھٹلا دیا تھا مگر اس روحانی باپ سے چھپنا مشکل ہوگیا۔
’’کہاں ان سے ڈرائیوری وغیرہ کے بہانے کرتے پھروگے۔ بہتر ہے سچ ہی بول دو!‘‘ اندر والے نے مشورہ دیا جو مجھے سولہ آنے درست لگا اور پھر میں نے دل کا سارا غبار سر ایاز کے سامنے ہلکا کردیا۔
’’سوال تو یہ ہے کہ آخر پرنسپل صاحب میری نگرانی کرانا کیوں چاہتے ہیں؟‘‘ ساری بات سن کر وہ بولے۔
’’یہی جاننے کے لیے تو میں اس چکر میں کودا ہوں۔ دوسرا یہ کہ ان کا کچھ نہ کچھ تعلق مجھ سے بھی ہے۔ کیونکہ انہوں نے مجھے اس عجیب و غریب پراسرار شخص سے ملنے سے بھی روکا تھا۔‘‘ میں نے بتایا۔
’’فی الوقت تو میرا ان سے اسکول ہی کے چھوٹے موٹے معاملات میں اختلاف ہے یا پھر کورس کے سلسلے میں کچھ علمی اور نظریاتی اختلاف لیکن یہ جرائم وغیرہ کے متعلق تو مجھے کوئی شائبہ تک نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے لاعلمی ظاہر کی۔
’’چلیے پھر آپ مجھے خود ہی بتاتے رہیے گا کہ آپ کس سے ملنے اور کہاں جارہے ہیں، جس پر پرنسپل صاحب چونکیں گے، وہی ان سے متعلق معاملہ ہوگا!‘‘ میں نے مشورہ دیا تو انہوں نے بلاچوں و چرا قبول کرلیا۔
’’اور گاڑی نہ چلانے کی کیا تاویل دوگے؟‘‘
’’وہی لائسنس!‘‘
’’ٹھیک ہے، ابھی تو میں ایک ضروری کام سے بورڈ آفس جارہا ہوں کل سے آنا۔‘‘
’’بہت بہتر!‘‘ میں نے کہا اور نکل آیا۔ باہر نکلتے ہی پرنسپل صاحب ٹکر اگئے۔
’’ہاں، کیا رہا؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’جی وہ۔۔۔ کل سے آنا ہے کام پر!‘‘ میں نے جلدی سے بات بنائی۔
’’یہ نہیں، یہ بتاؤ کہ میرے کام کا کیا رہا، کسی سے ملنے جارہا ہے وہ؟‘‘
’’کسی سے نہیں، ابھی تو وہ اپنے کسی کام سے بورڈ آفس جارہے تھے!‘‘ میں نے لاپرواہی سے کندھے اُچکائے۔
’’ہیں۔۔۔ کیا؟‘‘ پرنسپل صاحب بری طرح چونکے، پھر خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بولے۔
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے!‘‘ اور تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے اپنے آفس میں چلے گئے۔
ان کی تیزی دیکھ کر میں بھی کھٹکے بغیر نہ رہ سکا اور ان کے دروازے کے قریب لگ کر کھڑا ہوگیا۔ دروازہ جلدی میں پورا بند نہ ہوا تھا۔ اندر سے ہلکی ہلکی آواز آرہی تھی۔ وہ کسی سے فون پر کچھ کہہ رہے تھے لیکن مجھے چندلفظ ہی سنائی دے سکے۔
’’بورڈ آفس۔۔۔ راستے۔۔۔ گاڑی۔۔۔ واپس!‘‘
ان کے لہجہ سے مجھے خطرے کی شدید بو آنے لگی اور میں یہ سب سر ایاز کو بتانے کے لیے بے چین ہوگیا۔

 *۔۔۔*

میرا مسئلہ یہی تھا۔ نہ سوچا نہ سمجھا، جو منھ میں آیا جھٹ بول دیا۔ بھلا میں کون ہوتا تھا ایم ڈی صاحبہ کو کمال صاحب کے گھر دعوت دینے والا۔ جس کا گھر تھا۔ اس سے نہ پوچھا نہ پاچھا۔ سیدھا مشورہ ہی داغا۔
لیکن مشورہ ہلکا نہیں تھا۔ اس میں اتنا دم ضرور تھا کہ کچھ دیر کے لیے دونوں ہی سوچ میں پڑ گئے۔ پھر ایم ڈی کمال صاحب کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کرنے لگیں اور ساتھ ساتھ بولیں۔
’’میرا تو بہت مشکل ہے، ہاں بابا مان جائیں تو چل کر رہ سکتے ہیں!‘‘
’’ان کے ماننے کا کیا سوال ہے، ان کی خیریت کی خاطر تو ان کو منانا ہی پڑے گا۔‘‘ میں جھٹ بول اٹھا اور پھر سر جھکا کر ٹھوڑی سہلانے لگا۔
’’انہیں تمام صورتحال بتا دیں گے پھر جو وہ فیصلہ کریں!‘‘ کمال صاحب ایم ڈی صاحبہ سے بولے۔
’’ٹھیک ہے، میں انہیں سمجھانے کی کوشش کروں گی!‘‘ ایسا لگتا تھا جیسے ایم ڈی صاحبہ کی بھی خواہش انہیں بھیجنے کی تھی۔ پھر کچھ دیر خاموشی ہی رہی یہاں تک کہ ہم ایم ڈی صاحبہ کے گھر پہنچ گئے۔
’گھر؟‘
ایک غلط لفظ جو میں استعمال کر گیا۔ اس جگہ کے لیے جس کے لیے یہ قطعی نامناسب تھا۔ وہ ایک بڑا سا باغ تھا جس میں ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔ زمین مخمل نما گھاس کی تھی جس کے اردگرد پھولوں کے مختلف پودے لگے ہوئے تھے۔ ایک بڑا فوارہ بیچ میں لگا ہوا تھا جبکہ دیواروں سے بھی کہیں کہیں چھوٹے فوارے جھرنوں کی طرح بہہ رہے تھے۔ اسی میں پیدل اور گاڑی چلنے کے راستے بنے ہوئے تھے۔
گاڑی کچھ اور آگے بڑھی تو میں نے کونے میں کچھ جنگلے دیکھے جن میں جانور پلے ہوئے تھے۔ اگر اور بھی کچھ دیکھ پاتا تو یہی سمجھتا کہ ہم گھر کے بجاے کسی اور جگہ آگئے ہیں مگر گاڑی ایک لحیم شحیم عمارت کے آگے رک گئی۔ گاڑی سے باہر نکل کر دیکھا تو عمارت کا ایک نام میرے ذہن میں کوندا۔
’’محل۔۔۔ بلکہ شیش محل!‘‘
اس میں صرف ستون وغیرہ ہی سیمنٹ کے ہوں گے یا پھر چھت ورنہ تو سب کی سب لکڑی اور شیشے سے بنی تھی۔ میری آنکھیں تو کیا بلکہ منھ بھی کھلا کا کھلا رہ گیا تھا، کمال صاحب ہی نے مجھے ہاتھ پکڑ کر گھسیٹاتو میں ہوش میں واپس آیا۔
ایم ڈی صاحبہ تیز تیز چلتی دروازے تک پہنچیں تو ایک ملازم نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ ہم بھی ان کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہو گئے اور ایک بار پھر مبہوت رہ گئے۔ میرا یہ اندازہ بھی غلط ثابت ہوا کہ چھت شاید سیمنٹ کی ہو کیونکہ چھت بہت اونچی تھی اور اکثر رنگین شیشوں کی تھی۔
اس ٹھاٹھ باٹھ کی مجھ پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ میں خود کو مجرم محسوس کرنے لگا اس بات پر کہ کیوں ایسا مشورہ دیا۔ بھلا اس گھر کا مالک کمال صاحب کے گھر میں کیسے رہ سکے گا۔ اس کو تو وہ جھونپڑی ہی معلوم ہوگی۔ شاید کمال صاحب کے پیش نظر بھی یہی بات ہو ورنہ وہ تو انتہائی کھلے دل کے مخلص آدمی تھے۔
ایک ملازم نے ہمیں صوفوں تک راستہ دکھایا اور فوراً ہی دوسرا ہمارے لیے شربت لے کر حاضر ہوا۔ اس کا رنگ ایسا پرکشش نارنجی تھا کہ جی چاہتا تھا کہ کمال صاحب کا گلاس بھی میں ہی پی جاؤں۔ فوراً ایک گلاس اٹھا کر منھ تک لے گیا مگر اسی وقت میرا شکی ذہن جاگ اٹھا۔
’’نہیں۔۔۔ یہ باورچی خانے سے آرہا ہے، مت پئیں!‘‘ میں نے کہا۔کمال صاحب نے برا سا منھ بنایا اور چسکیاں لے کر پینے لگے۔ میں نے بھی ساری احتیاط اسی گلاس میں انڈیلی اور غٹا غٹ پورا پی گیا۔
ایم ڈی صاحبہ اندر چلی گئی تھیں۔ شاید اپنے والد سے ملنے اور انہیں سمجھانے۔ کمال صاحب سکون سے شربت پینے میں مصروف تھے۔ میں نے سوچا ذرا اس بڑے سے ہال کا معائنہ کروں۔ چاروں اطراف طرح طرح کی چیزیں سجی تھیں۔
دیوار پر تلواریں، بندوق اور چیتے کی کھال سجی تھی تو زمین پر کہیں چھوٹی سی توپ، مچھلیوں کا ایکوریم، کنویں کا ماڈل اور اسی قسم کے عجوبے نما نمونے رکھے ہوئے تھے۔ میں ایک ایک کو دیکھتا رہا اور آگے بڑھتا رہا۔ یہی سوچتے ہوئے کہ امیروں کو پیسے خرچ کرنے کے لیے کیا کیا فضول چیزیں خریدنی پڑتی ہیں۔ جبکہ غریبوں کو آٹا دال تک خریدنے کے لیے کئی کئی بار سوچنا پڑتا ہے۔ یہی سوچتے ہوئے میں ایک الماری کے نزدیک پہنچا اور ایک چیز پر نظر پڑتے ہی اچھل پڑا۔

*۔۔۔*

مگر بتانا اتنا آسان نہ تھا۔ پرنسپل صاحب فون رکھ کر باہر ہی کی طرف آرہے تھے۔ اگر میں واپس سر ایاز کی طرف پلٹ جاتا تو یقیناًمشکوک ہوجاتا۔
’اور اگر یہیں کھڑے کھڑے سوچتے رہے کہ کیا کروں تو مشکوک نہیں ہوجاؤ گے کہ عین دروازے پر کھڑے کیا کررہے ہو!‘ اندر والا جل بھن کر بولا۔
’’بھاگو!‘‘ میں نے ٹانگوں کو حکم دیا اور بے ہنگم انداز میں جو دوڑا تو دھڑ سے کسی سے ٹکر ا کر گر گیا۔
ایک ہاتھ کبھی کبھی میں عادتاً جیب میں ڈال لیتا تھا۔ اس وقت بھی ایسا ہی تھا۔ گرنے سے بچنے کے لیے ہاتھ جو جیب سے باہر آیا تو وہ تصویر بھی نکل کر زمین پر گر گئی گویا مجھ سے اظہار یکجہتی کررہی ہو۔ اس سے پہلے کہ میں دیکھتا کہ میں ٹکرایا کس سے ہوں۔ میں نے تصویر اٹھا کر واپس جیب میں سرکالی۔
’’ارے، یہ تمہارے پاس بٹیا کی تصویر کہاں سے آگئی؟‘‘ یہ فیضو بابا کی آواز تھی۔ جو اسکول کے چپڑاسی تھے، انہی سے میں ٹکرایا تھا۔
جی تو چاہا تھا کہ اس ’’بٹیا‘‘ کی تمام الف لیلہ وہیں زمین پر پڑے پڑے سن لوں مگر سر ایاز خطرے میں تھے۔ چند ہی لمحوں میں جب پرنسپل صاحب باہر آجاتے تو مجھے باتوں میں پھنسا لیتے اور ادھر سر ایاز نکل جاتے۔ میں اٹھا اور دوڑ لگا دی اور پہلا موڑ آتے ہی دائیں مڑ گیا۔ امید یہی تھی کہ پرنسپل صاحب باہر نہ آئے ہوں گے یا آبھی گئے تو مجھے نوٹ نہ کرسکے ہوں گے۔
’اور وہ فیضو بابا جو آپ کی جگہ پرنسپل صاحب کو ساری الف لیلہ سنا رہے ہوں گے، اس کا کیا؟‘ اندر والے نے یاد دلایا۔
’کبھی کوئی اچھی بات بھی کرلیا کرو!‘ میں نے اپنے ضمیر کو جھاڑا۔
’تو پھر بے فکر رہو۔ پرنسپل جیسا مغرور آدمی غریب اور بوڑھے چپڑاسی کو دیکھنا تک پسند نہیں کرتا، سنے گا کیا!‘ اندر والے ایک ہی ڈانٹ میں ٹھیک ہو کر اچھی اچھی باتیں کرنے لگا۔
میرے قدم اسکول کی چہار دیواری کے دروازے کی طرف تھے۔ سر ایاز کی گاڑی تو دوسری طرف تھی مگر انہوں نے نکلنا تو دروازے ہی سے تھا اور یہی ہوا۔ کچھ ہی دیر میں وہ وہاں پہنچ گئے۔
’’سر آپ بورڈ آفس نہ جائیں، پرنسپل صاحب یہ سن کر بری طرح چونکے تھے اور پھر فوراً کسی کو فون کرکے یہ بتا بھی دیا۔‘‘ میں نے پھولی سانسوں میں بتایا۔
’’اچھا! ابھی تو تم گاڑی میں بیٹھو، یہاں کھڑے ہو کر بات کرنا مناسب نہیں۔‘‘ انہوں نے مجھے بٹھایا اور گاڑی آگے بڑھادی۔
’’اب سکون سے بتاؤ، کیا معاملہ ہے!‘‘ میں نے سارا قصہ سنا دیا۔
’’یہ صرف تمہارا وہم ہے، میں کسی ایسے کام سے بھی نہیں جا رہا جو اتنا خطرناک ہو!‘‘ انہوں نے تسلی دی اور سفر جاری رکھا۔
’’انہیں جانتے ہیں آپ؟‘‘ میں نے کچھ سوچ کر تصویر نکالی اور انہیں دکھائی۔ انہوں نے ایک نظر دیکھا اور نفی میں سر ہلادیا۔
’’فیضو بابا اسے جانتے ہیں۔ بٹیا کہہ رہے تھے، کاش میں وہاں سے نہ بھاگا ہوتا، جب آپ نے میری بات ماننی ہی نہ تھی!‘‘ میں نے افسوس کیا۔ وہ ہنسے اور بولے۔
’’تمہاری جگہ شہزاد ہوتا تو شاید میں یقین کر لیتا کیونکہ وہ بچپن سے شرارتی بھی ہے اور ان کاموں میں اس کا ذہن ٹھیک چلتا ہے۔‘‘
’’میری جگہ شہزاد ہوتا تو شاید پرنسپل صاحب کا گریبان پکڑ کر ہی ان سے سب کچھ اگلوا لیتایا کم از کم ابھی فیضو بابا کو بھی گود میں اٹھا کر بھاگتا تاکہ اب ان سے ساری الف لیلہ سن سکے۔‘‘ میں نے حسرت سے کہا۔
’’الف لیلہ؟‘‘ وہ چونکے۔
’’ مطلب یہ کہ بٹیا کون ہے وغیرہ وغیرہ!‘‘
’’اچھا اچھا۔۔۔آہ!‘‘ ان کی چیخ نکل گئی، مگر اس سے پہلے ایک زوردار جھماکا ہوا تھا۔

*۔۔۔*

ایم ڈی صاحبہ اسی وقت ہال میں داخل ہوئی تھیں۔ مجھے اچھلتا دیکھ کر وہ بھی چونکے بغیر نہ رہ سکیں، میرے پاس آئیں اورتصویر کی طرف اشارہ کرکے بولیں: ’’کیا تم ان دونوں کو جانتے ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ میں نے نفی میں سر ہلادیا۔
’’ پھر چونکے کیوں تھے یہ تصویر دیکھ کر؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔ میں سوچ میں پڑ گیا۔ کیا اب انہیں یہ بتاؤں تصویر والی خاتون نے جو لاکٹ پہنا ہے بالکل اسی طرح کا میری چچی بھی پہنتی ہیں۔ آج کل ایک ہی چیز کی ہزاروں کاپیاں نکلتی ہیں، ناجانے کتنے اور ایسے لاکٹ ہوں گے۔ مگر جھوٹ بھی نہ بولنا چاہتا تھا لہٰذا کہا: ’’دراصل انہیں دیکھ کر مجھے اپنی چچی یاد آگئیں تھیں کون ہیں یہ؟‘‘
’’یہ میرا بھائی اور بھابی ہیں۔ جن کا ایک حادثہ میں انتقال ہوگیا تھا۔‘‘
’’حادثہ؟‘‘ میں بری طرح چونکا۔
’’جی حادثہ۔۔۔ لیکن ان کا کوئی بھائی نہیں، یہ اکلوتے تھے!‘‘ انہوں نے میری وہی غلط فہمی دور کی جو پہلے خود انہیں ہوچکی تھی۔
’’اوہ۔۔۔ اچھا!‘‘ میں گہرا سانس لے کر رہ گیا۔
’’ میاں بتاؤ، کوئی طریقہ ہے، اب ہمارا دنیا سے انتقال کا وقت قریب ہے اور گھر سے انتقال کرایا جارہا ہے۔‘‘ سب نے آواز کی طرف دیکھا تو ایک بوڑھے مگر بارونق اور صحت مند شخص کو پایا۔ وضح قطع سے فوراً ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ ہی ایم ڈی صاحبہ کے والد ہیں۔
’’بابا۔۔۔ کتنی مرتبہ کہا ہے کہ ایسی بات مذاق میں بھی نہ کیا کیجیے۔‘‘ ایم ڈی انتہائی سنجیدگی سے بولیں۔
’’بھئی ہم سے بچھڑنے کا اتنا ہی خوف ہے تو پھر اپنے سے دور کیوں بھیج رہی ہو۔‘‘ بابا بھی فوراً بولے۔
’’آپ کی حفاظت کے پیش نظر!‘‘ انہوں نے دھیمے سے کہا۔
’’تو تم کیوں نہیں چلتی ہمارے ساتھ، کیا کرو گی یہاں اکیلی؟‘‘ بابا نے پیشکش کی تو میری زبان بھی پھسلی۔ ’’جی جی کیوں نہیں، میرا بھی یہی مشورہ ہے۔‘‘
ایم ڈی صاحبہ مجھے پھر سے بھنویں چڑھا کر گھورنے لگیں کہ تم کون ہوتے ہو باپ بیٹی کے بیچ بولنے والے۔ بابا نے پوچھ بھی لیا۔
’’ان موصوف کی تعریف؟‘‘
’’آفس میں ہوتے ہیں۔ آج ہونے والے واقعے کی بو بھانپ لی تھی انہوں نے۔‘‘ ایم ڈی نے توڑ موڑ کر دو جملے میں قضیہ بیان کیا۔
’’اس سے پہلے چوری کی سازش بھی بھانپی تھی اور چوری کو بھی ناکام بنایا تھا۔‘‘ میں نے یاد دلایا تو کمال صاحب نے تو سر پکڑ لیا مگر بابا اشتیاق سے بولے۔
’’کیسے بھئی؟‘‘
اس سے پہلے کہ میں شروع ہوتا ایم ڈی بولیں: ’’بابا۔۔۔ میں سامان گاڑی میں رکھوا رہی ہوں۔ آپ کومزید کوئی تیاری کرنی ہے تو کرلیں۔ بس پندرہ منٹ کے اندر اندر آپ لوگ روانہ ہوجائیں گے۔‘‘
’’مطلب صرف ہم جائیں گے، تم نہیں چلو گی!‘‘ ایم ڈی صاحبہ کچھ دیر خاموش رہیں پھر دھیمے سے بولیں۔
’’وہ ۔۔۔ دراصل۔۔۔ اسی مہینے کامران نے بھی آنے کا کہا ہے۔‘‘
’’چلو ہوگئی چھٹی۔ یہ بات تو میں کئی سال سے سن رہا ہوں۔ باقی زندگی بھی سنتا رہوں گا۔‘‘ بابا عجیب سے انداز میں بولے اور باہر کی راہ لی۔
کمال صاحب ان کے پیچھے ہو لیے تو میں بھی چل پڑا، مگر ایم ڈی صاحبہ وہیں کی وہیں بت بنی کھڑی تھیں۔ ناجانے یہ کامران کون تھا؟

*۔۔۔*

میں نے دیکھا وہ ایک بڑا سا پتھر تھا جو شیشہ توڑتا ہوا سیدھا سر ایاز کے سر پر آلگا تھا۔ ان کا سر پھٹ گیا تھا اور چہرہ لہولہان ہو گیا تھا۔ اسٹیئرنگ ان کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی تھی اور گاڑی تیزی سے سڑک سے اتر کر کسی چیز سے ٹکرانے والی تھی۔
میں نے جلدی سے اسٹیئرنگ پکڑا اور دوسری طرف گھمایا تو گاڑی سڑک پر واپس آئی۔
’’بریک لگائیں سر بریک!‘‘ میں چلایا، مگر سر ایاز تو شاید بے ہوش ہوچکے تھے۔
گاڑی کی رفتار ہلکی تو ہورہی تھی مگر پھر بھی رکتے رکتے ناجانے کیا ہوجاتا۔ میں نے سنا تھا گاڑی میں ایک ہینڈ بریک بھی ہوتا ہے جسے کھینچنے سے گاڑی رک جاتی ہے۔ مگر کہاں ہوتا ہے، یہ پتا نہیں تھا۔ جلدی جلدی نظر دوڑائی تو مل گیا مگر اسے کھینچنے سے گاڑی بجاے رکنے کے ایک جھٹکے سے پھر چل پڑی۔ مگر تھوڑا ہی آگے جانے کے بعد ناجانے کیسے خودبخود بند ہو گئی اور پھر تھوڑی ہی دیر میں رک گئی۔
سڑک سنسان تھی مگر شکر ہے جلد ہی ایک گاڑی قریب آرکی۔
’’کیا ہوا۔‘‘ ایک آدمی نے آکر پوچھا۔
’’کسی نے ہمیں پتھر دے مارا جس سے ان کا سر پھٹ گیا اور یہ بے ہوش ہوگئے!‘‘ میں نے روتی آواز میں بتایا۔
وہ آدمی جلدی سے اپنی گاڑی سے پانی لے کر آیا اور سر ایاز کے چہرے پر چھینٹے مارے تو نہ صرف خون صاف ہوا بلکہ وہ ہوش میں بھی آگئے۔
’’کیا ہوا تھا؟‘‘ انہوں نے پوچھا تو میں نے بتا دیا۔
’’ میں آپ کو ہسپتال چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ اس آدمی نے پیشکش کی۔
’’نہیں شکریہ، میں گاڑی چلا لوں گا۔ ہلکی پھلکی مرہم پٹی ہوگی!‘‘ سر ایاز نے کہا اور گاڑی اسٹارٹ کرلی۔ وہ شاید چوٹ سے زیادہ دھماچوکڑی کی وجہ سے بے ہوش ہوئے تھے، ورنہ زخم زیادہ گہرے نہ تھے۔
’’آپ سیدھا اپنے گھر چلئے، میں آپ کو گھر چھوڑ کر ہی اپنے گھر جاؤں گا۔‘‘ میں بولا۔
’’ناجانے وہ پتھر کہاں سے آگرا؟‘‘ وہ حیرت سے بولے۔
’’ لیں، اب بھی آپ کو یقین نہیں آرہا، یہ صرف اور صرف پرنسپل صاحب کا کام ہے۔‘‘ میں یقین سے بولا۔
’’لیکن بھلا آج کل کے دور میں پتھر سے کون مارتا ہے؟‘‘ انہوں نے جرح کی۔
’’دونوں ہی جان سے جاتے اگر گاڑی ٹکرا جاتی اور وہ پتھر ہٹا لیا جاتا تو یہ فقط حادثہ ہی لگتا۔‘‘ میں نے اندازہ لگایا۔
’’ایسا لگتا ہے شہزاد کی اداکاری کرتے کرتے تمہارے اندر واقعی شہزاد کی روح حلول کر گئی ہے۔‘‘ وہ ہنسے۔
’’اتنے ناول تو میں نے پڑھے ہی ہیں کہ یہ ہلکے پھلکے اندازے لگا سکوں۔‘‘ میں شرما کر بولا۔
’’خیر جب تمہارا گھر نزدیک آئے گا تو تم اُتر جانا۔ کوئی ضرورت نہیں میرے گھر تک چلنے کی، میں خود کو کافی بہتر محسوس کررہا ہوں۔‘‘ انہوں نے سمجھایا۔
’’ پہلے بھی آپ نے میری بات نہ مانی اور نقصان اٹھایا، اب دوبارہ ایسا نہ کریں!‘‘ میں نے کچھ ایسے انداز میں کہا کہ ان سے مانتے ہی بنی۔
’’مگر یہ بتائیے کہ یہ ہینڈ بریک سے گاڑی رکی کیوں نہیں؟‘‘ میں نے اشارہ کرکے پوچھا تو انہوں نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور بولے۔
’’فراز یہ ہینڈ بریک نہیں بلکہ گیئر ہے۔‘‘
میں جھینپ کر رہ گیا۔ پھر اپنی جھینپ مٹانے کے لیے بولا۔ ’’لیکن بورڈ آفس میں ایسا کیا کام تھا آپ کو کہ پرنسپل صاحب نے یہ انتہائی قدم اٹھایا؟‘‘
’’کچھ نہیں، نصاب میں کچھ تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ اسی سلسلہ میں کچھ تجاویز دینی تھیں اور وہ کوئی ایسی خاص نہیں، بلکہ اکثر کے علم میں ہیں۔‘‘ وہ تعجب سے بولے۔
’’سوچیے شاید کوئی اور بات ہو؟‘‘ میں نے زور دیاتو وہ سوچنے تو لگے مگر کسی نتیجے تک نہیں پہنچے۔ یہاں تک کہ ان کا گھر آگیا اور میں وہیں اتر گیا۔ اب میرا رخ گھر کے بجاے اسکول کی طرف تھا تاکہ میں جلد از جلد فیضو بابا سے مل کر بٹیا کا راز جان سکوں۔ میں نے احتیاطاً جیب میں ہاتھ ڈال کر دیکھا تو ساکت رہ گیا، تصویر جیب سے غائب تھی۔

*۔۔۔*

سب کا موڈ اور خاموشی ایسی ہو گئی تھی کہ فوراً پوچھ بھی نہیں سکتا تھا۔
’’شوہر تو ہو نہیں سکتے، کیونکہ نام میں کامران نہیں لگا، یقیناًبیٹا یا بھائی ہوگا، بلکہ بھائی تو اکلوتا تھاجو حادثہ کا شکار ہوگیا۔ بس سمجھ آگئی، بیٹا ہی ہے!‘‘ میں نے اپنے تئیں فیصلہ کر ڈالا۔
بابا گاڑی تک آکر کسی گہری سوچ میں غرق تھے۔ کمال صاحب بولے۔ ’’بیٹھ جائیے فہیم صاحب!‘‘
’’فہیم صاحب؟ ‘‘ میں اندر ہی اندر چونکا۔ سارے اندازوں پر پانی پھرگیا۔
’’ارے کمال میاں۔ کیا حال ہیں تمہارے، سب خیریت تو ہے نا؟‘‘ اچانک سے بابا کا لہجہ واپس پہلے جیسا ہوگیا۔
’’جی۔ بالکل خیریت ہے۔ بس گزشتہ چند روز سے یہ فیکٹری کے بکھیڑے چل رہے ہیں۔‘‘
’’ارے میاں جاؤ، آدمی ہو کر ان مکھیوں سے ڈرتے ہو۔ یہ تو زندگی کا حصہ ہیں۔ پینتالیس سال ہم نے بھی انہیں بھنبھناتی مکھیوں کی طرح مارا۔ ایک کو مارا تو دوسری جھپٹی، دوسری کو مارا تو تیسری!‘‘
’’ جی ۔۔۔ جی!‘‘ کمال صاحب نے کچھ سمجھتے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا۔
’’کیا جی جی لگا رکھی ہے۔ ہمیں پتا ہے کچھ سمجھ نہیں آئی۔ تمہیں تو صرف اکاؤنٹس کے نمبر سمجھ آتے ہیں محاورے نہیں۔‘‘ انہوں نے خود ہی کیفیت بیان کر دی۔
’’وہ۔۔۔ فہیم صاحب، یہ لڑکا ہے نا فراز۔ یہ کافی دلچسپی رکھتا ہے کتابوں سے۔ اردو بھی اچھی بول لیتا ہے، اس سے آپ بات کریں محاورے وغیرہ میں۔‘‘ کمال صاحب نے رخ میری طرف موڑ دیا۔
’’مم۔۔۔ میں؟‘‘ میں اس یکدم حملے سے بوکھلا گیا مگر جلد ہی سنبھل کر بولا۔
’’نہیں۔۔۔ بس یہ تو ان کا بڑا پن ہے، ورنہ میں کس قابل ہوں۔‘‘ میں نے حقیقت کو کسر نفسی کا لبادا اوڑھانے کی کوشش کی۔
’’چلو شکر ہے، کوئی تو ملا اس دور میں جس سے کھل کر بات چیت ہوسکے گی۔‘‘ انہوں نے یوں ہاتھ ملے جیسے کہہ رہے ہوں کوئی تو موٹا مرغا ملا جس کو چبا چبا کر کھا سکیں گے۔
’’صاحب جی سارا سامان رکھ دیا ہے۔‘‘ ایک ملازم نے مؤدب ہو کر بتایا تو میں سب سے پہلے اُچک کر بیٹھ گیا۔ بابا کے حملوں سے بچنے کے لیے بھی اور گاڑی کی سیٹ کا مزہ لینے کے لیے بھی۔ بیٹھا بھی ڈرائیور کے ساتھ آگے اور اس کا خاطر خواہ فائدہ ہوا۔ پیچھے کمال صاحب کو ایم ڈی کے بابا کے ساتھ بیٹھنا پڑا اور راستے بھر وہ انہی سے باتیں کرتے رہے۔ میری جان بچی رہی۔
میں سوچ رہا تھا کہ وہ اس قدر باتونی ہیں۔ انہیں کمال صاحب کے گھر لانا کہیں میرے لیے ہی نقصان دہ ثابت نہ ہوجائے کیونکہ باتوں باتوں میں راز کے کھلنے کا امکان اور زیادہ تھا۔
کمال صاحب بے چارے راستے بھر انہیں چوری پکڑنے کا واقعہ اور کیوسی کے لوگوں کے قتل کے متعلق بتاتے رہے۔ ضرور دل ہی دل میں مجھے برا بھلا کہہ رہے ہوں گے کہ میں نے کیا شوشہ چھوڑ دیا۔
خیر۔۔۔ انہوں نے بھی مجھے پھنسوانے کی بھرپور کوشش کی تھی اور امید یہی تھی کہ گھر پہنچ کر وہ میرے ساتھ باقاعدہ بیت بازی شروع کردیں گے۔
میں ان سے بچنے کی ترکیبیں سوچنے لگا۔ یہ شخصیت ایسی تھی کہ اس نے مجھے سب چور ڈاکو بھلا دیے تھے۔
’’ارے فراز میاں۔ بھئی کیوں اتنا چپ چپ ہو، ذرا کچھ اپنے متعلق بتاؤ، کیا مشاغل ہیں، کن مصروفیات میں وقت کٹتا ہے، خاندان میں کون کون ہے؟‘‘ میں آگے بیٹھ کر بھی محفوظ نہ رہ سکا اور جلد ہی ان کی زد میں آگیا۔
’’بس کچھ خاص نہیں، کافی وقت آفس میں کام میں نکل جاتا ہے اور باقی گھر آکر آرام میں۔‘‘ میں نے انتہائی محتاط اور مبہم طریقے سے جواب دیا۔
’’میں بتاتا ہوں، فہیم صاحب، آفس میں اکاؤنٹس کے ساتھ ساتھ یہ جاسوسی کررہے ہیں آج کل اور گھر میں بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے ہیں، میری بیگم کو تقریر لکھ کر دیتے ہیں اور کبھی کبھی مجھے شطرنج میں ہراتے ہیں!‘‘
’’شطرنج!‘‘ بابا ایسے چہکے جیسے کسی بچے کو ان کا من پسند کھلونا مل گیا ہو۔
’’بس گھر چلتے ہی مقابلہ طے ہے!‘‘ انہوں نے اعلان کیا جس سے میری کھوپڑی میں آتش بازیاں پھوٹنے لگیں کیونکہ مجھے تو شطرنج کے مہروں کے نام تک نہیں معلوم تھے!

*۔۔۔*

تصویر نہ ہوگئی، جادو کی چھڑی ہوگئی۔ پل میں تولہ پل میں ماشہ۔ میں نے دیکھا تو چچی کا لاکٹ نظر آیا، فیضو بابا کو بٹیا۔ شاید چچی کو اس میں اپنی بہن نظر آرہی ہوں، مگر سرایاز کو اس میں کوئی کیوں نظر نہ آیا۔۔۔
ہوسکتا ہے انہیں دکھاتے وقت اس میں سے انسان غائب ہوگئے ہوں اور پہاڑ دریا وغیرہ رہ گئے ہوں۔ اسی طرح چچا کو بھی شاید اس میں کسی خزانے کانقشہ وغیرہ دکھائی دیا ہوگا، تبھی اتنا سنبھال کررکھا تھا، مگر سوال یہ تھا کہ اب وہ کہاں چلی گئی تھی، کیا مجھ سے ناراض ہوگئی تھی جو غائب ہوگئی تھی؟میری یاداشت کے مطابق آخری مرتبہ میں نے اسے سرایاز کو دکھایا تھا، اوہ۔۔۔ لیکن اسی وقت تو حادثہ بھی پیش آگیا تھا!
’’کچھ اجازت ہو تو میں بھی یاد دلاؤں؟‘‘ اندر والا انتہائی مؤدب لہجے میں بولا۔
’’کیوں نہیں، کیوں نہیں؟‘‘ میں نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔
’’جہاں پناہ کو جب گیئر کی صورت میں ہینڈ بریک نظر آیا تھا، تو خوشی کے مارے آپ نے تصویر کو اچھال دیا تھا اور دونوں ہاتھوں سے گیئر کو یوں جھپٹ لیا تھا گویا کہ وہ کسی پرندے کی طرح اُڑ جائے گا۔‘‘
’’ہوں۔۔۔ مگر اُڑ گئی تصویر!‘‘ میں نے افسوس کیا۔
’’کافی حقیقت پسند واقع ہوئے ہیں آپ! ظاہر ہے سامنے کا شیشہ ٹوٹ چکا تھا، کوئی رکاوٹ حائل نہ تھی!‘‘
’’اچھا! اچھا ٹھیک ہے۔ زیادہ فکر کی بات نہیں ہے، فیضو تصویر پہچان چکے تھے، دوبارہ دکھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی!‘‘ میں نے اندر والے سے زیادہ خود کو تسلی دی اور اسکول کی طرف قدم تیز کردیے۔ گو کہ اسکول کا وقت ختم ہوچکا تھا مگر اس امید پر جا رہا تھا کہ شاید فیضوبابا ابھی موجود ہوں۔
اسکول میں داخل ہوکر سیدھا فیضو بابا کی جگہ پہنچا مگر وہ وہاں نہیں تھے اور بھی ممکنہ جگہوں کو دیکھا جہاں ان کا ہونا متوقع تھا مگر وہاں بھی نہ ملے۔
’’چلو بھئی آج تو اس راز سے پردہ اٹھنا ممکن نہیں، ایک دن کا اور انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘ اندر والے نے ہاتھ جھاڑے۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا اور مرے مرے قدموں سے واپس ہونے لگا۔ مگر اچانک مجھے زور دار کرنٹ لگا۔ آنکھوں کے راستے لگا اور سارے رگ وپے میں دوڑ گیا۔
میں نے دیکھا کہ وہ عجیب وغریب شخص غصے میں بھرا چلا جا رہا ہے جو مجھے ہسپتال کے باہر ملا تھا اور جس نے مجھے کسی بڑے راز کے افشا کی بات کی تھی۔
’’حادثے کا راز!‘‘ اندر والے نے یاد دلایا۔
’’ہاں ہاں اور پرنسپل صاحب نے مجھے اس دیوہیکل آدمی سے دور رہنے کا کہا تھا۔‘‘ میں نے بھی یاد دلایا۔
’’اور آخر میں اس نے دھمکی دی تھی کہ وہ پرنسپل صاحب کے کرتوت ساری دنیا کو بتائے گا۔‘‘ اندر والے نے کہا تو سب کچھ واضح ہوگیا۔
’’اس کی اور پرنسپل صاحب کی تو دشمنی ہے، پھر یہ یہاں کیوں اپنی شامت کو آواز دینے آگیا؟‘‘ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔
’’دشمنی ہی ہے۔ ہوسکتا ہے پرنسپل صاحب کی شامت کو آواز دینے آیا ہو۔‘‘ اندر والا آنکھیں مٹکا کر بولا۔
’’اوہ۔۔۔ مگر پرنسپل صاحب بھلا اس وقت کیوں یہاں ہوں گے۔‘‘ میں نے وقت دیکھا۔
’’تو خود ہی جا کر دیکھ لو کہ یہ کیا کرنے آیا ہے، سامنے تو جارہا ہے۔‘‘ اندر والا بھناکر بولا۔
ساتھ ہی میں نے اپنے قدم آہستہ آہستہ اس دیوہیکل کے پیچھے لگا دیے۔ حیرت انگیز طور پر اس کے قدم سیدھے پرنسپل صاحب کے آفس ہی کی طرف بڑھ رہے تھے۔
’’اگر پرنسپل صاحب موجود ہوئے تو ان کی خیر نہیں!‘‘ اندر والا بولا۔
’’کیوں نہ میں اسے روک کر اس سے وہ راز پوچھ لوں جو یہ مجھے بتانا چاہتا تھا؟‘‘
’’تب تو تمہاری خیر نہیں، غصہ نہیں دیکھ رہے اس کا۔‘‘
’’ہوں!‘‘ دیوہیکل سیدھا پرنسپل صاحب کے آفس پہنچا اور لات مار کر دروازہ کھول دیا۔
میں لرزاُٹھا کیونکہ اندر سے پرنسپل صاحب کی آواز آئی تھی۔

*۔۔۔*

 ایک بادشاہ ہوتا ہے اور ایک ملکہ۔ کچھ شہزادے اور شہزادیاں بھی ہوتی ہوں گی۔ چور اور سپاہی بھی ہوتے ہیں اور ہاں۔۔۔ ایک دانا وزیر، کیونکہ اس کے بغیر تو اُمورِ سلطنت چل ہی نہیں سکتے۔ 
میں اندازے لگانے لگا تاکہ شطرنج شروع ہو تو کچھ نہ کچھ تو پتا ہو ورنہ فوراً ہی بھانڈا پھوٹ جائے گا۔ ایم ڈی کے والد فہیم صاحب کو گھر لاکر شاید میں نے بہت بڑی حماقت کی تھی مگرجو ہونا تھا ہوچکا تھا۔ اپنے ساتھ ساتھ کچھ غصہ بھائی جان پر بھی آرہا تھا۔ ناجانے کیا خوشی ملی تھی انہیں کمال صاحب کو شطرنج ہرا کر۔ لگتا تھا بڑے فارغ تھے یہاں جو ٹیوشن پڑھانے اور تقریریں لکھنے کے بعد بھی شطرنج جیسے لغو کام کے لیے وقت نکال لیتے تھے۔
’’لغو کام؟‘‘ میری آنکھیں چمکیں۔
’’جی فہیم صاحب، میں نے دراصل شطرنج کھیلنے سے توبہ کرلی ہے کیونکہ یہ وقت کا ضیاع ہے اور لغو کام ہے۔‘‘ میں نے خوشی خوشی بتایا جیسے سو قلعے فتح کر لیے ہوں۔
’’اچانک یہ ادراک کہاں سے ہوگیا؟‘‘
’’ہیں ادرک یہاں کہاں سے آگئی، خیر!‘‘ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔
’’میاں بتایا نہیں کہ اچانک یہ خیال کہاں سے آگیا؟‘‘
’’جی وہ۔۔۔ جمعے کے خطبہ میں سنا تھا!‘‘ میں نے حقیقت بتائی۔
’’بس تو ایک آخری بار کھیل لو۔ اگر مجھے ہرا دیا تو میں بھی اس برے کام سے توبہ کرلوں گا۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’ایسے ہی کر لیجیے ناں۔ کیوں مجھ سے یہ برا کام کراتے ہیں۔‘‘ مجھے اپنا آئیڈیا کھٹائی میں پڑتا دکھائی دیا۔
’’یہ برا نہیں بلکہ نیک کام ہوگا۔‘‘ انہوں نے موضوع سمیٹا اور مجھ سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔
ایک بار پھر بھائی جان میرے سامنے تھے جنہیں میں سمجھا رہا تھا کہ بھائی! باس سے اور بڑوں سے مقابلہ ہارنے ہی میں عزت بھی ہوتی ہے اور انعامات بھی ملتے ہیں۔ جیت کر تو صرف چند لمحوں کی خوشی ہی حاصل ہوتی ہے۔
’’چلیے اُتریے فہیم صاحب!‘‘ گھر آگیا تو کمال صاحب بولے۔
’’دیکھو میاں! یہ مجھے فہیم صاحب نہ کہا کرو۔ جب ریٹائر نہیں ہوا تھا اور کمپنی کا چیئرمین تھا تو سی ایم صاحب کہتے تھے، اب بھی عزت دو نا!‘‘ فہیم صاحب مصنوعی ناراضی سے بولے۔
’’اچھا سی ایم صاحب!‘‘
’’نہیں مگر اب تو میں چیئرمین رہا نہیں لہٰذا تم مجھے سعدیہ کی طرح بابا کہا کرو۔‘‘ انہوں نے فرمائش کی۔
’’مگر ہم تو آپ کے ملازم ہیں۔‘‘ کمال صاحب نے جرح کی۔
’’گھر کے سارے ملازمین مجھے بابا کہتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ ہر کوئی مجھے یہ ہی کہے۔‘‘
’’اچھا بابا! اُترئیے۔‘‘ میں جلدی سے بولا تاکہ بحث تو ختم ہو۔
’’ارے ابو یہ آپ کن دادا جی کو لے آئے۔‘‘ جویریہ چہکی۔
’’شیش۔۔۔ دادا نہیں بابا، سب نے انہیں بابا ہی کہنا ہے۔‘‘ میں نے جلدی سے سمجھایا۔
’’چلے گا، چلے گا!‘‘ فہیم صاحب خوش ہو کر بولے۔
’’ کیا چلے گا؟‘‘ کمال صاحب نے پوچھا۔
’’بچے مجھے دادا ہی کہیں۔۔۔ کوئی تو مجھے دادا بھی کہے۔‘‘ انہوں نے پہلے خوشی سے اور پھر حسرت سے کہا۔
’’آپ کو بابا کہنے والے تو بہت ہوں گے، لہٰذا میں بھی آپ کو دادا ہی کہوں گا۔‘‘ میں نے جلدی سے اپنی شمولیت بچوں میں کرائی۔
’’ٹھیک ہے، لیکن جو بھی کہو گے، میچ تو اس کے باوجود ہو کر ہی رہے گا۔‘‘ انہوں نے سارے مکھن پیڑے پر پانی پھیر دیا۔
ایسے میں آنٹی آگئیں اور سلام دعا کرنے لگیں۔ مگر ساتھ ہی ایک کھٹ کی آواز آئی اور اُن کی ٹوپی اُڑ گئی۔
وہ بوکھلا کر اپنا سر دیکھنے لگے جبکہ میں گھبرا کر اِدھر اُدھر ۔
’’ہی ہی ہی!‘‘ آواز ہی نے ساری کہانی سمجھا دی۔
’’عمار کے بچے، یہ کیا بدتمیزی ہے۔‘‘ کمال صاحب غرائے۔میں نے دیکھا عمار اپنی لمبی سی شاٹ گن کو چھپانا چاہ رہا تھا۔
’’ان کے سر میں، آنکھ میں کہیں بھی لگ سکتی تھی، عقل نہیں ہے تمھیں۔‘‘ آنٹی بھی اس کی طرف جھپٹیں۔
’’اسی لیے میں انہیں یہاں لانے سے کترا رہا تھا۔‘‘ کمال صاحب نے تاسف سے میرے کان میں سرگوشی کی۔
’’ہوں!‘‘ میرا جی چاہا کہ دو تین چپت اپنے ہی منھ پر مار لوں۔
’’سب چھوڑو میاں، سب سے پہلے بساط سجاؤ۔‘‘
’’یہ بساط دستر خوان کو کہتے ہیں کیا؟‘‘ میں نے کمال صاحب سے جواباً سرگوشی کی۔
’’مذاق نہ کرو۔ شطرنج کی بساط کہہ رہے ہیں۔‘‘ کمال صاحب کہہ کر اندر چل دیے جبکہ مجھے یوں لگا جیسے وہ واقعی دستر خوان کہہ رہے ہوں جس پر بیٹھ کر وہ میری ہڈیوں کا سوپ پئیں گے۔‘‘

*۔۔۔*

مگر وہ آواز کسی بھی قسم کے خوف یا حیرت سے عاری تھی۔ چنانچہ یہ بات میرے لیے خوف اور حیرت کا باعث تھی۔ مطلب پرنسپل صاحب تو میرے دشمن تھے ہی، یہ دیوہیکل بھی میرا خیر خواہ نہ تھا۔ ناجانے اس کا نام کیا تھا؟ 
’’آؤ۔۔۔ آؤچنگیز! میں تمہارا ہی انتظار کررہا تھا۔‘‘ 
’’ماشاءٍ اﷲ۔ کیا اسم بامسمیٰ نام رکھا گیا ہے۔‘‘ اندر والا خوش ہو کر بولا۔
’’مگر بچپن میں اس کے والدین کو کیا پتا تھا کہ یہ ایسا ہوگا؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’جو نام رکھا، ویسی ہی شخصیت بن گئی۔‘‘
’’تم نے مجھے پوری بات کیوں نہیں بتائی تھی ماسٹر؟‘‘ چنگیز دھاڑا۔
’’کیا نہیں بتایا تھا؟‘‘ پرنسپل صاحب بولے۔
’’یہی کہ وہ سراکیلا نہیں تھا، اس کے ساتھ وہ لڑکا بھی تھا، پچھلی پارٹی کا بیٹا۔‘‘ چنگیز بولا۔
میرے سر پر طبل بجنے لگے۔ وہ میرے والدین کو جانتا تھا۔ مگر یہ پچھلی پارٹی کیا ہوتی ہے؟‘‘ اندر والا معصومیت سے بولا۔
’’چپ!‘‘
’’اوہ۔۔۔ تو وہ آج ہی سے اس کے ساتھ تھا۔‘‘ پرنسپل صاحب نے ہنکارا بھرا۔
’’اور اسی کی وجہ سے وہ سر بچ گیا، کیونکہ اس نے اسٹیئرنگ سنبھال لیا تھا اور گاڑی کو دیوار سے ٹکرانے سے بچا لیا تھا۔‘‘ چنگیز بھنایا۔
’’ہوں۔۔۔ مطلب جو پتھر کشتی ڈبونے کے لیے ڈالا تھا، اسی نے اسے الٹنے سے بچا لیا۔‘‘ پرنسپل صاحب نے مٹھیاں بھینچیں۔
’’اب یہی پتھر آپ کے پاؤں کی بیڑیوں کا وزن بنے گا آپ بھاگ نہیں پاؤ گے پرنسپل صاحب!‘‘ میں نے جی ہی جی میں سوچا۔
’’جو بھی ہے، میں نہیں جانتا، مجھے میرے پیسے چاہیے۔‘‘ چنگیز نے ہاتھ پھیلایا۔
’’واہ۔۔۔ ایسے کیسے پیسے۔۔۔ جب کام ہی نہیں ہوا۔ جب کرو گے تب ہی ملیں گے۔‘‘ پرنسپل صاحب صاف مکر گئے۔
’’میں نے اپنا کام کردیا۔ اس کے پیسے دے دو۔ دوبارہ کوشش کرانی ہے تو اس کے پیسے الگ ہوں گے۔‘‘ چنگیز نے سودا سمجھایا۔
’’چلو منظور ہے، مگر دونوں کام کے پیسے میں ساتھ ہی دوں گا کام مکمل ہونے کے بعد۔‘‘
’’ایک دفعہ تمہاری باتوں میں آکر دھوکہ کھا چکا ہوں۔ ماسٹر! اب بار بار نہیں کھاؤں گا ، اسکول کی مالکن کو قتل کرکے میں جیل چلا گیا اور تم پوچھنے بھی نہ آئے۔‘‘ چنگیز کا لہجہ طنزیہ ہوگیا۔
’’اوہ۔۔۔ تو یہ مالکن کو قتل کرا کے خود اسکول پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔‘‘ میں گہرا سانس لے کر رہ گیا۔
’’آتا بھی تو تمہیں چھڑا نہ پاتا اور خود بھی مشکوک ہوجاتا۔‘‘ پرنسپل صاحب نے حجت پیش کی۔
’’ میں چودہ سال جیل میں سڑتا رہا اور تم یہاں میری محنت کی کمائی پر عیش کرتے رہے ماسٹر۔ اس کا کوئی معاوضہ نہیں؟‘‘ چنگیز ہاتھ نچا نچا کر بولا۔
’’واہ!قتل کرنا محنت ہوگئی۔۔۔ بھئی واہ!‘‘ اندر والے نے داد دی۔
’’ویسے فن تو تمہارا واقعی منفرد ہے۔ پتھر سے ایسا پکا نشانہ مارتے ہو کہ قتل ہوجاتا ہے اور لگتا ہے حادثہ۔‘‘
’’حادثہ۔‘‘
’’حادثہ!‘‘ میرے ذہن کے تار سنسنائے۔
’’مگر تم لوگ اس فن کی قیمت دینا نہیں چاہتے ماسٹر ۔ یہ نہ سمجھو کہ میں دوبارہ تمہاری باتوں میں آجاؤں گا، اگر تم نے مجھے معاوضہ نہ دیا تو میں ساری دنیا کو تمہارے کرتوت بتا دوں گا۔‘‘ چنگیز نے دھمکی دی۔
’’خیر اس طرح تو تم بھی پھنسو گے، کیونکہ میرے سارے کام کیے تو تم نے ہی ہیں۔ مگر تمہاری سنے گا کون؟‘‘
’’وہی لڑکا۔۔۔ جب میں اسے اس کے ماں باپ کی کہانی سناؤں گا۔‘‘ چنگیز مسکرایا۔
میرے اوپر سے تو ایک نہیں کئی رنگ آکر گزر گئے۔ دل چاہا ساری احتیاطیں بالائے طاق رکھ کر سیدھا اندر گھس پڑوں اور اپنے ماں باپ کی حقیقت جانوں، چاہے اس کے بعد کچھ بھی ہو۔ مگر میری طبیعت اس کی ہمت نہ کرسکی۔
’’چلو چھوڑو۔۔۔ دونوں کا نقصان سوچنے کے بجاے وہ کرو جس میں ہم دونوں کا فائدہ ہے۔‘‘ پرنسپل صاحب بولے۔
’’وہ کیا؟‘‘
’’ابھی تک کے کام کے پیسے لو۔۔۔ اور اگلا کام دوگنے پیسوں میں کردو۔‘‘ پرنسپل صاحب نے آفر کی۔
’’وہ کیا؟‘‘
’’اس لڑکے کو راز بتا کر تو تمہیں پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملے گی، سر ایاز کے ساتھ ساتھ اسے بھی ختم کر دو اور مجھ سے دوگنے پیسے لے لو۔‘‘ پرنسپل صاحب عیاری اور سفاکی سے بولے اور یہ سن کر تو میرا چوٹی سے ایڑھی تک پسینہ بہہ گیا۔

*۔۔۔*

’’جویریہ کی بچی! تم کیسی دوست ہو، میں مصیبت میں پھنسا ہوں اور تم کوئی ترکیب نہیں بتا رہی ہو؟‘‘ میں سیدھا اس کے پاس مدد کے لیے پہنچا تھا۔
’’کیسی مصیبت؟‘‘ اس نے مجھے اوپر سے نیچے تک گھورا۔
’’ارے یہ جو تمہارے دادا جی ہیں ناں! یہ میرے ساتھ شطرنج کھیلنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’آپ تو بڑے شوق سے کھیلتے ہیں۔‘‘ اس نے حیرت سے کہا۔
’’کھیلتا تھا، اب ٹرین کے حادثے کے بعد سے ایسا لگ رہا ہے کہ بالکل بھول گیا ہوں۔‘‘ میں نے بہانہ بنایا۔
’’تو میں ساتھ بیٹھ جاتی ہوں مدد کو۔‘‘ اس نے کھلے دل سے پیش کش کی۔
’’مگر تب کیا ہوگا جب تم کسی کام سے اُٹھ گئیں، مطلب امی نے بلا لیا تو؟‘‘
’’تو ہار جائیے گا، ایسی کیا پریشانی ہے۔‘‘ وہ حیران ہی تھی۔
’’کوئی ایسا طریقہ نہیں جس میں جیت یقینی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں، کیونکہ ہم کوئی کمپیوٹر تو ہیں نہیں، انسان ہیں۔‘‘
’’کمپیوٹر!‘‘ سِرا مل گیا۔
’’سنو، وہ جو عمار کا ویڈیو گیم ہے، اس میں ہے یہ شطرنج؟‘‘
’’کلیور فوکس!‘‘ ناجانے اس نے کون سی زبان میں کہا اور اندر چلی گئی۔ میں کوئی اور بہانہ سوچتا ہوا آہستہ آہستہ اپنی حقیقی بساط پر چلنے لگا۔
’’یہ بس!‘‘ پیچھے سے جویریہ نے مجھے ویڈیو گیم پکڑایا۔
’’جو چال دادا چلیں وہ آپ اس پر چلیے گا اور جو یہ گیم چلے وہ آپ دادا کے سامنے چل دیجیے گا۔‘‘
’’زبردست!‘‘ مجھے ایسا لگا جیسے گیم بنانے والے نے یہ چیز آج ہی کے دن کے لیے ایجاد کی تھی۔
اور واقعی پھر وہی ہوا جو وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ یعنی مجھے مہروں کے نام تک پتا نہ تھے اور میں یوں کھیل رہا تھا گویا عالمی چمپئن ہوں۔ دادا چال چال پہ مجھے سراہتے اور مجھے سمجھ نہ آتا کہ میں نے آخر ایسا کون سا کام کردیا۔
’’واہ بھئی کیا بٹھایا ہے رخ کو، قریب پھٹکنا مشکل ہے۔ اوہو اس گھوڑے نے تو آفت مچائی ہوئی ہے۔ گھرا ہوا ہے مگر سب اس کی زد میں ہیں۔ ارے اس فیل نے اتنی دور سے آکر شکار مار لیا۔ میاں پیادے کو پیادہ ہی رکھو، وزیر کو نہ پیٹو اس سے، کوئی عزت ہوتی ہے وزیر کی بھی۔‘‘ آخر جملہ جو انہوں نے بولا وہ یہ تھا۔
’’شہہ کا لفظ کہتے ہیں میاں جب شہہ دیتے ہیں، کم از کم اس روایت پر تو قائم رہو۔‘‘ جب میں نے کہا ’’شہہ ‘‘تو بولے۔
’’غلط۔۔۔ شہہ اور مات!‘‘ مجھے سمجھ نہ آیا مگر انہوں نے بساط لپیٹی اور بولے:’’چلو بھئی، ہم تو تائب ہوئے اس بے کار اور لغو کھیل سے اور مان گئے تمھیں!‘‘
’’مٹھائی پکی ہے میری!‘‘ جویریہ نے سرگوشی کی۔
میں نے تشکر آمیز لہجے میں سر ہلا دیا۔ ایک لمحے کو میری نظر میں مائرہ گھوم گئی۔ وہ بھی اس جیسی تھی۔ کبھی میں نے اس کے خلوص کی قدر نہ کی۔ بھائی جان اسے بہت پیار دیتے تھے مگر وہ تو اب میں بنا ہوں۔ اس کی خیر خبر لینا گویا اب میری ذمہ داری ہے۔ کیا حال کیا ہوگا۔ میرے اور بھائی جان کے بغیر چچی اور دانیال نے اس کا۔ میں جھرجھری لے کر رہ گیا۔
مگر یہ حالات ٹھیک سے سوچنے بھی کہاں دیتے ہیں، فوراً ہی آنٹی دوڑی دوڑی آئیں اور بولیں۔
’’بابا۔۔۔ سعدیہ صاحبہ کی طبیعت اچانک بہت خراب ہوگئی ہے۔ ڈرائیور انہیں ہسپتال لے گئے ہیں ابھی آپ کے گھر سے کسی ملازم کا فون آیا تھا۔ کمال بس دو منٹ میں آرہے ہیں آپ چلنے کی تیاری کرلیجیے۔‘‘
میں بھی ساتھ ہی کھڑا ہو گیا مگر پیچھے سے کمال صاحب نے مجھے اشارے سے روک دیا۔
’’میں بھی چلتا ہوں۔‘‘ میں نے دادا سے تائید چاہی مگر وہ گہری سوچوں میں غرق تھے۔
’’قطعی نہیں، تم گھر ہی رکو گے فراز!‘‘ کمال صاحب نے صراحتاً کہا اور تینوں باہر نکل گئے۔
میں مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔ مجرم نے دادا جی کے بچ جانے کے بعد ایم ڈی صاحبہ پر وار کر دیا تھا۔ مجھے افسوس اس بات کا تھا کہ پتا چل جانے کے باوجود کیسے میں نے باورچی خانے کے نئے ملازم کو وہاں رہنے دیا۔ ایک بڑی چوک تھی جو مجھ سے ہوئی تھی اور مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میرا کوئی بہت قریبی رشتہ مجھ سے بچھڑنے والا ہے۔

*۔۔۔*

سوچا تھا کہ چنگیز یہاں سے نکلے گا تو اسے آڑے ہاتھوں لوں گا اور وہ مجھ سے ملنے اور بہت کچھ بتانے کے لیے بے چین تھا اس سے کرید کرید کر سب کچھ معلوم کروں گا یوں ہم دونوں ہی کی بے چینی کی پیاس بجھ جائے گی۔ مجھے اپنے والدین کے اور اپنے متعلق معلومات مل جائیں گی جبکہ وہ پرنسپل صاحب کے کرتوت بتا کر ان سے انتقام لے سکے گا۔ معاملہ بالکل درست سمت ہی میں جارہا تھا مگر آخر میں پرنسپل صاحب نے اتنا بڑا روڑا اَٹکا دیا تھا کہ چنگیز سے کچھ پوچھنا تو محال اس کو اپنی جھلک بھی دکھانا ازحد خطرناک تھا۔پرنسپل صاحب کی اور چنگیز کی بات اختتام پر تھی اور اب میرا وہاں رکنا موت کو آواز دینے کے مترادف تھا۔ لہٰذا میں نے وہاں سے بھاگنے ہی میں عافیت جانی۔
’کہاں تو اپنے والدین کے متعلق کچھ جاننے کے لیے مرے جارہے تھے اور اب اسی سے بھاگ رہے ہو جیسے بہت کچھ پتا ہے۔‘ اندر والے نے ملامت کی۔
’جب پتا ہو کہ اگلا معلومات دینے سے پہلے جان لے لے گا تو معلومات کیا میری میت سنے گی؟‘ میں بھی بھنایا۔ میں ایسی بدحواسی سے بھاگ رہا تھا گویا میرے پیچھے موت لگی ہو۔ کچھ سمجھ نہ آیا کہ کہاں جاؤں اور کیا کروں۔میں سر ایاز ہی کے گھر دوبارہ پہنچ گیا۔
’’ہاں بھئی، کچھ بھول گئے کیا؟‘‘ انہوں نے حیرت سے دیکھا۔
’’ نہیں، بلکہ بہت کچھ یاد ہو گیا ہے اور ابھی کے ابھی آپ کو سنانا ہے۔‘‘
’’اچھا۔۔۔ تو چلو اندر آکر سکون سے بیٹھ جاؤ اور پھر بتاؤ۔‘‘ میں نے جو کچھ سنا تھا کہہ سنایا۔
’اوہ۔۔۔ یعنی اب اس کا حملہ ہم دونوں پر ہوگا، آخر ہم کب تک اس سے چھپتے پھریں گے؟‘‘ میری بات سن کر سر ایاز بولے۔
’’چھپنے کی کیا ضرورت ہے، ہمیں موقع سے فائدہ اٹھا کر پرنسپل اور چنگیز کو رنگے ہاتھوں پکڑنا چاہیے۔‘‘
’’واہ بھئی، تم تو اقعی شہزاد بنتے جا رہے ہو۔‘‘
’’جی نام کا کچھ نہ کچھ اثر تو ہوتا ہی ہے۔‘‘
’’مگر یہ بہت مشکل بھی ہے اور خطرناک بھی۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’ہمیں پتا ہے کہ وہ جلد ہی ہم پر دوبارہ حملہ کرے گا۔اس صورت میں اگر ہم محتاط ہوں اور ٹھیک طریقے سے جال بنیں تو شکار ہوسکتا ہے۔‘‘ میں نے ترکیب بتائی۔
’’ہوں۔۔۔‘‘ سر ایاز کچھ سوچنے لگے اور پھر بولے۔ 
’’ایک پولیس آفیسر میرا دوست ہے اس سے مشورہ کرتے ہیں۔‘‘ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا اور وہ اپنے دوست کو فون کرکے تفصیلات بتانے لگے۔
’’کل میں اور شہزاد اسکول سے نکل کر بورڈ آفس جائیں گے، کوئی اڑھائی بجے کے قریب، بس تم چند پولیس والوں سے ہماری نگرانی کرالینا۔‘‘
’’میں پرنسپل صاحب کو پہلے ہی یہ پلان بتا دوں گا تاکہ وہ چنگیز کو تیار کردیں۔‘‘ میں نے جوش سے کہا۔
’’ لیکن برستے ہوئے پتھروں میں ہم اپنا بچاؤ کیسے کریں گے۔ اب تو گاڑی میں سامنے کا شیشہ بھی نہیں ہے؟‘‘ سر ایاز بولے۔
’’موٹے کپڑے، سوئیٹر کوٹ پہن لیں گے۔ سر پر بھی ایسا کوئی ٹوپا پہن لیں گے۔ ہاں چہرے کو ذرا محتاط رہ کر خود ہی بچانا ہوگا۔‘‘ میں نے تجویز رکھی۔
’’میرا خیال ہے کہ گاڑی میں کوئی تکیہ رکھ لیتے ہیں۔ اس سے بچاؤ کرلیں گے۔‘‘ انہوں نے بھی مشورہ دیا جو میں نے فوراً قبول کر لیا۔
رات میں نے وہیں گزاری اور صبح سر کے ساتھ ہی اسکول روانہ ہوا جہاں جا کر مجھے ان کے ڈرائیور کا باقاعدہ چارج سنبھالنا تھا اور دوپہر کے لیے جال بچھانا تھا۔
ابھی ہم دو قدم ہی آگے بڑھے ہوں گے کہ ہمیں سڑک کے بیچوں بیچ چنگیز کھڑا نظر آیا جس کے دونوں ہاتھوں میں بڑے بڑے نوکیلے پتھر تھے۔ اس نے پوری قوت سے ہماری طرف کھینچ مارا اور وہ کسی توپ سے نکلے ہوئے گولے کی طرح ہماری طرف بڑھنے لگے۔ تیاری دوپہر میں کرنی تھی اور حملہ صبح صبح اچانک ہوگیا تھا جس کے لیے ہم بالکل تیار نہ تھے۔ تکیہ، مفلر، کوٹ سوئیٹر سب دھرا کا دھرا رہ گیا اور موت تیزی سے اپنی طرف لپکتی نظر آئی۔

*۔۔۔*

وہ وقت انتہائی بے چینی اور بے کسی سے گزرا۔ کرنے کو بہت کچھ تھا، مگر اکیلے میں کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا۔ ایم ڈی کے بنگلے پر نئے باورچی کو پکڑ کر اس سے تفتیش کرتے تو بہت کچھ سامنے آسکتا تھا۔ نہیں بھی آتا تو اسے فوراً معطل کرنا ضروری تھا۔ جی چاہ رہا تھا کہ ایک ڈنڈا لے کر اسے روئی کی طرح دھن ڈالوں کہ اس نے ایم ڈی صاحبہ کے کھانے میں کچھ ملایا تھا۔
لیکن بھلا ایم ڈی صاحبہ میری کیا لگتی ہیں جو میں ان کا بدلہ لینے کے لیے اتنا جذباتی ہورہا تھا۔ اس کا جواب نہیں تھا، صرف احساس تھا! آخر خدا خدا کرکے وہ وقت آیا کہ سب واپس گھر آئے۔ نہ صرف ایم ڈی صاحبہ ان کے ساتھ تھیں بلکہ ایک نوجوان بھی ان کے ساتھ تھا۔ میں اس کا بغور جائزہ لینے لگا کیونکہ اس طرح کے حالات میں ہر نیا شخص ایک خطرہ ہوسکتا تھا۔ مگر وہ سب سے لاتعلق ایم ڈی اور ان کے بابا سے الجھا ہوا تھا۔
’’آخر ہمیں یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی، ہمارا اپنا گھر ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’دیکھو بیٹا، تم آج ہی یہاں آئے ہو۔ ہم حالات زیادہ بہتر جانتے ہیں، اس لیے یہاں آئے ہیں۔‘‘ دادا جی بولے۔
’’ایسا کیا ہوگیا حالات کو، آخر آپ لوگ مجھے کچھ بتاتے کیوں نہیں؟‘‘ نوجوان بولا۔
’’تمھاری غیر موجودگی میں گھر میں کچھ مشکوک ملازمین بھرتی ہوگئے۔ میں سمجھتی تھی کہ ان کا نشانہ بابا ہیں مگر انہوں نے مجھ پر وار کر دیا، کھانے میں ملاوٹ کرکے۔‘‘ ایم ڈی صاحبہ بولیں۔
’’میں چل کر سب کی خبر لیتا ہوں۔ کسی کی جرات کیسے ہوئی یہ کرنے کی۔‘‘ نوجوان طیش میں بولا۔
’’تم سالہا سال غائب رہو گے۔ بوڑھے نانا اور ماں کو چھوڑ کر تو یہی سب تو ہوگا ناں کامران بیٹے۔‘‘ دادا جی نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
’’اور بیٹا، گھر سے زیادہ تو فیکٹری کا حال خراب ہے، قتل تک ہوچکے ہیں وہاں۔‘‘ ایم ڈی بولیں۔
’’اوہ میرے خدا۔ یہ میں کیا سن رہا ہوں۔‘‘ کامران سر پکڑ کر بولا۔
میرے اندر ایک خرابی تھی کہ میری شک کی نگاہ بہت تیز تھی۔ بخشتی ہی نہیں تھی کسی کو۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ مجھے کامران کے جملے میں بناوٹ نظر آئی۔ وہ دوبارہ بولا۔
’’خیر ۔۔۔ اب میں آگیا ہوں سب کچھ ٹھیک کردوں گا۔‘‘
’’کرنا ہی پڑے گا کیونکہ میں نے وکیل صاحب کو بھی یہیں بلوا لیا ہے۔ بابا میں کمپنی کے تمام حقوق اور پاور کامران کے نام کررہی ہوں، آج اور ابھی۔۔۔‘‘ ایم ڈی نے پہلے کامران سے اور پھر دادا جی سے کہا۔
’’مم۔۔۔ میرا یہ مطلب تو نہیں تھا ماما!‘‘ کامران بوکھلا کر بولا۔
’’اداکاری۔‘‘ میں منھ ہی منھ میں بڑبڑایا۔
’’میں نے منع تو کبھی بھی نہیں کیا سعدیہ بیٹی، بس یہ ہی تو کہا تھا کہ پہلے سال دو سال کمپنی چلا کر دکھا دے، سیکھ لے کچھ، پھر حقوق اور پاور بھی منتقل کر دی جائے گی۔‘‘ دادا جی نے دھیمے لہجے میں سمجھایا۔
’’بابا! مجھ میں تو اب ہمت رہی نہیں یا تو آپ چلا لیں یا کامران کے سپرد کرنے دیں۔‘‘ ایم ڈی دو ٹوک لہجے میں بولیں۔
ہم سب بت بنے تماشا دیکھ رہے تھے۔ معاملہ ہی ایسا تھا بولتے تو کیا بولتے۔ ایسے میں کال بیل ہی ہمت کرکے بولی۔ وکیل صاحب بڑی جلدی تشریف لے آئے تھے۔ 
’’آپ نے تمام کاغذات تیار کر لیے ہیں؟‘‘ ایم ڈی نے پوچھا۔
’’جی، آپ کی ہدایات کے مطابق کامران صاحب کے نام منتقلی کے کاغذات بنا دیے ہیں۔‘‘ وکیل صاحب بولے۔
’’لائیے۔‘‘ ایم ڈی نے فائل لی اور دستخط کرنے میں ایک منٹ نہ لگایا۔ پھر فائل دادا جی کی طرف بڑھا دی۔ انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور خود بھی دستخط کردیے۔
دادا کا دستخط کرنا تھا کہ میں نے کامران کے چہرے پر ایک عجیب سی خوشی دیکھی جو چھپائے نہ چھپ رہی تھی۔ وہ جو اب تک ان دونوں کے یہاں آنے پر بحث کررہا تھا، بڑی آسانی سے بولا۔
’’ٹھیک ہے اگر آپ لوگوں کو یہیں رکنا بہتر لگتا ہے تو چند روز ٹھہر جائیے، مگر میں تو یہاں نہیں رک سکتا۔‘‘ وہ چلنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’بیٹا، تمھارا بھی گھر جانا مناسب نہیں، چند روز کسی ہوٹل میں قیام کرلو۔‘‘ ایم ڈی نے مشورہ دیا۔
’’ایسا ہی کروں گا ماما۔‘‘ کامران نے کہا اور تیزی سے نکل گیا۔
؂آتے میں قدم اور تھے، جاتے میں قدم اور
مجھ سے رہا نہ گیا، میں نے چونکنے کی اداکاری کی جیسے اچانک کوئی اہم چیز یاد آئی ہو اور پھر بغیر کچھ کہے میں بھی باہر کو رینگ گیا۔ حسن اتفاق کہ باہر مالی مل گیا۔
’’آپ کی موٹر سائیکل کہاں ہے؟‘‘ میں نے جلدی سے پوچھا۔
’’وہ کھڑی ، مگر آپ نے کیا کرنی ہے؟‘‘ اس نے حیرت سے کہا۔
’’اس کی قلم لگانی ہے تاکہ اس میں سے اور بہت ساری چھوٹی چھوٹی موٹر سائیکلیں نکل آئیں۔‘‘ میں نے جل کر کہا۔
’’مگر آپ تو سائیکل چلانے ہی کی کوشش میں گر پڑے تھے۔‘‘ اس نے گویا یاد دلایا یا باالفاظ دیگر بھائی جان کا ایک اور ناکام تجربہ بتایا مگر میں اتنی دیر میں موٹر سائیکل اسٹارٹ کرکے یہ جا وہ جا ہوچکا تھا۔ ایم ڈی کی گاڑی میں کامران تھا اور اس کے پیچھے میں۔ گاڑی ایک بڑے ہوٹل کے سامنے رکی تو وہ اپنا سا مان لے کر اتر گیا اور آہستہ آہستہ اندر کی طرف بڑھا۔
جیسے ہی گاڑی نظروں سے اوجھل ہوئی وہ تیر کی طرح واپس پلٹا اور یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ایک اور گاڑی اس کی منتظر تھی جس میں وہ بیٹھتا نظر آیا۔

*۔۔۔*

گاڑی کی رفتار بہت ہی کم تھی اور ہم دونوں اس کے اندر یوں ٹھنسے ہوئے تھے کہ ہلنے جلنے کی جگہ بھی بہت کم تھی۔ 
مدعی لاکھ برا چاہے کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
اندر والا بولا۔
’احمق، یہ بھلا اس شعر کا کون سا مقام ہے، شعر بھی پڑھا تو الٹا۔‘ میں نے ڈانٹ لگائی۔
’’پھر کون سا شعر حسب حال ہے یہی بتادیجیے۔‘‘ اندر سے آواز آئی۔
’’دیکھو، اس وقت میں بہت پریشان ہوں اور سوچنے سمجھنے کا وقت بھی نہیں ہے۔ جب تک مصرع ذہن میں آئے گا تب تک تو یہ پتھر دماغ میں اتر چکا ہوگا۔ ’اس وقت خلاصی دے دو۔ زندگی رہی تو پھر کبھی سنا دوں گا شعر بلکہ پوری نظم، بس یاد دلا دینا۔‘ میں نے جلدی جلدی اسے ٹالا۔پتھر اگلے چند مائیکرو سیکنڈز میں لگا ہی چاہتا تھا۔
’ہاتھ!‘ نہ صرف خیال آیا بلکہ بڑی تیزی سے ہاتھ اٹھ بھی گئے اور دونوں پتھروں کے آگے ایک ایک آگیا۔ 
آہنی تو تھے نہیں، لہٰذا دونوں ہاتھ پتھروں کو لیتے ہوئے ایک سر ایاز کے سینے اور دوسرا میری تھوڑی پر لگا۔ ہاتھ زخمی ہوگئے تھے، مگر جان بچ گئی تھی لیکن چنگیز کو بھلا یہ کب گوارا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ویسے ہی دو خطرناک پتھر ایک بار پھر نظر آئے۔ اب تک ہم اس سے قریب بھی ہوچکے تھے اور اس بار اگر وہ وار کرتا تو شاید بچانا مشکل ہوجاتا۔
سر ایاز کو اور تو کچھ سمجھ نہ آیا، انہوں نے گاڑی پوری قوت سے چنگیز سے ٹکرادی۔ وہ بری طرح اچھلا اور سڑک کے بیچوں بیچ چاروں شانے چت گر پڑا۔ خون بھی بہ نکلا۔ سر نے گاڑی روکی تو میں جلدی سے اترا اور بھاگا بھاگا اس کی طرف گیا۔ کتنے مزے کی بات تھی کہ وہ میرا جانی دشمن تھا مگر اس کی موت مجھے گوارا نہیں تھی کیونکہ اس سے مجھے چند راز اُگلوانے تھے۔ وہ شدید تکلیف میں تھا۔ شاید کمر یا ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اور سر پر بھی چوٹیں آئی تھیں۔ خون بہنے کی وجہ سے اس کی شکل اور ڈراؤنی ہوگئی تھی مگر مجھے بالکل خوف نہ آیا۔ میں اسے جھنجھوڑتے ہوئے بولا۔
’’بتاؤ میرے بارے میں تم کیا جانتے ہو؟ میرے والدین کون تھے؟‘‘ شدید تکلیف میں ہونے کے باوجود اس نے مسکرانے کی کوشش کی اور بولا۔ ’’وہ حادثہ نہیں، انہیں میں نے قتل۔۔۔ ماسٹر کے کہنے پر۔۔۔ تمہارا چاچا تمہارا کچھ نہیں لگتا۔ اس کو تمہارے ماں باپ کا نام بھی نہیں۔۔۔‘‘ وہ بس اتنا ہی کہہ پایا اور پھر اس کا جسم ڈھیلا پڑگیا۔
’’پانی لاؤ پانی۔۔۔ یہ بے ہوش ہوا ہوگا۔جلدی لاؤ۔‘‘ میں پاگلوں کی طرح چیخ رہا تھا۔ میرے والدین کا قاتل شاید مرچکا تھا۔ پولیس آگئی۔ اس میں سر ایاز کا دوست بھی تھا۔ نیز چنگیز کو بھی وہ پہچانتے تھے لہٰذا جلد ہی خلاصی مل گئی اور وہ اس کی لاش اٹھا کر لے گئے۔ میں نے سر کے دوست پولیس والے سے کہا۔ 
’’آپ فوراً چل کر ہمارے اسکول کے پرنسپل صاحب کو گرفتار کرلیجیے، ابھی چنگیز نے بتایا ہے کہ یہ حملہ انہوں نے ہی کرایا اور اس سے پہلے بھی وہ کچھ لوگوں کو قتل کراچکے ہیں۔‘‘
’’چلیں، انہی کی طرف چلتے ہیں۔‘‘ ہم لوگ اسکول پہنچ کر سیدھا پرنسپل صاحب کے آفس پہنچے۔
’’چنگیز ہلاک ہوچکا ہے اور اب آپ کی باری ہے۔ اصل قاتل اور اصل مجرم آپ ہیں۔ میرے والدین کو بھی آپ ہی نے قتل کرایا۔ کیوں؟ آخر ان کا قصور کیا تھا؟‘‘ میں کہتے کہتے جذباتی ہو گیا اور پرنسپل صاحب کو مکے مارنے لگا۔
’’ارے آفیسر صاحب، یہ آپ کس کو اٹھا لائے میرے دفتر میں؟ یہ تو ڈرائیور ہے۔ ان پڑھ جاہل اور اس کا تو دماغی توازن بھی درست نہیں لگتا۔‘‘ وہ پولیس آفیسر سے بولے۔
’’چنگیز نے مرتے ہوئے آپ کا نام لیا تھا۔ جس کی وجہ سے آپ شک کی زد میں ہیں۔‘‘ پولیس آفیسر بولے۔
’’ارے ارے، آپ بھی ان پڑھ لوگوں جیسی باتیں کرنے لگے۔ بھئی آپ کو قانون کا زیادہ پتا ہے کہ ثبوت ہونا چاہیے۔ مرنے والا تو کوئی بھی دشمنی نکالنے کے لیے کسی کا بھی نام لے سکتا ہے اور اب تو وہ حلفیہ بیان بھی نہیں دے سکتا۔‘‘ وہ طنزیہ لہجے میں بولے تو پولیس آفیسر اپنا سا منھ لے کر رہ گئے۔
’’جی میں نے تھوڑی جلدی کردی آنے میں۔ بہت جلد دوبارہ آؤں گا ثبوت کے ساتھ، پھر آپ بچ نہ پائیں گے۔‘‘
’’ارے جب جی کرے آئیے، ہم تو آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں آپ کے استقبال کے لیے۔‘‘ پرنسپل صاحب کا طنزیہ لہجہ جوں کا توں تھا۔ سر ایاز اپنے پولیس دوست کے ساتھ باہر نکلے تو میں سٹ پٹا کر رہ گیا۔ جلدی سے نکلنے کی کوشش کی تو پرنسپل صاحب نے میرا ہاتھ سختی سے پکڑ لیا اور بولے۔
’’چند سانس اور لے لو۔ شام ہونے سے پہلے پہلے تمھارا پتا میں خود صاف کروں گا۔‘‘ انھوں نے خونخوار انداز میں دھمکی دی اور ہاتھ چھوڑ دیا اور مجھے تو یہی لگا کہ گویا انہوں نے مجھے قتل کر ہی دیا ہو۔

*۔۔۔*

یعنی ہوٹل فقط دکھلاوا تھا، اصل منزل کوئی اور تھی۔ اسے جاننے کے لیے پیچھا ایک بار پھر شروع کردیا۔ شہر سے واقفیت ویسے ہی نہیں تھی۔ گلی در گلی جاتے ہوئے ایک لمحے کو تو خوف محسوس ہوا کہ واپسی کیسے ہوگی مگر فوراً ہی یہ خیال جھٹک دیا۔ خطرات اور چیلنجز میں پڑنا میرا شوق تھا اور جہاں بات تجسس کی آجائے تو یہ اور بھی بڑھ جاتا تھا۔ ویسے بھی دنیا میں میرا تھا ہی کون؟ مجھے کچھ ہو بھی جاتا تو پروا نہ تھی۔
دوسری گاڑی تیزی سے منزلیں عبور کرتی گئی یہاں تک کہ ایک چھوٹی سی کوٹھی تک پہنچ گئی۔ ہارن دینے پر جلد ہی دروازہ کھل گیا اور گاڑی اندر داخل ہوگئی۔ میں اگر رک جاتا تو نظروں میں آجاتا۔ پچھلی سڑکوں پر تو رش تھا، لہٰذا نظر نہ آیاہوں گا مگر یہاں سناٹاتھا لہٰذا آگے بڑھتا چلاگیا۔ 
تھوڑا آگے جا کر واپس مڑااور پھر وہیں سے گزرا۔ انداز ایسا تھا کہ جیسے کوئی گھر تلاش کررہا ہوں۔ اسی بہانے اس کوٹھی کا پتا نوٹ کرنا تھا تاکہ بعد میں آنا چاہوں یا کسی کو بتانا چاہوں تو بتاسکوں مگر اس سے مجھے کیا معلوم ہوا؟ یا اس سے کیا ثابت ہوا یہ ابھی سمجھ سے باہر تھا۔ یہ سب معلوم ہونے کے بعد مجھے کیا کرنا چاہیے۔ یہ بھی ابھی واضح نہیں تھا۔ 
’اب یہاں تک آگیا ہوں تو خالی ہاتھ تو نہیں جانا چاہیے۔‘‘ میں نے سوچا اور چند کوٹھیاں چھوڑ کر ایک کے باہر بنے لان میں بیٹھ گیا۔ ابھی مجھے وہاں بیٹھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ میں نے ایک اور گاڑی اسی مکان کے پاس رکتی اور پھر اس میں داخل ہوتے دیکھی۔ اس میں کون لوگ تھے اور وہاں کیوں آئے یہ جاننے کے لیے میں بے چین ہو گیا اور کوٹھی کے اندر پہنچنے کا فیصلہ کیا۔ سامنے کی طرف چوکیدار موجود تھا، لہٰذا یہاں سے داخل ہونا دشوار تھا۔ میں تیزی سے پچھلی گلی میں پہنچا تا کہ وہاں سے داخل ہونے کے امکانات کا جائزہ لوں۔ میری مطلوبہ کوٹھی کے پیچھے تو ایک اور کوٹھی تھی مگر اس سے دو کوٹھیاں چھوڑ کر پچھلی زمین خالی تھی۔ 
میں نے بائیک دیوار کے ساتھ کھڑی کی اور اس پر چڑھ کر با آسانی دیوار تک پہنچ گیا۔ دیوار کے اوپر خاردار تار لگے تھے مگر مجھے کون سا اس کوٹھی کے اندر جانا تھا؟ میں تاروں کو احتیاط سے پکڑتا ہوا اگلی کوٹھی کی دیوار تک پہنچا اور پھر اس پر چلتا ہوا مطلوبہ کوٹھی تک۔ اتنی بڑی بڑی کوٹھیوں میں یا تو کوئی رہتا نہیں تھا یا پھر ہوتے بھی ہوں گے تو آنکھ بند کیے ہوں گے کیونکہ میری توقع کے برخلاف نہ کسی نے مجھے دیکھا نہ ہی شور مچایا۔ اپنے محلے میں ہوتا تو پچاسوں لوگ دیکھ چکے ہوتے۔ کوٹھی کی دیوار سے چھلانگ نہیں لگانی پڑی کیونکہ ساتھ ہی گیزر موجود تھا۔ اس کی مدد سے باآسانی نیچے اترگیا۔ پیچھے کی جانب چند کھڑکیاں تھیں لیکن سب پر پردے پڑے ہوئے تھے۔ ایک کھڑکی میں سے روشنی جھلک رہی تھی۔ اس کے پاس پہنچا اور سن گن لینے کی کوشش کی مگروہ کمرہ ایر کنڈیشنڈ تھا اور پوری طرح ہوا بند، لہٰذا کوئی آواز باہر نہیں آرہی تھی۔ پردوں کی وجہ سے نظر بھی کچھ نہیں آرہا تھا۔ اِدھر اُدھر ہو کر کوشش کی تو ایک پردے کے کونے سے دراز کی جھلک دکھائی دی ایک میز تھی جس پر کچھ کاغذات اور فائلیں رکھی اور اٹھائی جارہی تھیں۔ بندہ کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔ اِکا دُکا ہاتھ نظر آجاتے۔
کچھ ہی دیر میں اندر کی بھن بھن ختم ہوگئی جس سے اندازہ ہوا کہ اندر کی میٹنگ ختم ہوگئی۔ بے چینی ہنوز موجودتھی۔ میں نے کوٹھی کی اگلی جانب جانے کا فیصلہ کیا۔
’ابھی تک بچے ہوئے ہو، خاموشی سے واپس ہو جاؤ۔‘ جی میں آیا۔
مگر پھر فوراً ہی سوچا کہ ’’ہاتھ بھی تو کچھ نہیں لگا۔‘‘
میں کوٹھی کے بائیں جانب کی راہداری سے سرکتا ہو اآگے کی طرف بڑھا۔ دائیں ہاتھ پر ایک دروازہ تھا مگر بند تھا۔ مزید آگے بڑھا تو دیکھا کہ بعد میں آنے والی گاڑی کے پاس ایک غیر ملکی کھڑا ہے اور کامران بھی اسی کے ساتھ کھڑا انگریزی میں بات کر رہا ہے۔
’ان کی باتیں سننے کا تو کوئی فائدہ نہیں کیونکہ سمجھ تو آنی نہیں، ان کاغذات کو حاصل کرنا چاہیے!‘ میں نے سوچا اور فوراً گملوں اور پودوں کی آڑ لیتا ہوا کوٹھی کے سامنے کی طرف آگیا۔ کوئی اس طرف دیکھتا بھی تو میں پودوں کے پیچھے باآسانی نظر آسکتا تھا مگر وہ لو گ باتوں میں اتنے محو تھے کہ ان کا دھیان ہی اس طرف نہ آیا۔ غیبی امداد سمجھتے ہوئے میں سامنے کی دروازے سے اندر داخل ہوگیا۔ ایک طرف باورچی خانے سے کچھ لو گوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہاں سے تیزی سے گزرتا ہواآگے بڑھا اور اندازاً اسی کمرے میں پہنچا جس کی کھڑکی سے میں جھانکنے کی کوشش کررہا تھا۔ وہ بڑا سا ڈرائنگ روم تھا جس کی میز پر کچھ کاغذات بکھرے ہوئے تھے۔ وہ اتنے زیادہ نہیں تھے کہ انھیں اٹھانا مسئلہ ہوتا۔ میں نے جلدی سی سے ان سب کو جمع کیا تاکہ لے جا سکوں کیونکہ ان کو پڑھنا اور سمجھنا میرے لیے آسان نہ تھا اور اتنے کم وقت میں ممکن بھی نہیں تھا۔ سارے کاغذات سمیٹ کر میں جیسے ہی مڑا میرے ہوش اُڑ گئے۔
دروازے پر ہی ’’بھائی‘‘ نامی غنڈہ تن کر کھڑا تھا جسے میں نے فیکٹری کے اسٹور میں ایم ڈی کے والد کو قتل کرنے کی سازش کرتے سنا تھا اور جو کیو سی کے دو افراد کا قتل بھی کر چکا تھا۔ اس کے تیور دیکھ کر لگتا تھا کہ اب سب سے پہلے میری باری تھی۔

*۔۔۔*

پولیس ساتھ تھی۔ مجرم بھی سامنے تھا۔ اس کے باوجود آزاد بھی تھا اور کھلم کھلا دھمکی بھی دے رہا تھا اور میں یہ سب جاننے کے باوجود بالکل بے بس تھا۔
’’میرا قاتل آگے آگے اور میں پیچھے پیچھے !‘‘ اندر والا گنگنایا۔
’’ پھر غلط مصرع پڑھا۔ یہاں صورتحال اُلٹ ہے۔‘‘ میں بھنا کر بولا۔
’’آپ نے پہلے کا بھی مجھے ایک صحیح مصرع سنانا ہے اور اس کا بھی!‘‘ اندر والے نے فرمائش کی۔
’’بس ذرا آج شام مجھے قتل ہوجانے دو۔ پھر سکون سے بیٹھ کر دیوان لکھوں گا تمھارے لیے۔‘‘ میں جل کر بولا۔
’’تو اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے، پولیس والے کی پناہ حاصل کرلو۔‘‘ میں آنکھیں بھینچ کر رہ گیا۔ گھور تو سکتا نہیں تھا اُسے۔ ’’چلو سر ایاز کے گھر ہی میں ڈیرہ ڈال دو۔‘‘ اندر والا بھلا کب چپ رہنے والا تھا۔
’’اور اپنے ساتھ ساتھ انہیں بھی مصیبت میں ڈال دوں۔‘‘
’’پھر آخر کب تک بچوگے، یہ پرنسپل صاحب تو سیریل کلر معلوم ہوتے ہیں۔‘‘
’’کچھ نہ کچھ تو سوچنا ہی پڑے گا، کوئی مستقل حل۔‘‘
’’جلدی کیا ہے، دیوان لکھنے کے ساتھ ساتھ ہی سوچ لیجیے گا۔‘‘ مشورہ آیا۔
’’چلو شہزاد، گاڑی میں بیٹھو، سوچ کیا رہے ہو؟‘‘ سر ایاز بولے تو میں نے چونک کر دیکھا کہ ہم گاڑی کے پاس پہنچ چکے تھے۔
’’نہیں۔۔۔ میں گھر جاؤں گا اپنے، طبیعت عجیب سی ہورہی ہے، آج چھٹی دے دیں سر؟‘‘ میں نے واضح طور پر کہا تاکہ پرنسپل صاحب سن لیں اور میرے چکر میں سر ایاز کے گھر چھاپا نہ مار بیٹھیں۔
’’چلو ٹھیک ہے!‘‘ سر ایاز اور پولیس آفیسر گاڑی میں بیٹھ گئے جبکہ میں پیدل ہی تیز تیز چل پڑا۔ دل کھٹکے جا رہا تھا کہ پیچھے سے کوئی وار نہ ہوجائے۔
’’اب بتاؤ کہ کون آگے آگے اور کون پیچھے پیچھے؟‘‘ میں نے طنزیہ لہجے میں اندر والے کو مخاطب کیا۔
’’بڑا اچھا فلسفہ ہے، واہ وا۔ سر ایاز کے گھر چھاپہ نہ پڑے بھلے اپنے گھر پڑ جائے۔ چچا چچی اور دانیال مائرہ زد میں آجائیں۔‘‘
’’بھلے سے ساری دنیا آجائے، بس مائرہ نہ آئے۔‘‘ میں بے چین ہو کر بولا۔
’’کہاں تک خیال رکھو گے بھائی۔ اور وہ کون سی سگی ہے، چچا تک تو سگے ہیں نہیں۔‘‘
’’میرے دشمن کی بھی بیٹی ہوئی نا، تب بھی بہن ہی رہے گی میری، بھلا اس کا کیا قصور؟‘‘ میں نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا۔
’’ٹھیک ہے، تبھی تم گھر جا رہے ہو تاکہ جب کوئی تمھیں نقصان پہنچانے آئے تو وہ بھی تمھیں بچانے کے چکر میں زد میں آجائے۔‘‘ میرے قدموں کو بریک لگ گئے۔
’’نہیں نہیں میں گھر نہیں جاؤں گا۔‘‘ میں نے فیصلہ کیا۔
’’تو پھر کیا سارا شہر خالہ جی کا گھر ہے کہ جہاں چاہو گے رہ لوگے۔‘‘
’’میں یہ شہر ہی چھوڑ دوں گا؟‘‘
’’مگر جاؤ گے کس شہر؟ ذرا میں بھی تو تیاری کر لوں، کیونکہ جانا تو مجھے بھی پڑے گا۔‘‘ اندر والا گہری سانس لے کر بولا۔
’’لاہور! کمال صاحب کے پاس۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ اوہ۔۔۔ اوہ!!‘‘
’’ کیا ہوا ، ایسا کیا کہہ دیا میں نے؟‘‘
’’ان دو بچوں کے ہاتھوں روز روز شہید ہونے سے تو یہ بہت بہتر ہے کہ ایک مرتبہ یہیں قتل ہوجاؤ۔‘‘
’’مجھے قتل ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، مگر اپنے ماں باپ کے قاتل پرنسپل کو اس کے ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دینا چاہتا۔‘‘
’’ مطلب شہادت ہی مطلوب و مقصود ہے لاہور جا کے۔‘‘ اندر والا ہمت ہار کر بولا۔
’’یونہی سمجھ لو۔‘‘
’’مگر پہلے اپنی جیب میں تو جھانک لو۔ ٹکٹ کہاں سے آئے گا، لاہور پہنچنے تک کھانے پینے کا کیا ہوگا؟‘‘
’’ہوں۔۔۔ ہو گیا یہ مسئلہ بھی حل۔۔۔ میں گھر جا رہا ہوں۔‘‘ میں نے کچھ سوچ کر کہا۔
’’وہاں کون سے حاتم طائی بیٹھے ہیں، بھائی وہ سب بھی کنگال ہیں۔‘‘ اندر سے آواز آئی۔
’’ اپنی اور ان کی جان بچانے کے لیے میں چوری کروں گا۔‘‘ 
’’مگر گھر میں ایسا ہے ہی کیا؟ ‘‘ حیرت بھری آواز آئی۔
’’ گھر کی سب سے قیمتی چیز، چچی کا ہار۔‘‘ میں نے ٹھہر ٹھہر کر کہا اور تیزی سے قدم دوبارہ گھر کی جانب بڑھا دیے۔

*۔۔۔*

باہر کی جنگ جیتنے کے لیے اندر کی جنگ جیتنا ضروری تھا۔ جو خوف بھائی کا میرے اندر بس گیا تھا اس سے پیچھا چھڑانا تھا ورنہ میں کچھ بھی نہ کر پاتا۔ میں انتہائی سکون کا مظاہرہ کرتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گیا اور مسکرا کر بولا: ’’ارے بھائی آپ! یہاں کیسے آنا ہوا؟‘‘ معلوم ایسا ہی ہوتا تھا جیسے وہ میرا برسوں کا بچھڑا دوست ہو جسے یوں اچانک دیکھ کر میں پھولا نہیں سما رہا ہوں۔ 
’’میں تو یہیں رہتا ہوں مگر تم اب کہیں کے نہیں رہوگے۔‘‘
’’ارے ارے اتنی ناراضی کیسی، کوئی غلطی اگر مجھ سے ہوگئی ہے تو معافی مانگ لیتا ہوں۔‘‘ میں نے کھلے دل کا مظاہرہ کیا۔ ساتھ ہی ساتھ میں اس پہلوان نما غنڈے سے بچ کر نکلنے کے امکانات پر بھی غور کررہا تھا۔
’’معافی تو تمھاری ہڈیوں کے مربے ہی کو ملے گی جو میں جلد بنانے والا ہوں۔‘‘ اس نے کہا اور مجھ پر چھلانگ لگادی۔ میں نے صوفے پر بیٹھے بیٹھے ہی کروٹ بدلی اور دوسری طرف ہو گیا جبکہ بھائی میری جگہ اوندھا پڑا دکھائی دیا۔ وہ گل دان جو بہت دیر سے میری نظروں میں آرہا تھا اب میرے ہاتھ میں بھی آگیا اور میں نے اسے اس کے سر پر توڑ دیا۔ نقصان سراسر گل دان ہی کا ہوا۔ بھائی پلٹا تو اس کے چہرے پر خونخواری تھی۔ 
’’آپ نے جلدی کر دی بھائی ورنہ میں تو خود ہی آپ کو بیٹھنے کی اور چاے پانی کی دعوت دینے والا تھا۔‘‘ میں نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
’’چاے نہیں سری پاے۔۔۔ وہ بھی تمھارے بناؤں گا میں۔‘‘ بھائی دھاڑا۔
’’ارے ارے بھائی، کہاں زحمت کروگے، بڑا وقت لگ جائے گا، چلو چل کر بھاٹی گیٹ سے کھا لیتے ہیں۔‘‘ میں نے فیاضی دکھائی۔ مگر بھائی بھاٹی گیٹ کے بجاے میر ی طرف چل پڑا۔ اس مرتبہ انداز نپا تلا تھا، جیسے قریب آکر دبوچ لے گا۔ میں خوفزدہ ہونے کے انداز میں آہستہ آہستہ پیچھے سرکنے لگا یہاں تک کہ کسی شوکیس سے ٹکرا گیا۔ بظاہر میں چوہے دان کی طرح پھنس چکا تھا لیکن درحقیقت میں اسلحہ ڈپو میں پہنچ گیا تھا۔ سب سے پہلے میں نے اس کے اوپر سجے سنگ مر مر کے مجسمے اٹھائے اور بھائی کو شیطان تصور کرتے ہوئے کنکریوں کی طرح اس پر برسا دیے۔
’’آپ کو جلدی اتنی تھی بھائی، اسی قسم کے سری پاے کھلا سکتا تھا اس عجلت میں۔‘‘ میں نے معذر ت کی۔ حملہ بہت زور دار تھا۔ ایک پیپرویٹ نما پتھر تو اس کی ناک میں لگا اور وہ پھوٹ گئی۔
’’ میں تمھیں چھوڑوں گا نہیں۔‘‘ اس بار تو وہ دہشت ناک انداز میں چیخا کیونکہ دہشت اس کی ناک سے ٹپک رہی تھی۔
’’ارے! آپ کی ناک تو آپ کی قسمت کی طرح پھوٹ گئی۔‘‘ میں نے کہا اور شوکیس میں مزید ہتھیاروں کی تلاش میں نظر دوڑائی تو دھات کے چند چھوٹے برتن نظر آئے۔
’’تم کمزور، ڈھیلے ڈھالے لڑکے ہو۔ چار قدم بھاگ تو سکتے نہیں ہو۔ ان ہتھکنڈوں سے کب تک بچوگے، یاد نہیں فیکٹری میں ریس میں آخری نمبر آیا تھا اور پھر ذرا سی انگڑی میں ایسے گرے تھے گویا کچھوا ہو۔‘‘ اس کی قوت ارادی بھی لاجواب تھی، ناک پھوٹنے پر بھی یوں باتیں کررہا تھا جیسے خراش آئی ہو۔ مگر میری قوت برداشت جواب دے چکی تھی۔ بھائی جان کے ساتھ کیے گئے اس سلوک کو میں پہلے بھی سن چکا تھا۔ میرا خون جوش مارنے لگا اور میں نے ہاتھ میں پکڑی پیتل کی کیتلی اس کی آنکھوں میں مار دی۔ اس کو شاید ایک فیصد بھی توقع نہیں تھی کہ میں آگے بڑھ کر یہ قدم اٹھاؤں گا، لہٰذا مار کھا گیا اور اپنی آنکھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھتا چلاگیا۔ میں نے پوری قوت سے کیتلی کا پیندا اس کے سر پر مارا اور مارتا چلا گیا۔ اپنا سارا غصہ اسی کیتلی کے ذریعے اس کے سر پر نکالا، حالانکہ لوگ عموماً چاے کو اس کے ذریعے پیالیوں میں نکالتے ہیں۔
’’خدا جب چاہتا ہے تو چیونٹی سے بھی ہاتھی کو مروا دیتا ہے، تم بھلا کیا چیز ہو؟‘‘ میں چبا چبا کر بولا۔
’’تو اب میں تمھیں چیونٹی ہی کی طرح مسل کر رکھ دوں گا۔‘‘ بھائی تو بے ہوش ہو گیا تھا لیکن کامران دروازے پر نظر آیا اور اس کے ہاتھ میں تو پستول بھی تھا۔
’’ارے آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟‘‘ میں نے حیرانی کی اداکاری کی۔
’’اطلاعاً عرض ہے کہ یہ میرا ہی گھر ہے اور میں یہاں گزشتہ کئی سال سے مقیم ہوں اور چونکہ اب تمھارا آخری وقت قریب ہے۔ لہٰذا یہ بھی بتاتا چلوں کہ تم جو فیکٹری اور گھر میں سازشیں سونگھتے پھر رہے ہو، ان کے پیچھے میرا ہی ہاتھ ہے۔‘‘ کامران طنزیہ انداز میں بولا۔
’’مطلب اپنی ہی والدہ اور نانا کے خلاف؟آخر کیوں؟‘‘ میں دم بخود رہ گیا۔
’’تفصیلات کا میرے پاس وقت نہیں ہے اور نہ تم اس قابل ہو کہ تمھیں بتائی جائیں۔‘‘
کامران کے پیچھے دو اور بندوق بردار آچکے تھے، اس کے اشارے پر انہوں نے مجھے پکڑا اور ایک طرف لے جانے لگے۔ 
’’کیا کرنا ہے اس کا؟‘‘ ایک بندوق بردار نے کامران سے پوچھا۔
’’فی الحال تو بند کردو۔ دو ایک چیزیں پوچھنی ہیں اس سے۔ اس کے بعد ٹھکانے لگا دیں گے۔‘‘ 
ایک ہوتی تو شاید میں کچھ حرکت کرتا، مگر تین تین بندوقوں کے سامنے کچھ کرنا حماقت تھی۔ انہوں نے مجھے ایک تاریک کمرے میں بند کر دیا ۔ جہاں کسی نے میری مدد کو نہیں آنا تھا، کیونکہ میں کسی کو کچھ بتا کر بھی تو نہیں آیا تھا۔

*۔۔۔*

پرنسپل صاحب کو بتا کر آیا تھا اس لیے زیادہ دیر گھر میں رکنا خطرناک تھا۔ چچی کا ہار اکیلے چرانے میں کافی وقت لگ جاتا، لہٰذا مائرہ کو ساتھ ملانے کا فیصلہ کیا۔
’’تم فراز بن کر سوچ رہے ہو ، اس لیے تمھیں لگتا ہے کہ وہ تمھاری مدد کرے گی، ورنہ وہ بھلا کیوں اپنی والدہ کا ہار چوری کرے گی؟‘‘ اندر والا بولا۔
’’بس تو میں اس کو بتا دوں گا کہ میں شہزاد نہیں فراز ہوں۔‘‘ میں نے ایک دم فیصلہ کیا۔
’’جی جی۔۔۔ جہاں وہ اتنے دن بھائی کے غم میں رہی، بتا کر پھر ہمیشہ کے لیے بچھڑ جاؤگے۔‘‘ اندر سے طعنہ آیا۔
’’تو کیا کروں آخر، تم ہی بتاؤ۔‘‘ میں جھلا کر بولا۔
’’ اس کو صندوق کی تصویر کے متعلق بتا دو اور کہو تحقیقات کے لیے چاہیے۔‘‘ اندر سے مشورہ آیا۔
’’اور اگر اس نے تصویر دیکھنے کی فرمائش کر ڈالی؟‘‘ اب کی بار میں نے مصرع اٹھایا۔
جواب ندارد۔
’’ایک بات بتاؤں۔ سب سے زیادہ کامیاب، کارگر، آسان اور موثر بہانہ پتا ہے کیا ہوتا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ 
’’کیا؟‘‘
’’سچ!‘‘ میں نے تجربہ بتایا۔
’’ٹھیک ہے بتا دو۔‘‘ بڑی مشکل سے اجازت ملی۔
حسن اتفاق کہ دروازہ مائرہ ہی نے کھولا۔
’’دیکھو میری جان کو خطرہ ہے، میں لاہور جا رہا ہوں۔ سفر خرچ کے لیے مجھے کچھ پیسے چاہئیں، اس کے لیے چچی کا ہار لینا پڑے گا انہیں بتائے بغیر، اور یہ کام تم کروگی۔‘‘ میں نے ایک ہی سانس میں سچ سے لے کر پلان تک سب بتا ڈالا۔ وہ مجھے حیرت سے تکنے لگی۔
’’میں انہیں باتوں میں لگاؤں گا، تم سر دبانے، یا کنگھی کرنے کے بہانے ہار اتار لینا۔‘‘ میں نے اس کے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی اگلی بات کردی۔
’’مگر وہ تو سو رہی ہیں۔‘‘ اس نے بتایا۔
’’یہ تو اور اچھی بات ہے۔ چلو، آؤ میرے ساتھ۔‘‘ یہ بھی تائید غیبی ہی تھی بظاہر ایک مشکل کام بڑی ہی آسانی سے مکمل ہو گیا اور ہار میرے پاس آگیا مگر ایک آسان کام مشکل ہو گیا۔
’’آپ بھی مجھے اکیلا چھوڑ کر جا رہے ہیں۔‘‘ مائرہ افسردہ لہجے میں بولی تو میرا دل کٹ گیا۔ بھی سے مراد یہی تھی کہ فراز اسے اکیلا چھوڑ گیا تھا۔
’’ہمیشہ کے لیے نہیں جا رہا۔ جان بچانے کے لیے جا رہا ہوں۔ کچھ تیاریاں کرکے جلد آؤں گا اور تمھارے لیے ایک بڑا تحفہ بھی لاؤں گا۔‘‘ میں نے اسے دلاسہ دیا۔
’’یہ تحفہ تو آپ مجھے ابھی بھی دے سکتے ہیں، بھائی جان کا۔‘‘ اس نے نہ جانے کیا سوچ کر کہا۔ شاید اس نے پھر میری کسی بات سے میرے فراز ہونے کا یقین کر لیا تھا۔
’’جو بھی تحفہ ہوا، ان شاء اﷲ، واپس آکر ہی دوں گا۔‘‘ میں نے فقط اس لیے سچ چھپایا کہ بتا دیتا تو کافی دیر تک وہاں سے ہلنا مشکل ہوجاتا۔
جلدی سے اپنے کمرے میں گیا اور کچھ کپڑے وغیرہ ایک تھیلے میں رکھے۔ شہزاد کی ایک جرسی جو سردیوں میں نکلتی تھی۔ اس غرض سے پہن لی کہ لاہور کا موسم نسبتاً ٹھنڈا ہوسکتا تھا۔ بھاگم بھاگ گھر سے نکلا اور جیولر کی دکان کا رخ کیا۔
عادتاً ہاتھ جرسی کی جیب میں گیا تو وہاں کئی نوٹ موجود تھے۔ لگتا تھا قسمت مجھے لاہور لے جا کر چھوڑنا چاہتی تھی جو یوں واقعات پر واقعات ہو رہے تھے، میں نے نکال کر گنے تو وہی رقم تھی جو کہ فارم ہاؤس میں دینی تھی۔
’’واہ شہزادے، پیسے یہاں رکھے تھے تو تم لاہور کیسے جارہے تھے؟‘‘ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔
’’جیسے ان پیسوں کے بغیر تم جارہے تھے۔‘‘ اندر سے آواز آئی۔ میں نے توجہ نہ دی اور اس ہار کو الٹ پلٹ کر دیکھا جس کی قسمت میں ابھی بکنا نہیں تھا۔
’’الرحمت جیولرز۔ لاہور۔‘‘ مجھے اس کے پیچھے کندہ ہوا نظر آیا۔
’’اب تو لاہور پہنچ کر ہی اگلا سانس لوں گا۔‘‘ میں نے محاورتاً بولا اور اسٹیشن کی راہ لی۔
سوتے جاگتے سفر گزرایہاں تک کہ میں لاہور پہنچ گیا۔ سیدھا کمال صاحب کے گھر کی راہ لی۔ ذہن تیار کررہا تھا کہ ان کو کس طرح واقعات سنانے ہیں۔ اتنے دنوں بعد آنے کی کیا وجوہ بتانی ہیں وغیرہ۔
ان کے گھر میں داخل ہوا ہی تھا کہ دیکھا ایک نوجوان شخص اندر سے کچھ سامان وغیرہ لیے چلا آرہا ہے۔ مجھے دیکھتے ہی وہ زوردار چونکا۔ سامان اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر آرہا اور وہ گھبراہٹ کے عالم میں بولا۔
’’تت۔۔۔ تم وہاں سے کیسے نکل آئے؟‘‘
مجھے سمجھ نہ آیا کہ اسے میرے کراچی سے بھاگنے کا علم کیسے ہے، پھر بھی میں نے کہا: ’’بس تھوڑی ہمت کی اور نکل آیا۔‘‘
ایسے میں اس کے پیچھے کمال صاحب اور ایک بوڑھے صاحب دکھائی دیے مگر وہ نوجوان تو وہاں سے ایسا سرپٹ باہر بھاگا گویا موت اس کے تعاقب میں ہو۔

*۔۔۔*

’’تم سب بیکار ہو، ناکارہ ہو گئے ہو، کسی کام کے نہیں، ایک چھوٹا سا لڑکا نہیں سنبھالا گیا تم لوگوں سے۔‘‘ کامران کے برسنے کی آواز آئی۔
’’نہیں صاحب وہ تو کمرے ہی میں ہے۔ ہمیں یقین ہے۔‘‘ ایک آدمی بولا۔
’’تو میں جو اپنی ان دو آنکھوں سے دیکھ کر آرہا ہوں وہ غلط ہے کیا؟‘‘ کامران غصہ سے بولا۔
’’آئیے دیکھ لیتے ہیں۔‘‘ جیسے ہی مجھے یہ آواز آئی، میں جلدی سے ایک الماری کے اوپر چڑھ گیا اور دم سادھ کر لیٹ گیا۔دروازہ کھلا اور حیرت بھری آواز آئی۔
’’ہائیں، کہاں چلا گیا، یہیں کہیں چھپا ہوگا۔‘‘
’’کہیں نہیں چھپا ہے، وہ کمال کے گھر پہنچ چکاہے ابھی بائیس منٹ پہلے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔‘‘ کامران غرایا اور اس شخص کو لے کر واپس ہو گیا۔
’’وہ بس اوروں کے ساتھ یہاں پہنچنے ہی والا ہوگا، فوراً یہ جگہ خالی کرو اور مجھے میرے کاغذات لادو۔‘‘ باہر سے کامران کی پھر آواز آئی۔
’’وہ تو آپ لے گئے تھے نا، وہاں نہیں تھے میز پر۔‘‘ جواب آیا۔
’’کیا، میں نے نہیں اٹھائے وہ ۔۔۔ کہاں ہیں جلدی دیکھو۔‘‘ کامران کی پریشانی میں ڈوبی آواز آئی۔ میں نے کان باہر ہی لگائے ہوئے تھے اور دھیمی دھیمی آواز بھی توجہ سے سن رہا تھا۔
’’لگتا ہے لے بھاگا فراز کا بچہ، برباد کر دیا مجھے اس نے۔‘‘ کامران کی روتی آواز آئی تو میں نے کپڑے کے اندر چھپے کاغذات کو ہاتھ لگا کر چیک کیا، وہ جوں کے توں موجود تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں اندازہ ہوا کہ سب کے سب گھر سے باہر کہیں روانہ ہوگئے ہیں۔ ناجانے کامران کو یہ یقین کیسے ہو گیا تھا کہ میں بھاگ گیا ہوں، میری سمجھ سے قطعاً باہر تھا۔ میں نے خاموشی سے اتر کر گھر کا سرسری جائزہ لیا اور پیچھے کی راہ سے واپسی اختیار کی۔ موٹر سائیکل جوں کی توں کھڑی تھی۔ شاید بنگلے والوں کے لیے یہ ایک بے حقیقت چیز تھی، ورنہ ہمارے کراچی کے محلے میں ہوتی تو اب تک تین مرتبہ غائب ہوچکی ہوتی۔
’’سب سے پہلے تو اس نامراد باورچی کی خبر لیتا ہوں جس نے ایم ڈی کو کوئی غلط چیز کھلائی۔‘‘ میں نے سوچا اور ایم ڈی کے گھر کی راہ لی۔ گارڈ مجھے پہچان گئے ۔ میں نے کہا: ’’ذرا میرے ساتھ باورچی خانے تک چلو۔‘‘ اس لیے ساتھ لے لیا کہ کہیں وہ بھی ہتھیار نہ نکال لے۔ باورچی خانے میں ایک بوڑھا باورچی موجود تھا۔
’’کتنے لوگ کام کرتے ہیں یہاں؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔
’’ایک میں ہوں جی اور ایک اور بندہ ہے۔‘‘ باورچی بولا۔
’’کتنا کتنا وقت ہو گیا آپ لوگوں کو یہاں؟‘‘
’’مجھے؟‘‘ بوڑھا بولا اور آسمان کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگا۔ اندازہ ہو گیا یہ پرانا اور خاندانی قسم کا ہے۔
’’دوسرا کب سے ہے اور کدھر ہے؟‘‘ میں نے جلدی سے پوچھا۔
’’اسے تو ابھی چند ماہ ہی ہوئے ہیں، اپنے کوارٹر میں ہوگا۔‘‘ میں جلدی سے اس کے کوارٹر دوڑا تو پتا چلا کہ ابھی ابھی کہیں نکلا ہے۔
’’اوہ!‘‘ میں مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔ پہچانتا بھی نہ تھا ورنہ ڈھونڈنے نکل کھڑا ہوتا۔
’’حلیہ بتاؤ اس کا اور کیسے کپڑے پہنے ہوئے تھے ابھی؟‘‘ میں جلدی جلدی بولا۔
’’وہ ۔۔۔جی وہ۔۔۔ ‘‘گارڈ حلیہ سوچنے لگا۔
’’جتنی دیر میں تم سوچو گے اتنی دیر میں تو وہ کہیں کا کہیں نکل جائے گا، بیٹھو میرے ساتھ موٹر سائیکل پر اور جہاں نظر آئے فوراً بتانا۔‘‘
میں نے اسے ساتھ بٹھایا اور باہر نکل پڑا۔ گلی گلی کئی چکر لگائے۔ بس اسٹاپ اور مین روڈ جانے والے راستے بھی چیک کیے مگر سب بے سود۔ آخر تھک ہار کر اسے واپس چھوڑا اور کمال صاحب کے گھر کی راہ لی۔ 
پریشانی یہ تھی کہ وہاں جا کر آخر میں کیا بتاتا۔ کیا یہ کہ ایم ڈی کا بیٹا ہی اصل مجرم ہے اور ان کے والد کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ بھلا کسی غیر کی بات پر وہ کیوں اپنے بیٹے پر شک کریں گے، شاید الٹا مجھے ہی سازشی سمجھیں، ایسے میں اسے کس طرح مجرم ثابت کروں، کیا بتاؤں، کیا نہ بتاؤں، میں شدید الجھن میں تھا۔

*۔۔۔*

ناجانے وہ نوجوان کون تھا، پہلے تو کبھی کمال صاحب کے گھر میں نظر نہیں آیا تھا۔
’’تم اتنے دنوں سے بتائے بغیر غائب تھے، دوسرا اکاؤنٹینٹ رکھ لیا ہوگا!‘‘ اندر سے آواز آئی۔
’’تو مجھے ملک الموت سمجھنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔
’’بھئی اب تم آگئے تو سمجھو اس کی نوکری گئی!‘‘ اندر والے نے توجیہ پیش کی۔
’’اسے کیسے پتا چلا کہ میں پچھلا اکاؤنٹینٹ تھا؟‘‘ شاید سوال و جواب کا سلسلہ چلتا ہی رہتا اگر مالی نہ ٹپک پڑتا۔
’’فراز بابو میری موٹر سائیکل تو واپس کردو۔‘‘
’’ہائیں! مجھے بھلا کیا پتا آپ کی موٹر سائیکل کا؟‘‘ میں حیران ہو کر بولا۔
ایسے میں کمال صاحب بھی باہر آنکلے۔ مجھے دیکھ کر انہیں ضرور چونکنا چاہیے تھا، آخر بغیر بتائیے اتنے دنوں بعد جو آیا تھا، مگر انہوں نے کوئی توجہ نہ دی۔
’’آپ یہیں سے تولے کر گئے تھے مجھ سے؟‘‘ مالی بڑے وثوق سے بولا۔
’’ نہیں بابا، میں یہاں سے موٹر سائیکل پر نہیں گیا تھا!‘‘ میں نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’شاکر، کیا ہو گیا ہے تمھیں، فراز کو تو موٹر سائیکل چلانی تک نہیں آتی۔‘‘ کمال صاحب نے دلیل دی۔
’’ جی جی۔ میں نے بھی یہی کہا تھا مگر اس کے باوجود فراز بابو نے مجھ سے لے کر اسٹارٹ کی اور یہ جا وہ جا!‘‘ مالی نے بتایا۔
’’خواب دیکھا ہوگا آپ نے۔‘‘ میں نے اندازہ لگایا۔
’’خواب دیکھا تھا تو موٹر سائیکل کہاں گئی؟‘‘ مالی رونے کے قریب ہو گیا۔
’’خواب نگر ہی میں رہ گئی ہوگی۔‘‘ اندر والے نے جواب دیا اور میں کمال صاحب کی طرف بڑھا تاکہ سلام دعا کروں، ساری رام کہانی سناؤں وغیرہ ۔۔۔مگر وہ تو یوں ایک طرف چل دیے گویا میرا واپس آنا دوسرے شہر سے کئی دن بعد نہیں بلکہ پڑوس کے گھر سے گھنٹے بعد ہو رہا ہو۔ ہو سکتا ہے کسی پریشانی میں ہوں، جو توجہ نہیں دی، خیر میں در ودیوار کو تکتا اندر کی طرف چلا۔ یہ وہ گھر تھا جہاں مجھے اپنے گھر سے بھی زیادہ محبتیں ملی تھیں اور یہی وہ گھر تھا جہاں مجھے اپنے بچپن سے زیادہ چوٹیں بھی لگی تھیں، جویریہ اور عمار کی شرارتوں سے۔ ڈرتا ڈرتا اندر داخل ہوا کہ ابھی کوئی کھلوناہیلی کاپٹر آئے گا اور مجھ پر کوئی انڈا یا رنگ وغیرہ گرائے گا، مگر ایسا بھی نہ ہوا۔دونوں بچے اندر کمرے میں بیٹھے کوئی گیم کھیلنے میں مصروف تھے۔ میں نے آہستہ سے سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام۔‘‘ بغیر مڑے ہی جواب مل گیا۔
’’میں فراز ہوں۔‘‘ میں نے کہا تاکہ اگر کوئی غلط فہمی ہے تو دور ہوجائے۔
’’جویریہ نے مڑ کر مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور واپس مڑتے ہوئے بولی۔ ‘‘ تو اس میں بتانے کی کیا بات ہے، فراز ہی ہیں ناں، کوئی احمد فراز تو نہیں۔‘‘ مجھے ان کا انداز کچھ بدلا بدلا لگا۔
’’چلو آنٹی کے پاس چلو، انہی سے حال احوال پوچھنا۔‘‘ اندر والے نے مشورہ دیا۔ میں ا ن کے کمرے کی طرف بڑھ ہی رہا تھا کہ مجھے ایک بزرگ دکھائی دیے، مجھے دیکھتے ہی بولے۔
’’فراز میاں، کامران باہر گیا ہے کیا؟‘‘ ان کے انداز سے ایسا لگتا تھا گویا کامران میرا بچپن کا دوست ہو اور وہ خود میرے لنگوٹیا یار، جبکہ میں ان دونوں کو جانتا تک نہ تھا۔
’’کون کامران؟‘‘ میں نے استفہامیہ کہا اور آنٹی کے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔ آنٹی کے کمرے میں پہنچ کر تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ وہاں کمپنی کی ایم ڈی صاحبہ موجود تھیں۔ میں سارے حال احوال بھول گیا اور حیرت سے بولا۔ ’’ایم۔۔۔ ایم ڈی صاحبہ۔۔۔‘‘
’’ہاں اب بہتر ہیں۔ تم کھانا کھا کر اپنے کمرے میں آرام کرو۔‘‘ وہ بولیں تو میں سٹپٹا کر رہ گیا۔ ایسا لگتا تھا میں ٹرین میں لاہور نہیں آیا بلکہ ٹائم مشین سے ماضی میں واپس آگیا ہوں اور ان لوگوں کو میری غیر حاضری کا کچھ پتا نہیں۔ مگر یہ کامران، بوڑھے بابا اور ایم ڈی صاحبہ یہاں کیا کررہی ہیں؟
’’بھیا یہ سب تو مجھے کسی نئے گھن چکر کا پتا دے رہے ہیں اس سے پہلے کہ اس میں پھنسو، پہلے الرحمت جیولرز کا معاملہ دیکھ لو!‘‘ اندر سے مشورہ آیا تو مناسب لگا۔ میں نے باہر کی راہ لی اور سیدھا صرافہ بازار پہنچا۔
’’ پورے شہر میں کئی بازار ہیں۔ اس جیولر کو ڈھونڈنا اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا تم سمجھ رہے ہو!‘‘ اندر والے نے ڈرایا۔
’’کہیں نہ کہیں سے تو شروع کرنا ہی پڑے گا نا۔‘‘ میں نے کہا اور لوگوں سے پتا پوچھنا شروع کیا۔
پہلا ہی آدمی بولا: ’’ یہ اگلی دو گلیاں چھوڑ کر دوسری دکان ہے۔‘‘ میں نے دانتوں میں انگلیاں دے دیں۔ اندر والے نے تو پورا ہاتھ ہی دے دیا ہوگا کہ جتنا آسان میں سمجھ رہا تھا، یہ تو اس سے بھی زیادہ سہل نکلا تھا۔
بتائی گئی جگہ پہنچا تو دیکھا ایک پرانی مگر بڑی سی دکان پر بڑا بڑا لکھا تھا ’الرحمت جیولرز‘ دل بہت زور زور سے دھک دھک کرنے لگا۔
’’بھائی اتنا گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ کون سا وہ اسے دیکھتے ہی اس کے خریدنے والوں کا نام بتادے گا۔ ویسے بھی ان چیزوں کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو یہ اتنا پرانا ہے کہ اس کا بنانے والا اب قبر میں بیٹھا اﷲ اﷲ کررہا ہوگا۔‘‘ میں دکان میں داخل ہوا اور پہلے ہی سیلز مین کے سامنے وہ لاکٹ الٹ دیا۔
’’یہ آپ ہی کی دکان کا ہے نا؟‘‘ میں نے پوچھا۔ اس نے الٹ پلٹ کر اس میں لکھا نام دیکھا اور بولا: ’’یہ تو ہاتھ سے لکھا گیا ہے، مطلب کافی پہلے کا ہے، آپ کو اس کا کیا کرنا ہے؟‘‘
’’یہ مجھے کہیں سے ملا ہے، میں اسے اس کے مالک تک پہنچانا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے بات بنائی۔
’’میں کسی پرانے کاریگر سے پوچھتا ہوں، شاید کوئی کچھ بتاسکے۔‘‘ وہ اسے لے کر اندر چلاگیا۔
’’مجھے تو کوئی امید بر آتی نظر نہیں آتی۔‘‘ اندر والا گنگنایا۔
جبکہ اندر سے ایک سن رسیدہ آدمی دوڑا دوڑا آیا، اس کے ہاتھ میں وہی لاکٹ تھا۔
’’یہ تمھیں کہاں سے ملا؟‘‘ اس نے آتے ہی پوچھا۔
’’ جناب یہ لمبی کہانی ہے، آپ مالک کا پتا بتا دیں میں انہی کو سناؤں گا۔‘‘
’’میں یہ کہانی سننے کو بے چین ہوں۔ تم مجھے سنا دو، میں انہیں سنا دوں گا اور یہ لاکٹ بھی پہنچا دوں گا۔‘‘ وہ بے چینی سے بولا۔
’’دراصل میں یہ کام خود کرکے ہی کچھ انعام وصول کر پاؤں گا، لہٰذا معذرت۔‘‘ میں نے بہانہ بنایا۔
’’اوہ تو پھر تو تم یقیناًبہت بڑا انعام وصول کر پاؤ گے، چلو میرے ساتھ چلو۔‘‘ وہ شخص بولا اور مجھے لے کر دکان سے باہر نکل آیا۔

*۔۔۔*

اسی اچھنبے میں گھر پہنچا تو سب سے پہلے مالی بابا کودیکھا۔ مجھے دیکھتے ہی اس کی آنکھیں کھلیں اور پھر دوڑ کر یوں بائیک سے لپٹ گیا گویا یہ اس کا کوئی بچھڑا ہوا بیٹا ہو جو بیس سال بعد ملا ہو۔
’’کیا دیکھ رہے ہو بھئی، یہ بالکل ٹھیک ہے، ابھی ابھی تو بڑی دور سے چلا کر آرہا ہوں۔‘‘ میں نے تسلی دی۔
’’دور کہاں گئے ہوں گے کچھ دیر پہلے تو نکلے ہو اور چلا کیسے سکتے ہو، چلانی تو آتی نہیں۔‘‘ وہ عجیب عجیب باتیں کرنے لگا۔ میں نے اس کو اس کے حال پر چھوڑا اور اندر کا رخ کیا۔ کمال صاحب کہیں باہر گئے ہوئے تھے، لہٰذا دادا کے پاس پہنچا۔ سوچا باتوں باتوں میں انہیں اشارہ دے سکا تو دے دوں گا، آگے وہ خود جانیں۔
’’میں ابھی کامران کے پاس سے آرہا ہوں۔‘‘ میں نے اعلان کرنے کے انداز میں کہا۔
’’کون کامران؟‘‘ وہ طنزیہ لہجے میں بولے تو مجھے بڑا عجیب لگا، کہیں وہ بھی تو کامران کی حقیقت نہیں جانتے؟ میں نے سمجھنے کے لیے طنز کا اثر ختم کرنے کی کوشش کی۔ 
’’آپ کا نواسہ اور ایم ڈی کا بیٹا کامران!‘‘ میں نے بڑبڑا کر کہا۔
’’چلو شکر ہے تمہاری یادداشت تو واپس آئی ورنہ تو یہ تم ہی تھے جو بولے تھے، کون کامران؟‘‘ مجھے ان کی بات سمجھ نہ آئی، لہٰذا مدعا پر آیا۔
’’ذرا یہ کاغذات تو دیکھ کر بتائیے کہ کیا ہیں؟‘‘ میں نے کاغذات نکال کر ان کے آگے رکھ دیے۔ میرا انداز کچھ اتنا سنجیدہ تھا کہ وہ مزید کوئی سوال کیے بغیر چشمہ لگا کر انہیں دیکھنے لگے۔ پھر گہری سانس لے کر پیچھے ٹیک لگا لی اور بولے۔ 
’’تو اس نے تمھیں بھیجا ہے مجھے یہ دکھانے کے لیے، یہ بتانے کے لیے کہ میں ہار گیا!‘‘
’’اس نے مجھے بھیجا نہیں ہے، بلکہ میں یہ کاغذات اس کے پاس سے اُڑا کر لایا ہوں۔‘‘ میں نے حقیقت بتائی۔ وہ مجھے خاموشی سے ٹکر ٹکر دیکھتے رہے۔ 
’’یہ کیا ہے دادا جان؟‘‘ میں اسے سمجھ نہیں پایا۔
’’یہ ایک غیر ملکی کمپنی سے کیا گیا معاہدہ ہے۔ اس نے میرے ساتھ معاہدہ کرنے کی بھی بڑی کوشش کی کہ ہم اس سے خام اشیاء خرید لیں، مگر میری غیرت نے کبھی یہ گوارا نہ کیا۔‘‘
’’آخر اس میں ایسا کیا تھا؟‘‘
’’اس میں کچھ حرام اجزاء تھے، خنزیر کے ،جو اگر ہم لے لیتے تو ہمارے بنائے گئے پکانے کے تیل اور گھی میں شامل ہوجاتے اور یوں عوام کی ایک بڑی تعداد میں جا کر ان میں بددینی اور بگاڑ پیدا کرتے۔ لہٰذا میں نے انہیں صاف منع کردیا تھا۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ اوہ!‘‘ میرے منھ سے بے ساختہ نکلا۔
’’ پہلے تو انہوں نے بہت لالچ دیے مگر اس پر بھی میں نہ مانا تو دھمکیاں، جو آج تک جاری ہیں۔ مگر ایک بات سمجھ نہیں آئی۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’ابھی ابھی تو اسے پاور ٹرانسفر ہوئی ہے، ابھی تو وہ آفس بھی نہیں گیا اور اس کمپنی نے اس سے رابطہ کرکے یہ معاہدہ بھی دستخط کرا لیا؟‘‘ دادا تعجب سے بولے۔
’’ جی۔۔۔وہ۔۔۔ دراصل۔۔۔‘‘ میں کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
’’بتا دو جو بھی پتا ہے۔ مجھے بڑی اور بری خبریں سننے کا بہت تجربہ ہے۔‘‘
’’جی وہ کامران کسی دوسرے ملک میں نہیں، بلکہ یہیں تھا اور اب مجھے سمجھ آیا کہ وہ اس غیر ملکی کمپنی کی لالچ میں آگیا تھا۔ اس نے مجھے خود بتایا کہ فیکٹری میں ہونے والی سازشوں میں وہی ملوث ہے اور یقیناًیہ سب پاور حاصل کرنے اور اس کمپنی سے معاہدہ کرکے ان کے دکھائے گئے سبز باغ حاصل کرنے کے لیے تھا۔‘‘ میں نے اپنا تجزیہ بتایا۔
’’لگتا تو یہی ہے، مگر اب ہم کچھ نہیں کرسکتے ، کیونکہ ہمارا اب کمپنی میں کوئی عمل دخل نہیں۔‘‘ انہوں نے افسوس سے کہا۔
’’ لیکن روکنا تو ہمیں ہر صورت ہوگا، بھلا حرام اجزاء کا لوگوں کو کھلانا کوئی ہلکی بات ہے۔‘‘ میں جذباتی ہو گیا۔
’’ کہاں تک روکیں گے۔ وہ کمپنی دوسرے گھی اور تیل کی کمپنیوں کو وہ اجزاء سستے داموں دے رہی ہے۔‘‘ دادا نے ایک اور انکشاف کیا۔
’’اوہ۔۔۔ لیکن یہ بات حکام کو بتا کر اس کا سدباب کردینا چاہیے۔‘‘
’’مسئلہ یہ ہے کہ وہ اجزا لکھے کچھ اور ہوتے ہیں اور ہوتے کچھ اورہیں۔ مجھے اس کے سستا ہونے کی وجہ سے تجسس ہوا تھا تو میں نے لیبارٹری ٹیسٹ کرایا تھا۔ میں سمجھا کہ یہ غلطی سے آگیا ہے لیکن جب انہیں بتایا تو پتا چلا کہ یہ ہی اصل چکر ہے۔ انہوں نے مجھ سے وہ رپورٹ بھی ہتھیا لی اور دھمکیوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔‘‘
’’تو اس ڈر سے آپ نے اس راز کو حکام تک نہیں پہنچایا؟‘‘ میں نے افسوس سے کہا۔
’’اوّل تو میرے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔ دوم یہ کام میں اکیلے نہیں کرسکتا تھا، میرا ایک ہی بیٹا تھا، وہ انہی دنوں ایک حادثے میں جاں بحق ہو گیا تھا!‘‘ انہوں نے غمزدہ لہجہ میں بتایا۔
’’اوہ۔۔۔ وہی جس کی تصویر آپ کے گھر میں شوکیس میں رکھی ہے۔‘‘ مجھے یاد آیا۔
’’ہاں۔۔۔ کئی تصاویر ہیں گھر میں۔‘‘
’’جس کے ساتھ ان کی بیوی بھی ہے جس نے ایک ہار پہنا ہوا ہے۔‘‘ میں نے کھوئے کھوئے انداز میں کہا۔
’’ہاں، بڑی چاہت سے بنوایا تھا وہ ہار اس نے۔‘‘ 
’’میں اس ہار پہننے والی خاتون کو اچھی طرح جانتا ہوں۔‘‘میں نے گویا دھماکہ کیا۔
’’کیا۔۔۔!!‘‘ دادا چیخ پڑے۔

*۔۔۔*

’’میں اس ہار بنوانے والے گھرانے کو اچھی طرح جانتا ہوں۔‘‘ عمر رسیدہ کاریگر نے بتایا۔
’’اچھا!‘‘ میرا دل پھر زور زور سے دھڑکنے لگا۔
’بڑی چاہت سے بنوایا تھا وہ ہار انہوں نے۔‘‘ اس نے بتایا۔
’’کون ہیں وہ لوگ؟‘‘
’’تفصیلات جان کر کیا کرو گے، ابھی مل بھی لینا اور انعام بھی لے لینا۔‘‘ اس نے منھ بنایا، شاید وہ یہ سب خود بتا کر انعام حاصل کرنا چاہتا تھا اور میرے نہ بتانے پر تلا ہوا تھا۔ 
’’اتنی زحمت کیوں کررہے ہیں، راستہ بتا دیتے، میں خود ہی چلا جاتا۔‘‘ میں نے اس کی موٹر سائیکل دیکھ کر کہا۔
اس نے گھور کر مجھے دیکھا اور چپ چاپ ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
’’عقلمند لے کر جائے گا تب بھی تھوڑا بہت انعام تو مل ہی جائے گا، تم اسے اس سے بھی محروم کیوں کرنا چاہتے ہو؟‘‘ اندر سے آواز آئی۔
سفر شروع ہوا تو میں سوچنے لگا کہ نجانے کس سے ملاقات ہو کیا کیا سوال ہوں۔ میں انہیں کیا بتاؤں گا، یہی کہ یہ ہار ہمیشہ اپنی چچی کو پہنے دیکھا، جو دراصل سگی چچی بھی نہیں ہیں۔ ان کے پاس ایک نئے شادی شدہ جوڑے کا صندوق ہے جس میں سے یہ انہیں ملا ہوگا۔ وہ جوڑا ایک اسکول کے پرنسپل کے ہاتھوں اس لیے قتل ہوا تاکہ وہ اسکول پر قبضہ کرسکے۔
بس یہی کچھ تھا جو انہیں میں بتا سکتا تھا لیکن میرا دل چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ تم بھی اس میں کہیں ہو۔ وہ دونوں تمہارے والدین بھی تو ہوسکتے تھے، مگر کیسے؟ اس کا نہ کوئی ثبوت تھا میرے پاس نہ ہی اشارہ۔
’’اشارہ یہ ہے کہ وہ جوڑا بھی چنگیز کے ہاتھوں قتل ہوا اور تمھارے ماں باپ بھی، کیا ممکن ہے وہ ایک ہی واقعہ ہو۔‘‘ اندر والا امید سے بولا۔
’’تمھارا نام کیا ہے؟‘‘ کاریگر نے پوچھا۔
’’فراز۔‘‘ میں نے بڑے دنوں بعد اپنی صحیح شناخت بتائی۔
’’چلو فراز اترو، آگیا ان کا گھر!‘‘ موٹر سائیکل رک گئی۔
لیکن جہاں رکی تھی اسے گھر کہنا سراسر غلط لگا۔ وسیع و عریض چار دیواری کے بیچوں بیچ ایک پھاٹک نما دروازہ تھا۔ ہم چلتے ہوئے دروازے کے نزدیک پہنچے تو وہاں باوردی پہرہ دار تھے۔
’’سلام فراز صاحب!‘‘ ایک نے مودب ہو کر سلام کیا تو میں حقیقتاً لڑکھڑا گیا۔ آخر اسے میرا نام کیسے پتا چلا اور ساتھ ہی اس نے دروازہ بھی کھول دیا جیسے مجھے اچھی طرح جانتا ہو۔
’’ہونہہ، امتحان لینے آئے تھے میرا۔۔۔ دیکھ لو، کوئی بھی ہوتا تو میں نے ٹھیک جگہ پہنچانا تھا۔‘‘ کاریگر بولا اور واپس پلٹ گیا۔ میں حالات میں اتنا گنگ تھا کہ سمجھ ہی کچھ نہیں آرہا تھا، کیا کروں کیا بولوں۔
’’جی وہ باورچی کا کچھ پتا چلا بعد میں؟‘‘ ایک نے پوچھا۔
’’کون باورچی۔‘‘ منھ سے نکلتے نکلتے رہ گیا، میں نے نفی میں گردن ہلا دی۔ ان کے ساتھ ہی چلتا چلتا ایک عمارت کے اندر پہنچا جو کافی سبزہ زار سے گزرنے کے بعد آئی تھی۔ پہرہ دار مجھے وہیں پر چھوڑ کر واپس ہوگیا اور میں اکیلا ہی اندر داخل ہوگیا۔ عمارت کیا تھی، ایک محل تھا مگر خاموش اور ویران۔ کوئی انسان دکھائی نہ دیتا تھا۔
میں کسی کے انتظار میں وہیں ٹہلنے لگا۔ وہاں رکھی نت نئی چیزوں کو دیکھتے دیکھتے میری نظر انہی لوگوں کی تصویر پر پڑی جو چچی کے صندوق سے برآمد ہوئی تصویر میں تھے۔
’’اوہ۔۔۔ تو تم ان کے گھر تک پہنچ ہی گئے، مگر پتا پھر بھی کچھ نہ چلا۔‘‘ اندر والے نے چڑایا۔
’’ کوئی ہے یہاں۔۔۔ کوئی ہے؟‘‘ میں نے چلانا شروع کیا۔ تو ایک بوڑھا دوڑا دوڑا آیا۔
’’جی فراز بابو کیا بات ہے؟‘‘ اس نے کہا۔
’’آپ کو میرا نام کیسے پتا چلا؟‘‘ میں نے سب سے پہلے یہ پہیلی سلجھانی چاہی۔
’’آ۔۔۔ آپ یہاں دو مرتبہ پہلے بھی آئے ہو۔ نام کیسے نہ پتا ہوگا۔‘‘ اس نے کہا۔
میرے دماغ کا فیوز اُڑ گیا۔ کیا مجھے سوتے ہوئے چلنے کی عادت ہے یا میرا کوئی جناتی ہمزاد بنام فراز موجود ہے؟
’’کب آیا تھا میں؟‘‘
’’آج ہی کچھ دیر پہلے، جب مجھ سے نئے باورچی کا پوچھا تھا اور چند روز پہلے بھی۔‘‘
’’ٹھ۔۔۔ٹھیک ہے!‘‘ میں ڈر گیا اور فوراً وہاں سے بھاگ نکلنے ہی میں عافیت جانی، اس سے پہلے کہ وہ جن وہاں واپس آجائے اور مجھے اپنی جگہ دیکھ کر میرے خلاف کوئی کارروائی کر بیٹھے۔ میں بوکھلاہٹ میں دروازے سے باہر نکلا، ابھی چند قدم ہی گیا ہوں گا کہ دو غنڈے میرے قریب آکھڑے ہوئے اور پستول لہراتے ہوئے بولے: ’’چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ جاؤ، کوئی حرکت کی تو سیدھا اگلے جہاں میں پہنچو گے۔‘‘ 
جیسا کہ بتا چکا ہوں کہ دماغ کا فیوز تو اُڑ ہی چکا تھا لہٰذا اسے زحمت نہ دی اور خود کو حالات کے حوالے کردیا۔ وہ مجھے جس جگہ لے گئے، وہاں وہی نوجوان موجود تھا جو مجھے کمال صاحب کے گھر دیکھ کر بھاگ نکلا تھا۔
’’تم لڑکے ہو یا چکنی مچھلی، بڑی آسانی کے ساتھ ہاتھ سے پھسل گئے؟‘‘ وہ طنزیہ انداز میں بولا۔
’’آپ کون؟‘‘ میں حیرانی سے بولا۔
’’چلو بھئی فراز میاں کی اداکاری شروع، اب یہ نہ مجھے پہچانیں گے نہ ہی ان کاغذات کا انہیں کچھ پتا ہوگا جو وہ ہم سے لے اُڑے تھے۔‘‘ اس کا لہجہ ہنوز طنزیہ تھا۔
’’کیسے کاغذات ؟‘‘ میں ایک بار پھر چونکا۔
’’تلاشی لو اس کی اور اگر نہ ملیں تو مار مار کر یادداشت واپس لاؤ۔‘‘ وہ سفاکی سے بولا تو پستول بردار آگے بڑھے اور لگے میری تلاشی لینے۔ مگر نکلا کچھ نہیں فقط اس ہار کے۔
’’یہ ہار تمھارے پاس کہاں سے آیا۔‘‘ وہ چونکا۔
’’تم اس ہار کے بارے میں کیا جانتے ہو؟‘‘ میں بھی جواباً چونکا۔
’’میں تو بہت کچھ جانتا ہوں مگر بتانے کا پابند نہیں۔۔۔ اس وقت پابند تو تم ہو۔‘‘ وہ ہنسا۔
’’کراچی سے چرا کر لایا ہوں۔‘‘ میں نے سچ بتایا۔
’’ کیا اسے پہننے والی زندہ ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ہاں، پرسوں ہی تو اتارا ہے اس کے گلے سے۔‘‘ میں نے بتایا تو اس نے سر پیٹ لیا۔
’’ لو۔۔۔ ایک اور مصیبت، خیر یہ تو صرف تمھیں پتا ہے اور تمھاری تو اب یہاں سے روح ہی باہر جائے گی، میں ذرا اس ہار سے اپنی جیت کا فیصلہ تو کرا آؤں۔‘‘
اس نے جلدی جلدی کہا اور ہار کو جیب میں رکھ کر باہر کو دوڑ گیا۔ جبکہ میری سمجھ میں ایک آنہ بھی نہ آیا۔

*۔۔۔*

کون ہے وہ۔۔۔ کہاں ہے وہ؟‘‘ دادا بے یقینی کے عالم میں بولے۔
’’وہ میری چچی ہیں۔ کراچی میں رہتی ہیں لیکن کیا ایسے ڈیزائن کے کئی ہار نہیں ہوسکتے؟‘‘ میں نے جواب کے ساتھ سوال چپکایا ۔
’’نہیں ہوسکتے، بہت مشکل ہے دوسرا ہونا، وہ خصوصی آرڈر پر بڑی کوششوں سے بنایا گیا تھا۔ کیا نام ہے تمہاری چچی کا، مجھے فوراً ان سے ملنا ہے۔‘‘ دادا بے چینی کے مارے اٹھ کھڑے ہوئے۔
مگر ایسے میں کال بیل بجی اور دروازے سے کامران کی آواز آتی سنائی دی۔ میں نے جلدی سے وہ سب کاغذ سمیٹے اور اندر کی طرف دوڑ آیا۔
’’انہیں میری موجودگی کا مت بتائیے گا!‘‘ میں نے کہا۔
کامران اندر آگیا اور دادا سے باآواز بلند بولا: ’’ بلا لیجیے ماما کو بھی اور ان سب کو جو آپ کے خیر خواہ بنے پھرتے ہیں۔‘‘ شاید اس کا اشارہ کمال صاحب کی طرف تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں گھر کے تمام افراد مع ایم ڈی وہاں موجود تھے۔ نہیں تھا تو صرف میں۔
’’فراز کدھر ہے؟‘‘ کمال صاحب نے آنٹی سے پوچھا تو کامران بولا۔
’’ نہ یہاں ہے نہ ہی اب کبھی یہاں آئے گا۔‘‘ وہ ہنسا۔
’’آج تم نے ہم سب کو یہاں کیوں جمع کیا ہے؟‘‘ ایم ڈی بولیں۔
’’میں ایک اعلان کرنا چاہتا ہوں اور ساتھ ہی ایک انکشاف بھی۔‘‘ وہ ڈرامائی انداز میں بولا۔
’’دیکھو جو بھی کہنا ہے جلدی کہہ ڈالو، میرا دل بہت کمزور ہے اور طبیعت بھی ٹھیک نہیں۔‘‘ ایم ڈی نے کہا۔
’’ٹھیک کیسے ہوگی ماما، ساری زندگی تو آپ نے مجھے بچہ سمجھا اور اپنے بابا کے کہنے پر ساری دولت اور کاروبار پر قبضہ کیے بیٹھی رہیں لیکن کیا فائدہ ہوا، آنی تو میرے ہی پاس تھی، سو آگئی۔‘‘ کامران نفرت آمیز لہجے میں بولا۔
’’یہ مت بھولو کہ ہم ہی نے سب کچھ تمھارے نام منتقل کیا ہے۔‘‘ دادا بولے۔
’’وہ تو میں نے حالات ہی ایسے کھڑے کر دیے کہ کرنا پڑا، ماما کو ڈرگ تک دینی پڑی، ورنہ تو آپ زندگی بھر امید لگائے اپنے ان پوتوں کا انتظار کرتے رہتے جو کب کے ختم ہوگئے۔‘‘ ڈرگ کا سن کر ایم ڈی کے چہرے پر اس کے لیے نفرت نظر آئی جبکہ دادا بولے: ’’تمھیں کیسے پتا میرے پوتوں سے متعلق؟‘‘ کامران نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو واپسی پر اس میں ایک ہار برآمد ہوا۔
’’یہ تمھیں کہاں سے ملا؟‘‘
’’جس نے آپ کے پوتوں کا گلا گھونٹا، اس نے دیا ہے ثبوت کے طور پر ان کی ماں کا ہار۔‘‘ کامران نے کہا اور ہار دادا کی طرف اچھال دیا۔
’’میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ تم اس قدر نیچ اور گھٹیا ہوگے۔ بابا ہمیشہ تمھاری طرف سے مشکوک رہے لیکن میں انہیں رد کرتی رہی، افسوس کہ میں غلط تھی۔‘‘ ایم ڈی افسوس سے بولیں۔
’’ جی غلط تو آپ ہمیشہ تھیں ماما، مجھے کب اس سے انکار ہے، اب آپ یہیں اپنے خیر خواہوں کے ساتھ رہیے، واپس گھر میں یا فیکٹری میں قدم رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ کامران زہریلے لہجے میں بولا اور واپس ہونے لگا۔
’’تم سے اچھے تو یہ کمال صاحب اور فراز ہیں جو غیر ہونے کے باوجود خیر خواہ ہیں لیکن فراز اب کیوں نہیں آئے گا؟‘‘ دادا بولے۔
’’اس لیے کہ وہ میرے راستہ میں ٹانگ اڑانے کے چکر میں خود ہی پورا پھنس چکا ہے اور اس وقت تو موت کو یاد کررہا ہوگا۔‘‘
’’ہائیں۔ ‘‘ میں نے حیران ہو کر دل ہی دل میں سوچا، اب چھپے رہنا برداشت سے باہر تھا، لہٰذا اگلے لمحہ میں خود پناہ گاہ سے باہر تھا۔
’’ہیلو!‘‘ میں نے چہکتے ہوئے کہا۔
کامران بری طرح اچھلا، ایسا لگا جیسے اس نے مجھے نہیں بلکہ کسی بھوت کو دیکھ لیا ہو۔
’’فراز بھائی آپ کو پتا نہیں کہ ہیلو نہیں کہتے، بلکہ سلام کرتے ہیں؟‘‘ جویریہ نے سبق دہرایا۔
’’ان جیسے لوگوں کو ہیلو ہی کہتے ہیں جسے کسی نے ہیل والے، یعنی جہنم والوں سے تعبیر کیا ہے۔‘‘
’’تت۔۔۔ تم دوبارہ کیسے نکل آئے؟‘‘ کامران کی آنکھوں میں خوف تھا لیکن ساتھ ہی ہاتھ میں ریوالور نظر آیا۔
’’مرغی کے پنجرے میں عقاب کو بند نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کو تو بسیرا کرنا ہوتا ہے پہاڑوں کی چٹانوں میں۔‘‘ دادا کے چہرے پر خوشی نظر آئی۔
’’اس چوزے کی گردن تو میں ابھی مروڑتا ہوں۔‘‘ کامران نے سفاکی سے کہا اور ریوالور میری طرف کرکے۔۔۔
’’ٹھاہ!‘‘ زوردار آواز آئی اور ریوالور اس کے ہاتھ سے نکل گیا جبکہ عمار کی آواز آئی۔
’’میرا نشانہ۔۔۔ دیکھے زمانہ۔۔۔ بچ کے نہ کوئی جائے۔‘‘ اس کے ہاتھ میں غلیل تھی۔ میں اچھا کھلاڑی ثابت ہوا، چھلانگ لگا کر ریوالور کیچ کر لیا اور کامران پر تان لیا۔
شور شرابے میں چوکیدار بھی پیچھے سے آچکا تھا۔ اس نے ایک ہی جست میں کامران کو چھاپ لیا۔
جویریہ بولی: ’’دیکھیں امی، آپ کے منع کرنے کے باوجود اس نے اپنی غلیل نہیں توڑی۔‘‘
’’امی نے کہا تھا کہ میں اس سے صرف چھپکلی یا سانپ وغیرہ مار سکتا ہوں، اب میں نے اس سے کیا مارا ہے فیصلہ تم خود ہی کرلو۔‘‘ عمار نے فوراً جرح پیش کی۔
اتنی دیر میں ہم کامران کو باندھ چکے تھے۔ دادا اس کے قریب گئے اور پوچھا: ’’اب بتاؤ کہ یہ ہار تمھیں کس نے دیا تھا؟‘‘ اس پر کامران میری طرف گھوما اور بولا۔
’’چپ کیوں ہو، بتاتے کیوں نہیں کہ یہ مجھے تم سے ملا تھا۔‘‘ 
’’کیا!‘‘ سب ہی کا منھ کھلے کا کھلا رہ گیا اور سب مجھے مشکوک اور خوفزدہ نظروں سے تکنے لگے۔

*۔۔۔*

میں نے دماغ کے فیوز واپس صحیح کیے، کیوں کہ اس کے بغیر میرا یہیں کام تمام ہوجانا تھا۔ سیٹ ہوتے ہی اندر والا جاگ اٹھا۔
’ہاہا۔۔۔ موت سے بھاگ کر تم کراچی سے لاہور آگئے مگر اس نے تمھیں یہاں بھی دبوچ لیا۔‘
’وہاں تو میں نے اس کے لیے بہت پاپڑ بیلے تھے، یہاں تو مفت ہی گلے پڑی۔‘ میں نے بے بسی ظاہر کی۔
’اسی لیے کہتا ہوں کہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرو، بھاگو نہیں اس سے۔‘‘ اندر سے آواز آئی۔
’’ کیا وہ کاغذات بہت اہم تھے؟‘‘ میں نے سرا پکڑا اور غنڈوں سے پوچھا۔
’’یقینا، ورنہ باس کیوں انہیں ڈھونڈواتے۔‘‘ ایک بولا۔
’’کہاں چھپائے ہیں تم نے، فوراً سچ سچ بتا دو ورنہ یہیں مار مار کر تمھارا بھرتہ بنادیں گے۔‘‘ دوسرے نے دھمکی دی۔
’’وہ۔۔۔ وہ تو میں نے بیکار سمجھ کر کچرے دان میں پھینک دیے تھے۔‘‘ میں نے جان بچانے کے لیے جھوٹ بولا۔
’’کیا۔۔۔ پھینک دیے، کون سے کچرے دان میں؟‘‘ وہ اچھل پڑا۔
’’ارے وہی جو میرے گھر کے پاس ہے۔‘‘ میں نے ہاتھ نچائے۔
’’اور تمھارا گھر کہاں ہے؟‘‘
’’بس بڑی سڑک سے تیسری گلی اندر مڑ کر بائیں جانب کی چوتھی گلی میں نکڑ کا مکان۔‘‘ میں نے جلدی سے کہا۔
’’کیا کہا، بڑی سڑک سے بائیں جانب تیسری گلی کا چوتھا مکان؟‘‘ وہ سمجھ نہ پایا۔
’’لیکن کونسی بڑی سڑک؟‘‘ دوسرا بولا۔
’’لو۔۔۔ بڑی سڑک نہیں دیکھی؟ وہی بھئی جو چورنگی سے نکلتی ہے۔‘‘ میں ایسے بولا جیسے وہ سڑک نہ دیکھنا زندگی کی سب سے بڑی محرومی ہو۔
’’کونسی چورنگی؟‘‘ اس نے میرا گریبان پکڑ لیا۔
’’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ وہی جس کے اندر بڑی اچھی گھاس لگی ہے۔‘‘ میں نے بہت اہم نشانی بتائی۔
’’اس طرح تو وہ کاغذات کچرے میں ضائع ہوجائیں گے،ہمیں اسے ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔‘‘ کسی عقلمند نے وہی کہا جو میں چاہتا تھا۔ 
’’مگر باس سے پوچھے بغیر؟‘‘ ایک ڈر کر بولا۔
’’سوچو جب باس کو وہ کاغذات واپس دو گے تو کیسا انعام ملے گا۔‘‘ دوسرے نے لالچ دی۔
’’چلو!‘‘ انہوں نے مجھے دوبارہ اسی کار میں بٹھایا اور چل دیئے۔ 
’’بتاؤ، کہاں جانا ہے؟‘‘ اس دفعہ میں نے جھٹ سے چورنگی کا نام بتادیا۔
’کدھرلے جارہے ہو انہیں اور آگے کیا منصوبہ ہے؟‘ اندر والے نے پوچھا۔
’کمال صاحب کے گھر لے جا رہا ہوں اور منصوبہ سوچ رہا ہوں۔ کچھ تم بھی سوچ لو ورنہ میرے ساتھ تم بھی مروگے۔‘ میں نے جل کر کہا۔
’کمال صاحب کے یہاں مت لے جانا، ورنہ خواہ مخواہ وہ بھی غنڈوں کی زد میں آجائیں گے۔ کراچی میں تو سر ایاز اور چچا کا بڑا خیال تھا، یہاں کمال صاحب جیسے محسن کو بھول گئے۔‘ اندر والے نے طنز کیا
’میں صرف ان کے گھر کے سامنے سے گزروں گا، شاید کوئی دیکھ لے اور مدد کر پائے۔ جاؤں گا تو کچرے دان اور ان کے ساتھ مل کر ان کاغذات کے لیے سر مارتا رہوں گا، جن کی کبھی شکل تک نہیں دیکھی۔‘ میں نے ارادہ بتایا۔
’چلو وہیں سے فرار کی کوئی صورت سوچیں گے۔‘
’بہت بہت شکریہ اس مشورے کا جو میرے ذہن میں تو کبھی آتا ہی نہیں۔‘ میں بھنایا۔
’’اب کدھر جانا ہے؟‘‘ ڈرائیور نے پوچھا۔
’’ارے بتایا تو تھا اتنی جلدی بھول گئے؟ بڑی سڑک سے تیسری گلی اندر لے کر بائیں طرف کی چوتھی گلی کے نکڑ۔۔۔‘‘ سر پر ایک زوردار چپت پڑی۔
’’منھ بند رکھو اور صرف ہاتھوں کے اشارے سے بتاؤ۔‘‘ میں نے حکم کی تعمیل کی، یہاں تک کہ دھک دھک کرتے دل کے ساتھ کمال صاحب کی گلی میں مڑا مگر مڑتے ساتھ ہی دل کی حرکت اور تیز ہو گئی کیونکہ وہاں عین کمال صاحب کے گھر کے سامنے ایک پولیس کی گاڑی کھڑی تھی جس میں ان غنڈوں کا باس ہتھکڑی لگائے بٹھایا جا رہا تھا۔ سمجھ نہ آیا کہ یہ حقیقت ہے یا خواب۔
’’ارے۔۔۔یہ ۔۔۔ یہ ۔۔۔ یہ کیا؟‘‘ ڈرائیور ہکلایا اور بریک مار دی۔
’’لو بھئی۔ تمھارا باس تو گرفتار ہو گیا۔ اب بہتری اسی میں ہے کہ تم لوگ مجھے یہیں اتار دو اور فوراً کہیں روپوش ہوجاؤ۔‘‘ میں چہکا تو انہوں نے میرے حکم کی ایسے ہی تعمیل کی جیسے میں ان کا باس بن گیا ہوں۔ گاڑی سے اتر کر میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمال صاحب کے گھر پہنچا تو میرا سر دھک سے اڑ گیا۔ وہاں میرا وہی جناتی ہمزاد کھڑا تھا جس نے اس گھر میں میری جگہ لی ہوئی تھی۔

*۔۔۔*

کامران کہہ چکا تھا کہ ہار دینے والے ہی نے دادا کے پوتوں کا گلا گھونٹا ہے اور اب وہ مجھے الزام دے رہا تھا کہ یہ ہار اسے میں نے دیا ہے۔ کامران کے لہجہ میں اتنا وثوق تھا کہ اسے جھوٹا سمجھا جانا ممکن نہیں تھا لیکن صورتحال واضح کرنی بھی ضروری تھی لہٰذا میں بولا: ’’یہ ہار اسے میں نے نہیں دیا، البتہ میں دادا کو پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ میں نے اسے اپنی چچی کے گلے میں دیکھا ہے۔‘‘
’’تو پھر یہ ان کے گلے سے میری جیب میں کہاں سے آگیا؟ کیا تم نے نہیں بتایا تھا کہ تم اسے ان سے چرا کر لائے ہو۔‘‘ کامران ایک بار پھر بڑے یقین سے بولا۔
’’نہیں البتہ میں یہ بات ان سے ضرور معلوم کروں گا۔‘‘
’’بابا۔ کامران کی ایک نہ سنیے۔۔۔ ہم دیکھ ہی چکے ہیں کہ یہ مکار ہے، آستین کا سانپ ہے۔ جبکہ فراز ٹھیک ہی کہہ رہا ہوگا۔‘‘
’’میں نہ کہتا تھا کہ میں نے سانپ یا چھپکلی ہی کو اپنی غلیل سے مارا ہے۔‘‘ عمار خوش ہو کر بولا۔
’’اس کو گرفتار کرا دیجیے بابا۔۔۔ ہمارا اب اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔‘‘ ایم ڈی بڑی مشکل سے آنسو ضبط کرتے ہوئے بولیں اور روتے ہوئے وہاں سے چلی گئیں۔ دادا نے پولیس اور وکیل دونوں کو فون کرکے بلوایا اور مجھ سے بولے۔
’’کیا تمھاری چچی میرے پوتوں سے متعلق کچھ جانتی ہوں گی؟‘‘
’’پتا نہیں۔ انہی سے پوچھنا پڑے گا، ہمیں تو ایسا کبھی کچھ نہیں بتایا۔‘‘
’’میرے پاس جاسوسی کے ایسے ایسے طریقے ہیں جن کی مدد سے کسی سے بھی کچھ بھی اُگلوایا جا سکتا ہے۔ آپ مجھے ان کے پاس لے چلیے گا، میں ان سے سب کچھ معلوم کرلوں گا۔‘‘ عمار نے اپنے ارادے بتائے۔
’’ہمیں کراچی چلنا ہوگا، یہی بتایا تھا ناں تم نے کہ وہ کراچی میں رہتی ہیں؟‘‘ دادا بولے۔
’’جی دادا۔‘‘ میں نے کہا اور گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
وہی کراچی جہاں میں پل بڑھ کر بڑا ہوا۔ زندگی کی بے شمار یادیں وہاں سے وابستہ تھیں۔ جہاں فراز بھائی جان رہا کرتے تھے اور جہاں بے شمار دوست یار شاید میرا انتظار کررہے تھے۔
پولیس آگئی اور کامران کو ہتھکڑی پہنا کر لے جانے لگی۔ ہم بھی ساتھ ساتھ درواز پر آئے اور اسے بے بسی سے گاڑی میں بیٹھتا ہوا دیکھنے لگے۔ کتنی سازشیں کی تھیں اس نے، کیا کیا جتن کیے، اپنی ماں اور نانا کے خلاف کارروائیاں کیں مگر لالچ کا آخر انجام سامنے تھا۔
’’ہمزاد۔‘‘
سامنے تو کچھ اور بھی تھا۔ میں نے چونک کر دیکھا اور مبہوت رہ گیا۔ وہاں بھائی جان کی روح کھڑی تھی یا شاید ان کا بھوت یا شاید وہ خود۔ میں نے جلدی سے ہاتھ لگا کر دیکھا تو وہ کچھ ڈر سے گئے مگر میں نے نعرہ لگایا۔
’’ہمزاد نہیں شہزاد۔ بھائی جان کیا اتنے سے دنوں میں بھائی کا نام بھول گئے۔‘‘
ہم دونوں گلے لگ گئے۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ پھر کچھ پتا نہیں کہ کیا کیا ہوا۔ یہاں تک کہ اوسان قابو آئے تو خود کو کمال صاحب کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہوا پایا۔
’’کلوننگ۔ میں نہ کہتا تھا کہ ضرور یہاں بھی سازش چھپ چھپ کر کی جارہی ہے، مگر کوئی ماننے کو تیار ہی نہ تھا۔‘‘عمار جذباتی لہجے میں بولا۔
’’چپ کرو یہ میرے کراچی کے ایک جاننے والے کے جڑواں بھتیجے ہیں۔‘‘ کمال صاحب نے اسے چپ کرایا۔
’’جڑواں۔۔۔‘‘ دادا سکتے کے عالم میں بولے۔
’’میرے پوتے بھی تو جڑواں تھے اور آج ان کی عمر ٹھیک یہی ہونی چاہیے تھی جو تم دونوں کی ہے۔‘‘
’’ میں نے بھی یہی سوچا تھا مگر ان کے چچا، چچی کیسے ہوسکتے ہیں؟‘‘ ایم ڈی بولیں۔
’’وہ ہمارے سگے چچا چچی نہیں ہیں۔‘‘ بھائی جان بولے۔
’’اوہ۔۔۔ پھر تو یہی میرے پوتے ہیں۔‘‘ دادا خوشی سے لڑکھڑا گئے ہم نے آگے بڑھ کر انہیں تھاما تو وہ ہمارے گلے لگ گئے۔ 
’’ہم چچی سے اس بات کی تصدیق کریں گے۔‘‘ میں بولا۔
’’تصدیق کیا کرنی؟ جیسے ان تک ہماری والدہ کا ہار اور سامان پہنچا ویسے ہی ہم بھی پہنچے ہوں گے۔‘‘ بھائی جان بولے۔
’’مگر آپ ٹرین حادثے میں بچ کیسے گئے، میں تو آپ کو مردہ خیال کرتا رہا۔‘‘
’’مجھے کسی وجہ سے ٹرین سے اترنا پڑا تھا مگر تم کیسے بچے اس ٹرین حادثے میں، میں خود تمھیں مردہ خیال کرتا تھا۔‘‘بھائی جان بولے۔
’’میں تو کسی ٹرین میں چڑھا ہی نہیں تھا۔ میں تو بس سے لاہور آیا تھا۔‘‘ میں نے وضاحت کی۔
’’آپ تو آج کل ہی میں آئے ہوں گے ناں۔ یہاں تو فراز بھائی رہ رہے ہیں؟‘‘ جویریہ اُلجھ کر بولی۔
’’نن نہیں۔‘‘ میرا حلق خشک ہونے لگا اور وہ سچ جسے پہلے بتانے کی بہت کوشش کی تھی۔اب زبان پر آنے ہی لگا۔
’’میں شہزاد تھا اور یہاں فراز بنا رہا۔‘‘ میں نے شرم سے نظریں جھکا لیں۔
’’لو۔۔۔ بھلا کیا اچھا مذاق ہے، میں فراز وہاں کراچی میں شہزاد بنا رہا اور تمھارے کھلنڈرے دوستوں اور دشمنوں سے دو دو ہاتھ کرتا رہا۔ ‘‘ بھائی جان آنکھیں پھاڑتے ہوئے بولے۔
’’مگر آپ کو کیوں شہزاد بننا پڑا بھائی جان؟‘‘
’’یہ تو مجھے تم سے بھی پوچھنا ہے مگر ابھی اس کا وقت نہیں۔ میں کراچی میں ایک اہم مسئلہ بیچوں بیچ چھوڑ آیا ہوں، پہلے ہمیں چل کر اسے حل کرنا ہوگا۔‘‘
’’اور چچا چچی سے بھی حقیقت معلوم کرنی ہوگی کہ ہمارے والدین کے حادثے کے بعد کیا ہوا تھا جو ان کا سامان اور ہم ان تک پہنچ گئے۔‘‘
’’حادثے کے بعد۔۔۔‘‘ عمار کھوئے کھوئے لہجہ میں بولا۔
’’وہ حادثہ نہیں تھا میرے بھائی بلکہ سازش تھی لیکن میں تمھیں راستے میں بتاؤں گا۔‘‘ بھائی جان نے میرا ہاتھ پکڑا اور باہر کی راہ لی۔ دادا روکتے ہی رہ گئے کہ میں تم دونوں کو دوبارہ کھونا نہیں چاہتا مگر بھائی جان نے انہیں دلاسہ دیا اور تیزی سے مجھے لے کر باہر آگئے۔
’’اچھا اگر جانا ہی ہے تو میں تم دونوں کے جہاز کے ٹکٹ کرا دیتا ہوں۔ بسوں، ٹرینوں میں تو دیر بھی بہت لگتی ہے اور حادثے بھی بہت ہوتے ہیں۔‘‘ اندر سے دادا کی آواز آئی۔

*۔۔۔*

میں نے شہزاد کو ساری رام کہانی جہاز میں بیٹھ کر سنائی اور اس کی بھی سنی۔ میرا خیال ہے کہ مجھے کراچی پہنچ کر فوراً پرنسپل صاحب کی طرف جانا چاہیے جبکہ آپ کو سرایاز کی طرف تاکہ دونوں ہی ہماری نظر میں رہیں۔‘‘ شہزاد نے تجویز دی۔
میں نے اس کے مشورے سے اتفاق کیا اور سیدھا سر ایاز کی طرف پہنچا۔ ابھی میں ان کے گھر سے کافی فاصلہ پر تھا کہ میں نے انہیں اپنی گاڑی میں بیٹھا آتے دیکھا۔
’’چلو یہاں پہنچیں گے تو ہاتھ دے کر ساتھ ہی بیٹھ جاؤں گا۔‘‘ میں نے سوچا ۔ لیکن اچانک ہی ان کی گاڑی کے آگے دو نقاب پوش آگئے اور بندوق دکھا کر اندر بیٹھ گئے۔ ’’اوہ۔۔۔ اب کیا کروں۔‘‘ میرے ہاتھ پیر پھول گئے، مگر وقت بہت کم تھا۔ ’حملہ بطرز چنگیز۔‘ اندر سے آواز آئی۔
میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ دو پتھر اٹھائے اور تاتاریوں کی طرح گاڑی پر کھینچ مارے۔ یہ بھی نہ سوچا کہ وہ سر ایاز کو بھی تو لگ سکتے ہیں مگر وہ دونوں یکے بعد دیگرے سیدھے جا کر ڈرائیور کو لگے اور وہ اوندھے منھ گر پڑا۔ گاڑی تیزی سے لہرائی تو سر ایاز نے دوسرے کی بندوق بھی چھین لی۔ وہ میرے کافی نزدیک آچکے تھے اور رفتار بھی کم تھی۔ میں نے تان کر ایک مکا دوسرے کے منھ پر مارا اور چلایا۔
’’سر آپ گاڑی روکیں۔‘‘
دوسرا اغوا کار مجھے دیکھنے گھوما تو سر نے بندوق زور سے اس کے سر پر ماری اور اسے بھی بے ہوش کردیا۔
’’شاید میری گاڑی کے شیشے کی قسمت میں روز روز اسی طرح ٹوٹنا لکھا ہے مگر تم غائب کہاں ہو گئے تھے؟‘‘ سرایاز بولے۔
’’ذرا لاہور تک گیا تھا، خیر پہلے تو ان دونوں کو نیچے گرائیں اور مجھے اوپر چڑھائیں۔‘‘
’’آپ جا کہاں رہے تھے جو انہوں نے روکنے کی کوشش کی؟‘‘ میں گاڑی میں بیٹھنے کے بعد بولا۔
’’ میں نے کہاں جانا ہے یا تو اسکول یا بورڈ آفس۔‘‘
’’آپ بورڈ آفس کس لیے جاتے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نصاب ترتیب دینے کی کمیٹی کا ممبر ہوں۔ میں نے کچھ ایسے تاریخی واقعات اور قرآن و حدیث کا حصہ نصاب میں شامل کرنے کی تجویز دی ہے جس سے یہودیوں اور عیسائیوں سے دشمنی ظاہر ہوتی ہے اور قتال فی سبیل اﷲ اور تبلیغ کی صورتیں واضح ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ آج کل تمام رواج پا جانے والے گناہ کبیرہ مثلاً سود اور موسیقی کی سخت مخالفت ہوتی ہے۔۔۔ بس اسی سلسلے کی آج ایک اہم اور نتیجہ خیز میٹنگ ہے۔‘‘
’’لیں آپ اسے معمولی بات سمجھ رہے ہیں، اسی لیے تو آپ کی راہ میں روڑے اٹکاے جا رہے ہیں اور وہ پرنسپل صاحب یقیناًاس کے مخالف ہوں گے۔‘‘ میں سمجھتے ہوئے بولا۔
’’مخالف ہی نہیں بلکہ وہ اس کی الٹ چیزیں متعارف کرانا چاہتے ہیں۔‘‘
’’پھر تو آپ کو یہ بات پہلے بتانی چاہیے تھی تاکہ آپ کی حفاظت کا انتظام ہو، وہ تو آپ کو بے دھڑک قتل بھی کراسکتے تھے۔‘‘ میں نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔
’’نہیں، وہ ایسا نہیں کرسکتے تھے کیونکہ نصاب کی کسی بھی قسم کی تبدیلی کے لیے جو لازمی ممبران درکار ہیں، میں ان میں سے ایک ہوں۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ چلیے بورڈ آفس آگیا، اﷲ آپ کو کامیاب کرے۔‘‘ ہم نے گاڑی پارکنگ میں لگائی۔ یہ پارکنگ اصل عمارت سے کافی فاصلہ پر تھی اور نسبتاً سنسان تھی۔ ابھی ہم دونوں گاڑی سے اتر کر کچھ ہی آگے بڑھے تھے کہ ہمیں پرنسپل صاحب کی آواز آئی۔
’’تم دونوں کا کانٹا نکالنا کسی عام بدمعاش کے بس کی بات نہیں، یہ خدمت مجھے خود ہی سرانجام دینی پڑے گی۔‘‘
ہم نے دیکھا ان کے ہاتھ میں پستول تھا۔ ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کیونکہ ان کے ساتھ ایک اور سرایاز موجود تھے۔
’’کک، کیا آپ کا بھی کوئی جڑواں بھائی ہے سر؟‘‘ میں نے بے یقینی سے کہا۔
’’نہیں تو۔۔۔ مطلب پتا نہیں اگر بچپن میں کوئی بچھڑ گیا ہو۔‘‘ سرایاز حیرانی سے بولے۔
’’یہ جڑواں نہیں ڈمی ہے، میک اپ کا کمال اور اب یہ سرایاز کی جگہ میری حمایت کرے گا بورڈ کی میٹنگ میں۔‘‘
’’تو ہم کیا یہاں بیٹھے مونگ پھلی بھونتے رہیں گے؟‘‘ میں نے ہاتھ نچائے۔
’’یہ جو بندوق ہے نا، اس کے اندر نیند کی گولی ہے۔ ابدی نیند کی۔ وہ میں تم دونوں کو کھلا کر ہمیشہ کے لیے سلا دوں گا۔‘‘ پرنسپل نے کہا اور خوفناک انداز میں بندوق سر کی طرف گھمائی ساتھ ہی اس کی انگلی ٹریگر پر رینگتی دکھائی دی۔
’’ٹھاہ‘‘ گولی چلنے کی آواز آئی اور میں نے آنکھیں بند کرلیں۔

*۔۔۔*

بھائی جان کو سرا یاز کی طرف روانہ کرکے میں پرنسپل صاحب کی خبر لینے اسکول پہنچا۔ وہ اپنے آفس ہی میں تھے۔ ابھی میں ان کی ٹوہ لینے کی سوچ ہی رہا تھا کہ وہ سر ایاز کے ساتھ باہر نکلتے نظر آئے۔
’’لو۔۔۔ بھائی جان کی تو خواری ہوجائے گی، دونوں تو یہیں موجود ہیں۔‘‘ میں نے سوچا۔ سر ایاز پرنسپل کے ساتھ یوں مؤدب ہو کر چل رہے تھے گویا وہ ان کے دشمن نہیں بلکہ استاد ہوں۔ کچھ ہی دیر میں وہ گاڑی میں بیٹھتے دکھائی دیئے۔ 
’’لگتا ہے پرنسپل صاحب انہیں بہانے سے کہیں لے جائیں گے اور اغوا کرلیں گے۔‘‘ میں نے سوچا اور پیچھا کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ پیچھا مجھے بورڈ آفس تک لے گیا۔ ان کی گاڑی تو اندر چلی گئی، جبکہ مجھے ٹیکسی سے اتر کر پیدل ہی اندر جانا پڑا اور پھر اندر کا منظر دیکھ کر تو مجھے اپنی بصارت پر یقین نہیں آیا، وہاں ایک اور سر ایاز بھائی جان کے ساتھ کھڑے تھے۔ پرنسپل نے ان دونوں پر پستول تانا ہوا تھا۔ 
میں ان کی باتیں سنتا آہستہ آہستہ سر ایاز کی گاڑی تک پہنچا تو اس کا شیشہ ٹوٹا ہوا تھا اور اندر سامنے ہی ایک پستول پڑا ہوا تھا۔ ناجانے ان کے ساتھ کیا واقعات پیش آئے تھے مگر میرے لیے تو آسانی ہوگئی تھی۔ میں نے جلدی سے پستول اٹھا کر لوڈ کیا اور پرنسپل کا نشانہ باندھ لیا۔ جب لگا کہ وہ واقعی گولی چلانے والا ہے تو اس سے پہلے ہی میں نے فائر کر دیا۔
’’ٹھاہ۔‘‘ میرا نشانہ بہت اچھا تھا۔ گولی سیدھی اس کے سر پر لگی اور وہ زمین پر لڑھک گئے۔ بھائی جان آنکھیں بند کیے کھڑے تھے۔ انہوں نے ڈرتے ڈرتے آنکھ کھولی تو بازی پلٹی ہوئی پائی۔
’’بندوق مجھے دے دو شہزاد۔‘‘ سر ایاز چیخے تو میں نے جلدی سے پستول انہیں پکڑا دیا۔
’’بس یہاں سے میں سنبھال لوں گا۔ سمجھو پرنسپل کو میں نے مارا ہے کیونکہ اس نے مجھے مارنا چاہا تھا۔ تم دونوں فوراً یہاں سے نکل جاؤ۔‘‘ انہوں نے جلدی جلدی کہا۔
’’مم۔۔۔ میں بھی چلا جاؤں؟ میں تو ایک فنکار ہوں، پیسے لے کر اداکاری کرنے چلا آیا تھا۔‘‘ نقلی سر ایاز بولے۔
’’جاؤ مگر اپنا منھ اس معاملے میں ہمیشہ بند رکھنا ورنہ الٹا خود ہی پھنسو گے۔‘‘
’’سر ۔۔۔اﷲ آپ کو خوش رکھے، آپ اتنابڑا الزام اپنے سر لے رہے ہیں۔‘‘ میں مشکور ہو کر بولا۔
’’یہاں کا پولیس آفیسر میرا دوست ہے اور پرنسپل کے جرائم کو اچھی طرح جان چکا ہے، مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوگی ان شاء اﷲ۔‘‘ ہم نے وہاں سے دوڑ لگا دی۔ بھائی جان ایک لمحہ کو رکے اور چیخ کر بولے۔
’’اور ہاں سر۔۔۔ وہ اسکول ہماری ماں کی ملکیت ہے، ہم اسے آپ کے ذمہ سونپے جارہے ہیں۔‘‘ خیر و عافیت سے ہم وہاں سے نکل آئے۔ 
’’اب کیا پلان ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’چچا اور چچی سے کچھ سوالات۔‘‘ ہم چچا کے گھر پہنچے جو بچپن سے ہمارا مسکن رہا تھا ۔
’’ارے آگئے چور کہیں کے، اپنی چچی کو نہیں بخشا۔ جس تھالی میں پیا اسی میں چھید۔۔۔ چھید۔۔۔‘‘ مجھے دیکھ کر جو ان کی زبان چلی تھی بھائی جان کو ساتھ دیکھ کر اٹک گئی۔
’’ارے ۔۔۔ تت تم زندہ ہو۔‘‘ وہ ہکلائیں۔
چچا، دانیال اور مائرہ بھی دالان میں آگئے۔ مائرہ تو بھائی جان کو دیکھ کر رو پڑی اور واپس اپنے کمرے کو دوڑ گئی۔
’’نہ صرف زندہ ہوں بلکہ اپنی حقیقت بھی جان چکا ہوں۔ آپ ہمارے سگے نہیں ہیں، اصل رشتہ دار تو لاہور میں ہیں جو ہمیں مل گئے ہیں۔ یہاں تو ہمارے والدین کو ایک حادثہ پیش آیا تھا جس کے بعد ان کا سامان اور ہم آپ تک پہنچ گئے۔ حادثے تک کی تو تمام تفصیل ہمیں معلوم ہوچکی ہے مگر حادثہ کے بعد کیا ہوا تھا یہ ہمیں آپ بتائیں گے۔‘‘ بھائی جان نے تقریر جھاڑی۔
’’حادثے کے بعد۔۔۔‘‘ چچا کھوئے کھوئے لہجہ میں بولے جیسے ماضی کے جھروکے میں جھانکنے کی کوشش کررہے ہوں۔
’’ایک دن میں اور تمھاری چچی ایک سنسان سڑک سے گزر رہے تھے کہ ہم نے ایک گاڑی کا شیشہ ٹوٹنے کی آواز سنی اور پھر تھوڑی ہی دیر میں وہ گاڑی آڑی ترچھی ہوتے ہوئے ایک بڑے درخت سے ٹکرا گئی۔ اس میں آگ لگ گئی تھی۔ میں بھاگا ہوا مدد کو دوڑا تو دیکھا کہ آگے ایک میاں بیوی مردہ حالت میں پڑے ہیں جبکہ پیچھے دو بچے پڑے رو رہے ہیں۔ میں نے جلدی سے وہ بچے اٹھا لیے، جبکہ اس نے گاڑی میں رکھا صندوق اتار لیا۔ ہم یہ سامان لے کر تھوڑا ہی دور ہوگئے ہوں گے کہ گاڑی ایک دھماکے سے پھٹ گئی۔ میرا خیال تھا کہ ہم صندوق کی مدد سے ان بچوں کے رشتہ داروں تک پہنچ کر انہیں بچے پہنچا دیں گے مگر اس میں سے کافی نقدی نکل آئی۔ ہم ان دنوں قرضوں کے بوجھ میں بری طرح جکڑے ہوئے تھے اور مالک مکان نے ہمیں اور ہمارے بچوں کو گھر سے نکال باہر کیا تھا۔ اس نقدی سے نہ صرف ہم نے قرض واپس کیا بلکہ یہ مکان بھی خرید لیا۔ کچھ دنوں بعد اخبار میں انہی بچوں کی تلاش کے لیے اشتہار چھپا مگر ہم نے اس ڈر سے ان سے رابطہ نہیں کیا کہ اگر انھوں نے اپنے پیسوں کا تقاضا کر لیا تو ہم پھر سڑک پر آجائیں گے۔‘‘ چچا یہاں تک ہی کہہ پائے تھے کہ میں بول اُٹھا۔
’’چچا۔۔۔ کتنا غلط کیا آپ نے کسی کو اس کے جگر گوشے سے محروم رکھا اور کتنا غلط سوچا آپ نے ان سخی لوگوں کے متعلق جو شاید انعام میں آپ کو اتنا ہی اور دے دیتے۔‘‘
’’ہمیں یہ خوف بھی تھا کہ کہیں تمھارے ماں باپ کی ہلاکت کو بھی ہم سے منسوب نہ کر دیا جائے اور ہم تھانے کچہریوں کے چکر میں پھنس جائیں۔‘‘ چچی بولیں۔
’’ہم تمھارے مجرم ہیں بیٹا، جو سزا چاہے دے لو، یہ مکان بھی تمھارا ہی ہے، چاہو تو واپس لے لو۔‘‘
’’سزا تو ہم دیں گے بھی اور ایک چیز آپ سے لیں گے بھی مگر مکان نہیں مائرہ۔‘‘ بھائی جان ٹھہرٹھہر کر بولے۔
’’ کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ کہ ہم لاہور جارہے ہیں اپنے دادا کے گھر اور مائرہ کو بھی بطور بہن ساتھ لے کر جا رہے ہیں۔ وہ یقیناًاس لائق ہے کہ اچھی طرح رہے، پڑھے لکھے اور اپنے خواب پورے کرے جبکہ آپ لوگوں کو اس کی بالکل قدر نہیں۔‘‘
’’مجھے بھی لاہور لے چلو، میں بھی بڑی سی کوٹھی میں رہوں گا۔‘‘ دانیال بے چین ہو کر بولا۔
’’تمھیں تو ہم بطور سزا چچی کے پاس چھوڑ کر جائیں گے تاکہ انہیں بڑھاپے میں پتا چلے کہ بے جا لاڈ پیار والی اولاد کتنی خدمت کرتی ہے۔‘‘ میں بولا۔
جب ہم نے اپنے کپڑے اور دیگر سامان سمیٹ لیا تو بھائی جان اس صندوق کی طرف بڑھے جو ہمارے والدین کی ملکیت تھا۔ چچی اس کے سامنے آگئیں اور التجا ئی ہاتھ آگے کر کے بولیں۔
’’تمھارے پاس تو اپنے والدین کی کئی نشانیاں موجود ہوں گی، میرے پاس کم از کم ان لوگوں کی ایک نشانی تو چھوڑ جاؤ جنھوں نے مر کر بھی انتہائی مشکل حالات میں ہماری مدد کی۔‘‘
میں ہوتا تو ان کا ہاتھ جھٹک کر صندوق اٹھا لیتا مگر آگے بھائی جان تھے جو نہ جانے کس مٹی کے بنے تھے۔ وہ ایک قدم پیچھے ہٹ گئے۔ انھوں نے جیب سے لاکٹ نکالا۔ احترام سے چوما اور چچی کے پھیلے ہوئے ہاتھوں پر رکھ دیا۔ پھر مسکرا کر بولے۔
’’یہ میں نے آپ سے چوری کیا تھا۔ امید ہے کہ اس کی واپسی کے بعد آپ ہمیں چور نہیں کہیں گی۔‘‘ کچھ دیر تو وہ گم صم اسے دیکھتی رہیں پھر بولیں۔
’’میں اب اسے کبھی پہن نہ پاؤں گی۔‘‘ اور وہ ہار اپنے ہاتھوں سے مائرہ کو پہنا دیا۔
ہم بوجھل دل کے ساتھ وہاں سے روانہ ہوئے۔ اصل گھر ضرور لاہور میں تھا، لیکن اپنا اپنا سا تو یہی تھا۔

*۔۔۔*

’’دیکھیں دادا۔۔۔ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے آپ کو دو پوتوں کے ساتھ ایک پوتی بھی ملی ہے بالکل فری۔‘‘ میں چہکا۔
’’بھئی اتنے پوتوں پوتیوں کا بابا کیا کریں گے، اس کو ان کی نواسی بننے دو، یعنی میری بیٹی۔‘‘ ایم ڈی صاحبہ بولیں۔
’’آپ کو تو اپنے بچے مل گئے اور ہمارے بیٹے فراز کو آپ ہم سے چھیننے جا رہے ہیں؟‘‘ آنٹی نے شکوہ کیا۔
’’آپ کے پاس موجود تو ہے بیٹا۔۔۔ عمار۔‘‘
’’ارے عمار کہاں ہے، ضرور کسی نئی شرارت میں لگا ہوگا۔‘‘ آنٹی ادھر ادھر دیکھتی اندر کو دوڑیں۔
’’چلو کمال میاں ۔۔۔ اب ہم اجازت چاہتے ہیں، اپنے خاندان کے ساتھ اپنے گھر جانے کی۔‘‘ دادا اٹھتے ہوئے بولے۔
’’ہاں ہاں ، کل آفس بھی جانا پڑے گا، سوچا تھا سکون سے ریٹائر ہو گئی ہوں۔۔۔ مگر۔‘‘ ایم ڈی صاحبہ نے گہرا سانس لیا۔
’’کیا ضرورت ہے ؟ حوالے کریں سب کچھ فراز اور شہزاد کے۔‘‘ کمال صاحب نے مشورہ کیا۔
’’نہیں نہیں، پہلے ہم سارے معاملات سمجھیں گے، پھر اگر قابل ہوئے تو یہ ذمہ داری سنبھالیں گے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’نہیں، اس سے بھی پہلے ہمیں اس غیر ملکی کمپنی کی سازش کا قلع قمع کرنا ہوگا جسے دادا اکیلے نہ کرپائے اور اب یہ کام ہم کریں گے۔ میں نے اس کا پتا معلوم کر لیا ہے ہم آج ہی رات۔۔۔ ‘‘ شہزاد نے حسب عادت اپنی پلاننگ بتانی شروع کر دی جبکہ میں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ اتنے ہنگاموں سے نمٹنے کے بعد میں اب چند دن سکون سے گزارنا چاہتا تھا۔

(ختم شد)
*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top