skip to Main Content

گلیور کے تین حیرت انگیز سفر

ناول: Gulliver’s Travels
مصنف: Jonathan Swift
مترجم: احمد خاں خلیل
۔۔۔۔۔۔

پہلا سفر: للی پٹ کا سفر
میرا نام گلیور ہے۔ میں شمالی انگلستان کے ایک شریف گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے والد کاشتکار تھے۔ ان کی تھوڑی سی زمین پر ہمارا پورا کنبہ گزر بسر کرتا تھا۔ ہم پانچ بھائی تھے۔ میں سب سے چھوٹا تھا۔ ہمارے والدین ہم سب سے بہت محبت کرتے تھے۔
ان کی زبردست خواہش تھیں کہ ہم تعلیم حاصل کریں، لیکن اخراجات روز بروز بڑھ رہے تھے اور میں نے یہ محسوس کیا کہ اب مجھے کچھ کرنا چاہیے۔میں اسکول چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں نکلا۔ مجھے ایک بحری جہاز ’’اینٹی لوپ’’ پر نوکری مل گئی۔
اینٹی لوپ کے کپتان کا نام ’’پری چرڈ‘‘ تھا۔ مئی 1700 میں یہ جہاز بحر جنوبی کی طرف روانہ ہوا۔ ہماری منزل وہ جزیرے تھے جنہیں جزائر شرق الہند کہتے ہیں۔ سمندر میں تیز ہواؤں کی وجہ سے بڑی بڑی موجیں اٹھنا روز کا معمول تھا۔ ایک دن تو اتنی تیز ہوا چلی کہ وہ جہاز کو کسی اور طرف دھکیل کر لے گئی اور ہم وان دیمن لینڈ (یعنی تسمانیہ) کے شمال میں جا پہنچے۔ اس طوفان میں ملاحوں کو مسلسل کام کرنا پڑا۔کوئی کنارا نظر نہ آتا تھا۔ سخت محنت اور خراب غذا سے ہمارے بارہ آدمی مر گئے۔ ایک دن بڑی موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ دور دور تک کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ پھر بھی ہمارے ایک آدمی کو ایک چٹان نظر آئی۔ کپتان نے جہاز کو چٹان سے بچانے کی بہت کوشش کی، لیکن ہوا نے جہاز کو اس چٹان پر دے مارا۔ جہاز کے پیندے میں بھی سوراخ ہو گیا۔ ہمارے چھے آدمی ایک کشتی کو لے کر سمندر میں اترے، لیکن ہوا کیا تھی ایک آفت تھی۔ اس نے کشتی کو اُلٹ دیا۔
مجھے یہ نہیں معلوم کہ میرے باقی ساتھیوں کا کیا ہوا۔ شاید وہ ڈوب گئے تھے، لیکن موجیں مجھے اٹھائے اٹھائے لیے جا رہی تھیں۔ میں نے کوشش کی کہ پاؤں نیچے لگا کر دیکھوں کہ زمین قریب تو نہیں، مگر پاؤں زمین پر لگتے ہی نہ تھے۔
خشک زمین
میں اسی کشمکش میں تھا اور بار بار یہی خوف پیدا ہوتا کہ موت قریب ہے۔ اچانک میرے پیر زمین پر جا لگے۔ اب ہوا کچھ تھم گئی تھی۔ ایک کلو میٹر تک میں پانی میں چلتا گیا۔ پھر خشک زمین آگئی۔ اس وقت میری جان میں جان آئی۔ شام کے سات بج رہے تھے۔ میں تھکن سے چور تھا۔ پھر بھی ہمت کر کے آگے چلا۔ مجھے نہ کوئی آدمی نظر آیا نہ کوئی بستی۔ ویسے بھی میں تھکن کی وجہ سے پورے ہوش میں نہ تھا۔ ایک جگہ میں نرم نرم گھاس پر لیٹ کر گہری نیند سو گیا۔
ننھے سپاہی
میرا خیال ہے کہ میں نو گھنٹے سوتا رہا۔ سورج نکل رہا تھا کہ میری آنکھ کھلی۔ میں چت لیٹا ہوا تھا۔ میں نے کوشش کی کہ کھڑا ہوجاؤں، لیکن کھڑا نہ ہوسکا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میرے ہاتھ پاؤں ڈوریوں سے بندھے ہوئے ہیں۔ میرے لمبے بالوں کو بھی ڈوریوں سے باندھ دیا گیا تھا۔ میں نے ہاتھ لگا کر دیکھا کہ ڈوریاں بڑی باریک تھیں اور یہ میرے جسم کے چاروں طرف ہزاروں کی تعداد میں لپٹی ہوئی تھیں اور مجھے اس طرح باندھا گیا تھا کہ میں ہل تک نہ سکتا تھا۔
میں چت پڑا تھا۔ دھوپ سیدھی میری آنکھوں پر پڑ رہی تھی۔ پھر مجھے شور سا سنائی دیا، لیکن کچھ نظر نہ آیا۔ اب ایسا لگا کہ میرے تمام بدن پر چیونٹیاں سی رینگ رہی ہیں۔ یہ میرے چہرے پر بھی آگئی تھیں۔ میں نے غور سے دیکھنے کی کوشش کی تو وہ مجھے آدمی سے لگے، کل 15سینٹی میٹر لمبے۔ جو شخص مجھے نظر آرہا تھا وہ سپاہی کی وردی پہنے ہوئے تھا۔ اس کے بعد اس طرح کے چالیس پچاس سپاہی اور آگئے۔
میں تیروں کا نشانہ بن گیا
میں یہ سب دیکھتے دیکھتے اچانک خوشی سے چلا اٹھا۔ وہ سب ڈر کے مارے بھاگ گئے۔(بعد میں مجھے بتایا گیا کہ اس بھگدڑ میں کئی زخمی بھی ہوگئے تھے)۔ تھوڑی دیر بعد وہ پھر میرے بدن پر چڑھ دوڑے۔ ایک بونا جو میرے چہرے کے قریب آ پہنچا تھا۔ اس نے اپنے بازو اٹھا کر زور سے کہا،’’ہکینا دوگل۔‘‘
دوسروں نے جواب دیا،’’ہکینا؟ دوگل ہکینا۔‘‘
میری کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ میں نے زور لگا کر ایک بازو زمین سے اٹھا ہی لیا۔ پھر سر بھی اونچا کر لیا۔ اب معلوم ہوا کہ انہوں نے زمین میں کیلیں ٹھونک کر میرے بال ان سے باندھ دیے تھے۔ سر میں سخت درد ہونے لگا۔ میں نے ان آدمیوں کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ سرپٹ بھاگے۔ پھر شور و غل سنائی دیا۔ شور کے ساتھ ایسا محسوس ہوا کہ میرے بازوؤں میں ہزاروں سوئیاں چبھو دی گئی ہیں۔ دراصل وہ مجھ پر تیر چلا رہے تھے۔ کئی چھوٹے چھوٹے تیر میرے کپڑوں کے اندر گھس گئے، مگر مجھے کوئی خاص تکلیف نہیں ہوئی۔ کچھ آدمی آسمان کی طرف تیر چلا رہے تھے جو میرے چہرے پر آ آ کر گر رہے تھے۔ ان سے میرے چہرے میں تکلیف ہونے لگی۔ مجھے خوف تھا کہ کہیں کوئی تیر میری آنکھ میں نہ گھس جائے۔ میں نے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے ڈھانپ لیا۔
ننھی مخلوق نے میز بنائی
پھر میں نے سوچا خیر اسی میں ہے کہ میں رات تک چپکا پڑا رہوں۔ اندھیرا ہونے پر ان ڈوریوں سے اپنے آپ کو چھڑاؤں گا۔ اتنی چھوٹی مخلوق سے مجھے کوئی خطرہ نہیں تھا، لیکن آدمی سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے۔ میں چپ ہو رہا تو تیر اندازی بھی رک گئی، مگر اس مخلوق کی تعداد بے تحاشا بڑھ گئی۔ مجھے کان کے قریب کچھ آواز سنائی دی۔ دیکھا تو وہ لوگ لکڑی کی ایک میز بنارہے تھے۔ وہ میز کل 45سینٹی میٹر (تقریبا ً18انچ) اونچی تھی۔ اس پر چار ننھے آدمی کھڑے ہوسکتے تھے۔ جب میز تیار ہوگئی تو چار ننھے آدمی اس پر چڑھ آئے۔ ان میں سے ایک آدمی دوسروں کے مقابلے میں عمر میں زیادہ تھا۔ اس نے خوبصورت اور لمبا سا کوٹ پہن رکھا تھا۔ اس کوٹ کو ایک لڑکے نے جو کہ اس کے پیچھے کھڑا تھا، زمین سے اٹھا رکھا تھا۔ لمبے کوٹ والے نے کہا،’’لانگرو دیہل سان۔‘‘
لمبے کوٹ والا آدمی
اس کی بات سن کر چالیس آدمی آگے بڑھے۔ انہوں نے میری سر کے دوسری طرف کی ڈوریاں کاٹ ڈالیں۔ اب میں سر کو ادھر ادھر موڑ سکتا تھا اور ان لوگوں کو دیکھ سکتا تھا۔ پھر لمبے کوٹ والے آدمی نے بولنا شروع کیا۔ وہ بڑی روانی سے بول رہا تھا اور اس کے ساتھ وہ ہاتھ سے اشارہ بھی کرتا تھا۔ خاصی دیر تک وہ بولتا رہا۔ میں ان کی زبان تو نہیں سمجھتا تھا، لیکن میرا اندازہ یہ تھا کہ وہ یہ کہہ رہا تھا کہ اگر تم ہمارے حکم کی تعمیل کرو گے تو ہم تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچائیں گے اور اگر بھاگنے کی کوشش کی تو ہم تمہیں مار ڈالیں گے۔ میں نے اپنا ہاتھ اٹھایا، آنکھیں آسمان کی طرف کیں اور اس طرح ان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ میں تمہارا مطلب سمجھ گیا ہوں اور میں کوئی ایسی بات نہیں کروں گا۔ پھر میں نے انہیں یہ بتانے کے لیے کہ میں بھوکا ہوں، اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا۔
کھانے پینے کا انتظام
لمبے کوٹ والا آدمی میرا مطلب سمجھ گیا۔ اس نے سپاہیوں کو حکم دیا اور تھوڑی دیر بعد کوئی ایک سو آدمی میرے جسم پر مارچ کرتے ہوئے میرے منہ تک غذا لے کر آئے۔ یہ چیزیں بادشاہ نے بھجوائی تھیں، کیوں کہ میری آمد کی اطلاع اسے کردی گئی تھی۔ غذا میں چڑیا کے سائز سے بڑی کوئی چیز نہ تھی، لیکن لگتا یہ تھا کہ انہوں نے گائے بیل سالم پکوا کر بھیجے ہیں۔ لوبیا دال کے برابر مرغیاں بھی تھیں۔ میں دو تین چپاتیوں کا ایک لقمہ بناتا تھا اور وہ لوگ حیرت زدہ تھے۔ کھانا کھا چکنے کے بعد میں نے اشاروں سے پانی مانگا۔ وہ دودھ سے بھرا ہوا ایک برتن لائے اور میرے منہ میں انڈیل دیا۔ میں نے اور مانگا۔ وہ دوسرا برتن لائے، لیکن اب ان کے پاس دودھ نہیں بچا تھا۔ میرے کھانے پینے کو دیکھ کر وہ اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے میرے بدن پر رقص کی محفل منعقد کی اور اونچی آواز سے ’’ہکینا دیگل‘‘ کے نعرے لگاتے رہے۔
بادشاہ کا خط
جب میرے بدن پر وہ اچھل کود رہے تھے تو ایک بار مجھے خیال آیا کہ تیس چالیس آدمیوں کو پکڑ کر زمین پر پٹخ دوں۔ پھر سوچا کہ کہیں کوئی خطرناک چیز لا کر وہ مجھے نقصان نہ پہنچائیں، اس لیے چپ ہو رہا۔ اگرچہ میں ان کی نظر میں ایک دیو تھا اور میرا ایک ہاتھ آزاد تھا، لیکن ان کی بہادری داد کے قابل ہے کہ وہ ڈرے بغیر میرے بدن پر پریڈ کرتے رہے۔
اس کے بعد کوئی بڑی شخصیت آئی۔ اس کے ساتھ بیشمار آدمی تھے جنہوں نے عمدہ لباس پہن رکھے تھے۔ وہ میرے بدن پر چڑھ کر میری آنکھوں کے قریب آیا۔ اس کے پاس ایک خط تھا۔ تھوڑی دیر وہ کچھ بولتا رہا۔ گفتگو کے دوران اس نے کئی بار شمال مغرب کی طرف اشارہ کیا۔ بعد میں مجھے بتایا گیا کہ وہ اپنے شہر کی طرف اشارہ کر رہا تھا جو اس جگہ سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ شاید اس نے یہ کہا تھا کہ بادشاہ کا یہ حکم ہے کہ مجھے شہر لے جایا جائے۔
میں نے اشاروں سے بتایا کہ مجھے کھلا چھوڑ دیا جائے۔ وہ شخص میرا مطلب سمجھ گیا، مگر اس کا اصرار تھا کہ مجھے اٹھوا کر لے جایا جائے گا۔ میں چپ ہو رہا۔ یہ دیکھ کر وہ بڑی شخصیت خوشی خوشی چلی گئی۔ پھر سینکڑوں آدمی آئے۔ وہ’’پپلوم سیلان‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ انہوں نے میرے بدن کے ایک طرف کی ڈوریاں کاٹ ڈالیں۔ میرے چہرے پر کوئی چیز لگائی تیل یا مرہم جیسی جس سے جسم کے زخموں کا درد دور ہوگیا۔ بعد میں مجھے یہ معلوم ہوا تھا کہ انہوں نے میرے کھانے میں نیند لانے والی دوا ملا دی، اس لیے مجھے پھر نیند آگئی اور میں آٹھ نو گھنٹے تک سوتا رہا۔
بڑا چھکڑا
جب اس ننھی مخلوق نے بادشاہ کو میری آمد کی اطلاع دی تھی تو اس نے اسی وقت یہ حکم دیا تھا کہ مجھے شہر لے جایا جائے۔ بادشاہ نے انہیں ایک بڑا چھکڑا بنانے کو کہا۔ ان کے پاس درخت اٹھانے اور کشتیوں کو سمندر میں لے جانے کے چھکڑے پہلے سے موجود تھے۔ انہوں نے بیشمار چھکڑوں کو جمع کر کے ایک بیڑا بنایا۔ یہ بیڑا کوئی دو میٹر لمبا اور15سینٹی میٹر بلند تھا۔ اس کے نیچے بائیس لکڑی کے پہیے تھے۔ یہ چھکڑا جزیرے پر میری آمد کے چار گھنٹے بعد شہر سے روانہ ہوا تھا اور میری نیند کے دوران یہاں پہنچا تھا۔ ’پپلوم سیلان‘ کا نعرہ وہ اسی لیے لگا رہے تھے۔ آٹھ نو سو آدمیوں نے مجھے اٹھا کر اس پر لٹا دیا۔ یہ کام میری نیند کے دوران ہوا اور اس میں تین گھنٹے لگے۔ پھر بادشاہ کے پندرہ سو گھوڑے اسے کھینچنے لگے۔ یہاں سے شہر کا فاصلہ ایک کلو میٹر تھا۔
چار گھنٹوں کے بعد سفر شروع ہوا۔ راستے میں رات ہوگئی۔ پانچ سو آدمی میری ایک طرف اور پانچ سو دوسری طرف پہرہ دے رہے تھے تاکہ اگر میں بھاگنے کی کوشش کروں تو وہ مجھ کو اپنے تیروں سے چھلنی کردیں۔
دوسرے دن صبح کو کارواں پھر چلا۔ دوپہر تک ہم شہر سے150میٹر کے فاصلے تک پہنچ گئے۔ بادشاہ مجھ سے ملنے آیا۔ وہ میرے نزدیک آ کر مجھے دیکھنے لگا، لیکن اس کے مشیروں کی حرکتوں سے اندازہ ہورہا تھا کہ ان کے خیال میں میرے بدن پر اس کا چڑھنا مناسب نہ تھا۔
جس جگہ چھکڑوں کا بیڑا رکا تھا۔ وہاں اس ملک کا سب سے بڑا مندر تھا، مگر کئی سال سے وہ مندر کے طور پر استعمال نہیں ہورہا تھا۔ اب اسے میرے رہنے کے لیے چنا گیا تھا۔ اس کا پھاٹک ایک میٹر بلند اور ایک میٹر چوڑا تھا۔ مجھے اس کے اندر جھک کر یا بیٹھ کر داخل ہونا تھا۔ ان لوگوں نے ایک بیڑی (پاؤں میں ڈالنے کا حلقہ) پہلے سے بنا رکھی تھی۔ وہ میرے ایک پیر میں ڈال دی گئی۔ اس کے ساتھ ایک میٹر لمبی زنجیر تھی۔
للی پٹ کی زندگی
دوسرے دن صبح سویرے میں نے اپنے مکان سے باہر نکل کر دیکھا۔ سارا ملک گل و گلزار نظر آیا۔ بڑے سے بڑا درخت بھی دو میٹر لمبا نہ تھا۔ ایسے لگتا تھا تھا کہ یہ ان کا شہر نہیں بلکہ بچوں کی کتاب میں بنی ہوئی کوئی تصویر ہے۔ میرے مکان سے چھے میٹر دور ایک مکان تھا اور درمیان میں ایک سڑک تھی۔ میں ماحول کے نظارے میں مصروف تھا کہ بادشاہ کئی شرفاء اور خواتین کے ساتھ آتا دکھائی دیا۔ پھر وہ سب لوگ سامنے والے مکان کی چھت پر چڑھ گئے تاکہ میرا نظارہ کر سکیں۔ کچھ دیر کے بعد بادشاہ نیچے اتر کر اپنے گھوڑے پر میری طرف آیا، لیکن گھوڑا بدک بدک جاتا تھا۔ گھوڑے کو ایسا نظر آتا تھا کہ اس کے سامنے پہاڑ کھڑا ہے۔ بادشاہ گھڑ سواری کا ماہر تھا۔ اس نے گھوڑے کو قابو میں رکھا۔ پھر اس کے سائیں آ گئے اور وہ گھوڑے سے اتر گیا۔ وہ میرے ارد گرد چکر لگانے لگا، لیکن مجھ سے فاصلے پر رہا۔
چھے آدمیوں کی شرارت
پھر میرے لئے چھکڑوں پر لاد کر کھانا لایا گیا۔ وہ لوگ چھکڑے میرے قریب ہی چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ملکہ اور شہزادے سامنے والے مکان کی چھت سے دیکھ رہے تھے کے میں کیسے کھاتا ہوں۔
بادشاہ کچھ دیر بعد وہاں سے چلا گیا۔ میرے ارد گرد سپاہیوں کا ایک دستہ پہرا دے رہا تھا تاکہ کوئی میرے نزدیک نہ آئے اور مجھے تکلیف نہ پہنچائے۔ کھانا کھانے کے بعد میں اپنے مکان کے باہر بیٹھ گیا۔ کچھ آدمی آئے اور انہوں نے مجھ پر تیر چلائے۔ ایک تیر میری آنکھ کے قریب سے گزر گیا۔ کپتان نے پہرے داروں کو حکم دیا کہ تیر اندازوں کو پکڑ لیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ چھے آدمی پکڑ لیے گئے۔ کپتان نے انہیں میری طرف دھکیل دینے کا حکم دیا۔ تاکہ میں ہی ان کو سزا دوں۔ میں نے پانچ کو ایک ہی ہاتھ سے پکڑ کر اٹھا لیا اور چھٹے کو دوسرے ہاتھ میں لے کر منہ تک لے گیا، یہ دکھانے کے لئے کہ میں اسے کھانے لگا ہوں۔ وہ مارے خوف کے تھر تھر کانپنے لگا۔ پھر زور زور سے چیخا۔ کپتان بھی سخت پریشان تھا لیکن میں نے مسکراتے ہوئے سب کو زمین پر چھوڑ دیا۔ تمام لوگ میری اس مہربانی سے بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اس بات کا بعد میں بادشاہ سے ذکر بھی کیا۔
بادشاہ، اس کے وزیر اور سفیر
بادشاہ، اس کے وزیروں اور سفیروں کی ایک میٹنگ ہوئی۔ یہ باتیں بعد میں مجھے ان لوگوں سے معلوم ہوئیں جو میرے دوست بن گئے تھے۔ میٹنگ میں بعض نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ اگر میں ان کی قید سے نکل بھاگا تو صورتحال بہت خراب ہو جائے گی۔بعض نے کہا کہ صرف میری غذا سے ملک کی تمام دولت ختم ہو جائے گی بلکہ وہاں رہنے والوں کو فاقے کرنے پڑیں گے۔ بعض نے کہا کہ مجھے مار دینا ہی بہتر ہے اور یہ کام میرے سوتے میں ہو سکتا ہے۔ دوسروں نے کہا اگر مجھے مارا گیا تو میری لاش کو ٹھکانے لگانا مشکل ہوگا۔ اس کی بدبو سے پورے شہر میں وباء پھوٹ پڑے گی۔ عین اسی وقت جب یہ مشورے ہو رہے تھے کپتان نے جا کر انہیں بتایا کہ اس دیو نے ہمارے چھے آدمیوں کے ساتھ نہایت مہربانی کا سلوک کیا ہے اور انہیں زندہ چھوڑ دیا ہے۔ اس پر وزیر اور مشیر خوش ہوئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ مجھے زندہ رہنے دیا جائے۔ بادشاہ نے میری غذا کے بارے میں احکام دیے اور چھے دانا آدمیوں کو چنا گیا جو مجھے اپنی زبان سیکھائیں تاکہ میں ان سے بول سکوں۔
بادشاہ کے پاس میری حاضری
ان احکام کی تعمیل شروع ہوئی۔ تین ہفتوں میں میں ان کی زبان سیکھ گیا۔ ایک دن بادشاہ یہ دیکھنے آیا کہ میری تعلیم کیسی ہو رہی ہے۔ میری اس سے ملاقات ہوئی تو میں نے اس سے کہا کہ مجھے آزاد کر دیا جائے۔ اس نے کہا،’’میں اس پر غور کروں گا۔‘‘
پھر بادشاہ نے کہا، ’’میں چاہتا ہوں کہ تمہارے مال کا جائزہ لے لیا جائے۔ اگر تم اجازت دو تو میں کچھ سپاہی اس کام کے لئے بھیج دوں، کیوں کہ مجھے یہ خطرہ ہے کہ تمہارے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے میرے ملک کے لوگوں کو تکلیف پہنچ سکے۔‘‘
میں نے کہا، ’’میں اپنی تمام چیزیں آپ کے آدمیوں کو دکھاؤں گا۔‘‘
دوسرے دن دو آدمی آئے۔ انہوں نے میری جامہ تلاشی لی۔ میرے پاس پنسل، نوٹ بک، پائپ اور چشمہ نکلا۔ انہوں نے سب کی تصویریں بنائیں۔
میرا گمشدہ ہیٹ
ایک دن بادشاہ میرے پاس بیٹھا تھا۔ ایک آدمی ایک رقعہ لایا۔ یہ ان لوگوں نے لکھا تھا جو اس جگہ گئے تھے جہاں میں پہلے دن سویا ہوا پایا گیا تھا۔ انہوں نے لکھا کہ ایک بہت بڑی کالی سی چیز وہاں پڑی ہے جو ایک جھونپڑی کے برابر ہے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اس کا نہ کوئی دروازہ ہے نہ راستہ۔ اس سے کوئی آواز بھی نہیں آئی۔ اس لیے ہمارا خیال ہے کہ اس میں کوئی درندہ وغیرہ نہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ اس پہاڑ جیسے انسان کی کوئی چیز ہے۔ اگر بادشاہ سلامت ہمیں پانچ گھوڑے بھجوا دیں تو ہم اس چیز کو شہر پہنچا دیں گے۔
میں کچھ دیر تک سوچتا رہا۔ بات سمجھ میں نہ آئی۔ یکایک مجھے خیال آیا کہ اچھا وہ میرا ہیٹ ہوگا! شاید وہ پانی میں گر پڑا تھا اور میں اس قدر تھکا ہوا تھا کہ اسے اٹھا نہ سکا۔ اگلے دن پانچ گھوڑے اسے لے آئے۔ یہ اچھا ہیٹ تھا، لیکن اب اس کے دونوں طرف دو سوراخ نظر آ رہے تھے۔ یہ سوراخ ان لوگوں نے کیے تھے اور ان سے رسیاں گزاری تھیں جنہیں کھینچتے کھینچتے گھوڑے یہاں لے آئے تھے۔ ہیٹ دھول سے اٹا ہوا تھا۔
شاہی فوج
اگلے دن شاہی فوج میرے مکان کے سامنے سے مارچ کرتی ہوئی آئی۔ بادشاہ نے مجھ سے کہا کہ میں اپنی دونوں ٹانگیں کھول کر کھڑا رہوں۔ تمام فوج مارچ کرتی ہوئی میری دونوں ٹانگوں کے بیچ میں سے گزری۔ اس وقت اس میں تین ہزار سوار اور تین ہزار پیدل فوج تھی۔
میرے لیے شاہی قانون
اتنے دنوں میں بادشاہ اور اس کے مشیروں نے جائزہ لے لیا تھا اور میرے متعلق قانون تیار کر لیا تھا۔بادشاہ نے اپنے فرمان میں لکھا اگر میں اس کے احکام کی تعمیل کروں گا تو مجھے آزاد کر دیا جائے گا۔ قانون کی خاص خاص باتیں یہ تھیں:
٭ پہاڑ انسان ہماری اجازت کے بغیر ملک سے باہر نہیں جائے گا۔
٭وہ بغیر ہماری اجازت کے شہر میں داخل نہیں ہوگا۔ جب وہ ہماری اجازت سے شہر میں آئے گا تو اس سے دو گھنٹے پہلے تمام لوگ اپنے گھروں میں چلے جائیں گے اور تا حکم ثانی اپنے گھروں میں رہیں گے۔
٭وہ صرف سڑک پر چلے گا۔ نہ کھیتوں میں جائے گا اور نہ ان میں لیٹے گا۔
٭ چلتے وقت وہ اس بات کا خیال رکھے گا کہ ہماری رعیت کا کو کوئی آدمی یا کوئی گھوڑا یا کوئی گھر سوار یا چھکڑا اس کے پیروں سے نہ کچلا جائے اور وہ انہیں اپنے ہاتھوں میں بھی نہیں اٹھائے گا۔
٭ وہ جزیرہ بلے فسکو کے خلاف ہماری فوج اور بحری بیڑے کی مدد کرے گا۔
٭وہ ہمارے باغ کے گرد دیوار بنانے کے لیے پتھر اٹھانے میں ہمارے مزدوروں کی مدد کرے گا۔
٭ اسے ہمارے 1728 آدمیوں کے برابر غذا دی جائے گی۔
اس قانون میں ایک بات قابل غور ہے۔ للی پٹ کے عالموں فاضلوں نے یہ حساب لگایا تھا کہ میرا قد وہاں کے بارہ آدمیوں کے برابر ہے اور حجم ان سے 1728 گنا ہے یعنی 12x12x12 =1728
بلے فسکو سے میری جنگ
میں نے بادشاہ کے اس فرمان کو تسلیم کر لیا۔ مجھے آزاد کر دیا گیا۔ میں نے شہر دیکھنے کی اجازت چاہی۔ چناں چہ شہر کے لوگوں کو بادشاہ کی طرف سے حکم سنا دیا گیا۔ میں شہر کی سڑکوں پر سے بڑی احتیاط سے گزرا۔ تمام لوگ کھڑکیوں اور چھتوں پر چڑھ کر مجھے دیکھنے لگے۔ جہاں دو سڑکیں ملتی تھیں وہاں شاہی محل واقع تھا۔ اس کے چاروں طرف خوبصورت باغ تھا۔ میں باغ میں لیٹ کر مکانوں کا جائزہ لینے لگا۔ مکان مجھے بہت خوبصورت نظر آئے۔ ایک کمرے میں مجھے ملکہ اور کچھ شہزادے نظر آئے۔ وہ مجھے دیکھ کر خوش ہوئے۔ اس وقت ملکہ نے کھڑکی سے ہاتھ باہر کیا تاکہ میں احترام کے طور پر ان کے ہاتھ کو بوسہ دوں۔
انڈا کہاں سے توڑا جائے
للی پٹ کے بڑے آدمیوں میں ایک آدمی کا نام’’ریل ڈریسل‘‘ تھا۔ وہ بڑا سمجھدار، سیانا اور بادشاہ کا قریبی دوست تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ ہمارے ملک میں دو جماعتیں ہیں اور دونوں میں مدت سے جھگڑا چل رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک جماعت نے ایک غیر ملک یعنی جزیرہ بلے فسکو سے ساز باز کر رکھی ہے اور اب وہ اس ملک کو ہم پر حملہ کرنے کے لیے لے آئے ہیں۔ ان کے جہاز تیار کھڑے ہیں۔ جب ہوا موافق ہوگی تو وہ بحری بیڑا لے کر ہم پر حملہ کردیں گے۔ میں نے اس سے پوچھا،’’آخر جھگڑا کس بات پر ہے؟‘‘
اس نے مجھے بتایا ہے کہ ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ انڈے کو اس کی باریک نوک کی طرف سے توڑنا چاہیے۔ اس رائے کا ہمارا بادشاہ بھی حامی ہے۔ دوسری جماعت جو ہماری مخالف ہے کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہوگا، انڈے کو بڑے سرے کی طرف سے توڑنا چاہیے۔ دوسرے دن میں بادشاہ کے پاس گیا۔ میں نے اسے بتایا کہ بلے فسکو والے میرے متعلق کچھ نہیں جانتے۔ اگر آپ کہیں تو میں ان کے جزیرے جاؤں۔ پھر میں نے اپنی چال اسے بتائی۔ بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا اور میری تدبیر منظور کرلی۔ پھر میں للی پٹ کے بحری کپتانوں سے ملا اور ان سے یہ معلوم کیا کہ للی پٹ اور بلے فسکو کے درمیان پانی کتنا گہرا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ زیادہ سے زیادہ گہرائی ڈیڑھ سے دو میٹر ہے۔ میں ایک مضبوط رسی لے کر اور اپنے جوتے اتار کر سمندر میں اتر گیا۔
دشمن کے چالیس بحری جہازوں پر قبضہ
آدھے گھنٹے میں میں بلے فسکو پہنچ گیا۔ ان کے بحری جہاز تیار کھڑے تھے۔ جن لوگوں نے مجھے دیکھا، انہوں نے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ میں نے رسی لے کر جہازوں کے چاروں طرف گھوم کر ان سب کو باندھ دیا۔ اس دوران وہ مجھ پر تیر پھینکتے رہے۔ میرے ہاتھوں اور چہرے پر تیر لگے۔ مجھے اپنی آنکھوں کا بڑا خطرہ تھا۔ اس لیے میں اپنا چشمہ ساتھ لایا تھا۔ چناں چہ میں نے چشمہ نکال کر آنکھوں پر لگا لیا۔ اب میں نے رسی کا سرا پکڑا اور جہازوں کو کھینچنا شروع کیا اور اس طرح بلے فسکو کے چالیس جہازوں کو کھینچ لایا۔
بلے فسکو کے لوگوں نے سخت غم و غصہ کا اظہار کیا، لیکن وہ کر ہی کیا سکتے تھے۔ جب میں خطرے سے باہر ہوگیا تو میں نے وہ خوشبو دار تیل ان مقامات پر لگایا جن پر تیر لگے تھے۔ میں نے چشمہ اتار دیا اور للی پٹ کی طرف چلنے لگا۔
بادشاہ ناراض ہو گیا
میں تو چوں کہ گہرے پانی میں ڈوبا ہوا چل رہا تھا، اس لیے للی پٹ والے مجھے تو نہ دیکھ سکے، مگر انہیں وہ چالیس جہاز آگے بڑھتے نظر آرہے تھے۔ جنہیں میں کھینچتا چلا آرہا تھا۔ جب میں للی پٹ کے قریب پہنچا تو پانی سے باہر نکلا اور میں نے بلند آواز سے کہا، ’’للی پٹ کا بادشاہ زندہ باد‘‘
بادشاہ بہت خوش ہوا۔ اس نے مجھ سے کہا، ’’تم جا کر باقی جہاز بھی لے آؤ۔ میں دشمن ملک کو غارت کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
میں نے کہا، ’’یہ بات تو ٹھیک نہیں کہ آپ آزاد لوگوں سے یہ سلوک کریں۔‘‘
اس پر بادشاہ ناراض ہوگیا اور پھر وزیروں اور مشیروں سے مجھے مارنے کے مشورے ہونے لگے۔
امن کی گفتگو
تین ہفتے بعد بلے فسکو کی چھے ممتاز شخصیتیں امن کی درخواست لے کر للی پٹ آئیں۔ بادشاہ نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور ان کی گزارشات کو غور سے سنا۔ وہ بلے فسکو کے بڑے آدمیوں میں سے تھے۔ ان کے ساتھ پانچ سو آدمی بطور ملازم، منشی اور مددگار آئے تھے۔ ہر شخص نے گھنٹوں خطاب کیا۔ پھر للی پٹ کے لیڈروں نے ان کا جواب دیا۔ ان کے ساتھ بھی چھے سو آدمی تھے۔ آخر امن کا معاہدہ ہوگیا اور بلے فسکو اور للی پٹ کے چھے لیڈروں نے اس پر دستخط کردیے۔ للی پٹ والوں نے خاصی زمین اور جہاز حاصل کر لیے اور بڑے فائدے میں رہے، مگر اس سے امن قائم ہوگیا اور ایک بار پھر دونوں بادشاہوں میں دوستی قائم ہوگئی۔ میں نے للی پٹ کے لیڈروں کو سمجھایا تھا کہ آپ زیادہ چیزوں کا مطالبہ نہ کریں۔ انہوں نے میرے مشورے کی قدر کی۔ بلے فسکو کے لیڈروں نے یہ بات اپنے بادشاہ تک پہنچائی۔ اس نے خط لکھ کر میرا شکریہ ادا کیا اور مجھے اپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔
میرے لیے خطرہ
للی پٹ کے بادشاہ کے فرمان میں یہ درج تھا کہ میں ان کی اجازت کے بغیر ملک سے باہر نہیں جاسکتا، لیکن میں نے سوچا کہ اگر میں اجازت مانگوں تو انکار نہیں کریں گے۔ میں نے یہ بات بادشاہ کے دوستوں سے کہی تو بعد میں مجھے پتا لگا کہ بادشاہ اس بات پر مجھ سے ناراض ہیں۔
شام کو بادشاہ کا ایک مشیر آیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ تم اب خطرے میں ہو۔ انہیں یہ ڈر ہے کہ تم جزیرہ بلے فسکو کی طرف سے ہم سے لڑو گے۔ بادشاہ نے حکم دیا ہے کہ میری آنکھیں نکال دی جائیں، میری غذا بند کردی جائے اور اس طرح مجھے مار دیا جائے۔ اس نے یہ بھی حکم دیا کہ میرے مرنے کے بعد میری لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے سمندر میں ڈال دیا جائے۔
یہ سن کر میرا جی جلا اور میں یہ سوچنے لگا کہ اب ان کا کیا علاج کروں۔ پھر مجھے ان کی مہربانیوں کا خیال آیا اور میں نے دل میں کہا کہ کچھ لوگ بیوقوف ضرور ہیں، لیکن سارے لوگ ہی بیوقوف نہیں۔ ان کے عالموں نے کئی کتابیں لکھی تھیں۔ ان میں سے کچھ میں نے بھی پڑھی تھیں۔ ان کی تحریر بہت باریک تھی۔
یہ لوگ یورپ کی طرح بائیں سے دائیں نہیں لکھتے، نہ عربوں کی طرح بائیں سے دائیں، نہ چینیوں کی طرح اوپر سے نیچے اور نہ ہی کاسکیج کی طرح نیچے سے اوپر۔ ان کی تحریر انگریز عورتوں کی طرح ترچھی ہوتی۔ بائیں کو جھکی ہوئی دائیں کو اٹھی ہوئی۔
للی پٹ میں زندگی اور موت
ہم یہ کہتے ہیں کہ انگلستان میں اچھے کاموں کا صلہ اور جرموں پر سزا دی جاتی ہے، لیکن ہم نے سزا پاتے ہوئے تو لوگوں کو دیکھا ہے، صلہ پاتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا۔ میں نے اس بات کا للی پٹ والوں سے ذکر کیا تو وہ حیران ہو گئے۔ ان کے ملک میں اگر کوئی شخص یہ ثبوت دے دے کہ اس نے 73 دنوں میں کوئی قانون نہیں توڑا تو اس کو نقد انعام دیا جاتا ہے اور اسے قانون کا احترام کرنے والے کا خطاب دیا جاتا ہے۔ ان کی زبان میں اسے ’’اسنیل پال‘‘کہا جاتا ہے۔
للی پٹ کے لوگوں کو للی پوشن کہتے ہیں۔ للی پوشن کہتے ہیں کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ قانون کو سمجھے۔ جو قانون سمجھا نہیں جا سکتا وہ برا قانون ہوتا ہے اور اسے بدل دیا جاتا ہے۔ جب کوئی للی پوشن مرتا ہے تواسے دفن کرتے وقت اس کا سر نیچے اور ٹانگیں اوپر رکھی جاتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ گیارہ ہزار مہینوں کے بعد دنیا کی ہر چیز زندہ ہو جائے گی۔ اس وقت زمین کے اوپر کا حصّہ نیچے اور نیچے کا حصّہ اوپر ہو جائے گا۔ اس طرح مردہ اس وقت سیدھا اٹھے گا۔
پھر میں نے بادشاہ کا ایک بڑا جہاز لیا۔ اس میں تمام کپڑے اور دوسری چیزیں ڈالیں اور اسے کھینچتا ہوا جزیرہ بلے فسکو لے آیا۔ وہاں مجھے دو آدمی ملے جنہوں نے شہر کا راستہ دکھایا۔ بلے فسکو کا بادشاہ اور ملکہ مجھ سے ملنے آئے۔
اس نے میری خاطر تواضع کی لیکن ان کے ہاں اتنا بڑا مکان نہ تھا کہ میں اس کے اندر رہوں، اس لئے میں رات کو اپنا اوور کوٹ اوپر ڈال کر مکان کے باہر سوتا رہا۔
وطن واپسی
ایک دن میں اس جزیرے کے شمال مشرقی کنارے کی سیر کر رہا تھا کہ مجھے ایک کشتی نظر آئی۔ میں جوتے اتار کر پانی میں داخل ہوگیا۔ تھوڑی دیر میں وہ میرے قریب آ گئی۔ وہ الٹی ہوئی تھی۔ میں فوراً بادشاہ کے پاس گیا اور اس سے درخواست کی کہ مجھے بیس بڑے جہاز اور دو ہزار آدمی دیے جائیں تاکہ میں اس کشتی کو خشکی پر لاؤں۔ جہاز آ گئے۔ انہوں نے ڈوریاں لے کر کشتی کو باندھ کر اتھلے پانی کی طرف کھینچا۔ پھر میں نے خود ہی اس کو پلٹ کر سیدھا کر دیا۔ میں نے دیکھا یہ کشتی بالکل صحیح سالم تھی۔ میں اسے شہر میں لے آیا۔ لوگ اسے دیکھنے آئے، کیوں کہ ان کے لیے یہ پہاڑ کے برابر تھی۔ میں نے بادشاہ سے درخواست کی کہ میں وطن واپس جانا چاہتا ہوں۔ مجھے غذا اور دوسری چیزیں دی جائیں۔ اسے افسوس ہوا کہ میں نے اتنی جلدی واپسی کی تیاری کر لی، مگر انہوں نے مجھے غذا اور دیگر چیزیں دیں اور کشتی کو سمندر میں اتارنے میں مدد کی۔ میں نے ان کی چھے گائیں بھی کشتی میں رکھیں کہ اپنے وطن کے لوگوں کو دکھاؤں گا، مگر ان کا کوئی آدمی میرے ساتھ آنے پر تیار نہ ہوا۔
یکم مئی1702 کو میں وہاں سے روانہ ہوا۔ بادشاہ اور ملکہ نے مجھے الوداع کہا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں وان دیمن لینڈ کے شمال مشرقی کنارے کی طرف جاؤں گا۔ راستے میں ایک جہاز مل گیا۔ جس نے مجھے اٹھا لیا۔ یہ انگلستان کا جہاز تھا۔ میں نے اپنے ہیٹ میں رکھی ہوئی چھے گائیں انہیں دکھائیں۔ اس جہاز کا کپتان بڑا اچھا آدمی تھا۔ جہاز میں ہی مجھے ایک پرانا دوست پیٹر ولیم ملا۔ جزیرے سے لائی ہوئی گایوں میں سے ایک کو جہاز میں موجود چوہوں نے کھا لیا۔ باقی پانچ کو میں نے انگلستان میں بڑی قیمت پر بیچ دیا۔
دوسرا سفر: براب ڈنگ نیگ کا سفر
میں للی پٹ سے وطن واپسی پر خوش حال ہوگیا تھا۔ میں نے ایک مکان خرید لیا۔ سیر اور سفر کا شوق مجھے بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔1702 ہی میں ایک جہاز پر جزائر شرق الہند روانہ ہوگیا۔ میرا خیال تھا کہ میں وہاں تجارت کروں گا۔ مولوکا پہنچنے سے پہلے طوفان آیا اور اس نے جہاز کو مشرق کی طرف دھکیل دیا۔ نہ جانے ہم کہاں پہنچ گئے۔ ہفتوں تک بے بسی کے عالم میں سمندر میں تیرتے رہے۔ غذا تو جہاز میں موجود تھی، مگر پانی ختم ہو گیا۔ آخر ایک دن طوفان رکا اور ہمیں زمین نظر آئی۔ کپتان نے چند آدمی تازہ پانی کی تلاش میں بھیجے۔ میں بھی ان میں شامل تھا۔
ایک نامعلوم ملک
جہاں ہم اترے تھے اس کے قریب نہ دریا تھا اور نہ کوئی چشمہ۔ اس لیے ہم ذرا دور چلے گئے۔ پھر بکھر گئے تاکہ ہر کونے کو دیکھ لیا جائے۔ میں جنوب کے پہاڑوں کی طرف گیا۔ وہاں پانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ میں واپس جہاز کی طرف چلا مگر جہاز دور سمندر میں جا چکا تھا۔ دوسرے لوگ ایک کشتی میں سوار بڑی تیزی سے جہاز کی طرف جا رہے تھے۔ میں زور سے انہیں آواز دینے والا ہی تھا کہ میں نے دیکھا ایک عجیب و غریب مخلوق ان کے پیچھے سمندر میں چل رہی تھی۔ پانی اس کے گھٹنوں گھٹنوں تک تھا، مگر سمندر کی تہہ میں اس قدر نوک دار چٹانیں تھیں کہ وہ مخلوق اس کشتی کی طرف نہ جا سکی۔ میں پلٹ کر ان پہاڑوں کی طرف بھاگا جہاں میں پہلے گیا تھا۔
دیو لوگ
کچھ دور آگے مجھے ایک سڑک نظر آئی۔ میں اسی پر چلنے لگا۔ اس کے دونوں طرف گھنا جنگل تھا۔ میں نے درختوں کو بغور دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ درخت نہیں مکئی کے پودے ہیں، مگر اونچائی میں درختوں جتنے۔ ان کی بلندی 12 میٹر تھی۔ اب یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ یہ دراصل سڑک نہیں دیوؤں کی پگڈنڈی ہے۔
اچانک مجھے خوفناک شور سنائی دیا۔ معلوم ہوا کہ یہ دیو لوگ میرے ارد گرد مکئی کاٹ رہے ہیں۔ ایک میری طرف آرہا تھا۔ اس کے پیر تلے کچلنے کے ڈر سے میں نے زور سے چیخ ماری۔ اس نے میری چیخ سنی اور رک گیا۔ ادھر ادھر دیکھا تو اسے میں بھی نظر آگیا۔ اس نے مجھے ایسے دیکھا جیسے ہم کسی چیونٹی یا مچھر کو دیکھتے ہیں۔ پھر اس نے مجھے انگلیوں میں اٹھا کر اپنی آنکھوں سے تین میٹر کے فاصلے پر رکھا۔ میں زمین سے تقریباً بیس میٹر کی بلندی پر تھا۔ خوف سے میری جان نکلی جا رہی تھی۔ مجھے ڈر تھا کہیں وہ مجھے زمین پر پٹخ کر اپنے پیر سے مسل نہ دے۔ میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ مجھے مت مارو۔ اس بات سے اسے خوشی ہوئی۔ میں نے اشارے سے بتایا کہ اس کی انگلیوں کے دباؤ سے میری ہڈیوں میں درد ہو رہا ہے۔ وہ سمجھ گیا۔ اس نے اپنے کوٹ کے کنارے میں مجھے رکھا۔ پھر وہ مجھے کسان کے پاس لے گیا اور اس کے سامنے مجھے زمین پر رکھ دیا۔
مہربان کسان
میں نے سر سے ہیٹ اتار کر کسان کو سلام کیا اور اس سے بات کرنا چاہی۔ اس نے زمین پر اپنا ہاتھ رکھا اور مجھے اشارے سے سمجھایا کہ میں اس پر لیٹ جاؤں۔ پھر وہ مجھے اپنے کان کے بہت قریب لے گیا۔ حالانکہ میں اب بھی اس کے کان سے دو میٹر دور تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ میری آواز باریک تھی اور اسے سنائی نہیں دیتی تھی۔ وہ بولا تو ایسے لگا کہ توپیں داغی جا رہی ہیں۔ میری کچھ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ مجھے اپنے گھر لے گیا اور مجھے اپنی بیوی کو دکھایا۔ وہ مجھے دیکھتے ہی چیخ کر بھاگ گئی۔ کچھ دیر کے بعد پھر آئی اور مجھے دیکھنے لگی۔ میں نے کسان سے بولنے کی کوشش کی، مگر بے سود۔ اس کی بیوی اب مجھے بڑی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔
دوپہر کا وقت تھا۔ ایک ملازم کھانا لایا۔ کھیت پر کھانا مختصر ہوتا ہے۔ ایک ہی رکابی تھی۔ جس کی چوڑائی کوئی آٹھ میٹر ہوگی۔ وہ زمین سے دس میٹر اونچی تھی، اس لیے میں تو ڈر کے مارے اس سے دور ہی رہا۔ کسان کی بیوی نے روٹی کے ٹکڑے توڑ کر اور کچھ گوشت لے کر مجھے لکڑی کے تھال میں دیا۔ اس تھال کی اونچائی ہماری میز کے برابر تھی۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور جلدی جلدی کھانے لگا۔ یہاں کسان کا پورا کنبہ جمع ہو گیا تھا۔ اس کی بوڑھی ماں، بیوی اور تین بچے، سب کے سب مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ گھر میں چھوٹے سے چھوٹا پیالہ بھی ایسا تھا جس میں نو لیٹر پانی آ جائے۔ اس سے پانی پینا آسان نہ تھا، مگر مجھے پینا پڑا۔ میں نے شکریہ ادا کیا۔ ان لوگوں نے قہقہہ لگایا۔ ان کی آواز سے میرے کان پھٹنے لگے۔
آدمی کے برابر چوہے
کھانے کے بعد کسان کھیت کو چلا گیا اور اپنی بیوی سے کہہ گیا کہ میرا خیال رکھے۔ میں بہت تھکا ہوا تھا۔ اس نے مجھے اپنے کمرے میں لے جا کر اپنے بستر پر سلا دیا اور دروازہ بند کر کے چلی گئی۔ میں دو گھنٹے سویا۔ جب میں جاگا تو نظر دوڑائی۔ وہ کمرا تقریباً ایک سو میٹر لمبا اور ساٹھ میٹر بلند تھا۔ وہ بستر جس پر میں بیٹھا ہوا تھا، بیس میٹر چوڑا تھا اور فرش سے آٹھ میٹر بلند تھا۔ میں ادھر ادھر دیکھ ہی رہا تھا کہ میرے جتنے بڑے دو چوہے بستر پر چڑھ آئے۔ میں نے ڈر کر اپنی تلوار سونت لی، لیکن چوہوں کو کوئی ڈر محسوس نہ ہوا۔ ایک نے میرے بازو پر کاٹا ہی تھا کہ میں نے تلوار اس کے پیٹ میں گھونپ دی۔ وہ مر گیا۔ دوسرا چوہا بھاگ گیا۔ کسان کی ایک بیٹی تھی جس کی عمر نو برس تھی۔ اس کا قد بارہ میٹر تھا۔ ویسے ہر لحاظ سے وہ عام لڑکیوں جیسی تھی۔ اس کے پاس لکڑی کی ایک گڑیا تھی۔
گڑیا کے لیے ایک چھوٹا سا گھر تھا۔ کسان کی بیٹی اور اس کی ماں نے گڑیا کا بستر میرے لیے موزوں سمجھا۔ ان کا نرم سے نرم کپڑا بھی ہمارے جہازوں کے ٹاٹ کی طرح تھا۔ مجھے گڑیا کا بستر پسند آیا، کیوں کہ اس میں میں چوہوں اور دوسرے جانوروں سے محفوظ ہوگیا تھا۔ کسان کی بیٹی میری استانی بنی۔ جب میں کسی چیز کی طرف اشارہ کرتا تو وہ اپنی زبان میں اس کا نام لیتی۔ چند دنوں میں میں ان کی زبان کے کچھ لفظ سیکھ گیا۔ اس لڑکی نے میرا نام’’ گریل ڈریگ ‘‘رکھا۔ اس کا مطلب ہے بہت چھوٹا آدمی۔
ان کے ملک کا نام ’’براب ڈنگ نیگ‘‘ تھا۔ میں اس لڑکی کی وجہ سے وہاں سے بچ نکلا ہوں۔ میں اسے ’’گلم ڈا کلیچ‘‘ کہا کرتا تھا، یعنی میری چھوٹی نگہبان۔ جلد ہی اس کھیت کے قریب دیہات والوں میں یہ خبر پہنچی کہ ایک بہت ہی چھوٹا سا انسان ملا ہے، جو کسان کے گھر میں ہے۔ ان کے ملک کا سب سے چھوٹا جانور’’ سپلاک نک‘‘ تھا، جو دو میٹر سے کم لمبا تھا۔ اس لیے وہ میری تصویر کشی کرتے وقت کہتے تھے کہ یہ جانور سپلاک نک کے برابر ہے، لیکن ہے انسان۔ اپنی زبان بولتا ہے۔ اس نے ہماری زبان کے چند لفظ بھی سیکھ لیے ہیں۔ یہ دونوں ٹانگوں پر کھڑا ہوتا ہے اور دونوں ٹانگوں سے چلتا ہے۔ اس کی ٹانگیں بہت چھوٹی اور کمزور ہیں۔ اس نے کچھ کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ اس کے پاس ایک چھوٹی سی تلوار بھی ہے۔
قریبی گاؤں کا ایک چودھری بھی مجھ سے ملنے آیا۔ وہ مجھے دیکھ کر سخت حیران ہوا۔ مجھے ایک میز پر رکھ دیا گیا تھا اور وہیں سے میں اس سے باتیں کر رہا تھا۔ اس نے کسان سے خاصی دیر تک باتیں کیں۔ شاید وہ میری باتیں کر رہے تھے۔ ان کی باتوں سے گلم ڈا کلیچ کا چہرہ اترتا جارہا تھا۔ جب مہمان چلا گیا تو اس چھوٹی لڑکی نے مجھے بتایا کہ میں بہت اداس ہوں۔ انہوں نے میلے میں میری نمائش کا منصوبہ بنایا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ کوئی دیہاتی مجھے ہاتھ میں نہ اٹھالے اور کہیں میری ہڈی پسلی نہ ٹوٹ جائے۔ اس طرح میلے میں پیسہ کمانے پر اس نے دکھ کا اظہار کیا۔
گلم ڈا کلیچ نے اپنے باپ سے درخواست کی کہ اسے میلے میں نہ لے جایا جائے۔ لیکن کسان نے اس کی بات پر کان نہ دھرا۔ میلے کے دن وہ مجھے وہاں لے گیا۔ میرے لیے ایک صندوق بنوایا گیا تھا۔ اس کا ایک دروازہ تھا اور ہوا کے لیے چند سوراخ بھی بنے ہوئے تھے۔ صندوق کو گھوڑے پر رکھ کر اور اپنی بیٹی کو پیچھے بٹھا کر وہ میلے کو روانہ ہوا۔ اس لڑکی نے اپنی گڑیوں کی سب سے نرم گدی میرے لیے صندوق میں بچھا دی تھی۔ اس کے باوجود سفر بڑا تکلیف دہ تھا۔ گھوڑا ہر قدم پر بارہ میٹر طے کرتا۔ مجھے ایسے ہچکولے لگتے جیسے کہ طوفان کے دوران بحری جہاز میں لگتے ہیں۔
میلے تک پہنچنے میں کل تیس منٹ لگے۔ کسان کے مکان سے وہ چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ میں تھک کر چور ہوچکا تھا۔ پھر کسان نے منڈی کے قریب ایک کمرا کرائے پر لے کر مجھے میز پر رکھ دیا اور تیس تیس آدمیوں کو کمرے میں میرا تماشا دیکھنے کے لیے بلایا جانے لگا۔ میری میزکے قریب گلم ڈا کلیچ میری حفاظت کے لیے کھڑی تھی۔ وہی مجھے حکم دیتی اور مجھ سے سوال پوچھتی تھی۔ یہ سوال و جواب پہلے سے طے کر لیے گئے تھے۔ میں ان کی زبان سے انہیں بتاتا تھا کہ میرا نام ’’لیموئل گلیور‘‘ ہے۔ میں انگلستان کا رہنے والا ہوں۔ اپنے ملک کے آدمیوں کے قد کے لحاظ سے میں ٹھگنا نہیں بلکہ لمبا آدمی ہوں۔ ہاں آپ لوگ قد میں بہت بڑے ہیں۔ آپ لوگ دیو ہیں۔ میری باتیں سن کر لوگ قہقہہ لگاتے۔ ان کی آواز سے ایسا لگتا کہ میرے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے۔ میں میز پر چل کر دکھاتا تھا اور اپنا ہیٹ اتار کر تماشائیوں کو سلام بھی کرتا تھا۔ میں اپنی تلوار نکال کر اسے گھما پھرا کر انہیں یہ دکھاتا کہ یہ کیسے استعمال کی جاتی ہے اور جو کچھ وہ چاہتے اس کا مظاہرہ بھی کرتا۔
اس دن میںبارہ دفعہ میری نمائش ہوئی۔ اس کے بعد جب ہم کھیت والے مکان پہنچے تو میں بیمار ہوگیا تھا۔ ایک بار کسان کو میری نمائش سے آمدنی ہوئی تو اب یہ اس کا مستقل کاروبار بن گیا۔ کھیت پر بھی لوگ مجھے دیکھنے آتے۔ گلم ڈا کلچ سخت اداس تھی، کیوں کہ میں روز بروز کمزور ہوتا جارہا تھا، لیکن کسان کو اس بات کی کوئی فکر نہ تھی۔
ملکہ کے ہاں سے میری طلبی
کسان نے سمجھا کہ کہیں میں مر نہ جاؤں، اس لیے مجھ سے جلدی جلدی جتنی رقم کمائی جاسکتی ہے، کمالی جائے۔ اس کی ہوس بڑھتی جارہی تھی۔ وہ مجھے دوسرے شہروں کو لے گیا۔ براب ڈنگ نیگ کے بعد دوسرا بڑا شہر’’ اور برول گروڈ‘‘ تھا۔ وہیں بادشاہ کا محل واقع تھا۔ اس شہر میں میری عام نمائش ہوئی۔ وہاں ہم پہنچے ہی تھے کہ ملکہ کے ہاں سے میری طلبی ہوئی۔ بعض خواتین مجھے پہلے ہی دیکھ چکی تھیں۔ مجھے امید تھی کہ ملکہ میری جان بچا لے گی۔ اس لیے اس کے سامنے میں اپنی میز پر تعظیم کے لیے جھکا۔ اس نے بڑی مہربانی سے اپنی چھوٹی انگلی میری طرف بڑھائی۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اسے تھام کر بوسہ دیا۔
ملکہ نے میرے ملک اور میرے سفر کے بارے میں کچھ سوال پوچھے۔ میں نے مختصر مگر خوبصورت جواب دیے۔ اس نے پوچھا، ’’کیا تم محل میں رہنا چاہتے ہو؟‘‘
میں نے اسے بتایا کہ اس وقت تو میں کسان کا نوکر ہوں۔ وہ اگر مجھے آزاد کردے تو میں آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوجاؤں گا۔
کسان سے شاہی ملازموں نے بات کی اور وہ ہزار اشرفیوں پر مجھے بیچنے کے لیے راضی ہوگیا۔ ایک ایک اشرفی ہمارے ہاں کے گاڑی کے پہیے کے برابر تھی۔ میں نے ملکہ سے درخواست کی کہ آپ کسان کی بیٹی کو اپنی ملازمہ بنالیں، کیوں کہ وہ میری دیکھ بھال کرتی ہے۔ ملکہ اس بات پر راضی ہوگئی اور کسان نے بھی اپنی رضامندی ظاہر کردی۔ گلم ڈا کلیچ بھی خوش تھی۔ جب کسان واپس گیا تو مجھے کچھ افسوس نہ ہوا۔ ملکہ نے بھانپ کر مجھ سے اس کی وجہ پوچھی۔ میں نے اپنے دل کی بات اسے بتا دی۔
میں نے کہا، ’’صرف ایک بات کا شکریہ میں کسان کا ضرور ادا کروں گا کہ اس نے مجھ جیسی ننھی مخلوق کو مارا نہیں۔ وہ میری نمائش سے اور میری فروخت سے خاصی دولت کما چکا ہے، مگر میں کمزور اور بیمار ہوگیا ہوں۔ اگر آپ کے پاس نہ آتا تو میں مر جاتا۔ مجھے اس بات کا فخر ہے کہ میں ملکہ کا نوکر ہوں جو دنیا کی عظیم ترین خاتون اور رعایا کی چہیتی ملکہ ہے اور جو براب ڈنگ نیگ کا چاند اور آسمان کا چمکنے والا ستارہ ہے۔‘‘
مجھے یہ الفاظ گلم ڈا کلیچ نے سکھائے تھے۔ ملکہ یہ سن کر حیرت کرنے لگی کہ اتنی ننھی مخلوق بھی اتنے علم کی مالک ہے۔ وہ مجھے اپنے ہاتھ میں لے کر بادشاہ کے پاس لے گئی۔
بادشاہ کے حضور میں
بادشاہ کاغذات پر دستخط کر رہا تھا۔ جب ملکہ اندر آگئی تو اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔ اس نے مجھے اس کے ہاتھ میں دیکھا لیکن قریب سے نہیں۔ بادشاہ نے پوچھا، ’’پیاری ملکہ! یہ کھلونا کب سے تمہارے ہاتھ آیا ہے؟‘‘
ملکہ مسکرائی۔ اس نے بادشاہ کی میز پر مجھے کھڑا کردیا اور مجھ سے کہا کہ میں اپنا تعارف کراؤں۔ بادشاہ نے کئی سوال پوچھے۔ میں نے ان کے جواب دیے۔ اس نے سمجھا میں گھڑی کی قسم کا کوئی کھلونا ہوں، اس لیے اس کی حیرت کچھ اور بڑھ گئی۔ بادشاہ نے اپنے ملک کے تین داناؤں کو بلوا بھیجا۔ ان لوگوں نے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ مجھے ہر طرف سے دیکھا بھالا۔ پھر گھنٹوں آپس میں بحث کی۔ انہوں نے کہا، ’’یہ چیز جانور نہیں ہوسکتی، کیوں کہ یہ نہ تو اڑ سکتی ہے، نہ تیز بھاگ سکتی ہے، نہ درختوں پر چڑھ سکتی ہے اور نہ زمین میں بل بنا سکتی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ یہ بونا بھی نہیں، کیوں کہ دنیا کا سب سے ٹھگنا آدمی ٹم ہے جو تھیٹر میں ہے۔ اس کا قد اس سے پانچ گنا بڑا ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ کھلونا بھی نہیں، کیوں کہ یہ بہت چھوٹا اور باریک ہے اور کوئی انسانی ہاتھ اتنا چھوٹا کھلونا نہیں بنا سکتا۔ اس لیے ہماری رائے میں یہ ایک چیز ہے۔ ایک ایسی چیز جو سوچنے سمجھنے سے وجود میں نہیں آئی بلکہ غلطی سے بن گئی ہے۔ میں نے بادشاہ سلامت سے کہا، ’’جناب والا، میں چیز نہیں۔ میں ایسے ملک سے آیا ہوں جہاں میرے جیسے بیشمار مرد اور عورتیں ہیں۔ ان کا قد میرے قد کے برابر ہے۔ ہمارے ہاں درخت، جانور اور مکانات ہیں۔ ان کی اپنی اپنی اونچائیاں ہیں۔ ہماری زبان ہے، بادشاہ ہے، حکومت کے قانون ہیں اور رہنے بسنے کے طریقے ہیں۔‘‘
میں نے بادشاہ کو انگلستان اور یورپ کے دوسرے ملکوں کی کئی باتیں بتائیں۔ وہ غور سے سنتا رہا۔ داناؤں کو واپس بھیج دیا گیا۔ اس نے ملکہ سے کہا، ’’اس ننھی مخلوق سے میں کچھ اور بھی پوچھوں گا۔ اس کو محل میں کسی جگہ آرام سے رکھا جائے اور اس کی دیکھ بھال کرنے والی لڑکی کو بھی ایک کمرا دے دیا جائے۔‘‘
میری نئی زندگی
ملکہ نے لکڑی کا کام کرنے والا ایک کاریگر بلا کر ایک صندوق بنانے کو کہا۔ مجھ سے کہا گیا کہ نقشہ میں بنا کردوں۔ میں نے 5میٹر لمبے،5میٹر چوڑے اور3میٹر اونچے مکان کا نقشہ بنایا۔ اس کی دو کھڑکیاں اور ایک دروازہ بنایا۔ چھت ایسی جو ڈھکنے کی طرح اٹھائی اور بند کی جاسکے تاکہ گلم ڈا کلیچ اس کی صفائی کرسکے۔ میرے لیے ایک میز اور کچھ کرسیاں بنائی گئیں۔ جب یہ مکان بن کر تیار ہوگیا تو میں نے محسوس کیا کہ یورپ کے مکانوں سے زیادہ مضبوط ہے۔ اس کی چھت یعنی ڈھکن کے اوپر ایک کڑا لگا دیا گیا تاکہ وہ لوگ جب چاہیں اور جہاں لے جانا چاہیں اسے اٹھا کر لے جاسکیں۔ ملکہ کے حکم سے میرے لیے کپڑے بنوائے گئے۔ ان کا نرم ترین کپڑا ایسا تھا جیسے انگلستان کے مکانوں کے موٹے موٹے پردے ہوتے ہیں۔
جب ملکہ کھانے کی میز پر بیٹھتی تو اس کے قریب میری میز لگادی جاتی اور وہ روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے مجھے دیتی اور میں کاٹ کر انہیں کھاتا. وہ مجھے دیکھتی رہتی تھی۔ ان کے ہاں بدھ کا دن چھٹی کا دن تھا۔ اس روز شاہی دعوت ہوا کرتی جس میں شاہی خاندان کے تمام لوگ شریک ہوتے تھے۔ میری میز بادشاہ کے قریب لگادی جاتی تھی۔ بادشاہ مجھ سے یورپ کے لوگوں، ان کے قانون اور تعلیم کے بارے میں سوال پوچھتا تھا۔
کبھی کبھی میں اپنے ملک انگلستان کی پارلیمنٹ، گرجے اور بادشاہ کی باتیں بڑے فخر سے بیان کرتا تو بادشاہ کھلکھلا کر ہنستا۔ ایک بار اس نے اپنی ملکہ سے کہا، ’’اس کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ غرور کرنا بیوقوفی کی بات ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم عظیم ہیں اور یہ ننھی مخلوق تکبر سے کہتی ہے کہ ہم عظیم ہیں۔ ہوسکتا ہے ان کے حکمران اچھے ہوں، کسان اور امیر لوگ اچھے ہوں، خواتین خوبصورت ہوں۔ شاید یہ اچھے کپڑے پہنتے ہوں، محبت اور نفرت کرتے ہوں، لڑتے جھگڑتے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ہماری طرح حقیقی انسان ہوں۔‘‘
مجھے بادشاہ کی ان باتوں سے دکھ ہوا، لیکن میں کر بھی کیا سکتا تھا۔ میں نے سوچا کہ مجھے ہر وقت یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ وہ قد میں بہت بڑے، بدصورت اور شوروغل کرنے والے لوگ ہیں۔
میرے لیے کئی خطرے
براب ڈنگ نیگ کی ہر چیز بڑی اور بہت بڑی تھی۔ وہاں بارش کا ہر قطرہ سینکڑوں لیٹر پانی کے برابر ہوتا تھا۔ ایک ایک اولا سو سو کلو گرام کا ہوتا۔ اس لیے میں وہاں ہر وقت خطرے میں رہتا تھا۔ ایک دن میں محل کے سبزہ زار کی سیر کر رہا تھا کہ اولے برسنے لگے۔ ایک اولا مجھے کیا لگا میں زمین پر گر پڑا۔ گھاس کی وجہ سے مجھے گلم ڈا کلیچ دیکھ نہ سکی۔ میں نے اٹھنے کی کوشش کی تو ایک اور اولا آیا۔ اب تو میرے انجر پنجر ڈھیلے ہوگئے۔ رینگتے رینگتے میں گلاب کے درخت کے نیچے پناہ لی اور وہیں پڑا رہا۔ گلم ڈا کلیچ مجھے تلاش کر کے درخت کے نیچے سے اٹھا کر لے گئی اور بستر پر لٹایا۔ کوئی دس دن کے بعد میں صحیح ہوا۔
مجھے باغ کی سیر میں بڑا مزا آتا تھا۔ جب ٹھیک ہوا تو پھر سیر شروع کردی۔ اولوں کے علاوہ دوسرے خطروں میں جانوروں کا ذکر ضروری ہے۔ وہاں کا چھوٹا سے چھوٹا پرندہ یورپ کے بڑے سے بڑے پرندوں سے بڑا تھا۔ ایک دن نہ جانے کہاں سے ایک چھوٹا سفید کتا باغ میں آگیا۔ اس کا قد آٹھ میٹر تھا۔ وہ مالی کا کتا تھا۔ اسے تربیت دی گئی تھی کہ وہ چیزوں کو نقصان پہنچائے بغیر منہ میں پکڑ کر اٹھا کر لے جاتا تھا۔ وہ آیا اور مجھے لے کر سیدھا مالی کے پاس پہنچا اور زمین پر رکھ دیا۔ میں خوف سے کانپ رہا تھا۔ مالی مجھے جانتا تھا۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں پر رکھ کر مجھے گلم ڈا کلیچ کے پاس لے آیا۔ وہ سخت ناراض ہوئی، لیکن کتے کا ملکہ اور بادشاہ سے ذکر نہیں کیا ورنہ مالی کی ملازمت خطرے میں پڑ جاتی۔
ملکہ کی کئی خادمائیں تھیں۔ جنہیں شریف گھرانوں سے چنا جاتا تھا۔ وہ اپنے ملک کی خوبصورت ترین لڑکیاں تھیں۔ وہ جو خوشبوئیں لگاتی تھیں وہ اتنی تیز ہوتی تھیں کہ میرا دماغ پھٹنے لگتا تھا۔
بادشاہ کو میں نے اپنے ملک کی حکومت کے نظام کے متعلق بتایا۔ میں نے بارود کا ذکر کیا اور کہا کہ میں بارود اور توپ بنا سکتا ہوں۔ اس نے حکم دیا کہ ایسی باتیں میرے ملک میں کسی کے سامنے نہ کرنا ورنہ میں تمہیں قتل کرادوں گا۔ ہم امن پسند لوگ ہیں۔ ہم اس آدمی کی قدر کرتے ہیں جو لوگوں کے لیے غلہ پیدا کرتا ہے اور بھلائی کے کام کرتا ہے۔ ہمارا کوئی قانون 22لفظوں سے زیادہ کا نہیں ہوتا۔ چوں کہ تمہارا سر چھوٹا ہے، اس لیے تم بیوقوفوں جیسی باتیں کرتے ہو۔ خبردار! یہ باتیں پھر نہ کرنا۔
ایک دن کیا ہوا
ایک دن گلم ڈا کلیچ مجھے سمندر کے ساحل پر لے گئی۔ میرے صندوق کو ایک جگہ حفاظت سے رکھ کر وہ سو گئی۔ اچانک مجھے ایسا لگا کہ صندوق اوپر کو اٹھتا جارہا ہے۔ یا اللہ! یہ کیا ماجرا ہے! صندوق ہوا میں تھا۔ اوپر سے بند، نیچے سے بند، مجھے کچھ پتا نہیں تھا کہ کیا ہوا۔ جب خاصی دیر ہوگئی تو مجھے ایک بڑے پرندے کے پھڑپھڑانے کی آواز سنائی دی۔ اب میں ڈرا کہ کوئی سمندری بڑا پرندہ مجھے اٹھا لایا ہے اور کسی پہاڑ پر مجھے گرا دے گا اور گرتے ہی میرے اور صندوق کے پڑخچے اڑ جائیں گے۔ پھر دو تین پرندوں کے پھڑپھڑانے کی آواز آئی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ صندوق کے لیے پرندوں میں چھینا جھپٹی ہورہی ہے۔ میں نے سوچا، ’’گلیور! اب تمہاری موت یقینی ہے۔ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لو۔‘‘
دھڑام سے صندوق گرنے کی آواز سنائی دی۔ پانی کے چھینٹے اڑے اور صندوق سمندر کی سطح پر تیرنے لگا۔ کئی دن اسی طرح تیرتے ہوئے گزر گئے۔ بہت تیز طوفانی ہوا چل رہی تھی۔ موجیں صندوق کو کبھی اوپر اٹھاتی تھیں اور کبھی نیچے گراتی تھیں۔ پھر ایسا لگا کہ صندوق کسی چیز سے ٹکرایا ہے۔ کوئی چیز صندوق کے اوپر لگے ہوئے کڑے کو چھیڑ رہی تھی۔ پھر صندوق بلند ہوا اور کچھ آوازیں سنائی دیں۔ مجھے انگریزی زبان بولنے کی آواز آئی۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے مجھے ایک جہاز نے بچا لیا تھا۔ صندوق کا ڈھکن کھول کر مجھے نکال لیا گیا۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس وقت مجھے کتنی خوشی ہوئی ہوگی!
تیسرا سفر: ہوئی نم کا سفر
میں انگلستان پہنچا۔ لوگ میرے سفروں کا حال سن کر حیران ہوئے۔ میری بڑی قدر کرتے تھے۔ میرے رشتے دار مجھ پر فخر کرتے تھے۔ اچھے دن گزر رہے تھے۔ ایک دن مجھے معلوم ہوا کہ ایک شخص اپنے جہاز کے لیے ایک کپتان کی تلاش کر رہا ہے۔ میں نے اس سے رابطہ کیا اور اس کا کپتان بن گیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے پہلا سفر 1700میں کیا تھا۔ اب اس کو دس سال گزر چکے تھے۔ دس سالوں کا زیادہ حصہ سمندری سفر میں گزر چکا تھا۔ میں اب اس کا عادی ہوچکا تھا۔ مجھے انگلستان میں رہنا اچھا نہیں لگتا تھا۔
ستمبر1710ء میں ہم جہاز لے کرروانہ ہوئے۔ مہینہ بھر اچھا گزرا۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ سمندر بالکل خاموش تھا اور ہوا نام کو نہیں تھی۔ تمام ملاح بیمار پڑگئے۔ بڑی مشکل سے میں جہاز کو ’’بارباڈوس‘‘ لے گیا۔ وہاں سے میں نے نئے ملاح بھرتی کیے۔ مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ ان میں سے کئی آدمی بحری لٹیرے تھے۔ مجھے جنوب میں جا کر جہاز پر لدا مال بیچنا تھا اور وہاں سے مال خرید کر کے انگلستان لانا تھا۔ ان لٹیروں نے سازش کی اور یہ منصوبہ بنایا کہ اس جہاز کو لوٹ مار کے لیے استعمال کیا جائے۔ انہوں نے مجھے میرے جہاز میں قید کردیا۔ طوفان آگیا۔ بہت تیز ہوا چلی۔ پھر نہ مجھے معلوم ہوا اور نہ انہیں کہ جہاز کہاں جارہا ہے۔ مہینوں گزر گئے۔ مئی 1711ء میں زمین نظر آئی۔ مجھے ایک کشتی میں بٹھا کر وہ زمین پر چھوڑ آئے اور خود جہاز لے کر چلتے بنے۔
میں سمندر کے کنارے سے کچھ دور گیا تو گھاس پھوس درخت اور کھیت نظر آئے۔ میں حیران تھا کہ یہ کون سا ملک ہے۔
عجیب و غریب جانور
آگے چلا تو مجھے جانوروں کے پیروں کے نشان نظر آئے۔ پھر ایک کھیت میں کئی جانور دیکھے، بڑے بدصورت اور گندے۔ نر جانوروں کے سر اور ٹانگوں پر بڑے بڑے بال تھے۔ مادہ جانوروں کے صرف سر پر بال تھے۔ نر جانوروں کی بکروں کی طرح داڑھیاں بھی تھیں۔ میں نے اتنے بھدے جانور پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ میں سڑک پر چلتا گیا۔ آگے گیا تو ایک جانور نے میرا رستہ روک لیا۔ اس نے اگلا پیر میری طرف بڑھایا۔ میں نے اپنی تلوار سے اس کے پاؤں کو چھیڑا۔ میں اسے زخمی نہیں کرنا چاہتا تھا فقط روکنا چاہتا تھا، لیکن اسے چوٹ لگی تھی۔ اس نے عجیب و غریب آواز نکالی اور لگ بھگ چالیس جانور آگئے اور طرح طرح کی آوازیں نکالنے لگے۔ میں نے ایک درخت کے قریب جا کر، درخت کے تنے کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنی تلوار کو لہرانا شروع کیا۔ کچھ جانور درخت پر چڑھ گئے اور مجھ پر کچھ پھینکنے لگے۔ پھر یکایک سب کے سب جانور بھاگ گئے۔ میں اس کی وجہ سمجھ نہ سکا اور سڑک پر ہو لیا۔ آگے جاکر مجھے ایک گھوڑا نظر آیا۔ وہ میری طرف آرہا تھا۔ اس نے مجھے بغور دیکھا اور حیرت ظاہر کرنے لگا۔ وہ میرے اردگرد گھوم کر مجھے دیکھتا رہا۔ پھر ایک اور گھوڑا آیا۔ دونوں نے اپنے دائیں پیر ملائے اور ایک دوسرے کی طرف منہ کرکے آوازیں نکالتے رہے۔ یہ آوازیں دوستانہ لگتی تھیں۔ ایسا لگتا تھا وہ کوئی زبان بول رہے ہیں۔ پھر چند میٹر پیچھے ہٹ کر ٹہلنے لگے۔ شاید وہ ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے۔ میں حیران تھا کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں۔ میں آگے بڑھا۔ پہلے گھوڑے نے جس کا رنگ کالا تھا آواز نکالی۔ شاید وہ مجھے رک جانے کا حکم دے رہا تھا۔ دونوں گھوڑے پھر میرے قریب آئے۔ کالے گھوڑے نے میرے ہیٹ کو منہ سے پکڑ کر زمین پر اپنے دائیں پیر سے مسلا۔ دوسرا گھوڑا کتھئی رنگ کا تھا۔ میں نے ہیٹ اٹھا کر اسے جھاڑا اور پھر سر پر رکھ لیا۔ وہ دونوں ہی حیرانی سے دیکھتے رہے۔ کتھئی گھوڑا میرے کوٹ سے اپنی تھوتھنی مل مل کر کوئی جائزہ لیتا رہا۔ جب اس نے دیکھا کہ کوٹ میری جلد کا حصہ نہیں تو اور حیران ہوا۔
وہ پھر ایک دوسرے سے بولنے لگے۔ اب میں نے بھی یہی سمجھا کہ وہ کوئی زبان بولتے ہیں۔ ایک لفظ جو میں نے بار بار سنا ’’یاہو‘‘ تھا۔ جب وہ چپ ہوئے تو میں نے کہا، ’’یاہو۔‘‘
وہ سخت حیران ہوئے۔ سیاہ گھوڑے نے یہ لفظ صاف صاف دوبار دہرایا۔ وہ مجھے بولنا سکھا رہا تھا۔ پھر کتھئی گھوڑا ایک مشکل لفظ بولا، ’’ہوئی نم۔‘‘
میں نے چند بار اس لفظ کو ادا کیا اور وہ دونوں حیران ہوئے۔ کچھ دیر کی بات چیت کے بعد ایک گھوڑے نے اپنے دائیں پیر سے دوسرے گھوڑے کے دائیں پیر کو چھوا اور پھر کتھئی گھوڑا کہیں چلا گیا۔ سیاہ گھوڑے کی حرکتوں سے میں نے اندازہ کیا کہ وہ چاہتا ہے کہ میں اس کے آگے آگے چلوں۔ جب میں آہستہ آہستہ چلتا تو وہ کہتا تھا ’’ہون، ہون‘‘میں نے اشاروں سے یہ ظاہر کیا کہ میں بہت تھکا ہوا ہوں۔ اس نے مجھے آرام کرنے کا موقع دیا۔
گھوڑوں کا گھر
کچھ دیر کے بعد ہم ایک مکان میں پہنچ گئے۔ میرا خیال تھا کہ یہ گھوڑے کسی انسان کی ملکیت ہیں جس نے انہیں عمدہ تربیت دی ہے، مگر وہاں کوئی انسان نظر نہیں آیا۔ مکان کے اندر جب ہم بہترین کمروں میں پہنچے تو سیاہ گھوڑے نے آواز دی۔ ایک خوبصورت گھوڑی اور گھوڑے کے دو بچے مجھے دیکھنے آئے۔ اب اندازہ ہوا کہ سیاہ گھوڑا گھر کا مالک ہے۔ گھوڑی اس کی بیوی اور باقی دونوں ان کے بچے ہیں۔ گھوڑی نے میرے ہاتھوں اور چہرے کو دیکھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ مجھ سے نفرت کر رہی ہے۔ اس نے مڑکر سیاہ گھوڑے سے باتیں شروع کیں۔ میں نے لفظ ’یاہو‘ کئی بار سنا۔ اس وقت تک مجھے معلوم نہ تھا کہ اس کا اصل مطلب کیا ہے، اگرچہ یہی وہ لفظ تھا جو میں نے پہلی بار سنا تھا۔
سیاہ گھوڑا ’’ہون ہون‘‘ کہتا ہوا مجھے اس مکان سے ذرا فاصلے پر ایک چھوٹی عمارت میں لے گیا۔ اس میں وہ تین مکروہ جانور تھے جو سب سے پہلے مجھے نظر آئے تھے۔ وہ مزدورقسم کے جانور تھے جن سے کھیتوں پر کام لیا جاتا ہوگا۔ وہ دیوار سے بندھے ہوئے تھے۔سیاہ گھوڑے نے ایک چھوٹی عمر کے سرخ گھوڑے کو بلایا اور اسے کوئی حکم دیا۔ یہ سرخ گھوڑا اس کا نوکر معلوم ہوتا تھا۔ وہ سرخ گھوڑا ایک نہایت مکروہ جانور کو لے آیا اور اسے میرے ساتھ کھڑا کر دیا۔ پھر سیاہ گھوڑے اور سرخ گھوڑے نے اس جانور کو اور مجھے غور سے دیکھا۔ میں ان سے کئی بار لفظ’ یاہو‘ سنا۔ میں سمجھ گیا کہ بات کیا ہے۔ وہ وحشی جانور انسانی شکل کا تھا۔ اس کے اگلے پاؤں میرے ہاتھوں کی طرح تھے، مگر ان پر بال بہت زیادہ تھے اور بہت گندے بھی تھے۔ اس کا چہرہ بھی میرے چہرے سے ملتا تھا، لیکن کچھ چوڑا اور گندہ تھا۔ یاہو کے پاؤں میری ہی طرح کے تھے، لیکن گھوڑوں کو نظر نہ آئے، کیوں کہ میں نے بوٹ پہن رکھے تھے۔ بدن بھی ایک جیسے تھے۔ وہ ننگا تھا اور میں نے کپڑے پہن رکھے تھے۔
سرخ گھوڑے نے مجھے کئی طرح کی غذا دی۔ یاہو لوگ نہ جانے کس چیز کا گوشت کھا رہے تھے۔ وہ اتنا بدبو دار تھا کہ میں نہ کھا سکا۔ پھر اس نے مجھے سرخ گھاس اور مکئی کھانے کو دی۔ میں تو اس لیے پریشان تھا کہ اگر کچھ کھانے کو نہ ملا تو مرجاؤں گا۔
سیاہ گھوڑے نے اپنا پاؤں اپنے منہ سے لگایا۔ وہ پوچھ رہا تھا کہ میں کیا کھاؤں گا۔ میں کیا جواب دیتا۔ اس وقت مجھے ایک گائے نظر آئی جو ملازم گھوڑے کہیں لے کر جارہے تھے۔ میں نے اشارے سے سمجھایا کہ میں اس کا دودھ پیوں گا۔ ایک گھوڑی مجھے ایک کمرے میں لے گئی جہاں دودھ رکھا تھا۔ اس نے مجھے ایک برتن دیا اور میں نے خوب دودھ پیا۔
اس کے بعد میں نے ایک اور لفظ سیکھا ’’ہلونھ‘‘ جس کے معنی مکئی کے ہیں۔ میں اس کی روٹی پکانے لگا۔ اب مکئی کی روٹی، دودھ اور درختوں کے پھل مجھے ملنے لگے۔ یہ صحت کے لیے اچھی غذا تھی۔ میں نے کبھی وہ گوشت نہیں کھایا جو یاہو کھاتے تھے۔ رات کو سیاہ گھوڑے نے اپنے ملازموں کو حکم دیا کہ میرے سونے کی جگہ بنائیں۔ وہ اس مکان سے کچھ فاصلے پر تھی۔
ہوئی نم کی زبان
میرا پہلا کام یہ تھا کہ میں سیاہ گھوڑے اور دوسرے گھوڑوں یعنی ہوئی نم کی زبان سیکھوں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سیاہ گھوڑا، اس کا کنبہ اور تمام نوکر یہی چاہتے تھے کہ میں ان کی زبان سیکھوں۔ انہیں اس بات پر حیرت تھی کہ مجھ میں سوچنے کی قوت ہے۔ سیاہ گھوڑا گویا میرا مالک تھا۔ وہ بھی یہی چاہتا تھا کہ میں ان کی زبان جلد سیکھ لوں۔ اسے یقین تھا کہ میں ’’یاہو‘‘ ہوں یعنی وحشی انسان، مگر میری صفائی اور عقل دیکھ کر وہ مجھے ان سے بہتر سمجھنے لگا۔ دس ہفتوں میں مجھے ضروری باتیں آگئیں۔ تین مہینے بعد میں سیاہ گھوڑے کے سوالات کے جواب دینے کے قابل ہوگیا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں ایک اور ملک کا ہوں۔ سمندر کے راستے ایک جہاز پر یہاں آیا تھا۔ دوسرے آدمیوں نے جہاز پر قبضہ کرلیا اور مجھے یہاں چھوڑ دیا۔ اس نے کہا، ’’تم نے غلطی کی ہے۔ تم نے وہ بات نہیں کی جو نہیں ہے۔‘‘
اس وقت میں ان کا مطلب نہیں سمجھا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ ان کی زبان میں جھوٹ کے لیے کوئی لفظ نہ تھا۔ وہ اس بات کو نہیں مانتا کہ ایک جانور لکڑی کی کسی چیز کو اپنی مرضی سے پانی میں چلا سکتا ہے۔ اسے یقین تھا کہ کوئی ہوئی نم لکڑی کی ایسی چیز نہیں بنا سکتا اور اگر اس نے بنالی تو وہ یاہوؤں کو استعمال نہیں کرنے دے گا۔ میں اپنے مالک (یعنی سیاہ گھوڑے) کو یہ نہ سمجھا سکا کہ ہم لوگ جھوٹ سچ سب کچھ بولتے ہیں اور یہ کہ وہ ایسا کام دوسروں پر غلبہ حاصل کرنے یا مال حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں۔
یاہو اور ہوئی نم
ہوئی نم نے یاہوؤں کو جانوروں کے طور پر کھیتوں میں کام کرنے کے لیے رکھا ہوا تھا۔ ان کے مکانات سیاہ گھوڑے کے مکان سے دور تھے۔ دن بھر انہیں کھیتوں میں رکھا جاتا۔ یاہو گندگی کو پسند کرتے تھے۔ ان کی ہر بات خراب تھی، مگر سیاہ گھوڑے کو یقین تھا کہ میں ہوں تو یاہو مگر صاف اور اچھی قسم کا۔ یاہو ایک دوسرے سے لڑتے تھے۔ کبھی غذا پر جھگڑا ہوتا تو کبھی کسی جگہ پر۔ وہ سست اور کاہل تھے۔ ہوئی نم کی زبان میں لفظ ’’خراب‘‘ نہیں۔ وہ ملازم کی بیوقوفی کے لیے کہتے ’’خم یاہو‘‘۔ بچے کی غلطی کے لیے کہتے ’’ونا ہولم ہاہو‘‘۔ پتھر، سخت ہوا، سخت بارش اور دیگر خراب چیزوں کے لیے وہ لفظ ’’یاہو‘‘کو استعمال کرتے تھے۔
ہوئی نم بچوں کو صفائی، محنت، دوستی وغیرہ سکھاتے تھے۔ انہیں مضبوط اور صحت مند دیکھنا پسند کرتے تھے۔ چار سال بعد ملک بھر سے وہ کھیلوں کے مقابلوں کے لیے جمع ہوتے تھے۔ کھیل میں جیتنے والوں کو انعام کے طور پر ان کا کوئی دوست ایک گیت سناتا تھا۔ چار سال بعد ایک اجلاس میں خاندانوں کے سربراہ جمع ہو کر صحت اور دیگر باتوں پر غور کرتے تھے۔ جب میں ان کے پاس تھا تو ایک ایسا اجلاس ہوا تھا جس میں میرا مالک شریک ہوا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ تم ایک یاہو کو ہوئی نم بنا کر رکھے ہوئے ہو۔ وہ سب اس بات کے خلاف ہیں۔ وہ یہ مانتے ہیں کہ تم دوسرے یاہوؤں سے بہتر ہو، مگر ہو یاہو۔ انہیں یہ ڈر ہے کہ تم دوسرے یاہوؤں کے لیڈر بن کر فساد کراؤ گے۔ ان کا مشورہ یہ ہے کہ میں تمہیں کہیں دور بھجوادوں۔ اب تمہیں چاہیے کہ تم پانی پر تیرنے والی جس چیز کا ذکر کرتے تھے وہ بناؤ اور یہاں سے چل دو۔ میں سب کچھ سمجھ گیا۔ دوسرے ہوئی نم نے میری مدد کی۔ چھے ہفتوں میں میں نے ایک بجرا بنا لیا۔ اس پر کھالیں منڈھ دیں۔ میں نے کھالوں ہی سے ایک بادبان بنایا۔ کشتی میں دودھ اور مکئی کی روٹی رکھی اور اسے سمندر میں اتار دیا۔
کئی روز میں سفر کرتا رہا۔ میری خواہش تھی کہ میں ہندوستان پہنچوں۔ کوئی جہاز نظر نہ آیا۔ ایک دن جب میں مرنے کے قریب تھا تو ایک پرتگالی جہاز ملا۔ انہوں نے مجھے اٹھا لیا۔ میں نے اپنی کہانی سنائی تو کپتان کو یقین نہیں آیا۔ اس نے کئی سوال پوچھے اور آخر وہ میری باتوں کا یقین کرنے لگا۔ وہ مجھے لسبن لے گیا اور وہاں سے میں انگلستان پہنچ گیا۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top