skip to Main Content

گلاب سا چہرہ

عبدالرشید فاروقی

۔۔۔۔۔۔۔

دادا جان نے کتاب ایک طرف رکھی۔ دائیں ہاتھ سے نیچے آتی عینک کو درست کیا اور اپنے سامنے کھڑے امجد کو دیکھنے لگے۔
”دادا جان…… میرے پانچ سو روپے گم ہو گئے ہیں۔“ امجد کے لہجے سے یوں محسوس ہو رہا تھا، وہ ابھی رو پڑے گا۔
”یہ جملہ تم تیسری بار کہہ چکے ہو۔ بیٹے! اپنے کمرے میں جا کر تلاش کرو، کہیں رکھ کر بھول گئے ہو شاید۔“ دادا جان نے نرم لہجے میں کہا۔ امجد ان کے قریب پلنگ پر آ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا:
”دادا جان! میرا خیال ہے، پانچ سو روپے اسد نے میری جیب سے نکالے ہیں۔ گذشتہ ہفتے بھی اس نے سو روپے میری جیب سے چرا لیے تھے۔“
دادا جان اُٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ یہ دیکھ کر امجد نے حیرت سے پوچھا:
”آپ کہاں جا رہے ہیں؟“
”بیٹے! میرا خیال ہے، تم پیسے کہیں رکھ کر بھول گئے ہو۔ آؤ ہم دونوں مل کر تلاش کرتے ہیں، مل جائیں گے ان شاء اللہ۔“
دادا جان کی بات سن کر امجد جھنجلا اُٹھا، بولا:
”آپ کیسے کہہ سکتے ہیں، میں پانچ سوروپے کہیں رکھ کر بھول گیا ہوں۔“
”میں جانتا ہوں، تمہیں بھولنے کی عادت ہے۔ کل تم کاپی اپنے دوست عارف کو دے آئے تھے اور گھر آ کر شور مچا دیا کہ گم ہو گئی۔ اس سے پہلے خرم کا بیٹ میدان میں بھول آئے تھے۔“ دادا جان نے کہااور چپل پہننے لگے۔
”بے شک مجھے بھولنے کی عادت ہے لیکن آپ یقین کریں۔ پچاس روپے میں کہیں رکھ کر بھولا نہیں ہوں بلکہ اسدنے ان پر ہاتھ صاف کیا ہے۔ میں اُسے جانتا ہوں، وہ ایسا ہی ہے۔“
امجد کے پراعتماد لہجے کو دیکھ کر دادا جان بھی سوچنے لگے۔ ممکن ہے، اس بار پھر اسد نے امجد کے پیسے نکال لیے ہوں اور ویسے بھی وہ کافی دیر سے غائب ہے۔ داد جان کو کچھ سوچتے پا کر امجد نے کہا:
”پیسے ضرور اسد نے ہی لیے ہیں، آپ اس سے بات تو کریں۔“
”میں اُس سے بات نہیں کر سکتا۔“ دادا جان نے جلدی سے کہا۔
”کیوں ……؟“ امجد کی یہ کیوں کافی طویل تھی۔
”اس لیے کہ وہ کافی دیر سے غائب ہے۔ اُسے تمہاری امی نے سبزی لینے بازار بھیجا تھا، ابھی تک واپس نہیں آیا۔“ وہ مسکرائے۔
”جب تک پانچ سو روپے ختم نہیں ہو جاتے، وہ واپس کیسے آ سکتا ہے۔ چور کہیں کا……“ امجد نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔
”پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، تم ایک بار پھر اپنے کمرے میں جا کر پیسے تلاش کرو۔ میرا دل کہہ رہا ہے، پیسے تمہارے کمرے میں ہی ہیں“
”ٹھیک ہے! میں دیکھ لیتا ہوں، لیکن وہ اسد کا بچہ جیسے ہی آئے، اس سے ضرور پوچھئے گا۔“ امجد نے کہااور وہاں سے چلا گیا۔
اس کے جانے کے تھوڑی دیر بعد ہی اسد سبزی کا تھیلا تھامے گھر میں داخل ہوا تو دادا جان نے اُسے دیکھتے ہی کہا:
”بیٹے! اتنی دیر لگا دی تم نے؟“
”دادا جی! بازار میں بہت رش تھا اور پھر ایک بات بھی ہو گئی تھی۔“ اسد نے کہا۔
”کون سی بات ہو گئی تھی!“وہ اپنے کمرے کے دروازے پر آگئے تھے۔ گھر کا بیرونی دروازہ اُن کے کمرے کے عین سامنے تھا۔
”جی، میں گھر سے سبزی لینے نکلا تو دیکھا۔ دروازے سے کچھ فاصلے پر مڑا تڑا پانچ سو روپے کا نوٹ پڑا ہے،میں نے اُٹھا لیا۔ پہلے تو میرے جی میں آیا کہ خرچ کر لوں مگر پھر خیال آیا کہ جس کا یہ گم ہوا ہے، جانے اُسے اِس کی کتنی ضرورت ہو گی۔ دادا جی یہ بات سوچ کر میں نے نوٹ ہاتھ میں لے کر اس کے مالک کو بہت تلاش کیا لیکن مجھے مایوسی ہوئی۔ میں نوٹ کے مالک کو تلاش نہ کر سکا۔ ایک تو بازار میں کافی رش تھا دوسرے اس وجہ سے بھی دیر ہو گئی……“ اسد نے اپنی بات مکمل کی اور دادا جی کو دیکھنے لگا۔
”دیکھو، کہیں تم جھوٹ تو نہیں بول رہے ہو؟“ دادا جان نے چبھتی نگاہوں سے اُسے گھورا۔
”دادا جی! ایک ہفتہ پہلے جب میں نے امجد کے پیسے چوری کیے تھے تو آپ نے مجھے سمجھایا تھا، چوری کرنا گناہ ہے۔ اس کی بہت سخت سزا ملے گی۔ دادا جی! آپ نے مجھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ واقعہ بھی سنایا تھا، جب اُن کے پاس ایک عورت لائی گئی تھی۔اُس نے چوری کی تھی۔ وہ عورت اعلیٰ خاندان کی تھی مگر آپ نے اس جرم کی سزا کے طور پر اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیاتھا اور یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی چوری کرتی تو میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔ پس دادا جی، میں نے اسی دن سے ایسے کاموں سے توبہ کر لی تھی۔“ اسد چپ ہوا تو دادا جان نے اُٹھ کر اُسے گلے لگا لیا اور کہنے لگے:
”بیٹے!مجھے تم پر بھروسہ ہے، اچھے لوگ وہی ہیں جو اچھی باتوں کو یاد رکھتے ہیں،اُن پر عمل کرتے ہیں ……“
”دادا جی! میری امی مرتے وقت مجھے آپ کے حوالے کر گئی تھیں۔ میں نے اُسی دن سے آپ کو اپنا دادا جان مان لیا تھا۔ میں آپ سے اتنی ہی محبت کرتا ہوں جتنی کہ امجد“یہ کہتے وقت اسد کی آنکھیں بھر آئیں، پھر بولا:
”یہ پانچ سو روپے آپ رکھ لیں۔ شام کو نماز پڑھنے چلیں گے تو مسجد کے گلے میں ڈال دیجئے گا۔“ اُس نے نوٹ دادا جان کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ عین اسی لمحے امجد وہاں آ گیا۔ اُس نے اسد کو نوٹ پکڑاتے دیکھ لیا تھا۔وہ چیخ اُٹھا:
”دیکھا دادا جی، میں نہ کہتا تھا، نوٹ اسد نے ہی چرایا ہے، یہ تو ہے ہی پکا چور۔ آپ اِسے ابھی اور اِسی وقت نوکری سے نکال دیں۔ ایک چور کے لیے ہمارے گھر میں جگہ نہیں ہونی چاہیے۔“
”خبردار! اب منہ سے مزید کوئی لفظ نہ نکالنا، تم نے اسد کو بالکل غلط سمجھا ہے۔“ دادا جی نے سخت لہجے میں کہا۔
”دادا جان! یہ نوٹ میرا ہی ہے اور میں نے خود دیکھاہے، اِس نے آپ کو ابھی ابھی پکڑایاہے۔ کیا آپ ایک چور کی حمایت کر رہے ہیں؟“
”اگر تم بولنا بند کرو تو میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔“ وہ بولے۔
”کہیے، میں سن رہا ہوں۔“ امجد نے بُرا سا منھ بناتے ہوئے کہا۔
انہوں نے اُسے ساری بات بتائی تو اس نے سر جھکا لیا، بولا:
”دادا جان! میں شرمندہ ہوں، میں نے اس پر بلاوجہ ہی شک کیا۔ اب مجھے یاد آ رہا ہے، میں نے گھر آتے وقت نوٹ جیب میں ڈالا تھا جو شاید جلدی میں باہر گر گیا تھا۔“
”اگر اسد تمہارا نوٹ نہ اُٹھاتا تو کسی اور کے ہاتھ لگ جانا تھا۔“ دادا جان مسکرائے۔
”جی بالکل……“ امجد نے جلدی سے کہا۔
”اوہ…… امجد! پانچ سو روپے میں سے اب اسد کا کتنا حصہ نکالو گے؟“دادا جان کے لبوں پر مسکراہٹ تھی۔
”آدھا…… میں دو سو پچاس روپے اُسے دیتا ہوں۔ وہ ساری محبت اور توجہ بھی دوں گا جس سے میں نے اِسے آج تک محروم رکھا ہوا تھا، یہ اب ملازم نہیں، میرا چھوٹا بھائی ہے۔“ امجد نے کہا۔ اُسے حقیقی خوشی کا احساس ہورہا تھا۔پھر اُس نے پاس کھڑے اسد کو دیکھا…… اُس کا چہرہ گلاب سا ہو رہا تھا۔
دادا جان محبت سے امجد کو دیکھ رہے تھے……

OOO

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top