skip to Main Content

گلاب کی کہانی

احمد عدنان طارق

۔۔۔۔۔۔۔۔

نامی وہ بونا تھاجس کے ہاتھ اتفاقاً ایک جادو کا منتر لگ گیاتھایہ بہت ہی حیر ت انگیز منتر تھا ۔ جوکئی سال پہلے سب کی نظروں سے اوجھل ہوگیاتھا۔یہ منتر جادوگرنیوں کی ساتھی سیاہ بلیوں کے پنجے بنانے کے لیے تھا ۔جادوگرنیوں کے لئے اب یہ منتر ممنوع تھا کہ ا س سے وہ سیاہ بلیوں کو پنجے اوڑھادیں۔ کیونکہ یہ بلیاں ویسے ہی بہت موٹی تازی اور تگڑی تھیںاورانہیں اتنے تیز پنجوں کی ضرورت نہیں تھی ۔لہذٰا یہ بہت سال پہلے پرستان میں قانون بنادیاگیاتھا کہ کوئی سیاہ بلی جوجادو میں کسی جادوگرنی کاہاتھ بٹاتی ہے اپنے پاﺅں میں یہ تیزناخنوں والاپنجہ نہیں پہن سکتی ۔یہ منتر جس سے بلیوں کے پنجے بن سکتے تھے کوجنگل میں خاصی کھدائی کرکے د فنا دیاگیاتھا ۔نامی ایک دن اتفاقاً کسی کام سے جنگل میں کھدائی کررہاتھا تواتفاقاً یہ منتر اس کے ہاتھ لگ گیا ۔اس نے ڈبہ میں جس میں منتر بند تھا کے اوپر لپٹی ہوئی تاریں کھولیں اور پھر ڈبہ جو اسے کھدائی کے دوران ملاتھا کوکھولاتواس میں سے اسے بلی کے دوگلابی پنجے ملے۔ نامی کو فوراً معلوم ہوگیا کہ یہی وہ جادو کے پنجے ہیں جن کی مدد سے منتر کام کرے گا اور وہ جتنے چاہے گا پنجے بناکر بیچ سکے گا۔اب قانون کے مطابق اسے یہ ڈبہ فوراً پرستان کے بادشاہ کی خدمت میں پیش کرناچاہیے تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا ۔وہ بخوبی جانتاتھا کہ وہ جادوگرنیوں کویہ پنجے بیچ کر خاصاروپیہ کماسکتاہے ۔ لہذٰا وہ ڈبہ گھر لے گیا او رمنتر پڑھنے کی مشق کرنے لگا۔بہت جلد اسے نے بیس پنجے تیار کر لئے جو بہت نوکیلے اور تیز تھے ۔اس نے انہیں ایک ڈبے میں ترتیب سے رکھ لیا اور رات کو جادوگرنیوں کے گھر وں میں انہیں بیچنے نکل پڑا۔جواپنی سیا ہ بلیوں کے پیروں میں پہننے والے گلابی پنجے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ انہیں معلوم تھا کہ ان کی بلیاں یہ پہن کر آسانی سے چوہوں کاشکار کرسکیں گی۔نامی کے بنائے ہوئے تمام پنجے رات ہی کو بک گئے۔اگلے دن اس نے بیس اور پنجے بنائے اور وہ بھی بیچ لئے ۔اﷲ ہی جانتاہے کہ اس کامنصوبہ اورکتنے پنجے بنانے اور بیچنے کا تھا اگردرمیان میں یہ حادثہ رونما نہ ہو جاتا۔ایک جادوگرنی کی سیاہ بلی جس نے اپنے نوکیلے گلابی پنچے پاﺅں میں پہن رکھے تھے نے بازار جاتے ہوئے ایک پری زاد کو مارا۔پری زاد تکلیف میں سیدھا پرستان کے بادشاہ کے پاس شکایت کرنے چلاگیااور اسے اپنے بازو پر بلی کے پنجے سے بڑی خراشیں دکھائیں ۔اس نے بادشاہ کے دربار میں دہائی دی کہ بادشاہ سلامت جادوگرنی کی بلیوں نے دوبارہ پیروں میں پنجے اوڑھ لیے ہیں ۔ضرور کسی نے دفن کیا ہوامنتر کھود نکالا ہے اور اب جادوگرنیاں پنجے اوڑھا کر اپنے بلیوں کو دوبارہ خونخوار بنارہی ہیں۔بادشاہ سلامت ہمیں کچھ کرناچاہیے۔بادشاہ سلامت نے فوراً حکم دیا کہ فوراً بری فوج کو تیار کیاجائے ۔بحری فوج کوبھی بلوایا جائے اور فضائیہ کوبھی طلب کیاجائے ۔میں کل صبح ہونے سے پہلے پرستان کے اس مجرم کو ڈھونڈنا چاہتاہوں جس کے پاس یہ منتر ہے اور اس نے انتہائی دیدہ دلیری سے پرستان کاقانون توڑاہے ۔فوراً ہی بادشاہ کی بری فوج جوخرگوشوں پر مشتمل تھی مارچ کرتی ہوئی حاضر ہوگئی ۔بحری فوج جوپرستان کے مینڈکوں پرمشتمل تھی انہوں نے بھی دربار میں حاضری دے دی۔پرستان کی فضائیہ جوپتنگوں اور شہد کی مکھیوں سے بنائی گئی تھی وہ بھی دربار میں بھنبھنارہی تھیں ۔اب بادشاہ جنگ کے لئے تیار تھا۔ادھر نامی کوبھی علم ہوگیاتھا کہ یہ تیاری کس کے خلاف ہورہی ہے ۔اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے اور ڈر سے اس کی جان نکلی جارہی تھی ۔اسے معلوم تھا کہ اسے کڑی سے کڑی سزا ملنے والی ہے ۔کیونکہ منترتواُس کے پاس تھا۔وہ سوچ رہاتھا کہ اسے کیا کرناچاہیے۔آخر سوچ سوچ کر اس نے فرار ہونے کافیصلہ کیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اگر وہ پنجے کہیں پھینک بھی دیتاہے توپھر بھی اس کی گاہک جادوگرنیوں میں سے کسی نے یہ راز افشا کرہی دینا تھا۔لہذٰا وہ سوچ رہاتھا کہ اس وقت اس کافرار ہونے کافیصلہ ہی صحیح ہے ۔لہذٰا اس نے جلدی جلدی اپناسامان باندھااوروہاں سے بھاگ نکلا۔بھاگتا بھاگتا وہ پرستان کی حد بھی پھلانگ گیا۔وہ پھر بھی بھاگتا رہا ۔جب تک کہ وہ ایک گھاٹی میں چھپ نہیں گیا ۔بچو!یہ گھاٹی جس میں نامی چھپابیٹھاتھا وہ ہمارے تمہارے دنیا یعنی انسانوں کی دنیا تھی ۔اسے شدید گرمی ستارہی تھی اور وہ بہت تھک چکاتھا۔وہ بہت ہی افسردہ تھا اور اسے بڑی شدت سے پرستان میں اپنے گھر کی یاد ستارہی تھی۔اس وقت وہ جہاں چھپابیٹھاتھابالکل اس کے سر کے اوپر گلابی جنگلی گلابوں کے پودے اُگے ہوئے تھے اور ان کی مہک پوری فضاکو مہکائے ہوئے تھی ۔گلاب کے پودے نے نامی سے مخاطب ہو کر پوچھاکہ وہ کیوں رورہاہے؟اوراتنااداس کیوں ہے ؟اس کے پوچھنے پر نامی نے گلابوں کو اپنی داستان سنائی اورمنتر سے متعلقہ گلابی پنجے بھی انہیں دکھائے۔جنہیں دیکھ کر گلابوں کے پودے خوشی سے جھومنے لگے انہوں نے نامی سے کہا ”پیارے نامی !یہی تو وہ پنجے ہیں جن کی انہیں اشدضرورت ہے ہمارے پودوں کے تنے اتنے مضبوط نہیں ہوتے اور خود بخود سیدھا پروان نہیں سکتے لہذٰا انہیں دوسروں پودوں سے لپٹنا یاان کاسہارا لیناپڑتاہے اور اسی لئے زیادہ لمبا نہ ہونے کی وجہ سے ہم سورج کی روشنی سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ لیکن اگر تم ہمےں کچھ پنجے دے دو اور انہیں ہمارے تنوں پر ثبت کردو توہم انہیں سہاروں کی طرح استعمال کرکے اپنی اس الجھن کودورکرسکتے ہیں اور اس طرح ہم لمبے ہوکر باقی جھاڑیوں سے سر نکال کر سورج کی روشنی تک پہنچ سکتے ہیں اور خوشی سے لہراسکتے ہیں ”نامی یہ ساری بات سن کر حیران رہ گیا۔اس نے بڑے غور سے گلاب کے پودے کو دیکھا۔واقعی پودے کی بات درست تھی اور اس کاتنا بہت کمزور تھا۔اور وہ دوسرے پودوں کی طرح بغیر کسی سہارے کے سیدھا پروان نہیں چڑھ سکتاتھا۔نامی ہرکسی کو خوش دیکھنا چاہتاتھا یہ اس کی عادت تھی ۔وہ اگرچہ بہت شرمندہ تھا کہ اس کوچراے ہوئے منتر سے دوبارہ کام لینا پڑرہاہے لیکن پھر بھی وہ ایک دفعہ پھر منتر کی تیاری میں جت گیا۔اس کے بندھے ہاتھوں کے نیچے سے گلابی پنجے نکلنے لگے۔ایک …. دو…. تین…. دس…. بیس…. اب وہ پنجے نامی کے قدموں میں سے ایک ڈھیر کی صورت میں پڑے تھے جنہیں کسی بھی وقت استعمال کیاجاسکتاتھالیکن اس دفعہ یہ جادوگرنیوں کی بلیوں کے استعمال کے لئے نہیں تھے اور نہ ہی نامی نے یہ بیچنے کے لئے کیاتھا۔وہ توانہیں ایک اچھے مقصد کے لیے استعمال کرناچاہتاتھا۔اس نے کچھ تیز اور نوکیلے پنجے اٹھائے اور گلاب کے پودے کے تنے کے پاس چلاگیا اس نے ایک پنجہ تنے سے ثبت کیااور پھر کچھ جادو کے الفاظ بدبدائے تاکہ وہ اسی پودے میں نشوونما پاسکے ۔ایساہی ہوا ۔پنجہ گلاب کے پودے کے تنے میں اس کاحصہ بن گیا ۔پھر اس نے اگلا پنجہ لیا اور دوبارہ پھر پہلاعمل دہرایا وہ پنجہ بھی جلدی سے تنے پر ثبت ہوگیا۔اسی طرح تمام بیس پنجے استعمال ہوگئے اور نامی کوشکر گزار گلاب کے پودوں کے لیے اور پنجے بنانے پڑے ۔ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ تمام گلاب کے پودوں کے تنوں پر جادو کے پنجے صحیح کام کرنے لگے ۔گلاب کے پودے بہت خوش تھے ۔وہ ان پنجوں کو اٹکنے کے لئے استعمال کرسکتے تھے تاکہ ان کی کمزور تنے دوسروں پودوں پر نہ گریں اورسیدھا نشوونما پائیں اور پھر اپنے گلاب کے چہروںکوچمکتی سنہری سورج کی دھوپ میں مسکرانے دیں۔گلاب کے پودوں نے نامی کاشکریہ ادا کیا ۔اور کہنے لگے نامی! تم بہت ذہین ہو تم نے ہمارابہت ساتھ دیا ہے۔اب ہماری دنیا میں ہی رہو اور ہمارے قبیلے کے دوسرے پودوں کی مدد کرو “نامی پھر کبھی واپس پرستان نہیں گیا ۔وہ آج بھی ہماری دنیا میں ہی ہے اور گلاب کے پودوں کی تنوں میں گلابی پنجے ثبت کرتارہتاہے ۔کیا بچو آپ نے انہیں غور سے دیکھا ہے ؟وہ تمام تنے پر تمہیں لگے نظرآئیں گے ۔نوکیلے اور مضبوط بالکل بلی کے پنجوں کی طرح۔اب ایساکرو کہ انتہائی احتیاط سے انہیں تنے سے اتارو اور کوئی خواہش کرو۔مجھے امید ہے کہ اب بھی ان میں اتناجادو باقی ہوگا کہ تمہاری وہ خواہش پوری ہوجائے ۔ امید کادامن توکبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔رہا نامی کامعاملہ تودیکھ لو اس کے منترچرانے کی وجہ سے آج بھی وہ اپنے گھر یادیس نہیں جاسکتا۔چوری کی سزا تواتنی بڑی ہی ہونی چاہیے ہے نا!!!
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top