گوشت خور اور زہریلے پودے
حماد احمد
۔۔۔۔۔۔
عموما ً ہم ایسے پودوں کو جانتے ہیں،جنھیں ہم ذاتی محنت سے اگا بھی سکتے ہیں اور کھا بھی سکتے ہیں لیکن کیا آپ نے کبھی ان پودوںکے متعلق سنا جو بذات خود جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کو کھا کر زندہ رہتے ہیں؟ جی ہاں، دنیا بھر میں گوشت خور پودوں کی تقریباً سات سو سے زیادہ اقسام ہیں۔ یہ گوشت خور پودے (انٹارکٹیکا کے سوا) ہر براعظم یعنی تقریبا ًساری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔
گوشت خور پودے زیادہ تر ان جگہوں پر پائے جاتے ہیں جہاں کی مٹی میں غذائیت اور معدنیات کی کمی ہوتی ہے۔ لہٰذا، وہ اپنی جڑوں کی مدد سے ضروری معدنیات حاصل نہیں کرپاتے۔ چنانچہ ان پودوں کو اپنی غذائی ضروریات کی تکمیل کا متبادل راستہ تلاش کرنا پڑتا ہے۔اس مقصد کے لیے یہ پودے مکھیوں، مچھروں، کیڑے مکوڑوں جیسی چھوٹی مخلوقات کو پکڑنے اور ہضم کرنے کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ جانوروں پر مبنی غذا ان پودوں کو نائٹروجن، کیلشیم اور فاسفیٹ جیسے اہم اجزا فراہم کرتی ہے۔ گوشت خور پودوں کی زیادہ تر اقسام میں چھوٹے گھاس والے پودے شامل ہیں جو اونچائی میں 12 انچ یعنی تقریباً ایک فٹ تک پہنچ سکتے ہیں۔ کچھ اقسام کے پودے جھاڑیوں کی بیلوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ وہ 3 فٹ کی اونچائی تک بڑھ سکتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم چند ایسے گوشت خور پودوں کا تذکرہ کریں گے جو دوسرے جانداروں کا شکار کر کے اپنی بیشتر غذائیت حاصل کرتے ہیں۔
Venus Fly Trap:
وینس فلائی ٹریپ سب سے زیادہ مشہور گوشت خور پودا ہے۔ کسی کھلی کتاب کی مانند اس کے پتے کے درمیانی حصہ میں خم ہوتا ہے جس کی بدولت ہر پتا با آسانی دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ پتا کے کناروں پر نوک دار کیل نما بال ہوتے ہیں جو کسی شکنجہ کی طرح شکار کو قید کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی مکھی، چیونٹی، مکڑی یا کوئی دوسرا کیڑا پتے کے اوپر آتا ہے تو پتہ ایک سیکنڈ کے اندر اندر ہی خود کو بند کر لیتا ہے اور اس کے کناروں پر لگے نوک دار بال خود کو ایک دوسرے کے اندر اس طرح مضبوطی سے بند کر لیتے ہیں جیسے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر بند کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ شکار کے لیے اپنی جان چھڑا کے باہر نکلنا ناممکن ہو جاتا ہے اور وہ پودے کی غذا بن جاتا ہے۔
Pitcher plant:
گوشت خور پودوں کی ایک اور مشہور قسم ’پچر پلانٹ‘ ہے۔ اس پودے کے اوپر لگے پتے کی شکل و صورت کسی کھائی، چمنی یا گلدان کی طرح گہرائی میں ہوتی ہے۔ پتوں کی گہرائی یعنی اندرونی حصہ میں پانی اور ہاضمہ دار تیزاب بھرا ہوتا ہے۔ جیسے ہی کوئی کیڑا یا شکار اس پتہ میں داخل ہوتا ہے تو چمنی جیسی شکل و صورت کے پھسلنے والے پتے کی گہرائی میں ڈوب کر موت کے منہ میں داخل ہو جاتا ہے اور دوبارہ باہر نکلنے کے قابل نہیں رہ جاتا۔ یوں وہ آہستہ آہستہ پودے کی غذا بنتا چلا جاتا ہے۔ پچر پلانٹس مختلف جسامت کے حامل ہوتے ہیں۔ سب سے بڑے جسامت کے یہ پودے چوہے اور مینڈک تک کو اپنا شکار بنا سکتے ہیں۔
Sundews :
ایک اور مشہور قسم ’سن ڈیوز‘ہے۔یہ پودے اپنے پتوں پر ایک خاص قسم کی گوند کا استعمال کرتے ہیں جو ان کے غدود میں چھپی ہوتی ہے۔ جیسے ہی کیڑے مکوڑے ان پتوں پر بیٹھتے ہیں، تو وہ اس گوند پر چپک کے رہ جاتے ہیں اور اڑ نے یا بھاگنے کے قابل نہیں رہتے۔ یوں بتدریج پودے کی غذا بن جاتے ہیں۔ یہ پودے طویل العمر ہوتے ہیں اور جنگل میں پچاس برس تک زندہ رہ سکتے ہیں۔
یہاں پر ایک اہم سوال یہ سامنے آتا ہے کہ کیا گوشت خور پودوں کی ایسی اقسام بھی ہیں جو انسان کو اپنی خوراک بنا سکیں؟ اس بات کا مختصر ترین جواب یہ ہے کہ گوشت خور پودے کوشش کرنے پر بھی کسی زندہ انسان یا کسی بڑے زندہ جانور کو نہیں کھا سکتے۔مثال کے طور پر پچر پلانٹ اگر کوشش بھی کرے تو آپ کی انگلی کی نوک کو توڑنے میں بھی کئی ہفتوں کا وقت لگا دےگا۔ لیکن چونکہ پودے کے مقابلے میں آپ بھی زندہ اور صحت مند ہوں گے، توآپ کا جسم اس پودے سے کہیں زیادہ تیزی سے اپنے آپ کو پہنچنے والے زخم کو ٹھیک کر رہا ہوگا، جتنی تیزی سے یہ پودا اسے نقصان پہنچا رہا ہوگا۔اس کے برعکس کیڑے مکوڑے چونکہ جسامت میں انتہائی چھوٹے ہوتے ہیں اور ان میں قوت مدافعت کم ہوتی ہے، لہٰذا وہ جلد ایسے پودوں کی گرفت میں بھی آجاتے ہیں۔
اگرچہ یہ بات محض افواہ ہی ہے کہ درخت کسی زندہ انسان کو اپنی خوراک کا ذریعہ بناسکتے ہیں لیکن یہ بات بہر حال حقیقت ہے کہ دنیا میں ایسے پودے اور درخت ضرور پائے جاتے ہیں، جن میں موجود زہر سے انسان مختلف بیماریوں کا شکار ہو سکتا ہے، یہاں تک کہ موت کے منہ میں بھی داخل ہو سکتا ہے۔مثال کے طور پر ’بٹر کپ‘ نامی پودا جو کہ گندے پانی سے افزائش پاتا ہے۔اگر بچے کھیلنے کودنے کے دوران غلطی سے اس کو چھو لیں تو ان کی جلد پر سرخ اثرات فوری طور پر اس کےزہر کی نشاندہی کر دیتے ہیں۔ اور اگر کوئی انسان غلطی سے بھی اسے چکھ لے تو تکلیف دہ موت کے منہ میں جا سکتا ہے۔اسی طرح ‘ جائنٹ ہاگویڈ’ نامی پودا انسان کے لیے بھیانک خواب کی مانند ثابت ہوتا ہے۔ اس پودے سے اگر انسانی جلد محض چھو بھی جائے تو یہ ہولناک تباہی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر یہ آنکھوں کو چھو جائے تو انسان کو مستقل طور پر اندھا کر سکتا ہے۔ ایک اور پودا ’ہمالینبلیک بیری‘ ہے، جس کے نوکیلے کانٹے شارک کے دانتوں کی مانند بڑھتے رہتے ہیں اور انتہائی تیز ہوتے ہیں۔ ان سے ٹکرا کی صورت میں آنکھوں کی سنگین چوٹ، رگوں کی خرابی یا پھر خون کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آسٹریلوی درخت جس کو دنیا ’جِمپی جِمپی‘ یا خودکشی والے درخت کے نام سے جانتی ہے، دنیا کے خطرناک ترین درختوں میں سے ایک ہے۔ اس درخت کے باعث پہنچنے و الی تکلیف ایسے ہوتی ہے جیسے جسم پر کسی نے گرما گرم تیزاب پھینک دیا ہو۔ اس تکلیف کا شکار انسان بعض اوقات خودکشی کرنے تک کی کوشش کرتا ہے۔نیوزیلینڈ میں پایا جانے والا ’نیٹل‘ درخت اس حد تک خطرناک ہے کہ اگر کوئی بد قسمت انسان اس کے پاس سے گزر بھی جائے تو شدید بیماری کا شکار ہونے کے علاوہ موت کا شکار بھی بن سکتا ہے۔ اس درخت سے خارج ہونے والے زہریلے اثرات اعصابی نظام کو شدید متاثر کرتے ہیں۔
ایسے ہی کسی زہریلے پودے کی مثال سے ایک اللہ والے نے کیا خوب سبق دیا:
ایک مرتبہ میں جنوبی افریقہ میں کیپ ٹاؤن کے علاقے میں ریل گاڑی پر سفر کررہا تھا۔راستے میں ایک جگہ پہاڑی علاقے میں گاڑی رک گئی۔ ہم نماز کے لیے نیچے اترے۔وہاں میں نے ایک انتہائی خوبصورت پتوں والا پودا دیکھا، وہ پودا حسین و جمیل معلوم ہورہا تھا۔ بے اختیار دل چاہا کہ اس کے پتے توڑوں۔میں نے جیسے ہی پتے کو توڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا میرے رہنما ایک دم زور سے چیخ پڑے کہ حضرت !اسے ہاتھ مت لگائیے گا۔میں نے پوچھا،کیوں؟انھوں نے بتایا کہ یہ بہت زہریلی جھاڑی ہے۔ اس کے پتے دیکھنے میں تو خوش نما ہیں لیکن یہ اتنا زہریلا ہے کہ اسے چھونے سے انسان کے جسم میں زہر چڑھ جاتا ہے اور جس طرح بچھو کے ڈسنے سے زہر کی لہریں اٹھتی ہیں اس طرح اسے چھونے سے بھی جسم میں زہر کی لہریں اٹھتی ہیں۔میں نے کہااللہ کا شکرہے کہ میں نے ہاتھ نہیں لگایا اور پہلے سے معلوم ہوگیا۔ یہ تو بڑی خطرناک چیز ہے۔ پھر میں نے ان سے کہایہ تو بڑا خطرناک معاملہ ہے آپ نے مجھے تو بتادیا جس کی وجہ سے میں تو بچ گیا لیکن اگر کوئی انجان آدمی جاکر اسے ہاتھ لگائے تو وہ تو مصیبت اور تکلیف میں مبتلا ہوجائے گا۔اس پر انھوں نے اس سے بھی زیادہ عجیب بات بتائی۔ وہ یہ کہ اللہ تعالی کی قدرت کا عجیب کرشمہ ہے کہ جہاں کہیں یہ زہریلی جھاڑی ہوتی ہے اسی کی جڑ میں آس پاس لازما ایک پودا اورہوتا ہے۔ لہٰذا اگر کسی شخص کا ہاتھ اس زہریلے پودے پر لگ جائے تو وہ فورا اس دوسرے پودے کے پتے کو ہاتھ لگادے تو اسی وقت اس کا زہر ختم ہوجائے گا۔ چنانچہ انھوں نے اس کی جڑ میں وہ دوسرا پودا بھی دکھادیا جو اس کا تریاق ہے۔بس یہی مثال ہمارے گناہوں اور توبہ کی ہے جہاں کہیں گناہ کا زہر چڑھ جائے تو فورا توبہ و استغفار کا تریاق استعمال کرنا چاہیے۔
٭٭٭