غلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عافیہ رحمت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کردار:
بیگم صاحبہ : انیتا بیگم
انیتا بیگم کے شوہر: راجہ صاحب
باس : بیگ صاحب
ماسی : سکینہ
راجہ صاحب کے بچے اور آفس کے افراد، انیتا بیگم کی دوستیں
پہلا منظر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے سے زور زور سے ہنسنے کی آوازیں بلند ہورہی ہیں۔
’’سکینہ۔۔۔ او سکینہ‘‘ انیتا بیگم اپنی چند دوستوں کے ساتھ بیٹھی تھیں۔
’’جی۔۔۔ جی میڈم، سکینہ دوڑتی آئی۔ کیونکہ اسے اندازہ تھا کہ دوسری آواز لگاتے ہی اس کے القابات ساتھ ہی شروع ہوجاتے تھے۔
’’کہاں تھیں۔۔۔!!‘‘ انیتا بیگم نے سختی سے پوچھا۔
’’جی وہ باتھ روم دھو رہی تھی‘‘ اس نے گیلے ہاتھ دوپٹے سے پونچھتے ہوئے کہا۔
انیتا بیگم نے کمال بے نیازی سے کہا: ’’کچن سے ناشتے کا سامان، نمکو، چپس اور بسکٹ وغیرہ لے آؤ۔ اور ہاں ساتھ میں گرم گرم چائے بھی لانا۔
ابھی وہ پلٹی ہی تھی کہ پھر انیتا بیگم نے آوا زلگائی۔
’’جی۔۔۔ جی۔۔۔ کچھ کہا۔ آپ نے ‘‘ وہ فوراً پلٹی۔ مگر اس کی شامت آچکی تھی۔
’’بس بھاگنے کی جلدی ہوتی ہے کہیں اور کام نہ بتادوں۔۔۔ ہیں ناں‘‘ انیتا بیگم گھور رہی تھیں۔ جبکہ انکی دوستیں مسلسل باتوں میں مگن تھیں۔
’’جی۔۔۔ نہیں تو‘‘ سکینہ منمنائی۔
’’اچھا اچھا جاؤ فرج میں پھل رکھے ہیں وہ بھی کاٹ لینا، سمجھیں‘‘ انیتا بیگم نے حکم دیا۔
’’جی اچھا۔۔۔ ابھی لائی‘‘ سکینہ خوش دلی سے بولی۔
کچن میں جاکر اس کے ہاتھ برق رفتاری سے چل رہے تھے کہیں حکم کی بجا آوری میں دیر نہ ہوجائے۔
وہ سلیقے سے تمام ہی چیزیں لے آئی تھی۔ اور خاموشی سے رکھ کر واپس چلی گئی تھی۔ دل ہی دل میں خوش تھی کہ شکر ہے کچھ کہا نہیں۔ ابھی وہ دوبارہ ذہن میں کاموں کو تریب دے رہی تھی، دوپہر میں مرغ کا سالن اور رات میں کوفتے بنانے تھے۔ سب چیزیں مکمل ہی تھیں۔ ٹوکرے سے پیاز نکال کر وہ پیاز چھیلنے لگتی ہے۔
انیتا بیگم کی آواز اس کے کانوں میں پڑتی ہے۔
انیتا بیگم: ’’ذرا برتن تو لے جاؤ۔‘‘
سکینہ جلدی سے آواز پر لپکتی ہے۔
’’ہاں اور سنو۔۔۔! برتن دھوکر باہر نہ رکھنا فوراً خشک کر کے اندر رکھ دینا مکھیاں بہت ہورہی ہیں۔‘‘ انیتا بیگم نے کہا۔
’’جی بہت اچھا میڈم‘‘ سکینہ نے تابعداری سے کہا۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنی دوستوں کے ساتھ شاپنگ کا پروگرام ترتیب دے چکیں تھیں۔
انیتا بیگم: سکینہ! منا اٹھے تو منہ ہاتھ دھلا کر صاف ستھرے کپڑے پہنا دینا۔ اور ہاں ڈائنگ ٹیبل پر چیزیں نہ چھیڑے دھیان رکھنا۔
’’جی اچھا۔۔۔‘‘ سکینہ نے گردن ہلائی۔ اور دل ہی دل میں سوچنے لگی کتنا ہی کیوں نہ کام کرلو خوش تو کبھی ہوتی ہی نہیں ہیں۔
پردہ گرتا ہے
*۔۔۔*۔۔۔*
دوسرا منظر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انیتا بیگم تیاریوں میں مصروف ہیں ہلکے رنگ کی لپ اسٹک اور گہرے آئی شیڈز لگاتے ہوئے ان کی تیاری آخری مراحل میں تھی۔
’’چلو بھئی بچو تیار ہوجاؤ۔ بس اب آپ کے ابو آتے ہی ہونگے‘‘ انیتا بیگم نے کہا۔
’’ٹنگ۔۔۔ ٹونگ۔۔۔ ٹنگ۔۔۔ ٹونگ‘‘ بیل بجی۔
اوہ آپ سب تو تیار ہیں۔ چلیں ہم بھی تیار ہوجاتے ہیں‘‘
وہ فوراً باتھ روم میں گھس جاتے ہیں۔
’’میں جلد ہی واپس آجاؤں گا۔ آپ لوگ ڈرائیور کے ساتھ آجائیے گا‘‘ راجہ صاحب نے کہا۔
انیتا بیگم مچل اٹھیں: آپکو پتہ ہے ماما نے اتنا بڑا فنکشن رکھا ہے۔ اور اس میں آپ ۔۔۔‘‘
راجہ صاحب غصے سے بولے۔ ’’بس میں نے کہہ دیا ناں۔۔۔!‘‘
انیتا بیگم بڑبڑانے لگتی ہیں۔ انکی تو خوشامدیں کرو۔ منتیں کرو کچھ اثر نہیں ہوتا۔
ہر کام وقت پر کر کے دو اور صلہ یہ ۔۔۔‘‘
پردہ گرجاتا ہے
*۔۔۔*۔۔۔*
تیسرا منظر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راجہ صاحب آفس میں داخل ہوتے ہیں۔ ہر فرد اپنی جگہ بیٹھا ہے وہ سب کو ہاتھ ہلا کر اپنی ٹیبل پر بیٹھ جاتے ہیں۔
میز پر فائلوں کا انبار لگا ہے۔
راجہ صاحب: (خود سے بولتے ہوئے) آج سارا کام کرلوں گا۔۔۔!!
’’ٹرن۔۔۔ ٹرن۔۔۔ ٹرن‘‘ انٹر کام بیل چیخی۔
راجہ صاحب نے لپک کر فون اٹھایا۔ ’’جی سر۔۔۔ ابھی حاضر ہوتا ہوں‘‘اور اگلے ہی لمحے وہ اپنی کرسی چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔
بیگ صاحب: آج دوپہر تک مجھے یہ کام مکمل کر کے دے دیں۔‘‘
’’جی۔۔۔ جی بہتر۔۔۔ سر‘‘ وہ رک رک کو بولے۔
راجہ صاحب : ’’اف میرے مولا یہ کیا ہوگیا۔‘‘ اگلے ہی لمحے ان کے ہاتھ تیزی سے کاغذوں اور فائلوں کے گرد گھومنے لگے۔ اس طرح کے کاموں میں یا تو ترقی ملتی۔۔۔ یاپھر۔۔۔!!‘‘ اس لیے وہ سرخرو ہونے کے چکر میں مگن ہوگئے۔
کام کرتے کرتے وقت گزرنے کا اندازہ ہی نہ ہوا۔ سر پر لگے گھڑیال نے جب ایک بجنے کا اشارہ دیا تو انہوں نے سر اٹھایا۔ کام تقریباً مکمل ہی تھا۔ اب وہ اسے بہتر کر کے پیش کرنا چاہ رہے تھے۔
کاغذات فائل میں ترتیب دے کر وہ سیدھے کھڑے ہوئے اور بیگ صاحب کے کمرے کی طرف چل دیئے۔
’’ٹھک ٹھک ٹھک۔۔۔‘‘ راجہ صاحب نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
’’جی آجائیے۔۔۔‘‘ بیگ صاحب نے شان بے نیازی سے کہا۔
راجہ صاحب داخل ہوتے اور مودب انداز میں فائل ان کے سامنے رکھ دی۔
بہت دیر ورق گردانی کرنے کے بعد انہوں نے فائل دوبارہ ان کے ہاتھ میں تھما دی۔ فائل دیکھتے ہوئے ان کے ہاتھ میں دبا قلم اکثر صفحات کو چھوجاتا۔ راجہ صاحب کی محنت اکارت ہوتی محسوس ہورہی تھی۔ انہوں نے بے چینی سے فائل تھامی اور بغور دیکھنے لگے۔ ان کے چہرے پر ندامت کے اثرات خوشی کی جگہ لے رہے تھے۔
بیگ صاحب: جلد از جلد ان غلطیوں کو دور کر کے لائیے۔ اب آپکو اس عہدے پر دس سال کا عرصہ ہوگیا ہے۔ خشک لہجے میں۔
’’جی بہت بہتر سر‘‘ راجہ صاحب تیزی سے پلٹے۔
’’اور ہاں وقت کا خیال رکھیے گا۔ تین بجے میری فلائٹ ہے‘‘ بیگ صاحب کا چہرہ بے تاثر تھا۔
’’جی اچھا۔۔۔‘‘ راجہ صاحب لجاجت سے بولے۔
پردہ گرتا ہے
*۔۔۔*۔۔۔*
دنیا میں ہر فرد کسی نہ کسی حیثیت سے غلام ہے اور یہ غلامی اسے چا رونا چار کرنی ہی پڑتی ہے۔ دنیاوی حاکم کبھی خوش نہیں ہوتے چاہے ان کی غلامی میں آپ گھل جائیں۔ مگر سب سے بہترین غلام اپنے مالک کا غلام ہے۔ جس کا سر صرف ایک معبود کے آگے جھکتا ہے اور جو اس در کی غلامی کا مزہ چکھ لیتا ہے پھر اس کی تمام طاقتیں یہیں کی ہوجاتی ہیں اور اس کی روح دنیاوی غلامیوں سے نجات پاجاتی ہے۔
کبھی آپ نے بھی سوچا آپ کس کے غلام ہیں۔۔۔؟؟ کس کے حکم کے لئے آپ دل کے دروازے کھلا کرتے ہیں۔۔۔؟؟ اور کس کے حکم کو پورا کرنے میں اپنے آپ کو تھکا دیتے ہیں۔۔۔؟؟
*۔۔۔*۔۔۔*