skip to Main Content

گھوڑے کا روزنامچہ

جاوید بسام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تاریخ:۳ اگست ۴۸۹۱ئ

مقام:ہائی کورٹ کی بغلی گلی

رات گہری ہو رہی ہے۔لیمپ پوسٹ کی مدھم روشنی گلی میں پھےلی ہوئی ہے۔ہائی کورٹ کی اونچی عمارت اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہے،جےسے ماضی کی یادوں میں گم ہو۔میں اور میرے کئی ساتھی جنگلے کے ساتھ بندھے ہیں۔ہماری گاڑیاں الگ کھڑی ہیں۔ان کے پچھلے حصے زمین پر ٹکے ہیں۔ہمارے آس پاس کوئی نہیں کیونکہ یہ گلی بہت کم استعمال ہوتی ہے۔لیکن دور بڑی سڑک سے گاڑیو ں کی آوازیں آرہی ہیں۔میرے ساتھی خاموش ہیں شاید سو گئے ہیں ،وےسے بھی بہت کم بات کرتے ہیں۔کچھ تو بالکل نہیں بولتے ،بہت سے تو ہنہنانا تک بھول گئے ہیں۔دور شمال کی طرف کئی عمارتیں ہیں جن کی کھڑکیاں روشن نظر آرہی ہیں۔میں ہر روز وہاں جاتا ہوں۔

آج بھی صبح سویرے میرا مالک کھانستا ہوا آ پہنچا۔وہ بگھی میں بچوں کو اسکول پہنچاتا ہے۔وہ غصے کا تیز ہے اور بار بار اپنے سر کے پگڑ کوکھول کر باندھتا ہے۔کیونکہ اسے صحیح سے باندھنا نہیں آتا۔اس نے مجھے پیار سے تھپتھپایا ،وہ صبح ایسا ہی کرتا ہے۔اور باقی دن غصہ بھی مجھ پر ہی اتارتا ہے۔دراصل وہ سمجھتا ہے کہ گھوڑے کولات اور آدمی کو بات کافی ہوتی ہے۔ایسا نہیں ہے اتنا عرصہ اسکے ساتھ گزار کر میں اسکا ہر اشارہ بخوبی سمجھنے لگا ہوں۔خیر اس نے چارہ اور پانی آگے رکھا۔دوسرے کوچوان بھی اپنی بگھیاں تیار کر رہے تھے۔پھر اس نے مجھے گاڑی میں جوتا،اور اللہ کا نام لے کر چل دیا ۔ہماری منزل سامنے کے فلیٹ تھے۔

بگھی عمارتوں کے احاطے میں جا کر رکی۔ کئی بچے پہلے سے ہی تیار کھڑے تھے،کچھ جلد ہی چلے آئے اور کچھ کو مالک کو آوازیں دینی پڑیں۔میں نے دیکھا کچھ بچے خوش و خرم ہنستے مسکراتے ہوئے آئے اور کچھ ناراض منہ بسورتے ہوئے۔مجھے ہنستے مسکراتے ،بستہ گلے میں لٹکائے بچے بہت پسند ہیں۔جب سب آگئے تو ہم روانہ ہوئے۔ اسکول زیادہ دور نہیں ہے بس راستے میں دو تین چوراہے پڑتے ہیں۔ہم آدھے گھنٹے میں وہاں جا پہنچے ۔بچے اسکول چلے گئے اور مالک نے بگھی درخت کے نیچے کھڑی کر دی،اور خود چائے پےنے چلا گیا۔اسکول لگا تو کلاسوں سے پڑھانے کی آوازیں آنے لگیں۔میں کان گھما گھما کر یہ آوازیں سن رہا تھا۔یہ میرا روز کا معمول ہے اس طرح کئی باتیں مجھے پتا چل جاتی ہیں۔دس سال سے میرا یہ ہی معمول ہے۔ہر روز بچوں کی طرح میں بھی سبق سنتا ہوں۔اگرچہ میں لکھتا پرھتا نہیں لیکن اچھی باتیں اپنے دماغ میں دہراتا رہتا ہوں۔اس لحاظ سے اس سال میں بھی میٹرک کر لوں گا۔

دوپہر تک وہاں کھڑا آوازیں سنتا رہااور دم اور سر ہلا ہلا کر مکھیا ں اڑاتا رہا۔چھٹی ہوئی تو بچے تھکے ہارے باہر آنے لگے۔میرا مالک پچھلے ایک گھنٹے سے پچھلی سیٹ پر گھوڑے بیچ کر سو رہا تھا۔بچوں کے آوازیں دینے پر وہ جاگا اور ہم واپس روانہ ہوئے۔جونہی بڑی سڑک پر آئے دیکھا سب سگنل بند ہیں،پتا چلا کہ کوئی ”شاہی سواری“ گزرنے والی ہے۔ہم دیر تک انتظار کرتے رہے۔ لوگ پرےشان تھے۔ان کی نظریں سڑک پر لگی تھیں اور چہروں پر الجھن تھی۔پھر ہارنوں اور سیٹیوں کا شور بلند ہوا اورپولیس کی کئی گاڑیاں گئیں،جن کے بعد انتہائی تیزرفتاری سے جہازی سائز کی بڑی بڑی گاڑیاں گزریں۔ لوگوں نے شکر ادا کیالیکن اتنی دیر میں دونوں جانب گاڑیوں، بسوں،ٹرکوں اور موٹر سائیکلوں کاجم غفیر جمع ہو گیا تھا۔

جونہی سگنل کھلا ہر کوئی تیزی سے آگے نکلنے کی کوشش کرنے لگا۔سب ایک دوسرے کے سامنے آگئے اور ٹریفک جام ہو گیا۔جہاں جس کو ذرا سی جگہ نظر آتی وہ آگے بڑھ جاتا۔ٹریفک رینگ رہا تھا۔پولیس اہلکار بھی ناکام ہو گئے۔

میرا مالک غصے میں تھا وہ بار باراپنا پگڑ کھول کر باندھتا۔بچوں کا بھی برا حال تھا ان کے پھول سے چہرے گرمی اور پسےنے سے سرخ ہو رہے تھے،بہت سے تو رونے لگے تھے۔غرض ہر طرف دھوپ،دھول اور زمین کا راج تھا۔لوگ آپس میں بحث کر رہے تھے۔میرے پاﺅں میں دودن پہلے موچ آئی تھی۔اس میں بھی تکلےف شروع ہو گئی تھی۔ایسے میں موٹر سائےکل سوار اپنا رستہ ڈھونڈ نکالتے انہیں کسی قانون کی پروا نہ تھی۔وہ فٹ پاتھ پر بھی چڑھ جاتے۔ یہ مشےنی گھوڑے اس وقت کامیاب تھے۔ گاڑیوں والے منہ دیکھتے رہ جاتے ،اور وہ اپنا رستہ بنا کر ہوا ہو جاتے۔میں انہیں مشینی گھوڑا کہتا ہوں۔ ماضی میں انسان سواری کےلئے گھوڑے استعمال کرتا تھا مگر اب یہ باتیں قصہ پارینہ ہوتی جا رہی ہیں۔خدا خدا کر کے جگہ ملی اور ہم اس ہجوم سے نکلے،اور چلتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچے۔ جہاں والدین بچوں کے انتظار میں پرےشان کھڑے تھے۔

وہاں سے فارغ ہو کر ہم ایک ہوٹل کے باہر آکھڑے ہوئے۔میرا مالک زائد آمدنی کےلئے سواریاں بھی اٹھاتا ہے۔اسے اپنے خرچے کے ساتھ میری خوراک کا بھی بندوبست کرنا پڑتا ہے۔کہتے ہیں کھائے گھوڑا یا کھائے روڑا (عمارت) یعنی جس طرح عمارت بنانے پربہت پیسے اٹھ جاتے ہیں اس طرح گھوڑا رکھنا بھی مہنگا پڑتا ہے۔لیکن آج کل بہت کم لوگ سواری کےلئے بگھی لےتے ہیں۔شہر کی زندگی بہت تیز رفتار ہے۔ سب منزل پر جلد از جلد پہنچنا چاہتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ گھنٹوں فضول باتوں اور بے مقصد مشغلوں میں گزار دےتے ہیں۔زیادہ ترسیاح بگھی میں بیٹھتے ہیں اور شہر کی سےر کو نکلتے ہیں۔وہ کچھ دیر تو بگھی کے سفر سے لطف اندوز ہوتے ہیں مگر پھر بور ہوجاتے ہیں،اور مالک کو تیز چلانے پر اصرار کرتے ہیں اور مالک مجھ پر چابک برساتا ہے۔ ہم دیر تک ہوٹل کے باہر کھڑے رہے لیکن کوئی سواری نہ ملی۔

شام ہوئی تو مالک غصے میں بھرا بگھی اپنی مقررہ مقام پر لے آیا۔اس نے مجھے گاڑی سے الگ کیا اور دانا پانی رکھا۔پھر دوسرے کوچوانوں سے باتیں کرنے لگا۔ اسے کسی کوچوا ن سے پیسے لینے تھے اور وہ دینے میں پس و پیش سے کام لے رہا تھا۔دیر تک بحث ہوتی رہی اور آخر وہ پیسے لے کر ہی گھر گیا۔ظاہر ہے اگر گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا؟ جلد ہی رات ہو گئی اور گلی میں سناٹا چھا گیا۔میں نے روزنامچہ لکھنا شروع کیا۔لکھتے لکھتے میں خیالات میں گم ہوجاتا ہوں اکثر مجھے ہرے بھرے مرغزاروں کا خیا ل آتا ہے۔جہاں میں آزادی سے دوڑ رہا ہوں۔ اوپر دور تک نیلا آسمان اور نیچے سرسبز گھاس ہے لیکن یہ خیال کبھی حقیقت کا روپ نہیں لےتا۔شہر میں مرغزار کہاں یہاں تو انسانوں کےلئے باغوں کی بھی کمی ہے۔پھر مجھے خیال آتا ہے کہ گھوڑوں اور انسانوں کا ساتھ ازل سے چلا آرہا ہے۔کتنی ہی عظیم ہستیوں نے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر دین کی سربلندی کےلئے مشکل حالات میں کئی گنا طاقتور دشمن کو شکست دی ہے۔آج مسلمان سب کچھ ہوتے ہوئے بھی غیروں کے محتاج ہیں۔تاریخ آج کے لوگوں کو کبھی اچھے ناموں سے یاد نہیں کرے گی۔وقت گزرتا جارہا ہے۔اب مجھے سو جانا چاہیئے۔کل پھر مجھے اپنی ڈےوٹی انجام دینی ہے۔ دعا کریں کہ کل کسی ’شاہی سواری‘ سے سامنا نہ ہو۔

٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top