۵ ۔ غزوہ خندق
اشتیاق احمد
غزوہ خندق
بنی نضیر کے یہودیوں کو مدینہ منورہ میں ان کے علاقے سے نکال دیا گیا تھا، اسی وجہ سے ان کے بڑے بڑے سردار مکہ معظمہ گئے…قریش کو ساری تفصیل بتائی اور قریش کو دعوت دی کہ وہ مسلمانوں سے جنگ کے لیے میدان میں آئیں، انہوں نے قریش کو خوب بھڑکایا اور کہا:
’’جنگ کی صورت میں ہم تمہارے ساتھ ہوں گے، یہاں تک کہ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) اور ان کے ساتھیوں کو نیست و نابود کردیں گے، مسلمانوں سے دشمنی میں ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔‘‘
یہ سن کر مشرکین کے سردار ابوسفیان نے کہا:
’’ہمارے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ شخص وہ ہے، جو محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) کی دشمنی میں ہمارا مددگار ہو، لیکن ہم اس وقت تک تم پر بھروسہ نہیں کریں گے جب تک کہ تم ہمارے معبودوں کو سجدہ نہ کرلو…تاکہ ہمارے دل مطمئن ہوجائیں ۔‘‘
یہ سنتے ہی یہودیوں نے بتوں کو سجدہ کرڈالا، اب قریش نے کہا:
’’اے یہودیو! تم اہل کتاب ہو اور تمہاری کتاب سب سے پہلی کتاب ہے، اس لیے تمہارا علم بھی سب سے زیادہ ہے، لہٰذا تم بتاؤ…ہمارا دین بہتر ہے یا محمد(صلی اللہ علیہ و سلم)کا۔‘‘
یہودیوں نے جواب میں کہا:
’’تمہارا دین محمد کے دین سے بہتر ہے اور حق و صداقت میں تم لوگ ان سے کہیں زیادہ بڑھے ہوئے ہو ۔‘‘
یہودیوں کا جواب سن کر قریش خوش ہوگئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے جو انھوں نے جنگ کا مشورہ دیا تھا، وہ بھی انھوں نے قبول کرلیا…چنانچہ اسی وقت قریش کے پچاس نوجوان نکلے، انھوں نے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ کر اس کو اپنے سینے سے لگا کر یہ حلف دیا کہ وقت پر ایک دوسرے کو دغا نہیں دیں گے، جب تک ان میں سے ایک شخص بھی باقی ہے، محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) کے خلاف متحد رہیں گے ۔
اب قریش نے جنگ کی تیاری شروع کردی، یہودیوں نے بھی اور قبائل کو ساتھ ملانے کی کوششیں جاری رکھیں، اس طرح ایک بڑا لشکر مسلمانوں کے خلاف تیار ہوگیا ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو کفار کی تیاریوں کی اطلاعات موصول ہوئیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مشورہ کے لیے طلب کرلیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں دشمن کی جنگی تیاریوں کے بارے میں بتایا، پھر ان سے مشورہ طلب فرمایا کہ ہم مدینہ منورہ میں رہ کر دشمن کا مقابلہ کریں یا باہر نکل کر کریں ۔
اس پر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا:
’’اے اللہ کے رسول! اپنے ملک فارس میں جب ہمیں دشمن کا خوف ہوتا تھا تو شہر کے گرد خندق کھودلیا کرتے تھے ۔‘‘
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا یہ مشورہ سبھی کو پسند آیا، چنانچہ مدینہ منورہ کے گرد خندق کھودنے کا کام شروع کردیا، سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خندق کی کھدائی میں حصہ لیا…خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی خندق کھودی، خندق کی کھدائی کے دوران صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھوک نے ستایا، وہ زمانہ عام تنگ دستی کا تھا ۔کھدائی کے دوران ایک جگہ سخت پتھریلی زمین آگئی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس جگہ کھدائی نہ کرسکے، آخر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کدال اپنے ہاتھ میں لی اور اس جگہ ماری، ایک ہی ضرب میں وہ پتھریلی زمین ریت کی طرح بھربھرا گئی ۔
ضرب لگانے کے دوران روشنی کے جھماکے سے نظر آئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے بارے میں پوچھا کہ یہ روشنی کے جھماکے کیسے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’پہلے جھماکے میں اللہ تعالیٰ نے مجھے یمن کی فتح کی خبر دی ہے، دوسرے جھماکے کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مجھے شام اور مغرب پر غلبہ عطا فرمانے کی اطلاع دی اور تیسرے جھماکے کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مشرق کی فتح مجھے دکھائی ہے ۔‘‘
غرض جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خندق کی کھدائی سے فارغ ہوئے تو اس وقت قریش اور اس کے حامیوں کا لشکر مدینہ منورہ کے باہر پہنچ گیا، اس جنگ میں کافروں کی دس ہزار تعداد کے مقابلے میں مسلمان صرف تین ہزار تھے، مشرکوں کا لشکر مدینہ منورہ کے گرد خندق دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا، وہ پکار اٹھے:
’’خدا کی قسم! یہ تو بڑی زبردست جنگی چال ہے، عرب تو اس جنگی تدبیر سے واقف نہیں تھے ۔‘‘
مشرکوں کے دستے بار بار خندق تک آتے رہے اور واپس جاتے رہے…مسلمان بھی اچانک خندق تک آتے اور کافروں کی طرف تیر برساتے، پھر واپس لوٹ جاتے، کافروں میں سے نوفل بن عبداللہ نے اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر خندق کو عبور کرنے کی کوشش کی…لیکن اس کا گھوڑا خندق کے آرپار نہ پہنچ سکا اور سوار سمیت خندق میں گرا ۔ نوفل کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی ۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خندق میں اتر کر اسے قتل کردیا تھا ۔
کافروں اور مسلمانوں کے درمیان بس اسی طرح کی چھیڑ چھاڑ ہوتی رہی…کافر دراصل خندق کی وجہ سے مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کے قابل نہیں رہے تھے۔
لڑائی سے پہلے عورتوں اور بچوں کوایک چھوٹے سے قلعے میں پہنچا دیا گیا تھا۔یہ جگہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی تھی۔خود حضرت حسان رضی اللہ عنہ بھی وہیں تھے۔ان عورتوں میں آنحضرت ﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی بطور محافظ تھیں۔ایک یہودی جاسوسی کے لیے اس طرف نکل آیا۔حضرت صفیہ رضی ا للہ عنہا کی نظر اس یہودی پر پڑی تو انہوں نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے کہا:
’’اے حسان!یہ شخص دشمن کو اس قلعے میں عورتوں اور بچوں کی موجودگی کی خبر کردے گا….اور دشمن اس طرف سے حملہ آور ہو سکتے ہیں،لہٰذا تم نیچے اتر کر اسے قتل کردو۔‘‘
اس پر حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’تمہیں معلوم ہے، میں اس کام کا آدمی نہیں ہوں۔‘‘
حضرت حسان بن ثابت دراصل شاعر تھے اور جنگ کے طریقوں سے واقف نہیں تھے…پھر ان کی عمر بھی زیادہ تھی،بوڑھے اور کمزور تھے، اس لیے انہوں نے ایسی بات کہی تھی۔حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے جب دیکھا کہ حضرت حسان یہ کام نہیں کریں گے توانہوں نے ایک موٹا سا ڈنڈا اٹھا لیااور نیچے اتر آئیں۔خاموشی سے اس کے پیچھے گئیں اور اچانک اس پر حملہ آور ہوئیں…انہوں نے ڈنڈے کے کئی وار اس پر کئے،یہاں تک کہ وہ ختم ہو گیا۔پھر تلوار سے اس کا سر کاٹ کر ان یہودیوں کی طرف اچھال دیا جو اس کے پیچھے آرہے تھے۔وہ سب خوف زدہ ہو کر بھاگ نکلے۔
ادھر مشرکوں میں سے چند لوگ آگے بڑھے۔انہوں نے خندق عبور کرنے کے لئے اپنے گھوڑوں کو دور لے جا کرخوب دوڑایا اور جس جگہ خندق کی چوڑائی کم تھی،اس جگہ سے لمبی چھلانگ لگا کرآخر خندق پار کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ان لوگوں میں عمرو بن عبد ودبھی تھا…وہ عرب کا مشہور پہلوان تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بہت بہادر ہے اور اکیلا ایک ہزار آدمیوں کے لیے کافی ہے ۔ خندق عبور کرتے ہی وہ للکارا:
’’کون ہے جو میرے مقابلے میں آتا ہے؟‘‘
اس کی للکار سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ آگئے ۔ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا:
’’اللہ کے رسول! اس کے مقابلے پر میں جاؤں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’بیٹھ جاؤ…یہ عمرو بن عبدِ وَد ہے۔‘‘
ادھر عمرو نے پھر آواز دی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ پھر اٹھ کھڑے ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں پھر بٹھادیا…اس نے تیسری بار پھر مقابلے کے لیے آواز لگائی ۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اجازت دے دی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ شعر پڑھتے ہوئے میدان میں آئے :
’’جلدی نہ کر، تیری للکار کو قبول کرنے والا تیرے سامنے آگیا ہے ۔ جو تجھ سے کسی طرح عاجز اور کمزور نہیں ہے ۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی تلوار ذوالفقار عطا فرمائی، اپنا عمامہ ان کے سر پر رکھا اور اللہ سے ان کی کامیابی کے لیے دعا کی ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مقابلے سے پہلے اسے اسلام کی دعوت دی اور بولے:
’’میں تمہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلاتا ہوں اور اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔‘‘
اس نے انکار کیا اور کہا:
’’بھتیجے! میں تمہیں قتل کرنا نہیں چاہتا…واپس لوٹ جاؤ۔‘‘
جواب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’لیکن میں تو تمہیں قتل کرنا چاہتا ہوں ۔‘‘
یہ سن کر عمرو بن عبدِ وَد کو غصہ آگیا ۔ وہ اس وقت پوری طرح لوہے میں غرق تھا ۔ چہرہ بھی خود میں چھپا ہوا تھا ۔ وہ گھوڑے سے کود پڑا اور تلوار سونت کر ان کی طرف بڑھا ۔ اس کی تلوار سے خود کو بچانے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فوراً ڈھال آگے کردی ۔ عمرو کی تلوار ڈھال پر پڑی، ڈھال پھٹ گئی، تلوار حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیشانی تک پہنچ گئی پیشانی پر زخم آگیا۔
غزوۂ خندق کے واقعات
عَمروْ کے وار سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیشانی سے خون بہہ نکلا مگر انھوں نے فوراً جوابی حملہ کیا، عمرو بن عبدِوَد کی گردن کے نچلے حصے پر ان کی تلوار لگی، تلوار ہنسلی کی ہڈی کو کاٹتی چلی گئی، وہ خاک و خون میں لوٹتا نظر آیا، مسلمانوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ نعرہ سنا تو جان لیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عمرو کو قتل کردیا ہے، اس کے گرتے ہی جو لوگ اس کے ساتھ آئے ہوئے تھے، واپس بھاگے، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے ان کا پیچھا کیا اور بھاگتے ہوئے ایک کافر پر تلوار کا وار کیا، وہ دو ٹکڑے ہوگیا، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی تلوار اس کے سر سے ہوتی ہوئی کولہے تک پہنچ گئی، اس پر بعض مسلمانوں نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا:
’’اے ابا عبداللہ! ہم نے تمہاری تلوار جیسی کاٹ کسی کی نہیں دیکھی…اللہ کی قسم…یہ تلوار کا نہیں…تلوار چلانے والے کا کمال ہے۔‘‘
تمام دن جنگ ہوتی رہی، خندق کے ہر حصے پر لڑائی جاری رہی، اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور کوئی مسلمان بھی ظہر سے عشاء تک کوئی نماز نہ پڑھ سکا، اس صورتِ حال کی وجہ سے مسلمان بار بار کہتے رہے:
’’ ہم نماز نہیں پڑھ سکے ۔‘‘
یہ سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے:
’’نہ ہی میں پڑھ سکا۔‘‘
آخر جنگ رکنے پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کا حکم دیا۔ انھوں نے ظہر کی تکبیر کہی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھائی، اس کے فوراً بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عصر کی تکبیر پڑھی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے عصر کی نماز پڑھائی…اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازیں باجماعت قضا پڑھی گئیں ۔
غرض خندق کی لڑائی مسلسل جاری رہی، ایک روز خالد بن ولید نے مشرکوں کے ایک دستے کے ساتھ حملہ کیا، لیکن اس طرف اس وقت حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ دوسو سواروں کے ساتھ موجود تھے، جونہی حضرت خالد بن ولید نے اپنے دستے کے ساتھ خندق پار کی، یہ ان کے سامنے آگئے، اس طرح حضرت خالد بن ولید ناکام لوٹ گئے ۔
اس صورتِ حال نے طول پکڑا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پریشان ہوگئے، آخر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی، اس کے جواب میں حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور خوش خبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ دشمن پر ہوا کا طوفان نازل فرمائے گا، طوفان کے ساتھ اللہ اپنے لشکر(فرشتے) بھی ان پر نازل کرے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ خبر دے دی، سب نے اللہ کا شکر ادا کیا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ دعا بدھ کے دن ظہر اور عصر کے درمیان قبول ہوئی، آخر سرخ آندھی کے طوفان نے مشرکوں کو آلیا، ان دنوں موسم یوں بھی سرد تھا، اوپر سے انھیں اس سرد طوفان نے گھیرلیا، مشرکوں کے خیمے الٹ گئے، برتن الٹ گئے، ہوا کے شدید تھپیڑوں نے ہر چیز ادھر سے اُدھر کردی، لوگ سامان کے اوپر اور سامان لوگوں پر آگرا، پھر تیز ہوا سے اس قدر ریت اڑی کہ ان میں سے نہ جانے کتنے ریت میں دفن ہوگئے، ریت کی وجہ سے آگ بجھ گئی، چولہے ٹھنڈے ہوگئے، آگ بجھنے سے اندھیرے نے گویا انھیں نگل لیا، یہ اللہ کا عذاب تھا جو فرشتوں نے ان پر نازل کیا، وہ درہم برہم ہوگئے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’پھر ہم نے ان پر ایک آندھی اور ایسی فوج بھیجی جو تمہیں دکھائی نہیں دیتی تھی اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھتے ہیں ۔‘‘(سورۃ الأحزاب)
جہاں تک فرشتوں کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں اصل بات یہ ہے کہ انھوں نے خود جنگ میں شرکت نہیں کی، بلکہ اپنی موجودگی سے مشرکوں کے دلوں میں خوف اور رعب پیدا کردیا اور اس رات جو ہوا چلی، اس کا نام بادِصبا ہے، یعنی وہ ہوا جو سخت سرد رات میں چلے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’بادِصبا سے میری مدد کی گئی اور ہوائے زرد کے ذریعے اس قوم کو تباہ کیا گیا ۔‘‘
ہوائے زرد نے مشرکوں کی آنکھوں میں گردوغبار بھردیا اور ان کی آنکھیں بند ہوگئیں، یہ طوفان بہت دیر تک اور مسلسل جاری رہا تھا، ساتھ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو مشرکوں میں پھوٹ پڑنے کے بارے میں پتاچلا، وہ ایسے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اعلان فرمایا تھا کہ کون ہے جو ہمیں دشمنوں کی خبر لادے، اس پر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا:
’’اللہ کے رسول! میں جاؤں گا ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سوال تین مرتبہ دہرایا، تینوں مرتبہ زبیر رضی اللہ عنہ ہی بولے، آخر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’ہر نبی کے حواری یعنی مددگار ہوتے ہیں، میرے حواری زبیر ہیں ۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو اس کام کے لیے روانہ فرمایا…تھکن کی وجہ سے ان میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ جاسکتے، لیکن حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے لیے دعا فرمائی:’’جاؤ، اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے سے اور پیچھے سے، دائیں سے اور بائیں سے تمہاری حفاظت فرمائے اور تم خیریت سے لوٹ کر ہمارے پاس آؤ۔‘‘
یہ وہاں سے چل کر دشمن کے پڑاؤ میں پہنچ گئے، وہاں انھوں نے ابوسفیان کو کہتے سنا:
’’اے گروہِ قریش! ہر شخص اپنے ہم نشینوں سے ہوشیار رہے اور جاسوسوں سے پوری طرح خبردار رہے۔‘‘
پھر اس نے کہا:
’’اے قریش! ہم نہایت برے حالات کا شکار ہوگئے ہیں، ہمارے جانور ہلاک ہوگئے ہیں…بنوقریظہ کے یہودیوں نے ہمیں دغا دیا ہے اور ان کی طرف سے ناخوش گوار باتیں سننے میں آئی ہیں…اوپر سے اس طوفانی ہوا نے جو تباہ کاری کی ہے، وہ تم لوگ دیکھ ہی رہے ہو، اس لیے واپس چلے جاؤ، میں بھی واپس جارہا ہوں۔‘‘
حذیفہ رضی اللہ عنہ یہ خبریں لے کر آئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے دشمن کا حال سنایا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہنس پڑے یہاں تک کہ رات کی تاریکی میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دانت مبارک نظر آنے لگے…جب کفّار کا لشکر مدینہ منورہ سے بدحواس ہوکر بھاگا، تب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’اب یہ آئندہ ہم پر حملہ آور نہیں ہوں گے، بلکہ ہم ان پر حملہ کریں گے ۔‘‘
خندق کی جنگ کے موقع پر کچھ خاص واقعات پیش آئے ۔ جب خندق کھودی جارہی تھی تو اس دوران ایک صحابی بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ کی بیٹی ایک پیالے میں کچھ کھجوریں لائی، یہ کھجوریں وہ اپنے باپ اور ماموں کے لیے لائی تھی…حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر ان کھجوروں پر پڑی تو فرمایا:
’’کھجوریں ادھر لاؤ ۔‘‘
اس لڑکی نے کھجوروں کا برتن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں میں الٹ دیا، کھجوریں اتنی نہیں تھی کہ دونوں ہاتھ بھر جاتے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دیکھ کر ایک کپڑا منگوایا، اس کو پھیلا کر بچھایا، پھر پاس کھڑے صحابی سے فرمایا:
’’لوگوں کو آواز دو…دوڑ کر آئیں ۔‘‘
چنانچہ سب جلد ہی آگئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ہاتھوں سے کھجوریں اس کپڑے پر گرانے لگے، سب لوگ اس پر سے اٹھا اٹھا کر کھاتے رہے، کھجوریں شروع کرنے سے پہلے سب لوگ بھوکے تھے، بھوک کی حالت میں ان سب نے یہ کھجوریں کھائیں، سب کے پیٹ بھرگئے…اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں سے کھجوریں ابھی تک گر رہی تھیں ۔
ایسا ہی ایک واقعہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا پیش آیا، انہیں جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شدید بھوک کا علم ہوا تو گھر گئے، ان کے گھر میں بکری کا ایک چھوٹا سا بچہ تھا اور کچھ گندم بھی تھی، انھوں نے کہا کہ:
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو بھوک لگی ہے…لہٰذا یہ بکری ذبح کرکے سالن تیار کرلو،، گندم کو پیس کر روٹیاں پکالو، میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو لے کر آتا ہوں ۔‘‘
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کچھ دیر بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آہستہ آواز میں کہا کہ آپ کے لیے گھر میں کھانا تیار کرایا ہے، یہ سن کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی سے کہا:
’’اعلان کردو…جابر کے ہاں سب کی دعوت ہے۔‘‘
چنانچہ پکار کر اعلان کیا گیا کہ سب لوگ جابر کے گھر پہنچ جائیں، حضرت جابر رضی اللہ عنہ پریشان ہوگئے کہ وہ تھوڑا سا کھانا اتنے لوگوں کو کیسے پورا ہوگا ۔ انھوں نے پریشانی کے عالم میں ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ پڑھی اور پھر گھر آگئے…وہ کھانا حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے رکھ دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’اللہ برکت دے ۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بسم اللہ پڑھی، سب نے کھانا شروع کیا، باری باری لوگ آتے رہے اور کھا کر اٹھتے رہے، ان کی جگہ دوسرے لیتے رہے…یہاں تک کہ سب لوگوں نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا، اس وقت ان مسلمانوں کی تعداد ایک ہزار تھی، حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
’’اللہ کی قسم! جب سب کھانا کھا کر چلے گئے تو ہم نے دیکھا…گھر میں اب بھی اتنا ہی کھانا موجود تھا…جتنا حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے رکھا گیا تھا۔‘‘
جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم غزوہ خندق سے فارغ ہوکر گھر آئے تو وہ دوپہر کا وقت تھا…حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر کی نماز ادا کی اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں داخل ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم ابھی غسل فرمارہے تھے کہ اچانک حضرت جبرئیل علیہ السلام سیاہ رنگ کا ریشمی عمامہ باندھے وہاں آگئے، حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک خچر پر سوار تھے، انہوں نے آتے ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا:
’’اے اللہ کے رسول! کیا آپ نے ہتھیار اتار دیے ہیں؟‘‘
آپ نے فرمایا:
’’ہاں! اتار دیے ہیں ۔‘‘ یہ سن کر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا:
’’لیکن اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے تو ابھی ہتھیار نہیں اتارے ۔‘‘
غزوۂ بنی قریظہ
اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا:
’’اللہ تعالی نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اسی وقت بنو قریظہ کے مقابلے کے لیے کوچ کریں، میں بھی وہیں جارہا ہوں۔‘‘
اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کرایا:
’’ہر اطاعت گزار شخص عصر کی نماز بنو قریظہ کے محلے میں پہنچ کر پڑھے ۔‘‘
اس اعلان سے مراد یہ تھی کہ روانہ ہونے میں دیر نہ کی جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی فوراً ہتھیار لگائے، زرہ بکتر پہنی، اپنا نیزہ دست مبارک میں لیا، تلوار گلے میں ڈالی…اور اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی ہتھیار لگائے گھوڑوں پر موجود تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد تین ہزار تھی، ان میں 36 گھڑ سوار تھے، ان میں بھی تین گھوڑے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے، اس غزوہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام مقرر فرمایا ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے آگے حضرت علی رضی اللہ عنہ پرچم لیے ہوئے بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ چونکہ آگے روانہ ہوئے تھے، اس لیے پہلے وہاں پہنچے، انہوں نے مہاجرین اور انصار کے ایک دستے کے ساتھ بنو قریظہ کے قلعے کے سامنے دیوار کے نیچے پرچم نصب کیا، ایسے میں یہودیوں نے حضورﷺ کو برا بھلا کہنا شروع کیا، اس پر حضرت علی اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو غصہ آگیا، نبی اکرمﷺ وہاں پہنچے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں یہودیوں کی بدزبانی کے بارے میں بتایا، آپ ﷺ نے ان کی پوری آبادی کو گھیرے میں لینے کا حکم دے دیا، یہ محاصرہ پچیس دن تک جاری رہا۔یہودی اس محاصرے سے تنگ آگئے، اور آخر کار آپ ﷺ کے سامنے حاضر ہوگئے۔
حضورﷺ نے انہیں باندھنے کا حکم فرمایا۔ان کی مشکیں کس دی گئیں، ان کی تعداد چھ سو یا ساڑھے سات سو تھی، انہیں ایک طرف جمع کردیاگیا۔یہ سب وہ تھے جو لڑنے والے تھے، ان کے بعد یہودی عورتوں اور بچوں کو حویلیوں سے نکال کر ایک طرف جمع کیا گیا، ان بچوں اور عورتوں کی تعداد ایک ہزار تھی، ان پر حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو نگران بنایاگیا۔اب یہ لوگ بار بار آپ کے پاس آکر معافی مانگنے لگے۔اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:
’’کیا تم اس بات پر رضامند ہو کہ تمہارے معاملے کا فیصلہ تمہارا ہی (منتخب کیا ہوا) کوئی آدمی کردے ؟‘‘
انہوں نے جواب دیا :’’سعد بن معاذ (رضی اللہ عنہ) جو فیصلہ بھی کردیں، ہمیں منظور ہے۔‘‘
سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ مسلمان ہونے سے پہلے ان یہودیوں کے دوست اور ان کے نزدیک قابل احترام شخصیت تھے، حضور اکرمﷺ نے ان کی یہ بات مان لی، سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ غزوہء خندق میں شدید زخمی ہوگئے تھے، وہ اس وقت مسجد نبوی کے قریب ایک خیمے میں تھے، اب آنحضرت ﷺ کے حکم پر انھیں بنو قریظہ کی آبادی میں لایا گیا، ان کی حالت بہت خراب تھی۔آخر وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس پہنچ گئے، انہیں ساری بات بتائی گئی…اس پر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’فیصلے کا حق تو اللہ تعالیٰ ہی کا ہے یا پھر اللہ کے رسول کو ہے۔‘‘
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ ہی نے تمہیں حکم دیا ہے کہ یہود کے بارے میں فیصلہ کرو۔‘‘
اب انہوں نے اپنا فیصلہ سنایا:
’’میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کے مردوں کو قتل کردیا جائے، ان کا مال اور دولت مال غنیمت کے طور پر لے لیا جائے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو غلام اور لونڈیاں بنالیا جائے۔‘‘
(حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے یہودیوں سے اپنی سابقہ دوستی کی پروا نہ کرتے ہوئے اتنا سخت فیصلہ اس لیے سنایا تھا کہ ان یہودیوں کا ظلم و ستم اور ان کی فتنہ انگیزی حد سے بڑھ گئی تھی، اگر انہیں یوں ہی زندہ چھوڑ دیا جاتا تو یقینی طور پر یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف بدترین سازشیں کرتے رہتے۔ان کا مزاج بچھو اور سانپ کی مانند ہوچکا تھا، جو کبھی ڈسنے سے باز نہیں آسکتا، اس لیے ان کا سر کچلنا ضروری تھا۔)
ان کا فیصلہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ تم نے اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ سنایا ہے…اس فیصلے کی شان بہت اونچی ہے…آج صبح سحر کے وقت فرشتے نے آکر مجھے اس فیصلے کی اطلاع دے دی تھی۔‘‘
اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ بنو قریظہ کی حویلیوں میں جو کچھ مال اور ہتھیار وغیرہ ہیں، سب ایک جگہ جمع کردیے جائیں۔
چنانچہ سب کچھ نکال کر ایک جگہ ڈھیر کردیا گیا، اس سارے سامان میں پندرہ سو تلواریں اور تین سو زرہیں تھیں۔دو ہزار نیزے تھے، اس کے علاوہ بے شمار دولت تھی، مویشی بھی بے تحاشا تھے، سب چیزوں کے پانچ حصے کیے گئے، ان میں سے چار حصے سب مجاہدین میں تقسیم کیے گئے…یہاں شراب کے بہت سے مٹکے بھی ملے، ان کو توڑ کر شراب کو بہادیا گیا، اس کے بعد یہودی قیدیوں کو قتل کردیا گیا، قتل ہونے والوں میں ان کا سردار حئی بن اخطب بھی تھا۔بچوں اور عورتوں کو غلام اور لونڈی بنالیا گیا۔
اس واقعہ کے بعد حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ غزوۂ خندق میں لگنے والے زخموں کے باعث شہید ہوگئے، ان کے جنازے میں فرشتوں نے بھی شرکت کی، انہیں دفن کیا گیا تو قبر سے خوشبو آنے لگی۔
قیدی عورتوں کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جو عورتیں فروخت کی جائیں، اپنے بچوں سے جدا نہ کی جائیں(یعنی جہاں ماں رہے، وہیں اس کے بچے رہیں، جب تک کہ بچہ جوان نہ ہوجائیں)اگر کوئی شخص اپنی لونڈی کو فروخت کرنا چاہے تو اسے اس کے بچے سے جدا نہ کرے۔‘‘
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنو ہزیل سے ان کی ناپاک حرکت کا انتقام لینے کا ارادہ فرمایا، بنو ہذیل نے رجیع کے مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہید کیا تھا، یہ لوگ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور درخواست کی تھی کہ ان کے علاقے میں اسلام کی تعلیم کے لیے کچھ حضرات کو بھیج دیا جائے۔چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دس صحابہ رضی اللہ عنہہ کو ان کے ساتھ روانہ فرمایا، ان لوگوں نے انہیں دھوکے سے شہید کردیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مظلومانہ شہادت کا بے حد رنج تھا۔چنانچہ ان لوگوں کو سزا دینے کا فیصلہ فرمایا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تیاری کا حکم فرمایا…پھر لشکر کو لے کر روانہ ہوئے۔بظاہر تو شام کی طرف کوچ کیا تھا، مگر اصل مقصد بنو ہزیل کے خلاف کاروائی تھی، منزل کو اس لیے خفیہ رکھا گیا تاکہ دشمنوں کو جاسوسوں کے ذریعے پہلے سے معلوم نہ ہو اور مسلمان ان ظالموں پر بے خبری میں جاپڑیں۔
مدینہ منورہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قائم مقام حضرت عبداللہ بن اُمّ مکتوم کو مقرر فرمایا۔اس غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کافی تعداد میں صحابہ رضی اللہ عنہم تھے، ان میں سے بیس گھوڑوں پر سوار تھے۔
پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر پہنچے، جہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہید کیا گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں ان کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کی، ادھر کسی طرح بنو ہذیل کو پتہ چل گیا کہ مسلمان ان پر حملہ کرنے کے لیے آرہے ہیں۔وہ ڈر کے مارے پہاڑوں میں جا چھپے، جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے فرار کا پتہ چلا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مختلف سمتوں میں روانہ فرمایا…لیکن ان کا کوئی آدمی نہ مل سکا۔
آخر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم واپس روانہ ہوئے، اس غزوہ کو غزوہ بنی لحیان کہا جاتا ہے۔
راستے میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ابواء کے مقام سے گزرے، یہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کو دفن کیا گیا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں تو اپنی والدہ کی قبر نظر آگئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور دو رکعت نماز ادا کی…پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بھی روپڑے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے، ابھی چند راتیں ہی گزریں تھیں کہ خبر ملی…عیینہ ابن حصین نے کچھ سواروں کے ساتھ مل کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چراگاہ پر چھاپا مارا…اس چراگاہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بیس اونٹ تھے…اونٹوں کی حفاظت کے لیے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے، اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی بیوی بھی وہاں تھیں۔ان حملہ آوروں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے بیٹے کو قتل کردیا۔
اس واقعہ کا سب سے پہلے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا…وہ اپنی کمان اٹھائے صبح ہی صبح چراگاہ کی طرف جارہے تھے، ان کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا، وہ ان کا، گھوڑا لے کر آیا تھااور لگام سے پکڑ کر اسے ہنکارہا تھا، راستے میں ان کی ملاقات حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے غلام سے ہوئی۔اس نے حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ عیینہ بن حصین نے کچھ سواروں کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چراگاہ پر چھاپہ مارا ہے…اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں کو لے گئے ہیں…چراگاہ کے محافظ کو انہوں نے قتل کردیا…اور ایک خاتون کو اٹھا کر لے گئے ہیں۔
یہ سنتے ہی حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام سے کہا:
’’اس گھوڑے پر بیٹھ کر روانہ ہوجاؤ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کردو۔‘‘
غلام تو اسی وقت روانہ ہوگیا، ساتھ ہی سلمہ رضی اللہ عنہ ایک ٹیلے پر چڑھ کر پکارے:
’’لوگو! دوڑو…کچھ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ لے اڑے ہیں۔‘‘
یہ اعلان تین بار دہرا کر وہ اکیلے ہی لٹیروں کی طرف دوڑ پڑے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ چیتے کی سی تیزی سے دوڑے، یہاں تک کہ وہ حملہ آوروں تک پہنچ گئے، جونہی انہوں نے حملہ آوروں کو دیکھا، ان پر تیر اندازی شروع کردی، جب بھی تیر چلاتے، تو پکار کر کہتے:
’’لے سنبھال! میں ابن اکوع ہوں، آج کا دن ہلاکت اور بربادی کا دن ہے۔‘‘
جب دشمن اپنے گھوڑے موڑکر ان کی طرف رخ کرتے تو یہ اپنی جگہ سے ہٹ کر کسی دوسری جگہ پہنچ جاتے اور وہاں سے تیر اندازی شروع کردیتے، یہ مسلسل اسی طرح کرتے رہے، دشمن کے پیچھے لگے رہے، دشمن ان کے تیروں کا شکار ہوتا چلا گیا۔
خود حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
’’میں بھاگ کر ان میں سے کسی کے سر پر پہنچ جاتا، اس کے پیر میں تیر مارتا، وہ اس سے زخمی ہوجاتا، لیکن جب ان میں سے کوئی پیچھے مڑتا تو میں کسی درخت کے پیچھے چھپ جاتا اور پھر اس جگہ سے تیر اندازی کرکے حملہ آور کو زخمی کردیتا، یا پتھر ان پر گرانے لگتا… میری اس تیر اندازی اور پتھروں کی بارش سے وہ بری طرح تنگ آگئے، یہاں تک کہ میری تیروں کی بارش نے انہیں بھاگنے پر مجبور کردیا، زخمی ہوکر بھاگنے والوں نے تیس سے زیادہ نیزے اور اتنی ہی چادریں راستے میں گرادیں تاکہ ان کا بوجھ کم ہو اور وہ آسانی سے بھاگ سکیں۔ وہ جو چیز بھی کہیں پھینکتے، میں اس پر پتھر رکھ دیتا، تاکہ بعد میں ان کو جمع کرسکوں، غرض!میں ان کے پیچھے لگا رہا، یہاں تک کہ سوائے چند ایک کے وہ تمام اونٹ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے… پیچھے رہ گئے، دشمن آگے نکل گیا اور خود میں بھی ان کے تعاقب میں ان اونٹوں سے آگے نکل آیا… اس طرح میں نے حملہ آوروں سے تمام اونٹ چھڑالیے۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی پکار کے بارے میں پتا چلا تو مدینہ منورہ میں اعلان کرادیا کہ اے اللہ کے سوارو! تیار ہوجاؤ! اور سوار ہوکر چلو۔
اس اعلان کے بعد گھڑ سواروں میں سے جو صحابی سب سے پہلے تیار ہوکر آئے، وہ حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ تھے، انہیں ابن اسود بھی کہا جاتا ہے، ان کے بعد حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ آئے، پھر حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ آئے، پھر باقی گھڑسوار صحابہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو ان کا سالار مقرر فرمایا اور حکم فرمایا:
’’تم لوگ روانہ ہوجاؤ، میں باقی لوگوں کے ساتھ تم سے آملوں گا۔‘‘
چنانچہ یہ گھڑسوار دستہ دشمن کی تلاش میں نکلا… اور دشمن کے سر پر پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔
سواروں میں سب سے پہلے جو شخص دشمن تک پہنچا، ان کا نام محذر بن فضلہ تھا، انہیں اخرم اسدی بھی کہا جاتا ہے، یہ آگے بڑھ کر دشمن کے سامنے جاکھڑے ہوئے اور بولے:
’’اے ملعون لوگو! ٹھہرجاؤ، مہاجرین اور انصار تمہارے مقابلے پر نکل پڑے ہیں۔‘‘
اخرم اسدی رضی اللہ عنہ سب سے پہلے دشمن کے قریب پہنچ گئے ان کی طرف بڑھنے لگے، تو حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے اپنے مورچے سے نکل کر ان کے گھوڑے کی لگام پکڑلی اور بولے:
’’اے اخرم! ابھی دشمن پر حملہ نہ کریں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے اصحاب کو آنے دیں۔‘‘
یہ سن کر اخرم اسدی رضی اللہ عنہ بولے:
’’ سلمہ! اگر تم اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور یہ جانتے ہوکہ جنت بھی برحق ہے اور دوزخ بھی برحق ہے، تو میرے اور شہادت کے درمیان سے ہٹ جاؤ ۔‘‘
ان کے الفاظ سن کر سلمہ رضی اللہ عنہ نے ان کے گھوڑے کی لگام چھوڑ دی، فوراً آگے بڑھے…انھوں نے وار کرکے ایک دشمن کے گھوڑے کو زخمی کردیا، اسی وقت ایک اور دشمن نے اخرم اسدی رضی اللہ عنہ کو نیزہ دے مارا…وہ شہید ہوگئے…ایسے میں حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ وہاں پہنچ گئے، ایک دشمن نے ان کے گھوڑے پر وار کیا، گھوڑا زخمی ہوگیا، حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے فوراً اس پر وار کرکے اس کو قتل کردیا ۔
اسی وقت ایک گُھڑسوار ان کے مقابلے پر آیا، اس کا نام مسعدہ فزاری تھا، آتے ہی کہنے لگا:
’’تم مجھ سے کس طرح مقابلہ کرنا پسند کروگے…تلوار بازی، نیزہ بازی یا پھر کشتی؟‘‘
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بولے:
’’جو تم پسند کرو۔‘‘
اس پر اس نے کشتی لڑنا پسند کیا، وہ گھوڑے سے اتر آیا، اپنی تلوار درخت سے لٹکادی،حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بھی گھوڑے سے اتر آئے، انھوں نے بھی تلوار درخت سے لٹکادی، اب دونوں میں کشتی شروع ہوئی…آخر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو فتح یاب فرمایا، انھوں نے درخت سے لٹکی تلوار کھینچ لی اور اسے قتل کردیا، پھر انھوں نے مسعدہ کے بھتیجے پر حملہ کیا، اس نے خوف زدہ ہوکر باقی اونٹوں کو چھوڑ دیا…حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اونٹوں کو لیکر لوٹے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لاتے نظر آئے…حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹوں کو ساتھ میں دیکھ کر فرمایا:
’’ابوقتادہ تمہارا چہرہ روشن ہو۔‘‘
اس پر انھوں نے کہا:
’’اے اللہ کے رسول! آپ کا بھی چہرہ روشن رہے۔‘‘
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا:
’’اللہ تم میں، تمہاری اولاد میں اور اولاد کی اولاد میں برکت عطا فرمائے ۔‘‘
ایسے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر ان کی پیشانی پر پڑی…وہاں ایک زخم تھا اور تیر کا پھل زخم ہی میں رہ گیا تھا، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے تیر کا وہ حصہ آہستہ سے نکال دیا، پھر ان کے زخم پر اپنا لعاب دہن لگایا اور اپنی ہتھیلی زخم پر رکھ دی ۔
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
’’قسم ہے، اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نبوت سے سرفراز فرمایا، آپ نے جونہی زخم پر ہاتھ رکھا، تکلیف بالکل غائب ہوگئی ۔‘‘
اس کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو مسعدہ کا گھوڑا اور اس کے ہتھیار عطا فرمائے اور انہیں دعا دی ۔
حضرت ابوقتادہ اور حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہما کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس موقع پر فرمایا:
’’ہمارے سواروں میں بہترین سوار ابوقتادہ ہیں اور ہمارے پیدل مجاہدین میں بہترین پیدل سلمہ ہیں ۔‘‘
پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے ۔
کچھ دن بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک خواب دیکھا، یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ کرام کے ساتھ امن کی حالت میں مکہ میں داخل ہورہے ہیں، پھر عمرہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ نے بال منڈوائے ہیں اور کچھ نے بال کتروائے ہیں، اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیت اللہ میں داخل ہوئے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیت اللہ کی چابی لی اور عرفات میں قیام کرنے والوں کے ساتھ قیام فرمایا، نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اور صحابہ نے بیت اللہ کا طواف کیا ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا یہ خواب صحابہ کرام کو سنایا، سب اس بشارت سے بہت خوش ہوئے،پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ارشاد فرمایا:
’’میرا ارادہ عمرے کا ہے ۔‘‘
یہ سننے کے بعد سب نے سفر کی تیاریاں شروع کردیں، آخر ایک روز حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم عمرے کے لیے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے ۔ عمرے کا اعلان آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے ہی کرادیا تھا، تاکہ لوگ اس قافلے کو حاجیوں کا قافلہ ہی خیال کریں اور مکے کے لوگ اور آس پاس کے لوگ جنگ کے لیے نہ اٹھ کھڑے ہوں، مشرکوں اور دوسرے دشمنوں کو پہلے معلوم ہوجائے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم عمرے کی نیت سے آرہے ہیں…اور کوئی نیت نہیں ہے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ذوالحلیفہ کے مقام پر احرام باندھا، پہلے مسجد میں دو رکعت نماز ادا کی…پھر مسجد سے ہی اونٹنی پر سوار ہوئے…اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہیں سے احرام باندھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اس سفر پر ذی قعدہ کے مہینے میں روانہ ہوئے تھے، قافلے کے ساتھ قربانی کے جانور بھی تھے، ذوالحلیفہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر کی نماز ادا فرمائی، جانوروں پر جھولیں ڈالیں، تاکہ جان لیا جائے کہ یہ قربانی کے ہیں ان کے کوہانوں پر نشان لگایا گیا، یہ نشان زخم لگاکر ڈالا جاتا ہے، اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ چودہ سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے…چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم عمرے کی نیت سے روانہ ہوئے تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اور صحابہ کے پاس سوائے تلوار کے اور کوئی ہتھیار نہیں تھا۔
رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے چند معجزات
سفر کے دوران ایک مقام پر پانی ختم ہوگیا…صحابہ رضی اللہ عنہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پانی کا ایک برتن تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے وضو فرمارہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا:
’’کیا بات ہے؟‘‘
صحابہ نے بتایا:
’’آپ کے پاس اس برتن میں جو پانی ہے، اس پانی کے علاوہ پورے لشکر میں کسی کے پاس اور پانی نہیں ہے ۔‘‘
یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی کے برتن میں اپنا ہاتھ مبارک رکھ دیا، جونہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاتھ مبارک پانی میں رکھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی انگلیوں سے پانی اس طرح نکلنے لگا جیسے برتن میں چشمے پھوٹ پڑے ہوں، ایک صحابی کا بیان ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی انگلیوں سے پانی کے فوارے نکلتے دیکھے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے ایک پتھر سے پانی کا چشمہ پھوٹ نکلا تھا، لیکن یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی انگلیوں سے پانی جاری ہوگیا تھا، علماء کرام فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ موسیٰ علیہ السلام والے واقعہ سے کہیں زیادہ حیرت ناک ہے…کیونکہ چشمے پہاڑوں اورچٹانوں ہی سے نکلتے ہیں، لہٰذا پتھر سے پانی کا جاری ہونا اتنی عجیب بات نہیں، جتنی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی مبارک انگلیوں سے پانی جاری ہونا عجیب ہے ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
’’جونہی یہ پانی کا چشمہ پھوٹا، ہم سب پینے لگے…ہم نے پیا بھی اور اس پانی سے وضو بھی کیا اور اپنے برتن بھی بھرے…اگر ہم اس وقت ایک لاکھ بھی ہوتے تو بھی پانی ہمارے لیے کافی ہوجاتا، جب کہ اس وقت ہماری تعداد چودہ سو تھی ۔‘‘
مسلمانوں کا قافلہ ’’عسفان‘‘ کے مقام پر پہنچا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بشر بن سفیان عتکی رضی اللہ عنہ آئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے ہی انہیں جاسوس بناکر مکہ کی طرف روانہ کردیا تھا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نیت اگرچہ صرف عمرے کی تھی، لیکن قریش کے بارے میں اطلاعات رکھنا ضروری تھا ۔ بشر رضی اللہ عنہ نے آکر بتایا:
’’اے اللہ کے رسول! قریش کو اطلاع مل چکی ہے کہ آپ مدینہ منورہ سے روانہ ہوچکے ہیں، دیہاتوں میں جو ان کے اطاعت گزار لوگ ہیں، قریش نے ان سے بھی مدد طلب کی ہے، بنی ثقیف بھی ان کی مدد کرنے پر آمادہ ہیں…اور ان کے ساتھ عورتیں اور بچے بھی ہیں، وہ لوگ مکے سے نکل کر ’’ذی طویٰ‘‘ کے مقام تک آگئے ہیں، انھوں نے ایک دوسرے سے عہد کیا ہے کہ وہ آپ کو مکہ میں داخل ہونے نہیں دیں گے…دوسرے یہ کہ خالد بن ولید (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) گُھڑسوار دستہ لیے کراعِ غمیم کے مقام تک آگئے ہیں، ان کے دستے میں دوسو سوار ہیں، اور وہ آپ کے خلاف صف بندی کرچکے ہیں ۔‘‘
یہ اطلاعات ملنے پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ وہ مسلمان گھُڑ سواروں کے ساتھ آگے بڑھیں، یہ آگے بڑھے اور حضرت خالد بن ولید کے دستے کے سامنے پہنچ گئے، انھوں نے بھی صف بندی کرلی ۔
نماز کا وقت ہوا تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز شروع کی، جب مسلمان نماز سے فارغ ہوئے تو کچھ مشرکوں نے کہا:
’’ہم نے ایک اچھا موقع گنوادیا، ہم اس وقت ان پر حملہ کرسکتے تھے، جب کہ یہ نماز پڑھ رہے تھے، ہم اس وقت انہیں آسانی سے ختم کرسکتے تھے ۔‘‘
ایک اور مشرک نے کہا:
’’کوئی بات نہیں! ایک اور نماز کا وقت آرہا ہے اور نماز ان لوگوں کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے، ظاہر ہے یہ نماز پڑھے بغیر تو رہیں گے نہیں…سو ہم اس وقت ان پر حملہ کریں گے ۔‘‘
نماز عصر کا وقت ہوا تو اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھیج دیا ۔ وہ صلوٰۃِ خوف کی آیت لے کر آئے تھے، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ترجمہ:’’اور جب آپ ان کے درمیان ہوں اور آپ انہیں نماز پڑھانا چاہیں تو یوں کرنا چاہیے کہ لشکر کا ایک گروہ تو آپ کے ساتھ کھڑا ہوجائے اور وہ لوگ ہتھیار لے لیں، پھر جب یہ لوگ سجدہ کرچکیں تو یہ آپ کے پیچھے آجائیں اور دوسرا گروہ جس نے نماز نہیں پڑھی ہے، آجائے اور نماز پڑھ لے اور یہ اپنے بچاؤ کا سامان، ہتھیار وغیرہ لے لیں ۔‘‘(سورۃ النساء)
چنانچہ اس طرح نماز ادا کی گئی…یہ نمازِخوف تھی، یعنی جب دشمن سے مقابلہ ہو تو آدھا لشکر پیچھے ہٹ کر دو رکعت ادا کرلے اور واپس اپنی جگہ پر آجائے، باقی جو لوگ رہ گئے ہیں، اب وہ جاکر دو رکعت ادا کریں ۔ اس نماز کی ادائیگی کا تفصیلی طریقہ فقہ کی کتب میں دیکھا جاسکتا ہے ۔
مسلمانوں نے جب عصر کی نماز اس طرح ادا کی تو مشرک بول اٹھے:
’’افسوس! ہم نے ان کے خلاف جو سوچا تھا، اس پر عمل نہ کرسکے ۔‘‘
ادھر حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کو اطلاع ملی کہ قریشِ مکہ آپ کو بیت اللہ کی زیارت سے روکنے کا فیصلہ کرچکے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس بارے میں مشورہ کیا اور ان سے فرمایا:
’’لوگو! مجھے مشورہ دو، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ہم بیت اللہ کی زیارت کا فیصلہ کرلیں اور جو بھی ہمیں اس سے روکے، اس سے جنگ کریں ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ بات سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’اے اللہ کے رسول! آپ صرف بیت اللہ کی زیارت کا ارادہ فرماکر نکلے ہیں، آپ کا مقصد جنگ اور خوں ریزی ہرگز نہیں، اس لیے آپ اسی ارادے کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں، اگر کوئی ہمیں اس زیارت سے روکے گا تو اس سے جنگ کریں گے ۔‘‘
حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’اے اللہ کے رسول! ہم آپ سے وہ نہیں کہیں گے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ تم اور تمہارا رب جاکر جنگ کرو، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں…ہم تو آپ سے کہتے ہیں آپ اور آپ کا رب جنگ کریں، ہم بھی آپ کے ساتھ جنگ کریں گے، اور اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! اگر آپ ہمیں لیکر ’برکِ غماد‘ بھی جانا چاہیں تو ہم آپ کے ساتھ ہوں گے، ہم میں سے ایک شخص بھی پس و پیش نہیں کرے گا ۔‘‘ (برکِ غماد مدینہ منورہ سے بہت دور دراز کے ایک مقام کا نام ہے) ۔
ان دونوں حضرات کی رائے لینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’بس تو پھر اللہ کا نام لے کر آگے بڑھو ۔‘‘
چنانچہ مسلمان آگے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ حدیبیہ کے مقام پر پہنچے، اس جگہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنی خود بخود بیٹھ گئی، لوگوں نے اٹھانا چاہا، لیکن وہ نہ اٹھی، لوگوں نے کہا:
’’قصویٰ اڑ گئی ہے ۔‘‘
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر ارشاد فرمایا:
’’یہ اڑی نہیں اور نہ اڑنے کی اس کی عادت ہے، بلکہ اسے اس ذات نے روک لیا ہے، جس نے ابرہہ کے لشکر کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔‘‘
مطلب یہ تھا کہ قصویٰ خود نہیں رکی، اللہ کے حکم سے رکی ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مقام پر قیام کا حکم فرمایا، اس پر صحابہ نے عرض کیا:
’’اللہ کے رسول! یہاں پانی نہیں ہے؟‘‘
یہ سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکال کر ناجیہ بن جندب رضی اللہ عنہ کو دیا جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قربانی کے جانوروں کے نگران تھے ۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا کہ یہ تیر کسی گڑھے میں گاڑدو ۔ تیر ایک ایسے گڑھے میں گاڑ دیا گیا جس میں تھوڑا سا پانی موجود تھا ۔ فوراً ہی اس میں سے میٹھے پانی کا چشمہ ابلنے لگا، یہاں تک کہ تمام لوگوں نے پانی پی لیا، جانوروں کو بھی پانی پلایا، پھر سب جانور اسی گڑھے کے گرد بیٹھ گئے ۔
جب تک تیر اس گڑھے میں لگا رہا، اس میں سے پانی ابلتا رہا…گڑھے سے پانی ابلنے کی خبریں قریش تک بھی پہنچ گئیں…ابوسفیان نے لوگوں سے کہا:
’’ہم نے سنا ہے، حدیبیہ کے مقام پر کوئی گڑھا ظاہر ہوا ہے، اس میں سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا ہے، ذرا ہمیں بھی تو دکھاؤ، محمد نے یہ کیا کرشمہ دکھایا ہے۔‘‘
چنانچہ انہوں نے وہاں جاکر اس گڑھے کو دیکھا…گڑھے میں لگے تیر کی جڑ سے پانی نکل رہا تھا، یہ دیکھ کر ابوسفیان اور اس کے ساتھی کہنے لگے:
’’اس جیسا واقعہ تو ہم نے کبھی نہیں دیکھا، یہ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) کا چھوٹا سا جادو ہے ۔‘‘
صلح حدیبیہ
حدیبیہ پہنچ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی طرف قاصد بھیجنے کا ارادہ فرمایا تاکہ بات چیت ہوسکے…کفار پر واضح ہوجائے کہ مسلمان لڑائی کے ارادے سے نہیں آئے…بلکہ عمرہ کرنے کی نیت سے آئے ہیں…اس غرض کیلئے دو یا تین قاصد بھیجے گئے، لیکن بات نہ بن سکی…آخر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور انہیں یہ حکم دیا کہ وہ مکہ میں ان مسلمان مردوں اور عورتوں کے پاس جائیں جو وہاں پھنسے ہوئے ہیں…انہیں فتح کی خوش خبری سنائیں اور یہ خبر دیں کہ بہت جلد اللہ تعالیٰ مکہ میں اپنے دین کو سربلند فرمائیں گے، یہاں تک کہ وہاں کسی کو اپنا ایمان چھپانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔مکہ میں داخل ہونے سے پہلے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ابان بن سعید کی پناہ لی جو کہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، بعد میں مسلمان ہوئے۔ابان بن سعید نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی پناہ منظور کرلی۔انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنے آگے کرلیا…خود ان کے پیچھے چلے تاکہ لوگ جان لیں، یہ ان کی پناہ میں ہیں…اس طرح عثمان رضی اللہ عنہ قریش مکہ تک پہنچے۔انہیں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا۔جواب میں قریش نے کہا:
’’محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)ہماری مرضی کے خلاف کبھی مکہ میں داخل نہیں ہوسکتے …ہاں تم چاہو تو بیت اللہ کا طواف کرلو۔‘‘
اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر طواف کرلوں۔‘‘
قریش نے بات چیت کے سلسلے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو تین دن تک روکے رکھا، ایسے میں کسی نے یہ خبر اڑادی کہ قریش نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا ہے…اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غم زدہ ہوکر ارشاد فرمایا:
’’اب ہم اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک دشمن سے جنگ نہیں کرلیں گے۔‘‘
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے مسلمانوں سے بیعت لینے کا حکم فرمایا ہے۔‘‘
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پکار پکار کر بیعت کا اعلان کیا، اس اعلان پر سب لوگ بیعت کے لیے جمع ہوگئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایک درخت کے نیچے تشریف فرما تھے، صحابہ کرام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ان باتوں پر بیعت کی:
’’کسی حالت میں آپ کا ساتھ چھوڑ کر نہیں بھاگیں گے۔فتح حاصل کریں گے یا شہید ہوجائیں گے۔‘‘
مطلب یہ کہ یہ بیعت موت پر بیعت تھی۔اس بیعت کی خاص بات یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے خود بیعت کی…اور اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھ کر فرمایا:
’’اے اللہ! یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے، کیونکہ وہ تیرے اور تیرے رسول کے کام سے گئے ہوئے ہیں، اس لیے ان کی طرف سے میں خود بیعت کرتا ہوں۔پھر چودہ سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے باری باری بیعت کی۔ بعد میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اطلاع مل گئی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید نہیں کیا گیا…وہ زندہ سلامت ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اعلان فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مغفرت کردی، جو غزوہ بدر اور حدیبیہ میں شریک تھے۔‘‘
اس بیعت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان الفاظ میں کیا:
’’اے پیغمبر! جب مومن آپ سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے، تو اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور جو سچائی اور خلوص ان کے دلوں میں تھا، اس نے وہ معلوم کرلیا تو ان پر تسلی نازل فرمائی اور انہیں جلد فتح عنایت کی۔‘‘(سورۃ الفتح،آیت:۱۰)
ادھر قریش کو جب موت کی اس بیعت کا پتہ چلا تو وہ خوفزدہ ہوگئے، ان کے عقل مند لوگوں نے مشورہ دیا کہ صلح کرلینا مناسب ہوگا…اور صلح اس شرط پر کرلی جائے کہ مسلمان اس سال تو واپس لوٹ جائیں، آئندہ سال آجائیں اور تین دن تک مکہ میں ٹھہرکر عمرہ کرلیں۔جب یہ مشورہ طے پاگیا تو انہوں نے بات چیت کے لیے سہیل بن عمرو کو بھیجا، اس کے ساتھ دو آدمی اور تھے۔سہیل آپ کے سامنے پہنچ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا، بات چیت شروع ہوئی، سہیل نے بہت لمبی بات کی، آخر صلح کی بات چیت طے ہوگئی۔دونوں فریق اس بات پر راضی تھے کہ خوں ریزی نہیں ہونی چاہئے، بلکہ صلح کرلی جائے۔صلح کی بعض شرائط بظاہر بہت سخت تھیں۔
اس معاہدے میں یہ شرائط لکھی گئیں:
۱۔ دس سال تک آپس میں کوئی جنگ نہیں کی جائے گی۔
۲۔ جو مسلمان اپنے ولی اور سرپرست کی اجازت کے بغیر مکہ سے بھاگ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے گا، اللہ کے رسول اسے واپس بھیجنے کے پابند ہوں گے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔(یہ شرط ظاہر میں مسلمانوں کے لیے بہت سخت تھی، لیکن بعد میں ثابت ہوا کہ یہ شرط بھی دراصل مسلمانوں کے حق میں تھی۔کیونکہ اس طرح بیت اللہ مسلمانوں سے آباد رہا اور دین کا کام جاری رہا۔)
۳۔ کوئی شخص جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو اور وہ بھاگ کر قریش کے پاس آجائے تو قریش اسے واپس نہیں کریں گے۔
۴۔ کوئی شخص، یا کوئی خاندان یا کوئی قبیلہ اگر مسلمانوں کا حلیف(معاہدہ بردار)بننا چاہے تو بن سکتا ہے اور جو شخص یا خاندان یا قبیلہ قریش کا حلیف بننا چاہے تو وہ ان کا حلیف بن سکتا ہیں۔
۵۔ مسلمانوں کو اس سال عمرہ کیے بغیر واپس جانا ہوگا، البتہ آئندہ سال تین دن کے لیے قریش مکہ کو خالی کردیں گے، لہٰذا مسلمان یہاں غیر مسلح حالت میں آکر ٹھہر سکتے ہیں اور عمرہ کرسکتے ہیں۔
یہ شرائط بظاہر قریش کے حق میں اور مسلمانوں کے خلاف تھیں۔اس لیے صحابہ کرام کو ناگوار بھی گزریں، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ناگواری محسوس کی، وہ سیدھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور بولے:
’’ابوبکر! کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول نہیں ہیں۔‘‘
حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’بے شک حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
اس پر فاروق اعظم بولے:
’’کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ ‘‘
ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’بالکل! ہم مسلمان ہیں۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’کیا وہ لوگ مشرک نہیں ہیں؟‘‘
ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ بولے:
’’ہاں! بے شک وہ مشرک ہیں۔‘‘
اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’تب پھر ہم ایسی شرائط کیوں قبول کریں…جن سے مسلمان نیچے ہوتے ہیں۔‘‘
اس وقت حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے بہت ہی خوب جواب دیا، فرمایا:
’’اے عمر! وہ اللہ کے رسول ہیں…ان کے احکامات اور فیصلوں پر سر جھکاؤ، اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرتا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوراً بولے:
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسی قسم کے سوالات کیے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی باتوں کے جواب میں جو الفاظ فرمائے وہ بالکل وہی تھے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرما چکے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں ۔ میں کسی حالت میں بھی اللہ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا، وہی میرا مددگار ہے۔‘‘
اسی وقت حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بول اٹھے:
’’اے عمر! جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں، کیا تم اس کو سن نہیں رہے ہو؟ ہم شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔‘‘
تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی بولے:
’’میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
’’اے عمر! میں تو ان شرائط پر راضی ہوں اور تم انکار کررہے ہو۔‘‘
چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے، میں نے اس وقت جو باتیں کی تھیں، اگرچہ وہ اس تمنا میں تھیں، کہ اس معاملے میں خیر اور بہتری ظاہر ہو، مگر اپنی اس وقت کی گفتگو کے خوف سے میں اس کے بعد ہمیشہ روزے رکھتا رہا، صدقات دیتا رہا، نمازیں پڑھتا رہا اور غلام آزاد کرتا رہا۔
پھر اس صلح کی تحریر لکھی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اوس بن خولہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ یہ معاہدہ لکھیں، اس پر سہیل بن عمرو نے کہا:
’’یہ معاہدہ علی لکھیں گے یا پھر عثمان۔ ‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معاہدہ لکھنے کا حکم فرمایا اور فرمایا لکھو:
’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔‘‘
اس پر سہیل بن عمرو نے پھر اعتراض کیا:
’’میں رحمن اور رحیم کو نہیں مانتا…آپ یوں لکھوائیں ’’بِسْمِکَ اَللّٰہُم‘‘(یعنی شروع کرتا ہوں، اے اللہ تیرے نام سے)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’اسی طرح لکھ دو۔‘‘
انہوں نے لکھ دیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لکھو! محمد رسول اللہ نے ان شرائط پر سہیل بن عمرو سے صلح کی۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ لکھنے لگے، لیکن سہیل بن عمرو نے پھر اعتراض کیا:
’’اگر میں یہ شہادت دے چکا ہوتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، تو پھر نہ تو آپ کو بیت اللہ سے روکا جاتا نہ آپ سے جنگ ہوتی، اس لیے یوں لکھئے:
’’محمد ابن عبداللہ ‘‘
فتح مبین
اس وقت تک حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور اکرمﷺ کے ارشاد کے مطابق وہ عبارت لکھ چکے تھے، اس لیے آپ ﷺ نے ان سے فرمایا:
’’اس کو مٹادو۔‘‘ (یعنی لفظ رسول اللہ کو مٹادو)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
’’میں تو کبھی نہیں مٹاسکتا۔‘‘
اس پر رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا:
’’مجھے دکھاؤ۔یہ لفظ کس جگہ لکھاہے؟ ‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لفظ آپ ﷺ کو دکھایا، حضور اقدس ﷺ نے خود اپنے دست مبارک سے اسے مٹادیا۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لکھنے کا حکم فرمایا، لکھو:
’’یہ وہ سمجھوتا ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے سہیل بن عمرو کے ساتھ صلح کی۔‘‘
اس کے بعد حضور اقدس ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ کی قسم! میں اللہ کا رسول ہوں، چاہے تم مجھے جھٹلاتے رہو اور میں ہی محمد ابن عبداللہ ہوں۔‘‘
یہ معاہدہ ابھی لکھا جارہاتھا کہ اچانک ایک مسلمان حضرت ابو جندل ابن سہیل رضی اللہ عنہ اپنی بیڑیوں کو کھینچتے وہاں تک آپہنچے۔مشرکوں نے انھیں قید میں ڈال رکھاتھا۔ان کا جرم یہ تھا کہ اسلام کیوں قبول کیا…اسلام چھوڑ دو یا پھر قید میں رہو…یہ ابو جندل رضی اللہ عنہ اسی سہیل بن عمرو کے بیٹے تھے جو معاہدہ طے کررہاتھا۔یہ کسی طرح قید سے نکل کر وہاں تک آگئے تھے تاکہ اس ظلم سے نجات مل جائے۔
انہیں دیکھ کر سب مسلمان خوش ہوگئے اور جان بچاکر نکل آنے پر انھیں مبارک باد دینے لگے۔ادھر جونہی سہیل نے اپنے بیٹے کو دیکھا تو یک دم کھڑا ہوا، اور ایک زناٹے دار تھپڑ ان کے منہ پر دے مارا۔یہ بھی روایت آئی ہے کہ اس نے انھیں چھڑی سے مارا پیٹا۔مسلمان ان کی یہ حالت دیکھ کر رو پڑے۔اب سہیل نے انھیں گریبان سے پکڑ لیا اور نبی کریمﷺ سے بولا:
’’اے محمد! یہ پہلا مسلمان ہے جو ہم لوگوں کے پاس سے یہاں آگیاہے، اس معاہدے کے تحت آپ اسے واپس کریں، کیونکہ یہ معاہدہ لکھا جاچکاہے۔‘‘
اس کی بات سن کر حضور اکرمﷺ نے فرمایا:
’’ ٹھیک ہے، لے جاؤ۔‘‘
اس پر ابوجندل رضی اللہ عنہ بے قرار ہو کر بولے:
’’ کیا آپ مجھے پھر ان مشرکوں کے ساتھ واپس بھیج دیں گے؟‘‘
اسلام لانے کی وجہ سے حضرت ابوجندل رضی اللہ عنہ پر بہت ظلم ڈھائے گئے تھے۔لہٰذا اس صورت حال پر سب لوگ بری طرح بے چین ہوگئے۔اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا:
’’ابوجندل! صبر اور ضبط سے کام لو، اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اور تم جیسے اور مسلمانوں کے لیے کشادگی اور سہولت پیدا فرمانے والا ہے، ہم قریش سے ایک معاہدہ کرچکے ہیں۔اس معاہدے کی رو سے ہم تمہیں واپس بھیجنے کے پابند ہیں۔ہم نے انہیں اللہ کے نام پر عہد دیا ہے، لہٰذا اس کی خلاف ورزی ہم نہیں کریں گے۔‘‘
مسلمانوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے…وہ بیتاب ہوگئے…حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے شخص بھی رو پڑے…لیکن معاہدے کی وجہ سے سب مجبور تھے۔اس طرح ابوجندل رضی اللہ عنہ کو واپس بھیج دیا گیا۔
ابوجندل رضی اللہ عنہ کا اصل نام عاص تھا۔ابوجندل ان کی کنیت تھی، ان کے ایک بھائی عبداللہ بن سہیل تھے جو کہ ان سے بھی پہلے مسلمان ہوچکے تھے۔عبداللہ بن سہیل رضی اللہ عنہ اس طرح مسلمان ہوئے تھے کہ مشرکوں کے ساتھ بدر کے میدان میں مسلمانوں سے لڑنے کے لیے آئے تھے…لیکن بدر کے میدان میں آتے ہی یہ کافروں کا ساتھ چھوڑ کر مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوگئے تھے۔
اس معاہدے کے بعد بنو خزاعہ کے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوست قبیلے کی حیثیت سے شامل ہوگئے، یعنی مسلمانوں کے حلیف بن گئے۔
معاہدہ لکھا جاچکا تو دونوں کی طرف سے اہم لوگوں نے اس پر بطور گواہ دستخط کیے، معاہدے سے فارغ ہوکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈوانے اور قربانی کا حکم فرمایا۔بلکہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈوایا اور قربانی کی، پھر تمام مسلمانوں نے بھی ایسا کیا۔
پھر جب مسلمان اس مقام سے واپس روانہ ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ فتح نازل ہوئی۔اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں یہ خوش خبری سنائی کہ بے شک آپ کو ایک کھلی فتح دے دی گئی اور اللہ کی نعمت آپ پر تمام ہونے والی ہے۔
سفر کے دوران ایک مقام پر خوراک ختم ہوگئی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر بچھانے کا حکم فرمایا۔پھر حکم فرمایا کہ جس کے پاس جو کچھ بچا کچا کھانا ہو، اس چادر پر ڈال دے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔پھر سب کو حکم دیا، اس چادر سے اپنے اپنے برتن بھر لیں، چنانچہ سب نے برتن بھرلیے، خوب سیر ہوکر کھایا، لیکن کھانا جوں کا توں بچارہا۔اس موقع پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور ارشاد فرمایا:
’’اَشہدُ اَنْ لَّا اِلٰہ اِلاّاللہُ وَاَنَّیْ رَسُوْلُ اللہ۔ اللہ کی قسم ان دو گواہیوں کے ساتھ جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوگا، دوزخ سے محفوظ رہے گا۔‘‘
جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ فتح نازل ہوئی تو جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول! آپ کو یہ فتح مبارک ہو۔‘‘
اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبارک باد دی۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’اسلام میں صلح حدیبیہ سے بڑی مسلمانوں کو کوئی فتح نہیں ہوئی۔‘‘
یعنی یہ اس قدر بڑی فتح تھی…جب کہ لوگ اس کی حقیقت کو اس وقت بالکل نہیں سمجھ سکے تھے، جب معاہدہ لکھا جارہا تھا۔
سہیل بن عمرو جنہوں نے یہ معاہدہ لکھا تھا…بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔حجتہ الودع کے موقع پر انہیں اس جگہ پر کھڑے دیکھا گیا تھا جہاں قربانیاں کی جاتی ہیں۔وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قربانی کے جانور پیش کررہے تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دست مبارک سے انہیں ذبح کررہے تھے۔اس کے بعد سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا سر منڈانے کے لیے حجام بلایا۔اس وقت یہ منظر دیکھا گیا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا جو بال بھی گرتا تھا، سہیل بن عمرو اسے اپنی آنکھوں سے لگاتے تھے۔اندازہ لگایئے ان میں کس قدر زبردست تبدیلی آچکی تھی…صلح حدیبیہ کے موقع پر وہ رسول اللہ کا لفظ لکھے جانے پر طیش میں آگئے تھے اور اب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کو آنکھوں سے لگارہے تھے۔
اسی سال چھ ہجری کو شراب حرام ہوئی، حکم آنے پر لوگوں نے شراب کے مٹکے توڑ دیے اور شراب بارش کے پانی کی طرح نالیوں میں بہتی نظر آئی۔
خیبرکی فتح
خیبر ایک بڑا قصبہ تھا۔اس میں یہودیوں کی بڑی بڑی حویلیاں، کھیت اور باغات تھے۔یہ یہودی مسلمانوں کو بہت ستاتے تھے اور اسلام کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔مدینہ منورہ سے خیبر کا فاصلہ 150 کلومیٹر کا ہے۔حدیبیہ سے تشریف لانے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ تک یا اس سے کچھ کم مدت تک یعنی ذی الحجہ 6 ھ کے آخر تک مدینہ ہی میں رہے اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں سے صرف ان لوگوں کو چلنے کا حکم فرمایا جو حدیبیہ میں بھی ساتھ تھے، جو لوگ حدیبیہ کے سفر میں نہیں گئے تھے، انہوں نے بھی چلنے کا ارادہ ظاہر کیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’میرے ساتھ چلنا ہے تو صرف جہاد کے ارادے سے چلو، مال غنیمت میں سے تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔‘‘
مدینہ منورہ سے روانہ ہوتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سباع بن عرفطہ رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام مقرر فرمایا۔اس غزوے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا بھی ہمراہ تھیں۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب خیبر کے سامنے پہنچے تو یہ صبح کا وقت تھا۔حضرت عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے پیچھے پیچھے تھا۔ایسے میں میں نے ’’لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ‘‘ پڑھا۔
میرے منہ سے یہ کلمہ سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اے عبداللہ! کیا میں تمہیں ایسا کلمہ نہ بتادوں جو جنت کے خزانوں میں سے ہے؟‘‘
میں نے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول! ضرور بتایئے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’وہ یہی کلمہ ہے جو تم نے پڑھا ہے، یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے اور یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔‘‘
خیبر کے لوگوں نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لشکر کو دیکھا تو چیختے چلاتے میدانوں اور کھلی جگہوں میں نکل آئے اور پکار اٹھے:
’’محمد! ایک زبردست لشکر لے کر آگئے ہیں۔‘‘
یہودیوں کی تعداد وہاں تقریباً دس ہزار تھی، اور وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ مسلمان ان سے مقابلہ کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوں گے۔جب مسلمان جنگ کی تیاری کررہے تھے تو اس وقت بھی حیران ہو ہو کر کہہ رہے تھے:
’’حیرت ہے…کمال ہے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے ان قلعوں میں سے سب سے پہلے ایک قلعہ نطات کی طرف توجہ فرمائی اور اس کا محاصرہ کرلیا۔اس مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسجد بھی بنوائی۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جتنے دن خیبر میں رہے، اسی مسجد میں نماز ادا فرماتے رہے۔اس جنگ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو زرہیں پہن رکھی تھیں اور گھوڑے پر سوار تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑے کا نام ظرب تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں نیزہ اور ڈھال بھی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کو پرچم دیا۔وہ پرچم اٹھائے آگے بڑھے۔انہوں نے زبردست جنگ کی، لیکن ناکام لوٹ آئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پرچم ایک دوسرے صحابی کو دیا، وہ بھی ناکام لوٹ آئے۔محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کے بھائی محمود بن مسلمہ رضی اللہ عنہ قلعہ کی دیوار کے نیچے تک پہنچ گئے۔لیکن اوپر سے مرحب نامی یہودی نے ان کے سر پر ایک پتھر دے مارا اور وہ شہید ہوگئے۔کہا جاتا ہے کہ قلعہ کی دیوار کے قریب انہوں نے بہت سخت جنگ کی تھی، جب بالکل تھک گئے تو اس قلعہ کی دیوار کے سائے میں دم لینے لگے۔اسی وقت اوپر سے مرحب نے پتھر گرایا تھا۔
قلعہ نطات کے لوگ سات دن تک برابر جنگ کرتے رہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر جنگ کے لیے نکلتے رہے۔پڑاؤ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو نگراں بناتے۔شام کے وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ واپس آجاتے۔زخمی مسلمان بھی وہیں پہنچا دیے جاتے۔رات کے وقت ایک دستہ لشکر کی نگرانی کرتا، باقی لشکر سوجاتا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نگرانی کرنے والے دستے کے ساتھ گشت کے لیے نکلتے۔کئی روز تک جب قلعہ فتح نہ ہوا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’آج میں پرچم اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں، اور وہ پیٹھ دکھانے والا نہیں، اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر فتح عطا فرمائیں گے اور اس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے بھائی کے قاتل پر قابو عطا فرمائے گا۔‘‘
صحابہ کرام نے جب یہ اعلان سنا تو ہر ایک نے چاہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پرچم اسے دیں، مگر پھر رسول اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو طلب فرمایا۔ان دنوں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔چنانچہ لوگوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ ان کی تو آنکھیں دکھنے آئی ہوئی ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ کوئی انہیں میرے پاس لے آئے، تب حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ گئے اور انہیں لے آئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا سر اپنی گود میں رکھا اور پھر ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈالا۔لعاب کا آنکھوں میں لگنا تھا کہ وہ اسی وقت ٹھیک ہوگئیں۔یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ان میں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’اس کے بعد زندگی بھر میری آنکھوں میں کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔‘‘پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پرچم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مرحمت فرمایا اور ارشاد فرمایا:
’’جاؤ اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ پرچم کو لہراتے ہوئے قلعہ کی طرف روانہ ہوئے، پھر قلعہ کے نیچے پہنچ کر انہوں نے جھنڈے کو نصب کردیا، قلعہ کے اوپر بیٹھے ہوئے ایک یہودی نے انہیں دیکھ کر پوچھا:
’’تم کون ہو؟ ‘‘
جواب میں انہوں نے فرمایا:
’’میں علی ابن ابی طالب ہوں۔‘‘
اس پر یہودی نے کہا:
’’تم لوگوں نے بہت سر اٹھایا ہے، حالانکہ حق وہی ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔‘‘
پھر یہودی قلعہ سے نکل کر ان کی طرف بڑھے، ان میں سب سے آگے حرش تھا۔وہ مرحب کا بھائی تھا۔یہ شخص اپنی بہادری کے سلسلے میں بہت مشہور تھا، اس نے نزدیک آتے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر حملہ کیا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کا وار روکا اور جوابی حملہ کیا، اس طرح دونوں کے درمیان تلوار چلتی رہی۔آخر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے خون میں نہلادیا…اس کے گرتے ہی مرحب آگے آیا۔یہ اپنے بھائی سے زیادہ بہادر اور جنگ جو تھا۔آتے ہی اس نے زبردست حملہ کیا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تلوار کا وار کیا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کی تلوار کو اپنی ڈھال پر روکا …حملہ اس قدر سخت تھا کہ ڈھال ان کے ہاتھ سے نکل کر دور جاگری۔مرحب اس وقت دو زرہیں پہننے ہوئے تھا، دو تلواریں لگا رکھی تھی اور عمامے بھی دو پہن رکھے تھے۔ان کے اوپر خود پہن رکھا تھا۔دیکھنے کے لیے خود میں آنکھوں کی جگہ دو سوراخ کررکھے تھے، اس کے ہاتھ میں نیزہ تھا، اس میں تین پھل لگے تھے۔
اب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس پر وار کیا اور ان کی تلوار اسے کاٹتی چلی گئی۔اس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کردیا۔مرحب کے بعد اس کا بھائی یاسر آگے آیا۔
وہ آگے آکر للکارا:
’’کون ہے جو میرے مقابلے میں آئے گا۔‘‘
حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ مسلمانوں کی طرف سے آگے آئے اور اسے ٹھکانے لگادیا۔
خیبر کی جنگ ہورہی تھی کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔اس کا نام اسود راعی تھا اور وہ یہودی تھا۔ایک شخص کا غلام تھا،اس کی بکریاں چراتا ہوا اس طرف آگیا تھا، اس نے کہا:
’’اے اللہ کے رسول! مجھے اسلام کے بارے میں بتایئے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختصر طور پر اسلام کی خوبیاں بیان فرمائیں اور اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، اس نے فوراً کلمہ پڑھ لیا۔اس کے بعد یہ اسود راعی رضی اللہ عنہ تلوار لے کر مسلمانوں کے ساتھ قلعہ کی طرف بڑھے اور جنگ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔جب ان کی لاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے اس غلام کو بلند مرتبہ عطا فرمایا ہے۔‘‘
اسود رضی اللہ عنہ کس قدر خوش قسمت تھے، نہ کوئی نماز پڑھی، نہ روزہ رکھا…نہ حج کیا، لیکن پھر بھی جنت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ آخر یہ قلعہ فتح ہوگیا۔اس قلعے کے محاصرے کے دوران مسلمانوں کو کھانے کی تنگی ہوگئی۔وہ بھوک سے بے حال ہونے لگے، لوگوں نے اس تنگی کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی:
’’اے اللہ! ان قلعوں میں سے اکثر قلعوں کواس حال میں فتح کرا کہ ان میں رزق اور گھی کی بہتات ہو۔‘‘
خیبر کے قلعے
اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حباب بن منذر رضی اللہ عنہ کو پرچم عنایت فرمایا اور لوگوں کو جنگ کے لئے جوش دلایا۔ ناعم نامی قلعہ میں سے جولوگ یہودیوں میں سے جان بچاکر نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے، وہ وہاں سے صعب نامی قلعہ میں پہنچ گئے، یہ فطات کے قلعوں میں سے ایک تھا، اس قلعہ کا محاصرہ دو دن تک جاری رہا۔ قلعہ میں یہودیوں کے پانچ سو جانباز تھے، محاصرے کے بعد اس میں سے ایک جنگ جو نکل کر میدان میں آیا اور مقابلے کے لئے للکارا، اس جنگ جو کا نام یوشع تھا، اس کے مقابلے کے لئے حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ گئے اور اسے پہلے ہی وار میں قتل کرنے میں کامیاب رہے، اس کے بعد دوسرا یہودی نکلا، اس نے بھی مقابلے کے لئے للکارا، اس کا نام دیال تھا، اس کے مقابلے کے لئے حضرت عمارہ بن عقبہ غفاری رضی اللہ عنہ نکلے، انہوں نے ایک دم دیال کی کھوپڑی پر وار کردیا اور بولے:
’’لے سنبھال، میں ایک غفاری ہوں۔‘‘
دیال پہلے ہی وار میں ڈھیر ہوگیا۔ اب یہودیوں نے زبردست حملہ کیا، اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو پسپا ہونا پڑا اور وہ ادھر ادھر بکھرتے چلے گئے، یہودی آگے بڑھتے رہے، یہاں تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت گھوڑے سے اتر کر نیچے کھڑے تھے، اس حالت میں حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ پوری طرح ثابت قدم رہے اور جم کر لڑتے رہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو پکارا اور جوش دلایا تو وہ پلٹ کر یہودیوں پر حملہ آور ہوئے، انہوں نے یہودیوں پر ایک بھرپور حملہ کیا، حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے دشمن پر زبردست یلغار کی، یہودی اس حملے کی تاب نہ لاسکے اور تیزی سے پسپا ہوئے، یہاں تک کہ اپنی حویلیوں تک پہنچ گئے، اندر گھستے ہی انہوں نے دروازے بند کرلیے، اب مسلمانوں نے یلغار کی اور یہودیوں کو قتل کرنے لگے، ساتھ میں انہیں گرفتار کرنے لگے، آخر قلعہ فتح ہوگیا۔ اس قلعہ میں مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر گیہوں، کھجوریں، گھی، شہد، شکر، زیتون کا تیل اور چربی ہاتھ آئی، یہاں سے مسلمانوں کو بہت سا جنگی سامان بھی ہاتھ لگا۔ اس میں منجنیق، زرہیں، تلواریں وغیرہ شامل تھیں۔ اس قلعہ سے جو یہودی جان بچاکر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے، انہوں نے قلّہ نامی قلعہ میں پناہ لی، یہ قلعہ ایک پہاڑ کی چوٹی پر تھا، مسلمانوں نے اس کا بھی محاصرہ کرلیا، ابھی محاصرے کو تین دن گزرے تھے کہ ایک یہودی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا:
’’اے ابوالقاسم! آپ اگر میری جان بخشی کردیں تو میں آپ کو ایسی اہم خبریں دوں گا کہ آپ اطمینان سے قلعہ فتح کرلیں گے۔ ورنہ آپ اگر اس قلعہ کا ایک مہینے تک محاصرہ کئے رہے تو بھی اس کو فتح نہیں کرسکیں گے، کیوں کہ اس قلعہ میں زمین دوز نہریں ہیں، وہ لوگ رات کو نکل کر نہروں میں سے ضرورت کا پانی لے لیتے ہیں، اب اگر آپ ان کا پانی بند کردیں تو یہ لوگ آسانی سے شکست مان لیں گے۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے امان دے دی، اس کے بعد اس کے ساتھ ان نہروں پر تشریف لے گئے اور یہودیوں کا پانی بند کردیا، اب یہودی قلعہ سے باہر نکلنے پر مجبور ہوگئے۔ خون ریز جنگ ہوئی اور آخر کار یہودی شکست کھاگئے، اس طرح مسلمانوں نے فطات کے تینوں حصے فتح کرلئے۔ اب وہ شق کے قلعوں کی طرف بڑھے، اس میں بھی کئی قلعہ تھے۔مسلمان سب سے پہلے قلعہ ابئ کی طرف بڑھے، یہاں زبردست جنگ ہوئی، سب سے پہلے یہودیوں میں سے ایک جنگ جو باہر نکلا، اس کا نام غزوال تھا، اس نے مسلمانوں کو مقابلے کی دعوت دی، اس کی للکار پر حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ آگے آئے، انہوں نے نزدیک پہنچتے ہی غزوال پر حملہ کردیا، پہلے ہی وار میں اس کا دایاں ہاتھ کلائی پر سے کٹ گیا…وہ زخمی ہوکر واپس بھاگا، حضرت حباب رضی اللہ عنہ نے اس کا پیچھا کیا…اور بھاگتے بھاگتے دوسرا وار کیا۔یہ وار غزوال کی ایڑی پر لگا، زخم کھا کر وہ گرا، اسی وقت حباب رضی اللہ عنہ نے اس کا کام تمام کردیا۔
اس وقت ایک اور یہودی مقابلے کے لیے نکلا، اس کے مقابلے میں ایک اور مسلمان آئے، لیکن وہ اس کے ہاتھوں شہید ہوگئے، یہودی اپنی جگہ کھڑا رہا، اس مرتبہ اس کے مقابلے کے لیے مسلمانوں میں سے حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ نکلے اور نزدیک پہنچتے ہی اس پر حملہ آور ہوئے، پہلے وار میں انہوں نے اس کا پاؤں کاٹ ڈالا اور دوسرے وار میں اس کا کام تمام کردیا۔
پھر کسی یہودی نے میدان میں آکر مسلمانوں کو نہ للکارا، اس پر مسلمانوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور قلعہ پر حملہ کردیا۔مسلمان قلعہ کے اندر گھس گئے۔ان میں سب سے آگے ابودجانہ رضی اللہ عنہ تھے، اس قلعہ سے بھی مسلمانوں کو بہت مال ہاتھ لگا، مویشی اور کھانے پینے کا سامان بھی ملا۔قلعہ میں جو لوگ تھے، وہ وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے اور انہوں نے شق کے دوسرے قلعہ میں پناہ لی، اس کا نام قلعہ بری تھا۔شق کے دو ہی قلعے تھے۔ایک ابئ اور دوسرا بری۔ قلعہ بری میں یہودیوں نے بہت زبردست حفاظتی انتظام کر رکھے تھے، ان لوگوں نے مسلمانوں پر بہت سخت تیراندازی کی، پتھر بھی برسائے، بعض تیر تو اس جگہ آکر گرے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مٹھی کنکریوں کی اٹھائی اور اس کو قلعہ کی طرف پھینک دیا۔
ان کے پھینکنے سے یہ قلعہ لرز اٹھا، یہودی بھاگ نکلے، یہاں سے بھی مسلمانوں کو مال غنیمت ہاتھ آیا، یہودیوں کے برتن بھی ہاتھ لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ان کو دھوکر استعمال میں لاؤ۔
اس طرح فطات اور شق کے پانچ قلعوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔ان جگہوں سے بھاگنے والے یہودیوں نے کتیبہ کے قلعوں میں پناہ لی، کتیبہ کے بھی تین قلعہ تھے۔ان میں سب سے پہلے قلعہ کا نام غوص تھا۔دوسرے کا وطیع اور تیسرے کا نام سلالم تھا، ان تمام تر قلعوں میں غوص کا قلعہ سب سے بڑا اور مضبوط تھا۔مسلمان بیس دن تک اس کا محاصرہ کیے رہے۔آخر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ نے اس قلعہ کو بھی فتح کرادیا، اسی قلعہ سے حضرت صفیہ بنت حئی بن اخطب گرفتار ہوئیں۔بعد میں اللہ تعالیٰ نے یہ اعزاز عطا فرمایا کہ مسلمان ہوئیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں شامل ہوئیں۔
قموص کی فتح کے بعد مسلمانوں نے قلعہ وطیع اور قلعہ سلالم کا محاصرہ کرلیا۔دونوں کا محاصرہ چودہ دن تک رہا مگر دونوں میں سے کوئی شخص باہر نہ نکلا۔چودہ دن بعد انہوں نے صلح کی درخواست کی، اس شرط پر صلح ہوگئی کہ یہ یہودی اپنے بیوی بچوں کو لے کر وہاں سے نکل جائیں گے اور بدن کے کپڑوں کے علاوہ کوئی چیز نہیں لے جائیں گے، اس طرح یہ دونوں قلعے بغیر خون ریزی کے فتح ہوئے، مسلمانوں کے ہاتھ ایک بڑا خزانہ بھی لگا۔
خیبر ہی میں آپ کی خدمت میں اشعری اور دوسی قبیلے کے لوگ حاضر ہوئے، اشعری لوگوں میں حضرت ابو موسیٰ اشعری بھی تھے۔اور دوسیوں میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تھے۔ان حضرات کو بھی مال غنیمت دیا گیا۔
خیبر کی فتح کے موقع پر حبشہ سے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے۔انہوں نے مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی، یہ اس موقع پر وہاں لوٹے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے، کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا۔ان کی پیشانی پر بوسہ دیا، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا، مجھے خیبر کی فتح کی زیادہ خوشی ہے یا جعفر کے آنے پر زیادہ خوشی ہے۔‘‘
اس وقت حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حبشہ کے رہنے والے بہت سے لوگ بھی تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سورۃ یاسین پڑھ کر سنائی، اس کو سن کر یہ لوگ رو پڑے اور ایمان لے آئے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زبردست خاطر تواضع فرمائی اور فرمایا:
’’ان لوگوں نے میرے صحابہ کی بہت عزت افزائی کی تھی۔‘‘
مطلب یہ تھا کہ جب مکہ کے مشرکوں نے مسلمانوں پر ظلم ڈھائے تھے تو بہت سے مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے تھے، اس وقت وہاں ان کی بہت عزت افزائی ہوئی تھی۔
حبشہ سے جو لوگ آئے تھے، ان میں حضرت اُمّ حبیبہ بنت ابوسفیان رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں شامل تھیں، حبشہ میں رہتے ہوئے ان کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا۔مکہ سے دوسری ہجرت کے موقع پر انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی۔اس وقت ان کا پہلا خاوند عبداللہ بن حجش ساتھ تھا۔لیکن حبشہ پہنچ کر وہ مرتد ہوگیا تھا۔اس نے عیسائی مذہب قبول کرلیا تھا اور اسی حالت میں مرگیا تھا۔جب کہ اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا اسلام پر قائم رہی تھیں۔ 7ھ محرم کے مہینے میں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن امیہ خمری رضی اللہ عنہ کو نجاشی کے پاس بھیجا تھا تاکہ وہ اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ سے کردیں، چنانچہ یہ نکاح نجاشی نے پڑھایا تھا۔اس نکاح سے پہلے حضرت اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے ایک خواب دیکھا تھا، اس میں انہیں کوئی پکارنے والا ’’اُمّ المومنین ‘‘کہہ کر پکار رہا تھا، اس سے اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا گھبرا سی گئیں، جب انہیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نکاح کا پیغام ملا تو تب انہیں اس کی تعبیر معلوم ہوئی۔ان کا مہر بھی شاہ نجاشی کی طرف سے ادا کیا گیا…شادی کا کھانا بھی انہیں کی طرف سے کھلایا گیا، نجاشی کی جس کنیز کے ذریعے یہ سارے معاملات طے ہوئے۔وہ کنیز بھی اللہ کے رسول پر ایمان لے آئی تھیں اور انہوں نے اپنے ایمان لانے کا پیغام حضرت اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا کے ذریعے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تھا، آپ کو جب اس کنیز کا پیغام ملا تو آپ مسکرائے اور فرمایا :’’اس پر سلامتی ہو۔‘‘
قتل کا ناکام منصوبہ
خیبر کی فتح کے بعد وہاں کی ایک بستی فدک کے لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، جو لوگ حاضر ہوئے، ان کے سردار کا نام نون بن یوشع تھا۔اس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
’’ہم اس بات پر صلح کرنے کے لیے تیار ہیں کہ ہماری جان بخشی کردی جائے اور ہم لوگ اپنا مال اور سامان لے کر فدک سے جلاوطن ہوجائیں۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات منظور فرمالی، اس سلسلے میں ایک روایت یہ ہے کہ یہودیوں نے فدک کا نصف دینے کی بات کی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منظور فرمایا تھا۔
یہاں ایک بات کی وضاحت کرنا بہتر ہوگا، فدک کی یہ بستی چونکہ جنگ کے بغیر حاصل ہوگئی تھی، اس لیے یہ مال فے تھا، یعنی دشمن سے جنگ کیے بغیر حاصل کیا جانے والا مال جس کے خرچ کا مسلمانوں کے حکمران کو اختیار ہوتا ہے۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی آمدنی میں سے اپنے گھر والوں پر بھی خرچ کیا کرتے تھے، بنی ہاشم کے چھوٹے بچوں کی پرورش بھی اس کی آمدنی سے فرماتے تھے۔بنی ہاشم کی بیواؤں کی شادیاں کرتے تھے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سمجھا کہ فدک کا علاقہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت تھا۔لہٰذا مجھے وراثت میں ملنا چاہیے۔چنانچہ انہوں نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ فدک کا علاقہ انہیں دیا جائے۔ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں مسئلہ سمجھایا اور فرمایا:
’’رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم نبیوں کی میراث تقسیم نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں، وہ مسلمانوں کے لیے صدقہ ہوتا ہے۔‘‘
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا مطمئن ہوگئیں اور پھر دوبارہ یہ مطالبہ نہ کیا۔
جس زمانے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیبر پہنچے تھے اس وقت کھجوریں ابھی پکی نہیں تھی، چنانچہ کچی کھجوروں کو کھانے سے اکثر صحابہ بخار میں مبتلا ہوگئے، انہوں نے اپنی پریشانی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
’’گھڑوں میں پانی بھرلو اور ٹھنڈا کرلو، فجر کے وقت اللہ کا نام پڑھ کر اس پانی کو اپنے اوپر ڈالو۔‘‘
صحابہ نے اس ہدایت پر عمل کیا تو ان کا بخار جاتا رہا۔خیبر کی جنگ میں سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ زخمی ہوگئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ ان کے زخموں پر دم کیا، انہیں اسی وقت آرام آگیا۔
اس غزوے میں ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قضائے حاجت کے لیے جانا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ دیکھو، کوئی اوٹ کی جگہ نظر آرہی ہے یا نہیں۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے چاروں طرف دیکھا،کوئی اوٹ کی جگہ نظر نہ آئی، البتہ انہیں ایک اکیلا درخت نظر آیا، انہوں نے بتایا کہ صرف درخت نظر آرہا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اِدھر اُدھر دیکھو، کوئی اور اوٹ کی چیز نظر آتی ہے۔‘‘
اب انہوں نے پھر اِدھر اُدھر دیکھا تو ایک اور درخت کافی دور نظر آیا، انہوں نے اس دوسرے درخت کے بارے میں آپ کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ان دونوں درختوں سے کہو، اللہ کے رسول تمہیں حکم دیتے ہیں کہ دونوں ایک جگہ جمع ہوجاؤ…یعنی آپس میں مل جاؤ۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان دونوں درختوں کو مخاطب کرکے یہ بات کہہ دی، فوراً دونوں درخت حرکت میں آئے اور ایک دوسرے سے مل گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا پردہ بنالیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فارغ ہونے کے بعد دونوں درخت اپنی جگہ پر لوٹ گئے۔
جب خیبر فتح ہوگیا تو ایک عورت مسلمانوں کی طرف آتی نظر آئی، وہ لوگوں سے پوچھ رہی تھی کہ اللہ کے رسول کو بکری کے گوشت کا کون سا حصہ زیادہ پسند ہے، لوگوں نے اسے بتایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دستی کا گوشت پسند ہے۔
اس عورت کا نام زینب تھا، یہ مرحب کی بھتیجی اور سلام بن مشکم یہودی کی بیوی تھی۔یہ بات معلوم کرنے کے بعد وہ واپس لوٹ گئی، اس نے ایک بکری کو ذبح کیا، پھر اس کو بھونا اور اس کے دستی والے حصے میں زہر ملادیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز پڑھاکر واپس تشریف لائے تو اس عورت کو منتظر پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے آنے کا سبب پوچھا تو بولی:
’’اے ابوالقاسم! میں آپ کے لیے ایک ہدیہ لائی ہوں۔‘‘
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اس کا ہدیہ لے لیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا گیا، اس وقت وہاں بشر بن براء بن معرور رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا:
’’قریب آجاؤ۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دستی سے کھانا شروع فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی بشر بن براء نے بھی دستی سے گوشت کا لقمہ منہ میں ڈال لیا اور اسے نگل گئے، جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی لقمہ صرف منہ میں ڈالا تھا، دوسرے لوگوں نے دوسری جگہوں سے لقمہ لیا…جونہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لقمہ منہ میں ڈالا، فوراً اگل دیا اور فرمایا:
’’ہاتھ روک لو، یہ گوشت مجھے بتارہا کہ اس میں زہر ہے۔‘‘
اس وقت بشر بن براء رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، جو لقمہ میں نے کھایا تھا، اس میں مجھے کچھ محسوس ہوا تھا، لیکن میں نے اس کو صرف اس لیے نہیں اگلا کہ آپ کا کھانا خراب ہوگا پھ،ر جب آپ نے اپنا لقمہ اگل دیا تو مجھے اپنے سے زیادہ آپ کا خیال آیا اور مجھے خوشی ہوئی کہ آپ نے اس کو اگل دیا۔‘‘
اس کے بعد ان کا رنگ نیلا ہوگیا، وہ ایک سال تک اس زہر کے زیر اثر رہے اور اس کے بعد فوت ہوگئے۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی عورت کو بلوایا اور اس سے پوچھا:
’’کیا تونے بکری کے گوشت میں زہر ملایا تھا؟ ‘‘
اس نے پوچھا:
’’آپ کو یہ بات کس نے بتائی؟ ‘‘
جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’مجھے گوشت کے اسی ٹکڑے نے یہ بات بتائی جو میں نے منہ میں رکھا تھا۔‘‘
اس نے اقرار کیا:’’ہاں! میں نے زہر ملایا تھا۔‘‘
تب آپ نے اس سے پوچھا:
’’تم نے ایسا کیوں کیا؟ ‘‘
جواب میں اس نے کہا:
’’آپ لوگوں نے(خیبر کی جنگ میں)میرے باپ، بھائی اور میرے شوہر کو قتل کیا اور میری قوم کو تباہ کیا، اس لیے سوچا، اگر آپ صرف ایک بادشاہ ہیں تو اس زہر کے ذریعے ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپ نبی ہیں تو آپ کو اس زہر کی پہلے ہی خبر ہوجائے گی۔‘‘
اس کا جواب سن کر آپ نے اسے معاف فرمادیا…کیونکہ آپ اپنی ذات کے لیے کسی سے بدلہ نہیں لیتے تھے، البتہ مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچاتا تو اس سے بدلہ لیتے تھے۔جہاں تک تعلق ہے بشر بن براء رضی اللہ عنہ کا…تو وہ اس وقت فوت نہیں ہوئے تھے۔لیکن جب بعد میں زہر سے ان کی موت واقع ہوگئی تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت زینب کو بدلے میں قتل کرادیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات کے وقت اس زہر کا اثر محسوس کیا تھا اور فرمایا تھا:
’’اس زہر کے اثر سے میری رگیں کٹ رہی ہیں۔‘‘
غرض! خیبر کی جنگ کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غزوے کا مال غنیمت تقسیم فرمایا۔
خیبر کی جنگ کے بعد حضرت خالد بن ولید، حضرت عمرو بن عاص اور حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کا واقعہ پیش آیا۔
اس بارے میں خود حضرت خالد بن ولید فرماتے ہیں:
’’جب اللہ تعالیٰ نے مجھے عزت اور خیر عطا کرنے کا ارادہ فرمایا تو اچانک میرے دل میں اسلام کی تڑپ پیدا فرمادی اور مجھے ہدایت کا راستہ نظر آنے لگا، اس وقت میں نے اپنے دل میں سوچا کہ میں ہر موقع پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے اور مخالفت میں سامنے آیا اور ہر بار ہی مجھے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، ہمیشہ ہی مجھے یہ احساس ہوا کہ میں غلطی پر ہوں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بول بالا ہورہا ہے۔پھر جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم عمرے کے لیے مکہ میں تشریف لائے تو میں مکہ سے غائب ہوگیا۔تاکہ آپ کے مکہ میں داخلے کا منظر نہ دیکھ سکوں۔میرا بھائی ولید بن ولید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔وہ مجھ سے بہت پہلے مسلمان ہوچکا تھا۔اس نے مکہ پہنچ کر مجھے تلاش کرایا، مگر میں وہاں تھا ہی نہیں، آخر اس نے میرے نام خط لکھا۔اس خط کے الفاظ یہ تھے:
’’میرے لیے سب سے زیادہ حیرت کی بات یہی ہے کہ تم جیسا آدمی آج تک اسلام سے دور بھاگتا پھررہا ہے، تمہاری کم عقلی پر تعجب ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے بارے میں مجھ سے پوچھا تھا کہ خالد کہاں ہیں؟ میں نے عرض کیا: اللہ بہت جلد اسے آپ تک لائے گا۔اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، اس جیسا شخص اسلام سے بے خبر نہیں رہ سکتا، اگر وہ اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو مسلمانوں کے ساتھ مل کر مشرکوں کے خلاف استعمال کرے تو ان کے لیے خیر ہی خیر ہے اور ہم دوسروں کے مقابلے میں انہیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔اس لیے میرے بھائی اب بھی موقع ہے کہ جو کچھ تم کھوچکے ہو، اسے پالو، تم بڑے اچھے اچھے مواقع کھوچکے ہو۔‘‘
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مجھے اپنے بھائی کا یہ خط ملا تو مجھ میں جانے کی امنگ پیدا ہوگئی، دل اسلام کی محبت میں گھر کرگیا۔ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بارے میں جو کچھ فرمایا تھا۔اس سے مجھے بہت زیادہ خوشی محسوس ہوئی، پھر رات کو میں نے ایک عجیب خواب دیکھا۔
پہلا عمرہ
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک انتہائی تنگ اور خشک علاقے میں ہوں…لیکن پھر اچانک وہاں سے نکل کر ایک نہایت سرسبز شاداب اور بہت بڑے علاقے میں پہنچ گیا ہوں ۔
اس کے بعد جب ہم نے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہونے کا فیصلہ کیا تو مجھے صفوان ملے ۔ میں نے ان سے کہا:
’’صفوان! تم دیکھ رہے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم عرب و عجم پر چھاتے جارہے ہیں، اس لیے کیوں نہ ہم بھی ان کے پاس پہنچ کر ان کی اطاعت قبول کرلیں، کیونکہ حقیقت میں ان کی سربلندی خود ہماری ہی سربلندی ہوگی ۔‘‘
اس پر صفوان نے کہا:
’’میرے علاوہ اگر ساری دنیا بھی ان کی اطاعت قبول کرلے، میں پھر بھی نہیں کروں گا۔‘‘
اس کا جواب سن کر میں نے سوچا، اس کا باپ اور بھائی جنگِ بدر میں مارے گئے ہیں، لہٰذا اس سے امید رکھنا فضول ہے، چنانچہ اس سے مایوس ہوکر میں ابوجہل کے بیٹے عکرمہ کے پاس گیا اور اس سے بھی وہی بات کہی جو صفوان سے کہی تھی، مگر اس نے بھی وہی جواب دیا…میں نے کہا:
’’اچھا خیر…لیکن تم میری بات کو راز میں رکھنا۔‘‘
جواب میں عکرمہ نے کہا:
’’ٹھیک ہے، میں کسی سے ذکر نہیں کروں گا ۔‘‘
اس کے بعد میں عثمان بن طلحہ سے ملا، یہ میرا دوست تھا، اس کے بھی باپ اور بھائی وغیرہ غزوہ بدر میں مارے جاچکے تھے، لیکن میں نے اس سے دل کی بات کہہ دی، اس نے فوراً میری بات مان لی، ہم نے مدینہ جانے کا وقت، دن اور جگہ طے کرلی…ہم دونوں مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے، ایک مقام پر ہمیں عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ملے، ہمیں دیکھ کر انہوں نے خوشی کا اظہار کیا، ہم نے بھی انہیں مرحبا کیا، اس کے بعد عمرو نے پوچھا:
’’آپ لوگ کہاں جارہے ہیں؟‘‘
ہم نے صاف کہہ دیا:’’اسلام قبول کرنے جارہے ہیں ۔‘‘
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فوراً بولے:
’’میں بھی تو اسی لیے جارہا ہوں۔‘‘
اس پر تینوں خوش ہوئے…اور مدینہ منورہ کی طرف چلے، آخر حرّہ کے مقام پر پہنچ کر ہم اپنی سواریوں سے اترے، ادھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو ہماری آمد کی اطلاع ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ سے ارشاد فرمایا:
’’مکہ نے اپنے جگرپارے تمہارے سامنے لا ڈالے ہیں ۔‘‘
اس کے بعد ہم اپنے بہترین لباس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے چلے، اسی وقت میرے بھائی ولید ہم تک پہنچ گئے اور بولے:
’’ جلدی کرو، اللہ کے رسول تمہاری آمد پر بہت خوش ہیں اور تم لوگوں کا انتظار فرمارہے ہیں۔‘‘
چنانچہ اب ہم تیزی سے آگے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پہنچ گئے، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے گرم جوشی سے سلام کا جواب دیا، اس کے بعد میں نے کہا:
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔‘‘
اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’تمام تعریفیں اسی اللہ کے لیے ہیں، جس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی…میں جانتا تھا کہ تم عقل مند ہو، اسی لیے میری آرزو تھی اور مجھے امید تھی کہ تم خیر کی طرف ضرور جھکو گے ۔‘‘
اس کے بعد میں نے عرض کیا:
’’اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ میری ان غلطیوں کو معاف فرمادیں جو میں نے آپ کے مقابلے پر آکر کی ہیں۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرمایا:
’’اسلام قبول کرنا سابقہ تمام غلطیوں اور گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘
اسی طرح عمرو بن عاص اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہما آگے آئے اور انہوں نے بھی اسلام قبول کیا ۔
یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے دراصل اس سے پہلے شاہِ حبشہ نجاشی کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا تھا، اس طرح ایک تابعی کے ہاتھ پر ایک صحابی نے اسلام قبول کیا، کیونکہ نجاشی صحابی نہیں ہیں…انھوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کو نہیں دیکھا تھا، لیکن تابعی وہ اس لیے ہیں کہ انھوں نے صحابہ کرام کو دیکھا تھا۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں ہمیشہ گُھڑ سوار دستے کا امیر بنائے رکھا ۔
یہ تھی تفصیل ان تین حضرات کے ایمان لانے کی…حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بھی بہترین جنگی صلاحیتوں کے مالک تھے…وہ خود فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم! ہمارے مسلمان ہونے کے بعد اللہ کے رسول نے جنگی معاملات میں میرے اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے برابر کسی کو نہیں سمجھا، پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوران بھی ہمارا یہی درجہ رہا ۔صلح حدیبیہ میں طے پایا تھا کہ مسلمان اس سال تو عمرہ کیے بغیر لوٹ جائیں گے، البتہ انہیں آئندہ سال عمرہ کرنے کی اجازت ہوگی، اس معاہدے کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم عمرہ قضا کی نیت کرکے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے، اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ دوہزار صحابہ تھے، روانہ ہوتے وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اعلان فرمایا تھا کہ جو لوگ صلح حدیبیہ کے موقع پر موجود تھے، ان سب کا ساتھ چلنا ضروری ہے، چنانچہ وہ سبھی صحابہ ساتھ روانہ ہوئے، ان کے علاوہ کچھ وہ تھے جو حدیبیہ میں شریک نہیں تھے، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ قربانی کے جانور بھی تھے، اس سفر میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے احتیاط کے طور پر ہتھیار بھی ساتھ لیے تھے…مسلمانوں میں سے ایک سو آدمی گُھڑسوار تھے، ان کے امیر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ تھے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجدِ نبوی کے دروازے پر احرام باندھ لیا تھا، قریش کے کچھ لوگوں نے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ہتھیار دیکھے تو وہ بوکھلا کر مکہ معظمہ پہنچے اور قریش کو بتایا کہ مسلمان ہتھیار لے آئے ہیں…اور ان کے ساتھ تو گُھڑ سوار دستہ بھی ہے، قریش یہ سن کر بدحواس ہوئے اور کہنے لگے:
’’ہم نے تو کوئی ایسی حرکت نہیں کی جو اس معاہدے کے خلاف ہو، بلکہ ہم معاہدے کے پابند ہیں، جب تک صلح نامے کی مدت باقی ہے، ہم اس کی پابندی کریں گے، پھر آخر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کس بنیاد پر ہم سے جنگ کرنے آئیں ہیں؟‘‘
آخر قریش نے مکرز بن حفص کو قریش کی ایک جماعت کے ساتھ روانہ کیا، انہوں نے آپ سے ملاقات کی اور کہا:
’’آپ ہتھیار بند ہوکر حرم میں داخل ہونا چاہتے ہیں، جب کہ معاہدہ یہ نہیں ہوا تھا ۔‘‘
اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’ہم ہتھیار لے کر حرم میں داخل نہیں ہوں گے، معاہدے کے تحت صرف میانوں میں رکھی ہوئی تلواریں ہمارے ساتھ ہوں گی…باقی ہتھیار ہم باہر چھوڑ کر جائیں گے ۔‘‘
مکرز نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات سن کر اطمینان کا اظہار کیا اور قریش کو جاکر اطمینان دلایا، جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے مکہ معظمہ میں داخلے کا وقت آیا تو قریش کے بڑے بڑے سردار مکہ معظمہ سے نکل کر کہیں چلے گئے، ان لوگوں کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم سے بغض تھا، دشمنی تھی، وہ مکہ معظمہ میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کو برداشت نہیں کر سکتے تھے، اس لیے نکل گئے ۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مکہ معظمہ میں داخل ہوئے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار تھے، صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دائیں بائیں تلواریں لیے چل رہے تھے، اور سب ’’لبیک اللہم لبیک۔‘‘ پڑھ رہے تھے ۔ روانہ ہونے سے پہلے باقی ہتھیار آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک جگہ محفوظ کرادیے تھے، وہ جگہ حرم سے قریب ہی تھی، مسلمانوں کی ایک جماعت کو ان ہتھیاروں کی نگرانی کے لیے مقرر کیا گیا تھا ۔
مکّہ کے مشرکوں نے مسلمانوں کو بہت مدت بعد دیکھا تھا…وہ انہیں کمزور کمزور سے لگے تو آپس میں کہنے لگے:
’’یثرب کے بخار نے مہاجرین کو کمزور کردیا ہے ۔‘‘
یہ بات آپ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچی تو حکم فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحمت فرمائے گا جو ان مشرکوں کو اپنی جسمانی طاقت دکھائے گا ۔‘‘
اس بنیاد پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کریں یعنی اکڑ اکڑ کر اور سینہ تان کر چلیں اور مشرکین کو دکھادیں کہ ہم پوری طرح طاقتور ہیں ۔
اس کے بعد جب مسلمانوں نے رمل شروع کیا تو مکہ کے دوسرے مشرکوں نے ان مشرکوں سے جنھوں نے مسلمانوں کو کمزور بتایا تھا، کہا:
’’تم تو کہہ رہے تھے کہ انہیں یثرب کے بخار نے کمزور کردیا ہے، حالانکہ یہ تو پوری طرح طاقتور نظر آرہے ہیں ۔‘‘
اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی چادر اس طرح اپنے اوپر ڈال رکھی تھی کہ دایاں کندھا کھلا تھا اور اس کا پلّو بائیں کندھے پر تھا ۔ چنانچہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی ایسے ہی کرلیا، اس طرح چادر لینے کو اضطباع کہتے ہیں…اور اکڑ کر چلنے کو رمل کہتے ہیں…یہ اسلام میں پہلا اضطباع اور پہلا رمل تھا…اب حج کرنے والے ہوں یا عمرہ کرنے والے، انہیں یہ دونوں کام کرنے ہوتے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم معاہدے کے مطابق تین دن تک مکہ معظمہ میں ٹھہرے، تین دن پورے ہونے پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ معظمہ سے باہر نکل آئے، اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت میمونہ بنتِ حارث رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا، ان کا پہلا نام برّہ تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے نام تبدیل کرکے میمونہ رکھا۔