گھنی چھاؤں
ام محمد احمد
۔۔۔۔۔۔
”اف امی! یہ دیسی گھی کی بدبو….“
گھر میں داخل ہوتے ہی جس چیز نے میرا استقبال کیا تھا وہ دیسی گھی کی خوشبو تھی۔
میں نے غصے میں بیگ لاؤنج میں پھینکا۔
”بری بات ہے احسن !یہ نعمت ہے ۔یہ کھانے کی چیز ہے ۔اُس میں خوشبو ہوتی ہے۔“
”مجھے پتاہے دیسی گھی میں دیسی مرغی پک رہی ہوگی۔ ضرورگاؤں سے کوئی آیا ہوگا۔“
اس وقت میں آزادی سے بول سکتا تھا کیونکہ اس وقت ابو گھر پر نہیں ہوتے تھے، ورنہ تو میں صرف یہ بو سونگھ کر براسا منہ بنا کر اپنے کمرے میں پہنچ کر دروازہ بند کر چکا ہوتا۔
”بس بیٹا !یہ آخری دفعہ ہی دیسی سوغاتیں آئی ہیں اب کوئی نہیں لائے گا۔“
یہ دادا جی کی آواز تھی۔
”اوہ دادا جی آپ !“میں جلدی سے آگے بڑھا اور داداجی کے گلے لگ گیا۔
داداجی کے چہرے پر پھیلی افسردگی نے مجھے شرمندہ کر دیا تھا۔
”بہت معذرت داداجی! مگر پتا نہیں مجھے دیسی گھی کیوں نہیں اچھا لگتا۔“
” اس لیے احسن پتر! کیوں کہ تو شہری بابو ہے۔تیرے ابا کو یہ چیزیں پسند ہیں اور میں اسی کے لیے لے کر آتا ہوں۔“
میں شرمندہ تھا۔ مجھے اگر معلوم ہوتا کہ داداجی آئے ہوئے ہیں تو میں کبھی اتنا نہ بولتا۔
میرے بابا گاؤں کے رہنے والے تھے۔پڑھنے کے لیے شہر آئے تو شہر کے ہی ہو کے رہ گئے۔تعلیم کے بعد اچھی نوکری مل گئی تو داداجی کی اجازت سے شہر میں نوکری کر لی۔بابا کے اصرار کے باوجود دادا جان اور دادی جان گاؤں چھوڑنے پر راضی نہ ہوئے۔ چھٹیوں میں ہم گاؤں چلے جاتے اور مہینے میں ایک دفعہ داداجی ملنے آجاتے۔وہ جب بھی گاؤں سے آتے تو بہت ساری چیزیں لاتے۔دیسی گھی، مکھن، دیسی انڈے، گڑ، مکئی، گنے، موسم کی سبزیاں اور پھل۔البتہ کچھ دنوں سے یہ سلسلہ ٹوٹا ہوا تھا کیوں کہ پچھلے ہی دنوں دادی جی کا انتقال ہو ا تھا۔
گاؤں سے دادا جی کا مختصر سا سامان آگیا تھا۔
”امی !کیا دادا جی ہمارے ساتھ ہی رہیں گے؟“
اور امی کا اثبات میں ہلتا سر مجھے پریشان کر گیا۔کیوں کہ جس کمرے میں دادا جی ٹھہرتے تھے، وہ کمرہ میرے پڑھنے اور کھیلنے کا تھا۔امی شاید میرا خراب موڈ پہچان گئی تھیں۔
”احسن بیٹا! کچھ دنوں کی بات ہے ہمارا اپنا گھر بن جائے گا تو اس میں تمھارا الگ کمرہ ہوگا اور ابا جی کا الگ…. “یہ سن کر میں خاموش ہوگیا۔
”پتا نہیں دادا گاؤں سے کیوں آگئے؟“میں نے سوچا۔
دادا جی شہر آکر بہت خاموش ہو گئے تھے۔ کوئی بات کرو تو جواب دے دیا ورنہ خاموش بیٹھے رہتے۔
ایک دن میں نے ہمت کر کے ان سے پوچھ ہی لیا :
” دادا جی! آپ کو اپنا گاؤں یاد آتا ہے؟اسی لیے آپ خاموش خاموش رہتے ہیں!“
یہ سن کر دادا جی کے چہرے پر سایہ سا لہرایا اور دوسرے ہی لمحے وہ مسکرا کر کہنے لگے:
”باتیں کرتا تو ہوں پتر!“
اس دن اتوار تھا۔ میں خاموشی سے بستر پر آنکھیں موندے لیٹا تھا ۔امی ابو کی باتوں سے مجھ پر انکشاف ہوا کہ دادا جی نے گاؤں والا گھر اور زمین بیچ کر دونوں پھپو کو اور ابو کو پیسے دے دیے ہیں اور ان ہی پیسوں سے ابو اپنے پلاٹ پر ایک شاندار سا گھر تعمیر کروائیں گے۔
”دادا جی آپ کو شہر اچھا نہیں لگتا؟“ ایک دن بیٹھے بیٹھے میں نے اچانک ہی ان سے سوال کردیا۔
”نہیں پترشہر اچھا توہے لیکن….!“
”لیکن کیا دادا جی!؟“
”یہاںسب کچھ مصنوعی سا لگتا ہے ،سانس لینے کے لیے صاف ہوا نہیں، تمھیں معلوم ہے کہ پودے آلودگی ختم کرتے ہیں ، یہاںخالص غذا نہیں، اگر سب اپنے گھروں میں سبزیاں اگائیں تو تازہ سبزیاں ہمیں کھانے کو ملیں ۔شہر میں تتلیاں بھی نہیں جو خوبصورت پھولوں پر اڑتی پھرتی ہیں ۔نہ بڑے بڑے تناور درخت ہیں جن کی گھنی چھاؤں میں مسافر اور کسان اپنی تھکن اتارتے ہیں۔“
اور میرے ذہن میں اردو کی پہلی جماعت کی کتاب آگئی جس میں ہم ”ت“ سے تتلی زوروشور سے یاد کرتے تھے۔مجھے تتلیاں بہت پسند تھیں۔میں جب بھی گاؤں جاتا تھا، وہاں تتلیوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا تھا ۔تتلیاں اور جگنو مجھے ایک انوکھی دنیا کے باسی لگتے تھے ۔
”دادا جی! کیا ہم شہر میں تتلیاں نہیں لا سکتے؟“
”کیوں نہیں لا سکتے پتر!اس کے لیے ہمیں خوشنما پھولوں کے پودے لگانا پڑیں گے۔“
”میں تیار ہوں دادا جی! آپ میرا ساتھ دیں گے؟ “
”بالکل دوں گا “ دادا جی پہلی مرتبہ کھل کر مسکرائے۔
میں آٹھویں جماعت میں تھا ۔ ہم سے آگے بھی دو جماعتیں تھیں۔ میں نے ان سب بچوں کو اپنے ساتھ ملالیا اور اسکول میں ”شجر اگاؤ سرسبز بناؤ“مہم کا آغاز کیا۔ پرنسپل صاحب سے درخواست منظور کروالی گئی۔ اُن کا کہنا تھا کہ بچے کھیلتے ہوئے پودے خراب کر دیں گے۔ اس کی ذمہ داری بھی ہم نے لے لی کہ ہم خود ڈیوٹی دیں گے۔ پانی اور صفائی کا خیال بھی ہم رکھیں گے۔
آج تین ماہ ہوگئے ہیں۔ چالیس پودے اسکول کے میدان میں ہم دونوں طرف لگا چکے ہیں۔ وہ تھوڑے تھوڑے بڑے بھی ہوگئے ہیں اور میں نے امی ابو سے کہہ دیا ہے کہ نئے گھر میں ہم ایک چھوٹا سا باغ بھی ضرور بنائیں گے جس میں دادا جی اپنی مرضی سے سبزیاں اور پودے لگائیں گے اور پھر ہم تتلیوں کو اپنے گھر بلائیں گے۔
میں نے امی سے بھی کہہ دیا ہے کہ اب مجھے علیحدہ کمرہ بھی نہیں چاہیے۔ میں دادا جی کے کمرے میں ہی رہ لوں گا۔ وہ گھنا درخت ہیں جس کی چھاؤں میرے لیے بہت ضروری ہے۔
آپ بتائیے دوستو! میں نے صحیح کہا ناں؟
٭٭٭