غم گسارِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کلیم چغتائی
…..
پڑھیے……! اُس عظیم خاتون کے بارے میں جنھیں خود اللہ نے سلام کہلوایا
…..
قافلہ شام جانے کے لیے تیار کھڑا تھا۔
یہ ایک تجارتی قافلہ تھا۔ اونٹوں پر سامان لدا ہوا تھا۔ کئی افراد ساتھ تھے۔ یہ سارا سامان ایک خاتون کا تھا۔ وہ بہت دولت مند تو تھیں ہی لیکن اہم بات یہ تھی کہ وہ بہت اچھی عادات اور بہترین اخلاق کی مالک تھیں۔ بہت سمجھدار اور ہمت والی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ذہانت کے ساتھ اچھی شکل و صورت بھی عطا فرمائی تھی۔ ان کی پاکیزہ طبیعت کی وجہ سے لوگ انھیں ’طاہرہ‘ کہتے تھے۔
طاہرہ کا کاروبار بہت پھیلا ہوا تھا۔ ان کا تجارتی سامان ایک طرف شام بھیجا جاتا تھا تو دوسری طرف یمن لے جاکر فروخت ہوتا تھا۔ طاہرہ نے اپنے کاروبار کو چلانے کے لیے بہت سارے ملازم رکھے ہوئے تھے لیکن وہ کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھیں، جو بہت دیانت دار ہونے کے ساتھ اچھی انتظامی صلاحیتوں کا مالک بھی ہو۔
کچھ عرصے سے طاہرہ، ایک دیانت دار اور سچے نوجوان کے چرچے سن رہی تھیں۔ ہر ایک اسی نوجوان کی تعریف کرتا تھا اور اسے امین یعنی ’امانت دار‘ اور صادق یعنی ’سچا‘ کہتا تھا۔ لوگ بتاتے تھے کہ یہ نوجوان اپنے چچا کے ساتھ تجارتی سفروں پر جاچکا ہے، اس لیے تجارت اس کے لیے نئی بات نہ تھی۔
طاہرہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا مالِ تجارت اسی نوجوان کو دے کر شام بھیجیں گی۔ انھوں نے نوجوان کو پیغام بھجوایا کہ اگر آپ میرا تجارتی سامان لے کر شام جائیں تو میں دوسرے لوگوں کے مقابلے میں آپ کو دُگنا معاوضہ دوں گی۔ نوجوان نے یہ پیش کش قبول کرلی اور اب وہی نوجوان، تجارتی قافلہ لے کر شام جارہا تھا۔ طاہرہ نے اپنے خاص غلام ’میسرہ‘ کو بھی اس کے ساتھ بھیجا اور میسرہ کو تاکید کی تھی کہ قافلے کے نوجوان سربراہ کا خاص خیال رکھنا۔ انھیں کوئی تکلیف نہ ہونے پائے۔
کچھ وقت بعد جب تجارتی قافلہ شام سے واپس لوٹا۔
یہ سفر بہت کامیاب رہا تھا۔ تمام مال دُگنے منافع پر فروخت ہوگیا تھا۔ ایک اور خاص بات یہ تھی کہ قافلے کے ساتھ جانے والا ہر شخص، قافلے کے نوجوان سردار کے اخلاق اور اعلیٰ انتظام کی تعریف کررہا تھا۔ طاہرہ کا خاص غلام میسرہ تو اس نوجوان کی خوبیاں بیان کرتے تھکتا نہ تھا۔
طاہرہ کی اس سے پہلے دو بار شادی ہوچکی تھی۔ ان کے پہلے شوہر کے انتقال کے بعد ان کی دوسری شادی ہوئی لیکن دوسرے شوہر بھی وفات پاگئے تھے۔ اس کے بعد کئی معزز سرداروں نے انھیں شادی کے پیغام بھیجے لیکن طاہرہ نے انکار کردیا۔
اب ان کی عمر چالیس سال کے لگ بھگ تھی مگر اس نوجوان کے بہترین اخلاق سے وہ بہت متاثر تھیں۔ انھوں نے اس نوجوان کو شادی کا پیغام بھیجا، جس کی عمر اس وقت پچیس برس تھی۔
نوجوان نے اپنے چچا سے مشورہ کیا اور پھر طاہرہ کی طرف سے آنے والا شادی کا پیغام قبول کرلیا۔ کچھ دنوں بعد وہ نوجوان اپنے خاندان کے بزرگوں کے ساتھ طاہرہ کے گھر آئے۔ نوجوان کے چچا نے نکاح پڑھایا۔ اب طاہرہ، اس بااخلاق، دیانت دار، صادق اور امین نوجوان کی بیوی تھیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ طاہرہ کون تھیں؟
جی ہاں! یہ تھیں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا۔ تمام مسلمانوں کی ماں، جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ درجہ عطا فرمایا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زوجہ محترمہ تھیں۔
اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ وہ امین اور صادق نوجوان کون تھے، جن سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی شادی ہوئی۔ وہ اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا وہ عظیم اور خوش نصیب خاتون ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لائیں۔ آپ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلام کہلوایا۔ آپ ہی کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ساری دنیا کی عورتوں میں (اپنے زمانے میں) مریم ؑ(حضرت عیسیٰ ؑ کی والدہ) افضل تھی اور اسی طرح خدیجہؓ افضل ہیں۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا مکہ کے ایک تاجر خُویلد بن اسد کی صاحب زادی اور بچپن ہی سے بہت اچھی عادتوں کی مالک تھیں۔ ہم نے آپ کو بتایا کہ ان کی دو بار شادی ہوئی تھی لیکن دونوں شوہر وفات پاگئے تھے۔ اس کے بعد سے آپ نے شادی نہیں کی اور تجارت میں مصروف ہوگئی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے تمام تجارتی معاملات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کردیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 35 سال سے زیادہ ہوئی تو وہ اپنا زیادہ وقت تنہائی میں گزارنے لگے۔ مکہ کے قریب ایک غار تھا۔ جو ’غارِ حرا‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھانے پینے کا سامان لے کر اس غار میں چلے جاتے اور کئی کئی دن عبادت کرتے۔
ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت گھبرائے ہوئے گھر تشریف لائے اور اپنی زوجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ”مجھے اُڑھا دو، مجھے اُڑھا دو۔“
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چادر اُڑھا دی۔ کچھ دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بتایا کہ وہ غارِ حرا میں تھے، ایک فرشتہ آیا۔ اس نے انھیں کچھ آیات سکھائیں اور بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم، آپ اللہ کے نبی ہیں اور میں جبرائیل ہوں۔
یہ تفصیل بتا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ”مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔“
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت اچھے انداز میں تسلی دی۔ آپ نے ان سے فرمایا: ”اللہ کی قسم! اللہ آپ کو رُسوا نہ کرے گا۔ آپ رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، امانتیں ادا کرتے ہیں، بے سہارا لوگوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں، نیک کاموں میں سب سے آتے ہوتے ہیں۔“
دنیا بھر کے انسانوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا شرف سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو حاصل ہوا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی، ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو ایک عیسائی عالم تھے۔ وہ بہت بوڑھے ہوچکے تھے۔ انھیں اب نظر بھی نہیں آتا تھا۔ انھوں نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غارِ حرا میں پیش آنے والا واقعہ سنا تو وہ کہہ اُٹھے: ”یہ وہی ناموس ہے جو موسی ؑ پر اُترا تھا۔“
٭……٭
جب اللہ کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت پھیلانا شروع کردی تو مشکلات کا آغاز ہوگیا۔ کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کا ساتھ دینے والے مسلمانوں کو تکلیفیں دینا شروع کردیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا زیادہ ستاتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت دُکھ ہوتا۔ ایسے ہر موقع پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتیں۔ ان کی ہمت بندھاتیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”میں جب کفار سے کوئی بات سنتا تھا اور وہ مجھ کو ناگوار محسوس ہوتی تو میں خدیجہ (رضی اللہ عنہا) سے کہتا۔ وہ اس طرح میری ڈھارس بندھاتی تھیں کہ میرے دل کو تسکین ہوجاتی تھی اور کوئی رنج ایسا نہ تھا جو خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کی باتوں سے آسان اور ہلکا نہ ہوجاتا تھا۔“
اس طرح ہمیں معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھاری ذمہ داری کو آسان بنانے میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بہت اہم کردار ادا کیا۔
7 ہجری میں کفار مکہ نے آپس میں ایک معاہدہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلوں بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب سے ہر قسم کا تعلق توڑ لیا۔ اب ان قبیلوں سے نہ کوئی لین دین کرسکتا تھا اور نہ کوئی تجارت کرسکتا تھا۔ کفار کا خیال تھا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کے بجاے اپنے قبیلے میں واپس چلی جائیں گی لیکن حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنا آرام اور گھر چھوڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنا پسند فرمایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان والے ایک گھاٹی شعب ابی طالب میں چلے گئے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی ان کے ساتھ تھیں۔ تین سال سخت آزمائش کے گزرے۔ کئی کئی دن فاقہ رہتا۔ کبھی کبھار حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ایک بھتیجے حضرت حکم بن حزام رضی اللہ عنہ کھانے پینے کا کچھ سامان چوری چھپے گھاٹی میں پہنچا دیتے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اس سامان کو گھاٹی میں قید لوگوں میں تقسیم فرما دیتیں۔
تین سال بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ایک رشتہ دار اور کچھ اور لوگوں نے مل کر اس قید کے خلاف آواز اُٹھائی اور وہ معاہدہ پھاڑ کر پھینک دیا، جسے کفار نے خانہ کعبہ میں لٹکا دیا تھا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان والوں کو تین سال بعد اس قید سے نجات ملی۔
اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بہت کمزور ہوگئی تھیں۔ کچھ ہی عرصے بعد آپ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں اور اس بیماری میں آپ رضی اللہ عنہا اپنے رب سے جاملیں۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت صدمہ ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود کو بہت تنہا محسوس کرنے لگے۔ اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کا بھی انتقال ہوگیا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سال کو ’غم کا سال‘ کہا کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد بھی ہمیشہ انھیں یاد فرماتے تھے۔ بہت مدت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ رہا کہ اس وقت تک گھر سے باہر نہ نکلتے تھے جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی خوب تعریف نہ کرلیتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ بکری ذبح فرماتے تو اس کا گوشت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کو بھجواتے۔
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خدیجہ (رضی اللہ عنہا) سب سے پہلے مجھ پر ایمان لائیں۔ انھوں نے ایسے وقت میری مدد کی، جب کسی کے مال کا سہارا میرے پاس نہ تھا اور اللہ نے مجھے ساری اولاد خدیجہ رضی اللہ عنہا سے عطا فرمائی۔“
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا درجہ بہت بلند تھا۔ ایک بار حضرت جبرائیل ؑ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”خدیجہ (رضی اللہ عنہا) برتن میں کھانے یا پینے کی کوئی شے لارہی ہیں۔ جب وہ جائیں تو آپ ان کو اللہ کا اور میرا سلام پہنچا دیں۔“ (بخاری)
ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوش خبری سنائی کہ ان کو جنت میں موتیوں کا محل عطا کیا جائے گا۔ (بخاری)
اللہ تعالیٰ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر لاکھوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین۔
٭……٭