جنرل صاحب
راحیل یوسف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اف۔۔۔ یہ مصیبت بھی چھٹیوں میں ہی نازل ہونی تھی‘‘۔ نعیم نے بے زاری سے مجاہد سے کہا۔
’’سوچا تھا کہ خوب دل بھر کے سوئیں گے ۔۔۔ کھیلیں گے کودیں گے مگر اب تو گھڑی کی سوئیوں کی طرح وقت کی پابندی کرنی پڑے گی‘‘۔ مجاہد نے بھی اپنے جذبات کا اظہار کیا۔
’’چلو اب تو ۔۔۔ برداشت کرنا ہی پڑے گا اور ہم کر بھی کیا سکتے ہیں‘‘ نعیم نے کندھے اچکائے اس سیر حاصل گفتگو میں جس مصیبت کا تذکرہ ہورہا تھا وہ فیض بھائی تھے۔ اب آپ پوچھیں گے فیض بھائی کون؟ ۔۔۔ تو فیض بھائی، احمد صاحب کے بڑے صاحبزادے اور نعیم کے بڑے بھائی تھے۔ مجاہد ان کا چچا زاد بھائی تھا۔
اس بڑے کنبے میں ویسے تو بچوں کی فوج ظفر موج موجود تھی۔ وسیم، نعیم ان کے کزن مجاہد، کامران، عمران، عائشہ، فرح۔۔۔ باقیوں کو چھوڑیں کیونکہ شاید آپ کچھ بور ہو رہے ہیں ویسے بھی باقی بہت چھوٹے ہیں اور اس کہانی میں ان کا کوئی کام نہیں۔
فیض بھائی ویسے تو ابھی آرمی میں لیفٹیننٹ ہی ہوئے تھے۔مگر گھر میں تو بچپن ہی سے کرنل کے لقب سے مشہور تھے۔
دراصل ان کی تربیت براہ راست دادا جان کی نگرانی میں ہوئی تھی جو ریٹائرڈ صوبیدار تھے۔ بس یہ ان کی تربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ بچپن ہی سے فوجی ڈسپلن کے سانچے میں ڈھل نکلے۔
صبح پانچ بجے اٹھنا نماز فجر باجماعت ادا کرنا۔ اس کے بعد ورزش کرنا۔۔۔ ناشتہ ، کھانا،کھیلنا، پڑھائی ہر چیز ایک ٹائم ٹیبل کی پابند تھی۔ مجال ہے جو ذرا ٹس سے مس ہوجائیں۔ بس یہی وجہ تھی کہ ہمیشہ اچھے نمبرز حاصل کیئے اور بلآخر پاکستان ملٹری اکیڈمی کا کول کے لانگ کورس کے لئے سیلیکٹ کرلیئے گئے۔
اب تو آپ سمجھ ہی گئے ہونگے کہ فیض بھائی کرنل کیوں کہلاتے تھے اور بچے ان کی آمد پر کیوں پریشان تھے۔
یوں تو ان کے دن رات بڑی آزادی سے بسر ہوتے تھے مگر فیض بھائی کی آمد کے ساتھ گھر کا نقشہ تبدیل ہوجاتا تھا بڑے بڑے ٹائم ٹیبل بچوں کے کمرے میں آویزاں ہوجاتے تھے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
ہارن کی آواز نے فیض بھائی کی آمد کا اعلان کیا ۔۔۔ گاڑی سے فیض بھائی برآمدہوئے۔ تمام بچے ان کے استقبال کیلئے دو لائنیں بنائے کھڑے تھے۔
’’السّلام علیکم!‘‘ ہلکی سی آواز ان کے گلے سے برآمد ہوئی۔
’’وعلیکم السّلام‘‘ فیض بھائی نے قدرے بھاری آواز میں جواب دیا ’’ار ے بھئی بچو کیا حال ہے تمہارا‘‘؟
’’جی ٹھیک ہیں‘‘
’’پڑھائی چل رہی ہے‘‘؟
’’جی ہاں‘‘
’’اور ٹائم ٹیبل موجود ہے؟‘‘
جی کیا۔۔۔ کون سا ٹیبل عمران بولا مگر مجاہد نے اسے ٹہو کا دے کر غلطی کا احساس دلایا۔۔۔ ’’جی ہاں‘‘ اس کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔
فیض بھائی نے بے یقینی کے ساتھ ان کے چہرے دیکھے اور پھر بولے ’’ٹھیک ہے ابھی تو میں آرام کروں گا کل صبح تم لوگوں سے ملاقات ہوگی۔ یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’اف اللہ یہ کیا‘‘ کامران نے آنکھیں ملتے ہوئے گھڑی کی طرف دیکھی آٹھ بج کر پچیس منٹ ہوچکے تھے۔ وہ باہر لاؤنج کی طرف بھاگا۔
’’یا اللہ فیض بھائی آج سوتے رہ گئے ہوں یا ابھی ورزش سے واپس نہ آئے ہوں‘‘۔ وہ دل ہی دل میں دعائیں مانگتا جارہا تھا مگر اسے خود بھی اپنی اس دعا کی قبولیت کا زیادہ یقین نہ تھا۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ فیض بھائی لاؤنج میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔
’’ بہت خوب ۔۔۔ آج آپ فرسٹ آئے ہیں‘‘ انہوں نے نظریں اٹھا کر کہا۔ اس کی نظریں شرم سے نیچے ہوگئیں۔
’’باقی سب کب اٹھ جائیں گے؟‘‘
جی وہ ۔۔۔ پتہ نہیں‘‘
’’پتہ نہیں یعنی یہ آپ لوگوں کا معمول ہے۔ خیر سب کو اٹھنے دیں پھر بات ہوگی۔‘‘
تھوڑی دیر بعد فرح سیکنڈ، عائشہ تھرڈ اور باقی سب نچلی پوزیشنوں پر فائز ہوتے چلے گئے وہ سب فیض بھائی کے سامنے سر جھکائے کھڑے تھے۔
’’بھئی تم لوگ کتنی وقت کی پابندی کر رہے ہو وہ آج میں بخوبی دیکھ چکا ہوں۔۔۔ تم لوگوں کو بہت سمجھایا جاچکا ہے مگر میرے جانے کے بعد پھر وہی سب کچھ شروع ہوجاتا ہے۔ خیر آج آپ سب کا کھیل بند‘‘۔ فیض بھائی نے فیصلہ سنایا وہ لوگ سزا یافتہ مجرموں کی طرح واپسی کے لئے مڑے ’’ٹھہرو۔۔۔ سزا کے بعد ایک انعام کی بات بھی ہوجائے۔۔۔ تم میں سے جو بھی ڈسپلن کی بہترین پابندی کریگا۔۔۔ اسے میری طرف سے ایک رسٹ واچ انعام میں ملے گی۔ اب تم لوگ جاسکتے ہو‘‘۔
*۔۔۔*۔۔۔*
کچھ فیض بھائی کا خوف تھا کچھ انعام کا لالچ سب نے وقت کی پابندی شروع کردی تھی۔
ان کی نظم وضبط کی اس حد تک پابندی پر گھر کے بڑے بہت خوش تھے۔
دادی اماں تو کہہ رہی تھیں۔ ’’بیٹا فیض میں تو کہتی ہوں ان شیطانوں کو بھی اپنے ساتھ فوج میں بھرتی کرادو۔ انسان بن جائیں گے‘‘۔
’’ارے دادی اماں ان کی عمر ابھی بہت کم ہے‘‘۔ فیض بھائی ہنستے ہوئے بولے۔
’’یا پھر ان کو اپنے ساتھ پشاور لے جا وہیں کسی اسکول میں داخل کرادے تمہارے سامنے رہیں گے تو انسان بنے رہیں گے ورنہ یہاں تو تمہارے جاتے ہی کھال سے باہر آجائیں گے۔‘‘
’’انشاء اللہ اب ایسا نہیں ہوگا۔ آپ بھی ان کے لئے دعا کریں۔‘‘ فیض بھائی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’اللہ اللہ کر کے وہ دن بھی آن پہنچا جس دن انعام کے حقدار کا اعلان کیا جاتا تھا۔ کل فیض بھائی واپس جارہے تھے۔ سب بچے لاؤنج میں فیض بھائی کے سامنے کھڑے تھے۔ فیض بھائی نے تمام بچوں کا جائزہ لیا ’’یہ مجاہد کہاں ہے؟‘‘ انہوں نے سوال کیا۔
’’بھائی جان وہ۔۔۔‘‘ نعیم نے کچھ کہنا چاہا پھر خاموش ہوگیا وہ کیا ۔۔۔ بولو ناں‘‘
’’وہ ۔۔۔ پتہ نہیں۔‘‘ نعیم نے کچھ سوچ کر بات دبالی۔
’’پتہ نہیں۔۔۔ خیر اگر وہ نہیں تو اس کا ہی نقصان ہے اس کے نمبر مائینس ہونگے اس وقت تو اسے کھیل کر واپس آجانا چاہئے تھا‘‘۔ فیض بھائی کہا۔
’’اچھا تو بچو۔۔۔ تم لوگوں کے درمیان مقابلہ بہت سخت تھا۔ میرے لئے فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے۔۔۔ مگر پھر بھی۔۔۔‘‘ ابھی انہوں بات پوری نہیں کی تھی کہ مجاہد اندر داخل ہوا
’’السّلام علیکم! ‘‘اس نے سلام کیا۔
’’وعلیکم السّلام آپ اتنی دیر سے؟‘‘ فیض بھائی نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا
’’کیا نعیم نے آپ کو کچھ نہیں بتایا۔۔۔؟ ‘‘اس نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
’’نہیں‘‘ فیض بھائی کی نظریں بدستور اس پر مر کوز تھیں۔
’’وہ ۔۔۔ بھائی جان میں اور نعیم کھیل کر گراؤنڈسے واپس آرہے تھے کہ ایک صاحب مل گئے۔۔۔ انہوں نے ہم سے ایک گھر کا پتہ معلوم کیا۔۔۔ کوشش کی باوجود ہم انہیں سمجھانے میں ناکام رہے۔ وہ صاحب بزرگ بھی تھے اور آئے بھی کسی دوسرے شہر سے تھے اس لئے میں ان کو ساتھ لیکر ان کی منزل تک پہنچا آیا۔‘‘ مجاہد نے تفصیل بیان کی۔
’’بھائی جان میں نے تو اسے بہت منع کیا دیر ہوجائے گی۔ پڑھنے کا وقت شروع ہورہا ہے مگر یہ نہ مانا‘‘۔ نعیم نے جلدی سے کہا۔
فیض بھائی خاموشی سے ان کی گفتگو سنتے رہے پھر ان کی آواز بلند ہوئی ’’اب تک تو میرے لیے فیصلہ کرنا بہت دشوار تھا۔ مگر اب بہت آسان ہے‘‘۔
’’تمہیں پتہ ہے کہ اچھے اخلاق کی قیمت ہر چیز سے زیادہ ہے ۔۔۔ نبی اکرمؐ کا بھی ارشاد ہے کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔ مجاہد نے سب سے قیمتی چیز کا انتخاب کیا۔۔۔ اور نعیم نے اس کے مقابلے میں کم قیمتی چیز کا ۔۔۔ مجھے تم پر فخر ہے مجاہد۔‘‘
یہ کہہ کر انہوں نے رسٹ واچ کا پیکٹ مجاہد کی طرف بڑھایا۔۔۔ مجاہد حیرانی سے ان کو دیکھ رہا تھا۔
’’اور سنو۔۔۔ تم سب مجھے کرنل کہتے تھے ناں ۔۔۔ مجاہد کا رینک تو مجھ سے بھی بڑا ہوگیا ہے جنرل ، جنرل مجاہد۔۔۔‘‘ انہوں نے کہا اور سر تک ہاتھ لے جاکر اسے سیلوٹ کیا۔
*۔۔۔*