skip to Main Content
جی بوائے

جی بوائے

امجد جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی ہے؟

چھٹی کی گھنٹی بجتے ہی اسکول میں ہلچل مچ گئی۔لڑکے اپنے بستے سنبھالتے، دھکم پیل کرتے، شور مچاتے کلاس روم سے نکلنے لگے۔جمال احمد ہنوز اپنے ڈیسک پر بیٹھاہوا اپنے کلاس فیلوز کو دیکھ رہا تھا۔ اسے یہ دھکم پیل کبھی بھی اچھی نہیں لگی تھی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ سب سکون سے ایک قطار میں کلاس روم سے باہر نکل جاتے۔مگر ہڑ بونگ مچانا تو گویا ان کی عادت بن چکا تھا۔ جمال ویسے بھی ان سے الگ تھلگ سا تھا، وہ پڑھنے میں بہت تیز، ذہین اور ہر مسئلے کو بہت جلدی سمجھ جانے والا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ اپنی عمر سے کہیں زیادہ ذہین ہو۔وہ دراز قد، مضبوط بدن، گورے رنگ اور تیکھے نقوش والا خوش اخلاق لڑکا تھا۔ اس کی نگاہیں دروازے کی جانب تھیں۔جب سارے لڑکے کمرے سے نکل گئے تو وہ اٹھا اور بڑی متانت سے چلتاہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔
وہ نجانے کیوں بے چین تھا۔ اسے اپنی بے چینی کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ حالانکہ پریشانی والی کوئی بات نہیں تھی۔ وہ کلاس کا سب سے بہترین طالب علم تھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ اپنے کسی ٹیچر سے سزا پاتا۔ بلکہ سبھی اساتذہ اس سے خوش تھے اور ہر جگہ اس کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ سارا دن بہت اچھا گزرا تھا۔ کسی کے ساتھ کوئی لڑائی جھگڑا بھی نہیں ہوا تھا لیکن نجانے کیوں وہ پریشان تھا۔ وہ ایک ایسی کیفیت میں تھا جیسے اُسے کچھ سمجھ میں نہ آ رہا ہو۔
جمال نے اسٹینڈ سے اپنی سائیکل لی،کیرئیر پر اپنا بستہ رکھا اور ہینڈل پکڑے پیدل ہی اسکول گیٹ کی جانب بڑھ گیا۔وہ ہمیشہ ہی ایسا کرتا تھا۔ اگرچہ اس کے پاس بائیک بھی تھی، وہ کار بھی چلا لیتا تھا، مگر سکول کے لیے سائیکل پر آ نا اسے ہمیشہ اچھا لگا کرتا تھا۔وہ بڑے مزے سے سکون کے ساتھ گھر جایا کرتا تھا۔ وہ پیدل چلتا ہوا گیٹ تک پہنچا، وہاں اس کے دوست کھڑے تھے، جو اس طرف ہی جاتے تھے۔ وہ سب نکلنے کے لیے تیار تھے۔وہ سائیکل پر سوار ہوا اور ان کے ساتھ گھر کی جانب چل دیا۔وہ پندرہ سے بیس منٹ میں اپنے گھر پہنچ جایا کرتا تھا۔ رستے میں ایک بڑی سڑک پڑتی تھی، جس پر کافی ٹریفک ہوتی تھی۔ پھر ایک کالونی کے درمیان سے نکلتاہوا وہ اپنے ٹاؤن پہنچ جاتا۔ راستے میں جس دوست کا گھر آ تا، وہ ان سے الگ ہو جاتا۔یہ اس کامعمول تھا۔
اس دن وہ بڑی سڑک سے اتر کر کالونی کے گیٹ تک پہنچ گیا تھا۔ اسی کالونی میں سارے دوست الگ ہو جایا کرتے تھے۔تب وہ اکیلا آ گے بڑھ جاتا، اس دن بھی وہ دوستوں کو ہاتھ ہلاتاہوا آ گے بڑھ گیا تھا۔ تھوڑا سا فاصلہ طے کر نے کے بعد اس نے محسوس کیا کہ جیسے اس کے پیچھے دو موٹر سائیکل والے ہیں۔ جمال سڑک کے بائیں جانب جا رہا تھا۔ فطری طور پر موٹر سائیکل سواروں کو آ گے نکل جانا چاہیے تھا لیکن وہ یوں اس کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے جیسے وہ آ گے نکلنا ہی نہ چاہ رہے ہوں۔جمال کو یہ بڑا عجیب سا لگا۔ اس نے گھوم کے دیکھا، دو موٹر سائیکلوں پر چار لوگ سوار تھے۔ سبھی نے ہیلمٹ پہن رکھے تھے، جس سے ان کی شکلیں نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔جمال نے اپنی توجہ سامنے کی طرف رکھی اور اپنی سائیکل آہستہ کر لی تاکہ وہ آ گے نکل جائیں۔وہ آ گے نکلنے کی بجائے مزید آ ہستہ ہو گئے۔تبھی جمال کو خطرے کا احساس ہوا۔ اس نے ارد گرد دیکھا، دوپہر کے وقت کالونی میں اکا دکا لوگ باہر تھے۔سڑکیں سنسان تھیں۔
”کہیں یہ مجھے نقصان تو نہیں پہنچانا چاہتے؟اگر انہوں نے مجھے اغوا کر لیا تو۔“ جمال کے دماغ میں جیسے ہی یہ خیال آ یا، وہ چوکنا ہو گیا۔ وہ تیزی سے سوچنے لگا کہ اگر ایسی کوئی صورت حال پیدا ہو گئی تو وہ کیا کرے گا۔ لاشعوری طور پر وہ سائیکل تیز چلا نے لگا تھا۔ اچانک ایک موٹر سائیکل پیچھے سے نکلا اور یوں سامنے آگیا جیسے اس کا راستہ روکنا چاہ رہا ہو، جمال کا اپنی سائیکل پر قابو نہیں رہا، وہ لڑکھڑاگیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ سڑک پر گر گیا۔ اسی لمحے دونوں موٹر سائیکل رک گئے۔ ان کے پیچھے بیٹھے ہوئے دونوں لوگ اترے، انہوں نے تیزی سے جمال کو سنبھالنے کے لیے پکڑا۔انہوں نے جمال کو کھڑا کیا ہی تھا کہ سامنے سے ایک فور وہیل جیپ نمودار ہو ئی۔ چشم زدن میں وہ ان کے قریب آ کر رک گئی۔ جیپ رکتے ہی اس کا دروازہ کھلا، موٹر سائیکل سواروں نے جمال کو پکڑا اور پوری قوت سے جیپ کے اندر ڈال دیا۔ جمال کی سمجھ ہی میں نہیں آیا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ جیسے ہی اسے جیپ میں ڈالا، اس نے مزاحمت کر کے باہر نکلنے کی کوشش کی، اندر بیٹھے ہوئے لوگوں نے اسے فوراً قابو کیا اور اس کی گردن پکڑ کر سیٹ کے درمیان میں پھنسا دی۔اسی دھینگا مستی میں فور وہیل جیپ چل پڑی۔ جمال بہت مچلا، اس نے خود کو چھڑانے کی بہت کوشش کی لیکن تیز بدبو نے اس کے حواس مختل کر دیئے،اسے یوں لگا جیسے اس کے جسم میں جان ہی نہ رہی ہو، تھوڑی دیر بعد اسے اپنا ہوش ہی نہیں رہا۔
جمال کو جب ہوش آیا تو کافی دیر تک وہ سمجھ ہی نہ سکا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے؟ اسے صرف چھت دکھائی دے رہی تھی۔ وہ ہلنا چاہتا تھا لیکن ہل نہیں پا رہا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کے بدن میں جان ہی نہ رہی ہو۔ وہ خود کو حرکت دینے کی کوشش کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد اسے محسوس ہو نے لگا جیسے اس کے بدن میں جان واپس آ رہی ہے۔ اس نے خود کو حرکت دے کر دیکھا۔ اس کا سر بری طرح چکرا رہا تھا۔ وہ پوری قوت لگا کر اٹھ بیٹھا۔اس نے اپنے ارد گرد دیکھاتو خود کو ایک بڑے کمرے میں پایا۔ اس کمرے میں سامان نام کی کوئی شے نہیں تھی۔ سیلن زدہ فرش سے بدبو اٹھ رہی تھی۔ وہ یہ بات اچھی طرح سمجھ گیا تھا کہ کسی نے اسے اغوا کر لیا ہے اور اب وہ ان کی قید میں ہے۔
خود کو خطرے میں پا کر اس کے سارے حواس بیدار ہوگئے تھے۔وہ ہمت کر کے اٹھا اور ایک کھڑکی تک گیا۔ اس نے کھڑکی کھولنا چاہی لیکن وہ یوں بند تھی کہ کوشش کے باوجود نہیں کھل سکی۔ وہ کھڑکی سے ہٹ کر دروازے کی جانب بڑھا۔ اس نے پہلے دوسری طرف سے کوئی آ واز سننے کی کوشش کی لیکن باہر مکمل خاموشی تھی۔ وہ چند لمحے یونہی کھڑا رہا پھر زور زور سے دروازہ بجانے کے ساتھ چلانے لگا:
”کوئی ہے … کوئی ہے…“
زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ باہر قدموں کی چاپ سنائی دی۔ وہ خاموش ہو گیا۔ اگلے ہی لمحے دروازہ کھل گیا۔ باہر تین لوگ کھڑے تھے۔ ان کے پیچھے ایک اونچی دیوار تھی جس پر پڑنے والی دھوپ سے اندازہ ہو رہا تھاکہ شام ڈھلنے والی ہے۔ وہ تینوں جمال کو مسلسل گھور رہے تھے۔ تبھی جمال نے اعتمادسے پوچھا:
”تم لوگ کون ہو؟… مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟“
”ارے واہ،لڑکا تو بڑا بہادر ہے، سوال یوں کر رہا ہے جیسے یہ ہمیں اغوا کر کے یہاں لایا ہے۔“ ایک نے کہا تو باقی دونوں ہنس دیے۔
وہ جمال کا مذاق اُڑا رہے تھے۔
”تم مجھے کیوں…“ جمال نے دوبارہ پوچھنا چاہا تو ایک نے آ گے بڑھ کر زور دار تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا۔جمال چکرا کر فرش پر جا گرا۔تھپڑ مارنے والے نے اسے کالر سے پکڑ کر اٹھاتے ہوئے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا:
”ہمیں خود پتہ نہیں ہے کہ تمہیں اغوا کیوں کیا؟“
”یہ تم اچھا نہیں کر رہے ہو؟“ جمال نے اپنا کالر چھڑانے کی کوشش کر تے ہوئے کہا۔
”ہمیں تو پتہ نہیں یہ اچھا ہے یا برا، مگر… تمہارے ساتھ بہت برا ہو سکتا ہے۔ اس لیے خاموشی سے چپ چاپ یہاں پڑے رہو، ورنہ مار مار کربے ہوش کر دیں گے۔“ ایک بدہیئت شکل والے نے کہا تو اس کے پیچھے کھڑا ایک غنڈا دانت پیستے ہوئے بولا:
”اور اگر ہمیں زیادہ تنگ کرنے کی کوشش کی تو جان سے بھی مار دیں گے۔“
اس نے اپنی بات ختم کی ہی تھی کہ تیسرا آ گے بڑھا، اس نے جمال کو زور سے دھکا دیا، جمال لڑکھڑاتا ہوا فرش پر جا گرا۔
اس کے سر میں چوٹ لگی تھی۔دردکی تیز ٹیس نے اسے چکر ا کر رکھ دیا تھا۔ درد کی لہریں اس کے سر میں پھرنے لگیں۔ وہ ماتھے کو دونوں ہاتھوں سے سہلاتے ہوئے اٹھا، مگر درد کی ٹیسیں اسے گھما رہی تھیں۔وہ سامنے دیکھ رہا تھا۔ دروازہ بند ہو چکا تھا۔وہ بمشکل اٹھا اور دروازے تک جا کر اسے کھولنے کی کوشش کی۔لیکن شاید باہر سے کنڈی چڑھا دی گئی تھی یا تالا لگا دیا گیا تھا۔وہ کچھ دیر تک کوشش کرتا رہا، پھر مایوس ہو کر واپس فرش پر بیٹھ گیا۔
زندگی میں پہلی بار اسے خطرے کا احساس ہوا تھا۔اس نے کہانیوں میں پڑھا اور فلموں میں فقط دیکھا تھا لیکن حقیقت میں کبھی اس طرح کے حالات سے دو چار نہیں ہوا تھا۔اسے اغوا کیوں کیا گیا؟ یہ سوال اب اس کے ذہن میں نہیں تھا، بلکہ اسے پریشانی ہو رہی تھی۔ اگر وہ تھوڑی دیر مزید گھر نہ گیا تو گھر والوں کا حال کیا ہو گا؟ایک ایک چہرہ اس کی نگاہوں کے سامنے گھومنے لگا۔ ماماکا تو سب سے زیادہ برا حال ہوگا، پاپا مجھے تلاش کرنے کہاں کہاں جا ئیں گے؟ وہ تو اس کے بغیر کھانا نہیں کھاتے، وہ کیا کریں گے، کتنے پریشان ہوں گے، وہ سب لوگ؟ وہ جس قدر پریشانی میں سوچ رہا تھا، اس کے دماغ میں اتنا ہی زیادہ درد اُٹھنے لگا تھا۔ اس نے سر پر ہاتھ پھیر کر دیکھا، کہیں سے بھی خون نہیں نکلا تھا۔نہ ہی کہیں گومڑ بنا تھا، پھر لمحہ بہ لمحہ ٹیس کی شدت کیوں بڑھتی جا رہی ہے؟
ایک طرف اسے دماغ میں بڑھتی ٹیس نے ادھ موا کر دیا تھا تو دوسری جانب بڑھتے ہوئے خطرے نے اس کی پریشانی بڑھا دی تھی۔ اغوا کرنے والے اس کے دوست نہیں ہو سکتے تھے۔ وہ اسے ضرور نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ مجھے کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے۔ یہی سوچ کر وہ اٹھا تو اسے لگا جیسے اس کے پیروں میں جان ہی نہیں رہی۔ اس نے پوری قوت لگائی اور اٹھ گیا۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا دروازے کی سمت بڑھا۔ اس نے دروازہ پھر سے پیٹنے کے ساتھ زور زور سے چلانا شروع کر دیا۔
”کوئی ہے… کوئی ہے…“
تبھی ایک دم سے دروازہ کھلا اور وہی غنڈے پھر سے اندر آ گئے۔ انہوں نے کوئی جواب دئیے بغیر اسے پکڑا اور بری طرح مارنے لگے۔ ایک نے جمال کو گھمایا اور پھر سے فرش پر پھینک دیا۔ اس بار گرتے ہوئے جمال نے اپنا سر تو بچا لیا لیکن اس کے کاندھے پر چوٹ لگ گئی تھی۔
”تجھے ہماری بات سمجھ میں نہیں آ رہی لڑکے…؟“ایک غنڈے نے کہا۔
”اس بارچھوڑ رہے ہیں، اب شور کیا تو سیدھا اوپر پہنچا دیں گے۔“ دوسرا غصے میں بولا۔
”میرا قصور کیا مجھے بتاؤ تو سہی، کیوں…“ اس نے چلاتے ہوئے پوچھا
”کتنی بار بتائیں، ہمیں کوئی پتہ نہیں۔“ ایک غنڈے نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا۔
”دیکھ اب اگر چیخا نا، توپھر تیری خیر نہیں۔“ اس کے ساتھ کھڑے غنڈے نے کہاتوجمال خاموش رہا۔
وہ پھر سے دروازہ بند کر کے باہر چلے گئے۔ جمال کو لگا جیسے اس کے دماغ میں جھماکے ہو رہے ہیں۔
اس کی نگاہوں کے سامنے کبھی اندھیرا چھا جاتا اور کبھی رنگین روشنیاں گڈ مڈ ہو نے لگتیں۔وہ سمجھ نہ سکا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اچانک اسے لگا جیسے کوئی ہیولہ سا چھا گیا ہے۔ اس کی نگاہوں کے سامنے تاریکی چھا گئی۔مکمل تاریکی۔ وہ پریشان ہو گیا۔ وہ یہی سمجھا کہ اس کی بینائی چلی گئی ہے۔ لیکن اگلے ہی لمحے روشنی کا ایک نقطہ واضح اور پھر پھیلتا چلا گیا۔اس کی نگاہوں کے سامنے ایک منظر چل پڑا۔
اس نے دیکھا، وہ ایک میدان میں کھڑا ہے۔اچانک روشنی کی کئی رنگ برنگی لکیروں نے اسے جکڑ لیا ہے۔وہ ان سے خود کو چھڑوانا چاہتا ہے لیکن وہ لکیریں اسے چھوڑ نہیں رہیں۔ انہوں نے اسے دھکیل کر ہوا میں اچھال دیا۔ وہ بظاہر آ زاد تھا لیکن خود کو جکڑا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ وہ خود کو چھڑانے کی جتنی کوشش کرتا، اسی قدر اس کے بدن میں ٹیسیں اٹھنے لگتیں۔ اچانک اس کے سامنے ایک پرندہ آ گیا جو اپنے پَر پھیلائے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ رنگ برنگی لکیریں اسے اس پرندے کی جانب بڑھنے پر مجبور کر رہی ہوتی ہیں۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس پرندے کی جانب بڑھ رہا ہوتا ہے۔وہ ان سے خود کو چھڑوانا چاہتا ہے لیکن ان کی گرفت سے آ زاد نہیں ہو پاتا۔وہ پرندے کے بالکل قریب پہنچ جاتا ہے۔ پرندہ اسے نگلنے کو تیار ہو تا ہے۔اسی لمحے وہ اپنا پورا زور لگا کر ان رنگ برنگی لکیروں سے خود کو چھڑوانے کی کوشش کر تا ہے۔ لکیریں اڑنے لگتی ہیں۔ پرندہ خوف زدہ ہو جاتاہے۔ اس نے دیکھا، سامنے ایک دم سے اندھیرا چھا گیا۔
اس نے چونک کر آنکھیں کھول دیں۔اس کے سر کا درد ختم ہو چکا تھا۔ وہ حیرت سے اپنے ارد گرد دیکھنے لگا تھا۔

……٭……

جن کی طاقت

لندن کے قدیمی علاقے میں موجودرچرڈ ریسریچ انسٹیٹیوٹ کی گیارہویں منزل کے ایک نیم تاریک کمرے میں دو لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے چہروں پہ پریشانی پھیلی ہوئی تھی۔ وہ ایک میز کے گرد خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ تیسری کرسی خالی تھی۔ اچانک ایک دروازہ کھلا اور بلند قامت ڈاکٹر ولیم رچرڈتیزی سے چلتا ہوا خالی کرسی پر آن بیٹھا۔اس نے آ تے ہی بوڑھے ڈاکٹر جیمسن کی طرف دیکھاپھر گہری سانس لے کر بولا۔
”تم میرے اس پلان کی مخالفت کیوں کر رہے ہو؟“
”اس لیے کہ تم غلط کر رہے ہو۔“ بوڑھے جیمسن نے نہایت سکون سے کہا تو ڈاکٹرولیم نے گھور کر اسے دیکھا پھر غصے میں غراتے ہوئے بولا:
”تم پاگل ہو گئے یا تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے یا پھر بوڑھے ہونے کی وجہ سے تم سٹھیا گئے ہو، جو تم اس طرح کی بات کر رہے ہو؟“
”نہ تو میں پاگل ہوں اور نہ ہی میرا دماغ خراب ہے، تم جو کرنے جا رہے ہو، اس کا تمہیں نقصان ہو گا، تم اس سے کبھی بھی فائدہ حاصل نہیں کر سکتے۔“ بوڑھے جیمسن نے اسے سمجھاتے ہوئے بڑے تحمل سے کہا۔
”کیا میرا باپ پاگل تھا جس نے کروڑوں پونڈ اس پر اجیکٹ پرخرچ کر دئیے اور اب تک خرچ ہو رہے ہیں، وہ…“ ولیم نے کہنا چاہا تو بوڑھے جیمسن نے ٹوکتے ہوئے کہا۔
”جو کچھ تم سوچ رہے ہو، اس کے لیے تمہارے باپ نے اتنازیادہ سرمایہ خرچ نہیں کیا تھا۔ وہ انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ لیکن تم اس پر اجیکٹ کو اپنے غلط مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہو۔“اس بار بوڑھے جیمسن نے کہا تو اس کی آ واز میں غصہ لہرا رہا تھا۔
”تمہارا کیا خیال ہے،میرے باپ نے جو سرمایہ لگایا، اسے میں ایسے یونہی چھوڑ دوں۔ اس کا فائدہ وہ لوگ اٹھائیں جنہوں نے اس پر خرچ نہیں کیا۔ تم یہ جانتے ہو، اس سے ہمیں کیا فائدہ ملنے والا ہے۔ کیا تم نے یہ فائل پوری طرح پڑھ رکھی ہے؟“ ولیم نے ایک موٹی سی نیلی فائل میز پر سے اٹھا کر اسے دکھائی اورواپس میز پر رکھ دی۔
”میں تو وہ کچھ بھی جانتا ہوں، جو اس فائل میں نہیں ہے۔“ اس نے گہرے لہجے میں کہا۔
”کیا مطلب…؟“ ولیم نے چونکتے ہوئے پوچھا۔
”مطلب یہ کہ تم اس پراجیکٹ کو جتنا سادہ سمجھ رہے ہو، وہ اتنا سادہ ہے نہیں، پھر ابھی وقت نہیں آ یا کہ اس پراجیکٹ کو یوں چھیڑا جائے، کیونکہ ابھی اس پراجیکٹ کے مکمل ہو نے میں مزید چھ ماہ باقی ہیں۔“ بوڑھے جیمسن نے نہایت سکون سے کہا۔
”تم جھوٹ بول رہے ہو؟“ ولیم نے پریشان ہو تے ہوئے کہا۔
”میں جھوٹ نہیں بول رہا، بلکہ آج سے اٹھارہ برس پہلے سے میں اس پراجیکٹ پر ساتھ ساتھ کام کر رہا ہوں۔ تمہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اس میں مزید کتنے لوگ کام کر رہے ہیں۔میری مانوتو اسے بھول جاؤ،اگر اچھا برتاؤ کرو گے تو ہو سکتا ہے تمہارا کوئی فائدہ ہو جائے۔“بوڑھے جیمسن نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”میں اسے بھول نہیں سکتا، بلکہ تمہیں سب بتانا ہو گا، جو میں نہیں جانتا، ہو سکتا ہے میں تمہاری بات مان کر اس پراجیکٹ کو بھول جاؤں۔“ ولیم نے مفاہمانہ انداز میں کہا۔
”بولو، پوری تفصیل بتاؤ۔“ ساتھ میں بیٹھے ہوئے شخص نے کہا تو بوڑھے جیمسن نے ان دونوں کی طرف دیکھا اور پھر کہتا چلا گیا۔
”آج سے تقریباً اٹھارہ برس پہلے ہم نے یہ سوچا کہ ایک تجربہ کیا جائے۔ تمہارا باپ انسانی جینز کا ماہر تھا۔ اس کے ساتھ کام کر نے والے بھی دوماہر لوگ تھے۔جن میں ایک میں بھی ہوں۔ ہمیں اس تجربے میں کچھ دوسرے علوم کے لوگ بھی درکار تھے۔ وہ بھی ہم نے حاصل کر لیے، ہم جنیٹک انجینئرنگ میں ایک شاہکار بنانا چاہتے تھے۔“
”کیسے، کیا سوچ تھی؟“ ساتھ بیٹھے ہوئے شخص نے پوچھا۔
”ایک بچے کی پیدائش سے پہلے اس کے جینز میں تبدیلی کر کے اس میں خاص قسم کی صلاحتیں پیدا کرنے کا منصوبہ تھا۔ یہ ساری صلاحتیں اس وقت سامنے آنی ہیں جب وہ پورے پندرہ برس کا ہو جائے گا۔ اس بچے پر خاص کوڈ کے ذریعے ان صلاحیتوں کو دیکھا جائے گا۔اور پھر اس…“
”یہ سب ہم جانتے ہیں، تمہارے پاس کوئی نئی بات ہے تو بتاؤ۔“ولیم نے چیختے ہوئے کہاتو بوڑھے جیمسن نے سکون سے پوچھا۔
”اگر تم لڑکے کو حاصل کر بھی لو تو اس کا کوڈ کہاں سے لو گے؟“
”تم کس لیے ہو؟“ولیم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”نہیں، میں کچھ نہیں کر سکتا، کوڈ اس لڑکے کا دادا ہی دے سکتا ہے۔جس نے اس لڑکے کو ہمارے تجربے کے لیے پیش کیا تھا۔ وہ اسی کی نگرانی میں پل رہا ہے۔“بوڑھے جیمسن نے کہا تو ولیم نے قہقہہ لگا دیا۔
”سنو بوڑھے! تم کیا سمجھتے ہو، میں پاگل ہو ں جو اس لڑکے کے بارے میں نہیں جانتا، میں نے پوری تحقیق کر لی ہے، میرے ساتھ میرے لوگ بھی اس بارے میں جانتے ہیں، ہم لڑکے تک پہنچ گئے ہیں، وہ اگلے دس گھنٹوں میں ہمارے پاس پہنچ جائے گا۔“
”لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، اس کے لیے کوڈ…“ بوڑھے جیمسن نے کہنا چاہا تو ولیم نے مسکراتے ہوئے کہا:
”ہمیں تمہارے کوڈ کی ضرورت ہی نہیں، ہمارے ماہر اسے اپنے انداز میں تیار کر لیں گے۔تم بھی نہیں جانتے کہ… وہ کیا چیز بن جائے گی۔ اس کے ذریعے ہم اس دنیا کو قابو کر لیں گے۔ جو چاہیں گے، کریں گے۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے زور دار قہقہہ لگایا تو بوڑھا جیمسن اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔
”تم غلط کر رہے ہو، تم کچھ نہیں کر پاؤ گے۔“ بوڑھا جیمسن یہ کہہ کر اٹھنے لگا تو ولیم نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا:
”بیٹھو ابھی، تمہیں تماشہ دکھاتا ہوں۔“
یہ کہتے ہی اس نے میز کی دراز سے ریموٹ نکالا، اپنی کرسی گھمائی اور سامنے لگی بڑی اسکرین کو روشن کر دیا۔
اسکرین پر ایک بہت بڑا میدان دکھائی دے رہا تھا۔ جس میں ایک ہیلی کاپٹرکھڑا تھا۔ اس کا پنکھا یوں گھوم کر آ ہستہ ہو رہا تھا، جیسے ہیلی کاپٹر نے ابھی لینڈ کیا ہو۔
”بولو پیٹر، کیا ہو رہا ہے؟“ ولیم نے پوچھا۔
”بس ابھی وہ لڑکا لایا جائے گا، وہ دیکھو…“ ایک آ واز ابھری تو اس کے ساتھ ہی اسکرین میں ایک فور وہیل جیپ آ کر رکی۔چند لمحوں بعد اس میں سے ایک لڑکا باہر نکالا گیا۔ وہ دراز قد لڑکا تھا۔ اسے دیکھتے ہی بوڑھے جیمسن کے منہ سے بے ساختہ نکلا:
”جمال…“
”پہچان گئے ہو، یہی لڑکا ہے نا؟“ ولیم نے پوچھا۔
”یہی ہے، چھوڑ دو اسے… تم غلط کر رہے ہو۔“ بوڑھے جیمسن نے آرزدہ لہجے میں کہا۔
”بکواس بند کرو اورخاموشی سے دیکھو۔“ ولیم نے دھاڑتے ہوئے بد تمیزی سے کہا، اس نے اس کی عمر کا بھی لحاظ نہیں رکھا تھا۔بوڑھے جیمسن کے چہرے پردکھ چھا گیا تھا۔
منظر بڑا واضح تھا۔وہ سب اسکرین کی جانب متوجہ ہو گئے تھے۔ ہیلی کاپٹر کا شور سنائی دے رہا تھا۔چند لوگ جمال کو پکڑ کر ہیلی کاپٹر کی جانب لا رہے تھے۔ یہ سارا منظر اس کیمرے سے دکھائی دے رہا تھا،جو ولیم کے خاص آ دمی جیک کے ماتھے پر لگا ہوا تھا۔ وہ ولیم کے ساتھ رابطے میں تھا۔ تبھی ولیم نے اسکرین کی طرف دیکھ کر پوچھا:
”ہاں جیک! وہاں کیا صورت حال ہے؟“
”یہی لڑکا،”جی بوائے“ہے۔اسے پکڑ لیا ہے، بس اب اسے ہیلی کاپٹر میں سوار کرتے ہیں،پھر اسے بے ہوش کر کے جزیرے پر لے جائیں گے۔ وہاں سے آپ کا چارٹرڈ طیارہ اسے لے کر لندن کی طرف روانہ ہو جائے گا۔“ جیک نے تفصیل بتائی۔
”اوکے! جلدی کرو۔“ ولیم نے تحکمانہ لہجے میں کہا اور اسکرین پر دیکھنے لگا۔
چند غنڈوں نے جمال کو پکڑا ہوا تھا اور وہ اسے لے کر ہیلی کاپٹر کی جانب بڑھ رہے تھے۔اچانک جمال نے خود کو چھڑانے کے لیے مزاحمت شروع کر دی۔ اس نے زور لگا کر اپنا بازو کھینچا تو ایک غنڈے نے اسے گھونسہ مار دیا۔ جمال نے انتہائی غصے سے اس کی طرف دیکھا اوراپنا بازو گھمایا۔ وہ غنڈہ ہوا میں اچھلا اور دور جا گرا۔
جمال کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا ہو جائے گا۔وہ حیرت سے دور پڑے غنڈے کو دیکھ رہا تھا جو اٹھنے کی کوشش میں اٹھ نہیں پا رہا تھا۔ اسی لمحے ایک اور غنڈہ اس کی طرف بڑھا، جمال نے اپنا بازو گھمایا اور اس کے سینے پر دے مارا، وہ غنڈہ یوں اُڑا جیسے کسی طاقتور ہاتھ کی سونڈ اُسے لگی ہو اور وہ ہوا میں تیر رہا ہو۔ ولیم کے منہ سے بے ساختہ نکلا:
”ارے یہ کیا…؟“
”میں نے کہا تھا نا، ابھی اسے مت چھیڑیں۔“ بوڑھے جیمسن نے لرزتے ہوئے لہجے میں کہا۔
شاید ولیم نے نہیں سنا تھا وہ اسکرین پر جو مناظر دیکھ رہاتھا اس سے لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی ایکشن فلم دیکھ رہا ہوں۔
جمال اپنے آپ کو حیرت سے دیکھ رہا تھا، جبکہ اس کے ارد گرد لوگ اسے یوں دیکھ رہے تھے جیسے انہیں بھی یقین ہی نہ آ رہا ہو کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے۔ اگلے چند لمحوں میں دو غنڈے اس کی طرف بڑھے۔ جمال نے اپنے دونوں ہاتھوں سے انہیں روک لیا۔ بس ایک دو لمحے ان میں زور آزمائی ہوئی، پھر جمال نے یوں انہیں پکڑا جیسے وہ جسم نہ ہوں خالی کپڑے ہوں، اس نے انہیں اوپر اٹھایا، پھر دونوں کو مخالف سمت میں جھٹک دیا۔ ان میں سے ایک جاکر ہیلی کاپٹر میں لگااور پھر زمین پر گر گیا۔ ایسے میں ایک فائر کی آ واز آ ئی۔
”نو نو… گولی نہیں، اسے کسی صورت نہیں مارنا، زندہ پکڑنا ہے، اسے زندہ پکڑنا ہے…“ ولیم نے تیزی سے چیختے ہوئے کہا۔
”سر! اس میں تو کسی جن کی طاقت آ گئی ہے۔“جیک کی حیرت میں ڈوبی لرزتی ہوئی آ واز ابھری۔
”اسے ہر حال میں قابو کرو،آ گے بڑھو۔“ ولیم چیخا۔
”میں پوری کوشش کرتا ہوں۔“جیک کی آ واز آ ئی پھر اگلے چند لمحوں میں اسکرین پر جمال کی تصویر واضح ہونے لگی۔ جیسے ہی جیک اس کے قریب گیا اور اس نے جمال کو پکڑنے کی کوشش کی تو اسکرین دھندلی ہو گئی۔ا س کے ساتھ ہی رابطہ منقطع ہو گیا۔
”اوہ…“ ولیم کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
”اب کچھ نہیں ہو سکتا۔“بوڑھے جیمسن نے کہا اور اس کمرے سے باہر جانے کے لیے مڑا تو ولیم نے چیختے ہوئے کہا۔
”تم میرا ارادہ نہیں بدل سکتے، میں اس جی بوائے کو یہاں لا کر چھوڑوں گا۔ اسے اپنی قوت بناؤں گا اور پھر پوری دنیا پر حکومت کروں گا۔تم دیکھنا۔“
بوڑھا جیمسن ایک لمحے کو رکا اور پھر کمرے سے نکلتا چلا گیا۔ ولیم پاگلوں کی طرح چیختا ہوا اپنے سامنے کھڑے شخص کو مختلف احکامات دینے لگا۔

……٭……

تم بہت قیمتی ہو!

سارے غنڈے زمین بوس ہو چکے تھے۔جمال کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس میں ایسی کیاقوت آ گئی ہے کہ وہ انہیں یوں پھینک رہا ہے جیسے کوئی فٹ بال ہوا میں اچھا ل دی جائے۔ اسے لگا جیسے اس کے اندر کوئی بھوت سما گیا ہے۔ جس کی طاقت سے وہ یہ سب کر رہا ہے۔اس نے بچوں کی کہانیوں میں پڑھا تھا کہ عین مصیبت کے وقت کوئی جن بھوت آ کر مدد کرتا ہے، شاید اس کی مدد کرنے بھی کوئی جن یا بھوت آ ن پہنچا ہے۔ اس کا حوصلہ بڑھ گیا تھا۔ایک غیر ملکی بھی اس کی طرف بڑھا تو اس نے اس کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا۔ وہ کچھ فاصلے پر پڑا کراہ رہا تھا۔ اس نے اپنے آ پ کو دیکھا،اسے خود پر حیرت ہو رہی تھی۔اس کے سامنے ابھی تین لوگ مزید موجود تھے، جن کے ہاتھوں میں گنیں پکڑی ہوئی تھیں۔ وہ تینوں اس کی جانب بڑھے تو جمال بھی انتہائی سرعت سے ان کی جانب بڑھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنی گنیں سیدھی کرتے جمال نے ہوا میں چھلانگ لگائی اور اپنے پاؤں پھیلا دئیے۔ اگلے ہی لمحے اس کے پاؤں سامنے آ تے ہوئے دو گن برداروں کے منہ پر لگے۔ تیسرا بالکل اس کے نیچے تھا، اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو جوڑا اور اس کے سر پر مارا۔ وہ سبھی الٹ کر پیچھے گر پڑے۔ جمال ان کی دوسری جانب گرا۔ وہ سب زمین پر پڑے کراہ رہے تھے۔
”بھاگو…“ ایک طرف پڑے جیک کی آواز ابھری تو زمین پر گرے لوگوں کے بدن میں جیسے بجلی بھر گئی۔ وہ انتہائی تیزی سے اٹھے اور ہیلی کاپٹر کی طرف دیوانہ واردوڑ پڑے۔
اسی لمحے جمال کے دماغ میں آیا کہ وہ زمین پر پڑی گن اٹھائے اور ان پر گولیاں برسا دے۔ اگلے ہی لمحے وہ گن تک پہنچا اور اس نے گن اٹھا لی۔ اس نے کبھی گن نہیں چلائی تھی، نہ ہی اُسے گن چلانے کا تجربہ تھا لیکن اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کے اندر سمایاہوا بھوت ہی سب کچھ کر رہا ہے۔ اس نے ٹرائیگر پر انگلی رکھی اور ہیلی کاپٹر کی طرف نال کر کے فائر کرنے لگا۔ ہیلی کاپٹر میں وہ چند لوگ سوار ہو چکے تھے۔ وہ فائر کرتا رہا یہاں تک کہ میگزین خالی ہو گیا۔ اس کے فائر ہیلی کاپٹر کو لگتے رہے لیکن ہیلی کاپٹر اُڑ گیا۔
ایک دم سے خاموشی چھا گئی تھی۔ اس نے اپنے ارد گرد دیکھا، وہ غنڈے سہمے ہوئے ایک جانب پڑے تھے۔ ان کی آ نکھوں میں خوف تھا۔ وہ دہشت زدہ انداز میں جمال کو یوں دیکھ رہے تھے جیسے کوئی بھوت ان کے سامنے کھڑا ہو۔جیسے ہی جمال ان کی طرف بڑھا، وہ تھر تھر کانپنے لگے۔
”مجھے کچھ مت کہنا…“ ایک غنڈے نے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔ جمال کا دل چاہ رہا تھا کہ جو گن اس نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ہے، اس غنڈے کے سر پر دے مارے لیکن اسے یہ بھی پتہ چل رہا تھا کہ ایسا کرنے سے وہ مر بھی سکتا ہے۔ وہ انہیں مارنانہیں چاہتا تھا۔ اس کے اندر سے رک جانے کی بھی آ واز آ رہی تھی۔ وہ الجھن میں پڑ گیا۔ اس کے اندر عجیب قسم کی کشمکش چلنے لگی تھی۔وہ خود کو نہ روک سکا، جمال نے وہ گن نال کی طرف سے پکڑی اوراس کا دستہ غنڈے کے سر پر مار دیا۔ دستہ سر پر تو نہ لگا مگر وہ غنڈہ اپنا شانہ پکڑ کر دہرا ہو گیا۔ وہ دوسرے کی جانب بڑھا جو دہشت زدہ انداز میں جمال کو دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ ہوا میں لہرا رہا تھا۔ جمال نے اسے مارنے کے لیے گن اٹھائی ہی تھی کہ انہی لمحات میں اسے اپنے پاپا کی آواز سنائی دی۔
”رک جاؤ جمال…“
جمال کا اٹھا ہوا ہاتھ وہیں رک گیا۔اسے لگا جیسے اس کے اندر سمایا ہوا بھوت ایک دم سے نکل گیا ہو۔اسے ہاتھ میں پکڑی ہو ئی گن بھاری لگی تو اس نے چھوڑ دی۔ گن زمین پر جا گری۔جیسے ہی اس کے پاپا سامنے آ ئے اس کے پیچھے کئی پولیس والے دکھائی دینے لگے۔ ان میں سب سے آ گے انسپکٹر منصور تھا۔ اس نے قریب آ کر چاروں جانب دیکھا۔ اس کے چہرے پر حیرت امڈ آ ئی تھی۔ باقی سب ادھر ادھر پھیل گئے۔ انسپکٹر منصور نے اگلے ہی لمحے اپنی حیرت پر قابو پایا اور تیزی سے پوچھا:
”ہیلی کاپٹر یہاں سے اُڑا تھا؟“
”ہاں، وہ مجھے اس ہیلی کاپٹر میں لے جانا چاہتے تھے۔“جمال نے سکون سے کہا۔
”یہ زمین پر پڑے لوگ، ہیلی کاپٹر، کیا یہ لوگ…“ انسپکٹر کی حیرت ابھی تک کم نہیں ہو ئی تھی۔ تبھی جمال نے زمین پر پڑے غنڈوں کی جانب اشارہ کر کے کہا:
”ان لوگوں نے مجھے اغوا کیا تھا، پہلے انہوں نے مجھے ایک گھر میں قید رکھا۔ اب یہ مجھے ہیلی کاپٹر پر آ ئے لوگوں کے حوالے کرنا چاہتے تھے۔“
”اوہ… تم جانتے ہو وہ کون تھے؟“ انسپکٹر نے پوچھا۔
”نہیں! میں نہیں جانتا، میں نے انہیں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔“ جمال نے بتایا تو پاپا نے تیزی سے کہا۔
”چلو، پہلے گھر چلو، پھر بات کرتے ہیں۔“
”ہاں پاپا۔“ وہ اپنے پاپا کے سینے سے لگتے ہوئے بولا۔کچھ دیر بعد وہ سب ایک گاڑی میں بیٹھے گھر کی جانب جا رہے تھے۔انسپکٹر منصور کے چہرے پر حیرت ابھی تک پھیلی ہوئی تھی۔

……٭……

اسٹڈی روم کی چاروں دیواروں کے ساتھ کتابوں کے شیلف لگے ہوئے تھے۔ بالکل درمیان میں ایک لمبی میز کے گرددھری کرسیوں پر جمال، اس کے پاپا ڈاکٹرانور الیاس، انسپکٹر منصور اور دادا ڈاکٹر الیاس بیٹھے ہوئے تھے۔ دادا نے بڑے سکون سے جمال کی روداد سنی تھی۔ باقی لوگ بھی سن رہے تھے۔ انسپکٹر منصور بے چینی سے بار با ر پہلو بدل رہا تھا۔اس کے چہرے پر حیرت بھری ناگواری پھیلی ہوئی تھی۔ جیسے یہ سب سفید جھوٹ ہو اور اس پر یقین نہ کیا جا سکتا ہو۔جمال جب اپنی بات کہہ چکا تو انسپکٹر تیزی سے بولا:
”سر! یہ ایسا کیسے ممکن ہے، ایک لڑکا اچانک اتناطاقت ور ہو جائے کہ وہ کسی کو مارے اور وہ ہوا میں اچھل جائے، ناممکن ہے یہ…“
انسپکٹر کا سوال کمرے میں گونج کر رہ گیا تھا۔
ڈاکٹر الیاس کے چہرے پر انتہا درجے کا تحمل تھا۔انہوں نے اطمینان کے ساتھ اپنی آنکھوں پرسے چشمہ اتارااور احتیاط سے میز پر رکھتے ہوئے بولے:
”آپ یقین نہ کریں، کوئی بات نہیں۔ ہم آپ سے یہ منوانا بھی نہیں چاہتے مگرسچ یہ ہے کہ ایسا ممکن ہے انسپکٹر…“
”یہ ایسا… کیسے… ممکن ہے؟“ انسپکٹر نے الجھتے ہوئے بے یقینی سے کہا۔
”کیا تم نے جمال کو نہیں دیکھا، اس نے اکیلے اتنے آ دمیوں کا مقابلہ کیا، ان غنڈوں کو مار بھگایا؟“ ڈاکٹرالیاس نے انتہائی سنجیدگی سے پوچھا۔
”وہی تو… میں نے جو منظر دیکھا وہ ناقابل یقین ہے۔کیا ہم بھی اسے کسی بھوت پریت کی طاقت سمجھ کر خاموش ہو جائیں؟“ انسپکٹر منصور نے مایوسی بھرے لہجے میں کہا تو ڈاکٹرالیاس نے جمال کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
”بیٹا! آج سے پہلے… کبھی تم نے… خود میں… ایسی قوت… محسوس کی تھی؟“
”نہیں دادا جی…؟“ اس نے سوچتے ہوئے کہا۔
”اس قوت کا احساس تمہیں کس وقت ہوا؟“ ڈاکٹرالیاس نے پھر پوچھا۔
”میں نے جب ہیلی کاپٹر دیکھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ مجھے اب کہیں دور لے جانا چاہتے ہیں۔ ایسی جگہ جہاں سے میں پلٹ کر واپس نہ آ سکوں۔ تب میں نے آخری کوشش کر نے کا سوچا۔ میں نے اپنی پوری قوت لگا کر جب خود کو چھڑانا چاہاتو ایک غنڈہ ہوا میں اچھل گیا۔ تب مجھے خود یقین نہیں آ یا تھا کہ یہ میں نے کیا ہے۔“یہ کہتے ہوئے وہ ایک دم سے خاموش ہو گیا، وہ سوچنے لگا تو ڈاکٹرالیاس نے پوچھا:
”تمہیں یہ کیسے لگا کہ اب تمہیں آخری کوشش کر نی چاہیے؟“
”میں جب کمرے میں پڑا تھا، تب میں نے ایک الجھا ہوا منظر دیکھا تھا، یونہی میری نگاہوں کے سامنے آیا تھا، تب میں پوری طرح سمجھ نہیں پایا تھا۔“ جمال نے بتایا تو ڈاکٹرالیاس نے تیزی سے پوچھا۔
”اس وقت تمہاری حالت کیا تھی جب تم نے یہ منظر دیکھا، مطلب تم سوئے ہوئے تھے، جاگ رہے تھے یا…“
”میں بہت زیادہ تکلیف میں تھا، انہوں نے مجھے مارا تھا، جب انہوں نے مجھے دھکا دیا تو میرا سر فرش پر لگا تھا، درد کی اس شدت میں یہ منظر میری نگاہوں کے سامنے آ یا تھا، جسے میں فوری طور پر نہ سمجھ سکا۔“ جمال نے سوچتے ہوئے بتایا۔
”کیا اب تمہارے سر میں درد کا احساس ہے؟“ ڈاکٹرالیاس نے پوچھا۔
”نہیں! بالکل بھی نہیں، تب بہت زیادہ درد تھا۔“ اس نے اپنے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بتایا۔

”اس منظر سے تم نے کیا سمجھا تھا؟“ ڈاکٹرالیاس نے پھر پوچھا۔
”وہ منظر اس وقت تو مجھے سمجھ میں نہیں آ یا، وہ کچھ لکیروں میں تھا۔ الجھی ہوئی رنگ برنگی لکیریں۔ لیکن جب بعد وہ ہیلی کاپٹر میں نے دیکھا تو مجھے ساری بات سمجھ میں آ گئی۔ مجھے یوں لگا جیسے میں یہ سب کچھ پہلے ہی دیکھ چکا ہوں۔“ جمال نے خوشگوار حیرت سے کہا تو انسپکٹر منصور ایک دم سے یوں بیزار ہو گیا جیسے وہ بد مزہ ہو گیا ہو۔ اس کے چہرے پر الجھن پھیلنے لگی تھی۔ اس نے اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہا۔
”ڈاکٹر صاحب! یہ آپ نے کیا پراسراریت پھیلائی ہوئی ہے۔کیا آپ مجھے بے وقوف سمجھتے ہیں،آخریہ کیا تماشا ہے؟کچھ سمجھائیں گے مجھے آپ…؟“
ڈاکٹرالیاس نے گہری نگاہوں سے انسپکٹرمنصور کی طرف دیکھا،پھر بغیر برا منائے تحمل سے بولے:
”جمال کے ساتھ یہ واقعہ ہوا، آ پ نے دیکھا،اگر آپ سمجھو تو میں آپ کو سادہ سے انداز میں سمجھا دوں گا۔نہ سمجھو تو یہ بہت پراسرار ہے۔“
”وہی تو، وہی توسمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اگر آپ سمجھانا چاہیں تو…“ انسپکٹر منصور نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔
”دادا جی! میں بھی سمجھنا چاہتا ہوں، یہ سب کیا ہے؟ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟“ جمال نے بھی حیرت بھری سنجیدگی سے کہا تو ڈاکٹر الیاس کے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہو گئی۔پھر ایک طویل سانس لے کر کہتے چلے گئے۔
”یہ ایک راز ہے جو میں تمہیں کچھ مہینوں کے بعد بتانا چاہتا تھا۔ بلکہ یہ چند ماہ بعد ہی تمہیں بتانا بہت ضروری تھا۔“ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کو خاموش ہو ئے پھر کہتے چلے گئے:
”اس راز سے صرف ہم چھ لوگ واقف تھے۔ اس کے علاوہ کسی کو بھی معلوم نہیں تھا۔مگر لگتا ہے یہ راز اب کھل گیا ہے۔کچھ دیر پہلے مجھے ڈاکٹر سر جیمسن نے فون کرکے بتایا تومجھے لگا، اب یہ راز تم پر کھول دینا چاہیے۔“
”دادا جی! کیسا راز؟“ جمال نے بری طرح چونکتے ہوئے پوچھا۔
”سنو بیٹا! میں تمہیں سمجھاتا ہوں۔“ ڈاکٹر الیاس نے کہا تو باقی سب خاموش رہے۔ انہوں نے ایک گہری سانس لی اور پھر کہتے چلے گئے:
”یہ اس وقت کی بات ہے،جب تم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ میں ان دنوں لندن کے ایک ایسے ریسرچ سینٹر میں کام کرتا تھا جہاں جدید ترین مفروضات پر سائنسی تجربات ہو رہے تھے۔ وہاں دنیا کے ذہین ترین ڈاکٹر کام کرتے تھے۔ ہم نے وہاں کافی تجربات کیے۔ ڈاکٹر رچرڈ اس ریسرچ سینٹر کا مالک تھا۔ ایک دن اُنہیں ایک خیال سوجھا تو انہوں نے وہ خیال اپنے ساتھی، بااعتماد اور قابل دوستوں کے ساتھ شیئر کیا۔“
”کون سا خیال…؟“ جمال نے تجسس سے پوچھا۔
”ڈاکٹر رچرڈ اس وقت جنیٹک انجینئرنگ کے ماہر تھے۔ وہ اپنی لیبارٹری میں مختلف تجربات کرتے رہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ہم انسان کے جینز میں کچھ اس طرح کی تبدیلی کریں کہ انسان کی اپنی ذاتی صلاحیتیں اور قوت بہت زیادہ بڑھ جائے۔ جیسے کہ عام طور پر انسان زیادہ سے زیادہ دس بارہ گھنٹے مسلسل کام کر سکتا ہے پھر تھک جاتا ہے۔ لیکن جینز کی تبدیلی کے بعد وہ مسلسل کام کرتا رہے لیکن تھکے نہیں۔ یہ ڈاکٹر رچرڈ کا ابتدائی خیال تھا۔ پھر جب ہم ساتھ ملے تو یہ خیال کافی حد تک بدل گیا۔ اس میں ہم نے مل کر بہت ساری تبدیلیاں کی اور اس پر کام شروع کردیا۔“
”کیا ایسا ممکن ہے ڈاکٹر صاحب؟“ انسپکٹر منصور نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔
”جی ہاں! ایسا ممکن ہو چکا ہے۔ جنیٹک انجینئرنگ کے بارے میں آپ یہ سمجھو کہ یہ ایک جادو کی چھڑی ہے، بس جادو کرنے والے کو سمجھ بوجھ ہونی چاہیے۔ یہ سائنس تو اس حد تک آگے بڑھ چکی ہے کہ یہ ایک جیسا انسان بنا سکتی ہے، جو کلوننگ کے نام سے مشہور ہو چکی ہے۔“دادا جی نے تحمل سے بتایا۔
”ہاں! ایسا تو ہے لیکن اس پر تو پابندی لگ چکی ہے۔“ انسپکٹر منصور نے تیزی سے کہا۔
”ہاں! اسی لیے ہم نے سوچا کہ انسان کے جینز میں ایسی تبدیلیاں کی جائیں اور اس کی صلاحیتوں کو بڑھا دیا جائے۔“ انہوں نے بتایا۔
”یہ صلاحیتیں کیا… مطلب…“ انسپکٹر نے بے صبری سے کہا تو ڈاکٹر الیاس نے بردباری سے کہا:
”کچھ دوسرے علوم کے ماہر یہ جانتے ہیں اور یہ بات ان کے تجربات میں بھی ہے کہ بہت ساری ایسی صلاحیتیں،جس کے بارے میں عام آ دمی کو معلوم ہی نہیں ہوتا، وہ اس کے اند رہی پڑی ہوتی ہیں، کبھی خود بخود وہ صلاحیت سامنے آ جاتی ہے، کبھی ماحول وہ صلاحیت بیدار کر دیتا ہے اورکبھی ضرورت اس صلاحیت کو سامنے لے آ تی ہے۔“
”کیا آپ اسے کسی مثال سے سمجھا سکتے ہیں؟“ انسپکٹر نے دلچسپی لیتے ہوئے کہا تو وہ بولے۔
”یوں جیسے انسپکٹر بننے سے پہلے شاید آپ نے کبھی یہ سوچا بھی نہ ہو کہ آپ کو نشانہ بازی کی ضرورت پڑے گی۔آپ انسپکٹر بن گئے تو یہ لازمی ہو گیا۔ کچھ لوگ کسی فورسز میں نہیں ہوتے لیکن ان کا نشانہ انتہائی پختہ ہو تا ہے۔شاید اب آپ میرے بات سمجھے ہوں۔“
”ٹھیک ہے، انسانی صلاحیتوں کو ابھارنے اور انہیں کئی گنا طاقت ور کر نے کی کوشش کی؟“ اس نے پوچھا۔
”اس سے بھی بڑھ کر، اور بہت سارے تجربات بھی ہوئے۔“ دادا ڈاکٹر الیاس نے سکون سے سمجھایا تو جمال نے حیرت زدہ لہجے میں پوچھا۔
”تو کیا پھر وہ تجربہ مجھ پر کیا گیا تھا؟“
”ہاں! تم پر کیا گیا۔“ انہوں نے کہا تو ایک سناٹا چھا گیا۔ سب خاموش رہے تو وہ بولے:
”ہمیں ایک بچے کی ضرورت تھی۔ ہم نے تمہاری مامااورپاپا کو لندن بلوا لیا۔ ان کی مرضی سے یہ تجربہ شروع کیاگیا۔ تمہاری پیدائش سے پہلے ہی تمہارے جینز میں تبدیلیاں کرنا شروع کر دی گئیں تھیں۔ یہ ایک ایسا پیچیدہ عمل ہے جس کے بارے میں تم ابھی سمجھ نہیں پاؤ گے۔ تمہاری پیدائش کے دو ماہ بعد میں بھی تمہارے ساتھ یہاں پاکستان میں آ گیا تھا۔“
”اچھا! تو پھر یہ تبدیلی اب کیوں ظاہر ہوئی، پہلے کیوں نہیں؟“ انسپکٹر نے شک زدہ لہجے میں پوچھاتو ڈاکٹر الیاس نے بتایا:
”بہت اچھا سوال کیا آپ نے۔ دراصل گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں آنی تھیں۔ سب نہیں جانتے لیکن میں جانتا ہوں کہ دو سال کی عمر سے جمال میں تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ جس کا اسے احساس نہیں مگر میں اسے دیکھ رہا ہوں۔ اب مزید کیا تبدیلیاں آئیں گی یہ وقت بتائے گا۔“
”حیرت انگیز…“ انسپکٹر نے حیرت زدہ لہجے میں سرسراتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک چھ ماہ بعد اس میں ان تبدیلیوں کی شروعات ہوناتھی جن کی ہمیں توقع پہلے سے تھی۔ وہ سب واضح ہوتیں تو میں نے تب اسے اپنے مخصوص کوڈ کے ذریعے کنٹرول کرنا شروع کرنا تھا۔ لیکن دشمنوں نے بہت جلدی کی اور یہ تجربہ ناکام ہوتے ہوتے بچ گیا۔“ ڈاکٹر الیاس نے لرزتے لہجے میں یوں کہا جیسے بہت بڑے نقصان سے بچ گئے ہوں۔
”مطلب اس کا اغوا دشمن کر رہے تھے؟ کون تھے وہ دشمن…؟“ انسپکٹر کی تفتیشی رگ پھڑکی تو اس نے تجسس سے پوچھا۔
”ڈاکٹر رچرڈ کا بیٹا، ڈاکٹرولیم۔ وہ خود بھی ایک ماہر ڈاکٹر ہے لیکن اس کا دماغ خراب ہو چکا ہے۔ وہ انسانیت کی خدمت کی بجائے اس تجربے کو شیطانی قوتوں کو بڑھانے کے لیے جمال کو اپنی دسترس میں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے جمال کو اغوا کرنے کی کوشش کی تھی۔“ انہوں نے دبے دبے غصے میں کہا۔
”دادا جی! کیا وہ مجھے شیطانی قوتوں کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔“ جمال نے حیرت سے پوچھا۔
”نہیں، اسے شاید یہ نہیں معلوم کہ ساری کوڈنگ میرے پاس ہے۔“ ڈاکٹر الیاس نے اعتماد سے کہا۔
”دیکھیں!آپ میری بات کا برا محسوس نہیں کریں گے، خدانخواستہ اگر آپ کو کچھ ہو جائے تو یہ ساری کوڈنگ…“انسپکٹر منصور نے کہنا چاہا تو ڈاکٹر الیاس نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”تمہارا سوال بنتا ہے۔پر یہ جمال کے پاپا اور میرا بیٹا ڈاکٹر انور الیاس… اس کے پاس سب کچھ ہے۔ اس سارے پراجیکٹ کے بارے میں معلومات ہیں۔ وہ دو بندے جو اس پراجیکٹ میں ساتھ تھے اور اب بھی زندہ ہیں، انہیں بھی یہ معلومات دے دی گئی ہیں۔“ انہوں نے بتایا تو پھر سے خاموشی چھا گئی گئی۔ تبھی انسپکٹر منصور نے تشویش زدہ لہجے میں پوچھا:
”اب تو جمال کی بہت زیادہ حفاظت کرنا پڑے گی، یہ دشمنوں کی نگاہوں میں آچکا ہے، یہ بہت قیمتی تجربہ ہے۔“
”ہاں! تمہاری بات کسی حد تک درست ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ جمال اب اپنی حفاظت خود کر سکتا ہے۔“ انہوں نے اعتماد سے کہا۔
”دادا جی! کیا اب مجھ میں مزید تبدیلیاں آ سکتی ہیں؟“جمال نے پوچھا
”بالکل، ابھی تو شروعات ہوئی ہیں۔ کیا کیا تبدیلیاں آتی ہیں اور کتنی عمر تک یہ تبدیلیاں آتی جائیں گی، اور کون کون سی صلاحیتیں ظاہر ہوں گی، اب اس کا ہمیں انتظار کرنا ہوگا، مگر یہ ہوگا ضرور۔“
”یہ کیسے ممکن ہوگا؟“ انسپکٹر منصور نے بڑبڑاتے ہوئے پوچھا
”آپ صرف اتنا جان لو کہ جیسے کمپیوٹر ڈسک میں ہم کوئی پروگرام محفوظ کر دیتے ہیں، بالکل اس طرح اس جمال میں بہت کچھ فیڈ کر دیا گیا ہے۔ مجھے خوشگوار حیرت یہ ہے کہ جمال آئندہ آنے والاواقعہ پہلے محسوس کر سکتا ہے۔ یہ حیرت انگیزتبدیلی ہے۔ یہ خیال… ایک جرمن ڈاکٹر تھے، ان کا خیال تھا۔“
انسپکٹر منصور انتہائی حیرت سے جمال کو دیکھ رہا تھا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ لڑکا اتنی عجیب و غریب قسم کی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ تبھی ڈاکٹر انور الیاس پہلی بار گویا ہوا:
”جمال! ا بھی دو چار دن ہماری نگرانی میں رہے گا۔ آپ بھی یہ راز اپنے تک محدود رکھیں۔ ورنہ ہم سب کے لیے بہت مشکل ہو جائے گی۔ کسی بھی صورت یہ میڈیا وغیرہ تک نہ پہنچے۔میرا خیال ہے آپ میری بات سمجھ رہے ہیں؟“
”جی بالکل۔“ انسپکٹرمنصور نے سر ہلاتے ہوئے یوں کہا جیسے وہ اس معاملے کی سنگینی کو خوب سمجھ رہا ہو۔وہ چند لمحے مزید خاموشی سے بیٹھا رہا پھر سے اٹھ کر کھڑا ہوتے ہوئے بولا:
”سوری سر! اگر میری کوئی بات اچھی نہ لگی ہو۔ اب مجھے اجازت دیں۔“
”کوئی بات نہیں، آپ کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو یہی سوال کرتا، ٹھیک ہے، پھر ملاقات ہو تی ہے۔“ دادانے کہاتو وہ کمرے سے نکلتا چلا گیا۔ ڈاکٹر انور الیاس اس کے ساتھ چل دئیے۔
انسپکٹرمنصور کے جانے کے بعد ڈاکٹر الیاس نے جمال کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:
”ولیم اب تم میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہا ہے۔ وہ تمہیں ہر ممکن طریقے اغوا کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہ بات دھیان میں رہے۔ بہر حال ہمارے خفیہ ریسرچ سنٹر میں یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ ولیم کو ہر صورت میں ناکام کرنا ہے۔ وہ تو کوشش کریں گے لیکن تمہیں بھی اپنی حفاظت کا خیال رکھنا ہوگا۔“
”جی داداجی! میں اپنا خیال رکھوں گا۔“ جمال نے سعادت مندی سے کہا۔
”تم بہت قیمتی ہو۔ اپنی صلاحیتوں کو جس حد تک ممکن ہو چھپا کر رکھنا، ورنہ تم مشکل میں پڑ سکتے ہو۔“ انہوں نے مزید تاکید کرتے ہوئے کہا۔
”جی داداجی! میں سمجھتا ہوں۔“ جمال نے سمجھتے ہوئے کہا۔
”اوکے… اب تم جاؤ اور آرام کرو۔ مجھے بہت کام کرنا ہے ابھی۔“ انہوں نے کہا اور میز پر پڑا ہوا چشمہ اٹھا کر آنکھوں پر لگا لیا۔ جمال اٹھا اور اسٹڈی روم سے باہر نکلتا چلا گیا۔وہ خود اپنے بارے میں جان کر بہت حیران ہو رہا تھا۔

……٭……

بے ہوشی کی وبا

انسپکٹر منصور پولیس ڈیپارٹمنٹ کا محنتی، قابل اور ذہین آفیسر تھا۔ اس نے چند ایسے پیچیدہ کیس حل کیے تھے جن کے بارے میں کہا جا سکتا تھا کہ وہ کیس بہت الجھے ہوئے اور نہ سمجھ آنے والے تھے۔ اس کی ذہانت، قابلیت اور بہادری پر محکمے کے افسران بہت خوش تھے۔ اسی لیے انسپکٹر منصور کو ایسا خاص ٹاسک دیا جاتا تھا جو بہت مشکل، پیچیدہ اور الجھا ہوا ہوتا تھا۔ وہ خود بھی اپنے اردگرد ہونے والے واقعات پر نگاہ رکھتا۔ یہ اس کا نہ صرف فرض منصبی بلکہ شوق بھی تھا۔ وہ ایسے واقعات پر سوچتا، ان کے بارے معلومات اکٹھی کرتا اور پھر اس پر کام کر تا تھا۔ وہ جدید تحقیق اور جدید سائنس کے بارے میں معلومات کو بہت شوق سے پڑھتا اور ان میں دلچسپی رکھتا تھا۔
جمال کے حوالے سے جو واقعہ اس کے سامنے آیا تھا، وہ اس کے لیے انتہائی حیرت انگیز تھا۔ جسے فوری طور پر عقل تسلیم ہی نہیں کرتی تھی۔ مگر یہ سب اس کے سامنے ہوا تھا۔انسپکٹر منصور کو جمال کے بارے میں جان کر خوشگوار حیرت ہوئی تھی لیکن اسے یقین اب بھی نہیں تھا۔وہ اس واقعہ کو اب بھی شک کی نگاہ سے دیکھ رہا تھا۔یہ شک اس وقت تک رہنا تھا، جب تک اس نے خود تحقیق کر کے مطمئن نہیں ہو جانا تھا۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتا تھاکہ ڈاکٹر الیاس ایک معتبر اور مشہور سائنس دان ہے۔ وہ سوچتا چلا جا رہا تھا کہ اگر ڈاکٹر الیاس ایسا تجربہ کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے تو آ ئندہ آ نے والے دنوں میں کچھ بھی ہو سکتا ہے؟ اگر خدا نخواستہ جمال میں کوڈنگ غلط ہو گئی تو کیا ہوگا؟اگر دشمن اسے اپنے مقاصد میں استعمال کرنے میں کامیاب ہو گئے تو کیا ہوگا؟ڈاکٹر الیاس اور اس کے ساتھیوں نے جو تجربہ کیا ہے اس کے پیچھے ان کی اپنی سوچ اور محرکات کیا ہیں؟کیایہ محض سائنسی تحقیق تھی یا وہ بھی کوئی اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
ایسے ہی کئی سوال تھے جنہوں نے انسپکٹر منصور کو بے چین کر کے رکھ دیا تھا۔ یہ ایک محب وطن آفیسر کی سوچ تھی۔ اس کے ذہن میں یہ سوال بھی کلبلا رہا تھا کہ اگر جمال کی صلاحیتوں کو ملک و ملت کے دشمنوں سے بچانے کے لیے استعمال کیا جائے تو کیسا رہے گا؟یہ سوچتے ہی اس کے بدن میں سنسنی پھیل گئی۔
انسپکٹر منصور بے چین تھا۔ اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے؟کیا اسے اپنے ڈیپارٹمنٹ کو بتا دینا چاہئے؟یا ابھی اسے راز ہی میں رکھنا چاہئے؟وہ حیرت زدہ تھا، اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایک عام سا لڑکا جمال اس قدر قیمتی، پراسرار اور باصلاحیت بھی ہو سکتاہے۔ اس نے اس پر بہت سوچا، پھر اس نے یہ راز خود تک رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔جب تک پوری طرح تصدیق نہیں ہو جاتی تب تک جمال کے بارے میں سب راز ہی رکھنا ضروری تھا ورنہ وہ اپنے محکمے کو کیا ثبوت دیتا کہ جمال کیا ہے؟
دوسرے دن کی صبح وہ اپنے آ فس جانے کے لیے تیار ہو گیا تھا جب اسے ڈاکٹر الیاس کا فون آیا۔ حال احوال کے بعد انہوں نے پوچھا:
”انسپکٹر! اگر آ فس جاتے ہوئے آپ مجھے ملتے ہوئے جائیں تو آپ سے ایک اہم بات کرنی ہے؟“
”جی ضرور! میں ابھی تھوڑی دیر میں نکلوں گا اور آ پ سے مل کر ہی جاؤں گا۔“ انسپکٹر منصور نے نہایت شائستگی سے کہا۔
”میں انتظار کر رہا ہوں۔“ یہ کہہ کر انہوں نے فون بند کر دیا۔
تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد وہ ڈاکٹر الیاس کے اسٹڈی روم میں بیٹھا ہوا تھا۔کچھ دیر بعد ڈاکٹر الیاس اپنی لیب سے نکل کر آ گئے۔ وہ انہیں دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔ مصافحہ کرنے کے بعد دونوں آ منے سامنے بیٹھے تو ڈاکٹر الیاس نے سنجیدگی سے کہا:
”انسپکٹر منصور! میں آپ سے ایک اہم مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔“
”جی بولیں۔“ اس نے تجسس سے کہا تو ڈاکٹر الیاس نے اپنا سیل فون نکال کر اس کے سامنے کرتے ہوئے کہا:
”پہلے آپ یہ ویڈیو دیکھ لیں، پھر اس کے بعدہم بات کرتے ہیں۔“
انسپکٹر منصور نے سیل فون لیا اور اس پر ویڈیو چلا دی۔
ڈاکٹر ولیم کے لندن والے اس کمرے کا منظر تھا، جہاں وہ اہم ترین میٹنگ کر تا تھا۔وہاں پہلے ہی سے ایک سرخ چہرے والا شخص بیٹھا ہوا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد ڈاکٹر ولیم وہاں آ گیا۔ سرخ چہرے والا شخص اسے دیکھتے ہوئے کرسی پر براجمان رہا۔ وہ اس وقت تک ولیم کو دیکھتا رہا جب تک وہ سامنے دھری کرسی پر نہیں بیٹھ گیا۔چند لمحے ان کے درمیان خاموشی رہی۔ ولیم نے سرخ چہرے والے کو بھر پور نگاہوں سے دیکھااور پھر بارعب انداز میں کہا:
”مارٹن! میرا خیال ہے، ہمیں کام کی بات کر لینی چاہیے؟“
”بولو! کیا چاہتے ہو؟“ مارٹن نے بھاری آ واز میں پوچھا۔
”میں تمہارے ماضی کے بارے میں جانتا ہوں، تم نے مشکل ترین ٹاسک پورے کیے ہیں۔لیکن میں جو ٹاسک تمہیں دینا چاہتا ہوں۔یہ مشکل ترین حد سے بھی مشکل ہو گا۔“ ولیم نے کہا تو سرخ چہرے والے مارٹن نے لبوں پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔
”تم کچھ کہو گے بھی یا مجھے ڈرانے کی ناکام کوشش کر تے رہو گے۔“
تبھی ولیم نے ا س کی بات کا برا نہ مناتے ہوئے پرسکون لہجے میں کہا:
”ایک لڑکا اغوا کرنا ہے جو ناقابل یقین صلاحیتوں کا مالک ہے۔“
”اس کے بارے میں کچھ مزید بتاؤ گے؟‘مارٹن نے پہلو بدلتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
”ہاں! پہلے یہ دیکھو…“ولیم نے کہا اور اپنی کرسی سمیت گھوم گیا۔کچھ لمحوں بعد اسکرین روشن ہو گئی۔ وہاں پر ایک ویڈیو چلنے لگی۔وہاں پر وہی جیک کے کیمرے سے ریکارڈ شدہ منظر چل رہے تھے۔مارٹن غور سے ویڈیو کلپ دیکھ رہا تھا۔ وہ ویڈیو کلپ ختم ہو گیا تومارٹن نے پر جوش لہجے میں کہا:
”اس لڑکے کو خود نہیں معلوم اس میں کیا کیا صلاحیتیں ہیں۔“
”تم نے یہ بات کیسے کہہ سکتے ہو؟“ولیم نے چونکتے ہوئے پوچھا
”جس وقت اس نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی تب اور پھر جب وہ شخص ہوا میں اچھلا تب… ان دونوں لمحات میں اس لڑکے کے چہرے پر پھیلی ہوئی حیرت یہ راز بتا رہی ہے۔“مارٹن نے ہنستے ہوئے کہا۔
”اسے اغوا کرنا ہے، کر سکو گے؟“
”میرے پسند کی رقم مجھے دو، میں کیوں نہیں کروں گا۔“مارٹن نے کاروباری انداز میں کہا۔
”لیکن ایک شرط ہے۔“ ولیم نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔
”تم اسے جان سے نہیں ماروگے۔ یہ مر گیا تو پھر یہ ہمارے لیے کسی بھی کام کا نہیں رہے گا۔ بلکہ اگر تمہارے اس اغوا میں وہ مارا گیا تو سمجھو تم نے ہمارا بہت بڑا نقصان کر دیا۔ ہم تمہارے دشمن ہو جائیں گے۔“ ولیم نے سنجیدگی سے کہا۔
”اگر ضرورت پڑ گئی تو…؟“ مارٹن نے سرد لہجے میں پوچھا۔
”تو پھر تم یہ ٹاسک چھوڑ دینا۔“ ولیم نے کہاتو مارٹن یوں سر ہلانے لگا جیسے اس کی ساری بات سمجھ گیا ہو۔ تبھی چند لمحے سوچ کر اس نے کہا:
”ڈن…“
”ڈن۔“ ولیم نے کہا اور اس سے ہاتھ ملا لیا۔
اس کے ساتھ ہی ویڈیو ختم ہو گئی۔ انسپکٹر منصور نے سر اٹھاکر ڈاکٹر الیاس کی طرف دیکھا جو بڑے تحمل سے ا س کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس نے سیل فون واپس کرتے ہوئے کہا:
”تو اس کا مطلب ہے، جمال کو اغوا کیا جائے گا۔“
”بالکل، یہ ویڈیو رات ہی مجھے میرے دوست ڈاکٹر جیمسن نے بھیجی ہے۔ اور یہ سرخ چہرے والا، اس کا نام مارٹن ہے۔ یہ ایک عالمی دہشت گرد تنظیم کے ساتھ منسلک ہے اور بہت درندہ صفت آ دمی ہے۔“
”آپ نے تو کہا تھا کہ جمال اپنی حفاظت خود کر سکتا ہے؟“ انسپکٹر منصور نے اپنے لہجے پر قابو رکھتے ہوئے کہا:
”بالکل، کر سکتا ہے، لیکن ابھی اسے تھوڑے اعتماد کی ضرورت ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ ان عالمی دہشت گردوں جیسے لوگوں سے کیسے نپٹنا ہے۔“ ڈاکٹر الیاس نے قدرے جذباتی لہجے میں کہا تو انسپکٹر منصور خاموش ہو گیا، چند لمحوں بعد اس نے تجسس سے پوچھا:
”سر! آ پ کیا چاہتے ہیں؟“
”مجھے آپ کی تھوڑی سی مدد درکار ہے۔یہ مدد میں آپ ہی سے اس لیے مانگ رہا ہوں کہ آپ جمال کے راز سے واقف ہیں۔ اور ابھی میں اسے راز ہی میں رکھنا چاہتا ہوں۔“
”سر آپ بتائیں تو سہی…“ اس نے کہا۔
”جمال کو تھوڑی سی تربیت چاہیے، آپ دیکھو گے، اس کے اندر سے بہت کچھ یوں باہر آ ئے گا جیسے پھوٹ رہا ہو۔“ڈاکٹر الیاس نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”سر! آپ جیسا کہیں گے میں ویسا کروں گا۔میں آج کل ایک عجیب قسم کے کیس میں پھنسا ہوا ہوں۔ وہ جیسے ہی حل ہو جاتاہے، میں…“
”اس کیس میں عجیب کیا ہے مجھے بتاؤ، میں آپ کی مدد کر دیتا ہوں۔‘‘ انہوں نے پورے یقین سے کہا تو انسپکٹر منصور چونک گیا۔ اسے لگا جیسے اس کی مشکل آ سان ہو گئی ہو۔وہ چند لمحے یوں بیٹھارہا جیسے اپنے خیالات جمع کر رہا ہو، پھر کہتا چلا گیا۔
”تقریبا ًدو ماہ ہو گئے ہیں، کچھ عجیب قسم کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ مختلف شہروں میں ایک ہی طرح کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اصل میں ہوتا یوں ہے کہ نوجوان لڑکیاں یا لڑکے راہ چلتے ہوئے یا اپنے کسی کام پر اچھے بھلے اچانک بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ مناسب علاج کے بعد وہ دوسرے یا تیسرے دن ہوش میں آتے تھے۔ ان کے بے ہوش ہونے کی وجہ نہ ڈاکٹر سمجھ پائے ہیں اور نہ ہی خود بے ہوش ہونے والے کو پتہ چلتا ہے۔“
”ہاں! میری نگاہوں سے بھی کچھ ایسے واقعات کی خبریں گزری ہیں۔“ ڈاکٹر الیاس نے یاد کرتے ہوئے کہا۔
”پچھلے دو ماہ سے ہمارے شہر میں ایسے ہی چند واقعات ہو چکے ہیں۔کچھ دن قبل، ہمارے ہاں بھی ایک ایسا ہی واقعہ پھر ہوا ہے، ایک لڑکا شاپنگ سنٹر میں خریداری کر رہا تھا کہ اچانک گرا اور بے ہو ش ہو گیا۔ اسے ہسپتال لا یا گیا، مگر وہ ہوش میں نہ آ سکا اور زندگی ہار گیا۔“
”پوسٹ مارٹم میں کچھ معلومات…“ ڈاکٹر الیاس نے پوچھا؟
”نہیں سر! کوئی ایسی بات سامنے نہیں آ ئی۔“اس نے تیزی سے بتایا۔
”ڈاکٹرز کو بھی اس کی بے ہوشی کی وجہ سمجھ میں نہیں آ ئی؟“انہوں نے پوچھا۔
”نہیں سر! بے ہو شی کے دوران جتنے بھی ٹیسٹ ہوئے یاپھراس کے بعد میں بھی جو ہوئے، ان کے مطابق وہ نارمل تھا۔“ اس نے بتایا۔
”آپ کے پاس یہ کیس کیوں آیا، کوئی وجہ تو ہو گی؟“ انہوں نے پوچھا۔
”اس لڑکے کے خاندان والوں کو شک تھا کہ کسی نے کوئی زہر وغیرہ نہ دے دیا ہو لیکن ایسے بھی کوئی شواہد نہیں ملے۔“ انسپکٹر منصور نے بتایا۔
”پھر آپ نے اب تک کیاتحقیق کی ہے؟“ ڈاکٹر الیاس نے پوچھا۔
”میں نے پے در پے ایسے واقعات کے بارے میں پڑھا تو مجھے تشویش ہوئی کہ آخر اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ اس سوال پرمیں نے ایک پولیس والے کی طرح سوچا۔ میں نے ان سب واقعات کی تفصیلات اکٹھی کیں۔ ان لڑکے لڑکیوں سے بھی ملا ہوں جو بے ہوش ہونے جیسے تجربے سے گزرے ہیں۔لیکن مجھے ایسا کوئی سراغ نہیں ملا جس پر میں اپنی تفتیش آ گے بڑھا سکوں۔“ انسپکٹر منصور نے الجھتے ہوئے کہا۔
”اچھا! آپ ایسا کریں، آپ اپنی تفصیلات کو محفوظ رکھیں، لیکن اگر ممکن ہو تو ان لوگوں سے ملوا دیں ان شاء اللہ کوئی نہ کوئی راہ نکل آ ئے گی۔“ انہوں نے پورے اعتماد سے کہا تو انسپکٹر منصور کو لگا کہ جیسے کوئی غیبی امداد مل گئی ہو۔ تبھی اس نے پر جوش لہجے میں کہا۔
”میں بہت جلد ان سب کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کی کوشش کر تا ہوں۔اور باقی رہی جمال کی تربیت تو وہ کل ہی سے شروع ہو جائے گی۔“
”ٹھیک ہے۔“ ڈاکٹر الیاس نے کہا تو انسپکٹر منصور اٹھ گیا۔

……٭……

قاتل ٹیب

صبح کی روشنی ہر جانب پھیل چکی تھی۔ سورج طلوع ہو نے کے ساتھ ہی زندگی رواں دواں ہو گئی تھی۔ جمال اپنے کمرے میں کھڑکی کے سامنے کھڑا باہر دیکھ رہا تھا۔ اس کے پاپاگھر کے لان میں ٹہل رہے تھے۔اگرچہ ان باپ بیٹے کا معمول تھاکہ وہ روزانہ قریبی پارک میں جاگنگ کے لیے جاتے تھے۔لیکن رات جمال جب سونے کے لیے جانے لگا تو دادا جی نے کہا:
”جمال بیٹا، صبح تم اور تمہارے پاپا جاگنگ کے لیے پارک نہیں جاؤ گے۔“
”جی کیوں… میرا مطلب…“ وہ کہتے کہتے رُک گیا اسے احساس ہوگیا تھا کہ دادا جی ایسا کیوں کہہ رہے ہیں۔تبھی دادا جی نے شفقت بھرے لہجے میں کہا:
”تم اچھی طرح جانتے ہو کہ ہمارے دشمن کوئی معمولی لوگ نہیں ہیں۔وہ کسی وقت، کچھ بھی کر سکتے ہیں۔سب سے زیادہ خطرہ تمہیں ہے۔“
”جی یہ تو ہے۔“اس نے سوچتے ہوئے کہا۔
”اور شام کے وقت تمہارا فٹ بال کھیلنا بھی بند۔“ پاپا نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ جھنجلاتے ہوئے بولا:
”اب یہ مت کہہ دیں کہ میرا سکول جانا بھی بند ہے۔“
”ہاں یاد آیا، تم صبح سکول بھی نہیں جاؤ گے۔ہمیں کہیں جانا ہے۔وقت پر تیار ہو کر ناشتے کی میز پر آ جانا، اب جاؤ۔“ دادا جی نے پیار سے کہا۔
”جی بہتر۔“ اس نے سعادت مندی سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
اور اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چل دیا تھا، کہیں کوئی مزید پابندی نہ لگ جائے۔اس کی ہمت نہیں پڑی تھی کہ دادا جی پوچھ سکے کہ کہاں جاناہے۔
جمال نے ایک طویل سانس لی اور کلاک پر دیکھا۔ ناشتے کی میز پر جانے کے لیے ابھی کافی وقت پڑا تھا۔ وہ کھڑکی سے ہٹ کر ایک کرسی پر آ ن بیٹھا۔جب سے اسے اپنے بارے میں معلوم ہو اتھا، وہ مسلسل اپنے بارے ہی میں سوچ رہا تھا۔ کبھی اسے اچھا لگتا کہ وہ عام لوگوں سے ہٹ کر صلاحیتیں رکھنے والا لڑکا ہے۔ کبھی وہ اداس ہو جاتا کہ انہی غیر معمولی صلاحیتوں کے باعث اس کی زندگی نارمل لوگوں کی طرح سے نہیں ہو گی۔ وہ عام لڑکا نہیں رہا تو اس کا مطلب ہے وہ عام لوگوں جیسا نہیں۔ دوسرا اس کے اندر انتہائی درجے کا یہ تجسس پیدا ہو گیا کہ مزید اس میں کیسی کیسی صلاحتیں ہیں؟ آخر وہ اتنا اہم ہے تو اس کے دشمن پیدا ہو گئے ہیں، کیا وہ اپنے ان دیکھے دشمنوں سے بچ پائے گا؟ شاید دادا جی مجھے ساتھ اس لیے لے جانا چاہتے ہوں گے کہ میرے مزید ٹیسٹ ہو جائیں۔
وہ انہی خیالوں میں الجھا ہو اتھا کہ اچانک اس کا دوران خون بڑھنے لگا۔ کمرے میں موجود ہر شے دھندلی دکھائی دینے لگی۔ دھیرے دھیرے وہ دھندلا منظر بھی نگاہوں سے اوجھل ہو تا گیا۔ اس کی آ نکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ اس کے سامنے مکمل تاریکی پھیل گئی۔اسی تاریکی میں اک ننھا سا ذرے کے جیسا نقطہ روشن ہوا اور وہ پھیلتا چلا گیا۔ اسے لگا کہ وہ پھیلتا ہوا ذرہ ایک روزن بن گیا ہے، بالکل اس طرح جیسے کوئی ٹی وی اسکرین ہو۔
اس میں سے دودھیا روشنی دھویں کی مانند نکل رہی تھی۔ دھیرے دھیرے وہ روشنی تیز ہوتی چلی گئی۔یہاں تک کہ نگاہیں خیرہ ہو نے لگیں۔کچھ دیر بعد اسی دودھیا روشنی میں سے مختلف رنگوں کی شعاعیں نکلنے لگیں۔ یہ شعاعیں باہر نکلتی اور ہوا میں تحلیل ہو جاتی تھیں۔ انہی میں نیلی شعاعیں بہت زیادہ چمک دار تھیں۔ وہ ہوا میں تحلیل نہیں ہو رہی تھیں، بلکہ کسی سانپ کی طرح لہراتی ہوئی ابل رہی تھیں اور پھر وہ رینگتی ہوئی اس کی طرف بڑھنے لگیں۔ اسے لگا جیسے اس کے بدن پر وہ نیلی شعاعیں رینگ رہی ہیں۔ لاشعوری طور پر اس نے ان رینگتی ہوئی شعاعوں کو خود سے صاف کرنے کی کوشش کی۔ انہی لمحات میں اسے جیسے ہوش آ گیا۔ وہ کرسی پر بیٹھا اپنے بدن سے ان شعاعوں کو جھاڑ رہا تھا۔ مگر اس کے بدن پر کچھ بھی نہیں تھا۔
وہ ایک دم سے پریشان ہو گیا۔یہ اس کے دماغ نے اسے کیا دکھا دیا ہے۔ اسے پہلے والا منظر یاد آ گیا، جب اسے اغوا کیا گیا تھا۔ کیا یہ بھی مستقبل کے بارے میں اسے کوئی منظر دکھا کر اسے الرٹ کیا گیا ہے؟ کیا آ نے والے دنوں میں اس کے ساتھ ایسا کچھ ہو نے والا ہے؟ وہ یہی سوچتے ہوئے بے خیالی میں اٹھ گیا۔ وہ چاہتا تھا کہ اپنے اس خیال کے بارے میں دادا جی کو بتائے۔ جیسے ہی وہ کمرے سے باہر آیا، وہ ٹھٹک کر رُک گیا۔ اس نے سوچا، چونکہ ابھی وہ کہیں جا رہے ہیں،دادا اس بارے میں جان کر شاید پریشان ہو جائیں، سو ابھی یہ بات انہیں نہیں بتانی چاہیے۔ واپس آ کر سکون سے وہ انہیں بتا دے گا۔ اگر چہ پچھلی بار دیکھا گیا منظر اس نے اپنے دادا کو بتا دیا تھا لیکن اس کی وجہ معلوم نہیں کر سکا تھا، باتوں کا رخ کسی اور جانب ہی مڑ گیا تھا۔ اب وہ واپس آئے گا تو تسلی سے ان سے پوچھے گا۔
ناشتے کے بعد جمال اپنے دادا ڈاکٹر الیاس کے ساتھ چمچماتی ہوئی سیاہ کار میں جا بیٹھا۔ ڈرائیور نے کار بڑھا دی۔ اگر اکیلا ہوتا تو وہ خود ڈرائیونگ کرتا لیکن جب دادا ہو تے تو ڈرائیور ہی کار ڈرائیو کرتا تھا۔ گیٹ سے نکلتے ہی اس کا من چاہا کہ وہ پھر پوچھے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں لیکن خاموش رہا۔تقریباً آ دھے گھنٹے بعد وہ ایک عمارت کے بڑے سیاہ گیٹ کے باہر پہنچ گئے۔ کار دیکھتے ہی گیٹ کھل گیا۔ وہ پورچ میں پہنچے ہی تھے کہ انسپکٹر منصور ان کے استقبال کے لیے آ گیا۔
وہ انہیں لیتا ہوا ایک کمرے میں چلا گیا۔ جہاں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں ایک ادھیڑ عمر کرنل افتخار بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ دادا ڈاکٹر الیاس ان کے ساتھ باتیں کرتے رہے۔ وہ مختلف تجربات کی باتیں تھیں جن سے جمال کو ذرا سی بھی دلچسپی نہیں تھی اور نہ ہی وہ باتیں اس کی سمجھ میں آ رہی تھیں۔ وہ اس دوران بالکل خاموش سے ان کی باتیں سنتا رہا۔ چند منٹ بعد انسپکٹر منصور نے جمال کی طرف دیکھا پھر سرگوشی میں پوچھا:
”بور ہو رہے ہو؟“
”بس، یہ باتیں مجھے سمجھ میں نہیں آ رہی ہیں۔“ اس نے بھی سرگوشی ہی میں جواب دیاتو انسپکٹر منصور نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا:
”آؤ جمال، تمہیں یہ عمارت دکھاؤں۔“
وہ دونوں اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئے۔وہ عمارت کے مختلف کمروں کو دیکھ رہے تھے۔ اس دوران انسپکٹر منصور ایک کمرے میں داخل ہوا تو بالکل سامنے والے کمرے سے دو پہلوان نما فائٹر نکلے، انہوں نے جمال پر یوں جھپٹا مارا جیسے کوئی عقاب کسی خرگوش کو اپنے پنجوں میں دباتا ہے۔اس اچانک افتاد کے لیے جمال بالکل بھی تیار نہیں تھا۔ وہ ان کے قابو میں آ گیا۔ وہ جمال کو لے کر اندر کمرے میں گھس گئے۔
سامنے ایک ہال تھا۔وہاں دو تین فائٹر مزید کھڑے تھے جو تیزی سے اس کی جانب بڑھے۔ جمال کو خطرے کا احساس ہوا۔ اس نے اگلے ہی لمحے خود کو چھڑانے کی کوشش میں اپنے بازو جھٹکے۔ جن پہلوان نما فائٹرز نے اسے پکڑا ہوا تھا، وہ روئی کے گالوں کی مانند ہوا میں اچھلے اور دور فرش پر جا گرے۔ تب تک سامنے والے تین فائٹرز نے اسے پکڑ لیا تھا۔ جما ل نے دو کو اپنے ہتھیلیوں پر روکا اور پھر پیچھے دھکیل دیا۔ جبکہ تیسرا اس پر وار کر نے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے جمال کے سر پر گھونسہ مارا تھا۔ جمال ایک بار چکرا گیا لیکن اگلے ہی لمحے سنبھل کر اس نے اپنا مکا ہوا میں لہرایا اور اس تیسرے فائٹر کی پسلیوں پر مارا۔ وہ ”اوغ“ کی آ واز کے ساتھ فرش پر جا پڑا۔ تب تک چاروں فائٹرز اس کے سامنے آ کھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے جمال کو پکڑنا چاہا لیکن اسی لمحے جمال اپنے ایک پاؤں کی ایڑی پر گھوما اور دوسری ٹانگ کو گھمایا۔اس کی کک ایک کو لگی تو پیچھے جا پڑا، تب تک جمال نے گھمایا ہوا پاؤں فرش پر رکھا اور دوسرے پاؤں سے کک دوسرے فائٹر کو ماری۔ یہ عمل اس نے لمحہ بھر میں پھر دہرایا تو چاروں فرش پر پڑے ہوئے تھے۔ وہ ان کے درمیان فاتحانہ انداز سے کھڑا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ اٹھ کر سامنا کرتے، انسپکٹر منصور تالیاں بجاتاہوا ہال کمرے میں داخل ہوا۔
”بھئی واہ، ایسا زبردست پینترا…“
”یہ تو بہت مشقت کے بعد آ تا ہے؟“ کرنل افتخار نے ہال میں داخل ہوتے ہوئے کہا، اس کے ساتھ دادا بھی تھے۔ ان کے چہرے پر خوشی تھی۔
”مان گئے بھئی، جمال کسی بھی افتاد پر دشمنوں سے نپٹ سکتا ہے۔“ انسپکٹر منصور نے خوشی سے کہا تو کرنل افتخارنے بولے۔
”کیوں نا، جمال کا ایک اور ٹیسٹ لے لیا جائے؟“
”وہ کون ساٹیسٹ…“ جمال نے پوچھا۔
”نشانہ بازی کا… آؤ…“ یہ کہتے ہوئے وہ پلٹ گیا۔ سبھی اس کے پیچھے چل دئیے۔

وہ عمارت ایک ایسا تربیتی مرکز تھا جہاں خصوصی کمانڈوز کو تربیت دی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ بہت نازک اور حساس معاملات کو یہیں دیکھا جاتا تھا۔ اگر انہیں محسوس ہو کہ اس کا سامنا کسی بین الاقومی مجرم گروہ سے ہے تو یہی لوگ ان کا مقابلہ کرتے تھے۔ اس تربیتی مرکز کے اندر بہت سارے کمرے اور ہال تھے۔ یہاں ہر شعبہ سے ماہرین بیٹھتے تھے جو ہمہ وقت ملک دشمن عناصر کو ختم کرنے کے لیے موجود رہتے تھے۔ یہی سب دیکھتے ہوئے وہ ایک میدان میں چلے گئے جہاں مختلف ٹارگٹ لگے ہوئے تھے۔اس کے ساتھ ہی ایک کیبن تھا جس میں مختلف قسم کی گنیں اورپسٹل پڑے تھے۔ انہوں نے جمال کی طرف دیکھ کر کہا۔
”یہ تمہارا امتحان ہے، کوئی سی بھی گن یا پسٹل اٹھاؤ اور نشانہ لگا دو۔“
جمال نے ایک بار میز پر پھیلے ہوئے ہتھیاروں کو دیکھا، پھر ایک پسٹل اٹھا کر اسے چیک کیا، اس کا میگزین دیکھا، پھر سیفٹی کیچ ہٹا کر اس نے ٹارگٹ کا نشانہ لے لیا۔ اس نے نشانہ لینے میں لمحے سے بھی کم وقت لیا اور فائر کر دیا۔ وہ بالکل نشانے پر لگا تھا۔ کرنل افتخار کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا:
”واہ! کیا بات ہے…“
”شکریہ…“ جمال نے کہا۔
”ممکن ہے ٹھیک نشانہ لگنا محض اتفاق ہو، مزید نشانے لگا کر دکھاؤ۔“ دادا جی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
جمال نے پہلے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پسٹل کو دیکھا، پھر ٹارگٹ کو دیکھ کر نشانے لگانے لگا۔ ہر نشانہ بالکل وہیں لگ رہا تھا جہاں پہلا نشانہ لگا تھا۔
”ٹھیک ہے بیٹا۔ یہاں میں مطمئن ہو گیا ہوں۔“ دادا نے کہا۔
”آؤ! اب تمہارے مزید امتحان لیں۔“ یہ کہتے ہوئے کرنل افتخار آ گے بڑھ گئے۔ انہوں نے مختلف انداز میں اس کا نشانہ دیکھا، کبھی وہ سیب اوپر اچھال دیتے، کبھی ایک دم سے کسی شے کا نام لے کر نشانہ لگانے کو کہتے۔ کافی دیر تک یونہی نشانہ جانچنے کے بعد وہ واپس ایک ایسے کمرے میں آ گئے، جسے کانفرنس روم کہا جا سکتا تھا۔ اسی کمرے میں تین لڑکے اور دو لڑکیاں پہلے سے آ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک لمبی میز کی دوسری جانب پہلے کرنل افتخار، پھر ڈاکٹر الیاس، جمال اور پھر انسپکٹر منصور بیٹھ گئے۔ان کے بیٹھتے ہی وہاں پر موجود ایک شخص نے کہا:
”سر! یہ ہیں وہ لوگ جو بے ہو شی کے تلخ تجربے سے گزر چکے ہیں۔“
ڈاکٹر الیاس نے ان سب کو غور سے دیکھا، پھر ان سے تعارف لینے لگے۔ وہ مختلف حوالوں سے ان سے سوال پوچھتے رہے۔تبھی انہوں نے ایک سوال کیا:
”آپ سب لوگوں کا زیادہ تر وقت کمپیوٹر پر گزرتا ہے۔ کیا اس سے آپ کوئی سردرد وغیرہ بھی محسوس کرتے ہیں،اگر کرتے ہیں تو کس حد تک…؟“
”سر! پہلے تو نہیں تھا لیکن…“ ایک لڑکی کہتے کہتے رُک گئی۔
”لیکن کیا…؟“انہوں نے تیزی سے پوچھا۔
”سر! ایک ٹیب مجھے انعام میں ملا تھا، جب میں اسے استعمال کرنے لگی تومجھے سر میں درد رہنے لگا تھا اور اب بھی ہوتا ہے۔“
”سر! ایک ٹیب تو مجھے بھی انعام ملا تھا۔“ایک لڑکے نے کہا تو یکے بعد دیگرے سبھی نے بتایا کہ انہیں ایک ٹیب انعام میں ملا تھا، اس کے بعد ہی انہیں کبھی سر میں درد اور کبھی اعصاب کا درد ہوتا رہا ہے۔
”یہ کہاں سے ملا؟“ انہوں نے پوچھا۔
سب نے جو معلومات دیں وہ کچھ یوں تھیں۔ انٹر نیٹ کی دنیا میں ایک ویب سائیٹ پر مختلف مرحلہ وار مقابلے ہو تے ہیں۔ہر مرحلہ جیتنے پر کوئی نہ کوئی انعام دیا جاتا ہے۔ اس کا آخری انعام کسی بھی ملک کی سیر تھا جس کے تمام تر اخراجات وہ ویب سائیٹ والے دیتے تھے۔اس سائیٹ سے نوجوان لڑکے لڑکیاں مختلف انعام جیت رہے تھے۔ انہوں نے بھی ایک مرحلہ طے کیا تو انہیں ڈاک کے ذریعے ٹیب ملے تھے۔ اس کے استعمال کے بعد ہی انہیں یہ حادثہ پیش آ یا تھا۔یہ سب سن کر کرنل افتخار نے ڈاکٹر الیاس کی طرف دیکھ کر پوچھا:
”ڈاکٹر صاحب! کیا ایسا ممکن ہے؟“
”ناممکن تو کچھ بھی نہیں ہے لیکن جب تک ٹیب کو دیکھا نہیں جائے گا تب تک کچھ نہیں کہا جاسکتا۔“ انہوں نے محتاط انداز میں کہا تو جمال نے اپنا ہاتھ بلند کرتے ہوئے پوچھا:
”میں بتا سکتا ہوں اس میں کیا ہوگا؟“
جمال نے کچھ اس انداز میں اعتماد سے کہا تھا کہ سب اس کی طرف دیکھنے لگے تھے۔ جمال کو اس لیے اعتماد تھا کہ وہ صبح ہی ایک ایسا منظردیکھ چکا تھا۔
”بولو…“ ڈاکٹر الیاس نے کہا۔
”ضرور اس ٹیب میں کچھ ہے، اس ٹیب میں سے باہر آ نے والی ریز میں کوئی ایسی ریز ہیں، جو سیدھی دماغ پر اثرکر رہی ہے۔ اگر آپ اسی خطوط پر اس ٹیب کی تحقیق کریں تو سب سمجھ میں آ جائے گا۔“جمال نے اعتماد سے کہاتو کرنل افتخار نے سامنے بیٹھے نوجوانوں سے پوچھا۔
”کیا کسی کے پاس وہ ٹیب ہے اس وقت…؟“
”جی! میرے پاس ہے۔“ ایک لڑکے نے کہا۔
”پلیز دکھائیے۔“ انہوں نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔ چند لمحوں میں اس لڑکے نے اپنے بیگ میں سے ٹیب نکال کر میز پر رکھ دیا۔وہ عام سا ٹیب تھا۔
”آپ کو اس میں سے ہی کچھ نہ کچھ مل جائے گا۔“ جمال نے اعتماد سے کہا۔
”ڈاکٹر صاحب، ہمارے ہاں ایک بڑا زبردست شعبہ ہے، ہم نے اسے ڈیجیٹل کرائم کا نام دیا ہے۔ فیصل ممتاز ایک ماہر ہیں، وہ اس شعبے کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ جاب اس کے حوالے کرتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ ہماری مدد ضرور کریں گے۔“ انہوں نے کہا اور وہ ٹیب اٹھایا، اسے الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر اپنے اسسٹنٹ کی جانب بڑھا دیا۔ تبھی ڈاکٹر الیاس نے سنجیدگی سے کہا:
”میرا خیال ہے، اس ٹیب پر تحقیق ہو نے کے بعد شاید میرا کام شروع ہو۔ ٹھیک ہے کرنل صاحب، ہم پھر ملتے ہیں۔“
”جی بالکل، اس کی رپورٹ آ جائے تو پھر اس پر دوبارہ ڈسکس کرتے ہیں۔“ کرنل افتخار نے کہا پھر اٹھتے ہوئے نوجوانوں سے بولے:
”آپ ابھی یہاں ہیں، ہم باتیں کرتے ہیں، میں اپنے مہمانوں کو الوداع کہہ دوں۔“
وہ سب چلتے ہوئے پورچ تک آ گئے۔
”بہت شکریہ کرنل۔“ ڈاکٹر الیاس نے کہا۔
”سر! ایک بات کہوں۔“ انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔
”بولیں…“ ڈاکٹر الیاس نے تو جہ دیتے ہوئے کہا۔
”آپ جمال کی طرف سے بے فکر ہو جائیں، بلکہ اسے مزید جانچنے اور سمجھنے کے لیے آ زاد چھوڑیں۔ یہ اپنی حفاظت کر لے گا۔“کرنل افتخار نے کہا۔
”میرا بھی یہی خیال ہے۔“ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا اور کار کی جانب بڑھ گئے۔ انسپکٹر منصور کے ساتھ آ تا ہوا جمال بھی کار میں بیٹھا تو کار اس تربیتی مرکز سے چل دی۔واپسی پر جمال خود میں بہت زیادہ اعتماد محسوس کر رہا تھا۔

……٭……

نیلی روشنی

پُرسکون شہر میں رات اپنے آخری پہر تک پہنچ چکی تھی۔ایک سکون بھرا سناٹا پھیلا ہوا تھا۔لیکن تربیتی مرکز میں گہما گہمی تھی۔ کرنل افتخار کے ساتھ انسپکٹر منصور تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا راہداری میں چلتا چلا جا رہا تھا۔وہ کانفرنس روم کی جانب جا رہے تھے۔ تبھی کرنل افتخار نے پوچھا:
”منصور! کیا ڈاکٹر الیاس پہنچ گئے ہیں۔“
”سر! میں نے انہیں فون کر دیا تھا۔ انہوں نے فوراً ہی آ نے کا کہا تھا۔“ انسپکٹر منصور نے تیزی سے بتایا۔ کرنل نے غور سے انسپکٹر منصور کی بات سنی اور سامنے دیکھنے لگا۔وہ جیسے ہی کانفرنس روم کے دروازے پر پہنچے، دوسری طرف سے ڈاکٹر الیاس بھی پہنچ گئے تھے۔ وہ اکٹھے ہی کمرے میں داخل ہو ئے۔
ایک لمبی سی میز کے دوسری جانب دو مردوں کے ساتھ ایک خاتون بیٹھی ہوئی تھی۔ ان تینوں کے چہروں پر تناؤ تھا۔وہ تینوں جیسے ہی بیٹھے تو انسپکٹر منصور نے ان کا تعارف کرایا، وہ تینوں ڈیجیٹل کرائم کے ماہر تھے۔انہیں خصوصی طور پر اس ٹیب کو جانچنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ وہ اپنی رپورٹ لے کر پہنچ گئے تھے۔ درمیان میں بیٹھے ہوئے فیصل ممتاز نے وہ ٹیب میز پر رکھتے ہوئے پرسکون لہجے میں کہا:
”بظاہر یہ ٹیب عام سا ہے۔ اس میں موجود تمام فنکشن بھی عام سے ہیں، لیکن اس کا استعمال انتہائی خطرناک ہے۔“
”وہ کیسے…؟“ کرنل نے پوچھا۔
”اس میں کچھ ایسی ریز نکلتی ہیں جو کسی بھی جاندار کے لیے انتہائی خطرناک ہو سکتی ہیں۔“ اس نے سنجیدگی سے کہا۔
”کیا ہر ٹیب میں ایسا ہی ہوتا ہے یا اس کی کوئی خصوصی ساخت ہے؟“ کرنل نے پھر سوال کیاتو وہ بولا۔
”نہیں! ہر ایک اس طرح کا خطرنا ک نہیں ہوتا، عام ٹیب میں جو ریز خارج ہو تی ہیں، وہ اس قدر انسان پر اثر انداز نہیں ہوتی جتنی اس سے نکلنے والی شعاعیں اثر انداز ہو سکتی ہیں، مثلاً عام ٹیب زیادہ استعمال کرنے سے آ نکھوں پر اثر پڑتا ہے، بینائی کم ہو نے کا اندیشہ ہو تا ہے، تھوڑا بہت اعصاب بھی متاثر ہوتے ہیں لیکن یہ… یہ تو اس قدر طاقتور شعاعیں خارج کر رہا ہے کہ میرے خیال میں اس کا براہ راست اثر دماغ پر پڑتا ہوگا۔“
”بالکل، ایسا ہی ہے۔ اس سے متاثرہونے والے لوگوں کو پہلے سردرد اور پھر بے ہوشی کا سامنا کرنا پڑا۔“ کرنل نے متانت سے کہا تو ڈاکٹر الیاس نے سنجیدگی سے پوچھا:
”محترم! مجھے ایک بات بتائیں، کیا آپ ان شعاعوں کا تجزیہ کر سکتے ہیں کہ یہ دماغ میں کہاں جا کر ہٹ کرتی ہیں، یا دوسرے لفظوں میں کس طرح کا اثر چھوڑتی ہیں؟“
”جی! میں تو ان شعاعوں کے بارے میں بتا سکتا ہوں، ان کا تجزیہ کر کے بتا سکتا ہوں کہ یہ کیسی ہوتی ہیں اور کیا کچھ کر سکتی ہیں، آ گے یہ کسی کو ہٹ کرتی ہیں اور کیسے کسی دماغ پر اثر انداز ہو تی ہیں اور کس حد تک کر سکتی ہیں، میں اس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتا۔“اس نے انتہائی سنجیدگی سے معذر ت خواہانہ لہجے میں کہا۔ اس کا انداز بالکل پروفیشنل تھا۔
”ٹھیک ہے، آپ اس کے بارے میں اگر کچھ لکھ کر لائے ہیں تو مجھے دے دیں، میں اس پر اپنی سی کوشش کرتا ہوں۔“ ڈاکٹر الیاس نے کہا۔
”جی! بالکل۔“ اس نے اپنے سامنے پڑے فولڈر سے چند کاغذ نکالے اور ڈاکٹر الیاس کی جانب بڑھادئیے۔ اُنہوں نے وہ کاغذ لیے اور ایک نگاہ ڈال کر اپنی واسکٹ کی اندرونی جیب میں رکھ لیے۔
”اگر آپ کچھ مزید بتانا چاہیں۔“ کرنل نے فیصل سے پوچھا۔
”میرا اپنا یہ خیال ہے، اور میرے یہ ساتھی بھی مجھ سے متفق ہیں کہ یہ ڈیجیٹل کرائم میں جدید ترین جرم سامنے آ یا ہے۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس کا استعمال کیوں کیا جا رہا ہے، لیکن جس طرح کہ مجھے انسپکٹر منصور نے بتایا، لازمی بات ہے یہ کوئی منظم گروہ ہو سکتا ہے۔“
”ظاہر ہے، کوئی منظم طریقے سے ہی کسی جرم کا ارتکاب کرنے کا ارادہ کر چکا ہے جو اس حد تک پہنچ گیا، اورا س منظم طریقے سے ٹیب بانٹ رہا ہے۔ میرے پوچھنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایساکوئی ٹیب مل جائے تو اس میں کیا ایسی شعاعوں کو فوری طور پر ختم کیاجا سکتا ہے؟“کرنل نے پوچھا۔
”نہیں! اس کی ساخت، اس کی اسکرین اور اس میں موجود پروگرام میں ایسا تال میل ہے کہ یہ سب مل کر یہ ریز خارج کرتے ہیں۔“اس نے بتایا۔
”کیا کوئی شخص ان ریز سے بچاؤ کی تدبیر بھی کر سکتا ہے؟“ڈاکٹر الیاس نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”اس پر میں نے ابھی کام نہیں کیا، جو ٹاسک مجھے دیا گیا تھا، وہ میں نے پورا کر دیا، اب مزید جو آپ چاہ رہے ہیں، میں اس پر کام کرتا ہوں۔ مجھے امید ہے کوئی نتیجہ تو نکل ہی آ ئے گا۔“ اس نے پورے اعتما د سے کہا تو ڈاکٹر الیاس بولے۔
”مجھے اجازت دیں، میں اپنی لیب میں جا کر اس پر کام کرتا ہوں، مجھے امید ہے کوئی نتیجہ جلد سامنے آ جائے گا، آپ بھی پلیز کوشش کریں۔“
”جی بہتر۔“کرنل نے کہا تو وہ سب کھڑے ہو گئے، انہوں نے باری باری ایک دوسرے سے مصافحہ کیا اور کانفرنس روم سے نکلتے چلے گئے۔ دادا جی کے سامنے کافی کچھ واضح ہو گیا تھا لیکن وہ اس وقت تک کوئی حتمی بات نہیں کہنا چاہتے تھے جب تک وہ انہیں خود یقین نہ ہو تا۔

……٭……

اسکول جانے کا وقت ہو گیا تھا۔ جمال نے ناشتہ کیا، ماما نے اسے بستہ تھمایا تو وہ باہر پورچ میں آ گیا۔ ہر طرف چمکتی ہوئی دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔اس نے سائیکل کے کیرئیر پربستہ رکھااور سائیکل پر سوار ہو کر گیٹ سے نکلتا چلا گیا۔اسے امید تھی کہ اگلے موڑ پر اس کے دوست اسے مل جائیں گے۔ موڑ مڑتے ہی اس کے کلاس فیلوز اپنی اپنی سائیکل لیے کھڑے دکھائی دئیے۔ وہ ان کے پاس پہنچا تو سبھی چل دئیے۔ ان کا یہی سوال تھا کہ وہ اسکول کیوں نہیں آیا۔اس نے یونہی بہانہ بنا دیا۔ اگر وہ اغوا کا قصہ سنا دیتا تو پھر شام تک یہ کہانی بن کر سارے علاقے میں پھیل جانا تھا۔ سو اس نے یہی مناسب سمجھا کہ بات ہی بدل دے۔ وہ بڑے مزے سے باتیں کرتے ہوئے چلتے چلے جا رہے تھے۔ ان کے اسکول کا فاصلہ تقریباً ایک کلومیٹر تھا۔ جو وہ پندرہ سے بیس منٹ میں طے کر لیتے تھے۔
وہ کالونی سے نکلے تو ان کے سامنے مصروف سڑک آ گئی۔ وہ سڑک کے دائیں جانب چلتے چلے جا رہے تھے۔ ایسے میں ان کے قریب ایک سیاہ فور وہیل جیپ آ گئی۔ وہ فور وہیل یوں ان کے درمیان گھسنے لگی جیسے ان کے اوپر ہی چڑھ جائے گی۔کوئی سائیکل سے گر گیا اور کوئی ڈولتا ہوا آ گے تک جا کر رک گیا۔ جمال بھی انہی میں تھا جو آ گے جا کر رک گئے تھے۔ اس نے گھوم کر دیکھاتو ڈرائیور کے ساتھ ایک سرخ چہرے والا آ دمی بیٹھا ہوا تھا۔ ایک لمحے کو اسے یوں لگا جیسے وہ چہرہ جانا پہچانا ہے، اسے کہاں دیکھا ہے، یہ اسے یاد نہیں آ یا تھا۔ اس کے دماغ میں اٹھتے ہوئے غصے نے شاید اسے یاد ہی نہیں آ نے دیا تھا۔
اس نے سرخ چہرے والے کو گھور کر دیکھا۔تب تک فور وہیل رُک چکی تھی۔ وہ سرخ چہرے والا مارٹن تھا جو اسے اغوا کرنے آ یا تھا۔ مارٹن تیزی سے اترا اور اس کی جانب بڑھا، اس کے پیچھے دو مزید آ دمی اترآئے۔ وہ لوگ جس طرح اس کی جانب بڑھ رہے تھے،اس سے جمال کو خطرے کا احساس ہوا۔ وہ محتاط ہو گیا۔
وہ ان تینوں کو اپنے قریب آتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ تبھی ایک شخص اس کی طرف بڑھا، اس نے جاتے ہی جمال کو پکڑا توجمال نے اپنا ہاتھ جھٹک دیا۔ وہ شخص یوں ہوا میں اچھلا، جیسے کوئی کپڑا اچھا ل دیا گیا ہو۔بالکل انہی لمحات میں جمال کو یوں لگا جیسے اس کا دماغ بھیگ رہا ہو۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی کورا کاغذ پانی میں بھیگ جائے تو بالکل لئی کی طرح بن جاتا ہے، وہ خود کو یوں کمزور محسوس کرنے لگا تھا۔
اس نے سامنے کھڑے سرخ چہرے والے مارٹن کو دیکھا، وہ ہاتھ میں ایک بیم گن لیے کھڑا تھا۔ اس میں سے نکلنے والی نیلی روشی اس پر پڑ رہی تھی۔وہ حرکت کرنا چاہ رہا تھا لیکن وہ وہاں سے ہل نہیں پا رہا تھا۔ ایسے میں دوسرا آ دمی آ گے بڑھا، اس نے بڑے محتاط انداز میں جمال کو کلائی سے جا پکڑا۔ جمال بالکل بھی حرکت نہیں کر سکا۔ پہلے اس نے جمال کو ہلا کر دیکھا۔ جمال نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ وہ مٹی کے مادھو کی مانند سرک گیا تھا۔تبھی اس نے جمال کو پکڑ کر کھینچا۔
وہ اسے اپنے ساتھ یوں لے آ یا جیسے کوئی پہیوں والا سوٹ کیس لے جاتا ہے۔ اس نے ایک ہاتھ سے فور وہیل کا دروازہ کھولا اور دوسرے میں پکڑے ہوئے جمال کو اندر دھکیل کر بٹھا دیا۔ مارٹن نے بیم سے نکلنے والی نیلی روشنی جمال پر ٹکائے رکھی تھی۔ یہ سب چند لمحوں میں ہوا۔ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ یا تھا یہ ہو کیا گیا ہے۔سبھی حیرت سے دیکھ رہے تھے۔
جمال پوری طرح بے بس تھا۔وہ کوشش کر کے فور وہیل سے اترنا چاہ رہا تھا لیکن وہ ہل بھی نہیں پا رہا تھا۔اسی اثناء میں فور وہیل کا دروازہ بند ہو گیا۔اس نے پھر سے کوشش کی تو وہ محض اپنے ہاتھ ہی ہلا پایا۔ اس کے اندر طاقت بالکل ختم ہو چکی تھی۔ڈرائیور نے گاڑی چلا دی تو اسے احساس ہو ا کہ وہ بری طرح پھنس چکا ہے۔ اس کا دماغ کام کر رہا تھا۔ اس لیے اس نے دیکھا، مارٹن کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ پھیل چکی تھی۔
وہ سوچ رہا تھا، اس کے اغوا ہو نے کی خبر کچھ دیر بعد اس کے دادا تک پہنچ جائے گی۔ اس کے کلاس فیلوز نے ابھی انہیں بتا دینا تھا۔ظاہر ہے کچھ ہی دیر میں اس کی تلاش شروع ہو جائے گی لیکن کیا اس نیلی روشنی نے اس کی تمام تر صلاحتیں ختم کر دی ہیں؟یا وہ وقتی طور پر مفلوج ہوا ہے؟یہ کیسی ریز تھیں؟ کیا انہی ریز کے بارے میں اس نے خیال دیکھا تھا؟کیا اس کا دیکھا ہوا خیال سچ ثابت ہو گیا ہے؟ وہ انہیں سوچوں میں کھویا ہوا تھا۔
وہ بظاہر سامنے دیکھ رہا تھا، اسے پوری طرح احساس تھا کہ فور وہیل سڑک پر بھاگی چلی جا رہی ہے۔ ارد گرد کی ٹریفک کا شور بھی وہ سن رہا تھا لیکن اس پر پڑنے والی نیلی روشنی کے باعث وہ ہل نہیں پا رہا تھا۔ اس کے دماغ میں ایک اورخیال بھی کلبلانے لگا تھا، اس کے بدن پر پڑنے والی یہ مسلسل نیلی روشنی کہیں اسے پوری طرح مفلوج نہ کر کے رکھ دے۔
جیسے ہی وہ تھوڑی دور پہنچے، اس کے ساتھ بیٹھے شخص نے ایک نائیلون کی رسی نکالی اور اس کے ہاتھ پشت پر لے جا کر باندھ دئیے۔وہ شخص باندھ چکا تو مارٹن نے اپنے کان کے ساتھ لگے مائیک کو درست کرتے ہوئے پوچھا:

”ہیلو ولیم! یہ ہے وہ تمہار ا جی بوائے، جس سے تم ڈر رہے تھے۔“یہ کہہ کر اس نے دوسری جانب سے کچھ سنا پھر بولا:
”تم دیکھ رہے ہو، یہ کسی چوہے کی طرح میری گرفت میں ہے۔ یہ میرے سامنے… دیکھ رہے ہو نا۔“ یہ کہا اور دوسری جانب سے سننے لگا۔
پھر بولا:
”دیکھو، جہاں تک میں نے تم سے اسے پہنچانے کا وعدہ کیا ہے، وہاں تک تو پہنچا دوں گا، آ گے تم جانو اورتمہارا کام۔“ یہ کہہ کر اس نے مائیک کی طرف توجہ کم کر دی۔شاید وہ ولیم کی بات نہیں سننا چاہ رہا تھا۔
آدھے گھنٹے سے بھی زیادہ وقت ہو گیا تھا۔ فور وہیل تیزی سے بھاگتی چلی جا رہی تھی۔ اچانک وہ ایک اسٹیڈیم کی جانب مڑی اور اس کے اندر گھستی چلی گئی۔ جمال نے دیکھا، اسٹیڈیم کے بالکل درمیان میں ایک ہیلی کاپٹر کھڑا تھا۔جمال کے دونوں جانب بیٹھے ہوئے شخص الرٹ ہو گئے۔ انہوں نے جمال کو پکڑ لیا تھا۔ جیسے ہی ہیلی کاپٹر سے تھوڑے فاصلے پر فور وہیل رکی، انہوں نے تیزی سے جمال کو نیچے اتارا اور اسے دھکیل کر ہیلی کاپٹر کی جانب بڑھے۔ مارٹن نے نیلی روشی اس پر یوں کی ہوئی تھی جیسے اس نے نیلی روشنی کا حصار کر رکھا ہو۔
انہوں نے جمال کو لے جا کر ہیلی کاپٹر کی سیٹ پر بٹھایا تو مارٹن اس کے بالکل سامنے بیٹھ گیا۔ باقی دونوں اس کے پیچھے بیٹھے تو ہیلی کاپٹر اسٹارٹ ہو گیا۔ جب تک ہیلی کاپٹر اُڑا، اتنی دیر تک جمال کوشش کرتا رہا مگر وہ بے بس ہو چکا تھا۔
جمال ہیلی کاپٹر کی اسکرین سے دیکھ رہا تھا۔شہر دھیرے دھیرے پیچھے ہٹتا چلا جا رہا تھا۔کچھ ہی دیر بعد شہر ختم ہوا تو سر سبز کھیت دکھائی دینے لگے۔ پھر ایک دریا آیا، وہ پار کرنے کے بعد کھیت شروع ہو گئے۔ کچھ دیر تک کھیت دکھائی دئیے پھر ریتلی اور بنجر زمین نظر آ نے لگی۔ وہ کسمسا کر رہ گیا۔ اب نجانے وہ لوگ اسے کہاں لے کر جانے والے تھے۔ اس نے خود کو پرسکون رکھتے ہوئے اپنے آپ کو حالات پر چھوڑ دیا۔

……٭……

برقی لہروں کا حصار

جمال کے کلاس فیلوز تیزی سے گیٹ پر آ ئے اور کال بیل پر انگلی رکھ دی۔ اگلے چند لمحوں میں چوکیدار نے گیٹ کھول دیا۔ انہیں دیکھتے ہی چوکیدار نے کہا:
”جمال اپنے سکول چلا گیا ہے،تم بھی جاؤ، دیر ہو جائے گی۔“
”ہمیں جمال سے نہیں جمال کے پاپا سے ملنا ہے فوراً…“ ایک لڑکے نے تیزی سے کہا تو چوکیدار نے پریشانی میں پوچھا:
”کیا بات ہے؟“
”یار! تم باتیں ہی کرتے رہو گے،ہٹو…“ ا س بڑے لڑکے نے اکتاہٹ سے کہا اور اند رکی جانب لپکا۔ وہ تیزی سے پورچ پار کر کے لاؤنج میں چلا گیا۔ اس نے دیکھا، ناشتے کی میز پر جمال کے دادا اور پا پا بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ اُس لڑکے کو یوں تیزی سے اندر آ تے دیکھ کر وہ چونکے۔ اتنی دیر میں وہ لڑکا ان کے قریب جا پہنچا تھا۔
”کیا بات ہے بیٹا، کیوں پر یشان ہو؟“ پاپا نے پوچھا۔
”انکل! وہ… وہ جمال کو نا… کچھ لوگ پکڑ کر لے گئے ہیں۔“اس نے پریشانی میں کہا تو پا پا سمیت دادا بھی چونک گئے۔ انہوں نے کپ ایک طرف رکھا اور تحمل سے پوچھا:
”آ رام سے بتاؤ، کون تھے وہ لوگ؟“
”پتہ نہیں کون تھے،ہم تو سڑک پر آ رام سے اپنی اپنی سا ئیکل پر سکول جا رہے تھے۔ایک فور وہیل آ ئی، ہمیں لگا وہ ہم پر چڑھ جائے گی۔ کچھ گر گئے، کچھ آگے بڑھ گئے۔ اس میں سے ایک شخص نکلا، اس نے جمال کو پکڑنا چاہاتو وہ…“ یہ کہتے ہوئے وہ ایک دم سے رُک گیا، جیسے حیران و پریشان ہو گیا ہو پھر حیرانی بھرے لہجے میں بولا:
”جس بندے نے پکڑنا چاہا وہ یوں پرے جا گرا جیسے اسے کرنٹ لگ گیا ہو۔“
”تو پھر کیا ہوا؟“ پاپا نے پوچھا تووہ لڑکا انتہائی حیرت سے بولا:
”پھر کیا… ایک اور آدمی اترا، وہ جمال کے قریب آیا، اس نے بڑے آ رام سے جمال کا ہاتھ پکڑا اور فور وہیل میں بٹھا لیا، اسے کچھ بھی نہیں ہوا۔“
”یہ کیسے ہوگیا…؟“پاپا نے تشویش بھرے لہجے میں بے ساختہ کہا پھر تیزی سے پوچھا:
”کوئی اور بھی بندے تھے؟“
”ہاں جی! ایک ڈرائیور تھا اور ایک موٹا سا شخص جس کا چہرہ سرخ تھا۔“ لڑکے نے بتایا تو دادا کے ساتھ پاپا بھی چونک گئے۔ پاپا جلدی سے اپنا سیل فون نکالنے لگے۔تبھی دادا نے اس لڑکے سے پوچھا:
”اس سرخ چہرے والے شخص نے بھی جمال کو پکڑنے کی کوشش کی تھی؟“
”نہیں… وہ دور ہی کھڑا رہا۔“ اس لڑکے نے کہا پھر ایک دم یوں بولا جیسے اسے کچھ یاد آ گیا ہو، وہ تیزی سے بتانے لگا:
”اس کے ہاتھ میں چھوٹی سی ٹارچ تھی، اس میں سے نیلے رنگ کی روشنی نکل رہی تھی، وہ جمال کی طرف کر کے کھڑا رہا تھا اور جمال بالکل کچھ بھی نہیں کر رہا تھا۔“
”اوہ…“دادا کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ اتنے میں پاپانے سیل فون پر ایک ویڈیو چلاکر کہا:
”یہی تھا وہ شخص…؟“
اس لڑکے نے سیل فون پر غور سے دیکھا، پھر حیرت زدہ انداز میں تیزی سے چیختے ہوئے بولا:
”جی… جی با لکل! یہی تھا، بالکل یہی تھا۔“
”شکریہ، بیٹا، اب ہم جمال کو تلاش کرتے ہیں۔“یہ کہتے ہی دادا نے اپنا سیل فون نکالا اور انسپکٹر منصور کو فون کرنے لگے۔

٭

چارو ں طرف پانی ہی پانی تھا۔ وہ سمندر پر جا رہے تھے۔ کافی دور انہیں جزیرہ دکھائی دیا۔ اس پر یوں سبزہ تھا جیسے وہاں کوئی گھنا جنگل ہو۔لمحہ بہ لمحہ وہ اس جزیرے کے قریب ہو تے چلے جا رہے تھے۔جمال سمجھ گیا کہ ان کی منزل وہی جزیرہ ہے۔کچھ دیر بعد ایسا ہی ہوا۔ ہیلی کاپٹر اس جزیرے کے اوپر پہنچ کر ایک دم سے نیچے کی طرف ہوا پھر یوں تیرتا ہوا نیچے آ یا جیسے کوئی کبوتر کسی چھتری پر بیٹھنے سے پہلے غوطہ لگاتا ہے۔دھیرے دھیرے ہیلی کاپٹر نیچے اترنے لگا۔یہاں تک کہ وہ ایک میدان میں اُتر گیا۔
مارٹن پوری طرح الرٹ تھا۔ اس نے جمال کو نیلی روشنی کے حصار میں لیا ہوا تھا۔ اس نے ساتھ بیٹھے لوگوں کو اشارہ کیا۔ انہوں نے جمال کو پکڑا اور نیچے اتار لیا۔ وہ دونوں اسے لے کر ہیلی کاپٹر سے دور چل دئیے۔اس بار مارٹن نے خود کو جمال کے پیچھے رکھاتھا۔ انہی لمحات میں جمال نے محسوس کیا کہ وہ خود میں توانائی محسوس کر رہا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ نیلی روشنی اس کے چہرے پر نہیں پڑ رہی تھی۔وہ چلتے چلے جا رہے تھے۔ ہیلی کاپٹر کا انجن بند ہو چکا تھا۔ لمحہ بہ لمحہ اس کا شور کم ہو تا چلا جا رہا تھا۔
سامنے ایک لکڑی کا ہٹ بنا ہوا تھا۔ وہ سطح زمین سے کافی اونچا تھا۔ اس کے ارد گرد کافی سارے درخت تھے۔صحن کی نشاندہی کرنے کے لیے چاروں طرف لکڑی کی باڑ لگی ہوئی تھی۔پتہ نہیں اندر کوئی تھا بھی یا نہیں۔ کیونکہ وہاں پر کسی کے بھی نہ ہو نے کے آ ثار دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کئی برسوں سے وہ جگہ ویران پڑی ہوئی تھی۔
جمال نے چلتے وقت جب خود میں توانائی محسوس کی تھی، تبھی اس کا دماغ بھی چلنے لگا تھا۔ پہلے وہ صرف دیکھ رہا تھا، مگر کوئی بھی نئی سوچ اس کے دماغ میں نہیں آ رہی تھی۔اس وقت اس کے ذہن میں یہی بات آ رہی تھی کہ اگر وہ لوگ مجھے یہاں باندھ کر چلے گئے تو میں یہیں مر جاؤں گا۔ یا شاید وہ لوگ جن کے لیے مجھے اغوا کیا جا رہا ہے، وہ مجھے پکڑنے کے لیے آ جائیں۔ اگر اس وقت وہ مجھے چھوڑ کر چلے گئے تو ممکن ہے، نئے آ نے والے لوگوں کو یہاں آ نے کے لیے وقت لگ جائے۔ ممکن ہے وہ بہت زیادہ لوگ ہوں یا پھر ان کے پاس کوئی جدید ترین بوائینالوجی ہو۔ جس طرح اس بندے نے مجھے نیلی روشنی کے حصار میں لے لیا ہے، ممکن ہے وہ کسی دوسری طرح مجھے مفلوج کر دیں۔یا کچھ بھی کرکے مجھے لے کر برطانیہ چلے جائیں گے۔یہی وقت ہے، اگر میں نے کچھ کر لیا تو ٹھیک ورنہ میں ان کی قید میں آ جاؤں گا۔لیکن کیا کروں؟اس نے یہ سوچا ہی تھا کہ اس کے دماغ میں بجلی کی سی تیزی سے ایک خیال کوندا، جمال نے اسی لمحے اس پر عمل کر نے کا فیصلہ کر لیا۔

وہ لکڑی کا ہٹ ان سے تھوڑے سے فاصلے پر رہ گیا تھا۔جمال چلتے چلتے یوں گرا جیسے اس کے ٹھوکر لگی ہو، وہ لڑھکتا ہوا دور تک جا پہنچا۔اس نے جان بوجھ کر اپنے ہاتھ نیچے کر لیے تھے۔ اس نے اپنی آ نکھیں بند کر لیں اور درزیدہ نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ وہ تینوں پریشانی میں اسے دیکھنے لگے تھے۔ وہ چند لمحوں کے لیے نیلی روشنی کے حصار میں سے نکل گیا تھا۔ اسی لمحے اس نے اپنی آ زمائش کر ڈالی۔ اس نے ذرا سا زور لگایا تو نائیلون کی رسی یوں ٹوٹی جیسے پگھل گئی ہو۔اس نے اپنے بازو اپنے نیچے ہی رہنے دئیے۔ وہ یوں بن گیا جیسے بے ہو ش ہو گیا ہو۔ اگلے ہی لمحے مارٹن نے اس پر روشنی کر دی۔ جمال جو خود میں توانائی محسوس کر رہا تھا، وہ ایک دم سے کم ہوگئی۔ جمال کو یقین ہو گیا تھا کہ نیلی روشنی اسے وقتی طور پر مفلوج کر سکتی ہے لیکن اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
”اوئے دیکھو! کیا ہوا اسے۔“مارٹن نے پریشانی میں تحکمانہ انداز میں کہا تبھی ایک آ دمی اس پر جھک گیا۔ اس نے پہلے جمال کی سانس محسوس کی، پھر اسے ہلاکر دیکھتے ہوئے تشویش سے بولا:
”شاید بے ہو ش ہو گیا ہے؟“
”یوں اچانک ٹھوکر لگنے سے؟“مارٹن نے تیزی سے کہا۔
”اتنی ٹھوکر سے تو بندہ بے ہوش نہیں ہوتا، کوئی…“اس شخص نے کہنا چاہا تو دوسر ا سمجھاتے ہوئے بولا۔
”شاید تمہاری اس نیلی ریز کے باعث، اس میں قوت ہی نہ رہی ہو۔“
”ہاں! ممکن ہے… تم جلدی سے پانی لاؤ۔“ مارٹن نے کہا۔
اور اس کے ساتھ ہی نیلی روشنی اس سے ہٹا لی۔ اسی لمحے ایک شخص اندر لکڑی والے ہٹ کی جانب دوڑا۔ تبھی جمال کو احساس ہو گیا کہ یہ لوگ یہیں رہتے ہوں گے۔ ورنہ وہ اتنی تیزی سے ہٹ کی جانب نہ جاتا۔ جمال اسی طرح پڑا رہا۔ وہ خود میں توانائی محسوس کر نے لگا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ ابھی رسک نہیں لینا چاہیے۔ ممکن ہے اس کی صلاحیتیں ابھی واپس نہ آ ئی ہوں اوراس کا جھوٹ پکڑا جائے۔ابھی تو وہ اس سے ڈر رہے ہیں، ممکن ہے جھوٹ پکڑے جانے پر وہ ڈرنا ہی چھوڑ دیں۔بلکہ اسے ناکارہ سمجھ کر یہیں مار کر پھینک دیں۔
”پتہ نہیں یہ ہوش میں کیوں نہیں آ رہا؟“ مارٹن نے پریشان لہجے میں کہا۔
”اتنی ریز تو کوئی جانور برداشت نہیں کر سکتا، تم نے اسے ایک انسان پر استعمال کیا۔“ اس کے ساتھی نے اکتاہٹ سے کہا۔
”مصیبت یہ ہے ناں کہ اگر یہ مر گیا تو ہمیں ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملے گی، اتنی مشقت الگ…“ اس نے دبے دبے غصے میں کہا۔
”ایسا بھی کیا مارٹن، اگر یہ ہمیں مارنے پر تُل جائے تو کیا ہم خاموشی سے مر جائیں گے؟ اسے کہیں گے آؤ اور ہمیں مار دو، ہم تمہیں بالکل بھی نہیں مار سکتے۔“ ساتھی نے اس بار حقارت سے کہا۔
”پھر تو شاید ہمیں اسے مارنا پڑے گا۔اب اسے یوں تو نہیں مرنا چاہیے نا۔“ مارٹن نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
مارٹن کافی حد تک پریشان ہو چکا تھا۔ وہ جمال کا چہرہ تھپتھپاکر اسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پانی لانے والے کو زور زور سے آ وازیں دینے لگا تھا۔ جمال کان میں پڑنے والی آ وازوں سے سمجھ رہا تھا۔ اس نے قدموں کی دھمک سن لی تھی۔ تیسرا ساتھی پانی لے کر آ رہا تھا۔جمال نے ہر طرف سے اپنا دھیان ہٹا کر پوری توجہ اپنی صلاحیتوں پر لگا دی۔ وہ خود میں قوت بحال ہوتی ہوئی محسوس کر نے لگا تھا۔اس کی آ نکھیں بند تھیں، اسے احساس ہو رہا تھا کہ وہ نیلی روشنی کے حصار میں نہیں ہے۔
کچھ ہی دیر بعد اسے اپنے چہرے پر پانی کے چھینٹے محسوس ہو ئے۔ یہی وہ وقت تھا جب اس نے آ نکھیں کھول دیں۔ اس نے بجلی کی سی سرعت کے ساتھ مارٹن کی گردن پکڑ لی۔
”اوغ…“ مارٹن کے منہ سے نکلا۔ اسے سمجھ میں ہی نہیں آ یا کہ یہ ہو کیا گیا ہے؟یہ سب چشم زدن میں ہوا تھا۔مارٹن نے لا شعوری طور پر دونوں ہاتھوں سے اپنی گردن چھڑوانے کے لیے کو شش کی۔بلاشبہ اس کے ہاتھ میں نیلی روشنی والی بیم نہیں تھی۔ جمال نے ایک جھٹکے سے مارٹن کو پرے دھکیل دیا۔ وہ اُڑتاہوا چند فٹ کے فاصلے پر جا پڑا۔ اسی لمحے جمال زمین سے اسپرنگ کی مانند اچھلا اور مارٹن پر جا پڑا۔ مارٹن کو جیسے خیال آ گیا، اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور نیلی روشنی والی بیم نکال لی۔ جمال نے وہی ہاتھ پکڑ لیا، پھر اسے یوں جھٹکا دیا کہ بیم اس کے ہاتھ سے نکل گئی۔
وہ بڑا عجیب منظر تھا۔ ایک نوخیز لڑکا، ایک بھاری بھرکم پہلوان نما شخص کو بے بس کیے ہوئے تھا۔ بیم کے حصول کے لیے دونوں میں کشمکش شروع ہو چکی تھی۔ اچانک جمال نے اپنا ہاتھ ہوا میں لہرایا اور ایک گھونسا مارٹن کے چہرے پر مارا۔ وہ ایک لمحے کو کپکپایا اور پھر بے سدھ ہو گیا۔ جمال نے وہیں سے چھلانگ لگائی اور نیلی روشنی والی بیم تک جا پہنچا۔اس نے وہ بیم اٹھائی اور سامنے کی جانب بھاگ نکلا۔ سامنے لکڑی کی بنی ہوئی ہٹ تھی، وہ اس کے پیچھے جا کر ان کی نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔
”پکڑو اسے…“ مارٹن نے چیختے ہوئے کہا۔ اس کی آواز سناٹے میں گونج اٹھی تھی۔اسی لمحے اس کے دونوں ساتھی جمال کے پیچھے لگ گئے۔مارٹن بھی اٹھ کر ان کے پیچھے بھاگنے لگا تھا۔
جمال یہ بات بخوبی سمجھتا تھا کہ اگر وہ لکڑی کے ہٹ کے اندر چلا گیایا ہٹ کے کہیں آ س پاس بھی رہا تو گڑ بڑ ہو جائے گی۔ اسے یہاں سے دور نکل جانا چاہیے۔اس نے مڑکر دیکھا، سامنے کافی ساری زمین خالی تھی اور پھر جنگل شروع ہو جاتا تھا۔اس نے لمحے سے بھی کم وقت میں فیصلہ کیا اور جنگل کی طرف انتہائی تیزی سے بھاگ کھڑا ہوا۔
”جنگل میں نہ جائے… پکڑو…“ مارٹن چیختے ہوئے بھاگ رہا تھا۔
”رک جاؤ، ورنہ گولی مار دوں گا۔“ ایک ساتھی کی وارننگ بھری آ واز ابھری تو جمال نے مڑ کر دیکھا۔ وہ اپنا پسٹل نکال چکا تھا۔ جمال نے اپنا منہ سامنے کیا اور مزید تیز بھاگنے لگا۔ جنگل ابھی چند قدم کے فاصلے پر تھا۔ اسی لمحے فائر سے وہ جزیرہ گونج اٹھا۔جمال نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ جنگل میں گھس گیا۔
جمال جنگل کے اندر گھسنے میں کامیاب ہو گیاتھا۔اسے اپنے سامنے ایک گھناپیڑ دکھائی دیا۔ وہ بھاگتا ہوا اس پیڑ پر چڑھ گیا۔ ایک موٹے سارے تنے پر بیٹھ کر اس نے میدان کی طرف دیکھنے کی کوشش کی تواسے کچھ بھی دکھائی نہیں دیا۔ اس کے سامنے گھنے درخت تھے۔ تبھی اسے احساس ہوا کہ اتنی بھاگ دوڑ کرنے کے بعد بھی اس کا سانس نہیں پھولا تھا۔ اس نے حیرت سے اپنا جائزہ لیا، نہ اس کا دوران خون تیز تھا،وہ بالکل ہشاش بشاش تھاجیسے چند قدم کا فاصلہ طے کر کے وہ یہاں پیڑ پر چڑھ بیٹھا ہو۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ چند لمحے وہیں بیٹھ کر سوچنے لگا کہ اب اسے کیا کرنا چاہیے؟
اس نے دیکھا تھا کہ ہیلی کاپٹر سمندر پار کر کے جزیرے تک پہنچا تھا۔ اس کا مطلب تھا، اس جزیرے سے نکلنے کے لیے کم ازکم کشتی ضرور چاہیے تھی۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ یہ لوگ باہر کی دنیا سے رابطے میں نہ ہوں، ان کا باہر کی دنیا سے رابطہ ضرور ہو گا، وہ کیسے جاتے ہوں گے؟ اسی خیال پر سوچتے ہوئے اسے یہی سمجھ میں آیا کہ یہ ہیلی کاپٹر ہی وہ ذریعہ رہا ہوگا۔کیا اب اسے یہ ہیلی کاپٹر استعمال کرنا ہوگا؟ اسے ہیلی کاپٹر اڑانے کو ئی تجربہ تو کیا، وہ تو اس کی ذراسی بھی شدھ بدھ نہیں رکھتا تھا۔ اگر وہ ہیلی کاپٹر تک پہنچ بھی گیا تو اسے اڑائے گا کیسے؟ظاہر ہے اس کے لیے پائلٹ کو مجبور کرنا ہوگا۔ایسا کیسے ہو گا؟
اگر وہ کسی طرح ساحل تک پہنچ جاتا ہے تو آ گے کیسے جائے گا؟ کیا اسے کوئی کشتی تلاش کرنا ہو گی؟ تلاش تو وہ تب کرے گانا، جب اسے یہ یقین ہو کہ اس جزیرے پر کوئی کشتی بھی ہو سکتی ہے۔کیا وہ یونہی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہے گا؟یہ سوچتے ہی وہ بے چین ہو گیا تھا۔

٭

تربیتی مرکز کے ایک کمرے میں دادا اور پاپا کے ساتھ کرنل افتخار اور انسپکٹر منصور بیٹھے ہوئے تھے۔انہیں جمال کے اغوا کا علم ہو چکا تھا۔تبھی پاپا نے تشویش بھرے لہجے میں کہا:
”ابھی چند منٹ پہلے راستے میں مجھے ولیم کا فون آیاتھا۔“
”کیا کہہ رہا تھا؟“ کرنل نے پوچھا۔
”وہی آفر کہ ہم جمال کو اس کے حوالے کر دیں، خود بھی لندن آ جائیں، پھر دنیا کے امیر ترین لوگوں میں ہمارا شمار ہو گا۔“ پاپا نے کہا۔
”اس نے جمال کے بارے میں کوئی بات کی؟“ کرنل نے پوچھا۔
”اس نے بڑے اعتماد سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ جمال کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے، اب اسے تلاش نہ کیا جائے۔ اگر آ فر قبول ہے تو بتائیں ورنہ جمال کو بھول جائیں۔“ پاپا نے کہاتو کرنل سوچ میں پڑ گیا، پھر انسپکٹر منصور کی طرف دیکھ کر پوچھا:
”آپ نے اب تک کیا،کیا ہے؟“
”سر! وہ لوگ جمال کو ہیلی کاپٹر میں لے کر گئے ہیں، سو شہر کی ناکہ بندی کی تو ضرورت نہیں، میں نے شہری ہوا بازی کے مرکز سے رابطہ کرکے صورت حال بتائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ہیلی کاپٹر ابھی تھوڑی دیر پہلے شہر سے اُڑا ہے۔ وہ اسے تلاش کر رہے ہیں کہ کہاں گیا۔“ انسپکٹر نے مؤدب لہجے میں جواب دیا۔
”ٹھیک ہے، اس ہیلی کاپٹر کو تلاش کیا جائے، لیکن وہ کہاں سے آ یا، کس نے اسے شہر میں آنے کی اجازت دی،یہ بھی ان سے کہیں گے آپ؟“ کرنل نے دبے دبے غصے میں کہا۔
”جی! میں ابھی کہہ دیتا ہوں۔“ اس نے مستعدی سے کہا تبھی کرنل نے دادا کی طرف دیکھ کر کہا۔
”مجھے چند منٹ دیں، میں احکامات دے لوں، پھر بات کرتے ہیں۔“
یہ کہہ کر اس نے اپناسیل فون لیا اور ایک کے بعد ایک نمبر پش کر کے مختلف لوگوں کو احکامات دینے لگا۔ اس کا خیال یہ تھا کہ ہیلی کاپٹر کہیں بھی ہو اسے فوراً ٹریس کیا جائے۔ اس نے ڈیجیٹل کرائم کے ماہر فیصل ممتاز کو بھی بلوا لیا تھا۔وہ احکامات د ے چکا تو اس نے دادا کی طرف دیکھ کرپوچھا:
”جمال کو نیلی روشنی کے حصار میں اغوا کیا گیا، کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہی شعاعیں تھیں جو ٹیب میں پائی گئی تھیں؟“
”میں جب تک اس نیلی روشنی کو نہ دیکھ لوں، تب تک میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔“ دادا نے سوچتے ہوئے کہا۔
”کیا آپ کو یہ علم تھا کہ جمال میں ایسی کوئی کمزوری ہو سکتی ہے، جس سے…“ کرنل کہتے کہتے رُک گیا تو دادا نے کہا۔
”نہیں! مجھے یہ علم نہیں ہوا۔ کیونکہ ابھی مجھے پوری طرح یہ بھی علم نہیں کہ اس میں کیا کیا صلاحتیں بیدار ہیں، کون سی ہو سکتی ہیں یا ہونے والی ہیں۔کیونکہ جس طرح ہم نے اس تجربے کا وقت رکھا تھا اور اس کا ایک طے شدہ دورانیہ تھا، اس سے پہلے ہی یہ سب ہو گیا۔ہمیں کسی قسم کا کچھ بھی جانچنے کا موقع نہیں مل سکا۔ لہٰذا ابھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔“
لفظ ان کے منہ ہی میں تھے کہ ڈیجیٹل کرائم کا ماہر آ گیا۔ اس نے سلام کیا اور ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ کرنل نے اسے تھوڑی سی تمہید بتائی تو اس نے دادا جی کی طرف دیکھ کر پوچھا:
”یہ بتائیں کہ آپ نے اس ریز کے بارے میں کیا معلوم کیا؟“
”اگر میں تکنیکی بات نہ کروں اور سیدھے بتاؤں تو وہ شعاعیں سیدھا اعصاب پر اثر انداز ہو تی ہیں۔ جس طرح کسی کو سلو پوائزین دیا جاتا ہے۔ وہ دھیرے دھیرے اثر کرتا ہے، یہ ریز بھی اعصاب پر آ ہستہ آ ہستہ اثر کرتی ہیں۔ انہیں بالکل کمزور کرتی ہیں۔“دادا جی نے تفصیل سے سمجھایا۔
”آخر وہ لوگ ٹیب کے ذریعے لوگوں کے اعصاب کیوں کمزور کرنا چاہتے ہیں؟“ انسپکٹر منصور نے بے ساختہ بڑبڑاتے ہوئے پوچھا تو کرنل نے چونکتے ہوئے کہا۔
”آ فیسر، یہی وہ بنیادی نکتہ ہے، جس پرآپ اپنی تفتیش کی بنیاد رکھ سکتے ہیں کہ آخر وہ لوگ اعصاب ہی کیوں کمزور کرنا چاہتے ہیں؟“
”بالکل سر…“ انسپکٹر منصور نے سوچتے ہوئے کہا۔
”میرا اندازہ ہے کہ انہوں نے جمال کے اعصاب کو مفلوج کیا ہے تو اسے اغوا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں، تاہم ٹیب کے ذریعے لوگوں کے اعصاب کیوں کمزور کیے جا رہے ہیں، اور وہ بھی ان خاص لوگوں کے جو اُن کے ساتھ جڑ چکے ہیں، یہ بات سوچنے کی ہے۔“ کرنل نے سوچتے ہوئے اندا زمیں کہا۔
”سر وہ…“ انسپکٹر منصور نے کہنا چاہا کہ کرنل کا فون بج اٹھا، وہ شہری ہوائی بازی والوں کی طرف سے تھا۔ اس نے کال لے کر اسپیکر آ ن کر دیا۔
”جی بولیں…“ کرنل نے کہا۔
”سر! اس ہیلی کاپٹر کا پتہ مل گیا ہے۔“ ایک شخص نے کہا۔
”گڈ، کہاں ہے وہ؟“ کرنل نے پوچھا تو وہ شخص بولا۔
”سر! وہ یہاں سے بہت دور سمندر میں ایک جزیرے پر کھڑا ہے۔“
”ٹھیک ہے، اسے وہیں گھیر لیں… جلدی…“ کرنل نے پر جوش لہجے میں کہاتو دوسری طرف سے بے بسی میں کہا گیا۔
”نہیں سر! ہم اسے نہیں پکڑ سکتے، جب تک وہ وہاں سے اُڑ نہیں جاتا۔“
”کیوں، ایسی کیابات ہے؟“ کرنل نے حیرت سے پوچھا تو سبھی چونک گئے۔ یہ بالکل ہی حیران کن بات تھی۔

”سر، اس جزیرے پر اب تک کوئی نہیں جا سکا ہے۔ جیسے ہی کوئی وہاں تک جاتا ہے، ہوا میں سے یا پھر پانی میں کشتی یا چھوٹا جہاز جاتا ہے، وہ کسی نامعلوم وجہ سے تباہ ہو جاتا ہے۔ ایسے کئی حادثات ہو چکے ہیں۔“اس شخص نے بتایا۔
”وہاٹ نان سینس… یہ کیا کہانیاں سنا رہے ہو، ہم ایک اہم ترین کیس پر بات…“کرنل نے دھاڑتے ہوئے کہا تو وہ شخص تیزی سے بولا۔
”سر! آپ میرا یقین کریں، میں کہانیاں نہیں سنا رہا ہوں۔“
”تو پھر یہ ہیلی کاپٹر وہاں تک کیسے جا پہنچا؟“ کرنل یوں دھاڑا کہ اس کے حلق میں خراش آ گئی۔
”سر میں نہیں جانتا، آپ میرے سینئر سے بات کریں۔“ اس نے کہا اور رابطہ منقطع کر دیا۔ کرنل افتخار نے حیرت سے فون کو دیکھا اور پھر حیرت سے بولا۔
”ایسا کیسے ہو سکتاہے؟“
”سر! آپ ان کے سینئر سے بات کریں، میں اپنے ذرائع سے بات کرتا ہوں۔“انسپکٹر منصور نے کہا اور اٹھ گیا۔
کرنل کسی سینئر آ فیسر کو کال ملانے لگا۔انہی لمحات میں دادا کے فون کی بیل بجی۔ انہوں اسکرین پر دیکھا تو چونک کر فون اٹھا لیا۔ وہ فون ڈاکٹرجیمسن کا تھا۔
”ہیلو…“ دادا نے کہا۔
”جمال ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔“جیمسن نے بتایا۔
”اوہ… تو اب کہاں ہے؟“انہوں نے پوچھا۔
”یہ پتہ نہیں، وہ وہیں جنگل میں کہیں گھس گیا ہے۔“ اس نے بتایا۔
”اس کا مطلب ہے ہمیں فوراً اس تک پہنچنا ہو گا؟“ دادا نے تیزی سے کہا۔
”لیکن پہلے میری بات سن لو، جس کے لیے میں نے فون کیا ہے۔“اس نے کہا۔
”جلدی بولو…“
”تمہیں بالکل نہیں پتہ اس جزیرے کے بارے میں۔ دراصل ڈاکٹر رچرڈ نے کچھ خفیہ قسم کے تجربات کے لیے یہ جزیرہ خرید رکھا تھا اور اسے پوری طرح محفوظ بھی بنایا ہوا تھا۔“ جیمسن نے بتایا۔
”اوہ، یہ کیسے محفوظ تھا؟“ دادا نے حیرت سے پوچھا۔
”اس جزیرے کے ارد گرد تقریباً ایک کلو میٹر کے رداس میں برقی لہریں ہیں، جو بھی ان لہروں کی رینج میں آ تا ہے، وہاں آ گ بھڑک جاتی ہے۔ سو لوگ اس طرف نہیں جاتے۔ وہ یہیں سمجھتے ہیں کہ یہاں روحیں یا جن بھوت وغیرہ ہیں۔ کیونکہ تمہارے ملک کی طرف تو لوگ ویسے بھی ضعیف العقیدہ ہیں، وہ تو بالکل ہی ادھر نہیں گئے، کیونکہ ان کا کافی نقصان ہوا تھا۔“ جیمسن نے بتایا۔
”مطلب، اس جزیرے کو محفوظ رکھنے کے لیے پہلے افواہ اڑائی گئی، پھر لوگوں کا نقصان ہوا تو اس افواہ کو حقیقت مان لیاگیا۔“دادا نے تصدیق کی۔
”ہاں! ایسا ہی ہوا۔“ اس نے جواب دیا۔
”تو ا س کا مطلب ہے جمال کو وہاں بہت زیادہ خطرہ ہوگا کہیں وہ سمند رکی جانب نکل گیا اور…“ یہ کہتے ہوئے اچانک ان کے ذہن میں آ یا تو انہوں نے پوچھا:
”یہ ہر وقت رہتا ہے تو پھر، یہ ہیلی کاپٹر کس طرح اس جزیرے پر چلاگیا؟“
”بلاشبہ ان لہروں کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔کہاں سے کیا جاتا ہے یہ ابھی مجھے معلوم نہیں ہو سکا، لیکن جو مجھے معلوم ہوا، وہ میں نے تمہیں فوراً بتا دیا۔تم وہاں ہو جمال کی فکر کرو، میں باقی معلومات لیتا ہوں۔“
”جیمسن! پلیز تم ایسے کرو، ڈاکٹر جوزفین سے بات کرو، اسے بھی معلومات ہیں، وہ بتائے گی۔“ دادا نے کہا تو تیزی سے بولا۔
”میں ابھی پتہ کرتا ہوں، اس سے بھی بات کرکے تمہیں بتاتا ہوں۔“
”بالکل، جلدی معلوم کرو۔کیونکہ ہم اس وقت تک وہاں نہیں جا پائیں گے جب تک تم ہمیں بتا نہ دو۔“دادا نے کہا۔
”تم لوگ اس طرف بڑھو، تب تک میں کچھ کرتا ہوں۔“جیمسن نے کہا اور فون بند کر دیا۔ دادا نے فون کان سے ہٹا کر سب کو وہ انفار میشن دے دیں۔
”آ فیسر، جلدی سے وہاں تک پہنچنے کا بندوبست کرو۔ ہم نکلتے ہیں۔“ کرنل نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔
”سر! ہم ہیں نا ابھی، آپ یہاں سے ہمیں راہنمائی دیں۔ میری ٹیم میرے ساتھ جائے گی۔“ انسپکٹر منصور نے کہا۔
”ٹھیک ہے پھر نکلو۔“ کرنل نے کہا تو انسپکٹر منصور نے سیلوٹ مارا اور تیزی سے نکلتا چلا گیا۔ سب اسے جاتا ہوا دیکھتے رہے۔
وہ کمرے سے نکلا تو کرنل پھر سے اس نیلی روشنی کے بارے میں بات کرنے لگا، وہ سوچ رہا تھا کہ ان برقی لہروں اور اور نیلی روشنی والی شعاعوں میں کوئی نہ کوئی مماثلت ضرور ہے۔
ڈاکٹر الیاس ان کی باتوں کا جواب تو دیتا رہا لیکن اس کا دماغ تیزی سے سوچ رہا تھا کہ ان برقی لہروں کا حصار کیسے توڑا جا سکتا ہے۔

……٭……

کنٹرول روم میں…

جمال کو پیڑ پر بیٹھے دو گھنٹے سے زیادہ ہوگئے تھے۔ اس دوران جنگل میں کسی بھی طرف سے کوئی بھی دکھائی نہیں دیا تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ خطرہ ٹل گیا تھا۔اگرتھوڑی دیر کے لیے محفوظ پناہ گاہ مل گئی تھی تو دوسری جانب مارٹن اور اس کے ساتھیوں کو بھی کسی طرح کی پلاننگ کا کچھ وقت مل گیا تھا۔وہ اسے دوبارہ پکڑنے کے لیے کوئی منصوبہ بنا سکتے تھے۔اس نے سوچا یوں بیٹھے رہنے سے خطرہ ٹل نہیں جائے گا۔وہ تھوڑی دیر سوچتا رہا پھر پیڑ سے نیچے اتر آ یا۔
جیسے ہی اس کے پاؤں زمین پر لگے، انہی لمحات میں اسے احساس ہو اکہ کہیں پتوں کی سرسراہٹ ہو رہی ہے۔ وہ ان سرسراہٹوں کو واضح سن سکتا تھا۔ اسے لگا جیسے کچھ لوگ تیزی سے چلتے ہو ئے آ رہے ہیں۔ چند لمحے یونہی گزر گئے۔ سرسراہٹ لمحہ بہ لمحہ قریب آ تی چلی جا رہی تھی۔ تب اچانک اس کی نگاہ تین لوگوں پر پڑی۔ وہ اس سے تھوڑا فاصلے پر تھے۔ انہوں نے ہاتھوں میں گنیں پکڑی ہوئی تھیں۔ وہ محتاط انداز میں آ گے بڑھ رہے تھے۔ جمال نے تنے کے ارد گرد پھیلے ہوئے پودوں میں خود کو چھپا لیا۔
جمال نے ان کے رُخ کا اندازہ لگا لیا تھا۔ وہ ساحل کی طرف جا رہے تھے۔ جمال کو یہ یقین ہو گیا کہ مارٹن اور اس کے ساتھیوں کے علاوہ بھی اس جزیرے پر لوگ ہیں۔ وہ انتہائی خاموشی سے تنے کے ساتھ پودوں میں چھپا رہا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ آ گے نکل گئے۔وہ کافی دیر تک یونہی بیٹھا رہا۔
کافی دیر بعد جب اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو کوئی بھی اس کے نزدیک نہیں تھا۔ وہ کھڑا ہوا تو اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔جنگل کا سارا منظر ایک دم سے غائب ہو گیا، اس کی جگہ تاریکی نے لے لی تھی۔اک پر ہول سناٹا چھا گیا، جیسے اس کا رابطہ پوری دنیا سے کٹ گیا ہو۔
یہ کیفیت لمحہ بھر رہی پھر تاریکی میں ایک نقطہ پھیلا اور پھرپھیلتا ہی چلا گیا۔ اس دائرے میں خاکی رنگ تھا۔ جس کے درمیان میں ایک نیلا نقطہ ابھرا اور وہ پھر پھیلتا چلا گیا۔یہاں تک کہ وہ نیلا رنگ دائرے کے کناروں تک جا پہنچا۔لمحہ بہ لمحہ دائرے کا کنارہ گہرا نیلا ہو تا گیا۔ پھر یہ منظر اس کی نگاہوں سے ہٹ گیا۔
وہی جنگل کا سبزہ، درخت اور پودے ا س کے سامنے تھے۔جنگل کا مخصوص شور اس کے کانوں میں پڑنے لگا۔ جمال اس دیکھے ہو ئے منظر پر غور کرنے لگا۔ اسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا لیکن اتنا یقین ہو گیا تھا کہ یہ منظر اسی جزیرے سے متعلق ہے۔ وہ کس صورت میں اس کے سامنے آ تا ہے، اس کے بارے میں وہ کچھ بھی نہیں کہہ سکتا تھا۔
جمال نے ایک طویل سانس لی اور محتاط انداز میں جنگل سے نکل کر جزیرے کی جانب بڑھا۔ اسے یہ پتہ تھا کہ ساحل پر جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہاں کی نگرانی کی جارہی تھی۔ وہاں جانے کا مطلب دوبارہ ان کے چنگل میں پھنسنا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ جنگل سے باہر آ گیا۔ وہاں آ کر اسے پتہ چلا کہ دوپہر ڈھل رہی تھی۔ چمکتی ہوئی دھوپ میں سامنے دور دور تک کوئی فرد دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ زمین پر بیٹھ کر سامنے کا منظر دیکھنے لگا۔
جس لکڑی کے ہٹ کے پاس سے وہ بھاگ کر جنگل میں داخل ہوا تھا۔ وہاں کوئی نہیں تھا، لیکن اس سے تھوڑے فاصلے پر ہیلی کاپٹر کھڑا تھا۔ اس کے پر ساکن تھے۔ وہ یہ نہیں دیکھ سکا کہ اس کا پائلٹ اسی میں بیٹھا ہے یا پھر اتر کر کہیں چلا گیا ہے۔
اس نے غور سے دیکھا، ہیلی کاپٹر کے عقب میں ایک اور لکڑی کا ہٹ بنا ہوا تھا۔ اس کے سامنے بھی ویسا ہی ایک صحن بنا ہوا تھا۔ لازمی بات ہے وہاں بھی لوگ رہتے ہوں گے۔اس نے سوچا اگر یہاں لوگ بس رہے ہیں تو یقینا ان کے رہنے کے بھی کوئی نہ کوئی مکان ہوں گے، جیسے یہ دو لکڑی کے ہٹ اسے دکھا ئی دے رہے تھے۔ ممکن ہے اسے یہاں سے دکھائی نہ دے رہے ہوں، اگر وہ سیدھا میدان میں جاتا ہے تو فوراً پکڑا جائے گا ہاں اگروہ جنگل ہی میں رہتے ہوئے، چھپ کر آ گے بڑھتا رہے تو ممکن ہے وہ کوئی ایسا راستہ تلاش کر لے جو اسے یہاں سے نکال لے۔اس نے فیصلہ کیا اور جنگل میں درختوں کی اوٹ میں رہتے ہوئے چل دیا۔ وہ جدھر بھی جاتا، اسے ایک دائرے ہی میں گھومنا تھا۔
وہ تیزی سے چلتا جا رہا تھا۔ وہ ہر طرف سے محتاط تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اس منظر کے بارے میں بھی سوچتا جا رہا تھا جو کچھ دیر پہلے اسے عالم بے خودی میں دکھائی دیا تھا۔وہ اسے سمجھنا چاہتا تھا لیکن منتشر دماغ کے اس ماحول میں اسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ وہ نجانے کتنا سفر طے کر گیا تھا لیکن ذرا سی بھی تھکن نہیں ہوئی تھی۔ سورج مغرب کی جانب جھک رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اندھیرا ہو نے سے پہلے کوئی نہ کوئی راہ اسے سمجھائی دے جائے۔ یہی سوچتا وہ چلتا چلا جارہا تھا۔
ایک جگہ جمال کو احساس ہوا کہ دور کہیں ایک لکڑی کا ہٹ بنا ہوا ہے، لیکن یہ ذرا سا مختلف ہے۔ اس کے سامنے لکڑیوں کی باڑ والا صحن نہیں بنا ہوا تھا۔ اس سے تھوڑے سے فاصلے پر چند مٹی کے گھر تھے۔لکڑی والے ہٹ اور مٹی والے گھروں کے درمیان ایک راستہ بنا ہوا تھا۔ اس راستے کے ساتھ ساتھ پھولوں کے پودے تھے۔ وہ ٹھٹک کر رُک گیا۔ یہاں پر اسے زندگی کے آ ثار دکھائی دئیے تو اسے لگا شاید یہاں سے کوئی راہ نکلے۔ وہ رک کر وہاں کا جائزہ لینے لگا۔پیلی دھوپ میں وہ ہٹ بڑا پراسرار دکھائی دے رہاتھا۔ ایسے میں دولوگ لکڑی والے ہٹ سے نکلے۔ وہ آ پس میں باتیں کر رہے تھے۔وہ اونچائی سے نیچے آ ئے اور اسی راستے سے مٹی کے گھروں کی جانب چل دئیے۔
جمال سامنے دیکھ رہا تھا۔ اچانک اس نے دیکھا،اسی لکڑی والے ہٹ کے عقب میں اسے ایک لمبا سا ٹاور دکھائی دیا۔ اسے لگا جیسے یہ کوئی اینٹنا ہے۔ لازمی بات ہے کہ یہاں سے باہر کی دنیا سے رابطہ کیا جاتا ہوگا۔تبھی اسے عالم بے خودی میں دیکھا ہوا منظر یاد آ گیا۔ وہ بھی گول دائرے میں ایک نقطہ تھا۔ جس کی لہریں چاروں جانب پھیل رہی تھیں۔اسے یقین ہو گیا کہ یہیں سے وہ باہر کی دنیا سے رابطہ کر سکتا ہے۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اس ہٹ تک ضرور جائے گا۔ اس نے اندازہ لگایا، اس ہٹ اور جنگل میں درمیانی فاصلہ کوئی کلو میٹر کا رہا ہوگا۔اس نے گہری سانس لی اور انتہائی تیزی سے اس ہٹ کی جانب بھاگ کھڑا ہوا۔
چند منٹ میں ہی وہ ہٹ سے تھوڑے فاصلے پر جا پہنچا۔ وہاں جا کر وہ پودوں کی آڑ میں رکا اور ارد گرد محتاط نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ اسے کہیں بھی کوئی دکھائی نہیں دیا۔ایک لمحہ کو تو اسے حیرت ہو ئی۔ ہٹ کا دروازہ کھلا ہوا تھا، ممکن ہے اس میں کوئی ہو لیکن یہ کیسا پرہول سناٹا تھا۔ کوئی ذی روح کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ تھوڑے فاصلے پر بنے ہوئے مٹی کے گھروں کے باہر کم ازکم کوئی تو ہوتا؟اگر مکان ہیں تو مکینوں کا بھی احساس ہو تا۔
وہ تھوڑی دیر وہاں رکا رہا، پھر ہٹ کے فاصلے کا تعین کرتے ہوئے اس نے دوڑ لگا دی۔ جیسے ہی وہ ہٹ سے چند گز کے فاصلے تک پہنچا، ایک دم سے الارم بج اٹھا۔ اس الارم کی آواز اتنی تیکھی اور خوف ناک تھی کہ وہ خود لرز کر رہ گیا۔ وہ گھبرا کر واپس پلٹا اور چند قدم ہی بھاگا تھا کہ وہ الارم اچانک بند ہو گیا۔ وہ ٹھٹک کر رک گیا۔
اس کے دماغ میں ایک سوچ لہرائی۔ کیا میں ہٹ کے نادیدہ حصار میں جاتا ہوں توالارم بجتا ہے؟ وہ فوراً مڑا اور پھر ہٹ کے پاس گیا۔ الارم پھر بجنے لگا۔ وہی تیکھی اور بھیانک آ واز پھیلنے لگی۔ وہ چند قدم واپس آ یا تو الارم بند ہو گیا۔ وہ سمجھ گیا کہ کوئی ایسا ان دیکھا حصار ہے، جس کی وجہ سے وہ الارم بجتا ہے اور کوئی بھی شخص اس ہٹ کے نزدیک جائے تو وہ الارم بجنا شروع ہو جاتا ہے۔

اچانک اس کے دماغ میں آیا، جن لوگوں کو خبردار کر نے کے لیے یہ الارم لگایا گیاہے وہ تو الرٹ ہو گئے ہوں گے۔ اس نے تیزی سے ارد گرد دیکھا۔ اس کی نگاہ مٹی سے بنے گھروں پڑ پڑی۔ وہ کچھ لوگ کھڑے ہوئے تھے اور جمال کی جانب ہی اشارہ کر رہے تھے۔ گویا انہوں نے اسے دیکھ لیا تھا۔ اتنے میں ایک فائر ہوا۔ اسے کوئی گولی تو نہیں لگی، مگر اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اب کوئی مزید فائر نہیں لگ سکتا۔ اس کے پاس وقت نہیں تھا۔
کسی بھی متوقع فائر سے بچنے کے لیے وہ ہٹ کے اندر چلا جائے۔یہی سب سے نزدیک ترین جگہ تھی۔ اس کے بعد دیکھا جا سکتا ہے کہ کیا ہو گا، اگر وہ کھلے میدان میں بھاگا تو بچ نہیں سکتا تھا۔ اس نے لمحہ بھر میں فیصلہ کیا اور ہٹ کے دروازے کی طرف بھاگا۔ اسے چند سیڑھیاں چڑھنا تھیں۔ وہ تیزی سے بھاگا اور چند لمحوں میں سیڑھیاں چڑھ کر ہٹ کے اندر چلا گیا۔ الارم بجتا چلا جا رہا تھا۔
جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا،ا لارم بجنا بند ہو گیا۔ وہاں اسے کوئی شخص دکھائی نہیں دیا۔ البتہ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں کئی کمپیوٹرز چل رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا کہ لوگ کام کرتے ہوئے اٹھ کر کہیں گئے ہیں۔ ایک دیوار پر بڑی ساری اسکرین لگی ہوئی تھیں۔ جن میں جزیرے ہی کا کوئی منظر دکھائی دے رہا تھا۔ ایک طرف مائیک لگا ہوا تھا۔ جس کے ساتھ سیٹ آن تھا۔جمال کو وہ لکڑی کا ہٹ کنٹرول روم لگاتھا۔وہ ابھی کمرے کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ مارٹن کی آ واز سنائی دی۔
”جی بوائے! تم ہمارے ٹریپ میں آ گئے ہو۔“
جمال نے آ وازکی سمت دیکھا تو اسکرین پر مارٹن کا چہرہ دکھائی دے رہا تھا۔ وہ میدان میں کہیں کھڑا تھا۔ اس کے ساتھ اس کا ساتھی بھی تھا۔ ظاہر ہے وہ کسی کیمرے سے بات کر رہا تھا۔ جمال چند ثانئے کھڑا رہا پھر اس نے اسکرین کی طرف دیکھتے ہوئے اعتماد سے کہا:
”تم مجھے پھر بھی نہیں پکڑ سکتے ہو۔“
”کیا تمہیں اب بھی یقین نہیں کہ تم پکڑے گئے ہو۔یقین کرو، تم پکڑے گئے ہو، اسی ہٹ کے باہر کئی سارے سیکورٹی والے آ گئے ہیں، ان سب کے پاس گنیں ہیں۔ وہ کسی بھی وقت…“ مارٹن نے کہنا چاہاتھا لیکن جمال نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا:
”تو چلا دو گولی، کر دو فائر، میں مرنے کے لیے تیار ہوں۔“
”فیصلہ یہی ہوا ہے، اگر تم قابو میں نہیں آ ؤ گے تو پھر گولی تومارنا ہی پڑے گی۔“ مارٹن نے غصے میں کہا۔
”ٹھیک ہے جب چاہے مجھے گولی مار دو، میں یہیں ہوں۔“ جمال نے لاپروائی سے کہہ تودیا لیکن اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ اسے یہ تو یقین ہو گیا تھا کہ باہر سیکورٹی والے ہو سکتے ہیں، وہ اُس پر گولی بھی چلا سکتے ہیں لیکن وہ اگر اس کنٹرول روم تک پہنچ ہی گیا ہے تو اسے کچھ نہ کچھ تو کرنا چاہیے؟
وہ ایک کمپیوٹر کے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گیا جس کی اسکرین پہ ایک دائرہ بنا ہوا تھا۔ اس دائرے میں ایک لکیر تیزی سے پھر رہی تھی۔ وہ دائرہ، اس پر تیزی سے گھومتی ہوئی لکیر بالکل ایسی ہی تھی جیسے راڈار کا مانیٹر ہو تا ہے۔ اگر باہر کہیں کوئی اُن کے راڈار کے حصار میں آ جائے تو اس کی آمد یہاں اسکرین پر ظاہر ہو جانی تھی۔ کس طرف سے اور کتنے مقام پر ہے۔
اس کے ساتھ والے کمپیوٹر پر ویسا ہی ایک دائرہ تھا۔ اس میں سرخ سرخ دھبے تھے۔ وہ دھبے حرکت کر رہے تھے۔ دائرے کے بالکل درمیان میں چند دھبے تھے۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ دائرے کا بالکل درمیان ہی اس کا ہٹ تھا۔ کیونکہ ایک دھبے کے گرد پیلے رنگ کا دائرہ تھا جو بار بار جل بجھ رہا تھا۔ وہ جوسرخ دھبے حرکت میں تھے، وہ وہاں اس جزیرے پر موجود لوگ تھے۔ وہ اسکرین پر دھبے گن کر بتا سکتا تھا کہ وہاں جزیرے پر کتنے لوگ تھے۔
جمال کو جہاں ایک طرف یہ خوشی تھی کہ وہ ان کے کنٹرول روم تک پہنچ گیا ہے تو دوسری جانب وہ پریشان تھا کہ اپنے بارے میں دادا جی یا اپنے پاپا کو کیسے بتائے۔ اگران یہ پتہ چل جاتا ہے کہ میں اس جزیرے پر ہوں تب ہی وہ کچھ کر سکتے ہیں۔ اسے یہ تو یقین تھا کہ اس کے دادا اور پاپا اب تک خاموش نہیں بیٹھے ہو ں گے۔ اچانک اسے خیال آ یا کہ یہ یقینی بات ہے باہر کی دنیا کے ساتھ رابطہ یہیں سے ہو سکتا ہوگا؟
جیسے ہی اسے یہ خیال آ یا، اس نے باقی کمپیوٹر اسکرین بھی دیکھنا شروع کر دیے۔ایک اسکرین پر کچھ خانے بنے ہوئے تھے۔ ان میں کچھ پیغامات آ ئے ہوئے تھے، اور کچھ یہاں سے بھیجے گئے تھے۔ یہ بالکل سیل فون پر پیغام بھیجنے جیسا ایک سسٹم تھا۔ اس نے چند لمحے غور سے دیکھا،اسے ایک جگہ سیل نمبر ڈالنے کی جگہ بھی دکھائی دے گئی۔ اس نے تیزی سے اپنے پاپا کا نمبر وہاں ڈالا اور تیزی سے چند لفظ لکھ کر بھیج دیے۔ وہ پیغام کے جواب کا انتظار کر نے کی بجائے، دوسرے کمپیوٹر دیکھنے لگا۔ اسے کچھ سمجھ میں آیا اور کچھ نہیں آ یا۔ اتنی تھوڑی سی دیر میں وہ کیا سمجھ سکتا تھا جبکہ اس کا ذہن بھی منتشر تھا۔
اس وقت جمال بڑی تیزی سے سوچ رہا تھا۔ وہ حیران تھا کہ اس کے دماغ میں ایسے خیال آ کہاں سے رہے ہیں، اس نے تو ابھی اس انداز سے سوچا ہی نہیں تھا۔ اسے یوں لگا جیسے اس کے اندر کوئی جن بھوت بیٹھا اسے سوچنے پر مجبور کر رہا ہو، یا پھر کوئی روح اس کے اندر حلول کر گئی ہے جو اپنی مرضی کا سوچنے پر مجبور کررہی ہے۔ وہ بہت عجیب سوچ رہا تھا۔ اس کے من میں یہی خیال آ رہا تھا کہ وہ خود اس جزیرے پر قبضہ جما لے، یہیں سے بیٹھ کر اپنا آ پ منوانے کی کوشش کرے، وہ کسی بھی جگہ پر اپنا کنٹرول کر سکتاہے۔
اس نے ایک بار اپنے دماغ کو جھٹکا، نجانے اسے ایسے فضول خیال کیوں آ رہے تھے اور اس کمپیوٹر کے سامنے جا بیٹھا جہاں سے اس نے پیغام بھیجا تھا۔ یہ دیکھ کر اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی، جب اس کے پیغام کا جواب آ یا ہوا تھا۔
”یہ پڑھ کر خوشی ہوئی کہ تم بالکل ٹھیک ہو، مگر ہم بہت پریشان ہیں، ہمیں پتہ چلا ہے کہ تم کسی جزیرے پر ہو اور ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم وہاں تک پہنچ نہیں پا رہے ہیں۔ ہم اس وقت سمندر میں ہیں اور تمہاری تلاش میں ہیں، فوراً بتاؤ تم جزیرے پہ اس وقت کہاں ہو؟“
اس نے تیزی سے جواب لکھا:
”کیا مجبوری ہے؟“
وہ لکھ کر پیچھے ہٹا ہی تھا کہ مارٹن کی آ واز آ ئی:
”تم باہر نکلو، ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے۔ یا پھر ہمارے کسی بندے کو اپنے پاس آ نے دو، وہ تم سے کچھ بات کرے گا۔“
”مارٹن، تم نے مجھے جتنا بے وقوف بنانا تھا بنا لیا، اب میں تمہاری باتوں میں نہیں آ ؤں گا۔ کیا اب تم مجھ سے بات نہیں کر رہے ہو، کیا یہ باتیں نہیں ہیں؟“
”دیکھو جمال! میں یہ جانتاہوں کہ تم مجھ پر اعتماد نہیں کرو گے۔لیکن ہم تمہیں ایک آ فر دینا چاہتے ہیں۔ اس میں نہ تمہارا نقصان ہے اور نہ تمہارے گھر والوں کا بلکہ تم بہت امیر بن جاؤ گے۔“ مارٹن نے کہا تو اسی لمحے اسکرین پر پیغام آ گیا۔
”ہمیں پتہ چلا ہے کہ جزیرے کے ارد گرد کچھ الیکٹرک ویوز کا حصار ہے۔ جو بھی انہیں پار کرنے کی کوشش کرتا ہے جل جاتا ہے۔ ہم یہ تجربہ کر چکے ہیں۔ اب تک ہم دو کشتیاں جلا چکے ہیں۔“
”کیا آپ کے پاس کوئی تیسری کشتی بھی ہے؟“ یہ لکھ کر اس نے پیغام بھیج دیا۔اگلے ہی لمحے جواب آ گیا:
”ہاں ہمارے پاس ابھی تین کشتیاں ہیں۔“
”تم بات نہیں کر رہے ہو؟“ مارٹن نے پوچھا۔
”میں تمہاری بات کا جواب کیا دوں، جس کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کیا جاتا ہے وہ برابری کی بنیاد پر ہوتاہے، تمہیں یادہو نا چاہیے کہ تم مجھے اغوا کر کے لائے ہو۔“ جمال نے جواب دیا اس کے ساتھ ہی وہ اُس کمپیوٹر کے پاس چلا گیا، جہاں دائرہ بنا ہوا تھا اور اس میں ریڈار کی مانند لکیر ظاہر ہو رہی تھی۔
وہ اسے غور سے دیکھنے لگا۔ اس نے اسکرین پر لکھا ہوا سمجھنے کی کوشش کی تو اسے معلوم ہو گیا کہ یہی وہ اَن دیکھا حصار کنٹرول کر رہا ہے۔ اس نے ایک جگہ پر آ ف کا بٹن دبا دیا۔لکیر بننا بند ہو گئی لیکن دائرہ ویسے ہی رہا۔
”یہ ٹھیک ہے ہم تمہیں اغوا کر کے لائے ہیں، لیکن اب ہم بات کرنا چاہتے ہیں، تم سمجھو ہم ہار گئے۔“ مارٹن کی آ واز گونجی لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کی ساری توجہ اسکرین پر تھی۔ اس نے دوسرے کمپیوٹر پر جا کر لکھا:
”مجھے لگتا ہے کہ میں ان کے کنٹرول روم میں ہوں۔ اب آ پ ایک کشتی بھیج کر دیکھیں اور مجھے بتائیں۔“جمال نے یہ لکھ کر پیغام بھیج دیا۔ مارٹن بار بار اسے ڈسٹرب کر رہا تھا، وہ اس کا جواب دینا چاہ رہا تھا لیکن جمال خاموشی سے اپنے پاپا کے جواب کا منتظر تھا۔ اس کی نگاہیں دائرے والے کمپیوٹر اسکرین پر تھیں۔ اچانک اسے لگا جیسے دائرے میں کوئی نیا دھبا بن گیا ہے۔ وہ دھبا دھیرے دھیرے جزیرے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ تھوڑی دیر بعد پیغام آ گیا۔
”کشتی نہیں جلی، وہ سیدھی جا رہی ہے۔“
”میرا خیال ہے حصار ختم ہو گیا ہے،لیکن بہت محتاط ہو کر، ساحل پر تین گن بردار گارڈ موجود ہیں، ممکن ہیں زیادہ بھی ہوں۔“ یہ پیغام بھیج کر اس نے مارٹن کی بات کا جواب دیا:
”دیکھو مارٹن! میں سمجھ گیا ہوں کہ میں اس جزیرے کے کنٹرول روم تک پہنچ گیا ہوں۔ میں یہاں پر تباہی لا سکتاہوں۔ اب تم لوگوں کو میری بات ماننا ہو گی۔“
”یہ تمہاری بھول ہے بچے… تم یہاں تباہی نہیں لا سکتے۔“ مارٹن نے کہا۔
”یہ دعوی تم تب کرونا کہ اگر تم یہاں رہتے ہو، یہاں رہنے والے لوگوں سے پوچھو، پھر مجھ سے بات کرنا۔“جمال نے تیزی سے کہا۔
”ہم تمہیں بہترین آ فر…“مارٹن نے کہنا چاہا تو جمال نے اس کی بات کاٹتے ہوئے تیزی سے پوچھا:
”چلو بتاؤ! تم کیا آ فر دو گے؟“
”اگر تم ہماری آفر سننے کو تیار ہو جاؤ تو کچھ دیر بعد تمہاری لندن بات کرائی جائے گی۔ ڈاکٹر ولیم تم سے تفصیل کے ساتھ آ فر کے بارے میں بتائیں گے۔“ مارٹن نے تیزی سے کہا۔
”لیکن میں یہ کیسے مان لوں، جب تک مجھے آزادی نہیں دی جاتی۔ دیکھو! اب مجھ سے بات مت کرنا، جب تک کوئی حل تمہارے پاس نہ ہو، میں محض ایک گھنٹے بعد یہاں سے سب اُڑا دوں گا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اب مجھے مرنا ہے۔“ جمال نے یوں کہا جیسے کوئی ماہر ترپ باز گفتگو کر رہا ہو، وہ خود حیران تھا کہ ایسے لفظ کہاں سے اس کے دماغ میں اتر رہے ہیں۔
”نہیں! تم ایسا کچھ نہیں کرو گے،ہم بات کرتے ہیں، کوئی راستہ ضرور نکل آئے گا۔“ مارٹن نے تیزی سے کہا۔
”مجھے کون روکے گا، تم لوگ اگر مجھے نقصان پہنچاؤ گے تو میں…“ اس نے کہنا چاہا تھا کہ مارٹن دبے ہو ئے لہجے میں بولا:
”تم پر سکون ہو جاؤ، میں ابھی بات کرتا ہوں۔“
اس کے ساتھ ہی اسکرین پر تاریکی چھا گئی۔

……٭……

وہ لوگ کہاں گئے؟

انسپکٹر منصور ایک چھوٹے بحری جہاز کے عرشے پر کھڑا تھا۔ اس نے آ نکھوں پر دور بین لگائی ہوئی تھی۔ وہ جزیرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کے ساتھ ایک پولیس آ فیسر کھڑا تھا، اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر انور موجود تھا۔ تینوں کے چہروں پر گہری سنجیدگی طاری تھی۔دن ڈھلنے والا تھا۔ اسے یہی پریشانی تھی کہ اگر رات ہو گئی تو جزیرے پر سے جمال کو لانا بہت مشکل ہو جائے گا۔ چھوٹا بحری جہاز تیزی سے جزیرے کی جانب بڑھ رہا تھا۔
”جمال کی طرف سے کوئی پیغام نہیں آ رہا۔“ ڈاکٹر انور نے پریشانی سے کہا۔
”وہ کسی نہ کسی مشکل میں تو ہے ورنہ وہ کچھ نہ کچھ ضرور کرتا۔“ انسپکٹر منصور نے دوربین نگاہوں سے ہٹاتے ہوئے کہا۔
”یہ بہت بڑی بات ہے کہ اس نے جزیرے کا حصار توڑ دیا۔“ ڈاکٹر انور نے کہا۔
”اسی لیے شہری ہوابازی کے آ فیسر سے کہا گیا ہے، وہ کچھ ہیلی کاپٹر بھیج رہے ہیں۔ جن میں نفری بھی ہو گی۔“ انسپکٹر نے حوصلہ افزا اندا زمیں کہا۔
”پتہ نہیں وہ کب تک پہنچیں گے؟“ ڈاکٹر نے یاس بھرے لہجے میں کہا اور آسمان کی طرف دیکھا جہاں ابھی تک کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
”میرا نہیں خیال کہ وہ وقت ضائع کریں گے۔“ انسپکٹر نے بھی آ سمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو ان میں خاموشی چھا گئی۔ تبھی انسپکٹر منصور نے پھر سے دور بین اپنے آ نکھوں پر لگائی اور جزیرے کی طرف دیکھنے لگا۔ اسے وہاں کوئی بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس نے اپنے نگاہوں سے دور بین ہٹاتے ہوئے اپنے قریب کھڑے آ فیسر سے پوچھا:
”ہمارے پاس نفری میں بیس سے پچیس لوگ ہیں اور میں سمجھتا ہوں سبھی اعلیٰ تربیت یافتہ ہیں، کیا انہیں آپریشن کے لیے پوری طرح بریف کر دیا گیا ہے؟“
”جی سر! وہ سب تیار ہیں۔“ آ فیسر نے جواب دیا۔
”میرا اندازہ ہے ہم زیادہ سے زیادہ دس منٹ میں جزیرے تک پہنچ جائیں گے۔“ انسپکٹر منصور نے کہا تو آ فیسر سلیوٹ مارتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
یہی وہ لمحہ تھا جب آ سمان پر تین ہیلی کاپٹر آ تے ہوئے دکھائی دیے۔ یہ خصوصی ساخت کے ہیلی کاپٹر تھے۔ انسپکٹر منصور نے اپنا وائرلیس سیٹ نکال لیا۔ چند لمحوں بعد اس سیٹ سے آ واز ابھری:
”سر! ہم نے آپ کا جہاز دیکھ لیا ہے اور اب ہم جزیرے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔“
”ٹھیک ہے وہاں کا جائزہ لے کر بتائیں۔“ انسپکٹر نے تیزی سے کہا۔
”چند منٹ بعد جزیرے کے اوپر ہوں گے۔“ سیٹ میں سے آ واز ابھری، پھر اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔
ڈاکٹر انور نے جمال کو پیغام بھیجا:
”ابھی تین ہیلی کاپٹر جزیرے کی جانب بڑھ رہے ہیں، اس میں ہمارے لوگ ہیں، اپنی نشاندہی کرو، تم کہاں ہو؟“
وہ بے چینی سے جواب کا انتظار کر نے لگا۔
کچھ ہی دیر میں ہیلی کاپٹر جزیرے پر جا پہنچے۔ تبھی سیٹ میں سے آواز ابھری:
”سر! یہاں پر ایک میدان میں ہیلی کاپٹر ہے۔ اس کے علاوہ کہیں کوئی شخص دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ یہاں کافی سارے ہٹ ہیں، مکان ہیں اوراردگرد جنگل ہے۔ کیا یہاں میدان میں لینڈ کر دیا جائے؟“
”نہیں! ابھی نہیں، وہاں پر لوگ موجود ہیں، اسلحہ بردار لوگ ہیں، بلاشبہ وہ چھپے ہوئے ہوں گے۔انہیں تلاش کر نے کی کوشش کرو۔“انسپکٹر نے تیزی سے کہا۔
”ٹھیک ہے، ابھی کچھ دیر فضا میں رہتے ہیں۔“ سیٹ سے آ واز ابھری۔
انہی لمحات میں جمال کا پیغام آ گیا:
”میں ایک لکڑی کے ہٹ میں ہوں، اس کی نشانی یہ ہے کہ وہاں ایک بڑا ٹاور لگا ہوا ہے، قریب ہی مٹی کے مکان ہیں۔“
یہ پیغام آ تے ہی، ڈاکٹر نے انسپکٹر کو بتایا اور اس نے وائر لیس پر کہہ دیا۔
ان کا بحری جہاز بھی ساحل سے تھوڑے فاصلے پر رہ گیا تھا۔ اس وقت ہیلی کاپٹر لینڈ کر گئے تھے، جب ان کا جہاز بھی رک گیا۔ انہیں اب چھوٹی کشتیوں سے ساحل تک جانا تھا۔ وہ کسی بھی غیر متوقع فائرنگ کے لیے پوری طرح تیار تھے۔
اچانک سامنے سے فائرنگ ہو نے لگی۔ فائرنگ کرنے والے دکھائی نہیں دے رہے تھے مگر ان کے بارے میں اندازہ ہوگیاتھا کہ وہ لوگ کہاں ہو سکتے ہیں؟ فائرنگ کا ایک ہی برسٹ مارا گیا تھا، اس کے بعد خاموشی چھا گئی تھی۔ انسپکٹر منصور نے وائرلیس سیٹ پر حکم دیا۔
”دشمن نے اپنے ہونے کا احساس دلا دیا ہے۔ دوبارہ فائر ہوتے ہی ابوائے کر دیا جائے، ہمیں یہیں سے راستہ لینا ہے، میں جوانوں کے ساتھ نکل رہا ہوں، کوئی شک…“
”کوئی شک نہیں سر۔“ سیٹ سے آ واز ابھری تو انسپکٹر دوربین سے ساحل کی طرف دیکھنے لگا۔ جوان کشتیوں میں ساحل کی جانب بڑھ رہے تھے۔ انسپکٹر نے ڈاکٹر انور کی طرف دیکھ کر کہا:
”سر! آپ ادھر جہاز ہی میں رہیں۔کسی بھی ناگہانی صورت میں ہمارے آفیسر کی بات مانیں۔ میں اپنے جوانوں کے ساتھ جارہا ہوں۔“
”ٹھیک ہے۔“ ڈاکٹر انور نے جذباتی لہجے میں کہا تو انسپکٹر تیزی سے نیچے جانے کے لیے چل پڑا۔
جوان کشتیوں میں بیٹھ رہے تھے۔ وہ بھی ایک کشتی میں سوار ہو گیا۔ جیسے ہی کشتیاں ساحل کی جانب بڑھیں۔سامنے سے یک لخت پھر سے فائرنگ ہو نے لگی۔ یہ فائرنگ انہیں بہت مہنگی پڑی۔ جہاز سے ایک گولہ اس جگہ مار دیا گیا جہاں سے فائرنگ ہو رہی تھی۔ جب تک جوان ساحل تک پہنچے اس وقت تک دو گولے مزید دائیں بائیں داغ دئیے گئے تھے۔
انسپکٹر اپنے جوانوں کے ساتھ ساحل پر پہنچ چکا تھا۔ وہ محتاط انداز میں آ گے بڑھتے چلے جارہے تھے۔ یہاں تک کہ جنگل کے قریب پہنچ گئے۔ یہی جنگل پار کرنا سب سے اہم تھا۔ وہ آ ہستہ آ ہستہ آ گے بڑھتے چلے جا رہے تھے۔انہیں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ وہ جنگل پار گئے۔ سامنے دور تک میدان دکھائی دے رہا تھا۔ سورج ڈوبنے میں بہت کم وقت رہ گیا تھا۔ انسپکٹر نے وہ ٹاور دیکھا، جو ان سے تھوڑے سے فاصلے پر تھا۔
انسپکٹر کے لیے سب سے زیادہ حیرت انگیز وہاں کا ویرانہ تھا۔ کوئی شخص بھی انہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ سب کہاں غائب ہو گئے تھے؟ آخر فائرنگ بھی تو کچھ انسانوں نے ہی کی ہوگی لیکن کوئی زخمی بھی انہیں دکھائی نہیں دیا تھا۔ ہیلی کاپٹر سے آ ئے ہوئے جوان ابھی تک ہیلی کاپٹر ہی میں موجود تھے۔ انسپکٹر انتہائی محتاط تھا۔ وہ ٹاور والے ہٹ کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے ارد گرد دیکھا اور سیڑھیاں چڑھ گیا۔ اس نے دروازہ کھولنا چاہا تو وہ اندر سے بند تھا۔ اس نے اونچی آ واز میں پکارا:
”جمال! کیا تم اندر ہو؟ میں ہوں انسپکٹر منصور…“
جیسے ہی اس نے کہا جمال نے دروازہ کھول دیا۔ انسپکٹر نے اندر داخل ہوتے ہی پوچھا:
”تم ٹھیک ہو، کوئی…؟“
”نہیں! میں بالکل ٹھیک ہوں۔“ جمال نے اعتماد سے کہا۔
”اچھا تو یہ ہے کنٹرول روم؟“ا س نے اندر لگی اسکرین اور کمپیوٹرز کو دیکھ کر کہا۔ وہ حیران تھا۔ وہ واقعی ہی کنٹرول روم تھا۔
”چلو آؤ چلیں…“ا نسپکٹر نے کہا تو جمال اس کے ساتھ باہر چل پڑا۔و ہ باہر نکل کر ایک ہیلی کاپٹر کی طرف بڑھے۔ جمال کے بیٹھتے ہی وہ ہیلی کاپٹر اڑان بھرنے کے لیے تیار ہوگیا۔ انہی لمحات میں انسپکٹر کا وائرلیس سیٹ منمنایا اور کرنل افتخار کی آ واز گونجی:
”انسپکٹر… جمال کو بھیج دو۔ لیکن تم نے ابھی وہیں رہنا ہے۔“
”ٹھیک ہے سر۔“ وہ جلدی سے بولا۔
”کافی ساری نفری وہاں پہنچ رہی ہے۔ ہم جزیرے کو چاروں طرف سے گھیر یں گے۔ یہاں موجود جو لوگ بھی ہیں، انہیں پکڑنا ہے۔“
”ٹھیک ہے سر!“ وہ تیزی سے بولا۔
”اوور اینڈ آ ل…“ کرنل نے کہا تو سیٹ خاموش ہو گیا۔
انسپکٹر نے نیا حکم سب کو سنایا توہیلی کاپٹر میں موجود جوانوں کو اتار لیا گیا۔ دو ہیلی کاپٹر وہیں کھڑے رہے جبکہ تیسرا جمال کو لے کر فضا میں تیرنے لگا۔ وہ تیزی سے شہرکی جانب بڑھنے لگا تھا۔

٭

گھر واپس آ تے ہی جمال نے ساری روداد اپنے دادا کو سنائی۔ قریب ہی اس کے ماما اور پاپا بھی بیٹھے ہوئے سن رہے تھے۔ وہ جب ساری بات کہہ چکا تو اس نے وہی نیلی روشنی والی بیم اپنی جیب سے نکال کر دادا کے سامنے رکھ دی۔ دادا نے اس بیم کو اٹھایاتبھی ماما نے کہا۔
”جمال بیٹا! تم فریش ہو جاؤ اور تھوڑا کھا پی لو۔“
”جی ماما۔“ اس نے اٹھتے ہوئے کہا تو دادا گہری خاموشی میں اسی بیم میں کھو گئے تھے۔
جمال جب اٹھا تو فریش ہو چکا تھا۔ اس نے اٹھ کر کھڑکی سے پردے ہٹائے تو باہر نیلگوں روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ وہ تھوڑی دیر تک وہیں کھڑا رہا اور باہر جانے کے لیے تیار ہو نے لگا۔ جتنی دیر تک وہ جزیرے پر رہا تھا، وہاں بہت سارے سوال اس کے ذہن میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ حیران تھا کہ جن چیزوں کے بارے میں وہ جانتا تک نہیں تھا، وہ اس کے دماغ میں کہاں سے آ جاتی تھیں۔ وہ یہی سوچتا ہوا، لان میں جا رہا تھا۔ وہ جیسے ہی لاؤنج میں آ یا، اسے اپنے دادا دکھائی دیے۔ ان کے سامنے چائے کی پیالی رکھی ہوئی تھی اور وہ کسی گہری سوچ میں کھوئے ہوئے تھے۔جمال کے آنے کا احساس پا کر وہ چونکے۔
”دادا جی! آ پ اس قدر کھوئے ہوئے ہیں، خیریت…؟“
”میں اس نیلی روشنی کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ وہ بے حد خطرنا ک ہے۔“ انہوں نے جمال کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا۔
”کس حد تک خطرناک ہے؟“اس نے تشویش سے پوچھا۔
”تم خود ہی اندازہ لگا لو، تم اس تجربے سے گزر چکے ہو۔“ دادا نے کہا۔
”ہاں! اس نے مجھے مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔“ جمال نے دھیرے سے کہا۔
”اگر وہ تمہیں مفلوج کر سکتی ہے تو عام آ دمی پر اس کا اثر کتنا شدید ہو گا۔“ دادا نے دکھ بھرے لہجے میں کہا تو جمال نے تیزی سے پوچھا۔
”کیا یہ بیم والی روشنی اور ٹیب سے نکلنے والی ریز ایک ہی چیز ہے؟“
”ہاں! ایک ہی ہیں لیکن تھوڑے سے فرق کے ساتھ…“ یہ کہہ کر انہوں نے جمال کی طرف دیکھا، پھر کہتے چلے گئے:
”ٹیب سے خارج ہو نے والی ریزبہت معمولی سی قوت رکھتی ہے، جیسے نہ ہونے کے برابر۔ اور اس بیم میں انتہائی طاقت ور روشنی تھی۔ دونو ں چونکہ ایک ہی طرح کی ریز ہیں اس لیے یہ انسان کے لیے انتہائی خطرنا ک ہیں۔“
”ہاں! خطرناک تو ہیں، جس سے جو چاہو، وہی کروا سکتے ہیں۔“ جمال نے کہا تو دادا نے چونک کر اس کی طرف دیکھاجیسے کوئی بات انہیں سمجھ میں آ گئی ہو۔ وہ چند لمحے اس پر غور کرتے رہے پھر بولے:
”ارے! تم نے تو ٹیب والا مسئلہ حل کر دیا۔ یہ ہو سکتا ہے، اس ٹیب سے انسانوں کو مفلوج کیا جاتا ہو، اور پھر ان سے اپنی مرضی کا کام لیتے ہوں۔ یا ایسا کوئی کام لینے کا ارادہ ہو۔“
”ایسا ممکن ہے۔کیونکہ میں اس تجربے سے گزر چکا ہوں۔“ جمال نے سوچتے ہوئے کہا تو دادا جی نے اطمینان سے کہا۔
”میں تو اپنی طور پر مطمئن ہو گیا ہوں۔“
”جی! دادا جی…“ جمال نے کہا پھر سوچتے ہوئے بولا:
”پتہ نہیں جزیرے پر اب تک کیا بنا ہو گا؟“
”اگرچہ میں ساری رات نہیں سویا، اسی نیلی روشنی کے بارے جاننے کی کوشش کرتا رہا، لیکن کسی سے جزیرے کی بابت رابطہ نہیں ہو سکا۔ خیر! تم تیار ہو جاؤ، ہم ناشتے کے بعد تربیتی مرکز جاتے ہیں۔“ دادا نے کہا تو جمال سر ہلاتے ہوئے اٹھ گیا۔
ناشتے کے بعد جب وہ گھر سے نکلے تو دن کافی چڑھ آ یا تھا۔ وہ اپنی سیا ہ کار میں تربیتی مرکز جا پہنچے۔ انہیں فوراً ہی آپریشن روم میں لے جایا گیا۔ وہاں ہر طرف اسکرینیں لگی ہوئی تھیں۔ بہت سارے لوگ اپنے اپنے ڈیسک پر بیٹھے کا م کر رہے تھے۔ایک شیشے کے کیبن میں کرنل افتخار بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے اٹھ کر دونوں سے ہاتھ ملایا اور پھر باتیں کرتے ہوئے انہیں لے کر ایک ایسی جگہ پر آ گئے جہاں چند اسکرینیں لگی ہوئی تھیں جن پر مختلف مناظر چل رہے تھے۔ وہ تربیتی مرکز کا کنٹرول روم تھا۔ وہ تینوں بیٹھ گئے توکرنل انہیں بتانے لگا۔
”پوری رات جزیرے کاکونا کونا چھان مارا گیا۔ یہ یقین ہو نے کے باوجود بھی کہ وہاں پر لوگ ہیں، کوئی بھی شخص وہاں سے نہیں مل سکا۔“
”حیرت انگیز…“ دادا نے سرسراتے ہوئے کہا۔
”کوئی ایسا خفیہ راستہ، جہاں سے وہ سب نکل گئے ہوں؟“ اچانک جمال نے سوال کیا۔

”سب سے پہلا سوال یہی ذہن میں آ تا ہے۔ اسی لیے اب وہاں پر اسی خفیہ راستے ہی کی تلاش جاری ہے۔“ کرنل نے بتایا۔
”لیکن انہیں ابھی تک کوئی ایسا راستہ نہیں ملا؟“ جمال تیز ی سے بولا تو دادا نے نہایت متانت سے کہا۔
”دیکھو کرنل! وہ شخص مارٹن، وہی سرخ چہرے والا، جس نے جمال کو اغوا کیا تھا، اس کا پکڑا جانا بہت ضرور ی ہے۔ ورنہ ہمارے ہاتھ سے ایک بہت بڑا سراغ نکل جائے گا…“
”یہ ٹھیک ہے کہ وہ ایک مجرم ہے، اس نے جرم کیا ہے اور اس کا پکڑا جانا بہت ضرور ہے لیکن سراغ، وہ کیسا…؟“ کرنل نے الجھتے ہوئے پوچھا۔
”شاید آپ نیلی روشنی کو بھول رہے ہیں۔ جس نیلی روشنی سے اس نے جمال کو اغوا کیا تھا، دراصل وہی ٹیب والی روشنی ہے۔“دادا نے کہا تو کرنل نے سوچتے ہوئے کہا۔
”مجھے تب ہی شک ہو گیا تھا کہ ان میں ضرور کوئی نہ کوئی مماثلت ہو گی۔ اب مجھے یقین ہو گیا ہے۔“
”اس لیے مارٹن کا پکڑا جا نا بہت ضرور ی ہے۔“دادا نے کہا تو کرنل نے اپنے سے تھوڑے فاصلے پر بیٹھے ایک نوجوان سے کہا۔
”جزیرے پر فوکس کرو۔“
اس نوجوان نے سر ہلایا اور اپنے سامنے کمپیوٹر پرمصروف ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی کرنل اپنے وائرلیس سیٹ سے رابطہ کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا، سامنے دیوار پر لگی ایک اسکرین پرجزیرے کا منظر دکھائی دینے لگا۔ وہاں ہر طرف ویرانی تھی۔ کوئی بھی شخص دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ چند لمحوں بعد منظر بدل گیا۔ وہاں بھی ایسا ہی ویرانہ تھا۔ اگلے منظر میں انسپکٹر منصور دکھائی دیا۔ وہ کافی مصروف دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے ارد گرد کئی جوان تھے۔ ایسے میں کرنل کا اس سے رابطہ ہو گیا۔ تبھی انہوں نے پوچھا:
”کیا صورت حال ہے انسپکٹر…“
”ہم نے پورا جزیرہ دیکھ لیا ہے۔ لیکن یہاں پر کسی قسم کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیا۔ یوں لگ رہا ہے جیسے یہاں پر کوئی آ دمی تھا ہی نہیں۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے سب پراسرار طور پر غائب ہو چکے ہیں۔“اس نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
”کیا تمہارے خیال میں یہاں مزید کوشش کرنی چاہیے؟“ کرنل نے پوچھا۔
”سر! جب تک اس سوال کا جواب نہیں مل جاتا کہ یہاں پر موجود لوگ کہاں گئے۔ تب تک میرا خیال ہے ہمیں اپنی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔“ انسپکٹر نے ایک عزم سے کہا۔
”کیا ایسی کوئی جگہ رہ گئی ہے جہاں تک تم لوگ نہیں پہنچ پائے ہو یا وہاں تک رسائی نہ ہو پا رہی ہو؟“ کرنل نے سوچتے ہوئے پوچھا۔
”میرا خیال ہے ہم اس جزیرے پر سب جگہ پھر چکے ہیں۔ ہیلی کاپٹر سے بھی دیکھا ہے سب جگہ کو لیکن کہیں کوئی آثار دکھائی نہیں دیے۔“ انسپکٹر نے بتایا۔
”تو پھر انہیں زمین ہی نگل گئی ہو گی۔ لازمی یہاں کوئی زمین دوز تہہ خانہ ہوگا جہاں ان کا ٹھکانہ ہو سکتا ہے، اسی تہہ خانے میں وہ موجود ہوں۔“ کرنل نے حتمی انداز میں کہا۔
”سر! میں بھی یہی سوچ رہا ہوں لیکن ایک بات ہے۔“ اس نے تیزی سے کہا۔
”وہ کیا…؟“ کرنل نے پوچھا۔
”سر! پورا جنگل چھان مارا ہے۔ وہاں کسی کا نشان تک نہیں ملا۔ جزیرے کے باہر سمندر میں ہمارے لوگ موجود ہیں۔ اگر وہ یہاں سے نکلے بھی ہوں گے تو اُن کی نگاہ میں ضرور آ نے چاہئیں۔ وہاں بھی کسی نے نہیں دیکھا۔ یہ حقیقت ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ لوگ کہاں گئے؟“ اس نے تجسس بھرے لہجے میں کہا۔
”ظاہر ہے جزیرے کے باہر ہر طرف ہمارے لوگ موجود ہیں، ان کے سامنے سے تو کوئی نہیں گیا۔ وہ کوئی ایک آ دمی تونہیں تھا۔ خیر تم دیکھو، شاید کہیں نہ کہیں تمہیں کوئی سراغ مل جائے۔“ کرنل نے کہا۔
”ٹھیک ہے سر! میں دیکھتا ہوں اور پوری کوشش کر تا ہوں۔“ انسپکٹر نے کہا تو کرنل نے رابطہ منقطع کر دیا۔
اسی لمحے کرنل نے جمال کی طرف دیکھ کر کہا:
”جمال بیٹا! آ پ میرے کیبن میں بیٹھو، میں اور ڈاکٹر صاحب کچھ دیر کے لیے لیب میں جائیں گے۔“
”ٹھیک ہے۔“ اس نے کہا اور اٹھ کر کرنل کے کیبن میں چلا گیا۔
جمال کو کیبن میں بیٹھے ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی۔ وہ اسی بارے میں سوچ رہا تھا کہ وہاں کے لوگ کدھر گئے۔ خاص طور پر مارٹن، وہ اسے پکڑنا چاہتا تھا۔
یہی سوچتے ہوئے وہ اپنے اندر بے چینی محسوس کر نے لگا۔ اُسے وہاں بیٹھے ہوئے کافی وقت ہوگیاتھا لیکن اس کی بے چینی کم نہیں ہو رہی تھی۔ اسے یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ بے چینی کیوں ہو رہی ہے۔ وہ اسی کشمکش میں تھا کہ اچانک اس کے سامنے کا منظر معدوم ہوتا چلا گیا اور اس کی جگہ ایک نیا منظر ظاہر ہونے لگا۔
چند لمحوں بعد وہ منظر واضح ہوا تو اس نے دیکھا۔ اس کے سامنے دور تک پھیلی ہوئی بھوری زمین تھی۔ وہ جیسے ہوا پر تیرتا ہوا اُڑا جا رہا تھا۔ اچانک سامنے مٹی کی چھوٹی چھوٹی ڈھیریاں بنی ہوئی دکھائی دیں۔ مٹی کی یہ ڈھیر یاں کسی پلیٹ میں پڑی جیلی کی مانند لرز رہی تھیں۔ وہ پاس کھڑا انہیں دیکھتا رہا۔ آہستہ آہستہ وہ ڈھیریاں یوں تیز تیز ہلنے لگیں جیسے تیز ہوا میں پتے لرزتے ہیں۔
کچھ دیرتک وہ مٹی کی ڈھیریاں یونہی لرزتے رہنے کے بعد تحلیل ہو نے لگیں۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہاں یوں دکھائی دینے لگا جیسے مٹی کی ڈھیریاں وہاں تھی ہی نہیں۔ ان کی جگہ بڑے بڑے سوراخ دکھائی دینے لگے تھے۔ اچانک اردگرد سے مختلف رنگوں کی رنگین روشنی والی لکیر یں ایک سوراخ میں داخل ہونے لگیں۔ جیسے سانپ بل میں داخل ہوتا ہے۔ وہ لکیریں بل میں داخل ہوتی چلی گئیں۔ وہ رنگین لکیریں زمین کے اوپر سے بھی دکھائی دے رہی تھیں۔ وہ سب لکیریں ایک ہی سمت میں تیزی سے جا رہی تھیں۔ یہاں تک کہ وہ ساری لکیریں بل میں داخل ہوگئیں۔ وہ لکیروں کے پیچھے بھاگنے لگا۔
کچھ دور جا کر وہ لکیریں ایک نیلے دائرے میں گرنے لگیں۔ وہاں ساری کی ساری لکیریں آپس میں یوں گڈ مڈ ہو نے لگیں جیسے کیچوے ہوتے ہیں،جس طرح وہ رنگین لکیریں نیلے دائرے میں گر رہی تھیں۔ اسی طرح ان کا رنگ بھی مٹیالا ہوتا چلا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ ساری رنگ برنگی لکیریں، ایک رنگ کی ہوتی چلی گئیں۔ جیسے ہی وہ اپنا رنگ بدلتیں، وہ ایک خاص سمت میں چل پڑتی تھیں۔ وہ لکیریں اس نیلے دائرے میں تحلیل ہونے لگیں۔ کچھ دیر بعد وہ سب لکیریں نیلے دائرے میں تحلیل ہو کر اپنا وجود ختم کر چکی تھیں۔ اچانک ایک سفید رنگ کی لکیر نیلے دائرے سے نکلی اور آسمان کی طرف اٹھ گئی۔ اچانک وہ منظر غائب ہو گیا۔ پھر سے تاریکی چھا گئی۔
جمال کے سامنے وہی کیبن تھا اور وہی کنٹرول روم۔ جمال سمجھ چکا تھا کہ اسے کوئی نہ کوئی اشارہ مل چکا ہے۔ وہ فوری طور پر کچھ بھی نہ سمجھ سکا تھوڑی دیر بعد جب اس کے حواس بحال ہوئے تو اس نے چند لمحے پہلے دیکھے گئے منظر کو سمجھنا چاہا۔ اس کے دماغ پر جزیرہ چھایا ہوا تھا۔ اس نے جیسے ہی غور کرنا شروع کیا، اسے سمجھ میں آنے لگا۔
جزیرے پر سے لوگ غائب کہاں ہو گئے ہیں؟ بلاشبہ زیرزمین کوئی ایسا راستہ تھا جہاں سے وہ نکلے اور سمندر میں چلے گئے، جہاں سے نکل کر وہ فرار ہوگئے۔
وہ وہیں بیٹھا سوچتا رہا پھر اٹھا اور اس نوجوان کے پاس چلا گیا جہاں تھوڑی دیر پہلے بیٹھا ہوا تھا۔ وہاں سے کرنل صاحب کارابطہ انسپکٹر سے ہوا تھااور اس نے کمپیوٹر ا سکرین پر جزیرے کو دیکھا تھا۔ جمال اس کے پاس جا بیٹھا تو اس نوجوان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے پوچھا:
”خیریت… آپ یہاں آ گئے؟“
”کیا آپ مجھے جزیرے کے مناظر دکھا سکتے ہیں؟“ جمال نے اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔ اس پر نوجوان نے چند لمحے سوچا اور پھر سنجیدگی سے بولا:
”بالکل دکھا سکتا ہوں۔“
”تو! پلیز مجھے دکھائیں۔“ جمال نے اسی سنجیدگی سے کہا تو وہ نوجوان کمپیوٹر پر مختلف کمانڈز دینے لگا۔ ذرا سی دیر میں جزیرے کا فضائی منظر اس کے سامنے آگیا۔ وہ کافی دیر تک دیکھتا رہا۔ اسے اپنی مطلوبہ جگہ دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ اچانک اسے خیال آیا کہ ٹاور کے قریب کچھ گھر بنے ہوئے تھے کہیں وہ جگہ تو نہیں ہے؟ یہ خیال آتے ہی اس نے اسے رد کردیا۔ کیونکہ ایسا ممکن نہیں تھا۔ اگر ان گھروں میں کوئی ایسا سسٹم ہوتا تو انسپکٹر منصور کے آنے سے پہلے وہاں قریب ہی ہیلی کاپٹر والے موجود تھے۔ وہ جزیرے پر موجود لوگوں کو دیکھ سکتے تھے۔ ان کے سامنے کوئی شخص نہیں آیا تھا۔ لہٰذا وہ کوئی اور جگہ ہی ہوسکتی تھی۔
وہ صبروتحمل سے جزیرہ کے فضائی مناظر دیکھ رہا تھا۔ اچانک اسے ایک ہٹ دکھائی دیا جس کے تھوڑے فاصلے پر مٹی کے چند ڈھیر تھے۔ جہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر جنگل شروع ہو جاتا تھا۔ وہ ڈھیریاں یوں دکھائی دے رہی تھیں جیسے وہ بوائیریاں بنائی گئی ہوں۔ تبھی جمال نے اسکرین پر اشارہ کرتے ہوئے کہا:
”پلیز! یہاں پر فوکس کریں۔“
اس کے کہنے پر نوجوان نے ان بوائیریوں پر فوکس کر دیا۔ وہ اسکرین پر قریب دکھائی دینے لگی تھیں۔ وہ تین بوائیریاں کمان کی صورت تھوڑی سی ٹیڑھی تھیں۔ ہر بوائیری کے بالکل درمیان میں ٹارگٹ لگا ہوا تھا جیسے یہاں نشانہ بازی کی مشق کی جاتی ہو۔ ان کے مدمقابل، کچھ فاصلے پر چھوٹے چھوٹے لکڑی کے ہٹ بنے ہوئے تھے۔ نشانہ باز وہاں کھڑا ہوکر سامنے بوائیری پر لگے ٹارگٹ پر نشانہ لگاتا تھا۔ جمال نے نوجوان سے پوچھا:
”کیا انسپکٹر صاحب سے بات ہو سکتی ہے؟“
”میں تو نہیں کرسکتا، کرنل صاحب کے وائرلیس سیٹ سے بات کر سکتے ہیں۔“ اس نوجوان نے تحمل سے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے، میں بات کرتا ہوں۔“ اس نے کہا اور فوری طور پر اٹھ گیا۔ تبھی نوجوان نے کہا۔
”میں آپ کی کرنل صاحب کے ساتھ بات کروا دیتا ہوں۔“
یہ کہہ کر اس نے اپنا سیل فون نکالا اور اس پر نمبر پش کرنے لگا۔ چند لمحوں بعد رابطہ ہوا تو اس نے اپنا سیل فون جمال کو تھما دیا۔ دوسری جانب سے ہیلو سن کر جمال نے تیزی سے کہا:
”سر! میں ہوں جمال، کیا آپ واپس اسی جگہ تشریف لا سکتے ہیں،جہاں ہم بیٹھے تھے؟“
”خیریت…؟“ انہوں نے پوچھا۔
”آپ آئیں تو سہی… میں آپ کو کچھ دکھانا چاہتا ہوں۔“ جمال نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
”ٹھیک ہے میں آ رہا ہوں۔“انہوں نے کہا اور کال کاٹ دی۔
کچھ دیر بعد وہ اکیلے ہی وہاں آگئے۔ جمال نے انہیں ا سکرین پر موجود منظر دکھاتے ہوئے کہا۔
”انسپکٹر صاحب سے بات کریں، کیا انہوں نے اس جگہ کو چیک کیاہے؟“
”اوکے… اوکے… میں دیکھتا ہوں۔“ کرنل نے بے ساختہ کہا اور انسپکٹر منصور سے رابطہ کرنے کے لیے وائرلیس سیٹ نکال لیا۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ جمال کیاکہنا چاہتا ہے۔
زیادہ وقت نہیں گزرا تھا۔ اسکرین پرانسپکٹرمنصور دکھائی دینے لگے۔ وہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ چلتا چلا جارہا تھا۔ اسے کال ملی تو وہ بات کرنے لگا۔ کرنل نے اسے پوری طرح لوکیشن سمجھاتے ہوئے پوچھا:
”کیا آپ وہاں پر گئے ہیں، چیک کیا اس جگہ کو؟“
”میں تو نہیں گیا لیکن کچھ جوان گئے تھے۔“ انسپکٹر نے جواب دیا۔
”آپ ایسا کریں، وہاں دوبارہ جائیں اور اس جگہ کو اچھی طرح سے دیکھیں۔“ کر نل نے تحکمانہ لہجے میں کہا اور وائرلیس سیٹ بند کر دیا۔

……٭……

اطلاع

انسپکٹر نے وائرلیس سیٹ بند کیا اور اپنے سامنے کھڑے جوانوں سے پوچھا:
”کیا تم میں سے کسی نے اس جزیرے پر ایسی جگہ دیکھی ہے،جہاں تین بوائیریاں ہوں اور وہاں پر نشانے بازی کی مشق ہوتی ہو؟“
”نہیں سر، ابھی تک وہاں نہیں گئے۔“ان میں سے ایک نے جواب دیا تو انسپکٹر منصور نے چند لمحے سوچا اور وائرلیس سیٹ آن کر کے یہی سوال دہرا دیا۔
یہ سوال جزیرے پر موجود ہر اس شخص تک پہنچ گیا تھا جس کے پاس وائرلیس سیٹ تھا۔ چند منٹ بعد اسے جواب موصول ہوگیا۔
”سر ہم ایک ایسی ہی بوائیری سے کچھ فاصلے پر ہیں۔“
”ٹھیک ہے لوکیشن سمجھاؤ۔“ انسپکٹر منصور نے کہا اور پھر دوسری طرف سے لوکیشن سمجھائی جانے لگی۔
تقریباً بیس منٹ بعد انسپکٹر منصور اس بوائیریوں والی جگہ کے پاس کھڑا تھا۔ اس کے اردگرد بہت سارے جوان کھڑے تھے۔ انہوں نے پہلے لکڑی کے ہٹ دیکھے کہ کہیں یہاں سے کوئی راستہ زیرزمین نہیں جا رہا؟ دیر تک تلاش بسیار کے بعد وہاں کچھ نہیں ملا۔ اس دوران چند جوان ان بوائیریوں کی جانب بڑھے۔ انہوں نے ٹارگٹ کے نشان کو دیکھا، اسے ہلایا تو اس کے پیچھے ایک دروازہ دکھائی دیا۔ باقی دو بوائیریوں کو دیکھا، وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔
انسپکٹر منصور تیزی سے آگے بڑھا اور اس دروازے کے پاس جا پہنچا۔اندر سے آنے والی مہک کچھ عجیب سی تھی جیسے کسی مچھلی یا ایسے کسی جانور کی سڑاند پھیلی ہوئی ہو۔ انہوں نے اپنے ناک پر رومال باندھے اور اندر چلے گئے۔وہاں اندر ایک سرنگ تھی جو دھیرے دھیرے اوپر کی جانب اٹھتی چلی جا رہی تھی۔ ہر نوجوان کے پاس ایک ٹارچ تھی جو انہوں نے روشن کر لی تھی۔ ٹارچ کی تیز روشنی میں وہ احتیاط سے آگے بڑھتے چلے جارہے تھے۔
انہوں نے کچھ فاصلہ طے کیا تھا کہ انہیں دائیں جانب ایک بڑا سا کمرہ بنا ہوا دکھائی دیا۔ وہاں کافی تعداد میں غوطہ خوری کے لباس پڑے ہوئے تھے۔ اس سے ذرا آگے لوہے کی دیوار بنی ہوئی تھی۔ جس کے ساتھ لوہے کی سیڑھیاں تھیں۔ انسپکٹر نے وہ سیڑھیاں چڑھ کر دیکھا تو دوسری جانب سمندر کی لہریں لوہے کی اس دیوار سے ٹکرا رہی تھیں۔ یہ دیکھتے ہی وہ سب کچھ سمجھ گیا۔
وہ راستہ بہت سوچ سمجھ کر بنایا گیا تھا۔ کسی بھی افتاد پر وہ یہاں سے داخل ہوکر فرار ہو سکتے تھے۔ رات کسی وقت سب لوگ اس سرنگ میں داخل ہوئے۔ یہاں پہنچ کر انہوں نے غوطہ خوری کا لباس پہنا اور سمندر میں چھلانگ لگا دی۔ یہاں سے وہ کھلے سمندر میں چلے گئے۔ اب چاہے پورے جزیرے کو ہر طرف سے گھیرا گیا ہو لیکن وہ سمندر میں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر اس وقت انسپکٹر کے ذہن میں خیال آیا۔
”یہاں سے نکل کروہ کھلے سمندر سے شہر تک کیسے گئے ہوں گے؟ وہ کھلے سمندر میں کب تک رہ سکتے ہیں؟“
ان سوالوں کا جواب اس کے پاس نہیں تھا۔

٭

کنٹرول روم میں چند لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ کرنل افتخار کے بالکل سامنے انسپکٹر منصور بیٹھا ہوا تھا۔ دائیں جانب ڈیجیٹل کرائم کے ماہرین اور بائیں جانب بحری امور کے ماہرین بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک طرف جمال اور اس کے دادا تھے اور ان کے ساتھ ہی فضائیہ سے ایک ماہر بیٹھا ہوا تھا۔
”پندرہ برس سے زیادہ وقت گزر گیا اور ہماری ناک کے نیچے ایک جزیرے پر خفیہ سرگرمیاں جاری رہیں، ایسا کیسے ممکن ہوگیا؟“ کرنل افتخار نے دبے دبے غصے میں کہا تو بحری امور کے ماہر نے بڑے پرسکون انداز میں کہا۔
”یہاں کبھی بھی کسی طرح کی کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دی گئی۔ اس کے علاوہ کچھ مقامات ایسے تھے جس کے باعث کبھی یہ جزیرہ نظرانداز رہا۔“
”اس جزیرے کے بارے میں جنوں، بھوتوں اور روحوں کی باتیں کرکے، ساری دنیا کی نگاہوں سے اوجھل ہو کر سرگر میاں چلتی رہیں، ایک پورا سسٹم لے کر وہ سب کر رہے تھے اور آپ کو پتہ نہیں چلا؟“ کرنل نے غصے میں پوچھا۔
”سر! آپ کو بھی معلوم ہے کہ توجہ اسی وقت جاتی ہے جب کوئی توجہ طلب معاملہ ہو جائے۔ اب یہ معاملہ سامنے آ یا ہے تو ہم سمندر میں سب دیکھیں گے، کہاں پر کیا معاملہ ہے۔“ اس نے جواب دیا۔
”خیر جو ہونا تھا، وہ ہو گیا۔ اسے بعد میں دیکھا جائے گا لیکن اس وقت سب سے اہم سوال ہمارے سامنے یہ ہیں کہ اتنی تعداد میں غوطہ خور کہاں گئے؟ ایک آکسیجن سلنڈر سمندر میں کتنا وقت نکال سکتا ہے؟“ کرنل نے پوچھا۔
”سر! ایک مفروضہ ہے میرے پاس اگر اس پر سوچ لیا جائے۔“بحری امور کے ماہر نے کہا۔
ہاں بولیں، کیا مفروضہ ہے؟“ انہوں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”جو آکسیجن سلنڈر ہمارے سامنے آیا ہے، وہ زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے میں خالی ہو جاتا ہے اگر سطح سمندر سے تھورا نیچے رہا جائے۔ اور اگر بہت گہرائی میں جائیں تو یہی سلنڈر پونا گھنٹہ نکالے گا۔ اگر بہت احتیاط سے برتا بھی جائے تو سوا گھنٹے میں ختم ہو جائے گا۔“
”بالکل… سمجھ گیا۔“ کرنل نے کہا۔
”اب رہا سوال کہ وہ کہاں جا سکتے ہیں؟ یہ لوگ کتنے نابوائیل یہاں سے… مطلب جزیرے سے آگے جا سکتے ہیں؟ یہ ان کی رفتار پر منحصر ہے۔ میرے خیال میں وہ یہاں سے نکلے ہی اس وجہ سے ہیں کہ سمندر میں کوئی چھوٹا جہاز یا کشتی انہیں لینے کے لیے کھڑی ہو گی۔ یہ سب یہاں سے نکل کر وہاں تک گئے ہیں اور اس پر سوار ہو کر فرار ہو گئے ہیں،یہ مفروضہ ہے، اس پر سوچا جا سکتا ہے۔“ بحری امور کے ماہر نے کہا۔
”بظاہر آپ کے مفروضہ کے علاوہ کوئی آپشن سمجھ میں نہیں آ رہا۔ لیکن… کیا اس کے علاوہ بھی کچھ سوچا جا سکتا ہے؟“ کرنل نے پوچھا۔
”میرے خیال میں ابھی ایسا کوئی آپشن ہمارے سامنے نہیں… ممکن ہے بعد میں ہمارے سامنے آ جائے تو کچھ کہا نہیں جا سکتا۔“ انسپکٹر منصور نے کہا۔
”یہ کیس الجھتا جا رہا ہے۔ جس میں کئی سارے سوال جنم لے رہے ہیں، کیا آپ اس کیس کو دیکھیں گے یا پھرآپ کی مدد کے لیے مزید کسی آ فیسر کو آپ کے ساتھ شامل کیا جائے۔“ کرنل نے انسپکٹر منصور کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
یہ ایک طرح سے دبے دبے لفظوں میں انسپکٹر کو سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ اگر آپ کو سمجھ میں نہیں آ رہا تو کسی دوسرے سے کہا جائے۔ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ گیا تھا اور یہ طنز ا س کی پیشہ وارنہ ذمہ داری کے لیے کوئی اچھا تاثر نہیں تھا۔ اس نے کرنل کی طرف دیکھا اور پورے اعتماد سے کہا:
”ابھی تو ضرورت نہیں ہے۔میں دیکھتا ہوں اس معاملے کو۔“
”ٹھیک ہے، آپ اس کی رپورٹ مجھے جلد از جلد دیں۔“ کرنل نے کہا تو انسپکٹر منصور اٹھا اور سلیوٹ کر کے باہر چل دیا۔
کرنل افتخار اپنے سامنے بیٹھے لوگوں کی طرف متوجہ ہوا تو جمال ہو لے سے اٹھا اور باہر کی جانب چل دیا۔اس نے دیکھا انسپکٹر منصور راہداری میں مڑ گیا تھا۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا، ان کے برابر پہنچ گیا۔ انسپکٹر نے جمال کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے پوچھا:
”اوہ! جمال تم…؟“
”انکل آپ کہاں جا رہے ہیں؟“ جمال نے دھیمے سے لہجے میں پوچھا۔
”خوشی ہو ئی، تم نے مجھے انکل کہا، شکریہ جمال۔“ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
”مجھے اچھا لگا تو کہہ دیا لیکن آپ نے بتایا نہیں کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟“ اس نے پھر دھیمے سے لہجے ہی میں پوچھا تو انسپکٹر نے رُک کر کہا۔
”میں اپنے کمرے تک جا رہا ہوں۔“
”کیا میں بھی آپ کے ساتھ جا سکتا ہوں؟“ اس نے پوچھا۔
”ہاں،ہاں کیوں نہیں آ ؤ۔“ انہوں نے خوشی سے کہا اور دونوں چل دیے۔
انسپکٹر منصور اپنے آ فس میں ایک کرسی پر جا بیٹھا تو جمال ان کے سامنے دھری کرسی پر جا کر بیٹھ گیا۔ انسپکٹر نے فوری طور پر کسی بھی فائل کو ہاتھ نہیں لگایا بلکہ کرسی سے بوائے لگا کر آ نکھیں بند کر لیں۔ اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ بہت تھکا ہوا ہے۔ظاہر ہے کل شام سے وہ بھاگ دوڑ کر رہا تھا۔ ساری رات ہی جزیرے پر گزر گئی تھی۔لیکن اس کا حاصل کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔جمال اس کی حالت دیکھتا ہوا خاموش رہا۔
”آپ اتنے پریشان کیوں ہیں؟“جمال نے پوچھا۔
”ظاہر ہے اب مجھے اس کیس پر بہت زیادہ توجہ دینا ہو گی۔لیکن مجھے یہ سمجھ…“انہوں نے کہا پھر کہتے کہتے رک گیا۔اتنے میں اردلی اس کے لیے چائے کا کپ اور جمال کے لیے جوس رکھ گیا تو وہ سیدھا ہو کر بیٹھتے ہوئے بولا:
”جمال! پیو۔“
جمال نے جوس کا سپ لیا تو انسپکٹر نے بھی کپ اٹھا لیا۔ وہ دونوں کچھ دیر تک مشروب پیتے رہے تبھی جمال نے پوچھا:
”انکل! آپ کیا سوچ رہے ہیں؟“
”کہا نا… یہی، اسی کیس کے بارے میں، نہ چاہتے ہوئے بھی یہ کیس الجھ گیا ہے، جس کی سمجھ نہیں آ رہی۔“ اس نے پریشانی میں کہا۔
”میں آپ سے ایک بات کہوں، جب بھی کوئی الجھن ہو تو اس کا سرا پکڑنا چاہیے۔ پھر الجھن دورہو نا شروع ہو جاتی ہے۔“ اس نے کہا ہی تھا کہ انسپکٹر کی آنکھیں پھیل گئیں۔ اس نے تجسس سے پوچھا:
”تم کہنا کیا چاہ رہے ہو؟“
”یہی کہ اس کیس کا سرا کیا ہے؟“
”تمہیں یہ خیال کیسے آ یا؟“ انہوں نے پھر تجسس سے پوچھا تو جمال نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”مجھے پتنگ اُڑانے کا بہت شوق ہے، جب اس کی ڈور اُلجھ جاتی ہے نا تو میں اس کا سرا تلاش کر لیتا ہوں، پھر ڈور آ رام سے سلجھ جاتی ہے۔“
”مطلب تم یہ کہنا…“ انسپکٹر نے پوچھنا چاہا تو وہ بولا:
”میرا اغوا یا نیلی روشنی کا معمہ؟“
”میرا خیال ہے یہ دونوں ہی ہیں، لیکن تم ٹھیک کہہ رہے ہو، ان میں کسی ایک پر توجہ دیں تو یہ کیس حل ہو جائے گا، تیسری بات تو یہ بھی درمیان میں آ گئی ہے کہ وہ لوگ سمندر سے کہاں غائب ہو گئے؟“انہوں نے سوچتے ہوئے کہا۔
”اچھا! ایک بات اور ہے… اگر وہ لوگ ہاتھ آجاتے ہیں تو کیا پھر یہ کیس حل ہو جائے گا؟“ جمال نے پوچھا۔
”میرا خیال ہے ہو جائے گا۔ اب دیکھو مارٹن ہی کا پتہ چل جائے تو اس سے پوچھا جا سکتا ہے کہ تم نے یہ نیلی روشنی والی بیم کہاں سے لی؟“
”یہی نیلی روشنی ٹیب میں ہے۔“ جمال تیز ی سے بولا۔
”تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں پہلے ان لوگوں کے بارے میں پتہ کر نا چاہیے جو سمندر میں لاپتہ ہیں۔“ انسپکٹر نے سوچتے ہوئے کہا۔
”ایسا بھی کیا جا سکتا ہے۔“ وہ دھیمے سے بولا۔
انسپکٹر چند لمحے سوچتا رہا پھر اس نے گھنٹی بجائی، ایک اردلی فوراً ہی سامنے آ یا تو انسپکٹر نے کہا:
”ملک صاحب کو بلاؤ۔“
”جی بہتر۔“ یہ کہتے ہی وہ تیزی سے پلٹ گیا۔
ملک ان کا ماتحت تھا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ آ گیا تو سامنے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے انسپکٹر نے پوچھا:
”تمہیں ساحل پر معلومات کے لیے کہا تھا؟“
”جی سر! کچھ دیر پہلے مجھے تھوڑا بہت پتہ چلا ہے لیکن اس کی تصدیق نہیں ہو سکی،جیسے ہی مجھے…“ اس نے کہنا چاہا تو انسپکٹر دھاڑتے ہوئے بولا:
”وہ جو بھی معلومات ہیں مجھے بتاؤ۔“
”جی سر! وہاں ایک چھوٹا جہاز ملا ہے۔ جس میں کوئی شخص تو نہیں ہے لیکن اس میں کافی سارے غوطہ خوری کے لباس موجود ہیں۔ اس کے مالک کو تلاش کیا جا رہا ہے، وہ ابھی تک مل نہیں سکا۔“
اس نے کہا ہی تھا کہ انسپکٹر تڑپ کر اٹھا اس نے انتہائی غصے میں کہا:
”آپ اسے اتنی سی اطلاع کہہ رہے ہو، ایک چھوٹا جہاز اور اس میں پڑے ہوئے…“

”سر! میری بات تو سن لیں، یہ تصدیق شدہ اطلاع نہیں ہے۔کسی نے کسی سے سنا ہے۔ اب کیا واقعی ایسا ہے،میں ا س کی تصدیق کے بعد آپ تک یہ بات پہنچانا چاہتا تھا سر۔“ ملک نے وضاحت بھرے انداز میں کہا۔
”یہ اتنی سی اطلاع بھی بہت بڑی ہے۔ آ ؤ میرے ساتھ…“ انسپکٹر نے کہا اور اپنی کرسی سے اٹھ گیا۔
”انکل! کیا میں بھی آپ کے ساتھ چلوں؟“
”ہاں! آ جاؤ۔“ یہ کہتا ہوا وہ باہر نکلا تو جمال بھی اس کے ساتھ ہو لیا۔ باہر پولیس جیپ کھڑی تھی،وہ اس میں بیٹھے اور ساحل کی جانب روانہ ہوگئے۔
آ دھی رات سے زیادہ کا وقت گزر چکاتھا۔ ان کے دائیں جانب سمندر تھا جو اس وقت خاصا پر سکون تھا۔ لہریں آ تیں اور پھر سکون سے پلٹ جاتی تھیں۔ ساحل پر ہی کافی سارے چھوٹے جہاز، فیری اور چھوٹی بڑی کشتیاں کھڑی تھیں۔ انسپکٹر بے چینی سے ٹہل رہا تھا، اس سے تھوڑے فاصلے پر کھڑا جمال سمندر کی جانب چہرہ کیے دور اندھیرے میں گھور رہا تھا۔ وہ تھوڑی دیر پہلے جہاز سے ہو کر آ چکے تھے۔ زیادہ تعداد میں غوطہ خوری کا لباس دیکھ کر وہ سمجھ گئے تھے کہ جو مفروضہ بحری امور کے ماہر نے دیا تھا، یہ سب کچھ ویسا ہی ہوا تھا۔ اس کے علاوہ وہاں سے کچھ نہیں ملا تھا۔ یہ چھوٹا جہاز جس شخص کی ملکیت میں تھا، وہ ابھی تک مل نہیں سکا تھا۔ وہ سب اسی کے انتظار میں کھڑے تھے۔
تھوڑی دیر بعد چند پولیس والے ایک موٹے سے چھوٹے قد والے ملاح کو لیے آ گئے۔ اس نے شلوار قمیص پہنی ہوئی تھی اور کاندھو ں پر چار خانے کا رومال تھا۔وہ کافی گھبرایا ہوا تھا۔ وہ سامنے آ تے ہی ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا:
”مجھ سے کیا خطا ہو گئی سر؟“
”یہ جہاز کون لے کر گیا تھا کھلے سمندر میں…؟“ انسپکٹر نے فوراً پوچھا۔
”جی! میں لے کر گیا تھا۔“ اس نے الجھتے ہوئے انداز میں کہا۔
”کس نے کہا تھا جہاز سمندر میں لے جانے کو؟“ اس نے پوچھا۔
”ایک شخص آ یا تھا جی، اس نے کہا کہ کافی سارے ماہی گیر سمندر میں پھنس گئے ہیں، انہیں لے کر واپس آ نا ہے،چونکہ ان کی جان کو خطرہ ہے، وہ پھنسے ہوئے ہیں، اس لیے فوراً نکلنا ہے۔“ اس نے تیزی سے کہا۔
”اورتم سوچے سمجھے بغیر نکل پڑے؟“ انسپکٹر نے پوچھا۔
”جناب! وہ مجبور تھا۔“ اس نے بے چارگی سے کہا۔
”تمہیں کیسے پتہ کہ وہ مجبور تھا؟“ اس نے طنزیہ پوچھا۔
”وہ ایسے جناب کہ میں نے بہت زیادہ پیسے مانگے تو اس نے فوراً دینے کا کہا، آ دھے پیسے تو اس نے فوراً ہی دے دیے۔ میں اسے لے کر نکل پڑا۔ اس کی مجبوری تھی تو اس نے ایسا کیا۔“ اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں بتایا۔
”پھر کیا ہوا؟“ انسپکٹر نے پوچھا۔
”ہم کھلے سمندر میں چلے گئے۔“ اس نے بتایا۔
”کب تک رہے وہاں پر؟“ انسپکٹر نے سوچتے ہوئے پوچھا۔
”میرے خیال میں آ دھے گھنٹے سے بھی کم…میں خود حیران تھا، وہ مجھے سیدھا ایسی جگہ پر لے گیا، جہا ں سمندر سے غوطہ خور نکلتے ہی آ رہے تھے۔ دس سے پندرہ منٹ میں انہوں نے اپنی ساری گنتی پوری کی اور مجھے واپس چلنے کا کہا۔“ اس نے حیرت بھرے لہجے میں کہا تو انسپکٹر نے پوچھا:
”تم انہیں ساحل تک لے آ ئے۔اس دوران انہوں نے کیا باتیں کیں۔“
”جی! مجھے نہیں پتہ، کوئی کسی دوسری ہی زبان میں بات کر رہے تھے۔ ویسے بھی میں کون سا اُن کے پاس تھا۔ میں تو اپنا جہاز چلا رہا تھا۔ میں نے انہیں ساحل پر اتارا تو وہ مجھے رقم دے کر چلے گئے۔“ اس نے بتایا تو انسپکٹر نے پوچھا:
”اور غوطہ خور والے لباس…؟“
”کہنے لگے، میں انہیں کہیں سمندر میں پھینک دوں۔“ اُس نے فوراً ہی کہا۔
”تم فی الحال، پولیس کی نگرانی میں رہوگے۔ تم سے ابھی بہت زیادہ باتیں ہو نی ہیں۔“انسپکٹر نے کہا تو وہ ملاح گھبرا گیا۔
”جناب! جو بات پوچھنی ہے، وہ یہیں پوچھ لیں، قسم سے میں سب سچ سچ بتا دوں گا، میں کوئی بات نہیں چھپاؤں گا۔“ اس نے روہانسا ہوتے ہوئے کہالیکن اس کی کسی نے نہیں سنی۔جو پولیس والے اسے لائے تھے۔ انہوں نے اسے پکڑا اور اپنی گاڑی میں بٹھا دیا۔ کچھ دیر بعد سب وہاں سے چل دیے۔
جمال بالکل خاموش تھا۔ اس کے اندر کو ئی ایسی ہلچل نہیں تھی، کوئی بے چینی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ جس سے اسے کوئی اشارہ ہی مل جاتا۔ حالانکہ وہ بھی انتہائی پریشان تھا کہ وہ لوگ شہر میں آ گئے ہیں لیکن اب ملیں گے کیسے؟ اسے صرف یہی احساس ہو رہا تھا کہ کچھ پریشان خیال تیز ہوا کی مانند اس کے دماغ میں چل رہے ہیں۔ وہ کوئی واضح صورت اختیار نہیں کر پا رہے تھے۔ جس سے وہ کوئی نتیجہ اخذ کرسکتا ہو۔

……٭……

ڈکیتی

جمال ناشتہ کر چکا تو دادا جی کی تلاش میں نکل پڑا۔ پہلے اس نے انہیں لیب میں دیکھا، وہ وہاں پر نہیں تھے۔اس کے بعد وہ سٹڈی روم میں گیا، وہ وہاں بھی نہیں تھے۔ تبھی ملازمہ نے بتایا کہ وہ گھر کے پچھلے لان میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے ہیں۔وہ وہاں پر جا پہنچا۔ اسے دیکھ کر دادا جی مسکرا دئیے اور پھراخبار ایک طرف رکھتے ہوئے پوچھا:
”آئیے! جناب جاسوس صاحب، رات ساحل پر کیا معرکہ مارا؟“
”آپ کو پتہ ہی ہے دادا جی! میں کچھ اور بات بتانا چاہ رہا ہوں۔“ جمال نے سنجیدگی سے کہا تو دادا جی نے اس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا:
”ہاں بولو بیٹا، کیا بات ہے؟“
”اب میں آپ کو کس طرح اپنی کہوں۔“ اس نے تذتذب سے کہا۔
”یار، تم جیسے بھی کہو، بس کہہ دو۔“ دادا جی نے دلچسپی سے کہا۔
”اچھا سنیں،مجھے مستقبل کے بارے بہت الجھی ہوئی سی باتیں پہلے سے معلوم ہو جاتی ہیں، یہ میں نے آپ کو بتایا بھی تھا لیکن…“
”لیکن کیا بیٹا…؟“ دادا جی نے تجسس سے پوچھا۔
”میں دو دن سے یہ محسوس کر رہا ہوں کہ جیسے لمحاتی طور پر مجھے پتہ ہی نہیں چلتا کہ میں ہوں، جیسے میں نہیں ہوتا، میرے جگہ کوئی دوسرا بول رہا ہوتا ہے۔ وہ بات کو سمجھ رہا ہوتا ہے اور اس کا جواب بھی دے رہا ہوتا ہے۔ مطلب، جب بات میرے منہ سے نکل جاتی ہے تو مجھے احساس ہو تا ہے۔“ اس نے مشکل سے اپنی بات سمجھاتے ہوئے کہا تو دادا جی چند لمحے سوچتے رہے پھر پرسکون لہجے میں بولے۔
”یہ کوئی منفی صلاحیت نہیں ہے۔بلکہ تمہارے اندر کسی بھی معاملے کا تجزیہ کرنے اور اس پر فوری فیصلہ کرنے کی قوت پیدا ہو گئی ہے۔یہ تمہاری ہی سوچ ہوتی ہے۔ کوئی دوسرا تمہارے اندر نہیں بول رہا ہوتا۔“
”اوکے، تو اس کا مطلب ہے میں عام لوگوں سے زیادہ صلاحیت رکھتا ہوں۔“ جمال نے گہری سنجیدگی سے کہا۔
”بالکل، تم اپنے ارد گرد کی چیزوں کو سمجھنے کی بھر پورکوشش کیا کرو۔“ دادا جی نے خوشی سے کہا تو وہ سر ہلاتے ہوئے بولا:
”جی! میں ایسا ہی کروں گا۔“
”تم نے پتہ کیا مارٹن وغیرہ کے بارے میں؟“ دادا جی نے پوچھا۔
”نہیں! میرا ابھی تک انکل منصور سے رابطہ نہیں ہوا۔“ اس نے جواب دیا۔
”تم انہیں فون کرو، ان سے پوچھو، اگر ان کے پاس جانا پڑے تو چلے جاؤ۔“ دادا جی نے خوش دلی سے اجازت دیتے ہوئے کہا۔
”جی ٹھیک ہے۔ میں چلا جاؤں گا۔“ اس نے سعادت مندی سے کہا۔
”ہاں! ایک چیز، یہ لو…“ دادا جی نے اپنے جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا۔ وہ تجسس سے انتظارکرنے لگا کہ وہ جیب سے کیا نکالتے ہیں۔ چند لمحوں بعد انہوں نے ایک ریسٹ واچ نکالی اور اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولے:
”بیٹا! یہ اپنی کلائی پر باندھ لو۔“
”دادا جی!کیاآپ کو پتہ نہیں میں گھڑی نہیں باندھتا۔“ جمال نے گھڑی پکڑتے ہوئے کہاتودادا نے انتہائی سنجیدگی سے کہا:
”یہ صرف گھڑی نہیں ایک الارم بھی ہے اور انڈیکیٹر بھی۔تم اسے دبا دوگے تو مجھ سمیت انسپکٹر منصور اور تربیتی مرکز میں الارم بج جائے گا کہ تم کسی مصیبت میں ہو۔انڈیکیٹر سے یہ پتہ چلتا رہے گا کہ تم کہاں ہو۔“
”پھر تو یہ بڑے کام کی چیز ہے۔“ اس نے خوشی سے کہا۔
”ہاں! بہت کام کی… ہمیں تمہارے بارے میں اطمینان رہے گا۔“ دادا جی نے خوشی سے کہا۔
”آپ کو کیسے پتہ چلے گا؟“ جمال نے پوچھا۔
”یہ سب جگہ سیل فون کے ساتھ منسلک ہے، جس وقت تم اسے درمیان میں ہلکا سا دبا دو گے تو ہر جگہ فون بج اٹھے گا۔“ دادا نے بتایا۔
”اوکے دادا جی…“ اس نے خوشی سے کہا اور اندر کی جانب بڑھ گیا۔ اس نے لاؤنج میں پڑے فون پر انسپکٹر منصور کے نمبر ملائے۔ رابطہ ہوتے ہی پوچھا:
”ہیلو انکل! کیسے ہیں آ پ؟“
”میں بالکل ٹھیک ہوں۔“ اس نے جواب دیا۔
”کچھ پتہ چلا مارٹن وغیرہ کا؟“ اس نے پوچھا۔
”ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اتنا پتہ ہے کہ ائیر پورٹ سے مارٹن نہیں گیا، اندازہ ہے کہ وہ ابھی تک شہر میں ہیں۔“انہوں کافی حد تک تفصیل سے بتاتے ہوئے کہا۔
”انکل! ایک بات کہوں؟“ اس نے دبے دبے جوش سے کہا۔
”ہاں بولو بیٹا۔“ وہ تیزی سے بولے۔
”کیا آپ نے اب تک یہ پتہ کروایا ہے کہ وہ ٹیب جن لوگوں تک پہنچے وہ کہاں سے آ ئے، کس کمپنی سے آ ئے، وہ کون لوگ ہیں؟“اس نے ٹھہرے ہوئے انداز میں پوچھا۔
”سچ بات تو یہ ہے کہ ٹیب والا معاملہ ہی پیچھے رہ گیا، وہ میں نے ڈیجیٹل کرائم والوں کے ذمے لگایا تھا۔ انہوں نے ابھی مجھے رپورٹ نہیں دی۔“ وہ دبے ہوئے لہجے میں بولے۔
”انکل آپ ان سے رپورٹ لیں، میں اتنی دیر میں آ پ کے پاس آ تا ہوں۔“ اس نے کہا تو انسپکٹر منصور نے کہا:
”ٹھیک ہے آ جاؤ۔“
اس نے فون رکھا اورجانے کے لیے تیار ہو نے لگا۔
وہ تربیتی مرکز پہنچا تو انسپکٹر کے پاس فیصل ممتاز بیٹھے ہوئے تھے۔
”سر! بہت خوشی ہو ئی آپ سے مل کر۔“جمال نے ان سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
”مجھے بھی بہت خوش ہوئی، تمہارے بارے میں سنا ہے، مجھے بہت اچھا لگا، میں دراصل کل چھٹی پر تھا، اس لیے تم سے ملاقات نہیں ہو سکی۔“ انہوں نے گرمجوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔ جمال کرسی پر بیٹھ گیا تو انسپکٹر منصور نے کہا:
”ہاں فیصل صاحب، آپ بتا رہے تھے۔“
”میں یہ کہہ رہا تھا کہ یہ جو ٹیب بانٹنے والی سائیٹ ہے نا، یہ ہمارے ملک کی نہیں ہے، بلکہ اسے کسی دوسرے ملک سے آ پریٹ کیا جا رہا ہے۔ ہم نے اس سائیٹ پر کام شروع کر دیا ہوا ہے۔ دیکھیں اس میں کیا نکلتا ہے۔یہ ہمارے کام کی بھی ہے یا نہیں۔ اور ہاں… یہ ٹیب کسی باہر کے ملک سے آ تے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ خطرناک ریزوالے ٹیب باہر سے آ تے ہیں یا…“فیصل ممتاز نے بتاتے ہوئے بات ادھوری چھوڑ دی۔جس کامطلب یہی تھا کہ ابھی وہ مفروضے پر کام کر رہے تھے اور ابھی تک ان کاکام جاری تھا اسی لیے انسپکٹر منصور نے مایوسانہ انداز میں کہا:
”یہ ساری باتیں تو ہم معلوم کر چکے ہیں، آپ نے کوئی نئی بات نہیں بتائی۔“
”نہیں! ایک بات ابھی آپ کو معلوم نہیں، وہ یہ کہ سائیٹ صرف ٹیب ہی نہیں بانٹتی بلکہ اس سے بھی آ گے کچھ پروگرام رکھتی ہے۔ ان میں یہ کچھ لوگوں کو ایک جگہ اکھٹے کرتے ہیں، اس کی صورت سیمینار کی سی ہو تی ہے۔ وہاں کیا ہوتا ہے یہ پتہ نہیں لیکن یہ دو بار ہو چکا ہے۔ جہاں اور جن لوگوں نے لوگوں کو اکھٹا کیا ہے۔ اس کی تفصیلات میں نے ایک پیپر میں لکھ دی ہیں۔“ اس نے سامنے پڑی فائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔
”ظاہر ہے اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی سوچ تو ہو گی، اس بارے کچھ اندازہ لگایا آ پ نے؟“ انسپکٹر منصور نے تجسس سے پوچھا۔

”فوری طور پر یہ سمجھ میں آ جائے تو انہیں اسے خفیہ رکھنے کا کیا فائدہ؟ یہ تو طے ہے کہ یونہی ٹیب نہیں بانٹے جا رہے اوروہ بھی اتنے خطر ناک ٹیب… دال میں کچھ نہ کچھ تو کالا ہے نا۔“
”تو فیصل صاحب! آپ کی مہارت کس دن کام آ ئے گی؟“ انسپکٹر منصور نے اکتاہٹ سے کہا۔
”اندازہ تھا جو بتا دیا، اب نیت تو میں ٹٹول نہیں سکتا۔“ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے میں آپ کی رپورٹ پر کام کرتا ہوں۔“ انسپکٹر منصور نے کہا تو فیصل ممتاز اٹھتے ہوئے بولے۔
”میں اس سائیٹ کو دیکھ رہا ہوں، میرے ساتھ کچھ نوجوان بھی ہیں، جو اس کے پیچھے لوگوں کو تلاش کر لیں گے۔کچھ باتیں ریکارڈپر نہیں لائی جاتیں۔“
”اوہ! تو یہ بات ہے؟“ انہوں نے کہا۔
”بالکل! میں کوشش میں ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے انہوں نے دونوں سے ہاتھ ملایا اور چل دیے۔ تبھی انسپکٹر منصور بڑبڑاتے ہوئے بولا:
”کوئی رستہ کیوں نہیں نکل رہا؟“
”ایک راستہ ہے۔“ جمال نے کہا۔
”وہ کیا…؟“ اس نے تیزی سے پوچھا۔
”وہ لوگ ٹیب والے، جنہوں نے پروگرام کروایا اور لوگوں کو اکھٹا کیا۔ کم از کم ان لوگوں کا بھی ڈیٹا لینا ہو گا، جو ان کے پروگرام میں شرکت کر چکے ہیں۔“
”ہاں! یہ ٹھیک رہے گا۔ اس کے لیے ایک ٹیم فور ی تیارکر کے بھیجتا ہوں۔“ اس نے کہا پھر وہ اس میں مصروف ہو گیا۔ جمال کے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا۔ وہ انسپکٹر کے پاس سے اٹھ کر وہاں آ گیا جہاں نشانہ بازی کی مشق کی جاتی تھی۔ ابھی اسے وہاں گئے ہوئے تھوڑا سا ہی وقت ہوا تھا کہ انسپکٹر منصور کا پیغام ملا۔ وہ نشانہ بازی چھوڑ کر اس کے آ فس میں چلا گیا۔ انسپکٹر باہر جانے کو تیار ہو رہا تھا۔
”جمال! میں نکل رہا ہوں، اگر تم گھر جانا چاہو تو جا سکتے ہو۔“
”آپ کہاں جا رہے ہیں؟“ اس نے پوچھا۔
”ابھی ابھی اطلا ع ملی ہے کہ ایک اسٹور پر کچھ لوگوں نے لوٹ مار کی ہے، وہاں سے رقم کے ساتھ چیزیں بھی اٹھائی ہیں اورجاتے ہوئے ایک جیپ بھی لے گئے ہیں، کوئی ڈکیتی کی واردات ہو سکتی ہے۔“
”میں بھی چلتا ہوں آ پ کے ساتھ…“اس نے کہا تو وہ آ فس سے نکلتے ہوا بولا:
”تم کیا کرو گے وہاں جا کر؟“
”ایسے ہی، دیکھوں تو سہی آ پ کیسے کام کرتے ہیں۔“ اس نے کہا:
”میرا وہاں کام نہیں ہے۔ وہاں پولیس کا کام ہوگا۔ میں نے تو بس ایک چکر لگانا ہے۔ ممکن ہے کوئی کام کی بات معلوم ہو جائے۔ ویسے بھی میرا باہر جانے کو من کر رہا ہے۔“ا نسپکٹر نے شاید بہانہ بناتے ہوئے کہا۔
”چلیں! میں بھی باہر ہو تا ہوا گھر چلا جاؤں گا۔“ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
”اچھا! ٹھیک ہے۔ چلو! اپنی گاڑی میں آجاؤ، پھر وہیں سے گھر چلے جانا۔“
انسپکٹر نے کسی متوقع بحث سے بچتے ہوئے کہا اور آ گے بڑھ گیا۔ کچھ دیر بعد وہ اسٹور کی طرف تیزی سے جا رہے تھے۔
شہر سے باہر جانے والے شاہراہ کے کنارے وہ ایک بڑا اسٹور تھا۔ جہاں سے ضروریات زندگی کی تمام تر اشیاء مل جاتی تھیں۔پولیس نفری کے ساتھ وہ بھی اسٹور کے اندر داخل ہوا تو وہاں اسٹور میں کافی افراتفری تھی۔ بہت سارے لوگ جمع تھے۔ پولیس نے جاتے ہی ان لوگوں کو باہر نکالا۔ پھر کہیں جا کر اسٹور کے مالک سے بات ہو سکی تھی۔ متعلقہ تھانے کے انچارج کو سٹور کا مالک بتانے لگا:
”سر! کچھ لوگ تھے جو یہاں اندر داخل ہوئے۔ ا ن کے پاس اسلحہ تھا، ان میں کچھ لوگوں نے کیش کاؤنٹر پر دھاوا بول دیا۔ کچھ لوگ یہاں سے چیزیں اٹھانے لگے۔ جب یہاں کے عملے نے انہیں روکا تو وہ فائرنگ کر نے لگے۔ وہ جب سامان لے کر یہاں سے نکلے تو انہیں بلاشبہ کسی گاڑی کی ضرورت محسوس ہوئی ہو گی یا ان کا پہلے ہی پلان تھا۔ انہوں نے باہر سے ایک جیپ لی، اس میں سامان رکھا، جیپ کا مالک یہیں اندر تھا، اس سے چابی چھینی اور فرار ہو گئے۔“ مالک کہہ چکا تو قریب کھڑے تھانہ انچارج نے پوچھا:
”جیپ کے مالک کون ہیں؟“
”میں ہوں جی۔“ ایک شخص آ گے بڑھا تو ذرا سے فاصلے پر کھڑے جمال نے انسپکٹر منصور سے کہا:
”انکل منصور! کیا آپ نے غور کیا۔ ڈکیتی کرنے والے لوگوں نے کھانے پینے کی چیزیں ہی لوٹی ہیں۔“
جمال کی آ واز اسٹور کے ملک نے سن لی، اس لیے وہ متوجہ ہوتے ہوئے تیزی سے بولا:
”ہاں جی! زیادہ تر ایسی ہی چیزیں تھیں۔“
”کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ ان کے حلیے کیا تھے اور وہ کیسا بول رہے تھے، مطلب، وہ کس زبان میں بات کر ہے تھے؟“ جمال نے پھر سوال کیا۔
”زبان تو ان کی سمجھ میں نہیں آ ئی اور ان کے حلیے سی سی ٹی وی کیمرے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔“ اسٹور کے مالک نے کہا تو متعلقہ تھانے کے انچارج نے انسپکٹر منصور کو پہچان لیا۔ اس نے آ گے بڑھ کر مصافحہ کیا۔ اس نے ساتھ آ نے کا اشارہ کیا تو وہ تینوں اسٹور کے مالک کے ساتھ اس طرف چل پڑے جہاں پر فوٹیج دیکھی جا سکتی تھی۔
ان کے سامنے ویسا ہی منظر چل پڑا جیسا اسٹور کے مالک نے بتایا تھا۔ جمال انہیں غور سے دیکھ رہا تھا۔ مختلف کیمروں کی فوٹیج دیکھتے ہوئے اچانک جمال نے کہا:
”ٹھہریں، یہاں روک دیں۔“
سب نے حیرت سے اس لڑکے کو دیکھا، ان سب کے لیے تو وہ ایک لڑکا ہی تھا۔اس پر انسپکٹر نے انہیں وہیں روکنے کو کہا۔
وہ اسٹور کے باہر کا منظر تھا۔سب کی نگاہ اسکرین پر ان لوگوں کو دیکھنے میں تھی جو سامان اس گاڑی میں لوڈ کر رہے تھے۔ تبھی جمال نے ایک طرف کھڑے شخص کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا:
”انکل! یہ ہے مارٹن۔“
”کیا، تم نے پہچان لیا؟“ انسپکٹر منصور نے حیرت سے اس کی طرف یوں دیکھا، جیسے اسے یقین نہ آ رہا ہو۔ پھر اگلے چند لمحوں میں وہ ہوش میں آ گیا۔مارٹن کے بارے میں جمال کو نہیں تو اور کسے پتہ ہونا تھا۔ وہی تو اسے اغوا کر کے لے گیا تھا۔تبھی اپنی بات کو سنبھالتا ہوا بولا:
”تم نے اسے کیسے پہچانا؟“
”اس کا سرخ چہرہ… یہ دیکھیں یہ مقامی بھی نہیں ہے۔میں اس کے ساتھ کئی گھنٹے رہا ہوں۔“ جمال نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
انسپکٹر منصور چند لمحے اسے دیکھتا رہا، اسے فوکس کر کے دیکھا۔پھر اپنے ماتحت سے وہ ویڈیو لینے کا حکم دے کر دوبارہ اسٹورکے ہال میں آ گیا۔ اس کے ماتحت وہاں کی تصویریں بنا رہے تھے۔ جمال کھڑا اِدھر اُدھر دیکھتا رہا۔ پھر اُس نے انسپکٹر منصور کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا:
”انکل! آپ نے ایک چیز محسوس کی؟“
”وہ کیا…؟“ اس نے تجسس سے پوچھا۔
”اس اسٹور سے جو چیزیں لوٹی گئی ہیں، وہ تقریباً کھانے پینے کی ہیں۔“ اس نے سوچتے ہوئے انداز میں کہا تو انسپکٹر کی آ نکھیں چمک گئیں اس نے تیزی سے پوچھا:
”تم کہنا کیا چاہ رہے ہو؟“
”میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ جنہوں نے اسٹور لوٹا ہے، انہیں کھانے پینے ہی کی چیزیں درکار تھیں۔اس سے ایک بات سمجھ میں آ تی ہے کہ وہ لوگ کسی ایسی جگہ پر ہیں جہاں انہیں کھانے پینے کی چیزیں نہیں مل رہی ہیں۔ اب بھوک تو برداشت نہیں ہوتی۔ان کے پاس مقامی کرنسی بھی نہیں ہے کہ وہ شے خرید سکیں۔“جمال نے پر اعتماد لہجے میں کہا۔
”تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔“ انسپکٹر نے تیز لہجے میں کہا۔
”اس سے آ پ کیا اندازہ لگا سکتے ہیں؟“ جمال نے پوچھا۔
”میرے خیال میں وہ اس وقت شہر میں نہیں بلکہ شہر کے ارد گرد کہیں چھپے ہوئے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ وہ اب تک چھپے ہوئے کیوں ہیں؟ اتنا وقت مل جانے کے باوجود وہ یہاں سے فرار کیوں نہیں ہوئے؟“
”اور سر! ایک بات مزید…“ قریب کھڑے ایک ماتحت سرفراز نے کہا:
”وہ کیا…؟“ انسپکٹر نے پوچھا۔
”مان لیا کہ انہوں نے یہ ڈکیتی بھوک سے تنگ آ کر کی ہو، لیکن کیا انہیں یہ نہیں معلوم کہ پولیس ان کی طرف متوجہ ہوجائے گی؟ کیا وہ ہمیں اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں؟اور اگر ایسا ہے تو کیوں؟“ سرفراز نے سنجیدگی سے کہا۔
”اب یہ ساری باتیں تو اس وقت معلوم ہو جائیں گی جب ان میں سے کوئی ہاتھ لگیں گے، ابھی فوری طور پر یہ دیکھا جائے کہ وہ کہاں چھپ سکتے ہیں یا کہاں پر ہیں؟“انسپکٹر نے الجھتے ہوئے کہا۔
”سر! میں اس پورے علاقے کے سی سی ٹی وی کیمرے دیکھتا ہوں۔ ان سے کوئی نہ کوئی سراغ مل جائے گا۔“ متعلقہ تھانے کے انچارج نے کہا:
”اس کے ساتھ ساتھ شہر میں موجود اپنے مخبروں کو پھیلا دو، کہیں سے بھی ایسے لوگوں کی بھنک ملے تو فوراً اطلاع دیں۔“ انسپکٹر نے کہا:
”میں ابھی یہ اطلاع ہر جگہ پہنچا دیتا ہوں۔“ متعلقہ تھانے کے انچارج نے کہا تو انسپکٹر نے اسٹور کے مالک سے کہا:
”ہم کوشش کرتے ہیں، جتنی جلدی ہو سکا ان ڈکیتوں کو تلا ش کرتے ہیں۔ باقی آپ پولیس کی کاروائی میں مدد دیں۔“
انسپکٹر نے کہا اور جمال کو اشارہ کر کے باہر کی طرف چل دیا۔باہر آ کر دونوں جیپ میں بیٹھے اور چل دئیے۔وہ دونوں اپنے اپنے طور پر سوچ رہے تھے۔

……٭……

ڈیل

شہر بھر کے سیکورٹی اداروں میں ہلچل مچ چکی تھی۔ انہیں یہی اطلاع تھی کہ کوئی خطر ناک دہشت گرد شہر میں ٹھکانہ بنا چکے ہیں۔ وہ کسی بھی وقت کوئی نہ کوئی دہشت گردی کی کاروائی کر سکتے ہیں۔ اس لیے انہیں ہر حال میں فوری طور پر پکڑنا ہے۔ انسپکٹر منصور اپنے آ فس میں موجود تھا۔ وہ کسی طرف سے ایسی کسی بھی اطلاع کا انتظار کر رہا تھا جہاں جا کر وہ خود کارروائی کر سکے۔ وہ بالکل تیار بیٹھا ہوا تھا لیکن سہ پہر ہو نے تک کہیں سے کوئی خبر نہیں ملی۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ غائب ہو گئے ہیں۔ اس نے خود کئی جگہ رابطہ کیا، مگر اسے مایوسی ہی ہوئی۔
”سر! مجھے لگتا ہے وہ شہر میں کہیں نہیں ہیں۔“ ماتحت سرفراز نے اعتماد سے کہا۔
”تو پھر وہ کہاں جا سکتے ہیں؟“ انسپکٹر نے الجھتے ہوئے پوچھا۔
”سر! لازمی طور پر وہ شہر سے باہر کہیں چھپے ہوئے ہیں۔“ سرفراز نے تیزی سے کہا۔
”میں تمہاری بات کو جھٹلاتا نہیں ہوں لیکن اس کی کوئی معقول وجہ ہو تو کہو۔“ انسپکٹر نے سوچتے ہوئے کہا۔
”سر! اس سے بڑی وجہ کیا ہو سکتی ہے کہ وہ شہر میں دستیاب نہیں ہو ئے۔“ اس نے پھر اسی اعتماد سے کہا۔
”دیکھو! شہر کے مغرب کی طرف سمندر ہیں، جہاں سے وہ آ ئے تھے۔ مشرق کی جانب پہاڑ ہیں۔ شمال جنوب میں ریتلا میدانی علاقہ ہے۔صرف ایک سمت جدھر پہاڑ ہیں، کیا وہ ان پہاڑو ں میں چھپے ہوں گے، کیا تم یہی کہنا چاہتے ہو؟“ انسپکٹر نے پوچھا۔
”میرا خیال ہے سر ادھر چیک کر لینا چاہئے۔ شہر میں تلاش تو جاری ہے۔“ سرفراز نے کہا تو وہ سوچنے لگا۔
یہ ایک دشوار گزار کارروائی تھی۔ ایک بڑی نفری چاہیے تھی اور اس کارروائی میں رسک بہت زیادہ تھا۔ اگر وہاں پہاڑی علاقے میں وقت لگایا گیا اور حاصل کچھ نہ آ یا تو بہت نقصان ہو جانے والا تھا۔ جبکہ ان کے پاس وقت بالکل نہیں تھا۔ ایک یہ بھی پہلو تھا کہ وہ کہیں شہر سے بھاگ ہی نہ گئے ہوں۔ وہ اُلجھ کر رہ گیا تھا۔ وہ پہاڑی علاقے میں کارروائی کرے یا نہ کرے؟ وہ انہیں شہر میں تلاش کرے؟
انسپکٹرمنصور اپنے دفتر میں مارٹن لوگوں کے بارے میں کیسی بھی متوقع اطلاع کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔ وہ ہر چند منٹ بعد کسی نہ کسی سے رابطہ کر رہا تھا۔ ایسے میں سرفرا ز پھر آ فس میں آ گیا۔ اس کے چہرے پر پریشانی تھی۔ اس نے ایک کاغذ اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا:
”سر! بڑی تشویشناک اطلا ع ہے سر۔“
”کیا ہوا؟“ اس نے کاغذ پر نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا۔
”شہر کے جنوبی علاقے سے دو بچے اغوا ہو گئے ہیں۔“سرفراز نے دکھی لہجے میں کہا۔
”اوہ، یہ تو بہت غلط ہوا۔“انسپکٹر منصور اضطراب میں اٹھ کھڑا ہوا۔
”سر! اس کے ساتھ مزید یہ اطلاع بھی ہے کہ اسی وقت دو کلو میٹر کے فاصلے پر ایک مزید بچہ اغوا ہوا ہے۔“اس نے بتایا۔
”تو گویا تین بچے…“ انسپکٹر نے تڑپتے ہوئے پوچھا۔
”جی سر۔“ اس نے دردناک انداز میں کہا۔
”یہ تو بہت برا ہوا، کچھ پتہ چلا، کوئی کارروائی ہوئی…“ اس نے بات کہنا چاہی تھی کہ سرفراز بولا۔
”سر! اس علاقے کے سی سی ٹی وی کیمروں سے دیکھا گیا ہے، یہ وہی لوگ ہیں، جنہیں صبح اسٹور پر لوٹ مار کرتے دیکھا گیا ہے۔“
”اوہ!اب وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آ ئے ہیں۔“انسپکٹر منصور نے انتہائی غصے میں کہا۔ اس کا دماغ ایک دم سے اُڑ گیا تھا۔
”جی بالکل، مجھے ڈرہے کہیں مزید کوئی ایسا واقعہ سامنے نہ آ جائے۔“ سرفراز نے کہا تو انسپکٹر بولا۔
”اب انہیں معاف نہیں کیا جائے گا۔سب اداروں کو الرٹ بھیج دو۔ ان بچوں کے اغوا کی خبر میڈیا پر دے دو۔“
”سر کیا اس طرح خوف و ہراس نہیں پھیلے گا؟“ اس نے پوچھا۔
”پھیلنے دو، لیکن اس طرح لوگ اپنے بچوں کی حفاظت خودکریں گے تاکہ مزید کوئی ایسا واقعہ نہ ہونے پائے۔“ انسپکٹر نے کہا۔
”اوکے سر۔“ اس نے کہا اور فوراً آ فس سے نکل گیا۔
انسپکٹر منصور کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ فوری طور پر کیا کرے۔وہ سوائے فورسز کی کارروائی کی نگرانی کرنے کے سردست کچھ نہیں کر سکتا تھا۔

٭

سہ پہر کی چائے پر جمال اپنی فیملی کے ساتھ لان میں بیٹھا ہوا تھا۔اس کے دادا اور پاپا آ پس میں باتیں کر رہے تھے جبکہ ماما چائے بنا رہی تھیں۔وہ چائے بنا چکیں تو دادا جی کو کپ تھماتے ہوئے بولیں:
”ابا جی! اب جمال کی تعلیم کا کیا ہوگا؟“
دادا جی نے کپ تھام کر تحمل سے اپنی بہو کو دیکھا پھر پر سکون لہجے میں بولے:
”بیٹی آپ کو اس کی تعلیم کے بارے میں پریشان ہو نے کی ضرورت نہیں۔“
”جب یہ سکول ہی نہیں جائے گا تو…“ وہ کہتے کہتے رُک گئیں۔ پھر پاپا کی جانب کپ بڑھایا۔ وہ خاموش رہے تو وہ پھر دادا جی کی طرف یوں دیکھنے لگیں جیسے وہ جواب کی منتظر ہوں۔ تبھی انہوں نے کہا:
”بیٹی! میں نے کہا ہے نا، آپ پریشان مت ہوں، یہ سکول بھی جایا کرے گا، امتحان بھی دے گا اور ان شاہ اللہ بہت اچھے مارکس لے گا۔“
”بیگم، میں آپ کو تفصیل بتا دوں گا۔ آپ ابھی چائے لیں۔“ پاپا نے کہا تو انہوں نے چائے کا کپ اٹھا لیا۔ جمال اپنا دودوھ کا مگ لیے بڑے مزے سے پی رہا تھا۔شاید ماما کوئی مزید بات کرتیں، گیٹ میں سے اس کے تین کلاس فیلوز، ظفر، شعیب اور عثمان اندر داخل ہوئے۔ وہ پہلے تو ٹھٹک کر دور ہی رُک گئے، پھر دھیمے قدموں سے چلتے ہوئے لان ہی میں آ گئے۔ جمال نے انہیں دیکھتے ہوئے اپنا مگ میز پر رکھ دیا۔
”آ ؤ… آ ؤ بیٹا! بیٹھو۔“ پاپا نے انہیں قریب آ تے دیکھ کر کہا تو جمال قریب پڑی کرسیاں لانے کے لیے اٹھا۔ تبھی عثمان نے تیزی سے کہا:
”نہیں نہیں انکل، ہم نے بیٹھنا نہیں ہے۔ ہم تو صرف جمال کاپتہ کرنے آئے تھے، یہ دو دن ہوئے سکول ہی نہیں آ یا۔“
”بڑی اچھی بات ہے بیٹا، آپ لوگ اپنے دوست کا پتہ کرنے آ ئے ہو۔“ پاپا نے خوش دلی سے کہا۔
”جمال تم کل آ ؤ گے سکول…؟“ ظفر نے جمال سے پوچھا۔
”پتہ نہیں یار۔“ اس نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا پھر سانس لے کر بولا:
”آؤ! اندر بیٹھتے ہیں۔“
”نہیں! ہم نے بیٹھنا نہیں، ہم تو فٹ بال کھیلنے جا رہے ہیں، اگر تم ٹھیک ہو تو آ ؤ نا۔“ شعیب نے تیز ی سے کہا۔
اس کے یوں کہنے پر جمال نے اپنے پاپا کی طرف اجازت طلب نگاہوں سے دیکھا، پاپا نے دادا کی طرف دیکھا تو وہ بولے:
”ہاں بیٹا، اپنا دودھ کا مگ ختم کرو اور چلے جاؤ، لیکن جلدی واپس آ نا۔“
”اوکے۔“ جمال نے کہا اور جلدی سے مگ میں پڑا دودھ ختم کر کے اپنے دوستوں کے ساتھ چل دیا۔
سڑک پر آتے ہی شعیب نے پوچھا:
”جمال! کیا بات ہے، تم اسکول کیوں نہیں آ رہے ہو؟“
”بس یار! طبیعت ٹھیک نہیں رہی تھی۔“ جمال نے بہانہ بناتے ہوئے کہا۔
”اچھا یہ بتاؤ، جن لوگوں نے تمہیں اغوا کیا تھا، وہ تمہیں کہاں لے کر گئے تھے۔“ ظفر نے تجسس سے پوچھا۔
”یا ر میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتا۔“ جمال نے تحمل سے کہا۔
”اوہ، اچھا چلو یہ بتا دو، تمہاری طبیعت اس لیے…“ اس نے کہنا چاہا لیکن جمال نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا:
”پلیز ظفر، میں اس پر بات ہی نہیں کرنا چاہتا۔“
”اوکے۔“ اس نے سر ہلاتے ہوئے کہاتو پھر کسی نے مزید سوال نہیں کیا۔
وہ قریبی پارک میں روزانہ فٹ بال کھیلتے تھے۔سہ پہر کے وقت وہاں اچھی خاصی چہل پہل ہو تی تھی۔ کئی لوگ جاگنگ کر تے، خواتین اپنے بچوں کے ساتھ چہل قدمی کے لیے آ جاتیں، لڑکے مختلف کھیل کھیلنے کے لیے وہاں آ جاتے۔ پارک میں بڑی رونق لگی رہتی تھی۔ فٹ بال گراؤنڈ میں کئی دوسرے لڑکے بھی آ گئے تھے۔ سر الطاف بھی وہیں تھے جو ان کی گیم کروایا کرتے تھے۔ وہ کھیلنے کے لیے تیار ہو رہے تھے کہ اس کی گھڑی لرزنے لگی۔ اس نے اسکرین پر دیکھا تو اس کے پاپا کا نمبر جگمگا رہا تھا۔ وہ فوراً ایک طرف چلا گیا اور پھر بٹن دبا کر بولا:
”جی پاپا!“
”یار! ابھی ابھی مجھے اطلاع ملی ہے، شہر سے چند بچے اغوا ہو گئے ہیں۔‘‘ انہوں نے تشویش سے کہا تو جمال نے پوچھا:
”کس نے اطلاع دی آپ کو؟“
”انسپکٹر منصور نے، ان بچوں کو مارٹن وغیرہ نے اغوا کیا ہے۔“
”اوہ!“اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
”تم اپنا خیال رکھنا۔“ پاپا نے کہا۔
”پاپا جی! میں تو اپنا خیال رکھوں گا، مگر ان بچوں کا کیا ہو گا؟“ اس نے دکھی لہجے میں کہا تو پاپا پر امید لہجے میں بولے۔
”شہر بھر میں الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ فورسز پوری کوشش کر رہی ہیں۔ بہت جلد وہ پکڑے جائیں گے۔“
”ٹھیک ہے پاپا۔“اس نے کہا اور بٹن آ ف کر دیا۔
وہ دل گرفتہ سا واپس اپنے دوستوں کے پاس آ گیا۔ وہاں کی چہل پہل سے یہ لگتا ہی نہیں تھا کہ انہیں یہ خبر ہو کہ شہر سے کچھ بچے اغوا کر لیے گئے ہیں۔اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ فٹ بال کھیلے، لیکن اگر وہ فوری طور پر چھوڑ کر گیا تو کئی سوال پوچھے جانے تھے۔ اور پھر وہاں سے جانے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ اس لیے وہ میدان میں کھیلنے کے لیے چلا گیا۔
ان کا کھیل جا ری تھا۔ جمال پہلے سے زیادہ توانائی محسوس کر رہا تھا۔ وہ پہلے تھک جایا کرتا تھا لیکن اب اسے تھکن کا تھوڑا بہت احساس بھی نہیں تھا۔ وہ پسینے میں شرابور ہو رہا تھا لیکن تھکان ذرا سی بھی نہیں تھی۔وہ خود میں بہت زیادہ خوشی محسوس کر رہا تھا۔ اس کے ساتھ کھیلنے والے بھی حیران ہو رہے تھے۔کھیل کے دوران اس نے دیکھا، فٹ بال گراؤنڈ کے دائیں جانب چند لوگ آ کر کھڑے ہوگئے تھے۔ وہ مسلسل اسے دیکھ رہے تھے۔اسی طرح چند لوگ بائیں جانب بھی آ گئے۔ جن کی نگاہیں اسی پر ٹکی ہوئیں تھیں۔ وہ تھوڑا کنفیوژ ہو گیا۔ کیونکہ وہ سار ے ہی اجنبی لوگ تھے۔
کھیل ختم ہوا تو سورج غروب ہو نے کو تھا۔ وہ سبھی وہیں گراؤنڈ میں بیٹھ کر آج کے کھیل پر تبصرہ کرنے لگے۔ یہ ان کا معمول تھا۔سرالطاف اس کے کھیل کی تعریف کر رہے تھے کہ آج وہ بہت اچھا کھیلا ہے۔ایسے وقت میں اس نے دیکھا، وہ اجنبی لوگ اس کے ارد گرد نہیں تھے۔اسے اطمینان تو ہو گیا مگر اسے اپنے ارد گرد خطرہ ضرور محسوس ہو نے لگا تھا۔زیادہ وقت نہیں گزرا، وہ سب اٹھ کر اپنے اپنے گھروں کو چل دیے۔
جمال اس وقت اپنے دوستوں کے ساتھ پارک سے نکل کر اپنے گھر کی طرف جانے والے راستے پر چل پڑا تھا۔ انہی لمحات میں دو جیپیں بالکل برابر برابر چلتی ہوئیں اس کی طرف آ نے لگیں۔ اس نے انتہائی تیزی سے خود کو بچایا اور سڑک کے ایک طرف ہو گیا۔ یہی اس کی غلطی تھی، وہ دونوں جیپوں اس کے دائیں بائیں آ کر رک گئیں اور وہ درمیان میں آ گیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب اسے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کا خیال آ یا۔ اس نے وہ گھڑی دبا دی۔پھر اس نے انتہائی تیزی سے نکلنا چاہا لیکن اس وقت تک دونوں جیپوں کے دروازے کھل گئے تھے۔ اس میں سے وہی لوگ باہر نکل آ ئے، جو گراؤنڈ کے باہر کھڑے تھے۔ان کے ہاتھوں میں پسٹل تھے۔ ایک شخص نے بڑے خوفناک لہجے میں کہا:
”بس، جی بوائے بس… اب تم کہیں بھاگ نہیں سکتے۔“
”ہاتھ اوپر کرو اورکسی بھی جیپ میں بیٹھ جاؤ۔“ دوسرے شخص نے کہا تو جمال نے بڑے اعتماد سے کہا:
”تم دونوں کتنے فضول لوگ ہو۔“
”کیا مطلب…؟“ ایک نے غراتے ہوئے کہا۔
”ایک بچے کو اغوا کے لیے تم اتنے سارے لوگ آ ئے ہو، اتنا اسلحہ بھی ہے تم لوگوں کے پاس… غیرت ہے تم لوگوں میں…“اس نے حقارت سے کہا۔

”زیادہ باتیں نہ کرو، ہم جانتے ہیں تمہارے بارے میں، چپ چاپ جیپ میں بیٹھ جاؤ، ورنہ…“ اسی نے درشت لہجے میں کہا۔
”ورنہ مجھے گولی مار دو گے تو مار دو۔“ اس نے اعتماد سے کہا۔
”تم ہماری اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہو… لیکن اس بار ہمیں کہا گیا ہے کہ تم نے اگر کچھ زیادہ ہی سمارٹ بننے کی کوشش کی تو گولی مار دیں، اس لیے…“ پہلے والے نے غراتے ہوئے بات ادھوری چھوڑ دی۔
”چلو! پھر مجھے گولی ہی مار دو۔“ اس نے اپنی بانہیں پھیلاتے ہوئے کہا۔
”ہم مذاق نہیں کر رہے ہیں جی بوائے!“ ایک نے دھاڑتے ہوئے کہا۔
اسی لمحے ایک شخص بھناتا ہواگاڑی سے باہر آ یا اور اس نے نیلی روشنی والی بیم سیدھی کرتے ہوئے روشنی کردی۔ جمال چوکنا تھا اور اس کے درمیان ایک شخص کھڑا تھا۔ وہ روشنی پوری طرح اُس پر نہیں پڑی تھی، اسی لمحے جمال نے اپنے پیروں پر زور دیا اور اپنی ٹانگ گھماتے ہوئے سامنے کھڑے شخص کے سینے پر ماری۔وہ الٹ کر جیپ کے اندر جا پڑا۔ بیم والا شخص اس کے نیچے کہیں دب گیا۔
جمال رُکا نہیں اسی لمحے دوسری کک اس شخص کے ماری جو اسے پکڑنے کے لیے لپکا تھا۔ یہ وار ذرا اوچھا پڑا تھا۔وہ سامنے والا شخص محض لڑکھڑا کر رہ گیا۔ وہ لوگ بھی اسے پکڑنے کے لیے آ ئے ہوئے تھے۔ گاڑی کی دوسری جانب سے چار آدمی ایک دم سے نکلے اور اسے پکڑنے کے لیے بڑھے۔جمال ایک دم سے زمین پر بیٹھ گیا۔ پھر اسپرنگ کی مانند اچھلا اور سامنے والے کے سینے پر کک ماری۔ وہ ”اوغ“ کی آ واز کے ساتھ ایک طرف جا پڑا۔ باقیوں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی تو جمال ایک شخص کے اوپر جا پڑا اور دونوں ٹانگوں سے سامنے والوں کے چہروں پر وار کیا۔ وہ اچھل کر دور جا پڑے۔اس کے سامنے ایک ہی شخص تھا، جمال نے اس کے اوپر سے چھلانگ لگائی اور جیپوں کے درمیان سے نکل کر کھلی سڑک پر آ گیا۔
یہ سب لمحوں میں ہوا تھا۔ جمال کے دوستوں کو سمجھ ہی نہ آ سکا کہ یہ ماجرا کیا ہے۔ وہ ایک دم سے شور مچانے لگے تھے۔حملہ آ ور گھبرا گئے۔ ان میں سے کسی نے پسٹل سے دو تین فائر کر دئیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ ڈر کر چھپنے لگے۔ میدان میں جمال کھڑا رہ گیا۔اس کے سامنے کئی حملہ آ ور تھے۔ جمال کے دوست چیخ چیخ کر اسے بھاگ جانے کو کہہ رہے تھے لیکن وہ اسی جگہ ڈٹا کھڑا رہا۔حملہ آو روں نے اسے پھر گھیرے میں لے لیا تھا۔ جمال کے ارد گرد ان حملہ آ وروں نے دائرہ بنا لیا تھا۔وہ دھیرے دھیرے اس کے قریب ہو تے چلے جا رہے تھے۔
اچانک سامنے سے ایک شخص نے نیلی روشنی والی بیم نکالی اور اسے روشن کر کے جمال کی جانب کیا۔ لمحے سے بھی کم وقت میں جمال نے اپنے پاؤں پر ہلکا سا وزن دیا، فضا میں اچھلا اور شخص پر جا پڑا۔ اس نے ہوا میں مکا لہرایا اور اس کے سر پر دے مارا۔ وہ جھومتا ہوا زمین بوس ہو گیا اور اس کی بیم لڑھکتی ہوئے دور جا گری۔ جیسے ہی جمال واپس زمین پر آیا،اسی لمحے سامنے سے فائر ہوا اور پختہ سڑک اکھڑ گئی۔ اس کے ساتھ ہی فائر کرنے والے نے چیختے ہوئے کہا:
”ہم آخری بار وارننگ دے رہے ہیں، چپ چاپ خود کو ہمارے حوالے کر دو، ورنہ مار دیں گے۔“
”رُکو میری بات سنو۔“ جمال نے ہاتھ اوپر کرتے ہوئے کہا۔
”بولو…“ سامنے کھڑے حملہ آور نے کہا۔
”مجھے صرف مارٹن لے جا سکتا ہے۔ اسے میرے سامنے لاؤ، میں اس کے ساتھ چل دوں گا۔“ اس نے بڑے اعتماد سے کہا۔
”ہم تمہیں اس کے پاس لے کر جا رہے ہیں۔“حملہ آ ور نے تیزی سے کہا۔
”میں کیسے مان لوں؟“ جمال نے اکتائے ہوئے انداز میں پوچھا۔
”تمہیں ماننا پڑے گا؟“ اس نے درشت لہجے میں کہا۔
”میں بھی نہیں مانتا۔“جمال نے بھی غصے میں کہا۔
”تم کیوں اس کے لیے ضد کر رہے ہو؟“ حملہ آور نے اکتائے ہوئے انداز میں پوچھا۔
”میں اس کے ساتھ ڈیل کرنا چاہتا ہوں۔“ جمال نے کہا تو چند لمحے کے لیے خاموشی چھا گئی۔ایک شخص جلدی سے فون کال ملانے لگا۔اسی دوران اس کی کلائی پر بندھی گھڑی لرزنے لگی۔ اس کا مطلب تھا کہ کوئی نہ کوئی اس کی مدد کے لیے بالکل قریب پہنچ چکا ہے۔ جس مقصد کے لیے اس نے ان کو باتوں میں لگایا تھا وہ پورا ہو گیا تھا۔
”لو! یہ بات کرو۔“ فون والے شخص نے اس کی جانب فون بڑھاتے ہوئے کہا۔
”ہیلو! جی بوائے… بولو کیا ڈیل ہے، میں مارٹن بات کر رہا ہوں۔“
”تم مجھے کیوں اغوا کرنا چاہتے ہو؟“اس نے پوچھا۔
”میری کسی کے ساتھ ڈیل ہے، اس تک تمہیں پہنچانا ہے۔“ مارٹن نے کہا۔
”اگر میں خود ڈاکٹر ولیم کے پاس چلا جاؤں تو…“ اس نے اعتماد سے کہا۔
”نہیں، پھر میری ڈیل کینسل ہو جائے گی۔“ اس نے کہا۔
”اگر وہ تمہاری ڈیل بھی کینسل نہ کرے تو…؟“جمال نے پوچھا۔
”یہ تو ڈاکٹر ولیم پر ہے نا۔“ مارٹن بولا۔
”دیکھو اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ میں تمہارے بھیجے ہوئے ان آ دمیوں کے قابو میں آ جاؤ ں گا تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔ میں انہیں ابھی پکڑ لوں گا۔“
”میرے پاس اور لوگ ہیں وہ بھیج دوں گا۔“مارٹن نے کہا۔
”میں وہ بھی…“ جمال نے کہا تو وہ قہقہہ لگاتے ہوئے ہنسا۔
”میرے پاس بچے ہیں، میں انہیں مار دوں گا۔“
”ہاں! اب ہو ئی نا بات، میں اسی بات پر لانا چاہتا تھا۔“اس نے تیزی سے کہا۔
”کیا مطلب، تم کیا کہنا چاہتے ہو؟“ مارٹن نے پوچھاتو جمال نے اس کی سنی ان سنی کرتے ہوئے سنجیدگی سے کہا:
”تم ان بچوں کو چھوڑ دو۔میں ابھی تمہارے پاس آ جاتا ہوں۔“جمال نے تیزی سے کہا تو وہ بولا:
”تو پھر آ رام سے ان کے ساتھ بیٹھ کر آ جاؤ۔میرے پاس پہنچو گے تو میں ان بچوں کو چھوڑ دوں گا۔“مارٹن نے سخت لہجے میں کہا۔
”دیکھو، ان بچوں کو ذرا سا بھی نقصان نہیں ہو نا چاہیے۔“ جمال نے حتمی انداز میں کہا، وہ اگرچہ فون پر بات کر رہا تھا لیکن اس کا دھیان ارد گرد بھی تھا۔ اچانک اسے انسپکٹر منصور دکھائی دیا جو اس سے تھوڑے سے فاصلے پر کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ اشارہ کر رہا تھا۔ جسے جمال سمجھ نہیں پا رہا تھا، جمال نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:
”دیکھو، معاملہ میرا اور تمہارا ہے، اس میں ان بچوں کا کیا قصور…“ جمال نے بھی سخت انداز میں کہاتو وہ دھاڑتے ہوئے بولا:
”شٹ اپ! اگر تم ان کے ساتھ آ تے ہو تو ٹھیک ورنہ میں شہر میں تباہی مچا دوں گا۔پھر تم لوگ میرا کچھ نہیں کر پاؤ گے،تم لوگ کیا سمجھتے ہو میں ڈر گیا ہوں۔ میں نے اب تک تم لوگوں کو کچھ نہیں کہا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں کچھ کر نہیں سکتا۔ایک دنیا میرے نام سے کانپتی ہے؟“
”کانپتی ہو گی۔ لیکن تم نے انتہائی گھٹیا پن دکھایا ہے۔ ان بچوں کا کیا قصور؟ تمہارا مقابلہ مجھ سے ہے۔ یہ تمہاری شکست ہے کہ تم نے ان بچوں کو اغوا کیا اور اب ان کے نام پر مجھے بلیک میل کر رہے ہو۔“ جمال نے انتہائی غصے میں کہا۔
”تم مجھے نہیں جانتے ہو جی بوائے، میں اس بھی گھٹیا ہوں… میں بہت کمینہ ہوں… مجھے بس اپنا کام نکالنا ہے۔وہ میں کر کے رہوں گا۔“ اس نے کہا اور بھونڈے انداز میں قہقہہ لگانے لگا۔
”تم ان…“ جمال نے کہنا چاہا تو اس نے دھاڑتے ہوئے کہا:
”بند کرو بکواس… خاموشی سے چلے آ ؤ،یہی وقت ہے تمہارے پاس۔“
جمال مزید بات نہ کر سکا۔اس نے فون بند کر دیا تھا۔ لیکن جمال نے یوں فون پکڑے رکھا جیسے اس کی بات سن رہا ہو۔ اس نے کن اکھیوں سے ادھر اُدھر دیکھا اور پھر ایک قدم آ گے بڑھ کر ہوا میں چھلانگ لگا دی۔ دائرے والے لوگ اسے پکڑنے کے لیے آ گے بڑھے تو وہ ان کے اوپر سے دوسری طرف چلا گیا۔ وہ سب جمال کو پکڑنے کے لیے لپکے تو اتنی دیر میں ان کے پیچھے کافی سارے لوگ آ گئے۔ انہوں نے حملہ آ وروں کو پکڑنا شروع کر دیا۔ جو بھی مزاحمت کرتا، اس کی پٹائی ہو نے لگتی۔ تھوڑی ہی دیر بعد ان سب کو پکڑ لیا گیا۔

……٭……

مجھے چھوڑ دو!

”تمہارا شک درست نکلا، وہ لوگ انہی پہاڑیوں ہی میں چھپے ہوئے ہیں۔“ انسپکٹر منصور نے سرفراز کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”سر یہ پہاڑی سلسلہ… چاہے جتنا طویل ہے مگر ہم انہیں تلاش کر لیں گے۔“ اس نے مودب لہجے میں تیزی سے کہا۔
”جن لوگوں کو پکڑا ہے۔ کیا انہوں نے اس جگہ کی نشاندہی نہیں کی جہاں پر وہ موجود ہیں؟“انسپکٹر نے پوچھا۔
”سر یہ لوگ خود یہاں پر اجنبی ہیں، یہ سارے وہی لوگ ہیں جو جزیرے سے یہاں پر آ ئے ہیں، یہ محض سیکورٹی گارڈز ہیں۔ مارٹن نے انہیں چارے کے طور پر استعمال کیا ہے، یہ یہاں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔“
”سرفراز ٹھیک کہہ رہا ہے۔“ جمال نے آ فس میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
”اوہ تم آ گئے…؟“ انسپکٹر منصورنے بے ساختہ پوچھا۔
”ہاں، مجھ سے رہا نہیں گیا، میں دادا جی کوبتا کر آیا ہوں کہ مجھے ان بچوں کو بازیاب کرانا ہے۔ انکل آپ نے کوئی پلان کیا ہے؟“جمال نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے تیزی سے پوچھا۔
”وہی سوچ رہا ہوں۔ یہ جو لوگ پکڑے گئے ہیں، ان سے تھوڑی بہت معلومات تو مل ہی جائیں گی۔ اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں پوری فور س کے ساتھ ان پہاڑیوں پر چڑھتا ہوں، انہیں تلاش کرنے میں تھوڑا وقت تو لگے گا۔“ انسپکٹر منصور نے کہا تو جمال ایک دم سے کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کے اندر عجیب سی لہریں گردش کر نے لگیں تھیں جیسے کوئی تیز ہوا چل پڑی ہو۔ وہ چند لمحے اپنی کیفیات کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ اسے سمجھ تو نہ آ ئی لیکن اس کے دماغ میں ایک خیال آیا تو وہ بولا:
”انکل! مارٹن یہی چاہتا ہے کہ آپ پوری فورس کے ساتھ اس پر چڑھائی کریں۔وہ آپ کو وہیں الجھا کر آپ کا نقصان کرنا چاہتا ہے۔“
”وہ ایسا کیوں کرے گا، وہ پاگل ہے؟“انسپکٹر نے کہا۔
”وہ پاگل نہیں، وہ شہر بھر میں خوف پھیلانا چاہتا ہے۔ یہ اس کے بلیک میل کرنے کا ایک ہتھکنڈہ ہے۔ بات یہیں تک نہیں کہ وہ مجھے لے جانا چاہتا ہے، اسے خود بھی یہاں سے نکلنا ہے۔ اس نے ایک بچے کو بھی قتل کر دیا تو سب ادارے جواب دہ ہو جائیں گے۔ اگر وہ اپنے ساتھ بچے لے گیا تو…؟“ جمال نے سنجیدگی سے کہا تو انسپکٹر جیسے پاگل ہو نے والا ہو گیا۔ تبھی وہ بڑ بڑاتے ہوئے بولا:
”تو پھر کیا کیا جائے،؟ ابھی کرنل کا فون آ گیا تو کیا ہوگا؟“
”انکل، میرے خیال میں آپ نے جو کرنا ہے وہ کریں، میرے ساتھ دو لوگ ایسے بھیج دیں جو کمانڈو ہوں، ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کر سکتے ہوں۔“ اس نے سوچتے ہوئے کہا۔
”تم کیا کرو گے؟“ انسپکٹر نے پوچھا۔
”یہ میں جانوں یا میرا کام، آپ اپنے انداز میں جو کرنا چاہیں کریں۔“ اس نے اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہا تو انسپکٹر چند لمحے سوچتا رہا پھر بولا:
”ٹھیک ہے، تم تیار ہو جاؤ۔“
”میں تیار ہوں۔“ اس نے کہا اور کرسی سے کھڑا ہو گیا۔
جمال تربیتی مرکز کے پورچ میں کھڑا تھا۔ وہ بہت مضطرب تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ اس نے ان پکڑے ہوئے لوگوں سے جو اب تک معلومات لی ہیں، کیا وہ درست تھیں یا انہوں نے گمراہ کن معلومات دی تھیں۔ کافی دیر تک اسی نہج پر سوچتے رہنے کے بعد اس نے سر جھٹک دیا۔ اس نے جب فیصلہ ہی کر لیا تھا کہ ان بچوں کو بازیاب کروانا ہے تو اب جو ہو جائے، وہ ان بچوں تک پہنچے گا۔ وہ یہی سوچ رہا تھا کہ دو نوجوان اس کے پاس آ گئے۔ انہوں نے جین اور جیکٹ پہنی ہوئی تھیں۔ کاندھوں پر بیگ تھے۔ ان کے ساتھ ایک قیدی تھا۔ وہ قریب آ گئے تو ایک نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا:
”میں شہزور ہو ں۔“
”میں طارق ہوں۔“اس نے بھی ہاتھ بڑھا دیا۔ جمال نے دونوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا:
”میں جمال ہوں، اب چلیں۔“
”جی چلیں۔“ طارق نے کہا۔
انہوں نے اس قیدی کو اپنے درمیان میں لیا اور جیپ میں بیٹھ گئے۔ وہ اگلی نشست پر بیٹھ گیا تو ڈرائیور نے جیپ بڑھا دی۔
وہ شہر سے باہرآ گئے تھے۔ لیکن پہاڑی سلسلہ شروع ہو نے میں کافی فاصلہ تھا۔ تبھی شہزور نے قیدی کو ہلاتے ہوئے کہا۔
”اب ہوش سنبھالو اور بتاؤ، کدھر سے جانا ہے؟“
اس پر قیدی نے ادھر اُدھر دیکھا اور بولا:
”ابھی تھوڑا مزید آ گے جانا ہے۔“
”کیا تم لوگ مارٹن کے ساتھ رہ رہے تھے یا کہیں الگ سے؟“ جمال نے اچانک پوچھا تو وہ قیدی بولا:
”الگ سے۔ ہم جزیرے پر بھی سیکورٹی گارڈ تھے۔“
”اوکے، دھیان رکھو۔“ جمال نے کہا اور سامنے سڑک پر دیکھنے لگا۔
جیپ تیز رفتاری سے جا رہی تھی۔ رات کا وقت تھا۔ اس لیے وہاں تک ہی دکھائی دے رہا تھا جہاں تک جیپ کی روشنی جا رہی تھی۔جمال پوری توجہ سے سوچ رہا تھا کہ پہاڑی سلسلے میں پہنچ کر اسے کیا کرنا ہوگا۔ اسے کبھی اس طرح کی صورت حال کا سامنا ہی نہیں رہا تھا نہ ہی اسے کوئی تجربہ تھا۔ لیکن اس کے اندر سے ایسے خیال پھوٹ رہے تھے جیسے اس نے کبھی بہت پہلے پہاڑی علاقے میں وقت گزارا ہو۔ وہ اپنے اندر سے امڈتے ہوئے خیالات پر خود حیران ہو رہا تھا۔
اچانک اس کی نگاہوں کے سامنے سڑک غائب ہو گئی تو ایک دم سے تاریکی چھا گئی۔اسی تاریکی میں بہت ساری رنگین لکیریں دکھائی دینے لگیں جو آ پس میں کیچوؤں کی مانند گڈ مڈ تھیں۔ان سے ایک سفید لکیر اوپر کو اٹھ رہی تھی۔وہ لکیر پہلے بالکل سیدھی گئی پھر لرزتی ہوئی دائرے میں گھومنے لگی۔اچانک تاریکی سے نکل کر وہ سفید روشنی میں آ گئی۔ سفید روشنی میں آ تے ہی وہ لکیر یوں پھیل گئی جیسے زمین پر پانی پھیل جاتا ہے۔اس میں تکون بناتے ہوئے تین پیلے نقطے جگمگانے لگے تھے۔
وہ پھیلے ہوئے پانی کی مانند روشنی میں سے نکل کر لکیر بن کے گھومتی ہوئی اوپر اُٹھنے لگی۔ وہ روشنی کی لکیر کسی آئل پینٹ والی دیوار پر پھیل گئی۔ اسی پینٹ والی دیوار پر آئل پینٹ کی مانند پھیلتی ہوئی یہ لکیر پھر ایک روشنی والی لکیر بن کر تیزی سے بڑھتے ہوئے اوپر رینگنے لگی۔ اچانک سامنے نیلی روشنی یوں دکھائی دی جیسے اندھیرے میں چمکتی ہوئی کئی منزلہ عمارتیں دکھائی دیتی ہیں۔ عمارت میں کئی سارے روزن تھے۔ جہاں سے سفید روشنی نکل رہی تھی۔ ایک روزن سے نیلی روشنی خارج ہو تے ہوئے دمک رہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی تاریکی چھٹ گئی۔
”یہاں، اس طرف سے اندر جائیں گے۔“ قیدی کی آ واز پر وہ چونک گیا۔ سیدھی جاتی ہو ئی سڑک سے بائیں جانب ایک راستہ جا رہا تھا، جو دو پتھروں کے درمیان سے یونہی بنا ہوا تھا۔ اس پر جیپ جا سکتی تھی۔ وہ اس راستے پر مڑتے ہوئے آ گے بڑھتے چلے گئے۔
راستہ کافی خطرناک تھا۔ ڈرائیور پہاڑی پر یوں گول دائرے میں جا رہا تھا، جیسے ابھی کچھ دیر پہلے اس نے دیکھا تھا کہ نیلی روشنی گول دائرے میں بھاگتی ہوئی جا رہی تھی۔ اسی راستے پر یوں لگا جیسے وہ راستہ ایک جگہ جا کر بند ہو گیا ہے۔ مگر وہ راستہ بند نہیں تھا، وہاں سے اچانک موڑ پڑتا تھا۔ ڈرائیور نے جیپ روک دی تھی۔ جیپ کی روشنی میں سامنے ایک بڑی ساری کھائی نظر آ رہی تھی۔ اس کے آگے بالکل اندھیرا تھا۔
”رُک کیوں گئے ہو؟“ طارق نے پوچھا۔
”سر! سامنے دیکھیں یوں لگا جیسے ہم کھائی میں گرنے لگے ہیں۔“ ڈرائیور نے تیزی سے کہاتو قیدی بولا۔
”ہم یہاں رک جاتے ہیں، یہاں سے ہمیں تھوڑا پیدل چل کر ایک کھوہ میں جانا ہوتا ہے،ہم وہیں رہتے ہیں۔“
”تو چلو پھر…“ شہزور نے کہا تو سب نیچے اتر آئے۔ انہوں نے ڈائیور سے وہیں رکنے کو کہا تو بولا:
”سر جی! میں یہاں پر اکیلا… کچھ بھی ہو سکتا ہے؟“ اس نے کہا۔
”تو پھر تم واپس چلے جاؤ۔“ جمال نے اس کی طرف دیکھ کر کہا اور اس کی طرف دیکھے بغیر آ گے بڑھ گیا۔
”نہیں سر! میں بھی آ پ کے ساتھ چلوں گا۔“ اس نے اعتماد سے کہااور اشارے سے یہ سمجھا دیا کہ اس کے پاس پسٹل بھی ہے۔
”تو پھر چلو۔“ شہزور نے کہتے ہوئے جمال کی طرف دیکھا۔ وہ سڑک کے کنارے اندھیرے میں دیکھ رہا تھا۔
”کیا دیکھ رہے ہو؟“ طارق نے پوچھا۔
”وہ دیکھو، وہ تین جگمگاتے ہوئے پیلے نقطے… دیکھ رہے ہو جو تکون بنائے ہوئے ہیں؟“ جمال نے نیچے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”بالکل دیکھ رہا ہوں، کیا وہ کوئی خاص ہیں؟“ شہزور نے پوچھا۔
”ہاں! مجھے لگتا ہے وہ خاص ہیں۔“جمال نے یوں کہا جیسے اس کی آ واز کہیں کنویں میں سے آ رہی ہو۔وہ ایک ٹک اسی تکون کو دیکھ رہا تھا۔
”وہاں تک پہنچنے کے لیے میرا خیال ہے دو چار گھنٹے تو چاہئیں، پھر پتہ نہیں راستہ کیسا ہے، وہاں تک راستہ جاتا بھی ہے یا نہیں۔“
”خیر دیکھتے ہیں، ابھی تو اس کی سنو! یہ کیا کہتا ہے۔“ جمال نے قیدی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ سب چل پڑے۔
قیدی آ گے آ گے جا رہا تھا۔ چند قدم چلنے کے دوران اس نے اپنا مائیک ایڈجسٹ کر لیا پھر اس نے سرگوشی میں طارق سے پوچھا:
”میری آ واز آ رہی ہے؟“
”بالکل!“ اس نے جواب دیتے ہوئے کہا۔ اب وہ تینوں الگ الگ بھی ہو جاتے تب بھی ایک دوسرے کو سن سکتے تھے۔
تقریباً دو سو قدم چلنے کے بعد وہ ایک غار نما کھوہ کے سامنے جا پہنچے۔ اس کھوہ میں ٹارچ نما بیٹریوں سے روشنی ہو رہی تھی۔شہزور نے قیدی کو آ گے کر دیا اور پسٹل اس کی کمر پر لگا دیا۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ تھوڑا سا چلتے رہنے کے بعد وہ ایک کھلی جگہ پر آ گئے جہاں چند لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ وہاں بھی ویسی ہی مدہم سی روشنی تھی۔ وہ تینوں قیدی کو لیے کچھ فاصلے پر رُک گئے۔ وہ خاموشی سے انہیں دیکھنے لگے۔ انہوں نے پورا اطمینان کیا۔ وہ تعداد میں چھ تھے اور اپنی حالت سے اکتائے ہوئے لگ رہے تھے۔
”کیا خیال ہے، دھاوا بول دیا جائے؟“ طارق نے پوچھا۔
”ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ انہیں…“ جمال نے کہنا چاہا تو شہزور نے تیزی سے کہا۔
”یہ سب سے پہلے ہمیں ماریں گے، پکڑ و انہیں۔“
”اوکے۔“ طارق نے کہا اور آ گے بڑھا۔
غار میں پڑے لوگ انہیں دیکھ کر یوں چوکنا ہو کر کھڑے ہو گئے جیسے ان پر کوئی حملہ کرنے آ گیا ہو۔ جس کے ہاتھ میں جو چیز آ ئی وہ لے کر مقابلے پر اُتر آیا۔ ایک نے گن اٹھائی اور فائر کرنے کے لیے گن سیدھی کی ہی تھی کہ طارق نے اسے ذرا بھی مہلت نہیں دی۔ اس نے اپنے پسٹل کا رخ سیدھا کیا اوریکے بعد دیگرے فائر کرنے لگا۔ ان کے ساتھ آ یا قیدی بھی ایک دم سے چھلانگ مار کر اپنے لوگوں میں جا کھڑا ہوا۔ وہ اونچی آ واز میں اپنے لوگوں کو اپنی زبان میں سمجھانے لگا۔ وہ اونچی اونچی آواز میں کہہ چکا تو وہ سب سکون سے ایک طرف کھڑے ہو گئے۔ ان کے کسی ساتھی کو نقصان نہیں ہوا تھا۔
”تم نے اپنے ساتھیوں سے کیا کہا؟“
”یہی کہ ان سے لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ہمارے ساتھی پکڑے گئے ہیں۔ اگر ہم مزاحمت نہ کریں تو بچ سکتے ہیں۔“ اس نے جواب دیا۔
”ہمیں یہ یقین کیسے ہوگا کہ تم ہمارے خلاف کچھ نہیں کروگے؟“ شہزور نے سرسراتے ہوئے پوچھا۔
”تم جو کہو، وہ ہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔“ قیدی ہی نے پر سکون لہجے میں کہا تو ایک دم سے خاموشی چھا گئی۔ چند لمحوں بعد جمال نے پوچھا۔
”کیا تم ہمیں مارٹن تک لے جا سکتے ہو؟“
”کیوں نہیں، ہم لے جا سکتے ہیں مگر…“ وہ تیزی سے کہتے ہوئے ایک دم سے یوں رُک گیا جیسے مایوس ہو گیا ہو۔
”مگر کیا؟“ جمال نے پوچھا۔
”وہاں تک جانے کے لیے کوئی ایک گھنٹہ پیدل جانا پڑے گا۔ دوسرا وہ علاقہ بہت خطر ناک ہے، درمیان میں جنگل پڑتاہے۔“ اس نے جھر جھری لیتے ہوئے کہا۔
”کیا وہاں گاڑی نہیں جا سکتی؟“ طارق نے پوچھا۔
”میرے خیال میں نہیں، میں ایک بار دن میں جا چکا ہوں۔“ قیدی نے کہا۔

جمال اس سے مزید بات کرنا چاہتا تھا کہ طارق کا فون بج اٹھا۔ اس نے فون نکال کر اس کی اسکرین پر دیکھا، پھر کال رسیو کرتے ہوئے بولا:
”ہیلو سر!“وہ کچھ دیر دوسری جانب سے سنتا رہا پھر بولا،”نہیں سر! ابھی یہاں چند لوگ ملے ہیں مارٹن کے ساتھی، وہی جو جزیرے سے اس کے ساتھ بھاگے تھے۔ وہ تعاون کر نے پر تیار ہیں۔“یہ کہہ کر وہ پھر سننے لگا۔چند لمحوں بعد اس نے کہا:
”اوکے سر۔“ یہ کہتے ہی اس نے فون بند کر دیا۔ کسی نے بھی اس سے نہیں پوچھا کہ کس کا فون تھا۔ طارق نے فون جیب میں رکھتے ہوئے کہا:
”تم سب آ رام سے بیٹھو۔تھوڑی دیر میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔“
اس کے یوں کہنے پر قیدی نے اپنے ساتھیوں سے کہا تووہ اطمینان سے بیٹھ گئے۔ طارق باہر نکل گیا۔تقریباً پانچ منٹ گزرے ہوں گے۔ وہ کافی سارے لوگوں کے ساتھ غار میں آ گیا۔ اس نے قیدی کو اپنے پاس بلا کر کہا:
”تم لوگ ان کے ساتھ چلے جاؤ، یہ تمہیں ایک محفوظ مقام تک پہنچا دیں گے۔وہاں سے تم اپنے ملک جا سکو گے۔“
”پھر تم مارٹن تک کیسے پہنچو گے؟“قیدی نے فوراً پوچھا۔
”مارٹن کے بارے میں پتہ چل گیا ہے۔“وہ اطمینان سے بولا۔
”کیا واقعی…؟“ اس نے اچھلتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں، وہ یہاں ان پہاڑیوں میں ہے ہی نہیں، وہ کسی دوسری جگہ پر ہے۔“ اس نے بتایا تو جمال نے اس کی طرف غور سے دیکھا۔
”ٹھیک ہے۔“ قیدی نے کہا اور اپنے ساتھیوں کو بتانے لگا۔ وہ سب سر جھکا کر غار سے باہر نکلتے چلے گئے۔ اس نے ڈرائیور کو بھی بھیج دیا۔وہ سب جا چکے تو جمال نے پوچھا۔
”یہ سب کیا تھا؟“
”کرنل صاحب کا فون تھا، انہوں نے ہمارے کور پر فورس بھیجی ہوئی تھی، تاکہ اگر ہمیں ضرورت پڑے تو فوراً مدد لے سکیں۔“
”وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ مارٹن…“اس نے تجسس سے پوچھا۔
”وہی بتا رہا ہوں نا، وہ یہاں پر نہیں ہے ان پہاڑیوں میں۔“ طارق نے کہا۔
”یہ تمہیں کس نے بتایا؟“ جمال نے الجھتے ہوئے پوچھا۔
”کرنل صاحب نے… انہیں معلوم ہو اہے کہ مارٹن شہر کی ایک بلڈنگ میں چھپا ہوا ہے۔جہاں اس نے بچوں کو اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے، وہ ہمیں دھوکا دے رہا تھا۔“طارق نے بتایا تو جمال الجھن میں پڑ گیا۔ اس نے جو تھوڑی دیر پہلے منظر دیکھا تھا، وہ گڈ مڈ ہو نے لگا تھا۔ پھر قیدی نے بھی بتایا تھا کہ وہ اس خطرناک جگہ پر جا چکا ہے۔ تو پھر وہاں کیا تھا؟ کیا اس نے منظر غلط دیکھا تھا؟ کیا مارٹن انہیں دھوکا دے رہا ہے؟ کیا اس وقت پہاڑیوں پر ان کا ہونا بھی غلط ہے؟
”کیا سوچنے لگے؟“شہزور نے پوچھا۔
”کچھ نہیں، اب کر نا کیا ہے؟“ جمال نے پوچھا۔
”ابھی یہاں ہیلی کاپٹر آ رہا ہے، وہ ہمیں لے کر واپس شہر جائے گا۔“ اس نے اطمینان سے بتایا۔
”ہمیں فوراًکیوں، وہاں تو دوسرے بہت لوگ ہوں گے؟“ شہزور نے الجھتے ہوئے پوچھا تو طارق نے کہا۔
”کرنل صاحب کہہ رہے ہیں کہ جما ل کو فوراً یہاں لا یا جائے۔“
”اوہ…“ اس نے کہا اور جمال کی طرف دیکھا۔ جمال اب تھوڑا بہت سمجھنے لگا تھا۔ جو اس نے منظر دیکھا تھا، وہ اس کی راہنمائی کر رہا تھا۔وہ ابھی اسی بارے میں سوچ رہا تھا کہ فضا میں ہیلی کاپٹر کی گڑگڑاہٹ سنائی دینے لگی۔ وہ تینوں ا س کی طرف متوجہ ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہیلی کاپٹر کی روشنی ان پر پڑنے لگی۔ ہیلی کاپٹر کچھ دیر بعد ہوا میں معلق ہوگیا۔ اس میں سے سیڑھی گرائی گئی۔ سب سے پہلے جمال چڑھا، پھر طارق اور آ خر میں شہزور سیڑھی سے ہیلی کاپٹر کے اندر جا پہنچا۔ ان کے بیٹھتے ہی ہیلی کاپٹر شہر کی جانب چل پڑا۔
وہ لمحہ بہ لمحہ شہر کے قریب ہو تے چلے جا رہے تھے۔شہر کے روشن قمقموں سے لگ رہا تھا کہ کہاں گنجان آ بادی ہے اور کہاں سڑک جا رہی ہے۔کچھ ہی دیر بعد وہ شہر کے اوپر پرواز کرنے لگے۔پائلٹ کا رابطہ کنٹرول روم سے تھا۔اسے ہدایات ملنے لگیں کہ ہیلی کاپٹر نے لینڈ کہاں کر نا ہے۔شہر کے مرکزی اسٹیڈیم میں ہیلی کاپٹر لینڈ ہوا تو وہ تینوں باہر نکلے۔ سامنے ایک سیاہ فو روہیل کھڑی تھی۔وہ اس میں سوار ہو ئے تو فور وہیل تیزی سے چل دی۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد وہ ایک مصروف چوراہے تک جا پہنچے،جہاں دو رویہ سڑک پر ٹریفک رواں دواں تھی۔ فور وہیل اسی چوراہے کی دائیں جانب ایک گلی کے سامنے سڑک کنارے رُک گئی۔
گلی کے اندر چند گاڑیاں کھڑی تھیں۔ ان کے پاس کرنل افتخار اور انسپکٹر منصور کھڑے دکھائی دئیے۔ ان کے ارد گرد چند سیکورٹی گارڈ کھڑے تھے۔وہ تینوں جیسے ہی ان کے قریب جا کر رکے تو شہزور اور طارق نے سلیوٹ کیا۔ کرنل ان کی طرف دیکھ کر بولا:
”اچھا ہوا تم لوگ آ گئے، وہاں تم لوگ رات بھر خواہ مخواہ بھٹکتے رہتے۔“
”کیا بچوں کا پتہ چل گیا؟“ جمال نے تیزی سے پوچھا۔
”بچوں کے بارے میں ہمیں ابھی پوری طرح کنفرم نہیں ہوا، لیکن مارٹن کے بارے میں اطلاعات ملی ہیں۔“ کرنل افتخار نے سنجیدگی سے کہا۔
”کہاں ہے سر وہ؟“ شہزور نے تیزی سے پوچھا۔
”یہ سامنے جو بلڈ نگ ہے، وہ اس میں ہے۔“ کرنل نے سڑک پار کئی منزلہ بلڈنگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”اوہ…“ جمال کے منہ سے نکلا۔ اسے سمجھ میں آ گیا تھا۔ کچھ دیر پہلے دکھائی دینے والا منظر اس کی نگاہوں میں پھر گیا۔ اس میں سبھی اشارے موجود تھے۔ اس نے سامنے موجود بلڈنگ کو دیکھتا رہا۔ تبھی وہ بڑبڑاتے ہوئے بے ساختہ بولا:
”بالکل… اسی میں ہے، اسی میں ہی ہو سکتا ہے۔“
”تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو؟“ کرنل نے چونکتے ہوئے پوچھا تو جمال نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
”آپ کہہ رہے ہیں تو درست ہی کہہ رہے ہوں گے نا۔“
”اوکے۔“ کرنل نے کہا اور پھر لمحہ بھر رک کر بولے:
”ہماری فورسز اس بلڈنگ کے ارد گرد پھیل رہی ہیں۔ یہ سب انتہائی خفیہ انداز میں ہورہا ہے تاکہ مارٹن کو بھنک بھی نہ پڑے۔ وہ پہلے ہی ہمیں بچوں کی وجہ سے بلیک میل کر رہا ہے۔ اگر اسے شک بھی ہو گیا کہ ہم اسے پکڑنے والے ہیں یا اسے گھیرا جا رہا ہے تو وہ بچوں کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔“
”یہ تو ہے سر…“ طارق نے کہا۔
”اب تم تینوں مجھے بتاؤ کہ تم کیا کر سکتے ہو، تاکہ اسی طرح پلان کیا جائے؟“کرنل نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”سر! اس بلڈنگ میں نجانے کتنے کمرے ہیں، ہر کمرے کو چیک کرتے ہوئے ہمیں بہت وقت لگ سکتا ہے۔ اگر کسی ایک حصے کے بارے میں پتہ چل جائے تو…“ شہزور نے کہا تو انسپکٹر منصور نے پوچھا۔
”فرض کریں اگر بلڈنگ کے ایک حصے کا پتہ چل گیا ہے تو…؟“
”میں بلڈنگ کے اوپر سے لٹک کر اس حصے میں چلا جاتاہوں۔“ شہزور نے کہا تو کرنل نے ان دونوں سے کہا۔
”تم فوراً نکلو اور چھت پر پہنچو۔“
”ٹھیک ہے سر۔“ یہ کہتے ہوئے وہ دونوں نکل پڑے۔
”سر! آپ کا رابطہ میرے ساتھ ہو سکتا ہے؟“ اچانک جمال نے پوچھا۔
”میں سمجھا نہیں؟“ کرنل نے چونکتے ہوئے پوچھا۔
”میں اس بلڈنگ کی جانب بڑھتا ہوں، میں جو بھی کہتا رہوں، کیا وہ سب آپ سن سکتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ فوری عمل کر سکتے ہیں؟“ اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”بالکل، سب سن سکتے ہیں، جیسے ہم تینوں کے درمیان رابطہ ہے۔“ شہروز نے اپنے کان پر لگے مائیک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”تو بس ٹھیک ہے۔ میں جا رہا ہوں، میں اگلے پانچ منٹ میں آ پ کو بتا دوں گا کہ مارٹن کہا ں ہے؟“ جمال نے پورے اعتماد سے کہا تو کرنل درشت لہجے میں بولا۔
”بیٹا! یہ کھیل نہیں، بچوں کی زندگی کا معاملہ ہے، ہم بے احتیاطی…“
”میں سمجھتا ہوں سر! اگر مارٹن اس بلڈنگ میں ہے تو اب وہ مجھ سے بچ کر نہیں جا سکتا۔“ یہ کہتے ہوئے وہ چل پڑا۔اس کا انداز ٹہلنے والا تھا، جیسے کوئی مٹر گشت کے لیے نکلا ہو۔ اس کا رخ بلڈنگ کی طرف تھا۔ وہ سڑک کنارے پہنچ گیا۔ وہاں جا کر اس نے پوچھا:
”کیا آپ سب میری آ واز سن رہے ہیں؟“
اس کے ساتھ ہی طارق اور شہزور کی آ وازیں ابھریں۔تبھی کرنل نے کہا:
”ایک منٹ ٹھہرو جمال۔ میں تمہارا رابطہ یہاں سب سے کروا دوں۔“
”ٹھیک ہے، تب تک میں سڑک کے پار جاتا ہوں۔“
”اوکے۔“ کرنل کی آ واز ابھری تو سڑک کے اس مقام تک چلا گیا جہاں پر زیبرا کراسنگ تھی۔ وہ بڑے اطمینان سے ٹریفک رکنے کا انتظار کر نے لگا۔ وہاں کھڑے ہوئے وہ اپنے اندر کی بدلتی کیفیت کو سمجھنے لگا تھا۔
اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کے اندر کوئی قوت بھرتی چلی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ اس کا اعتماد بڑھ رہا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ اس نے کیا کرنا ہے۔ اس نے جو کرنا تھا، اس بارے کوئی خوف یا ڈر اس کے ذہن میں نہیں آ رہا تھا۔ بلکہ اس کے اندر پھیل جانے والی قوت اسے بے تاب کر رہی تھی۔ وہ خو د پر قابو پانے لگا۔ ٹریفک رک گئی تھی۔ وہ دوسرے کئی لوگوں کے ساتھ دونوں سڑکیں پار کر گیا۔
”شہزور اور طارق، آپ دونوں بلڈ نگ کی چھت پر پہنچیں فوراً…“ جمال نے یوں کہا جیسے کوئی ماہر کمانڈو حکم دیتا ہے۔
”وہاں کیا کرنا ہوگا، کوئی آئیڈیا…؟“ طارق نے پوچھا۔
”اوپر سے نیچے آنا ہوگا، فوراً جائیں۔“اس نے کہا۔
”میں لفٹ کے پاس ہوں، چند منٹ بعد میں اوپر ہوں گا۔“طارق نے کہا۔
”اوکے! تم دونوں پہنچ جاؤ تو مجھے بتانا۔“ جمال نے کہا اور آ گے بڑھ گیا۔
وہ فٹ پاتھ پر جا پہنچا، جہاں سے بلڈنگ چند قدم کے فاصلے پر تھی۔وہ اس جانب بڑھ گیا جہاں بلڈنگ کا بڑا سارا گیٹ تھا۔ ایک وسیع احاطے میں بہت ساری کاریں اوردوسری گاڑیاں کھڑی تھیں۔ بالکل سامنے پورچ تھا، جہاں سیکورٹی گارڈ بیٹھے ہوئے تھے۔ کھلی ساری جگہ پر سامنے لفٹ تھی۔ وہ احاطے میں کھڑا رہا۔ اس نے سر اٹھا کر بلڈنگ کے آخری سر پر دیکھا۔ بلڈنگ کی یہ دیوار سپاٹ سی تھی۔ کہیں کہیں کھڑکیوں میں درزیں تھیں۔ورنہ یوں لگ رہا تھا جیسے یہ شیشے کی دیوار اوپر تک چلی گئی ہو۔ شیشوں کی صفائی وغیرہ کے لیے اوپر سے ہی لفٹ کے ذریعے کھڑکی تک پہنچا جا سکتا تھا۔ایسے میں سایہ بھی لہراتا تو مارٹن خبردار ہو سکتا تھا۔ وہ چند لمحے دیکھتا رہا پھر تھوڑی دیر پہلے کا منظر اپنے ذہن میں دہرایا۔ وہ اس روزن کو دیکھنے لگا جس میں سے نیلی روشنی پھوٹ رہی تھی۔ اس نے آ نکھیں کھولیں۔ بلڈنگ کی طرف دیکھا اور اس کھڑکی کا تعین کر لیا، جیسی اس نے منظر میں دیکھی تھی۔
”کیا آپ سب مجھے دیکھ رہے ہیں؟“ جمال دھیمے سے مائیک میں بولا۔
”بالکل، تم ہمارے سامنے ہو۔“ کرنل نے کہا تواس کے ساتھ کئی آ وازیں ابھریں۔طارق اور شہزور بھی چھت پر پہنچ کر تیار تھے۔
”مجھ پر نگاہ رکھیں۔“ جمال نے کہا اور چشم زدن میں بھاگتا ہوا بلڈنگ کی جانب بڑھا۔ وہ دیوار کے ساتھ چپکا اور پھر تیزی سے رینگتا ہوا اوپر چڑھنے لگا۔ وہ کسی کھڑکی پر پاؤں رکھتا، کسی درز کا سہارا لیتا، اور ابھری ہوئی جگہ پر ہاتھ پاؤں جماتا تیزی سے اوپر بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ اس نے اپنے کانوں میں کئی بے ساختہ آوازیں سنی تھیں۔ اس نے کسی طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔ وہ پوری توجہ سے، تیزی کے ساتھ اوپر ہی اوپر بڑھتا چلا جا رہا تھا۔

اچانک وہ ایک کھڑکی کے پاس رک گیا۔ اس نے بڑی احتیاط سے اندر جھانکا، اند رکا منظر بڑا دلدوز تھا۔ چاروں بچے فرش پر بے سدھ پڑے ہوئے تھے۔ جمال کا دماغ ایک لمحہ کو سن ہو کر رہ گیا:
”کیا ان بچوں کو…؟“
وہ اس سے زیادہ نہ سوچ سکا۔ اس کے دماغ میں جیسے آ گ لگ گئی تھی۔ اس نے فوراً ہی اندر چھلانگ مارنے کا سوچا، اسی لمحے مارٹن کمرے میں داخل ہوا، وہ فون پر کسی سے بات کر رہا تھا۔ وہ غصے میں تھا اور ہاتھ ہلا ہلا کر بات کر رہا تھا۔ جمال کھڑکی سے ہٹ گیا۔ اس نے دھیمے سے پوچھا:
”آ پ مجھے دیکھ رہے ہیں؟“
”بالکل، تم ہمارے سامنے ہو۔“ کرنل نے پرجوش لہجے میں کہا۔
”میں مارٹن کو دیکھ چکا ہوں۔“اس نے دبے دبے جوش سے بتایا۔
”اوہ… گڈ… دھیان سے…پتہ نہ لگنے پائے۔“ ایک دم سے کئی آ وازیں ابھریں۔ تبھی کرنل کی آ واز گونجی۔
”کیا تم نے بچے بھی دیکھے ہیں؟“
”ہاں… وہ…“ وہ کہتے کہتے رُک گیا۔
”وہ کیا مطلب…“ کرنل چیخا۔
”وہ بچے بے سدھ قالین پر پڑے ہیں۔“ اس نے بتایا۔
”تم اس وقت تک کوئی ایکشن مت کرنا جب تک ہم اس کے دروازے تک نہ پہنچ جائیں۔“ کرنل نے چیختے ہوئے کہا۔
”آپ اپنا کام کریں، میں اپنا کرتا ہوں۔“ اس نے سرسراتے ہوئے کہا۔
”ہمیں صرف تین منٹ لگیں گے۔“کرنل نے دھاڑتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے، میں اندر کود رہا ہوں۔“ جمال نے کہااور کھڑکی میں دیکھا۔ مارٹن ابھی تک فون پر کسی سے بات کر رہا تھا۔
بچے ویسے ہی بے سدھ پڑے ہوئے تھے۔اس نے دیکھا، مارٹن بات کرتے ہوئے کبھی ایک طرف چلا جاتا کبھی دوسری جانب۔ اس نے کھڑکی کو ہاتھ لگایا تو وہ بند تھی۔ اگر وہ شیشہ توڑتا تو اس کا شیشہ ٹوٹنے کا چھنا کا فوراً مارٹن کو متوجہ کر دیتا۔ اس نے اندازہ لگایا، اگر وہ کھڑکی توڑتا ہو ا فوراً اندر چلا جائے تو مارٹن کے متوجہ ہو نے تک وہ کیا کر سکتا ہے، اس نے لمحہ بھر سوچا اور اپنے ہاتھ کو کہنی تک سیدھا کیا، ایک بار ہاتھ پیچھے کیا اور پھر زور سے شیشے پر مارا، ایک چھنا کا ہوا، وہ ایک لمحے کے لیے مارٹن کو نہ دیکھ سکا، اسی ایک لمحے میں وہ ٹوٹتے ہوئے شیشے کے دوران اندر کود گیا۔
مارٹن کے ہاتھ میں فون تھا اور وہ پھٹی پھٹی آ نکھوں سے جمال کو دیکھ رہا تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کوئی یوں اچانک یہاں سے بھی آ سکتا ہے۔ لیکن اگلے ہی لمحے وہ خود پر قابو پانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے فون ایک طرف پھینکا اور اپنا ہاتھ اپنی جیب کی جانب بڑھایا۔ بلاشبہ وہ کوئی ہتھیار نکالنا چاہتا تھا۔مگر جمال نے اسے موقع نہیں دیا۔وہ اچھل کر اس پر جا پڑا۔ مارٹن نے ایک ہاتھ سے پسٹل نکالا اور دوسرے ہاتھ سے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن لڑکھڑا گیا اور سیدھا دیوار کے ساتھ جا لگا۔ جمال نے اس کا پسٹل والا ہاتھ پکڑا اور اپنی طرف کھینچا۔ لمحہ بھر سے بھی کم اس کشمش میں مارٹن کی چیخ نکل گئی۔ شاید اس کا بازو اتر گیا تھا۔ جمال نے اس کی پروا کیے بغیر کک اس کے سینے پر ماری۔ وہ اُوغ کی آ واز کے ساتھ دیوار کے ساتھ گر گیا۔ جمال نے آ گے بڑھ کر اس کے سر پر گھونسہ مارا تووہ بے دم ہو گیا۔تبھی اس نے مارٹن کو گردن پکڑ کر پوچھا:
”زندہ رہنا ہے یا مر جانا پسند کرو گے؟“
”مجھے چھوڑ دو…“ اس نے بہ مشکل کہا تھا۔
”کیا کیا ہے تم نے ان بچوں کے ساتھ… یہ ایسے کیوں پڑے ہیں؟“ اس نے تیزی سے پوچھا تو وہ بہ مشکل بولا۔
”بے ہوش ہیں۔“
اسی لمحے باہر دروازے پر دستک ہو ئی۔جمال نے اپنے اور دروازے کے درمیانی فاصلے کو دیکھا،پھر اس نے مارٹن سے کہا:
”چل! اٹھ دروازہ کھول۔“
”مجھ سے اٹھا نہیں جا رہا۔“ اس نے دھیمی سی آ واز میں کہا تو جمال ایک دم سے پیچھے ہٹا، وہ دو قدم پیچھے ہٹا اور دروازے کی طرف جانے کی بجائے فرش پر پڑے پسٹل کی جانب بڑھا ہی تھا کہ مارٹن نے اس پر چھلانگ لگا دی۔ جمال کا اندازہ درست نکلا تھا۔ مارٹن بے دم نہیں ہوا تھا بلکہ وہ اداکاری کر رہا تھا۔ اسے دروازے پر دستک نے ایک موقعہ دے دیا تھا۔وہ اپنے بچاؤ میں کچھ بھی کر سکتا تھا۔ اس کی پوری کوشش تھی کہ جمال پسٹل تک نہ پہنچے۔ وہ پوری قوت لگا رہا تھا، جمال نے آ ہستہ آ ہستہ اسے اپنے پاؤں پر لیا اور اسے اچھال دیا۔ وہ پرے جا گرا۔ اس وقت تک دورازے پر دھڑ دھڑ دستک ہو نے لگی، یوں جیسے دروازہ توڑا جا رہا ہو۔اس نے باہر ہونے والے شورپر کوئی توجہ نہیں۔ جمال نے چشم زدن میں پسٹل اٹھایا اور مارٹن پر فائر کردیا۔اس کی چیخ بلند ہوئی۔
”خبردار اگر ذرا بھی ہلے تو سر میں گولی ماردوں گا۔“ جمال نے دھاڑتے ہوئے کہا۔
مارٹن درد سے کراہ رہا تھا لیکن وہ اس پر یقین نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کچھ فاصلے پر پڑے بچے ذرا سا بھی نہیں کسمسائے تھے۔ جمال کو بے حد دکھ ہو رہا تھا۔ اس نے مارٹن کے سینے پر ٹھوکر مارتے ہوئے کہا۔
”اُ ٹھ… دروازہ کھول۔“
”کھولتا ہوں۔“ اس نے رینگتے ہوئے کہا۔
وہ کراہتا ہوا، رینگتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھنے لگا۔ جمال اس کے پیچھے تھا۔ اتنے میں کھڑکی میں سے طارق کی آ واز گونجی۔
”میں آ گیا ہوں۔“
جمال نے دیکھا، وہ اوپر سے لفٹ کے ذریعے کھڑکی تک آ گیاتھا، وہ جھولا اور کمرے کے اندر آ گیا۔ وہ کمرے کے اندر کا جائزہ لے چکا تھا، وہ بھاگتا ہوا دروازے تک گیا اور چٹخنی گرا دی، اس کے ساتھ ہی ایک ریلا اندر آ گیا۔
انہوں نے آتے ہی بچوں کو سنبھالا، کسی نے مارٹن کو پکڑا اور اس کے ہتھ کڑی پہنا دی۔ جمال نے کرنل کی طرف دیکھا۔ وہ اسے ستائشی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
”ویلڈن جمال! تم نے کر دکھایا۔“
”آپ ان بچوں کو فوری ہسپتال پہنچائیں۔“جمال نے تشویش سے کہا۔
”ہاں، انہیں فوری توجہ کی ضرورت ہے۔“ انہوں نے کہااور تھوڑی دیر بعد وہ سب ہسپتال کی جانب جا رہے تھے۔

……٭……

تین روشن نقطے

روشن دن کی دھوپ ہر طرف پھیل گئی تھی۔ جمال اپنے بیڈ روم میں سویا ہوا تھا۔ اس کی آنکھ کھلی تو اگلے ہی چند لمحوں میں اسے رات کے مناظر یاد آ گئے۔وہ فوراً ہی اپنے بیڈ سے اترا اور فون کی جانب بڑھا۔ اسے ان بچوں کے بارے میں بے حد تشویش تھی۔ وہ سب ہسپتال تو پہنچے تھے۔ بچوں کی فوری طور پر ٹریٹمنٹ بھی شروع ہو گئی تھی لیکن رات گئے تک انہیں ہوش نہیں آ یا تھا۔ وہ انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ انہیں ہوش تو آ گیا لیکن وہ کسی کو پہچان نہیں پا رہے تھے۔تب وہ واپس آ گیا تھا۔ اب وہ ان کا پتہ کرنا چاہتا تھا۔
اس نے انسپکٹر منصور کا نمبر ملایا، تھوڑی دیر تک بیل جاتی رہی لیکن کال پک نہیں کی گئی۔تبھی اس نے فون رکھا اور جلدی سے تیار ہو نے لگا۔وہ تیار ہو کر لاؤنج میں آ یا تووہاں اس کی ماما بیٹھی ہوئیں تھیں۔
”بیٹا، خیریت، یہ تیار ہو کر کہاں جا رہے ہو؟“
”میں ہسپتال جانا چاہتا ہوں، جہاں رات وہ بچے ایڈمٹ تھے۔“ اس نے بے قراری سے جواب دیا تو ماما نے اس کے جذبات سمجھتے ہوئے کہا:
”تم تھوڑی دیر بیٹھو، میں تمہارے لیے ناشتہ بنا دوں۔“
”ٹھیک ہے ماما، میں دادا جی سے مل کر آ تا ہوں، کہاں ہیں وہ؟“اس نے خود پر قابو رکھتے ہوئے پوچھا۔
”وہ لیب میں ہیں۔“ ماما نے بتایا تو وہ لیب کی جانب چل پڑا۔
وہ لیب میں داخل ہوا تو دادا اپنے مطالعہ کی میز پر بیٹھے ہو ئے کچھ کاغذات میں کھوئے ہوئے تھے۔ وہ خاموشی سے ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ دادا جی اس کا احساس پا کر چونکے پھر اس کی طرف دیکھ کر اپنے عینک اتارتے ہوئے بولے۔
”رات تم دیر سے آ ئے تھے؟“
”جی، دیر ہو گئی تھی۔“ اس نے کہااور اختصار سے ساری روداد بیان کر دی۔
”اوہ! تو مارٹن پکڑا گیا۔“ انہوں نے سوچتے ہوئے لہجے میں کہا اور دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں سے اپنی آ نکھوں کو ہلکے ہلکے دبانے لگے۔ یہ ان کی تھکن کا اظہار تھا۔ چند لمحے یوں آ نکھوں کو دباتے رہنے کے بعد پر سکون لہجے میں بولے:
”کچھ بتایا اس نے؟“
”کس بارے میں؟“ جمال نے تجسس سے پوچھا۔
”نیلی روشنی کے بارے میں۔“ دادا جی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”نہیں، میری اس سے ملاقات نہیں ہو سکی، وہ زخمی ہو گیا تھا، اسے بھی ہسپتال پہنچایا تھا، لیکن مجھے بچوں کی فکر تھی، میں انہی کے پاس رہا تھا۔“اس نے دھیمے سے لہجے میں بتایا۔
”اوہ… ٹھیک ہے۔کیا بنا بچوں کا؟“ انہوں نے تجسس سے پوچھا۔
”انہیں ہوش آ گیا تھا۔ لیکن ان کی حالت اتنی بہتر نہیں تھی، انہوں نے بچوں پر تشدد بھی کیا تھا، وہ ہسپتال ہی میں تھے۔“ اس نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
”پتہ کر لینا تھا، فون کر لیتے؟“ دادا جی نے کہا۔
”و ہ میں نے فون کیا تھا لیکن انسپکٹر انکل نے فون ہی پک نہیں کیا، اب میں وہیں جا رہا ہوں۔“ اس نے بتایا تو وہ جمال کے چہرے پر دیکھتے ہوئے بولے۔
”میں بھی اس نیلی روشنی پر کام کر رہا ہوں، تھوڑا بہت سمجھ میں آ گیا ہے مجھے، مجھے یقین ہے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔“
”کامیاب، مطلب…؟“ اس نے الجھتے ہوئے پوچھا۔
”یہی کہ اس روشنی سے جو انسانی جسم کو نقصان پہنچتا ہے، اس سے بچاؤ کیسے ہو سکتا ہے۔میں نے سب کچھ مرکزی تجربہ گاہ میں بھی بھیجا ہوا ہے، اسی رپورٹ کا انتظار ہے بس۔“ انہوں نے بتایا۔
”میں نے اپنی کیفیت بتائی تھی نا، یہ حواس مختل کر دیتی ہے اور اعصاب کو جکڑ لیتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے بدن میں قوت ہی نہ رہی ہو۔“جمال نے کہا۔
”ہاں ایسا ہی ہو تا ہے۔یہ سیل بھی توڑ پھوڑ دیتی ہے۔وہ اپنی کارکر دگی بہتر نہیں کر سکتے۔“ دادا جی نے اس کی معلوما ت میں اضافہ کیا۔ ممکن ہے وہ مزید بات کرتے، ماما کی آ واز آ ئی۔
”جمال بیٹا، ناشتہ کر لو۔“
”اوکے دادا جی،میں پھر آ تا ہوں۔“جمال نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”ہاں، مارٹن جو معلومات دے، وہ مجھے ضرور بتانا۔“ دادا نے کہا اور سامنے پڑے ہوئے کاغذات کی جانب متوجہ ہو گئے۔
جمال ناشتہ کر چکا تو ماما نے اسے ڈرائیور کے ساتھ کار میں ہسپتال بھیجا۔ کارمختلف سڑکوں پر سے ہوتی ہوئی ہسپتال جا پہنچی۔ ڈرائیور باہر ہی رک گیا۔ وہ سیدھا اس شعبے میں چلا گیا جہاں بچوں کو رکھا ہوا تھا۔ انسپکٹر منصور وہیں موجود تھا۔ اس کے پاس چند لوگ کھڑے ہوئے تھے۔وہ بھی ان کے پاس جا کر رک گیا۔ وہ سب لوگ بچوں کے والدین تھے۔ وہ اطمینان محسوس کر رہے تھے کہ ان کے بچے بازیاب ہو گئے ہیں۔ وہ بات کر چکے تو جمال نے انسپکٹر منصور سے پوچھا:
”انکل! اب بچوں کی طبیعت کیسی ہے؟“
”سبھی ٹھیک ہیں اور ابھی اپنے گھر چلے جائیں گے۔“ اس نے چمکتی ہوئی

آنکھوں سے کہا۔ پھران سب لوگوں کی طرف دیکھ کر بولا:
”یہ ہے جمال، اسی نے…“ اس نے کہنا چاہا لیکن جمال نے اس کا فقرہ پورا ہی نہیں ہونے دیا، اس سے پہلے بولا:
”میں رات بھی بچوں کے پاس تھا، انکل فون پک نہیں کر رہے تھے، سو میں نے سوچا خود جا کر پتہ کروں، کیوں انکل آپ فون کیوں نہیں پک کر رہے تھے؟“اس کے یوں کہنے پر انسپکٹر سمجھ گیا۔ وہ ہلکا سا مسکراتے ہوئے بولا:
”میں بزی تھا، مجھے پتہ نہیں چلا۔“
”اوکے۔“ جمال نے کہا تو وہ بچوں کے والدین کی جانب متوجہ ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں رہ گئے تو جمال نے پوچھا:
”انکل! مارٹن کہاں ہے؟“
”اسے رات ہی تربیتی مرکز شفٹ کر د یاگیا تھا۔“
”مجھے اس سے ملنا ہے۔“ جما ل نے کہا۔
”تو چلو وہیں چلتے ہیں۔“ اس نے کہا تو وہ دونوں ہسپتال سے نکلتے چلے گئے۔ باہر نکل کر جمال نے ڈرائیور کو کار لانے کے لیے کہا۔ کچھ دیر بعد وہ تربیتی مرکز پہنچ گئے۔ وہاں جاتے ہی اس نے انسپکٹر منصور سے پوچھا:
”اس نے بتایا،اس نیلی روشنی کے بارے میں…؟“
”وہ اپنی زبان نہیں کھول رہا۔ لگتا ہے، اس کے ساتھ کچھ خصوصی سلوک کیا جائے گا۔“ انسپکٹر اپنے آ فس میں کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا:
”میں دیکھتا ہوں۔“ جمال نے دھیمے سے کہا:
”تم بھی کوشش کر کے دیکھ لو۔“ اس نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
چند منٹ بعد اسے مارٹن کے پاس پہنچا دیا گیا۔
مارٹن ایک کمرے کے بوسیدہ فرش پر الٹا پڑا ہوا تھا۔آہٹ پا کر اس نے سر اٹھا کر دیکھا، پھر جمال کو دیکھ کر تیز ی سے اٹھنے کی کوشش کی تو اس کی کراہیں نکل گئیں۔ اس کی ران سے گولی تو نکال دی گئی تھی لیکن جہاں پٹی بندھی ہوئی تھی، وہاں گھاؤ کی وجہ سے خون دکھائی دے رہا تھا۔ جمال اس کی طرف دیکھتا ہوااس کی جانب بڑھا، پھر اس کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا۔ دونوں ایک دوسرے کو چند لمحے دیکھتے رہے۔ تبھی جمال نے طنزیہ لہجے میں پوچھا:
”کہو! مارٹن کیسے ہو؟“
”میری ذرا سی غلطی… ذرا سی غلطی مجھے لے ڈوبی… میں نے سوچا تو تھا کہ کھڑکی سے کوئی آ سکتا ہے لیکن ناممکن… تمہارے لیے ڈاکٹر ولیم ایسے ہی نہیں تڑپ رہا… میں تجھے مان گیا…“ وہ کراہتے ہوئے بولتارہا۔
”میری تعریفیں کرنا چھوڑو اور میرے سوالوں کا جواب ٹھیک ٹھیک دینا،ورنہ تم سوچ بھی نہیں سکتے تمہارے ساتھ کیا ہو سکتا ہے۔“ جمال نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
”پوچھو…“ اس نے بے چارگی سے کہا۔
”میرے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے پہلے سوچ لینا یہ جھوٹ نہ ہو، اس کی سزا ملے گی، اگر سچ بتا دیا تو پھر تمہارے ساتھ اچھا سلوک بھی ہو سکتا ہے۔“ جمال نے سرد لہجے میں اسے سرزنش کرتے ہوئے کہا۔
”تم پوچھو، میں بتادوں گا۔“اس نے کراہتی آ واز میں کہا۔
”نیلی روشنی والی بیم کہاں سے لی تھی؟“ جمال نے سرد لہجے میں پوچھا۔
”مجھے اندازہ تھا کہ تم یہی سوال کرو گے کیونکہ یہی تمہاری کمزوری ہے۔“ اس نے تلخی سے مسکراتے ہوئے کہا تو جمال خاموش رہا، وہ اس کے چہرے پر دیکھتا رہا۔ مارٹن نے طویل سانس لیا اور بولا:
”تمہارے اسی ملک میں، اسی شہر میں ایک تنظیم ہے جو اسی نیلی روشنی پر کام کر رہی ہے۔ میں نے ان سے ایک سودا کیا اور یہ بیم لے لی۔“
”میرے ہی ملک اور میرے ہی اسی شہر میں… کیا وہ غیر ملکی ہیں؟“ جمال نے تحمل سے پوچھا۔
”کچھ غیر ملکی ہیں اور کچھ تمہارے اپنے ہی ملک کے لوگ ہیں۔“اس نے سکون سے کہا۔
”کیا تم ان کے بارے میں بتا سکتے ہو؟“ اس نے پوچھا
”نہیں، میں ان کے بارے میں نہیں بتا سکتا کیونکہ مجھے ان کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ مجھے نیلی روشنی والی بیم چاہیے تھی، وہ مجھے مل گئی۔“
”وہ کیسے ملی؟“ جمال نے انتہائی سنجیدگی سے کہا۔
”مجھے تمہارے بارے میں پوری طرح بریف کیا گیا تھا کہ تم کیسے ہو۔اس پر میں نے سوچا کہ تمہیں کس طرح سے قابو کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے مجھے کوئی ایسی شے چاہیے تھی جو تمہیں دور ہی سے قابو میں کرلے۔سو میرا دھیان اسی نیلی روشنی کی طرف گیا، میں جانتا تھا کہ کچھ لوگ اس پر تجربہ کر رہے ہیں۔میں ان سے ملا، انہیں ایک بڑی رقم دے کر یہ بیم حاصل کی۔“ مارٹن نے بڑے آ رام سے بتا دیا۔
”تمہیں بیم یہاں سے ملی۔وہ بتاؤ، کیسے؟“جمال نے سخت لہجے میں کہا۔
”میں جب یہاں آکر ہوٹل میں پہنچا تو ایک گھنٹے بعد مجھے وہ بیم ایک پیکٹ کے ذریعے پہنچا دی گئی۔ویری سمپل…“ اس نے لاپروائی کے سے انداز میں کہا۔
”ممکن ہے یہ بیم وہ کام نہ کرتی جس کے لیے تم نے حاصل کیاتھا، کیا تم نے اس کا پہلے تجربہ کیا تھا؟“ جمال نے تجسس سے پوچھا۔
”ویسے مجھے ان پر اعتماد تھا لیکن میں نے پھر بھی ایک آ دمی پر تجربہ کیا، وہ چند گھنٹے بے ہوش رہا۔“وہ اپنی رو میں کہہ گیا۔
”ٹھیک ہے۔ تم ایک بار پھر سوچ لو، کیا تم نے مجھے سب سچ بتا دیا ہے؟“ جمال نے تصدیق کرنے والے انداز میں پوچھا۔
’’ہاں میں نے سچ بتا دیا۔“ اس نے کہا تو اسی لمحے کرنل افتخار کمرے میں داخل ہو ئے۔ انہوں نے آ تے ہی پوچھا:
”کیا سچ بتایا اس نے…؟“
تب جمال نے اس سے ہو نے والی باتیں بتا دیں۔ انہوں نے غور سے ساری بات سنی پھر انتہائی سنجیدگی سے بولے:
”یہ شخص اب بھی جھوٹ بول رہا ہے۔اس کے یہاں پر ان لوگوں سے رابطے ہیں۔ یہ انہیں جانتا ہے۔“
”میں سچ…“ مارٹن نے کہنا چاہا تو کرنل دھاڑتے ہوئے بولا:
”شٹ اپ یو باسٹرڈ! تم نے جرم کیا یہ الگ بات ہے، لیکن تم نے بچوں کو پکڑ کر ان کی ڈھال بنائی، ایسا کام انسان نہیں حیوان کرتے ہیں۔ میں تجھے معاف نہیں کر سکتا، اب تم جمال سے یہ بھی جھوٹ بول رہے ہو کہ تمہیں ان لوگوں کا پتہ نہیں؟“
”میں درست کہہ رہا ہوں۔“ مارٹن تیزی سے بولا مگر کرنل نے اس کی طرف دھیان نہیں دیا، بلکہ انہوں نے جمال کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:
”تم آ ؤ، میں تمہیں بتاتا ہوں وہ کون لوگ ہیں اور ہمیں کہاں سے مل سکتے ہیں۔پھر اسے آ کر بتاتاہوں یہ کتنا سچ بول رہا ہے۔“
ان کے یوں کہنے پر وہ حیرت سے کرنل کی طرف دیکھنے لگا۔
”لو مارٹن، میں ابھی آتا ہوں۔“ جمال نے سر ہلاتے ہوئے کہا اور کرنل کے ساتھ چل پڑا۔ وہ وہیں آ گئے جہاں کرنل بیٹھتا تھا۔کچھ دیر بعد وہ بولے:
”میں یہ بات صرف تمہیں بتا رہا ہوں،ابھی یہ میں نے کسی سے نہیں کہی۔“
”جی بتائیں۔“ جمال نے پوری توجہ سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:
”وہ لوگ جو رات پہاڑی علاقے سے یہاں پہنچائے گئے ہیں، ان میں سے دو لوگ بڑے اہم ہیں، انہوں نے ہمیں بتایا ہے کہ پہاڑی علاقے ہی میں کہیں ان لوگوں نے اپنی لیبارٹری بنائی ہو ئی ہے۔ یہ وہیں تجربے کر رہے ہیں۔“
”ممکن ہے ایسا ہی ہو۔“ اس نے سوچتے ہوئے کہا۔
”اس کی ایک وجہ ہے، یہ جو نیلی روشنی ہے نا، یہ بہت خطر ناک ہے، اس کا تجربہ ویران اور سخت جگہ پر ہی ہو سکتا ہے۔میں نے رات سے کافی سارے بندے اس کا م پر لگائے ہیں۔تقریباً چھ گھنٹے سے زیادہ کا وقت ہو گیا ہے لیکن اب تک اس جگہ سے ہمیں کچھ بھی نہیں ملا۔“ کرنل نے مایوسی سے کہا۔
”کس جگہ سے؟“ جمال نے پوچھا۔
”اسی جگہ سے جہاں کی نشاندہی ان دو لوگوں نے کی ہے۔ وہ مارٹن کے ساتھ وہاں پر گئے تھے۔“ انہوں نے بتایا۔
”ہاں! رات ایک بندے نے بتایا تھا۔“ یہ کہتے ہوئے اچانک جمال کو یاد آگیا۔اسے وہ تین روشن نقطے یاد آ گئے۔وہ سمجھ گیا کہ وہاں کوئی ایسا راز ضرور ہے، جس کی وجہ سے وہ جگہ انہیں مل نہیں رہی۔
”کیا مطلب؟“ انہوں نے پوچھا۔
”مطلب، جو لوگ اس مقام کو تلاش کر رہے ہیں، وہ کیسے کر رہے ہیں؟“ اس نے الجھتے ہوئے پوچھا۔
”ظاہر ہے، خفیہ انداز میں کر رہے ہیں، اگر وہاں وہ ہو ئے اور ہیلی کاپٹر وغیرہ لے گئے تو وہ الرٹ ہو سکتے ہیں۔“ کرنل نے کہا تو وہ سوچتے ہوئے بولا۔
”آ پ ایسا کریں، طارق اور شہزور کو بلوائیں۔ ہم پھر وہیں جائیں گے۔“
”اوہ!“ کرنل کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
”میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ہمیں وہیں تلاش کر نا چاہیے۔“ جمال نے کہا۔
”ٹھیک ہے۔“ کرنل نے کہا اور اپنا سیل فون نکال لیا۔

……٭……

غار میں لیبارٹری

دوپہر ڈھل چکی تھی۔وہ تینوں ٹھیک اسی جگہ کھڑے تھے جہاں سے جمال نے نیچے وہی روشن نقطے دیکھے تھے۔وہاں دن کی روشنی میں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہاں ایک سپاٹ پتھریلی زمین نظر آ رہی تھی۔وہ جگہ یوں لگ رہی تھی جیسے پہاڑی کے دامن میں ہو۔ وہاں بہت سارے سبز پودے اور درخت بھی تھے۔ایک طرح سے جنگل دکھائی دے رہا تھا۔
”اس جگہ تک راستہ تو ضرور جاتا ہوگا۔“ طارق نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
”لازمی بات ہے، اگر نہیں جاتا تو ہمیں وہاں تک جانا توہے۔“شہزور نے سوچتے ہوئے کہا۔
”جب جانا ہی ہے توٹھیک ہے،واپس گاڑی میں بیٹھیں اور نکلیں، جتنا وقت بھی لگے گا، دیکھتے ہیں۔“ جمال نے کہا اورتھوڑی دور کھڑی فور وہیل کی طرف بڑھا۔ ڈرائیور نے اسے دیکھتے ہی فور وہیل سٹارٹ کر دی۔وہ دونوں بھی آ بیٹھے تو فور وہیل چل دی۔ جب سے انہوں نے جمال کو بلڈنگ پر چڑھتے دیکھا تھا، اور پھر مارٹن کو قابو کیا تھا، تب سے ان دونوں کا رویہ بالکل بدل کر رہ گیا تھا،یوں لگ رہا تھا جیسے وہ اس سے مرعوب ہو گئے ہوں۔
راستہ بہت خطر ناک تھا۔ ایک پتلی سی سڑک کبھی نیچے اتر رہی تھی کبھی اوپر چڑھ جاتی۔اچانک موڑ اور کہیں سے بہت پتلی سڑک ہو نے کے باعث انہیں چند کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے میں کافی وقت لگا۔وہ پہاڑی کے دامن میں آ چکے تو انہوں نے خود کو ایک جنگل میں پایا۔ اگرچہ وہ جنگل اتنا گھنا نہیں تھا لیکن وہاں کا سناٹا اسے خوفناک بنا رہا تھا۔وہاں کوئی باقاعدہ راستہ نہیں تھا، بس وہ یونہی بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ انہیں یہ خوف تھا کہ کہیں راستے میں کھائی نہ آئے جس میں وہ فور وہیل سمیت گر جائیں۔
اچانک ان کے سامنے ایک چھوٹا سا تالاب آ گیا۔ اس میں گدلا سا پانی بھرا ہوا تھا۔ اس سے آ گے راستہ کافی ڈھلوان تھا۔ انہوں نے فور وہیل وہیں روک دی۔ وہ اُتر کر وہاں کا جائزہ لینے لگے۔اس تالاب کے کناروں پر جانوروں کے آنے جانے کے نشان تھے لیکن ارد گرد انہیں کوئی جانور دکھائی نہیں دیا تھا۔ سہ پہر ہو چلی تھی۔ ممکن ہے ایسے وقت میں جانور وہاں نہ آ تے ہوں۔ وہ تھوڑے فاصلے پر موجود ایک بوائیری کے ساتھ کھڑے ہو کر ارد گرد دیکھنے لگے۔ایک ہولناک سناٹا تھا جو بہت خوف ناک لگ رہا تھا۔
سورج مغرب کی جانب ڈھل رہا تھا۔ پیلی دھوپ میں سائے لمبے ہو گئے تھے۔ انہیں وہاں کافی وقت ہو گیا تھا لیکن کہیں سے بھی کسی ذی روح کا کوئی نام و نشان تک نظر نہیں آ رہا تھا۔یہاں تک کہ کوئی جانور بھی وہاں نہیں آ یاتھا۔وہ حیران تھے، تبھی طارق نے کہا:
”تم لوگ چاہے میری بات مانو یا نہ مانو، اگر یہاں پر کوئی موجود ہے تو وہ ہمیں دیکھ چکے ہیں۔ وہ ہمیں اس لیے نہیں چھیڑ رہے کہ ہم خود بخود مایوس ہو کر واپس چلے جائیں۔“
”ٹھیک ہے تم درست کہتے ہو لیکن میں پوچھتا ہوں کیا ہم نے انہیں تلاش کر نے کی کوشش کی، یہاں آ کر بیٹھ گئے ہیں۔“شہزور نے سکون سے کہا۔
”تم کیا کہتے ہو جمال؟“ طارق نے پوچھا۔
”میں شہزور کی بات سے اتفاق کرتا ہوں، ہم نے انہیں تلاش کیا ہی نہیں۔یا پھر یہ اطمینان ہو جائے کہ کوئی یہاں پر نہیں ہے۔“ جمال نے پر سکون لہجے میں کہا۔
”تو چلو پھر کرو تلاش… بتاؤ! کیسے کرنا ہے تلاش…“ طارق نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا تو شہزور بولا۔
”یہ جو سامنے اونچی سی پہاڑی دیکھ رہے ہو نا، ہم وہاں تک جا تے ہیں، کوئی نہ کوئی نشانی تو ملے گی، اگر یہاں کوئی انسان ہوا تو۔“
”میں تب سے یہاں پر وہ روشنی دیکھنے کی کوشش میں ہوں جو وہاں اوپر پہاڑی سے ہمیں تین پیلے نقطوں کی مانند دکھائی دے رہی تھیں۔ لیکن یہاں ان کے کوئی آثار نہیں ہیں۔“ جمال نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں یہ تو ہے، ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دیا۔“طارق نے بھی سوچتے ہوئے لہجے میں یوں کہا جیسے اسے یاد آ گیا ہو۔
”ویسے جمال، ایک بات سوچنے کی ہے، اگر یہاں پر نقطے روشن تھے،ظاہر ہے وہ کوئی بلب وغیرہ ہوں گے۔ ایسا کچھ بھی نظر نہیں آ رہا۔“ شہزور نے کہا۔
اچھا چلو، سورج غروب ہو نے والا ہے، تب تک دیکھیں، اگر کچھ مل گیا تو ٹھیک ورنہ واپس نکلتے ہیں۔“ جمال نے سنجیدگی سے کہا تو وہ تینوں سامنے والی اونچی پہاڑی کی جانب چل دیے۔
وہ کافی آ گے چلے گئے تھے۔ اگر چہ وہ آ پس میں باتیں کرتے چلے جا رہے تھے لیکن ان کا دھیان اردگرد کے ماحول پر بھی تھا۔ وہ لاشعوری طور پر کسی ایسی نشانی کی تلاش میں تھے، جس سے انہیں اندازہ ہو جاتا۔ لیکن ایسا کچھ بھی نظرنہیں آیا تھا۔ وہ چلتے چلے جا رہے تھے کہ اچانک ہلکی ہلکی غراہٹوں کی آ واز آ ئی۔ چشم زدن میں وہ اپنے پسٹل نکال چکے تھے۔
چند لمحوں میں وہ غراہٹیں نمایاں ہو گئیں۔ کچھ جنگلی بھیڑیے ان کی طرف تیز رفتاری سے بھاگتے چلے جا رہے تھے۔ان کے انداز سے یہی لگ رہا تھا جیسے وہ حملہ کر کے انہیں چیر پھاڑ دیں گے۔ وہ تینوں ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔ ان کے درمیان کافی فاصلہ ہو گیا۔ ہر کسی نے اپنے پسٹل کا سیفٹی کیچ ہٹا لیا تھا۔ اس لیے تاک کر ان پر فائر کردیے۔ دو بھیڑیے وہیں لوٹ پوٹ ہو نے لگے تووہ سب ان سے کافی فاصلے پر رک گئے۔انہوں نے فائر نہ کیا تو وہ تھوڑا تھوڑا آ گے بڑھنے لگے۔جیسے ان بھیڑیوں کو خطرے کا بھی احساس ہو اور وہ حملہ بھی کرنا چاہتے ہوں۔ وہ تینوں پوری طرح چوکنا تھے۔ ان کے سامنے دانت نکوستے ہوئے بھیڑیے تھے۔ ان کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ تھا، تبھی جمال نے تیزی سے کہا:
”غور سے دیکھو، یہ ابھی ہم پر چھلانگ لگائیں گے۔“
”تو پھر…؟“ طارق نے تیز ی سے پوچھا۔
”فائر…‘‘ اس نے مزید کوئی لفظ نہیں کہا،کیونکہ وقت نہیں تھا۔
جب تک انہوں نے فائر کیے دو بھیڑیے اپنی جگہ سے اچھل پڑے تھے۔ وہ فائر پر فائر کرتے چلے گئے۔فائرنگ کی دل دہلا دینے آواز سے وادی گونج اٹھی۔ ان میں ایک بھیڑیا، جو شاید کافی حد تک بزدل تھا، وہ اچھلا نہیں بلکہ واپس پلٹ پڑا تھا۔وہ جیسے ہی کچھ فاصلے پر گیا۔کسی نادیدہ قوت نے اسے اچھال دیا۔ وہ تڑپ کر گرا اور پھر اگلے چند لمحوں میں وہ ساکت ہو گیا۔
”اسے کیا ہوا؟“ طارق نے حیرت سے بے ساختہ کہا۔
”کچھ نہ کچھ تو ہوا ہے، آ ؤ دیکھیں۔“شہزور نے کہا اور محتاط انداز میں بھیڑیے کی جانب بڑھ گیا۔ وہ دونوں بھی اس کے پیچھے چل دیے۔وہ سبھی اس بھیڑیے کے بالکل قریب چلے گئے۔وہ بھیڑیا ساکت ہو چکا تھا۔طارق نے اسے پاؤں سے ہلایا،تھوڑا سا آگے سرکایا۔ کہیں بھی خون کا ایک قطرہ نہیں تھا۔لیکن اس کی کھال یوں ہو گئی تھی جیسے جھلس گئی ہو۔
”اسے کوئی فائر نہیں لگا۔“طارق نے حتمی انداز میں کہا۔
”تو پھر…“ شہزور نے سرسراتے ہوئے کہا پھر اچانک بڑبڑاتے ہوئے بولا:
”کس جگہ پر یہ اچھلا…“
”میرے خیال میں وہ سامنے۔“ طارق نے تھوڑے فاصلے پر ایک جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”وہاں دیکھیں تو سہی کیا ہے؟“ شہزور یہ کہتے ہوئے اس جانب بڑھاہی تھا کہ جمال نے روک دیا۔
”ٹھہر و، ایک منٹ… خود مت جاؤ…“
”مطلب… میں کیوں نا…؟“ اس نے حیرت سے پوچھا۔
”مطلب یہ کہ خود مت جاؤ بس، اس بھیڑیے کو وہاں پھینک دو۔“ جمال نے کہا۔
”تمہاری بات ٹھیک ہے، اگر وہاں اس بھیڑیے کو نقصان ہو سکتا ہے تو تمہیں بھی… خیر آ ؤ۔“طارق نے کہا اور بھیڑیے کو پچھلی ٹانگوں سے پکڑا، شہزور نے اگلی ٹانگیں پکڑیں۔ دونوں نے اسے جھلایا اور پھر اندازہ کر کے وہیں پھینک دیا جہاں سے وہ اچھلا تھا۔جیسے ہی بھیڑیا وہاں گرا، ایک دم سے دھواں اٹھنے لگا۔ یوں جیسے وہ جلنے لگا ہو۔ فضا میں گوشت جلنے کی سڑاند پھیلنے لگی۔
”یہاں ضرور کچھ ہے؟“ طارق نے چوکنا ہو کر چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ یوں چاروں جانب دیکھنے لگا تھا جیسے اسے خطرہ محسوس ہو نے لگا ہو۔
”احتیاط… قریب قریب ایسی دو جگہیں لازمی ہوں گی۔“ جمال نے سوچتے ہوئے کہا تو شہزور نے سرسراتے ہوئے کہا۔
”مطلب وہ پیلی روشنی والے…“ طارق نے سر ہلاتے ہوئے سوالیہ نگاہوں سے دیکھاتو جمال نے بھی سر ہلا دیا۔ انہوں نے وہ راز پا لیا تھا۔
”فوراً کرنل صاحب کو بتاؤ۔“ شہزور نے طارق سے کہا تو وہ اپنا سیل فون نکال کر تیزی سے نمبر پش کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد ا س کارابطہ ہو گیا۔اس نے وہاں کی صورت حال بتا دی۔ پھر دوسری طرف سے ہدایات سن کر فون بند کر دیا۔
”کیا کہتے ہیں؟“ شہزور نے پوچھا۔
”کہہ رہے ہیں، وہ تھوڑی دیر تک ہمارے پاس پہنچ جائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے جو زیر زمین ہے، اس کے بارے میں معلومات لینے کی کوشش کریں۔“طارق نے تیزی سے کہا اورجمال کی طرف دیکھنے لگا، جو پہاڑی کی سمت غورسے دیکھ رہا تھا۔
”کیا بات ہے جمال کیا دیکھ رہے ہو؟“ طارق نے پوچھا۔
”ہمیں وہاں تک جانا ہو گا۔“ اس نے ہو لے سے کہا۔
”وہاں کیا ہے؟“ شہزور نے تجسس سے پوچھا۔
”مجھے یوں محسوس ہوا ہے، وہاں کچھ آ دمی تھے۔“ اس نے کہا ہی تھا کہ اسی لمحے پہاڑی پر سے دو آ دمی نمودار ہو ئے،انہوں نے گن سیدھی کی اور فائر کر دیے۔ وادی فائر کی آ واز کے ساتھ گونج اٹھی تھی۔ وہ تینوں زمین پر لیٹ گئے تھے۔ اگلے ہی لمحے وہ چھوٹے چھوٹے پتھروں کی آ ڑ میں ہو گئے۔
”ہر طرف نگاہ رکھنا، دشمن کسی طرف سے بھی آ سکتا ہے۔“ شہزور نے اونچی آ واز میں کہا اور اس سمت فائر کر دیا جہاں سے دو آ دمیوں نے فائر کیے تھے۔
اس ایک فائر کے بعد ایک دم سے خاموشی چھا گئی تھی۔ وہ اسی جانب متوجہ تھے جدھر سے فائر ہوا تھا۔ ایک تجسس بھری خاموشی تھی، کوئی سامنے نہیں آ یا تھا۔
یہی وہ لمحہ تھا، جب جمال کو اپنے کانوں میں شور سنائی دینے لگا تھا۔ وہ بڑی غیر معمولی آ وازیں تھیں۔ اسے لگا جیسے زیر زمین کو ئی شور ہو رہا ہے۔ اس نے اپنا کان زمین سے لگایا توآ وازیں ابھرنے لگی تھیں۔ لیکن یہ آ وازیں کیوں تھیں، اس کی سمجھ نہیں آ رہی تھیں۔ لمحہ بہ لمحہ وہ آ وازیں برداشت سے باہر ہو نے لگیں تو اس نے اپنا سر زمین سے اٹھا لیا۔ اسی لمحے ساری آ وازیں ختم ہو گئیں۔ اسے حیرت ہوئی۔ زمین پر کان رکھنے سے جو آ وازیں آئیں تھیں، کیا وہ زیر زمین آ وازیں تھیں؟ کیا زمین کے نیچے کچھ ہے؟یہ سوچتے ہوئے اس نے دوبارہ اپنا کان زمین کے ساتھ لگا دیا، وہی شور پھر سے سنائی دینے لگا۔لیکن اس بار وہ شوربڑا واضح تھا، اس میں موجود آ وازیں اسے سمجھ میں آ نے لگیں تھیں۔ اس نے زمین سے سر اٹھایا تو وہ آ وازیں بند ہو گئیں، یہ اس کے لیے بڑا دلچسپ کھیل تھا۔
اس نے پھر سے زمین کے ساتھ کان لگایا تو ویسی ہی آ وازیں پھر سے آنے لگیں۔ ایک بار تو اس نے سوچا کہ وہ اپنے دونوں ساتھیوں کو اس شور کے بارے میں بتائے لیکن کیا وہ اس کی بات کا اعتبار کریں گے؟وہ انہیں کیا بتائے گا؟ کیا وہ اس شور کے بارے میں خود سمجھ گیا ہے جو وہ دونوں کو سمجھا پائے گا؟ شاید انہیں سمجھاتے ہوئے اسے کچھ وقت لگ جائے، اس لیے خاموش رہا کیونکہ ابھی وہ خود الجھن میں تھا۔

ایک طرف انہیں کرنل کا انتظارتھا تو دوسری طرف وہ خود کو بچانے کی فکر میں تھے۔ انہی لمحات میں اسے اپنے پیچھے کچھ نامانوس سی آ وازیں سنائی دیں۔ اسے ڈرائیور کا خیال آ یا، وہ فوروہیل سمیت کچھ فاصلے پر تھا۔ اس نے گھوم کر پیچھے دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا۔ ان سے تھوڑے فاصلے پر کئی لوگ ان پر گنیں تانے کھڑے تھے۔ان کے درمیان کھڑا ایک مقامی آ دمی گن تانے ان تینوں کو گھور رہا تھا۔
”اوہ…“ جما ل کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔
”کیا ہوا؟“ طارق نے کہتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کے منہ سے بھی ایسے ہی بے ساختہ لفظ نکلے۔ اگلے ہی لمحے شہزور کو بھی پتہ چل گیا کہ وہ گھیرے جا چکے ہیں۔وہ تینوں ان کے سامنے کھڑے ہو گئے۔
”ہاتھ اوپر… پسٹل پھینک دو۔“ گن تھامے مقامی آ دمی نے غراتے ہوئے بڑے اعتماد سے حکم دیا۔ انہوں نے بغیر وقت ضائع کیے پسٹل پھینک کر ہاتھ اوپر کر لیے۔تبھی اس مقامی آ دمی نے سختی سے پوچھا:
”کون لوگ ہو تم اور یہاں کیا کر رہے ہو؟“
”ہم شکاری ہیں۔“طارق نے بڑے سکون سے کہا۔
”شکاری؟ کیا مطلب، یہاں کون سا شکار کرنے آ ئے تھے؟“ گن بردار نے حیرت سے پوچھا۔
”ہمیں پتہ چلا تھا کہ یہاں کے جنگل میں ایک تیندوا ہے۔ہم اسے پکڑنے آ ئے تھے۔ لیکن یہاں تو بھیڑیوں سے واسطہ پڑ گیا۔“ طارق نے اعتماد سے کہا۔
”تم لوگ لگتے تو نہیں ہو شکاری؟“ گن بردار نے انہیں اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا۔
”لیکن تم لوگ کون ہو اور ہمیں یوں کیوں گن پوائنٹ پر لے لیا ہے؟“ شہزور نے حیرت بھرے لہجے میں یوں کہا جیسے اسے بڑی حیرانگی ہو رہی ہو۔
”یہ ہمارا علاقہ ہے۔“ اس نے کہا۔
”لیکن ہماری معلومات کے مطابق تو یہ سرکاری جنگل ہے، تم لوگوں نے اس پر قبضہ کیا ہوا ہے کیا؟“ شہزور نے اسی حیرت سے پوچھا۔
”اوئے بکواس مت کر چل ہمارے ساتھ۔“اس نے غصے میں کہا۔
”دیکھو، تم ہمیں یوں نہیں لے جا سکتے،ہم نے کون سا جرم کیا ہے؟“ طارق نے پوچھا تو شہزور نے بھی تیزی سے پوچھا۔
”کوئی نقصان ہو گیا ہے تمہارا؟“
”اگر تم میری بات ختم ہو تے ہی نہ بڑھے تو میں فائر کردوں گا۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے گن سیدھی کر لی۔ تبھی وہ تینوں اس طرف چل پڑے جدھر اس نے گن سے اشارہ کیا تھا۔ وہ سب ان کے پیچھے چلنے لگے۔ اصل میں وہ تینوں انہیں باتوں میں لگا کر تھوڑا وقت لینا چاہ رہے تھے۔ ممکن ہے اس دوران کرنل وہاں پر پہنچ جائے۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ان کی یہ کوشش بے کار گئی تھی۔ وہ گن بردار انہیں اس پہاڑی پر لے گئے جہاں سے فائر ہوا تھا۔
اس پہاڑی میں ایک چھوٹی سی کھوہ تھی، جیسے ہی وہ اندر گئے، غار کے اندر کا خلا بڑا ہو تا گیا۔ جمال یہ سب غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے اندر بدلتی کیفیات کی لہریں تیزی سے حرکت میں آ گئی تھیں۔ اس کا مطلب تھا، کوئی نہ کوئی خطرہ ان کے ارد گرد منڈلا رہا ہے۔وہ آ گے بڑھتے چلے گئے۔
تقریباً دوسو قدم سرنگ میں چلتے رہنے کے بعد ایک سپاٹ سی دیوار ان کے سامنے آ گئی۔ایک شخص نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا تو وہ دیوار شق ہو گئی۔ ایک دروازہ اس میں بنتا چلا گیا۔وہ انہیں لے کر دروازے میں داخل ہوئے تو انہوں نے خود کو ایک ہال میں پایا۔ جہاں کی دنیا ہی عجیب تھی۔ ان کے سامنے ہلکی ہلکی نیلی روشنی پھیلی ہوئی تھی بالکل یوں جیسے صبح سورج نکلنے سے پہلے کا وقت ہو تا ہے۔کئی لوگ آ جا رہے تھے۔ سب نے ڈاکٹروں کی طرح لیب کوٹ پہنے ہو ئے تھے۔وہ سب ایک بڑی ساری لیبارٹری میں کام کر رہے تھے۔ وہاں ذرا سی بھی گھٹن نہیں تھی۔ باتوں کی ہلکی ہلکی آ وازیں آ رہی تھیں۔ وہ انہیں لے کر ہال کے آخری سرے پر پہنچ گئے۔وہاں ایک بڑا سا دروازہ تھا، ان کے جاتے ہی وہ کھل گیا۔ گن بردار انہیں لے کر اندر چلا گیا، باقی لوگ پیچھے رہ گئے۔
وہ ہال میں سے چلتے ہوئے آ گے بڑھتے گئے۔یہاں تک کہ گن بردار اُنہیں سرے پر موجود ایک کیبن نما کمرے میں لے گیا۔کمرے کے درمیان ایک بڑی میز کے پیچھے کرسی پر ایک ادھیڑ عمر سفید فام بیٹھا ہواا نہیں گھور رہا تھا۔ اس نے سفید سوٹ پہنا ہوا تھا، سر سے گنجا تھا، کنچی آ نکھیں اور چہرے پر دبی دبی نفرت پھیلی ہوئی تھی۔ وہ انہیں گہری نگاہ سے دیکھ رہا تھا۔ جمال نے کمرہ کا جائزہ لیا۔ دیواروں پر تین بڑی ٹی وی اسکرینیں لگی ہوئی تھیں جن پر باہر کے مناظر دکھائی دے رہے تھے۔ ایک الماری تھی، جس میں مختلف فائلیں تھیں۔ اس کے علاوہ کوئی قابل ذکر سامان نہیں تھا۔وہ ادھیڑ عمر سفید فام ان تینوں کو گھورتا رہا، پھر بڑے گھمبیر لہجے میں بولا:
”میں نہیں چاہتا تھا کہ تم لوگوں کو پکڑوں، مگر تم لوگ غلطی پر غلطی کرتے گئے ہو۔ا س لیے تم لوگوں کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔“
”ہم نے کیا غلطی کی؟“ طارق نے تیزی سے پوچھا۔
”تو سنو، پہلی غلطی… تم یہ لڑکا ساتھ میں لیے گھوم رہے ہو، حالانکہ یہاں کے سارے زیر زمین دنیا کے لوگ جان گئے ہیں کہ یہ جی بوائے ہے۔جس نے رات ہی مارٹن کو پکڑا ہے۔“اس نے طنزیہ لہجے میں کہا توشہزور نے کچھ کہنے کے لیے لب وا کیے ہی تھے کہ اس نے ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے کہا:
”دوسری غلطی تم لوگوں نے یہ کی ہے کہ یہاں آ گئے، اور آ کر ہمیں تلاش کر نے کی کوشش کی، حالانکہ ہمیں پچھلے چند برس سے کوئی تلاش نہیں کر سکا۔مطلب تم لوگوں کو شک ہوا، جسے دور کرنے یہاں آ گے۔“
”اس کا مطلب تم…“ طارق نے کہنا چاہا تو اس نے بات کاٹتے ہوئے کہا:
”اور تیسری غلطی یہ کہ مرے ہوئے بھیڑیے کو اس جگہ لا کر دیکھنا جہاں وہ جلا تھا۔“اس نے طنزیہ لہجے میں کہا اور ان کی طرف دیکھنے لگا جیسے وہ کوئی ردعمل دیکھنا چاہ رہا ہو۔تبھی جمال نے آ گے بڑھ کر اس کے میز پر ہاتھ رکھا، اس کی آ نکھوں میں آ نکھیں ڈال کر بولا:
”اور تمہاری سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ تم ہمیں یہاں لے آ ئے ہو۔“
اس پر اس ادھیڑ عمر سفید فام نے قہقہہ لگایا، جب وہ کھل کر قہقہہ لگا چکا تو جمال کی طرف دیکھ کر بولا:
”تم بہت معصوم ہو جی بوائے،ان لوگوں کے ہاتھوں میں استعمال ہو رہے ہو، اور پھر اتنا بے جا اعتماد بھی اچھا نہیں، تم تو ایک چھوٹی سی بیم کی مار ہو، جس سے نیلی روشنی نکلتی ہے۔“
”تم کہنا کیا چاہتے ہو؟“ جمال نے پوچھا۔
”دیکھ جی بوائے، میں تمہیں چند لمحوں میں یوں جلا کر راکھ بنا سکتا ہوں جیسے تمہارا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ لیکن…“وہ حقارت بھرے انداز میں کہتے کہتے رُک گیا۔ وہ جمال کے چہرے پر یوں دیکھ رہا تھا جیسے اپنی بات کا ردعمل دیکھنا چاہتا ہو۔
”لیکن کیا؟“جمال نے پوچھا تووہ اس کاسوال نظر انداز کرتے ہوئے بولا۔
”اس وقت تک میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا، جب تک میں تمہیں آ فر نہ دے دوں۔ مان لو گے تو ٹھیک، ورنہ راکھ ہونا تمہارا مقدر ہے جی بوائے۔“
”کیا کہنا چاہتے ہو؟“جمال نے پوچھا۔
”وہی، جو مارٹن تمہیں آ فر دینے آ یاتھا۔“ اس نے سکون سے کہا۔
”توپھر تم اس کا حشر بھی جانتے ہو گے؟“ جمال نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
”وہ بے وقوف تھا، اسے یہ سمجھ ہی نہیں تھی کہ تمہیں لے جانا کیسے ہے۔“ سفید فام سے پھر حقارت سے کہا توجمال تیزی سے بولا:
”تم اگر مجھے راکھ کر دو گے توپھر تیری آفر کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔“
”اس کا مطلب ہے تم مرنا ہی پسند کروگے۔“ سفید فام نے غصے میں کہا۔
”تم اپنی کوشش کر سکتے ہو۔بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں، اب تمہیں اپنے بچاؤ کی فکر کرنی چاہیے۔“ جمال نے آ نکھیں پھیلا کر اسے مشورہ دیتے ہوئے کہا۔
”تم نہیں جانتے جی بوائے! تمہارا واسطہ اب کس سے ہے؟“ سفید فام نے طنزیہ لہجے میں کہا تو جمال کو اپنی کلائی پر بندھی گھڑی میں تھر تھراہٹ محسوس ہو ئی۔ اس کا مطلب وہ سمجھ گیا تھا۔ باہر لوگ آ پہنچے تھے۔ اس نے دیواروں پہ لگی اسکرین پر دیکھا۔ ایک اسکرین پر کافی سارے لوگ کھوہ کے دہانے پر موجود تھے۔ دوسری اسکرین پر دیکھا کچھ لوگ میدان میں تھے۔ اگر وہ اس تھر تھراہٹ کو بند کر دیتا تو کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن اگر تین بار تھرتھراہٹ ہو جاتی تووہ خطرے میں تھے۔باہر پیغام پہنچ چکا تھا۔ وہ سب لوگ الرٹ ہو گئے تھے۔
”توفائنل یہ ہے جی بوائے کہ تم میری آفر قبول نہیں کر رہے ہو؟“سفید فام نے اسکرین پر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”میں یہ کہہ رہاہوں کہ تم اپنے بچاؤ کی کوئی تدبیر کر سکتے ہو تو کر لو۔“ جمال نے کہا تو سفید فام ایک دم غصے میں آ گیا اس نے سامنے کھڑے شخص کوقریب آ نے کا اشارہ کیا، وہ فوراً اس کے پاس آ گیا تو وہ بولا۔
”اس لڑکے کو پنجرے میں لے جاؤ۔ پھر باہر دیکھتے ہیں۔“
اس نے آ گے بڑھ کر جمال کو پکڑا اور باہر کی طرف لے جانے لگا۔ جمال نے بالکل بھی مزاحمت نہیں کی، وہ اس کے ساتھ جانے کے لیے مڑا ہی تھا، اچانک جمال اپنے ہی پاؤں پر مڑا، ہاتھ سے میزکا ہلکا سا سہارا لیتے ہوئے گھوما۔ اس کی ٹانگیں پہلے اوپر گئیں اور پھر سیدھی سفید فام کے منہ پر پڑیں۔ وہ بوکھلا گیا لیکن اگلے ہی لمحے خودپر قابو پا لیا۔ اس نے جمال کو پکڑنا چاہا مگر وہ اس کی دسترس سے دور تھا۔ جب تک سفید فام کو سمجھ میں آ یا، طارق اور شہزور نے قلابازی کھائی اور سفید فام کے دونوں طرف جا رکے۔ انہوں نے سفید فام کو قابو میں کرتے ہوئے اسے میز کے ساتھ لگا دیا۔یہ سب لمحے سے بھی کم وقت میں ہواتھا۔
”یہیں مرنا ہے یا ہمارے ساتھ جانا ہے؟“ جمال نے پوچھا۔
”میں اگر مر گیا تو تم بھی یہاں سے زندہ واپس نہیں جا سکتے ہو۔“ اس نے گھٹی گھٹی ہوئی آ واز میں کہا۔
”ہم تو آ ئے ہی مرنے کے لیے ہیں، تم اپنی فکر کرو۔“ طارق نے نفرت سے کہا۔
ایسے میں قریب کھڑے شخص نے ان پر پسٹل تانتے ہوئے کہا:
”چھوڑ دو باس کو ورنہ گولی مار دوں گا۔“
”کیا اس طرح تمہارا باس بچ جائے گا؟“ شہزور نے پوچھا۔
”چھوڑو…“ وہ درشت لہجے میں بولا تو شہزور نے سفید فام کاگلا مزید دبا دیا۔ وہ گھگیانے لگا تھا۔
”ہم اگر مر گئے نا، تو یہاں پر ایک بھی بندہ زندہ نہیں بچے گا، جاؤ دیکھو، باہر سے تم لوگ گھیرے جا چکے ہو۔یہ لیبارٹری ایک لمحہ میں اُڑا دی جائے گی۔“ طارق نے دھمکی دیتے ہوئے کہا تو میز کے ساتھ لگا باس ایک دم سے ڈھیلا پڑ گیا۔ تبھی اس نے ایک ہاتھ سے اپنا سیل فون نکالا اور نمبر پش کر کے رابطے کا انتظار کر نے لگا۔ رابطہ ہو تے ہی بولا:
”سر! یہاں نیچے ایک لیبارٹری ہے جہاں پر آپ سب کو دیکھا جا رہا ہے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ یہاں کافی خطرنا ک ریز ہیں۔ان سے بچ کر۔“
”ان سے کہو ہمارے مرنے کی فکر نہ کریں، یہاں دھماکہ کر کے سب کو ختم کر دیں۔“ شہزور نے کہا تو قریب کھڑے لوگوں کے رنگ پیلے پڑنے لگے۔ سفید فام بھی کسمسانے لگا۔ انہی لمحات میں جمال نے سفید فام کو چھوڑا اور پھرکی کی مانند گھوم کر قلابازی لگاتے ہوئے اس شخص کے اوپرجا پڑا جس نے پسٹل تانا ہوا تھا۔ اس سے گھبراہٹ میں فائر ہو گیا۔ وہ فائر کسی کو لگا تو نہیں لیکن زمین پر گرتے ہوئے جمال نے اس کا پسٹل چھین لیا تھا۔ واپس اٹھنے میں اس نے لمحہ بھی نہیں لگایا۔ اس نے میز پر پڑے سفید فام کی کنپٹی پر پسٹل رکھتے ہوئے سرد سے لہجے میں پوچھا:
”مرنا ہے یا ہمارے ساتھ جانا ہے؟“
”مجھے مار دو، باہر لے جا کر بھی تو مارنا ہی ہے۔“سفید فام نے کہا۔
”اگر تم ہمارے ساتھ تعاون کرو گے تو کچھ بھی نہیں کہیں گے۔“ جمال نے کہا ہی تھا کہ اندر ہلکی ہلکی آ وازمیں الارم بجنے لگا۔ اس نے دیکھا وہاں پر کام کر نے والے لوگ پریشانی میں باہر نکلنے لگے تھے۔ وہ سب ہال کے اندر ہی ایک جگہ اکھٹے ہونے لگے۔ جمال سمجھ گیا کہ اس ساری لیبارٹری کو کہیں سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔وہ یہ دیکھنے کی کوشش کرنے لگا کہ ان کا کنٹرول روم کہاں ہے؟
اچانک جمال کو خیال سوجھا، یہ بہت بڑا رسک تھا۔ لیکن اس نے اس پر عمل کرنے کا لمحہ بھر میں فیصلہ کر لیا۔ وہ کمرے سے نکلا اور ہال میں کھڑے لوگوں سے چیختے ہوئے وحشیانہ انداز میں زور زور سے بولا۔
”باہر نکل جاؤ، یہ لیبارٹری تباہ ہو نے والی ہے۔ فوراً باہر نکل جاؤ۔“
الارم کے پس منظرمیں گونجنے والی اس آ واز نے دہشت پھیلا دی۔وہ لوگ باہر کی طرف بھاگ کھڑے ہو ئے۔وہ شق ہونے والی دیوار کے پاس پہنچ گئے۔ دیوار شق ہوئی تو سامنے کرنل کے لوگ کھڑے تھے۔ انہوں نے لوگوں کو پکڑنا شروع کر دیا۔ اس ہلڑ بازی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے طارق اور شہزور نے سفید فام کو پکڑا اور باہر کی طرف لے جانے لگے۔جمال ان کے کور پر تھا۔ وہ تیزی سے دیوار کے پاس گئے، لوگوں کے درمیان سے راستہ بنایا اور باہر آ گئے۔ جہاں کرنل کے لوگ کھڑے تھے، جو لوگوں کے نکلتے ہی اندر داخل ہو گئے۔

……٭……

جوہری

رات ابھی گہری نہیں ہوئی تھی۔ دادا جی اپنی لیب میں موجود تھے۔ وہ نیلی روشنی کے بارے میں کافی ساری کامیابی حاصل کر چکے تھے۔ ایسے میں ان کے فون کی ہلکی ہلکی آ واز گونجنے لگی۔ وہ فون کی جانب متوجہ ہو ئے۔ اسکرین پر لندن کے اجنبی نمبر جگمگا رہے تھے۔ انہوں نے چند لمحے انتظار کیا پھر کال رسیو کر لی۔
”ہیلو!“ انہوں نے پر سکون لہجے میں کہا۔
”ڈاکٹر ولیم بات کر رہا ہوں۔ پہچانا مجھے ڈاکٹر الیاس؟“ دوسری جانب سے طنزیہ لہجے میں کہا گیا۔
”ہاں! پہچان گیا ہوں بولو کیا کہنا چاہتے ہو؟“ انہوں نے اسی پرسکون لہجے میں پوچھا۔
”کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں اپنے باپ کی خرچ کی ہوئی رقم کو ڈبو دوں گا؟“ اس نے دبے دبے غصے میں کہا۔
”میں سمجھا نہیں تم کہنا کیا چاہتے ہو؟“ دادا جی نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
”اتنی بڑی رقم میرے باپ نے اس تجربے پر خرچ کی، جس کے مالک تم بن گئے ہو، کیا میں تمہیں ایسا کرنے دوں گا؟“ اس نے پھر الجھا ہوا سوال کیا۔
”ڈاکٹرولیم، تم سیدھے سیدھے کہو، کہنا کیا چاہتے ہو؟“ دادا جی نے اس کی بات سمجھتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔
”دیکھو، یہ مت سمجھنا کہ ایک مارٹن کے پکڑے جانے سے، میں خاموش ہو کر بیٹھ جاؤں گا، مجھے چاہے جتنا بھی خرچ کر نا پڑے، میں کروں گا اور جی بوائے کو واپس اپنے پاس لاؤں گا، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔“اس نے غصے سے کہا۔
”کیا میں نے تمہیں روکا ہے کہ تم ایسا نہ کرو؟“ دادا جی نے پوچھا۔
”تم مجھے روکو بھی تو میں نہیں رکوں گا۔یہ فون میں نے اس لیے کیا ہے کہ تمہیں سمجھاؤں، تم سمجھ جاؤ تو زیادہ اچھی بات ہے، اس طرح تمہارا نقصان کم ہو گا، ورنہ میں تمہیں برباد کر دوں گا۔“ اس نے حقارت سے کہا۔
”تم مجھے کیا سمجھانا چاہ رہے ہو؟“ دادا جی نے پوچھا۔
”اصول یہی ہے کہ جہاں کا یہ تجربہ ہے، جہاں سے اس پر رقم خرچ ہو ئی ہے، اس تجربے کو وہیں واپس لایا جائے۔ یہ میرا حق ہے۔اگر تم نہیں مانو گے تو میں جی بوائے کو حاصل کرنے کی کوشش کر تا رہوں گا۔اس کے لیے ہو نے والی تمام تر تباہی کے ذمے دارتم ہو گے۔“ اس نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
”دیکھو ولیم، تمہاری کوتاہی سے یہ تجربہ ناکام ہو چکا ہے۔اب اس میں کوئی کوڈنگ نہیں ہو سکتی۔ میں اس…“دادا جی نے کہنا چاہا تو وہ درشت لہجے میں بات کاٹتے ہوئے بولا:
”ناکام ہے یا کامیاب، جیسا بھی تجربہ ہے وہ میرا ہے۔“
”یہ تم غلط کہہ رہے ہو، جتنا اس تجربے پر حق ڈاکٹر رچرڈ کا تھا، اتنا ہی اس کے ساتھ جڑی ٹیم کا بھی ہے، تم اس میں شامل ہی نہیں ہو، اس لیے تم دعویٰ کر ہی نہیں سکتے۔“ دادا جی نے ایک دوسرے پہلو سے اسے سمجھانا چاہا،تب وہ بولا:
”نہیں! مجھے وہ جی بوائے چاہیے۔ ہر حال میں چاہیے۔“
”اب اگرمیں خود بھی چاہوں توبھی وہ تمہیں نہیں مل سکتا۔کیونکہ جی بوائے اب اپنی سوچ کے تحت چلے گا، میں یا تم اس پر کوئی حکم نہیں چلا سکتے ہیں کیونکہ اب اس میں کوڈنگ نہیں ہو سکتی، تم یہ بات کیوں نہیں سمجھتے ہو۔“دادا جی نے کہا۔
”چلو دوسرا آ پشن لے لو۔ جتنی رقم اس تجربے پر خرچ ہو ئی ہے، وہ مجھے واپس کر دو، میں اس تجربے سے دستبردار ہو جاتا ہوں۔“ اس نے مکاری سے کہا۔
”میں اکیلا اتنی رقم کہاں سے دے سکتا ہوں۔“دادا جی نے کہا۔
”تو پھر یہ تجربہ تمہیں اپنے پاس رکھنے کا کوئی حق نہیں۔“ اس نے دھاڑتے ہوئے کہا۔
”دیکھو ولیم! تم میرے بچوں کی مانند ہو، ڈاکٹر رچرڈ کے ساتھ میرا بہت اچھا وقت گزرا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ تم مزید برباد ہو جاؤ۔ اپنے آ پ کو ٹھیک کرو اور بھول…“دادا جی نے کہنا چاہا تو وہ سخت لہجے میں بات کاٹتے ہوئے بولا۔
”تم مجھے نصیحتیں مت کرو۔میرا بہت نقصان ہو گیا ہے، ایک پورا جزیرہ اب تمہاری حکومت کے پاس چلا گیا ہے۔ وہاں جو کچھ ہو رہاتھا، وہ سب تباہ ہو گیا، تمہاری حکومت میرا کھوج لگا کر مجھ تک پہنچنے کی کوشش کرے گی۔“
”وہی کہہ رہا ہوں نا اپنا نقصان مت کرو۔ اب بھی سنبھل جاؤ۔“ دادا جی نے کہا۔
”نہیں! میں نہیں سنبھلنے والا۔ میرا چاہے سب کچھ خرچ ہو جائے، جتنا مرضی نقصان ہو جائے، میں جی بوائے کو حاصل کر کے رہوں گا، ورنہ جی بوائے کو بھی ماردوں گا، اور اس دوران جتنی تباہی آ ئے مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہو گی، یہ میری ضد ہے۔“ اس نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
”مجھے سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ تم چاہتے کیا ہو؟“ دادا جی نے اکتائے ہوئے انداز میں پوچھا تو وہ حقارت سے بولا:
”میری رقم واپس کر دو یا میرا تجربہ، ورنہ تباہی کے لیے تیار ہو جاؤ۔“
”یہ تم…“ دادا جی نے کہنا چاہا تو وہ سنی ان سنی کرتے ہوئے بولا:
”فیصلہ تم نے کرنا ہے، صرف آ ج رات ہے تمہارے پاس۔“
اس کے ساتھ ہی فون کال ختم ہو گئی۔ دادا جی نے چند لمحے فون کو دیکھا پھر اسے ایک جانب رکھتے ہوئے سوچنے لگے۔

٭

تربیتی مرکز کے ایک کمرے میں وہ سفید فام دیوار کے ساتھ لگا ہوا کھڑا تھا۔ اس کے ساتھ دوساتھی بھی ساتھ میں کھڑے تھے۔ ان کے سامنے کر سیوں پر کرنل افتخار، فیصل ممتاز،انسپکٹر منصور، جمال اور چند دوسرے لوگ موجود تھے۔تبھی کرنل نے سفید فام کی طرف دیکھتے ہوئے سخت لہجے میں پوچھا:
”تم نے یہاں زیر زمین لیبارٹری کیوں بنائی ہو ئی تھی؟“
”یہ میں نے نہیں بنائی، میں یہاں صرف کام کرتا تھا، یہ تو پتہ نہیں کب کی بنی ہوئی ہے۔“اس نے پر سکون انداز میں کہا۔
”اس کا مالک کون ہے؟“ انہوں نے پوچھا۔
”میں نہیں جانتا۔مجھے بس کام کے عوض رقم مل رہی ہے۔“اس نے کہا۔
”اچھا چلو، تھوڑی دیر کے لیے تمہاری بات مان جاتے ہیں۔ تم یہ بتاؤ، وہاں پر کام کیا کر رہے تھے؟“ کرنل نے پوچھا۔
”ہم یہاں تمہارے ملک کے ماحول کے مطابق ریز بنا رہے تھے۔ ایسی ریز جو تمہارے لوگوں پر استعمال کی جا سکے۔“ اس نے بتایا۔
”ہمارے لوگوں پر استعمال،کیوں، کس مقصد کے لیے؟“ انہوں نے پوچھا۔
”ہمیں نہیں معلوم کس مقصد کے لیے۔“ اس نے لاپروائی سے کہا۔
”اچھا تم لوگ کیسی ریز بنا رہے تھے؟“ انہوں نے پوچھا۔
”ہم تین طرح کی ریز بنا رہے تھے۔ ایک جس سے انسانی اعصاب بالکل ختم نہ ہوں بلکہ کافی حد تک کمزور ہوں جائیں۔ دوسری قسم اَن دیکھی ریز کی ہے، جنہیں سیکورٹی مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہو، وہ ریز دکھائی نہیں دیتی ہیں اس لیے کسی کو معلوم نہیں ہوتا اور وہ اس ریز کے حصار میں آ کر جھلس جاتا ہے۔ تیسری ایسی ریز جس سے کسی کو بھی قتل کیا جا سکتا ہو، لیکن اسے بہت محدود اور چھوٹی سے چھوٹی چیز میں بند کر دیا جائے کہ جب چاہیے استعمال کر لی جائے۔“
”جس طرح فائر سے کوئی جان دار مر سکتا ہے؟“ انہوں نے پوچھا۔
”جی بالکل، کسی کے ساتھ وہ چھوٹی شے لگا کر ہلکا سا دبایا جائے تو جس کے ساتھ لگایا جائے گا، وہ کچھ دیر بعد مر جائے گا۔“سفید فام نے بتایا۔
”اس قدر خطرناک ریز…“ کرنل نے بڑ بڑاتے ہوئے کہا۔
”سر! ایک سوال…“ فیصل ممتاز نے ہاتھ کھڑا کرتے ہوئے کہا۔
”جی… جی! پوچھیں۔“ کرنل نے کہا تو اس نے سفید فام کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
”وہ جگہ جہاں بھیڑیا جھلسا، وہ دن کے وقت تو نہیں چمکتا تھا لیکن رات کو پیلے رنگ میں کیوں چمکتا دکھائی دیتا تھا؟“
”جس طرح کسی فیکٹری کا دھواں ہو تا ہے، وہ ریز کا دھواں سمجھ لیں۔ ہم اسی پر قابو نہیں پا سکے، ورنہ تم لوگ ہمیں کبھی تلاش نہیں کر سکتے تھے۔“ سفید فام نے اکتاہٹ سے کہا تو ایک ماہر بولا۔
”سر! اس لیبارٹری کو ہم دیکھ لیں گے، آپ اس کے مالک کو تلاش کریں۔“
”دیکھو، میں نے آپ لوگوں کے ساتھ بہت تعاون کیا، اب آپ مجھے چھوڑ دیں۔“ سفید فام نے کہا تو کرنل بولا۔
”ابھی تمہارے تعاون کی بہت ضرورت ہے، ابھی تو بہت کچھ پوچھنا ہے۔“ یہ کہہ کر اس نے انسپکٹر منصور کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:
”اسے لے جائیں اور اسے بہت کچھ سمجھانے کی کوشش کریں۔“
یہ گویا عندیہ تھا کہ وہ اسے لے جا کر جو ہو سکتا ہے، کریں اور اس سے مزید معلومات لیں۔ انسپکٹر منصور نے سفید فام کو اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔ باقی دونوں ساتھی وہیں کھڑے رہے۔ جمال اٹھا اور ان کے پیچھے چل دیا۔
وہ سفید فام کمرے کے ٹھنڈے فرش پر پڑا تھا۔ اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ بہت پریشان ہے۔اس کا رنگ اُڑا ہوا تھا۔ اتنے میں انسپکٹرمنصور اور جمال کمرے میں آ گئے۔ وہ دونوں اس سے کچھ فاصلے پر رکے اور اسے مسلسل گھورنے لگے۔
”کیا چاہتے ہو تم؟“ سفید فام نے تیزی سے پوچھا۔
”یہی کہ وہ شخص کون ہے جو اس لیبارٹری کا مالک ہے؟“انسپکٹر نے پوچھا۔
”میں نے کہا نا، مجھے اس کا علم نہیں۔“ اس نے اکتاہٹ سے جواب دیا تو جمال نے غصے میں اس کی طرف دیکھا اور پھر خود پر قابو پاتے ہوئے پوچھا:
”کیا تم نے ٹیب میں بھی ریز کا تجربہ کیا ہے؟“
”نہیں، میں اس بارے ابھی نہیں جانتا۔“ اس نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا تو جمال آ گے بڑھا اور اس نے فرش پر بیٹھے ہوئے سفیدفام کو گردن سے پکڑا اور اوپر کی جانب اچھال دیا۔ وہ کمرے کے درمیان تک گیا اور پھر دھڑام سے فرش پر آ گر ا۔ وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے جمال کی طرف دیکھنے لگا۔اس نے جی بوائے کے بارے میں سنا ضرور تھا لیکن دوسری بار اس کی صلاحیت دیکھ رہا تھا۔ پہلی بار محض پھرتی دیکھی تھی، اب اصل قوت دیکھ رہا تھا جس نے اسے حیرت زدہ کر دیا۔ وہ اس قدر حیران تھا کہ فرش پر گرنے سے لگنے والی چوٹ بھی بھول گیا تھا۔ جمال پھر آ گے بڑھا، اس نے اسے گردن سے پکڑااور اوپر اٹھانے لگا تھا کہ وہ چیخا:
”مجھے مت مارو۔“
”اگر تمہیں کچھ پتہ ہی نہیں ہے تو پھر تمہیں یوں مہمان بنا کر رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے گردن پر دباؤ بڑھایا اور پھر اسے اچھا ل دیا۔ سفید فام جیسے ہی دوبارہ فرش پر آ کر گرا تو دہرا تہرا ہو گیا۔کچھ دیر تک تو وہ اذیت برداشت ہی نہ کر سکا۔پھر سسکتے ہوئے بولا:
”مجھے کچھ علم نہیں۔“
”نہ ہو… اچھا ہے…“ یہ کہتے ہوئے جب وہ تیسری بار آ گے بڑھا تو سفید فام چیخ اٹھا:
”بتاتا ہوں۔“
”ہاں! اب بتاؤ۔“ جمال نے کہا تو وہ درد کی اذیت سے ٹھہر ٹھہر کر بولا:
”اس شہر کا… ایک جو ہری… جوایک… بڑا بزنس… بھی رکھتاہے… وہ پارٹنر ہے… اصل مالک… کسی دوسرے ملک… رہتا ہے…“
”اس شہر کا جوہری… نام کیا ہے؟“ انسپکٹر منصور نے تیزی سے پوچھا۔
”میں سچ میں نہیں جانتا لیکن اتنا پتہ ہے صرف وہی یہاں پر ہیرے تراشتا ہے۔“ اس نے تیزی سے کہا۔
”تم اتناجانتے ہوکہ وہ جوہری ہے اور اس کے بارے پتہ نہیں؟“ انسپکٹر نے پوچھا۔
”میرا کبھی اُس سے رابطہ نہیں ہوا، نہ میں جانتا ہوں، میرا باس وہ ہے جو باہر رہتا ہے۔“اس نے فر فر بولتے ہوئے کہا۔
”اسی طرح تمہیں ٹیب کے بارے بھی معلوم ہو گا، وہ بتا ؤ۔“ انسپکٹر نے کہا۔
”میں آپ کو سچ کہہ رہا ہوں، مجھے اس بارے کچھ پتہ نہیں۔“اس نے کہا تو جمال آ گے بڑھا، وہ ہذیانی انداز میں چلاتے ہوئے بولا:
”یقین جانو مجھے نہیں پتہ… نہیں پتہ مجھے…“
اس کے یوں چلانے پر جمال رک گیا۔ وہ چندلمحے اس کی طرف سوچتے ہوئے دیکھتا رہا، پھر انسپکٹر سے بولا:
”شہر میں کتنے جوہری ہیں، ان میں وہ جو ہیرے تراشتے ہیں، انہیں فوراً پکڑ لیں، ورنہ وہ بھی ہاتھ سے نکل جائیں گے۔“
”بالکل، پہلے یہ کام تو کریں۔“اس نے کہا اور اپنی جیب سے سیل فون نکال کر باہر کی جانب چل دیا۔جمال نے سفید فام کی طرف دیکھااور پوچھا:
”اب بھی وقت ہے، تمہیں جو کچھ بھی معلوم ہے بتا دو، ورنہ تم مجھے راکھ نہ کر سکے لیکن میں تمہیں کر دوں گا۔“
”میں سچ کہہ رہا ہوں۔“
”اوکے۔“ جمال نے کہا اور کمرے سے نکلتا چلا گیا۔

……٭……

جوہری کا قتل

رات آ دھی سے زیادہ گزر چکی تھی، جس وقت جمال گاڑی میں اپنے گھر کے پورچ میں رکا۔اس نے وہیں گاڑی بند کی اور اندر کی جانب بڑھ گیا۔ اس کی ماما ابھی تک پورچ میں بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھیں۔
”ماما، بہت بھوک لگی ہے۔ پلیز کھانا دے دیں۔“
”مگر یہ تو اچھی بات نہیں۔ تم رات اتنی دیر تک باہر رہو۔“ ماما نے ناراضگی میں کہا۔
”ماما! اب میں جان بوجھ کر تھوڑی باہر رہتا ہوں، مجھے مجبوری میں باہر جانا پڑتا ہے۔ آپ پلیز کھانا دے دیں، باتیں بعد میں کرتے ہیں۔“ اس نے لاڈ سے کہا تو ماما بولیں:
”اچھا جاؤ پہلے فریش ہو جاؤ، پھر سیدھے کچن میں آ جانا۔“
”ٹھیک ہے ماما۔“ اس نے کہا اور اپنے کمرے کی جانب چل پڑا۔
تھوڑی دیر بعد جب وہ فریش ہو کر باہر آ یا تو لاؤنج میں دادا جی بھی موجود تھے، انہیں جمال کے آ نے کی خبر مل گئی تھی۔وہ ان کے پاس بیٹھ گیا۔
”کہاں رہے تم؟“ دادا نے پوچھا تو وہ دھیرے دھیرے روداد سنانے لگا۔ دادا جی غور سے ساری بات سنتے رہے۔ وہ کہہ چکا تو بولے:
”مطلب ابھی تک ٹیب کے بارے میں پتہ نہیں چلا۔“
”لیکن نیلی روشنی کا پتہ…“اس نے کہنا چاہا تو دادا جی بولے:
”وہ مجھے معلوم ہے۔“ یہ کہتے ہوئے انہوں نے فون نکالا اور کرنل افتخار کے نمبر ملانے لگا، کچھ دیر بعد رابطہ ہو گیا۔ حال احوال کے بعد انہوں نے کہا:
”وہ جو سفید فام پکڑا گیا ہے آج، اسے ضائع مت ہو نے دیجئے گا، میں اس سے بات کرنا چاہوں گا۔“ یہ کہہ کر وہ دوسری جانب سے سننے لگے پھر چند الوداعی باتوں کے بعد فون بند کر دیا۔
”دادا جی! جو بندہ وہاں لیب چلا سکتا، اس کے پاس کچھ نہ کچھ تو معلومات ہوں گی۔“
”ہاں، دیکھیں اس سے کوئی نئی بات ملتی ہے یا نہیں۔“ یہ کہہ کر وہ چند لمحے سوچتے رہے پھر بولے:
”وہ لیب کا بندہ تھا، اگر کوئی کمانڈو قسم کا ہوتا تو شاید تم لوگوں کو لینے کے دینے پڑ جاتے۔“
”آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، میرے خیال میں ان کی لا پروائی نے انہیں پکڑوا دیا۔ورنہ ان کے بارے میں پتہ ہی نہ چلتا۔“ جمال نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
”ہاں مگر تم اب زیادہ محتاط رہنا۔“ دادا جی نے تشویش سے کہا۔
”خیریت…؟“ اس نے چونکتے ہوئے پوچھا تو دادا جی نے اُسے ڈاکٹر ولیم کی فون کال کا بتاکر کہا:
”وہ زخم خوردہ ہے۔ جیسے کوئی زخمی سانپ۔ وہ پلٹ کر ڈسے گا ضرور۔“
”چلیں دیکھتے ہیں۔“ اس نے کہا اور کچن کی طرف دیکھا۔ ان کے درمیان شاید مزید بات ہو تی لیکن انہی لمحات میں ماما کھانا لے کر آ گئیں۔ وہ وہیں آ لتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔
کھانے سے فراغت کے بعد وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ وہ لیٹا اوردن بھر ہونے والی مصروفیت کے بارے میں سوچتا ہوا نیند کی وادی میں کھو گیا۔
اس کی آ نکھ اچانک ہی کھلی تھی۔ اسے فوراً سمجھ میں نہیں آ یا کہ اچانک وہ نیند سے بیدار کیوں ہوا ہے۔ وہ چند لمحے ادھر اُدھر دیکھتا رہامگر اسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ یا۔وہ خالی الدماغ کا فی دیر بیٹھا رہا۔ مگر اسے جاگنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آ ئی۔ اس وقت وہ دوبارہ لیٹ جانے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس کی نگاہوں کے سامنے تاریکی چھا گئی۔ایک دم سے اس کا دوران خون تیز ہو گیا۔ اسے پتہ چل گیا کہ کوئی ایسا منظر دکھائی دینے والا ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے اس کی مدد ہو گی۔
تاریکی گہری ہو گئی تھی۔دھیرے دھیرے تاریکی چھٹنے لگی تو اس میں ایک سڑک دکھائی دی، جو کبھی اوپر ہو تی اور کبھی نیچے ہو جاتی۔ اس نے غور کیا وہ سڑک شہر میں موجود تھی۔ اس کے ارد گرد بلڈنگیں بھی ہو لے ہو لے لرز رہی تھیں۔ اس کی نگاہ ایک بلڈنگ کے ستون پر پڑی۔ایک سیاہ لکیر اس کے گرد لپٹی ہوئی تھی۔
اچانک وہ لکیر ستون سے تیر کی مانند اس کی جانب بڑھی اوراسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بلڈنگ تو لرزنا بند ہو گئی لیکن اسے لگا جیسے وہ سیاہ لکیر اسے نچوڑ کر رکھ دے گی۔اس کے ساتھ ہی اسے یوں آ وازیں سنائی دینے لگی جیسے کوئی گراریاں چل رہی ہوں۔ اس نے قوت لگا کر خود کو اس سیاہ لکیر کے حصار سے خود کو چھڑانا چاہا تو وہ ہوا میں اُڑتا ہوا دور جا گرا۔جب وہ دوبارہ اٹھا تو ہر شے ساکن ہو چکی تھی۔ وہ سیاہ لکیر دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
تاریکی ہٹ چکی تھی۔اسے سمجھ نہ آیاکہ یہ کیسا منظر تھا۔وہ کچھ دیر تک دماغ لڑاتا رہا لیکن ایک بھی اشارہ اس کے پلے نہیں پڑا۔ اس نے سوچنا بند کر دیا لیکن اس منظرسے وہ سمجھ گیا کہ کچھ نہ کچھ ہو نے والا ضرور ہے۔اس کی نیند ایک دم سے اچاٹ ہو گئی تھی۔ وہ فریش ہو نے کے لیے اٹھ گیا۔
وہ ناشتہ کر چکا تو اس کے دادا نے پوچھا:
”میں تربیتی مرکز جا رہا ہوں، کیا تم وہاں جانا چاہو گے؟“
”نہیں دادا جی، میرا وہاں کوئی کام نہیں ہے۔“ اس نے سکون سے کہا۔
”گھر پر رہو گے کیا؟“انہوں نے پوچھا۔
”ظاہر ہے، آج میں ماما کے ساتھ رہوں گا۔“اس نے اپنی ماما کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو دادا جی نے ہنستے ہوئے کہا:
”تمہیں یہ بھی تجسس نہیں کہ اس جوہری کو پکڑ لیا ہے کہ نہیں؟“
”وہ مجھے آپ بتا دیں گے۔میں بہر حال آ ج گھر پر ہی ہوں۔“ اس نے ہنستے ہوئے کہا تو دادا جی سمجھ گئے کہ وہ اپنی ماما کو خوش کرنا چاہتا ہے۔تبھی انہوں نے ایک سیل فون اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا:
”اچھا یہ لو، یہ میں نے تمہارے لیے لیا ہے۔“
”دادا جی بہت شکریہ! لیکن مجھے اس کی ضرورت تو ہوتی نہیں۔“ اس نے خوش ہو تے ہوئے کہا۔
”نہیں بیٹا، اسے اپنے پاس رکھو، اس میں کافی کچھ خاص ہے، وہ میں تمہیں بعد میں بتاؤں گا۔ابھی یہ رکھو۔“ انہوں نے کہا تو جمال نے وہ فون لے لیا۔
تھوڑی دیر بعد دادا جی چلے گئے۔ وہ اپنی ماما کے پاس لاؤنج میں آ بیٹھا۔ اس نے وہیں سے انسپکٹر منصور کو کال کی۔کچھ دیر بعد ہی رابطہ ہو گیا۔
”انکل! کیا بنا پھر اس جوہری کا؟“
”پورے شہر میں ایک ہی جوہری تھا جس کے ہیرے یہاں تراشے جاتے تھے۔ اس کی لیب مل گئی ہے۔ لیکن وہ کل شام ہی سے لا پتہ ہے، کسی کو پتہ نہیں وہ کدھر گیا۔“
”مطلب، بندہ مل گیا ہے۔“ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
”ہاں، یہ وہی جوہری نکلا، جس کی لیب میں سے بہت سارے ٹیب ملے ہیں، وہیں پر ان میں پروگرام انسٹال کیا جاتا تھا۔“ انہوں نے بتایا۔
”عام ٹیب لے کر اس میں ریز والا پروگرام انسٹال کر دیا جاتا تھا۔ ہیرے تراشنے کی لیب کی آ ڑ میں یہ کام ہو رہا تھا۔“ اس نے پوری طرح تصدیق چاہی۔
”بالکل ایسا ہی ہے۔“ انہوں نے تصدیق کر دی۔
”اب وہ جوہری ملے تو پتہ چلے کہ یہ سارا کھیل کیوں کھیلا جا رہا تھا۔“ اس نے بے چینی سے کہا تو انسپکٹر بولا:
”ہاں ایسا ہی ہے، بہت جلد ہم اسے تلاش کر لیں گے۔“
”کیا وہ باہر جا سکتا ہے، مطلب ملک سے باہر…؟“
”پتہ نہیں، ائیر پورٹ پر تو سخت نگرانی لگ چکی ہے۔ اب دیکھیں۔“ انہوں نے کہا اور الوداعی باتوں کے بعد فون بند کر دیا۔
دو پہر کے بعد تک جمال اپنی ماما کے ساتھ ہی رہا۔ دادا جی سہ پہر کے وقت واپس آ گئے تھے۔ان سے معلوم ہوا کہ وہ جوہری روپوش ہے تاحال مل نہیں پا رہا ہے۔ وہ ملے تو پتہ چلے کہ آخر وہ ٹیب کیوں بنائے جا رہے تھے، جن سے لوگ بے ہوش ہو جاتے تھے۔
شام کے وقت وہ اپنی ماما کے ساتھ لاؤنج ہی میں بیٹھا ہواتھا۔ ایسے میں جمال کے پاس جیب میں پڑا فون بج اٹھا۔ پہلے تو اسے معلوم نہیں ہوا، پھر اسے جیسے یاد آ گیا۔ اس نے فون نکالا اور کال رسیو کر لی۔
”انسپکٹر منصور بات کر رہا ہوں۔“
”آپ کو میرا فون نمبر کیسے ملا؟“ اس نے خوشگوار حیرت سے پوچھا۔
”ڈاکٹر الیاس کویہ فون میں نے ہی دیا تھا۔ خیر، میری بات سنو۔“
”جی جی بولیں۔“ جمال نے تیزی سے کہا۔
”جس جو ہری کی تلاش میں وہ پورا شہر چھان رہے تھے۔ وہ قتل کر دیا گیا ہے۔“انسپکٹر منصور نے بتایا۔
”اوہ، یہ کیا ہوا؟“ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
”کسی نے اسے مار کر شہر کی معروف شاہراہ پر پھینک دیا تھا۔ اب میں اس طرف ہی جا رہا ہوں۔“اس نے بتایا۔
”یہ اچھا نہیں ہوا۔“ وہ تاسف سے بولا۔
”ہاں، اب ہمیں مزید کچھ سوچنا ہو گا۔خیر میں کرتا ہوں تمہیں فون۔“ اس نے کہا اور کال بند کر دی۔اس نے فون اپنی جیب میں رکھا اور سوچنے لگا۔
لازماً یہ انہی لوگوں نے اس جوہری کو قتل کیا ہے جن کا وہ آ لہ کار تھا۔ انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ اب جوہری کو پکڑا جا رہا ہے تو راز فاش ہو نے کی وجہ سے انہوں نے جوہری ہی کو ختم کر دیا۔ وہ کچھ دیر وہیں بیٹھا سوچتا رہا، پھر اس سے رہا نہیں گیا۔ اس نے کار کی چابی اٹھائی اور باہر نکلتا چلا گیا۔
انسپکٹر کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچنے میں اسے پندرہ منٹ سے زیادہ کا وقت لگ گیا۔ اس نے گاڑی ایک بلڈنگ کے سامنے پارکنگ میں کھڑی کی اور اس جگہ کی جانب بڑھا جہاں لاش پھینکی گئی تھی۔ اسے وہاں تک پہنچنے میں دیر ہو گئی تھی۔ جوہری کی لاش اٹھالی گئی تھی۔ وہیں سے اسے پتہ چلا تھا کہ اسے ہسپتال لے کر گئے ہیں۔ وہ ہسپتال جانے کے لیے تیزی سے مڑا اور اپنی کارکی جانب جانے لگا۔ وہ فٹ پاتھ سے اتر کر بلڈنگ کے سامنے پارکنگ میں پہنچا۔
ابھی وہ اپنی کارسے چند قدم کے فاصلے پر تھا۔ اچانک بلڈنگ کے ستون کے ساتھ کھڑا ایک سیاہ کپڑوں میں ملبوس شخص آ نا فا ناً اس کے سامنے آ یا اورپتہ ہی تب لگا جب لمحے سے بھی کم وقت میں اس کے ساتھ آ لپٹا۔ اس نے جمال کو اپنے گھیرے میں لیا تو جمال کو یوں لگا جیسے اس کی پسلیاں ٹوٹ جائیں گی۔ خطرہ محسوس ہوتے ہی جمال کی کیفیت بدل گئی تھی۔اس نے قوت لگا کر اسے خود سے الگ کرنا چاہا لیکن نہیں کر پایا۔ وہ بے بس ہو چکا تھا۔
اچانک وہ سیاہ پوش پیچھے ہٹااور ا س نے جمال کو چھوڑ دیا۔ جمال بے حال ہو گیا تھا، اس سے پہلے کہ وہ خود پر قابو پاتا، وہ سیاہ پوش آ گے بڑھا، اس نے جمال کو کمر سے پکڑا اور اسے ہوا میں اچھال دیا۔وہ کافی اوپر اٹھا اور فٹ پاتھ سے بھی آگے سڑک پر جا پڑا۔ گرتے ہی اسے چوٹ کا احساس تو نہ ہوالیکن وہ کسی ربر کی مانند اچھلا اور اس سیاہ پوش کو پکڑنے کے لیے اس کی جانب بڑھا۔ مگر وہاں پر کوئی نہیں تھا۔ وہ غائب ہو چکا تھا۔
وہاں موجود لوگ آ نکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہے تھے۔ ظاہر ہے ان کی نگاہ میں وہ ایک عام سا لڑکا تھا۔جسے کسی شخص نے اچھا ل کر پھینکا تھا۔ یہ اتنی حیرت انگیز بات نہیں تھی، لوگ حیران اس پر تھے کہ وہ گرتے ہی دوبارہ اٹھ کر اس شخص کو تلاش کر نے لگا تھا جس نے اسے اچھالا تھا۔اس نے بے ساختہ لوگوں سے پوچھا:
”کدھر گیا وہ…؟“

لیکن کسی نے بھی اس کی بات کا جواب نہیں دیا، وہ سب اسے دیکھ رہے تھے۔ چند لمحوں ہی میں جمال کو احساس ہو گیا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا اور پھر اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔ وہ تیز قدموں سے چلتا ہواکار کی طرف بڑھا۔کار بڑھاتے ہوئے اسے صبح کا دیکھا ہوا منظر یاد آ گیا۔ ویسا ہی ہوا تھا جو اس نے دیکھا تھا لیکن وہ تھا کون؟اس کی سمجھ نہیں آ ئی۔
وہ ہسپتال کے گیٹ تک جا پہنچا۔ اس نے کار پارک کی، سیدھا استقبالیہ پر گیا، وہاں سے معلومات لے کر تیزی سے اس طرف جانے لگا جہاں اسے انسپکٹر منصور مل سکتا تھا۔ ذرا سی تلاش کے بعد اسے انسپکٹر منصور مل گیا۔سامنے کمرے میں ایک لاش پڑی تھی۔ وہ شہر کے مشہور جو ہری کی لاش تھی، اس کی تصویریں اس نے بارہا اخباروں میں دیکھی ہوئی تھیں۔
”کچھ پتہ چلا، اس کے بارے…؟“ جمال نے تشویش سے پوچھا۔
”ابھی تو کہیں سے کوئی اطلاع نہیں ملی، یہی خیال کیا جا سکتا ہے کہ قاتل وہی ہو سکتے ہیں،جن کا راز فاش ہو نے کا ڈر تھا۔“اس نے مایوسانہ انداز میں کہا۔
”پوسٹ مارٹم…“ اس نے کہتے ہوئے بات ادھوری چھوڑ دی۔
”ہاں، دو فائر ہو ئے ہیں سینے پر، تشدد کا کوئی نشان نہیں۔“ انسپکٹر نے ہولے سے بتایا۔
”مطلب کسی نے بڑے قریب سے اسے مارا، پھر لا کر سڑک پر پھینک دیا۔ یہ ایک طرح سے ہمیں بھی چیلنج ہے۔“ جمال نے دبے دبے غصے میں کہا۔
”جیسے مرضی سمجھ لو، مگر اس راز کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔“ انسپکٹر نے کہا تو وہ خاموشی سے ایک طرف ہو کر کھڑا ہوگیا۔
اس نے اپنے وجدان سے بہت زیادہ مدد لینے کی کوشش کی کہ کوئی اشارہ مل جائے، کہیں کوئی نکتہ سوجھ جائے مگر اس کا دماغ اسی سیاہ پوش شخص کی طرف تھا، جو اس سے بھی کہیں زیادہ طاقت ور ثابت ہوا تھا۔وہ کچھ دیر وہیں کھڑا رہا، پھر انسپکٹر سے کہا:
”کیا میں تربیتی مرکز نہ چلا جاؤں، ساری اطلاعات وہیں کنٹرول روم میں آتی ہیں، شاید کوئی کام کی بات مل جائے…؟“جمال نے پوچھا۔
”ہاں! چلے جاؤ، یہاں رہ کر بھی کیا کرنا ہے۔ یہ لاش وارثوں کے حوالے کر کے میں بھی آ تا ہوں۔“ اس نے کہا تو جمال سر ہلاتا ہوا ہسپتال سے باہر جانے کے لیے نکل پڑا۔

……٭……

عجیب خبر

جمال تربیتی مرکز کے اس کمرے میں بیٹھا ہوا تھا، جہاں ہر طرف سے اطلاعات آ رہی تھیں۔ وہ ایک طرح سے کنٹرول روم تھا۔شہر بھر کے اہم مراکز کے مناظر وہاں دکھائی دے رہے تھے۔ اس نے وہاں کے انچارج سے کہا:
”جوہری کو جس جگہ پھینکا گیا، کیا اس جگہ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ کون پھینک کر گیا، اس بارے کوئی معلومات مل سکتی ہیں۔“
”جی! میں نے اس کی ویڈیو فوٹیج بنا لی ہے، یہ دیکھیں۔“ اس نے اپنے کمپیوٹر اسکرین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
وہاں ایک سڑک کا منظر تھا۔ معمول کی ٹریفک جاری تھی۔ اسی دوران ایک کار آ کر رکی، اس کے اگلے دونوں دروازے کھلے، ان میں سے دو آ دمی برآمد ہوئے، انہوں نے پچھلے دروازے کھولے، پھر ایک لاش نکالی، اسے فٹ پاتھ پر رکھا، چشم زدن میں واپس بیٹھے اور رفو چکر ہو گئے۔
”کار کا نمبر… پیچھے کرنا ذرا۔“ جمال نے کہا۔
”نہیں ہے۔“ اس نے کہا اور فوٹیج تھوڑا پیچھے کر تے ہوئے بولا،”اس کار کو اور ان لوگوں کو تلاش کیا جا رہا ہے، امید ہے جلدی مل جائیں گے۔“
”گڈ ہو گیا۔“جمال نے کہا پھر لمحہ بھر رُک کر بولا:
”اچھا میں آ پ کو ایک لوکیشن سمجھاتا ہوں، وہاں کی اگر فوٹیج مل جائے تو…“
”بتائیں۔“ اس نے کہا تو جمال نے اسے لوکیشن سمجھائی۔
”یہ تو وہی جگہ ہے نا جہاں سے جوہری کی لاش ملی تھی؟“اس نے پوچھا۔
”بالکل وہی، تھوڑا سا ادھر۔“ جمال نے اسکرین پر سمجھاتے ہوئے کہا۔
”میں کوشش کرتا ہوں۔ممکن ہے مل جائے۔“اس نے کہا اور کمپیوٹر کی جانب متوجہ ہو گیا۔اسکرین پر مختلف زاویوں سے مناظر دکھائی دینے لگے۔ایک منظر وہ بھی سامنے آ گیا جہاں پر جمال نے کار پارک کی تھی۔
”یہیں رکیں ذرا…“ جمال نے تیزی سے کہاپھر ایک مقام پر انگلی رکھ کر بولا:
”یہاں پر فوکس کریں۔“
اسکرین پر بلڈنگ کا وہ ستون دکھائی دینے لگا تھا، جس کی آ ڑ میں وہ سیاہ پوش کھڑا تھا۔ منظر وہیں پر ساکت ہواوا تھا۔فوکس ہو نے کی وجہ سے وہ منظر کافی دھندلا سا ہو گیا تھا، لیکن وہ سیاہ پوش اچھی طرح دیکھا جا سکتا تھا۔
وہ درمیانے سے قد کا نوجوان تھا۔ اس نے سیاہ جین نما پتلو ن اور جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ سر پر سیاہ رنگ کی ٹوپی تھی۔ اس کا چہرہ سفید تھا۔اس کے نین نقش کافی تیکھے تھے۔ پہلی نگاہ میں وہ کوئی غیر ملکی لگ رہا تھا۔
”کیا آپ اس بندے کو تلاش کر نا چاہتے ہیں؟“اس نے پوچھا۔
”ہاں!“ جمال نے سوچتے ہوئے ہنکارا بھرا۔اس کی نگاہیں سکرین پر جمی ہوئی تھیں۔ اس فوٹیج کو آ ہستہ آ ہستہ آ گے بڑھایا جا رہا تھا۔جیسے جیسے وہ فوٹیج آگے بڑھ رہی تھی اسی طرح انہوں نے دیکھا، وہ نوجوان پہلے الرٹ ہوا، پھر وہ ستون کی آ ڑ سے نکل کر آ گے بڑھا، وہ جمال کے پاس پہنچا، اس سے گتھم گتھا ہوا، پھر اسے ہوا میں اچھا ل دیا۔اس کے ساتھ ہی وہ واپس مڑااور بلڈنگ کی جانب بڑھتے ہوئے نگاہوں سے اوجھل ہوگا۔
”اس بندے کو تلاش کرناہے۔“جمال نے دبے دبے جوش سے کہاتو کمپیوٹر والا نوجوان سمجھ گیا کہ اس سیاہ پوش کو تلاش کیا جانا کیوں ضروری ہے، اس لیے سر ہلاتے ہوئے آ ہستہ سے بولا:
”آپ فکر نہ کریں، میں اسے تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں، شہر بھر کے کیمرے میرے سامنے ہیں، ہاں مگر تھوڑا وقت لگ سکتا ہے۔“
”کوئی بات نہیں، میں سمجھتا ہوں، آپ اسے دیکھیں۔“ جمال نے کہا اور واپس کرنل افتخار کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔کرنل آ فس میں نہیں تھے۔وہ ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔
اس کا دماغ صرف ایک ہی نکتے پر سوچ رہا تھا۔وہ سیاہ پوش اس سے کہیں زیادہ طاقت رکھتا تھا۔ جس طرح سیاہ پوش نے اسے پکڑا، اپنے شکنجے میں کسا، اپنی طاقت کا احساس دلایا اور پھر اسے ہوا میں اچھا ل کر ایک دم سے غائب ہو گیا۔ اس سیاہ پوش نے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا لیکن وہ ایک واضح پیغام دے گیا تھا۔ جمال کواپنی قوت پر نازاں نہیں ہونا چاہیے، اس سے بھی زیادہ طاقت ور موجود ہیں،جو اسے لمحوں میں چت کر سکتے ہیں۔اسی سوچ کے ساتھ ساتھ کئی سوال اس کے ذہن میں گونج رہے تھے۔
وہ سیاہ پوش کون تھا؟
اس نے جمال ہی کو ایسا پیغام کیوں دیا؟
کیا یہ پیغام اس کے لیے تھا یا اس کے ذریعے کسی دوسرے تک یہ پیغام پہنچایا گیا تھا؟
کیا یہ ڈاکٹر ولیم کی اسے اغوا کرنے کی ایک اور کوشش تو نہیں ہے؟
وہ اپنے خیالوں میں الجھا ہوا تھا کہ کرنل افتخار آ گئے۔وہ اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولے:
”جمال تم نے بتایا ہی نہیں، کسی سیاہ پوش سے تمہارا ٹکراؤ ہو گیا تھا۔“
ان کے پوچھنے پر ساری روداد انہیں سنا دی۔ اس کے ساتھ وہ سوال بھی کہہ دئیے جو اس وقت اس کے ذہن میں کلبلا رہے تھے۔ سب کچھ سن کر وہ تھوڑی دیر تک خاموش رہے۔
”دیکھو، دشمن طاقت ور ہو تا ہے یا نہیں، بحث اس سے نہیں لیکن حملہ آ ور کو صرف یہ فوقیت ہوتی ہے کہ وہ باخبر ہو تا ہے، لیکن جس پر حملہ کیا جا رہا ہو وہ بے خبر ہو تا ہے۔یاد رکھو، دھوکا دینے والا بزدل ہوتا ہے۔“
”آپ ٹھیک کہتے ہیں سر! اگر مجھے معلوم ہوتا نا تو وہ مجھے یوں سڑک پر اچھال نہیں سکتا تھا۔“جمال نے دھیمے لفظوں میں کہا۔
”جہاں تک میرا خیال ہے، وہ سیاہ پوش دوبارہ ضرور تمہارے سامنے آ ئے گا، اس وقت کے لیے ابھی سے خود کو تیار رکھو۔ اب وہ کب اور کیسے تمہارے سامنے آ تا ہے۔یہ حتمی طور پر تو نہیں کہا جا سکتا۔اب وہ ایسا کیوں کر ے گا، یہ تو وہی بتا سکتا ہے۔“کرنل نے سوچتے ہوئے کہا۔
”میں یہ سمجھتا ہوں سر! میں اب بہت زیادہ محتاط رہوں گا۔“جمال نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ان دونوں کے درمیان خاموشی چھا گئی، جیسے وہ اپنے اپنے طور پر کچھ سوچ رہے ہوں۔کچھ دیر بعد کرنل نے کہا:
”ہم اس سیاہ پوش کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔بہت جلد اس سے ہمارا سامنا ہو جائے گا۔تم سمجھ رہے ہو نا میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں۔“
”میں سمجھ گیا ہوں۔میں خود اس کی تلاش میں نکلوں گا۔“ جمال نے حتمی انداز میں کہا، ممکن ہے ان کے درمیان مزید باتیں چلتیں، انہی لمحات میں ایک جوان اندر آیا، اس نے بادب انداز میں کرنل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:

”سر! ایک عجیب سی خبر ہے۔“
”عجیب سی خبر… تم کہنا کیا چاہتے ہو؟“ کرنل نے تجسس سے پوچھا۔
”سر! شہر کے مختلف مقامات پر ایک ہی جیسی وارداتیں ہو رہی ہیں اور شاید ایسی مزید بھی ہوں۔“ اس نے نپے تلے انداز میں تحمل سے بتایا۔
”کیسی وارداتیں… کوئی ایک بتاؤ؟“ کرنل نے الجھتے ہوئے پوچھا۔
”سر! وہ ایک جیسی ہی ہیں۔ دو یا تین لوگ کسی بھی پارکنگ میں جاتے ہیں۔ ان کے پاس ڈنڈے ہوتے ہیں۔وہ پارکنگ میں داخل ہوتے ہی ڈنڈوں سے گاڑیوں کے شیشے توڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ دو سے تین منٹ تک ایسا کرتے رہتے ہیں پھر ڈنڈے وہیں پھینک کر رفو چکر ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک ہی جیسے وارداتیں، اب تک آ ٹھ مقامات پر ہو چکی ہیں۔“ اس نے تفصیل سے بتایا تو کرنل نے پوچھا:
”کیا ان لوگوں کو پکڑنے کی کوئی کوشش کی گئی ہے؟“
”سر! وہاں کے لوگوں کو جیسے ہی پتہ چلتا ہے، وہ انہیں پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اب تک کہیں بھی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی، سبھی نکل جاتے ہیں۔“ اس نے بتایا۔
”مطلب، اب تک کوئی نہیں پکڑا گیا؟“ انہوں نے پوچھا۔
”جی نہیں سر! ابھی تک کوئی نہیں۔“ جوان نے مؤدب انداز میں بتایا۔
”انہیں پکڑنے کے لیے کیا اقدامات کئے گئے ہیں۔“ کرنل نے پوچھا۔
”سر! شہر کی تمام فورسز الرٹ ہو گئی ہیں۔اگر ایسی کوئی مزید واردات ہو تی ہے تو وہ لوگ بچ کر نہیں جا سکتے۔“
”کیا ان کی کوئی فوٹیج دیکھی جا سکتی ہے؟“ جمال نے اچانک پوچھا۔
”ہم بھی شہر کے مناظر دیکھ رہے ہیں اور کچھ فوٹیج ہمیں موصول ہو گئی ہیں۔“ اس نے تیزی سے بتا یا۔
”ٹھیک ہے تم چلو، ہم آ رہے ہیں۔“ کرنل نے کہاتو وہ جوان کمرے سے نکلتا چلا گیا۔ کچھ لمحے بعد کرنل نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”آ ؤ دیکھیں، یہ کیسی افتاد ہے۔“
وہ دونوں وہاں سے اٹھ کر کنٹرول روم میں جا پہنچے۔وہ سیدھے اسی کمپیوٹر آپریٹر تک گئے جہاں سے یہ فوٹیج دیکھی جا سکتی تھیں۔
وہاں دو آ فیسر پہلے ہی سے موجود تھے۔ کچھ دیر میں وہ چاروں فوٹیج دیکھ چکے تھے۔ سبھی میں یکسانیت تھی۔کہیں کہیں فرق اتنا تھا کہ کہیں دو اور کہیں تین لڑکے یا لڑکیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ ہر جگہ مختلف لوگ تھے۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وہ سبھی اچھے گھروں کے لڑکے اور لڑکیاں تھیں۔ لڑکے ایسا کریں تو اتنی حیرت نہیں ہو سکتی تھی جتنا لڑکیوں پرحیرانگی ہو رہی تھی۔
وہ بڑے سکون سے پارکنگ میں آ تے دکھائی دے رہے تھے، ایک دم سے ہی ان پر وحشت طاری ہو تی، پھر وہ گاڑیوں کے شیشے توڑنے لگ جاتے۔دو تین منٹ ان پر یونہی وحشت طاری رہتی اور وہ شیشے توڑتے رہتے۔ اچانک انہی میں سے ایک ہوا میں مکا لہرا کر کچھ کہتا۔ باقی اپنے ڈنڈے وہیں پھینک کر انتہائی تیزی سے نکل جاتے۔مختلف فوٹیج دیکھنے کے بعد کرنل کے چہرے پر سنجیدگی طاری ہو گئی۔ اس نے اپنے پاس کھڑے آ فیسرز کی طرف رخ کر کے پوچھا:
”ان وارداتوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟“
”سر! پہلی نگاہ میں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ان پر کسی جن بھوت کا سایہ ہو، بالکل پاگلوں کی مانند یا یوں کہہ لیں کسی سوچ کے بغیر یہ حرکت کر رہے ہیں۔مگر میرا خیال…“ وہ کہتے کہتے رک گیا تو کرنل نے کہا:
”ہاں ہاں بولیں آپ کا کیا خیال ہے۔“
”سر! ان سب کو دیکھ کر یہی لگ رہا ہے کہ یہ کوئی زیر زمین منظم گروہ ہے۔ جنہیں حکم ملا،انہوں نے کر دکھایا اور غائب ہو گئے۔“
”ہاں سر! ایسا وہی لوگ کرتے ہیں جو اپنے ہو نے کا احساس دلانا چاہتے ہیں۔ وہ کسی شخص کو بھی قتل کر سکتے ہیں۔“ دوسرے آ فیسر نے کہا۔
”ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ خوف و ہراس پھیلا نا چاہتے ہوں۔‘‘ پہلے آفیسر نے سوچتے ہوئے لہجے میں بتایا۔
”زیر زمین گروہ…!“ کرنل نے بڑبڑاتے ہوئے کہا پھر چند لمحوں بعد ان کی طرف دیکھ کر سنجیدگی سے بولا:
”اپنے وجود کا احساس دلانا، خوف وہراس پھیلانا، اس کے علاوہ ان کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟“
”سر! وہ ہاتھ لگیں تو سب معلوم ہو جائے گا۔“دوسرے آ فیسر نے جوش سے کہا۔ ابھی ا س کی کہی ہو ئی بات کی گونج ختم نہیں ہوئی تھی کہ ایک تیز آ واز کنٹرول روم میں گونجی:
”سر! ادھر دیکھیں۔“
سبھی نے اس طرف دیکھا تو سامنے اسکرین پر ویسا ہی منظر چل رہا تھا، جیسا ابھی کچھ دیر پہلے انہوں نے فوٹیج پر دیکھا تھا۔ سامنے اسکرین پر شہر کی ایک معروف سڑک دکھائی دے رہی تھی۔ اسی سڑک پر ایک مشہور ریستوران تھا جس کے سامنے پارکنگ میں کافی ساری گاڑیاں کھڑی تھیں۔ انہی گاڑیوں کے درمیان تین لڑکے بے تحاشا گاڑیوں کے شیشے توڑ رہے تھے۔ ان کے چہرے کافی حد تک چھپے ہوئے تھے۔
”کیا یہ لائیو ہے؟“کرنل نے پوچھا۔
”جی سر! یہ لائیو ہے۔“ایک شخص نے تیز ی سے کہا، وہ لمحہ بھر رک کر بولا۔
”ہم کسی ایسے ہی متوقع واقعہ پر نگاہ رکھے ہوئے تھے۔“
”تو پھر…“ کرنل نے دونوں آ فیسرز کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو ان میں سے ایک نے پر جوش انداز میں بتایا۔
”اس جگہ کے ارد گرد فورسز کے لوگ موجود ہیں سر! یہ لوگ ایک طرح سے گھیرے میں ہیں۔آپ دیکھیں گے، یہ لوگ ابھی پکڑے جائیں گے۔“
کنٹرول روم میں خاموشی طاری تھی۔ سبھی کی نگاہیں اسکرین پر لگی ہوئی تھیں۔ وہاں صرف منظر دکھائی دے رہا تھا، آ واز نہیں تھی۔وہ تینوں لڑکے دیوانہ وارگاڑیوں کے شیشے توڑ رہے تھے۔اچانک ان میں سے ایک نے ہوا میں مکا لہراتے ہوئے کچھ کہا جیسے ہی اس کی آ واز باقی دونوں لڑکوں تک پہنچی، وہ وہیں ساکت ہو گئے۔انہوں نے اپنے ڈنڈے پھینکے اور پارکنگ سے فرارکی راہ دیکھنے لگے۔وہ تینوں اکھٹے ہو کر بھاگنے کی کوشش میں تھے کہ پارکنگ میں کئی سارے لوگ آ گئے۔انہوں نے ان تینوں لڑکوں کو گھیرے میں لے لیا۔وہ بچ کر نکلنا چاہتے تھے مگر ایسانہیں ہو سکا۔وہ وہیں دھر لیے گئے۔
”ان جوانوں سے کہو، ان واردات کرنے والوں کو لے کر فوراً یہاں آ جائیں۔“ کرنل نے سنجیدگی سے کہا۔
”یس سر! ابھی رابطہ کر تا ہوں۔“ ایک آ فیسر نے کہا اور فون کی جانب بڑھ گیا۔
”آ ؤ جمال، لگتا ہے کچھ نیا سامنے آ نے والا ہے۔“ کرنل نے کہا اور کنٹرول روم سے نکلتا چلا گیا۔
جمال سوچتا ہوا ن کے ساتھ ہو لیا۔اس کے اندر مختلف طرح کی کیفیات ہل چل مچا رہی تھیں۔ایسا اسی وقت ہوتا تھا، جب وہ اپنے آ پ میں نہ رہاہو۔ایک کے بعد ایک خیال اس کے ذہن میں آ تا چلا جا رہا تھا۔ جیسے کسی واقعہ کی وجوہات کے مختلف پہلو ؤں کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ وہ کرنل کے کمرے میں سامنے والی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔کچھ دیر بعد اس نے کرنل کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا:
”آ پ کیا سمجھتے ہیں، یہ لڑکے اور لڑکیاں عادی مجرم ہیں یا کچھ نیا سامنے آنے والا ہے؟“
”کچھ ہٹ کر ہو گا، تمہیں کیا لگتا ہے؟“ انہوں نے کہتے ہوئے پوچھا۔
”مجھے تو یہ عادی مجرم نہیں لگ رہے۔“ اس نے انتہائی سنجیدگی سے کہا۔
”بالکل ایسا ہی ہے، لیکن وہ عادی مجرم ہیں یا نہیں، مجھے تو یہ اپنے آپے میں ہی نہیں لگتے۔ مجھے تو یوں لگ رہا ہے یوں جیسے انہیں کوئی کنٹرول کر رہا ہو۔“ کرنل نے الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”میں بھی یہی کہنا چاہ رہا تھا۔“جمال نے سوچتے ہوئے کہا۔
”ابھی کچھ دیر بعد، سامنے آ ئیں گے تو… دیکھتے ہیں۔“ کرنل نے کہاتو ان کے درمیان خاموشی چھا گئی۔

٭

وہ تینوں لڑکے ایک کمرے میں دیوار کے ساتھ لگے ہوئے کھڑے تھے۔ ان کے چہرے پر کسی بھی قسم کاکوئی خوف یا ملال نہیں تھا۔ وہ بالکل تروتازہ لگ رہے تھے، جیسے وہ خوش ہوں۔کرنل کے ساتھ ایک آ فیسر اور جمال وہیں سامنے کھڑے انہیں دیکھ رہے تھے۔ تبھی کرنل نے آ فیسر کو اشارہ کیا تو اس نے پوچھا:
”تم لوگوں نے پارکنگ میں کھڑی گاڑیوں کے شیشے کیوں توڑے؟“
ان تینوں نے یہ سوال سنا تو ایک دوسرے کی جانب یوں دیکھا، جیسے انہیں ایسے ہی کسی سوال کی توقع تھی۔ ان میں سے قدرے بڑے لڑکے نے کہا:
”سوری سر! ہمیں پتہ ہے کہ ہم نے جرم کیا ہے، ہم اس کا ازالہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔“
”ٹھیک ہے تم لوگوں کو اپنے جرم کا احساس ہے لیکن پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ تم لوگوں نے گاڑیوں کے شیشے کیوں توڑے؟“آفیسر نے کہا۔
”کہانا، غلطی ہوگئی سر۔“ اسی لڑکے نے لاپروائی سے کہا تو کرنل کے چہرے پر سختی آ گئی۔ اس نے آ فیسر کی طرف دیکھا۔وہ ان لڑکوں کی جانب دیکھتے ہوئے درشتی سے بولا:
”یہ کوئی جواب نہیں ہے۔تم لوگوں نے شیشے کیوں توڑے؟“
”سر کہا نا غلطی ہو گئی، آ ئندہ بالکل بھی نہیں کریں گے۔ہم نے کہا نا… ہم جو بھی جرمانہ ہو گا، وہ بھر دیں گے۔آپ پلیز…“اس نے منت بھرے انداز میں کہا تو کرنل نے پوچھا:
”اپنے ماں باپ کی کمائی یوں ضائع کرتے ہیں، جب ہم انہیں بلائیں گے، انہیں تم لوگوں کی کرتوت کے بارے میں بتائیں گے، انہیں کتنا دکھ ہو گا، ممکن ہے ان کے پاس فوری طور پر اتنے پیسے نہ ہوں، وہ کیا سوچیں گے؟“
”سر انہیں بلانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ رقم بتائیں،ہم ابھی دے دیتے ہیں۔“ اسی لڑکے نے بڑے اعتما دسے کہا تو کرنل نے تجسس سے پوچھا:
”یہاں کھڑے کھڑے تم کیسے دے دو گے؟“
”سر آن لائن اکاؤنٹ ہے نا۔“ اس لڑکے نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”اگر جرمانہ بن بھی جائے تو کوئی سینکڑوں میں نہیں ہوگا،ہزاروں میں بن سکتا ہے، جس طرح تم لوگوں نے بے دردی سے گاڑیوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ یہ رقم لاکھوں میں بھی بن سکتی ہے، سو تمہارے والدین کو بلانا پڑے گا۔“ کرنل نے کہا تو اسی لڑکے نے سمجھانے والے انداز میں کہا:
”نو پرابلم سر! والدین کو بلانے کی ضرورت نہیں،ہم ابھی دے دیتے ہیں۔“ اس نے اپنی جیب سے فون نکالتے ہوئے کہا تو جمال اس کے قریب گیا۔ اس نے سیل فون لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اس نے سیل فون پیچھے کرتے ہوئے کہا:
”یہ کیا بد تمیزی ہے۔آپ رقم بتائیں، میں دے دیتا ہوں۔“
”میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ تمہارے اکاؤنٹ میں اتنی رقم ہے بھی یا نہیں۔“ جمال نے بڑے نرم لہجے میں کہا تو وہ جما ل کو نظر انداز کرتا ہوا کرنل کی جانب دیکھ کر بولا:
”سر آپ بتائیں،پلیز…“
اسی لمحے جمال نے کرنل کی طرف دیکھا تو اس نے آ نکھ سے جما ل کو اشارہ کر دیا۔ جمال نے بڑے اطمینان سے اس کا سیل فون چھین لیا۔ وہ سیل فون واپس پکڑنے کے لیے آ گے بڑھا تو جمال نے گھما کر تھپڑ اس کے مارا، وہ الٹ کر دیوار سے جا لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی چیخ بلند ہو ئی۔ شاید اس کے چوٹ کچھ زیادہ ہی لگ گئی تھی۔ دیوار کے ساتھ لگے دونوں لڑکے حیرت سے جمال کو دیکھنے لگے تھے۔وہ ان دونوں کے سامنے گیا اور بڑے نرم لہجے میں بولا:

”اپنے اپنے سیل فون مجھے دے دو۔“
ان دونوں نے مزید کوئی بات کیے بغیر اپنے فون نکال کر اسے دے دئیے۔ اس نے وہ دونوں سیل فون آ فیسر کی جانب بڑھا کر دیوار کے ساتھ پڑے لڑکے کی طرف دیکھا، پھراسے کھڑا ہونے کے لیے انگلی سے اشارہ کیا۔وہ خوف زدہ ہو چکا تھا، اس لیے دھیرے دھیرے اٹھاتو جمال نے کہا:
”اب بتاؤ، کتنی رقم ہے تمہارے پاس؟“
”کوئی دس لاکھ تو ہوں گے۔“ اس نے فوراً جواب دیا۔
”تمہارے والدین اتنی رقم تمہیں دے دیتے ہیں؟“جمال نے پوچھا۔
”یہ میں نے خود کمائے ہیں۔“ اس نے تیزی سے کہا۔
”تم کیا کام کرتے ہو۔ یہی غنڈہ گردی؟“ جمال نے پوچھا۔
”نہیں، میں آ ن لائن بزنس کرتا ہوں۔میرے پاس پیسوں کی کمی نہیں۔“ اس نے دبے دبے غصے میں کہا۔
”کس شے کا بزنس کرتے ہو؟“ جمال بھی غصے میں آ گیا تھا۔
”میں ایک ویب سائیٹ سے کماتا ہوں۔“ اس نے کہا تو جمال نے تیزی سے پوچھا۔
”کیا کرتے ہو ویب کے لیے جو اتنی رقم کماتے ہو؟“
”اس میں مختلف پراجیکٹ ہو تے ہیں، وہ پورے کرتا ہوں تو پیسہ ملتا جاتا ہے۔“ اس نے بتایا تو جمال نے پوچھا۔
”یہ گاڑیوں کے شیشے توڑنے پر کتنے ملے ہیں؟“
”تین منٹ کے تین لاکھ…“ وہ اپنی رو میں کہہ گیا۔ لیکن جمال نے اس سے وہ بات اگلوا لی تھی۔اسی لمحے کرنل کے منہ سے بے ساختہ نکلا:
”اوہ میرے خدا…“
”سر! انہیں تھوڑی دیر میرے حوالے کریں، میں سب کچھ پتہ لگا لیتا ہوں۔“ جمال نے بہت کچھ سمجھتے ہوئے کہاتو کرنل نے کہا۔
”ہاں انہیں تھوڑا سا ’وہ‘ کر لیں، پھر تفصیل پوچھتے ہیں۔“یہ کہہ کر وہ نکل گئے، آ فیسر وہیں کھڑا رہا۔ تبھی جمال آ گے بڑھا اور اس نے دیوار کے ساتھ لگے لڑکوں سے کہا:
”بھئی تم لوگ تین ہو اور میں اکیلا، اگر مجھے مارمارکر یہاں بے بس کر دو تو تم چلے جانا، ورنہ مجھے تم لوگوں کو مارنا ہو گا۔“
”جب ہم لوگ رقم دے رہے ہیں تو یہ مارا ماری کس لیے؟“ ان میں سے ایک نے پوچھاتو جمال نے سنی ان سنی کر تے ہوئے اسے گردن سے پکڑا اور فرش پر پھینک دیا۔باقی دونوں جمال پر جھپٹے تو اس نے دونوں کے سینے پر کہنیاں ماریں وہ سینہ پکڑ کر ادھ موئے ہو گئے۔ اس نے بار باری تینوں کو دیوار پر مارا تو وہ ان میں ایک بے بس ہو تا ہوا بولا:
”بس… مجھے مت مارو پلیز۔“
”اب جو پوچھا جائے وہ فر فر بتاتے جانا، ورنہ کھال ادھیڑ دوں گا۔“ جمال نے دھاڑتے ہوئے کہا، جس کا نتیجہ خاطر خواہ ہوا۔
ان تینوں سے جو کچھ معلوم ہوا، وہ بے حد تشویش ناک تھا۔ انہیں ایک ویب سائیٹ سے انعام میں ایک ٹیب ملا تھا۔ جو ان کی مزید کمائی کا ذریعہ بن گیا۔ ان تینوں میں سے دو کو بے ہوش ہونے کا تجربہ ہو چکا تھا۔ لیکن جو ان کا لیڈر بن رہا تھا وہ بے ہو ش نہیں ہوا تھا۔ٹیب پر مختلف مقابلے کروائے جاتے تھے۔ انہیں کوئی نہ کوئی ٹارگٹ دیا جاتا، اگر وہ اسے پورا کر لیتے تو ایک خاص رقم ان کے اکاؤنٹ میں آ جاتی تھی۔
آج شام ہو تے ہی انہیں یہ ٹارگٹ دیا گیا کہ وہ اپنے علاقے کے لوگوں سے ملیں اور شہرمیں کہیں بھی، کسی بھی پارکنگ میں جا کر وہاں موجود گاڑیوں کے شیشے توڑیں۔اگر وہ بھاگ جائیں اور پکڑے نہیں جائیں گے تو انہیں دو گنا انعام ملے گا۔ اگر پکڑے گئے تو انعام کے ساتھ جو بھی جرمانہ ہو گا وہ دیا جائے گا۔ جب جوانوں نے انہیں پکڑا، تب واپس آ تے ہوئے انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ ان کے اکاؤنٹ میں رقم جمع ہو گئی ہے۔ اس وقت ویب سائیٹ پر یہ چل رہا تھا کہ سب سے زیادہ جس نے گاڑیوں کے شیشے توڑے ہیں انہیں ایک خصوصی انعام دو دن بعد میں دیا جائے گا۔
یہ ٹیب وہی تھے، جو ایک کمپنی انہیں دے رہی تھی۔ جس کے بارے میں انہیں کوئی پتہ نہیں تھا۔ان لڑکوں کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ نیلی روشنی کے زیر اثر یہ سب کر تے چلے جا رہے ہیں۔ایک طرف وہ اعصابی طور پر کمزور ہو رہے تھے تو دوسری جانب پیسے کا لالچ دے کر پوری طرح انہیں قابو میں کیا گیا تھا۔
کانفرنس روم میں کرنل افتخار، انسپکٹر منصور، فیصل ممتاز کے ساتھ دونوں آ فیسر بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ساری صورت حال ان پر واضح ہو گئی تھی۔ جمال اس وقت اپنے گھر جانے کے لیے نکل چکا تھا۔ وہ سب پریشان تھے۔ ایک دکھ کی کیفیت ان پر طاری تھی۔
”یہ تو بہت خطرناک صورت حال ہے، ان سے تو جیسا مرضی جرم کروایا جا سکتا ہے، نجانے کتنے نوجوان ان کے ہتھے چڑھ گئے ہیں۔ ان کی تو زندگی خراب ہو گئی، ملک وقوم اور والدین پر بوجھ ہیں۔“ کرنل نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
”یہ توہمارے شہر سے نکلے ہیں، نجانے شہر میں اور کتنے ہیں اوردوسرے شہروں کا اندازہ لگائیں۔“ انسپکٹر منصور نے کہا۔
”یہ کیس تو آ پ کے پاس ہے نا؟“ کرنل نے پوچھا۔
”جی میرے پاس ہی ہے، مجھے نہیں اندازہ تھا کہ یہ اس قدر گھمبیر ہو گا۔“ اس نے پریشان کن لہجے میں کہا۔
”اب کرنا کیا ہے؟“ کرنل نے جذبات سے نکل کر سنجیدگی سے کہا۔
”میں فیصل ممتاز صاحب سے کہوں گا کہ وہ ہماری بھر پور مدد کریں۔اس کے لیے جیسے وسائل چاہئیں وہ انہیں میسر کیے جائیں۔ دوسرا ہمیں ان مجرموں کا پیچھاپوری قوت سے کرنا چاہیے، یہ بچنے نہ پائیں۔“ اس نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
اس سے پہلے کہ بات آ گے بڑھتی، کرنل کا فون بج اٹھا۔ اس نے اسکرین پر دیکھا، وہ کنٹرول روم کے نمبر تھے۔ اس نے جلدی سے کال رسیو کی تو دوسری طرف سے کہا گیا:
”سر! جلدی سے یہاں آ ئیں۔“
”اوکے۔“ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھا اور انہیں بھی ساتھ میں آ نے کا کہہ کر باہر کی جانب بڑھ گیا۔ وہ سب اس کے پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔

……٭……

مشینی انسان

رات کا پہلا پہر ختم ہو نے کو تھا۔ ڈاکٹر الیاس اپنی لیب میں موجود تھا۔ ان تک خبر پہنچ گئی تھی کہ جمال کے ساتھ ایک سیاہ پوش کیسے آ ن ٹکرایا تھا۔ وہ کچھ دیر کے لیے ملول تو ہو ئے لیکن جلد ہی سنبھل گئے۔تاہم شام ڈھلتے ہی انہیں مختلف علاقوں سے جو توڑ پھوڑکی خبریں ملیں وہ بہر حال ان کے لیے اچنبھے کی بات تھی۔
انہیں سمجھ میں آ رہا تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟وہ ڈنر کر کے اپنی لیب میں چلے گئے۔ مارٹن اور سفید فام سے انہیں جو بھی معلومات ملی تھیں، وہ اسی کے تناظر میں مزید کام کرنے میں مگن تھے۔ ایسے میں ان کا فون بج اٹھا۔
اسکرین پر ڈاکٹر ولیم کے نمبر تھے۔انہوں نے کال رسیو کی تو دوسری طرف سے ڈاکٹر ولیم بولا:
”لگتا ہے تم نے میری بات نہیں سمجھی اور نہ اپنے شہر کے لوگوں کو سمجھائی ہے۔ میں نے تمہیں ایک رات کا وقت دیا تھا، اب دوسری رات چل رہی ہے۔“
”میں کیا کر سکتاہوں، میں بے بس ہوں۔“ انہوں نے تحمل سے کہا۔
”کیا تم نہیں سمجھتے ہو کہ میں نے تمہارے شہر کی تباہی شروع کر دی ہے، آج صرف ہلکا سا اشارہ دکھایا ہے۔ کل سے تم دیکھوگے کتنا نقصان ہو تا ہے۔“
”کیا کرو گے تم؟“ انہوں نے سکون سے پوچھا۔
”جب تباہی آ ئے گی، لوگ مریں گے تب تمہیں پتہ چل جائے گا، اب بھی وقت ہے، آج رات تک کا وقت، ورنہ صبح سے میری یہی کوشش ہو گی کہ میں جی بوائے کو ختم کردوں۔“ڈاکٹر ولیم نے دھاڑتے ہوئے کہا۔
”تم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔“ انہوں نے تحمل سے کہا۔
”ڈاکٹر الیاس…تم نہیں جانتے، میں کیا کچھ کر سکتا ہوں، ابھی تو صرف شہر میں گاڑیاں ہی ٹوٹی ہیں،کل جگہ جگہ فائرنگ بھی ہو سکتی ہے۔“ اس نے سفاکانہ لہجے میں کہا۔
”تم اگر کر سکتے ہو تو کر دو، شہرکے لوگ اگر خود کو بچا سکتے ہیں تو بچا لیں گے، میں تمہارے کسی کام نہیں آ سکتا۔“ انہوں نے کہا۔
”میں جانتا ہوں کہ تم ان کی مدد کر رہے ہو، تم جی بوائے کو روک کر میرے پاس لا سکتے ہو، میں اب بھی تمہیں ا س کی منہ مانگی رقم دے سکتا ہوں۔ میں…“
”شٹ اپ! یو باسٹرڈ… وہ میرا پوتا ہے، میرا خون ہے،وہ کوئی شے نہیں جو میں تمہیں بیچ دوں۔ اگر تم میں ہمت ہے تو اس کو لے جاؤ، ورنہ کھال میں رہو۔ایسانہ ہو مجھے وہاں آ نا پڑے اور میں تمہیں ختم کر دوں۔“ ڈاکٹر الیاس ایک دم ہی سے پھٹ پڑے۔انہیں شدید غصہ آ گیا تھا۔
”میرے حوالے نہیں کرو گے لیکن اس کا مرنا قبول کر لو گے۔“ڈاکٹر ولیم نے انتہائی طنزیہ لہجے میں کہا۔
”میں جانتا ہوں، تم نے جی بوائے کے لیے ایک شخص یہاں بھیج دیا ہے، اس کی طاقت کیا ہے، میں اسے سمجھ رہا ہوں۔میں اسے بھی دیکھ لیتا ہوں۔‘‘ انہوں نے غصے میں کہا تو ڈاکٹر ولیم بولا:
”وہی،وہی لائے گا اسے میرے پاس، اور تم دیکھو گے…“
”دیکھتے ہیں۔“ ڈاکٹر الیاس نے کہا۔
”آج رات… صرف آج رات ہے تمہارے پاس ڈاکٹر… اس کا تماشہ تم آج رات دیکھ لو گے… کل سے جی بوائے ختم ہو جائے گا یا پھر وہ میرے پاس ہو گا۔“ اس نے حقارت بھرے لہجے میں کہا۔
”ولیم! جو تم خواب دیکھ رہے ہو نا، وہ کبھی پورا نہیں ہوگا۔“ ڈاکٹر نے غصے میں کہاتو ولیم نے ایک زور دار قہقہہ لگایااور کال ختم کر دی۔ڈاکٹر الیاس پہلی بار پریشان ہو گیا تھا۔

٭

رات کا دوسرا پہرتھا۔جمال اپنی کار میں گھر کی طرف جا رہا تھا۔اس کے دماغ میں کافی حد تک غصہ اور دکھ بھرا ہوا تھا۔کچھ دیر پہلے تربیتی مرکز میں جو اس پر انکشافات ہو ئے تھے، وہ بڑے خوفناک تھے۔نوجوان نسل کو کس طرح خفیہ طریقے سے استعمال کیا جا رہا تھا کہ خود ان نوجوانوں کو احساس نہیں تھا۔ انہیں کسی اَن دیکھے گڑھے میں گرنے کے بارے میں پتہ ہی نہیں تھا۔اسے اپنے دادا جی کی کہی ہو ئی بات بار بار یاد آ رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب کسی قوم کے پاس اعلیٰ مقصد نہ ہوتواس کے نوجوان برباد ہو جاتے ہیں۔
وہ انہی خیالوں میں الجھا ہوا تربیتی مرکز سے کافی دور نکل آیا تھا۔وہ جیسے جیسے شہر کی گنجان آ بادی کی طرف بڑھ رہا تھا، اسی طرح سڑک پر ٹریفک بھی بڑھتا چلا جا رہا تھا۔وہ شہر کی مصروف سڑک پر آ یاتو اسے گاڑیوں کا رش معمول سے کچھ زیادہ ہی لگا۔تھوڑا آ گے بڑھا تو ٹریفک رکی ہوئی تھی۔ اس نے کار ایک سائیڈپر کی اور ٹریفک کھلنے کا انتظار کر نے لگا۔
اسے انتظار کرتے ہوئے چند منٹ ہو ئے تھے کہ اس کا سیل فون بج اٹھا۔ اسکرین پر انسپکٹر منصور کے نمبر جگمگا رہے تھے۔ اس نے کال رسیو کرتے ہوئے ہیلو کہا تو دوسری طرف سے انسپکٹر منصور نے پریشان لہجے میں پوچھا:

”جمال! کہاں ہو تم؟“
”میں ابھی گھر سے دور ہوں، بس یہ شاہراہ تک پہنچا ہوں۔“ اس نے پر سکون لہجے میں بتایا تو انسپکٹر نے تیزی سے سرسراتے ہوئے لہجے میں پوچھا:
”وہاں کچھ غیر معمولی تو نہیں ہے؟“
”ہاں! یہاں ٹریفک رُکی ہو ئی ہے اور تو کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ ویسے خیریت تو ہے نا انکل…“ اس نے چونکتے ہوئے پوچھا۔
”غور سے سنو، جس سڑک پر تم ہو اور جہاں ٹریفک رکی ہو ئی ہے، اس سڑک کے چوراہے میں اسی سیاہ پوش نے ہنگامہ مچایا ہو اہے۔“انسپکٹر نے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا۔
”سیاہ پوش… ہنگامہ…“ اس نے حیرت سے پوچھا۔
”وہ وہاں پر گاڑیاں تباہ کر رہا ہے۔“ اس نے تیز ی سے کہا۔
”آپ کو یقین ہے نا کہ وہ… وہی سیاہ پوش ہے؟“جمال نے پوچھا۔
”ہاں وہی ہے۔“ انسپکٹر نے کہا۔
”اوکے! میں دیکھتا ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے وہ اپنی کار کا دروازہ کھول کر باہر نکل آ یا۔
”لیکن تم ابھی…“ اس کی بات ادھوری ہی رہ گئی۔ جمال نے فون بند کیا اور فٹ پاتھ پر تقریباً بھاگتے ہوئے چوراہے کی جانب بڑھنے لگا۔
چوراہے میں افراتفری مچی ہو ئی تھی۔کئی گاڑیاں ٹوٹی ہوئی پڑی تھیں۔ایک کار کو آ گ لگی ہو ئی تھی۔اس سے تھوڑے ہی فاصلے پر وہ سیاہ پوش ایک کار کی جانب بڑھ رہا تھا۔وہ ابھی کار سے چند قدم کے فاصلے پر تھا کہ کار میں بیٹھے ہوئے لوگ انتہائی تیزی باہرنکل گئے۔سیاہ پوش نے ان کی پروا کیے بغیر کار کو دھکیلنا شروع کر دیا۔کار یوں لڑھکتی ہوئی جا رہی تھی جیسے کوئی مشین اسے دھکیل رہی ہو۔ وہاں موجود لوگوں کے لیے وہ منظر انتہائی حیرت انگیز تھا۔وہ کار کو دھکیلتا ہوا، اس کار تک لے گیا، جسے آ گ لگی ہوئی تھی۔چند منٹ میں اس کار کو بھی آ گ لگ گئی۔ وہ واپس پلٹاتو اس کے سامنے ایک مزید کار آ گئی۔ کار والوں کو پہلے تو سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ یہ ہو کیا رہا ہے، جب انہیں پتہ چلاکہ وہ سیاہ پوش ان کی کار کو دھکیل رہا ہے تو وہ خوف زدہ ہوتے ہوئے کار سے نکلے۔
ڈرائیونگ سیٹ کی طرف سے مرد نکلا تو دوسری جانب سے ایک عورت باہر آئی، اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بچہ تھا، افراتفری میں وہ بچہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ وہ آخر ماں تھی، اس نے بچے کو نہیں چھوڑا، لیکن خود گرگئی۔سیاہ پوش کار کو دھکیلتاہوا آ رہا تھا۔ کار اور اس عورت کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ تھا۔ سیاہ پوش کو ذرا بھی پروا نہیں تھی کہ کار کے نیچے وہ عورت اور بچہ آ جائیں گے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے اسے کوئی احساس ہی نہ ہو، وہ کسی جانور کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔
یہی وہ لمحہ تھا، جمال نے فیصلہ کیا اور انتہائی سرعت سے عورت کی جانب بھاگا۔ اس نے پہلے بچہ اٹھایا اور اس عورت کو گھسیٹ کر کار سے دور کر دیا۔اسی لمحے سیاہ پوش کی نگاہ جمال پر پڑی۔ وہ کار کو بھول گیا۔ وہ جمال کی طرف بڑھا۔ چوراہے میں سیاہ پوش اور جمال آ منے سامنے آ گئے تھے۔
سیاہ پوش نے جمال کی طرف دیکھا اوریوں دھیرے دھیرے اس کی طرف بڑھنے لگا جیسے اسے تول رہا ہو۔کسی بھی ریسلنگ میں جب دو پہلوان آمنے سامنے ہوں تو وہ حملہ کرنے سے پہلے نگاہوں ہی نگاہوں میں ایک دوسرے کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی صورت حال وہاں بھی دکھائی دے رہی تھی۔
سیاہ پوش نے ایک قدم آ گے بڑھایا اور جمال کو اپنے حصار میں لینے کی کوشش کی۔ لیکن اس بار جمال پوری طرح ہوشیار تھا۔ وہ ایک دم سے سڑک پر بیٹھ گیا۔ سیاہ پوش کا وار خالی گیا، تب تک جمال نے دونوں ہاتھ جوڑ کر اس کے پیٹ میں مارے۔ اگلے ہی لمحے جمال حیرت زدہ رہ گیا۔ اسے یوں لگا جیسے اس نے دونوں ہاتھ کسی لوہے کی شے پر مار دئیے ہوں۔ وہ ایک دم سے چکرایا، تب تک وہ سیاہ پوش اسے کاندھوں سے پکڑ چکا تھا۔ اس نے جمال کو اٹھایا اور پیچھے کی جانب دھکیلا۔ جمال یوں گرا جیسے کسی گاڑی نے اسے ٹکر مار دی ہو۔
سیاہ پوش کے چہرے پر کوئی تاثرات نہیں تھے۔جمال نے لمحہ بھر سوچا،اسے شک گزرا کہ وہ کوئی انسان نہیں بلکہ روبوٹ ہے۔جیسے ہی اس کے دماغ میں یہ خیال آیا، اس وقت تک سیاہ پوش اس پر جھک چکا تھا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو جمال کی جانب بڑھایا ہی تھا کہ وہ کروٹ لے گیا، پھردوسری کروٹ کے ساتھ ہی اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا۔
وہ دونوں پھر سے آ منے سامنے تھے۔جما ل کے دماغ میں نجانے کہاں سے روبوٹ کے بارے میں خیال آ نے لگے تھے۔جمال اس کی آ نکھوں میں دیکھ رہا تھا۔ ان میں زندگی کی کوئی علامت نہیں تھی۔ اس نے کچھ علامتیں دیکھ لیں جو ایک روبوٹ میں ہوتی ہیں۔وہ ذہنی طور پر تیار ہو گیا تھا کہ اس کا مقابلہ کسی انسان سے نہیں ایک روبوٹ سے ہے۔
جمال سمجھ رہا تھا کہ اسے کہیں نہ کہیں سے آ پریٹ کیا جا رہا ہوگا۔ ممکن ہے وہ آپریٹر یہیں کہیں پاس ہو یا پھر دور کہیں بیٹھا یہ سب تماشہ دیکھ رہا ہوں۔ اصل میں اس کے سامنے یہ روبوٹ نہیں وہ شخص تھا، جو اسے آ پریٹ کر رہا تھا۔اگلے ہی لمحے اس کے دماغ میں خیال آ گیا کہ اس روبوٹ کے ساتھ کرنا کیا ہے۔
جمال اپنے قدموں پر پیچھے ہٹنے لگا۔یہاں تک کہ وہ ایک گاڑی کے ساتھ جا لگا۔ روبوٹ نے انتہائی تیزی سے اسے پکڑنا چاہا لیکن تب تک جمال وہاں سے ہٹ گیا تھا۔ وہ روبوٹ گاڑی کے ساتھ لگا تو جمال اس کے پیچھے آ گیا۔ وہ فوری طور پر مڑ نہ سکا، اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے ایک ہاتھ اس کی گردن پر رکھا اور دوسرے سے اس کا بازو پکڑ تے ہوئے زور لگایا، عام انسان ہو تا تو اس کی گردن ٹوٹ چکی ہو تی۔ مگر وہ پیچھے کی جانب ہوا اور جمال سے خود کو چھڑوا کر سیدھا ہوگیا۔
وہ دونوں پھر سے آ منے سامنے آ گئے تھے۔چوراہے پر لوگوں کا رش لگ چکا تھا۔ ان کے سامنے کا منظر انتہائی حیرت انگیز تھا۔ ایک نوعمر لڑکا اور ایک نوجوان آپس میں لڑرہے تھے۔ کوئی بھی ایک دوسرے پرحاوی نہیں ہو پایا تھا۔ سائرن کی آ وازیں چیخ رہی تھیں۔کچھ لوگ چیخ رہے تھے۔ ایسے میں اچانک انسپکٹر منصور کی تیز آ واز اسے سنائی دی۔
”جمال! پرے ہٹ جاؤ، میں اس پر فائر کرنے لگا ہوں۔“
اس کا دھیان ایک لمحے سے بھی کم وقت کے لیے ہٹا تھا، اسی لمحے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے روبوٹ نے اس کے سینے پر ہاتھ مارا۔ جمال اچھلتا ہوا دور سڑک پر جا گرا۔ اسے چوٹ کا احساس تو نہ ہوا لیکن جب تک وہ اٹھتا، اس وقت تک روبوٹ اس کے قریب آ چکا تھا۔ایسے وقت میں فائر ہو ا۔ جس کا ذرا سا بھی اثر روبوٹ پر نہیں ہوا تھا۔روبوٹ نے اسے اپنے پاؤں پر اٹھایا اور پھر اچھا ل دیا۔ جمال دور ایک ٹوٹی ہوئی کار کے ساتھ جا ٹکرایا۔ایک ایسی کیفیت اس کے جسم میں پھیل گئی جیسے اس میں توانائی کم ہو رہی ہو۔
جمال کا روبوٹ سے تھوڑا سا فاصلہ تھا۔ اس دوران یکے بعد دیگرے فائر ہونے لگے۔ مگر روبوٹ رکا نہیں وہ تیزی سے جمال کی جانب بڑھا۔ روبوٹ کو گولی لگتی، لیکن اسے کچھ بھی نہیں ہو رہا تھا۔ جمال سمجھ رہا تھا کہ وہ اسے ہاتھوں سے نہیں مار سکتا، اسے مارنے کے لیے کچھ چاہیے۔ انہی لمحات میں جمال کی نگاہ بکھرے ہوئے سامان پر پڑی جو شاید کار کی ڈگی سے نکل کر باہر آ ن پڑا تھا۔ وہ بہت کچھ بکھرا ہوا تھا۔ جمال کو ایک لوہے کا راڈ پڑا ہوا دکھائی دے گیا، جمال نے وہ راڈ اٹھایا اور روبوٹ کے سامنے آ ن کھڑا ہوا۔
جمال نے لوہے کے راڈ کو کسی لاٹھی کی مانند لہراتے ہوئے روبوٹ کے دے مارا۔ لوہے سے لوہا ٹکرانے کی ہلکی سی آ واز ابھری۔ روبوٹ لڑکھڑا گیا۔ وہ دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔جمال آ گے بڑھا، اس نے دوسری بار وہ راڈ اس کے سر پر دے مارا۔ اگلے ہی لمحے وہ روبورٹ آؤٹ آ ف آ رڈر ہو گیا۔ وہ آ گے پیچھے ہلنے لگا تھا۔چند لمحے وہ اسی طرح رہا، تب تک جمال نے اس کے ایک مزید ضرب لگا دی۔ روبورٹ پھر سے آ گے پیچھے ہلا اور ایک دم سے پلٹ کر دوڑ لگا دی۔
جمال اس کے پیچھے بھاگا، لیکن روبوٹ اس کے ہاتھ نہیں آ یا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ چوراہے سے فٹ پاتھ پر پہنچا، لوگ اسے دیکھ کر ایک طرف ہٹ گئے۔ وہ ان کے درمیان سے نکلا اور سیدھی سڑک پر بھاگنے لگا۔ وہ چوراہے سے نکلنے والی ایک چھوٹی سڑک تھی۔ وہ بھاگتا ہوا کبھی بہت تیز ہو جاتا اور کبھی تھوڑا سست پڑ جاتا۔جمال اسے نگاہوں میں رکھے ہوئے تھا۔جمال نے چیختے ہوئے کہا:
”یہ نگاہوں سے اوجھل نہ ہو نے پائے۔“
یہ کہتے ہی دیوانہ وار اس کے پیچھے بھاگنے لگا۔ وہ بھی لوگوں کے بنائے ہوئے راستے میں سے نکل کر سڑک پر آیا تو وہ حیرت زدہ رہ گیا، وہ روبوٹ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ وہیں کہیں غائب ہو چکا تھا۔

……٭……

سراغ

آ دھی رات سے زیادہ کا وقت گزر چکا تھا۔ جمال کو ایک قریبی ہسپتال میں لے جایا گیا تھا۔ وہاں ڈاکٹروں کی ایک ٹیم اسے دیکھ چکی تھی۔ اسے ایک بیڈ پر لٹایا ہوا تھا۔ اس نے بہت کہا تھا کہ مجھے کچھ نہیں ہوا۔ لیکن اس کی نہیں سنی گئی۔ اس کے بہت ساری خراشیں آئی ہوئیں تھیں جن پر خون جم گیا تھا۔وہاں دوا لگا دی گئی تھی اور اسے مختلف انجکشن بھی لگا دئیے گئے تھے۔ وہ خاموش پڑا تھا لیکن اس کا دماغ اسی روبوٹ کی طرف تھا۔اس کے دماغ میں صرف ایک ہی سوال تھا کہ وہ اچانک کہاں غائب ہو گیا تھا۔
وہ یہی سوچ رہا تھا کہ اسے یوں لگا جیسے اسے نیند آ رہی ہو۔ اس نے آ نکھیں بند کر لیں۔ انہی لمحات میں ا س کے سامنے تاریکی چھا گئی۔لمحوں میں اس کے سامنے چوراہے کا منظر ابھرا، اس میں روبوٹ دکھائی دیا، پھر وہ منظر غائب ہو گیا، تبھی اس کے سامنے ابھرتا ہوا ایک شعلہ بلند ہوا، وہ ایک سرخ لکیر بنا، پھر سانپ کی مانند بل کھاتا ہوا ایک جانب بڑھ گیا۔ تھوڑی ہی دور جانے کے بعد وہ سرخ لکیر ایک مستطیل نما چوکور ڈبے میں داخل ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی وہ لکیر یوں ختم ہو گئی جیسے چھلنی سے پانی بہہ جاتا ہے۔ تاریکی چھٹ گئی۔ اس کے ارد گرد کے سارے منظر جاگ گئے۔
اسی لمحے اس کے دادا جی ڈاکٹر الیاس بھی وہیں پہنچ چکے تھے۔ وہ خود بھی کافی دیر تک اس کا معائنہ کر تے رہے۔ پھر مطمئن ہو کر شفقت بھرے لہجے میں بولے:
”جمال بالکل ٹھیک ہے، اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔“
”دادا جی! میں بالکل ٹھیک ہوں، مجھے کچھ نہیں ہوا، میں کہیں بھی کچھ نہیں محسوس کر رہا ہوں۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔“ اس نے اپنے داد کو بھی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا۔
”بھئی! دشمن نے تو بڑاوار کیا تم پر، وہ کوئی عام انسان نہیں تھا، بلکہ ایک روبوٹ تھا۔“ دادا نے مسکراتے ہوئے تبصرہ کرنے والے انداز میں کہا۔
”مجھے اس کا احساس ہو گیا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ وہ اچانک غائب کہاں ہو گیا؟“جمال نے سرسراتے ہوئے پوچھا۔
”ابھی اس کا پتہ چل جائے گا، شہر کی فورس اس کے پیچھے ہے،وہ غائب نہیں ہو سکتا۔“ قریب کھڑے کرنل افتخار نے کہا۔
”آپ مجھے زبردستی یہاں لے آ ئے ہیں، میں ہی اس کا سامنا کر سکتا ہوں۔ پلیز! مجھے اس کی تلاش میں بھیجا جائے۔“ جمال نے پر جوش انداز میں کہا تو دادا جی نے اس کی طرف غور سے دیکھا۔ جمال نے اپنی آ نکھیں بند کر کے انہیں اپنے اعتما د کا یقین دلا یا۔ تبھی دادا جی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:
”بات تو یہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔“
”میں خود اسے ہسپتال لایا تھا، آخر ایک روبوٹ کے سامنے…“ کرنل نے کہنا چاہاتھا کہ دادا جی نے کہا:
”نہیں، اس کا سامنا ایک عام انسان نہیں کرسکتا، آپ خود ہی تو بتا رہے ہیں کہ اس پر فائر بھی اثر نہیں کر سکا تھا۔“
”یہ تو ٹھیک ہے، اب…“ کرنل نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
”ہاں! اسے بھیجیں۔“ دادا جی نے پورے اعتماد سے کہا تو جمال بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوگیا۔ وہ کمرے سے باہر نکلتے ہوئے اپنے سیل فون سے انسپکٹر منصور کا فون نمبر پش کرنے لگا۔ کچھ ہی لمحوں میں اس سے رابطہ ہو گیا۔
”انکل! آپ کہاں ہیں؟“
”میں یہیں ہوں شہر میں، اسی سیاہ پوش کی تلاش میں، وہ ایسا غائب ہو گیا ہے کہ کہیں مل ہی نہیں رہا۔“
”آپ ایسا کریں واپس اسی چوراہے پر آئیں، میں وہیں پہنچ رہا ہوں۔“ جمال نے دبے دبے جوش سے کہا۔
”تم تو اس وقت ہسپتال میں ہو، وہاں…“انسپکٹر نے کہنا چاہا تو وہ سنی ان سنی کرتے ہوئے بولا:
”بس آپ ادھر آ جائیں اپنے لوگوں کے ساتھ۔“
اس نے کہا اور فون کال بند کر کے پارکنگ کی جانب بڑھا۔ اس کی اپنی کار وہاں پر پہنچا دی گئی تھی۔وہ ا پنی کار میں تیزی سے نکل گیا۔وہ تیزی سے اس چوراہے کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اس کے ساتھ وہ تیزی سے سوچتا چلا جا رہا تھا۔
تقریباً پندرہ منٹ میں وہ اسی چوراہے پر پہنچ چکا تھا۔ اس نے اپنی کار روکی اور فٹ پاتھ پر اتر گیا۔ وہاں ٹریفک رواں ہو چکی تھی۔ ٹوٹی ہو ئی گاڑیاں اٹھائی جا رہی تھیں۔ لوگ اب بھی وہاں موجود تھے۔سامنے کی طرف سے انسپکٹر منصور بھی آ گیا تھا۔ وہ دونوں اسی جگہ پر آ گئے۔
”یہاں آ نے کا کوئی خاص مقصد؟“ انسپکٹر نے تجسس سے پوچھا۔
”وہ ادھر نکلا تھا اور پھر یہیں سے وہ غائب ہوگیا؟“ جمال نے کہا۔
”یہ تو سب کو پتہ ہے، سب نے ہی انہیں دیکھا، یہاں سے…“ وہ کہتے کہتے رُک گیا۔
”میں تو کہہ رہا ہوں کہ ہمیں اس روبوٹ کو یہیں کہیں تلاش کر نا ہے۔ اس کا کوئی سراغ ملا تو یہیں سے ملے گا۔“ جمال نے اپنی بات سمجھاتے ہوئے کہا۔
”یہیں ارد گرد کیمرے لگے ہوئے ہیں، ان سے مدد لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔“انسپکٹر نے سوچتے ہوئے بتایا۔
”انکل کسی طرف سے کوئی اطلاع آئی…؟“ جمال نے پوچھا۔
”ابھی تھوڑی دیر پہلے لوگ ارد گرد کی بلڈنگ میں بھیجے ہیں، فون کیا ہے، کوئی نہ کوئی اطلاع تو آ تی ہو گی۔“ اس نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا۔
”یہیں کہیں اس کا سراغ ہے۔“ جمال نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
انہی لمحات میں انسپکٹر کا فون بج اٹھا۔وہ سامنے والی بلڈنگ کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ ایک کاروباری مرکز تھا۔ کال رسیو کر نے سے پہلے وہ بڑ بڑاتے ہوئے بولا:
”شاید یہاں سے کوئی مدد مل جائے…“
پھر فون پر توجہ دے کر بولا۔
”ہاں بولو!“یہ کہہ کر وہ کچھ لمحے دوسری طرف سے کچھ سنتا رہا پھر فون ہٹا لیا۔
”کوئی اطلاع…؟“ جمال نے پوچھا۔
”ہاں…ہے۔“ یہ کہہ کر اس نے جمال کی طرف دیکھا، پھر انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے بولا:
”وہ یہاں سے وہاں تک گیا، اس بغلی سڑک کے سامنے تک، وہیں سے مڑا۔ یہاں تک کیمرہ دیکھ پایا ہے۔“
”اوہ! چلیں، وہاں تک چلتے ہیں۔“ جمال نے کہا اور اس طرف چل پڑا۔ وہ ایک گلی نما سڑک تھی۔ اس میں زیادہ تر گھر اور دکانیں تھیں۔ جمال نے نکڑ پر موجود دکان والے کی طرف دیکھا، وہ انہی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جمال نے اس کے قریب جا کر پوچھا:
”یہاں کوئی بھاگتا ہوا آ دمی آیا تھا، وہ…“
”وہ… جی… آ یا تھا ایک آ دمی، یہیں ساتھ میں ایک منی ٹرک کھڑا تھا، وہ اس میں سوار ہوا تو وہ ٹرک تیزی سے چلا گیا۔“
”اوہ! اب وہ ٹرک نجانے کہاں ہو گا، وہ اپنی منزل تک پہنچ چکا ہے یا…“ انسپکٹر نے افسردگی سے کہا۔
”ڈونٹ وری انکل!“ جمال نے کہا پھر دکان دار سے پوچھا:
”اس ٹرک کے بارے میں کوئی مزید معلومات؟“
”یہاں تو ایسے کئی گاڑیاں کھڑی رہتی ہیں، یہ سامنے ایک دکان ہے، اس میں باہر کی طرف کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ وہاں سے آپ دیکھ سکتے ہیں۔“ دکان دار نے کہا تو وہ اس دکان کی جانب بڑھ گئے۔
دکان دار کو بات سمجھانے میں ذرا دیر لگی۔ جب وہ بات سمجھ چکا تو اس نے اپنے کمپیوٹرز تک رسائی دی جس سے کیمروں کی ریکارڈنگ دیکھی جا سکتی تھی۔ کچھ دیر بعد انہوں نے دیکھا، وہاں گلی کی نکڑ پر ایک منی ٹرک کھڑا تھا۔ روبوٹ بھاگتا ہوا آیا اور اس میں پچھلی طرف سے سوار ہو گیا۔ اس کے بیٹھتے ہی وہ ٹرک چل دیا۔ انہوں نے اس ٹرک کی مختلف زاویوں سے تصویر لے لی۔
”ان تصویروں کو ابھی وائرل کریں، یہ ٹرک کہیں نہ کہیں پر ضرور ہو گا؟“ جمال نے کہا۔
”یہ تصویریں ابھی وائرل ہو جاتی ہیں۔“ انسپکٹر نے کہا۔ وہ فون سے تصویریں بھیجنے لگا۔ پھر اس نے اپنے مرکز کو فون کیا تاکہ ساری ہدایات شہر میں پھیلا دی جائیں۔
وہ دونوں اس دکان سے نکلے اور سڑک پر آگئے۔وہ پیدل چلتے ہوئے واپس چوراہے کی جانب بڑھنے لگے۔ ان کی کاریں وہیں کھڑی تھیں۔وہ اسی روبوٹ کے بارے میں بات کرتے جا رہے تھے۔وہ چوراہے پر پہنچ گئے۔وہ اپنی گاڑیوں کی جانب بڑھنے لگے تھے کہ انسپکٹر کا فون بج اٹھا۔اس نے کال ریسیو کر کے ”ہیلو“ کہا اور دوسری جانب کی بات سننے لگا۔
”اوکے!میں دیکھتا ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے کال بند کی اور جوش بھرے انداز میں جمال سے کہا:
”وہ ٹرک مل گیا ہے۔ وہ ساحلی علاقے کی طرف جا رہا ہے۔“
”چلو! پھر نکلیں۔“ جمال نے کہا اور تیزی سے اپنی کار کی جانب بڑھا۔ انسپکٹر بھی اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔جیسے ہی کار نکلی وہ فورسز کو ہدایات دینے لگا۔
جمال کی تمام تر توجہ سڑک پر تھی۔ وہ تیزی سے کار بھگائے چلا جا رہا تھا۔

……٭……

رات کا دوسراپہر چل رہا تھا۔ کانفرنس ہال میں میز کے ارد گرد فیصل ممتاز اور دو آفیسرز بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ اپنی باتوں میں مصروف تھے۔ اتنے میں کرنل بھی کمرے میں آ گئے۔ ان کے آ تے ہی انہوں نے اپنی باتیں ختم کر دیں۔
”جی بولیں فیصل، کیا پراگریس ہے؟“ کرنل نے بیٹھتے ہی پوچھا۔
”سر! یہ سائیٹ دنیا کے مختلف حصوں سے آ پریٹ ہو رہی ہے۔پچھلے چند دنوں سے یہیں اسی شہر سے اس سائیٹ کو چلا یا جا رہا ہے۔ان کا طریقہ کار یہ ہے کہ جس ملک میں یہ کام کرتے ہیں، وہیں سے لوگ انہیں چلاتے ہیں۔عمومی طور پر یہ اپنے کام کا آغاز تین سال پہلے شروع کرتے ہیں، پھر ان کا پورا ایک پلان ہوتا ہے۔“ فیصل ممتاز نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
”اگر ان کا کوئی مقصد سامنے آ جا تا تو بات سمجھنے میں زیادہ آ سانی ہو جاتی۔“ کرنل نے بڑے تحمل سے ایک نیا سوال کیا۔
”بظاہر یہ مقابلے کرواتے ہیں،ذہین لوگوں کو چنتے ہیں اور پھر ان سے اپنے کام لیتے ہیں۔یہ سب کام خفیہ ہوتے ہیں۔یہ جو کل ہمارے سامنے واقعہ پیش آ یا ہے، اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔اس پر جو بے دریغ سرمایہ لگایا جا رہا ہے، وہ پاگل تو نہیں کہ یہ سرمایہ ضائع کر ر ہے ہیں۔“
”مطلب سائیٹ سے آپ کو ان کے مقاصد بارے پتہ نہیں ملتا؟“ کرنل نے پوچھا۔
”وہاں سوائے چند ایک مقابلوں کے مزید کچھ بھی نہیں ہے۔ جیسے جیسے خاص اور ذہین لوگ ان کے سامنے آ تے ہیں، انہیں دیگر ذرائع سے رابطہ رکھتے ہیں۔“فیصل ممتازنے اپنی بات سمجھاتے ہوئے کہا تو کرنل نے ایک آ فیسر کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”فیصل صاحب، میرے خیال میں آپ کو ابھی مزید محنت کی ضرورت ہو گی۔“ کرنل نے کہا تو وہ مسکرا دیا، پھر دھیمے سے لہجے میں بولا:
”سر! اب تک تو وہ باتیں تھیں جو عمومی طورپر سامنے آ تی ہیں، میں ان کا طریقہ کار سمجھ گیا ہوں۔ اگر چہ انہوں نے اپنی سائیٹ پر بہت زبردست سیکورٹی رکھی ہو ئی ہے لیکن میں اس پر ایک بڑا زبردست کام کر سکتا ہوں۔“

”وہ کیا؟“انہوں نے تجسس سے پوچھا۔
”وہ میں ابھی آ پ کو بتاتا ہوں لیکن پہلے یہ سن لیں کہ نیلی روشنی پراجیکٹ، جو ان لوگوں کے لیے ایک اہم پراجیکٹ تھا، یہ والے لوگ، اور جمال کواغوا کرنے والے لوگ دو مختلف ہیں، یہ ایک نہیں ہیں۔ہاں، ان کا ایک دوسرے سے تعاون چل رہا ہے۔“
”وہ تو ہم سمجھ رہے ہیں، اب آپ کی بات سے یقین کر لیتے ہیں۔“ کرنل نے تحمل سے کہا تو وہ دھیمے سے لہجے میں بولا۔
”سر! یہ روبوٹ جمال کو اغوا کرنے والے لوگو ں کا ہے۔“
”اب آ پ بتائیں، آ پ کیا کر سکتے ہیں؟“ کرنل نے پوچھا۔
”سر میں ان کی سائیٹ کو ہیک کر سکتا ہوں۔اس سے جڑے ہوئے جتنے لوگ ہیں، انہیں کوئی بھی ہدایت دے سکتا ہوں۔“اس نے تیزی سے کہا۔
”آپ ایسا کر لیں گے؟“ انہوں نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”جی! یہ میرے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا، اب اس سے آ گے بھی ایک بات ہے۔“اس نے انتہائی سنجیدگی سے کہا۔
”وہ کیا؟“ کرنل نے تجسس سے پوچھا۔
”اگر آ پ ان لوگوں کو ختم کر نا چاہتے ہیں، تو وہ لوگ ویسے ہی رہیں گے جو ان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، بلکہ نہ اِدھر کے رہیں نہ اُدھر کے۔اگر انہیں ایک دم سے ختم کر نا ہے، توسائیٹ پر کچھ دکھائی نہیں دے گا۔لیکن اگر انہیں آہستہ آہستہ اندر تک جا کر پکڑنا ہے تو اس کے لیے کچھ دن لگیں گے۔“
”ہم اس پر بات کرلیتے ہیں۔“ کرنل نے دلچسپی سے کہا۔
”دوسری بات، وہ لوگ فوراً پکڑے جا سکتے ہیں جو اس سائیٹ کو یہاں سے آپریٹ کر رہے ہیں۔“ا س نے کہا تو کرنل نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”سب سے اہم بات تم اب بتا رہے ہو، جلدی بتاؤ۔“ انہوں نے کہا تو فیصل ممتاز نے اپنے ساتھ پڑے ہوئے ایک بیگ سے کاغذنکالا۔ وہ کئی کاغذوں کو جوڑ کر بنایا ہوا تھا۔ اس نے وہ میز پر پھیلا دیا۔
اس کاغذ پر بہت ساری لکیریں تھیں۔ جن میں تین جگہوں پر سرخ نشان تھے، کچھ پر سبز اور کہیں کہیں دوسرے رنگوں کے نشان تھے۔ وہ ان لکیروں کی مناسبت سے سمجھانے لگا۔
”سر! میں اور میری ٹیم تب سے ا س پر کام کر رہے ہیں، جب یہ ہمارے سامنے آ ئی تھی۔ ہماری تحقیق کے مطابق یہ لوگ ہمارے شہر ہی میں موجود ہیں، ان تین اہم جگہوں سے یہ سائیٹ آ پریٹ ہو رہی ہے، جن پر سرخ نشان ہیں۔“
”اور باقی…؟“ کرنل نے پوچھا۔
”یہ ان کے ساتھ دیگر لوگ ہیں، ممکن ہیں یہ ان کے ساتھی ہوں یا نہ ہوں۔“
”اور یہ سیاہ نشان ہے؟“ کرنل نے پوچھا۔
”یہ اب ختم ہو چکا، پہاڑیوں میں تھا،سفیدفام جہاں سے پکڑا گیا تھا۔“اس نے کہا۔
”تو اب یہاں پر چھاپہ مار سکتے ہیں؟“ کرنل نے پوچھا۔
”جی بالکل، اس لو کیشن کے حساب سے میں نے نقشے دیکھے ہیں، ان سے ایڈریس تک نکال لیے ہیں۔“فیصل نے کہا۔
”گڈ!“ کرنل نے کہا اور پھر دونو ں آ فیسرز کی طرف دیکھ کر کہا۔
”آپ فوراً تین ٹیمیں تشکیل دیں، ان تینوں جگہوں کو ایک ہی وقت میں چیک کیا جائے، ایک گھنٹے بعد ہم نکل رہے ہیں۔“
”بہتر سر۔“ انہوں نے یک زبان کہا۔
”وہ کل جو پارکنگ میں اودھم مچانے والے لوگ تھے کیا وہ سب پکڑے گئے؟“کرنل نے اچانک پوچھا۔
”جی! دو چار رہ گئے ہیں، ان کی بھی شناخت ہو جائے گی، وہ بہت جلد پکڑے جائیں گے۔“ آ فیسر نے مؤد ب لہجے میں جواب دیا۔
”اور ٹرک کے بارے میں کوئی اطلاع…؟“
”ابھی تک تو نہیں ملی سر۔“ دوسرے نے بھی اسی طرح مؤدب لہجے میں کہا۔
”سر! کچھ تصویریں انسپکٹر منصور نے وائرل کی ہیں۔اس پر ایک جگہ سے اطلاع ملی ہے کہ وہ ٹرک ساحلی علاقے کی طرف جا رہا ہے۔ جمال اور انسپکٹر اس کے پیچھے گئے ہیں۔“ آ فیسر نے مؤدب لہجے میں بتایا تو کرنل نے حیرت سے کہا:
”وہ دونوں… باقی فور سز کدھر ہیں؟“
”سر! ان کے پیچھے جارہے ہیں۔“ اس نے تیزی سے بتایا۔
”فوراً ان کاپتہ کرو، بلکہ میں بھی دیکھتا ہوں۔ سب جلدی…“ کرنل نے کہا تو وہ دونوں آ فیسر کمرے سے نکلتے چلے گئے۔
فیصل ممتاز اپنی تمام تر بریفنگ کے بعد کرنل کے ساتھ خاموش بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک اس نے کرنل سے سوالیہ انداز میں کہا:
”سر! یہاں تو کوئی ایسابندہ نہیں جو روبوٹ بنا رہا ہو یا بنا چکا ہو۔یہ اچانک ہی کہیں باہر سے آ یا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ فضائی راستے سے یہاں آ نے والے مسافروں کو دیکھ سکیں، ان کے بارے میں معلومات لے سکیں۔اگر یہ باہر سے آ یا ہے تو لازمی طور پر اسے آ پریٹ کر نے والا بھی اس کے ساتھ ہو گا۔“
”بات تو تمہاری ٹھیک ہے۔ہم پچھلے دو ہفتوں کاریکارڈ پتہ کروا لیتے ہیں۔“ کرنل نے تجسس سے کہا۔
”کچھ نہ کچھ معلوم ہوجائے تو…“اس نے کہا۔
”بہتر ہے، کوئی سراغ تو ملے گا۔“ کرنل نے کہا اور کانفرنس روم سے اٹھا تو فیصل ممتاز بھی اس کے ساتھ ہی باہر جانے کے لیے کھڑا ہو گیا۔اسے روبوٹ آپریٹ کرنے والے کی تلاش کا ٹارگٹ دے دیاگیا تھا۔

……٭……

پکڑو اسے!

جمال تیزی سے کار بھگاتا ہواساحلی علاقے میں آ چکا تھا۔اس کے ساتھ بیٹھا ہوا نسپکٹر اپنے سیل فون پر پورے علاقے میں پھیلی ہوئی فورسز سے رابطے میں تھا۔انہیں کچھ دیر پہلے اطلاع ملی تھی کہ وہ ٹرک ساحل کے قریب کی آ بادی میں دیکھا گیا ہے، پھر اس کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ وہ دیوانہ وار اس علاقے میں پھر رہے تھے۔ انہیں امید تھی کہ وہ بہت جلد اس ٹرک کو تلاش کر لیں گے۔
جمال آج رات ہونے والے سارے واقعات پر سوچتا چلا جا رہا تھا۔ کوئی ایسی بات اس کے دماغ میں تھی جس کی سمجھ نہیں آ رہی تھی لیکن کچھ ایسا تھا جو اسے کھٹک رہا تھا۔اس نے کچھ دیر تک سوچا، پھر اسے اپنے دماغ سے جھٹک دیا۔وہ جوں جوں آ گے بڑھ رہا تھا، اس کے اندر کی کیفیات بدلتی چلی جا رہی تھیں۔اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ اپنے آ پ میں نہیں ہے۔
سڑک مڑتے ہی اچانک انہیں ایک ٹرک دکھائی دیا جو کافی حد تک اندھیرے میں تھا۔ جمال نے اس کے قریب کار روک دی۔ انسپکٹر پسٹل سنبھالتا ہوا تیزی سے نکلا اور اس ٹرک کے پاس جا پہنچا۔وہ ٹرک پہچان گئے تھے۔
ٹرک کے پاس کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے انتہائی محتاط انداز میں اس کی ڈرائیونگ سیٹ پر دیکھا، وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ فوری طور پر پیچھے کی جانب آ ئے۔ انہوں نے پیچھے لگا ہوا دروازہ کھولا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔انہیں لمحات میں جمال کو اپنے پیچھے معمولی سی چاپ کا احساس ہوا، اس نے پلٹ کر دیکھا، وہ روبوٹ اس سے دس پندرہ قدم کے فاصلے پر یوں آ رہا تھا جیسے ا ن پر حملہ کر نے لگا ہو۔
”انکل! بچیں…“ جمال نے کہا اور روبوٹ کے سامنے آ گیا۔
اس سڑک پر وہی تین تھے۔ جمال اورروبوٹ آ منے سامنے تھے۔ جمال اس پر نگاہیں جمائے ہو ئے تھا۔ روبوٹ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے جمال کو پکڑنا چاہا تو وہ ایک جانب پہلو بچا گیا۔جمال سمجھ رہا تھا کہ اس ہاتھوں سے کیا گیا وار کارگر نہیں ہوگا۔ وہ اُچھلا اور اسی کی پشت پر چڑھ کر اس کی گردن پکڑ لی، اس نے گردن کو پکڑے اپنا سارا وزن ایک جانب کر دیا۔ وہ لڑکھڑا گیا لیکن لمحے سے بھی کم وقت میں اپنا توازن درست کر کے ایک پھریری لی، جمال دور جا گرا۔ جب تک وہ اٹھا، روبوٹ اس کے سر پر پہنچ چکا تھا۔انہیں لمحات میں انسپکٹر نے اونچی آواز میں کہا:
”جمال! یہ لوہے کا راڈ…“
جمال ایک دم نیچے بیٹھا اور پھسلتاہوا ایک جانب چلا گیا۔ تب تک انسپکٹر نے وہ راڈ اس کی جانب پھینک دیا تھا۔ جمال چشم زدن میں اس لوہے کے راڈ تک پہنچا اور اسے اٹھا لیا۔ اب وہ پھر سے آ منے سامنے تھے۔اس سے پہلے کہ وہ ایک دوسرے پر وار کرتے،روبوٹ مڑا اور ایک جانب بھاگنے لگا۔جمال کو ایک لمحہ سمجھ میں نہیں آ یا کہ یہ کیا ہوا مگر اگلے ہی لمحے وہ سمجھ گیا کہ روبوٹ لوہے کے اس راڈ سے ڈس آرڈر ہو جاتا ہے، اسی لیے وہ بھاگ رہا ہے۔وہ بھی اس کے پیچھے بھاگ کھڑا ہوا۔ اب وہ اسے اپنی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہو نے دینا چاہتا تھا۔ وہ انتہائی تیزی سے اس کے پیچھے بھاگنے لگا۔
وہ آ گے پیچھے بھاگتے ہوئے ساحل کے اس علاقے کی جانب بڑھ رہے تھے جہاں چٹانیں تھیں۔ریتلا علاقہ کہیں پیچھے رہ گیا تھا، اب پتھریلی زمین شروع ہو گئی تھی۔پیچھے رہائشی کالونی میں تو سٹریٹ لائٹ سے تھوڑی بہت روشنی تھی لیکن یہاں پر اندھیرا تھا۔جمال اُسے نگاہوں میں رکھے اس کے پیچھے بھاگتا چلا جا رہا تھا۔کبھی ان کافاصلہ زیادہ ہو جاتا اور کبھی کم ہو جاتا۔وہ اب ان چٹانوں پر چڑھ گئے تھے جو کافی اونچی تھیں۔ جمال تندہی سے اس کے پیچھے تھا، وہ دیکھ رہا تھا کہ کہیں کہیں اس کا پاؤں نہیں جمتا تھا۔ وہ تھوڑا پھسل جاتا ہے۔ وہ آ گے پیچھے جاتے ہوئے چٹان سے سرے پر پہنچ گئے۔ دوسری جانب سمندر کی بپھری ہوئی لہریں تھیں۔ وہ پھر سے ایک دوسرے کے سامنے تھے۔
جمال لوہے کا راڈ گھماتا ہوا اس کی طرف بڑھا۔وہ یوں ایک طرف ہونے لگا جیسے اس کے وار سے بچنا چاہتا ہو۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ یوں اوپر اٹھا لیے کہ اگر جمال اس کے سر پر وار کر تا ہے تو اپنا سر بچا لے۔اچانک روبوٹ نیچے بیٹھا اور اس نے جمال کی ٹانگیں پکڑنے کی کوشش کی، جمال محتاط تھا، اس نے راڈ کو پتھر پر ٹکایا اور اس پر گھوم کر اپنے پاؤں کی ٹھوکر روبوٹ کے ماری، وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پایا۔ وہ پیچھے کی جانب الٹا،مگر فوراً ہی سیدھا ہو گیا۔ وہ جمال کے اس ہاتھ کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگا، جس میں راڈ پکڑا ہوا تھا۔مگر جمال اپنے اس ہاتھ کو بچاتے ہوئے وار کرنے کی کوشش میں تھا۔
جمال نے راڈ اس کے سر پر مارنے کے لیے اپنا ہاتھ اٹھایا۔ روبوٹ نے ذرا سی جھکائی دی اور جمال کو دونوں بانہوں میں بھر لیا۔جمال کو لگا جیسے وہ شکنجے میں کسا جا چکا ہے جو لمحہ بہ لمحہ سخت ہو تا چلا جا رہاتھا۔ جیسے ہی جمال نے راڈ چھوڑ کر خود کو اس شکنجے سے نکالنے کی کوشش کی، روبوٹ دو قدم پیچھے ہٹا۔ وہ چٹان کے بالکل سرے پر تھا۔ اگلا قدم فضا میں لہرایا اور وہ جمال سمیت سیدھا سمندر میں گرتا چلا گیا۔ ایک تیز آ واز تھی جو اسے گونجتی ہوئی محسوس ہو ئی تھی۔ شاید یہ الارم تھا۔
وہ پانی کی سطح پر گرا اور پھر تہہ میں ڈوبتا چلا گیا۔روبوٹ نے اپناشکنجہ نہیں چھوڑا تھا۔اسے یوں لگا جیسے اس کا سانس بند ہو رہا ہے۔ وہ زیادہ دیر تک اپنا سانس بند نہیں کر سکتا تھا۔ اوپر سے وہ روبوٹ کے شکنجے میں تھا جس سے اس کا دم گھٹ رہا تھا۔ اسے لگا، جیسے اس کی تمام تر حسیات ختم ہو تی چلی جا رہی ہیں۔ اس نے خود پر قابو پانے کی بہت کوشش کی لیکن یہ احساس ہوا جیسے اس کے حواس اس کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔اچانک اس کا سانس بند ہو نے لگا، یہ کیسے ہوا، اسے بالکل سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔اسے یہ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ سمند رکی تہہ میں جا رہا ہے یا سطح پر ابھر رہا ہے۔ اس کے سامنے تاریکی تھی۔
جمال بالکل بھی نہیں دیکھ پا رہا تھا۔ وہ بے ہوش ہو چکا تھا۔ وہ پانی میں بے حس تیر رہا تھا۔ اس کے ارد گرد کئی سارے غوطہ خور آ گئے تھے۔ انہوں نے روبوٹ کو ایک طرف دھکیلااور جمال کو پکڑ کر اس کی ناک کے ساتھ آ کسیجن لگا دیا۔ آکسیجن سلنڈر لگانے کے بعد انہوں نے جمال کو اوپر کی جانب اٹھالیا۔ وہ اسے لیے سطح سمندر پر لے جا رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد وہ سطح سمندر پر ابھر آ ئے۔ ان کے نزدیک ہی ایک موٹر بوٹ آ ن رکی، انہوں نے بے ہوش جمال کو اس میں ڈالا اور موٹر بوٹ گہرے سمندر کی جانب چل دی۔

٭

کرنل افتخار کنٹرول روم میں کھڑا دیکھ رہا تھا۔ تربیتی مرکز سے تین مختلف ٹیمیں نکل چکی تھیں۔ ان کے لیے فورسز کو الرٹ کر دیا گیا تھا۔سامنے دیوار پر تین اسکرینیں لگی تھیں۔ ان تینوں کے کیمرے دکھا رہے تھے کہ وہ اس وقت کہاں سے گزر رہے ہیں۔ایک جانب کنٹرول روم میں اس کے راستوں کے بارے میں سرخ نشان آ گے ہی آ گے بڑھتا چلا جا رہا تھا۔
پہلی ٹیم اپنے ٹارگٹ مقام تک پہنچ چکی تھی۔وہ ایک رہائشی علاقے میں بڑا سا بنگلہ تھا۔اس کے سامنے کی سڑک سنسان تھی۔ ٹیم کے لوگوں نے اپنی کار تھوڑے فاصلے پر چھوڑ دی۔ وہ بنگلے کے سامنے جانے کی بجائے اس کے ایک طرف چلے گئے۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس بنگلے کے ارد گرد حفاظت کے لیے کیمرے ضرور لگائے گئے ہوں گے۔ ممکن ہے اس کے علاوہ کوئی حفاظت کے لیے مزید اقدامات کیے گئے ہوں۔
ایک جوان آ گے بڑھا اور لمحوں میں دیوار پر چڑھ گیا۔ جیسے ہی وہ دیوار کے اوپر پہنچا، ایک دم سے الارم بج گیا۔ اس نے الارم کی پروا نہیں کی۔ بلکہ دوسری جانب کود گیا۔ اندر لان اور پورچ میں کوئی بھی نہیں تھا۔اب جبکہ الارم بج ہی گیا تھا، باقیوں نے بھی پروا نہیں کی اور وہ دیوار پر چڑھ کر اندر کودنے لگے۔حیران کن بات یہ تھی کہ ابھی تک کوئی بھی ان کے سامنے نہیں آ یا تھا۔ وہ پھیلتے ہوئے کاریڈور میں چلے گئے۔ یہاں تک کہ دروازے تک جا پہنچے۔ انہوں نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی تو وہ اندر سے بند تھا۔ وہ دروازہ کھولنے کی کوشش میں تھے کہ انہیں احساس ہو ا، پچھلی طرف کوئی ہے۔ دو جوان اس جانب بھاگے۔ انہوں نے دیکھا، تین لوگ بھاگے چلے جا رہے ہیں۔جوانوں نے للکارتے ہوئے کہا:
”رک جاؤ، ورنہ گولی مار دیں گے۔“
وہ نہیں رکے تو جوانوں نے فائرنگ کر دی۔ بھاگتے ہوئے لوگ سہم کر وہیں بیٹھ گئے۔ اگلے چند منٹ میں وہ تینوں پکڑے گئے۔ ٹیم کے لوگ انہیں پکڑ کر اندر لے گئے۔ یہاں تک کہ وہ اس کمرے تک جا پہنچے، جہاں کئی کمپیوٹر پڑے ہوئے تھے۔ وہاں دو لوگ مزید موجود تھے۔
دوسری ٹیم اس وقت تک اپنے ٹارگٹ مقام تک پہنچ گئی تھی۔ وہ بھی پوش علاقے میں ایک گھرتھا۔ایک جوان اس گھر کے گیٹ پر پہنچا۔ چوکیدار نے ذرا سا گیٹ کھول کر پوچھا ہی تھا کہ جوان اندر داخل ہو نے کی کوشش کر نے لگا۔ جب تک چوکیدار نے گن سیدھی کی۔ وہ اس پر حاوی ہو چکا تھا۔وہاں سے لوگوں کو گرفتار کرتے ہوئے انہیں پانچ سے دس منٹ لگے تھے۔
اس وقت کرنل افتخار تیسری ٹیم کو دیکھ رہا تھا، جو اپنے ٹارگٹ مقام تک پہنچ کر کارروائی کر رہی تھی۔ ایسے میں اس کے سیل فون کی اسکرین جگمگا اٹھی۔ اس نے دیکھا، انسپکٹر منصور کی کال تھی۔ اس نے فوراً کال ریسیو کی۔ دوسری جانب سے انسپکٹر منصور نے انتہائی دکھ بھرے لہجے میں کہا:
”جمال اور روبوٹ لڑتے ہوئے سمندر میں جا گرے ہیں۔“
”کیا کہہ رہے ہو؟“ انہوں نے وحشیانہ انداز میں پوچھا۔
”میں سچ کہہ رہاہوں، میں نے اپنی آ نکھوں سے دیکھا ہے۔“
”اوہ…“ کرنل کے منہ سے بے ساختہ نکلا:
”اب کیا ہو گا َ؟“
”پتہ نہیں۔“ انسپکٹر نے کہا تو ایک دم سے خاموشی چھا گئی۔
کرنل بے دم سا ہو کر کرسی پر ڈھے گیا۔

٭

جمال دھیرے دھیرے حواس میں آ نے لگا تھا۔آخری بار اس نے خود کو پانی میں گرے ہوئے پایا تھا لیکن اس وقت وہ کسی دباؤ میں نہیں تھا۔ کچھ آ وازیں اس کے کانوں میں پڑ رہی تھیں۔ پہلے اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا باتیں کر رہے ہیں، پھر اسے سمجھ آ نے لگیں۔
”دیکھو، لگتا ہے اسے ہوش آ گیا ہے۔“ پہلی آ واز گونجی۔
”ہاں! اس کی آنکھوں کی پتلیاں بتا رہی ہیں۔“ دوسری آ واز اس کے کانوں میں پڑی۔ جیسے ہی کسی نے اسے ہاتھ لگایا، اس نے آ نکھیں کھول دیں۔ اس وقت وہ ایک چھوٹے بحری جہاز کے کیبن میں لیٹا ہوا تھا۔ اس کے ارد گرد تین لوگ کھڑے تھے۔اس سے تھوڑے سے فاصلے پر وہی روبوٹ کھڑا بے حس نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
”میں کہاں ہوں اور تم کون لوگ ہو؟“ جمال نے سخت لہجے میں پوچھا تو ایک جانب بیٹھے ہوئے ادھیڑ عمر شخص نے مسکراتے ہوئے کہا:
”ارے میاں! یہ تو ایک ڈاکٹر ہے، یہ جو دوسرا میرا خاص ساتھی ہے، اور میں ہوں تمہارا چاہنے والا۔“
”میں سمجھا نہیں… میرا چاہنے والا۔“جمال نے حیرت سے پوچھا۔
”ہاں بھئی! چاہنے والا، جس کی چاہت، جسے حاصل کرنے کے لیے ہم نے اپنی جان داؤ پر لگائی ہو ئی تھی۔ اتنا سرمایہ خرچ کیا، اس جیسا روبوٹ لانا پڑا، پھر کہیں جا کر تم قابو میں آ ئے ہو۔“ اس نے طنزیہ انداز میں کہا اور پھر قہقہہ لگا دیا۔
”کون ہو تم؟“ جمال نے پوچھا۔
”ارے میاں! ہمارا تعارف جان کر کیا کرو گے، تم ہمارے پاس تھوڑی دیر کے لیے مہمان ہو۔پھر نہ ہم نے تم سے ملنا ہے اور نہ تم،ہم سے ملو گے۔ اب اس تھوڑی دیر کے لیے جان پہچان کاہے کو کرنی… چھوڑو۔“ اس نے اسی طنزیہ لہجے میں کہا توجمال نے بے چین ہو تے ہوئے پوچھا۔
”تم مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو؟“
”ارے ارے میاں! آ رام سے، بتا دیتے ہیں اتنا غصہ کیوں کر رہے ہو۔“ اس نے حقارت سے کہا۔
”بولو، مجھے بتاؤ۔“ جمال نے کہا۔
”اگر چہ ہم تمہارے پا بند نہیں ہیں، ہم چاہیں تو اس بدتمیزی والے انداز پر ابھی کچھ جھانپڑ تمہارے منہ پر ماردیں لیکن پھر سوچا مہمان ہو تم۔“ اس نے پھر گول مول بات کر دی۔ایک دم سے جمال سمجھ گیا تھا کہ کون سی بات اس کے دماغ میں کھٹک رہی تھی۔ وہ لوگ جمال اور سب لوگوں کے ساتھ کھیل گئے تھے۔
”اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ…“ جمال نے کہنا چاہا تو اس ادھیڑ عمر شخص نے اس کی بات کاٹتے ہوئے سختی سے کہا۔
”نہ میاں نہ… اب زیادہ بکواس کرنے کی ضرورت نہیں، تم ہمارے قابو میں تھوڑی دیر کے لیے ہو، اس دوران اگر تم نے کوئی کوشش بھی کی تو ہم تمہیں مار بھی سکتے ہیں۔اب جو کرنا ہے، اسی ڈاکٹر ولیم کے ساتھ کرنا، جس کے لیے ہم نے تمہیں اغوا کیا ہے۔ سمجھے!“
”تم لوگ اگر کوشش بھی کرو نا تو مجھے پھر بھی نہیں لے جا سکتے۔“جمال نے درشت لہجے میں کہا تو وہ ادھیڑ عمر شخص قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔
”ارے میرے راجہ! میں خوش ہوا… اس وقت جبکہ تم ایک بھیگے چوہے کی مانند میرے سامنے پڑے ہو، پھر بھی پر امید ہو۔اب میں سمجھا، وہ باؤلا ڈاکٹر کیوں تمہارے لیے پاگل ہو رہا ہے۔“
”تم لوگ مجھے ٹریپ کر کے…“ اس نے کہنا چاہا تو وہ پھر ہنستے ہوئے بولا۔
”ٹریپ ہی تو کیا، ورنہ تم کیسے قابو میں آ تے میاں۔وہ انسپکٹر وہاں بھٹک رہا ہے اور تم یہاں ہمارے پاس ہو۔یہ روبوٹ ناقابل تسخیر ہے۔ ایک راڈ کی ضرب سے اگر یہ خراب ہو نے والا ہو تو اسے بنا نا ہی بے کار ہے میاں۔“
”میں اب بھی آپ لوگوں سے کہہ…“جمال نے کہنا چاہا لیکن اس کی بات سنے بغیر ادھیڑ عمر شخص نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا:
”سنو میاں! آخری بار کہہ رہا ہوں، تم ہو ہمارے تھوڑی دیر کے لیے مہمان، تمہارے کہیں چوٹ نہ لگ جائے، اس لیے مہمان بنایاہوا، ورنہ تم کسی خارش زدہ کتے کی مانند وہاں فرش پر پڑے ہو تے، اب اپنا منہ بند رکھنا اور کوئی بکواس مت کرنا، ورنہ میرا دماغ گھومنے میں وقت نہیں لگتا۔“
”سر لگائیں اسے انجکشن…“ قریب کھڑے ڈاکٹر نے اجازت طلب انداز میں پوچھا۔
”ارے میاں! مجھے ایک بار کنفرم کر لینے دو، ابھی بتاتا ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے کیبن کے دروازے کی طرف دیکھا۔ پھر سکون سے ایک جانب کاؤچ پر بیٹھ گیا۔اس کا انداز ایسا ہی تھا جیسے کسی کا منتظر ہو۔
”اگر آپ کہیں تو میں بلالاؤں۔“ ایک طرف کھڑے شخص نے کہا۔
”ابھی آ جائے گا۔“ اس ادھیڑ عمر شخص نے کہا اور پرسکون انداز میں بیٹھ گیا۔
جمال اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔اس کے اندر کی کیفیت بدل رہی تھی۔ ایسے میں اس کے سامنے تاریکی چھا گئی۔ لمحہ بھر بعد اس کے سامنے ایک نقطہ روشن ہوا جو سرخ تھا۔ وہ سرخ نقطہ پھیلتا چلا گیا جو بہتے ہوئے پانی کی صورت بن گیا۔ وہ سرخ پانی اس کے سامنے ہل رہا تھا۔اچانک ایک طرف سے اس میں سفیدی کی لکیر آ گئی۔وہ لکیر جیسے جیسے سرخ پانی میں تحلیل ہوتی چلی جا رہی تھی، اسی طرح اس سرخی میں انتشار بننے لگا، وہ سرخ پانی کھولنے لگا۔ اس میں بلبلے اٹھنے لگے۔وہ بلبلے پھٹتے تو اس میں چنگاریاں نکلنے لگتیں۔کچھ دیر بعد وہ انتشارتھم گیا۔ سرخی دھیرے دھیرے تاریکی میں بدلی اور دو چمکتی ہوئی آ نکھیں دکھائی دینے لگیں۔ان سے شعلے نکل رہے تھے۔ اچانک وہ آ نکھیں بند ہو گئیں۔شعلے بند ہو گئے، پھر سب واضح ہو گیا تھا۔
جمال اٹھ کر بیٹھ گیا۔اس نے دیکھا، تھوڑے فاصلے پر وہی ادھیڑ عمر شخص بیٹھا ہوا تھا۔ ایسے میں اس چھوٹے بحری جہاز کو چلانے والا کپتان کیبن میں آ گیا۔ ادھیڑ عمر نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا:
”ہاں بولو! کیا کہتے ہیں؟“
”کچھ نابوائیل ہمیں جانا ہو گا، گہرے پانی میں، وہیں ایک ہیلی کاپٹر آ ئے گا، ہم نے اسے وہیں سوار کرانا ہے۔ ہمارا کام ختم ہو جائے گا۔پھر ہمارا کوئی تعلق نہیں رہے گا۔“کپتان نے فکر مندی سے کہا۔
”پھر وہ آ گے کیسے لے جائیں گے؟“ ادھیڑ عمر نے پوچھا۔
”مجھے لگتا ہے کہ وہ ہمسایہ ملک میں کہیں لے جائیں گے، وہاں سے چارٹرڈ جہاز سے لندن روانہ ہو جائیں گے۔“اس نے تیزی سے کہا۔
”بالکل! اسی لیے اسے انجکشن کی ضرورت ہے۔ تاکہ یہ لندن تک بے ہوش رہے۔ وہاں اسے مریض بھی تو ثابت کرنا ہے نا۔“ ادھیڑ عمر نے سوچتے ہوئے کہا۔
”ہاں! بس ہم دس منٹ تک گہرے پانی میں پہنچ جائیں گے۔ لگا دیں اسے انجکشن۔“ کپتان نے کہا اور باہر کی طرف چل دیا۔ تبھی ادھیڑ عمر نے ڈاکٹر کو اشارہ کر دیا۔ ڈاکٹر نے تیزی سے ایک ڈبہ کھولا، اس میں سے سرنج نکالی۔ ساتھ ہی ایک چھوٹی سی شیشی سے دوا بھری اور جمال کے انجکشن لگانے کے لیے تیار ہو گیا۔
”دیکھو! مجھے بے ہوش مت کرو۔“ جمال نے کہا۔
”تو میاں! اور تمہاری کیا سیوا کریں، تم تو قابو میں نہیں آ ؤ گے۔ ابھی تو ہمارے پاس یہ کھڑے ہیں میاں روبوٹ، یہ قابو میں رکھے گا تمہیں۔اچھے بچے بنو اور آ رام سے انجکشن لگوا لو۔ بس پھر تمہاری آ نکھ لندن ہی میں کھلے گی، تم بھی پرسکون رہو گے۔“ ادھیڑ عمر نے کہاتو ڈاکٹر نے آ گے بڑھ کر اس کا بازو پکڑنے کا اشارہ کیا۔ جمال نے مزاحمت کرنا چاہی تو روبوٹ آ گے بڑھا، اس نے جمال کو اپنے دونوں ہاتھوں کے شکنجے میں کس لیا۔جمال اس کے شکنجے سے نکلنے کے لیے زور آ زمائی کرنے لگا۔ایسے میں اس کا بازو کئی لوگوں نے پکڑ لیا۔
وہ بے بس ہو گیا تھا۔ جمال کی یہ غلط فہمی دور ہو گئی تھی کہ اس روبوٹ کو کوئی آپریٹ کرتا ہے۔ اس میں جدید ترین بوائینا لو جی تھی، جس کے بل بوتے پر وہ سب کچھ کر رہا تھا۔ جمال کو ا س کی سمجھ آ گئی تھی۔ لیکن اس وقت جب وہ بے بس ہوا۔

ڈاکٹر نے اس کی رگ تلاش کرنے میں دو چار لمحے لگائے اور اسی افراتفری میں اس کے انجکشن لگا دیا۔ جیسے ہی سوئی اس کے جسم میں لگی اور دوا اس کے بدن میں داخل ہو نے لگی، اس کے اندر آ گ لگ گئی۔چند لمحوں میں ساری دوا اس کے بدن میں داخل کر دی گئی۔وہ لوگ اس سے پیچھے ہٹ گئے۔ روبوٹ ایک جانب جا کرکھڑا ہوگیا۔
جمال کا سر چکرانے لگا تھا۔اس کے جسم میں آگ بھرنے لگی۔اسے کچھ دیر پہلے دیکھا گیا منظر یاد آ گیا۔وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ انجکشن اسے ری ایکٹ کر گیا تھا۔ اس کے چہرے پر پسینہ پھوٹ پڑا تھا۔ اس نے آ نکھیں کھول کر دیکھا، ہر شے لرزتی ہوئی محسوس ہو نے لگی تھی۔ اس نے خود کو سنبھالنے کے لیے دونوں ہاتھوں سے اس بیڈ کو سنبھالنا چاہا، لیکن وہ اس کی گرفت سے تڑخ کر کے ٹوٹ گیا۔ وہ فرش پر جا گرا۔یہی وہ لمحہ تھا جب اس کے ذہن میں ساری بات آ گئی تھی کہ اسے کیا کرنا ہے۔ وہ اپنے پاؤں پر اچھلا اور دروازے کے باہر چلا گیا۔
”پکڑو اسے…“ ادھیڑ عمر کی زور دار آ واز گونج کر رہ گئی۔اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ بھاگتا ہوا جہاز کے عرشے پر جا پہنچا۔اسے معلوم تھا کہ اس کے پیچھے کون آ ئے گا۔ اس نے اندھیرے میں بپھرے ہوئے سمندر کو ایک نگاہ دیکھا۔ جہاز کی روشنیاں سمندر کے جھاگ اڑاتے ہوئے پانی پر پڑ رہی تھیں۔وہ تیار ہو کر کھڑا ہو گیا۔اگلے ہی لمحے روبوٹ عرشے پر نمودار ہوا۔وہ اسی کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کے پیچھے وہی ادھیڑ عمر اور ایک شخص تھا۔ شاید وہ یہ سمجھے تھے کہ جمال سمندر میں چھلانگ لگا دے گا۔
”دیکھو! تم نہ جاؤ… کہیں سمندر میں…“ ادھیڑ عمر نے زور سے کہنا چاہا لیکن جمال نے پرسکون لہجے میں اپنے لبوں پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔
”خاموش…“ اس نے یہ کہا اور اپنی طرف آ تے ہوئے روبوٹ کو نگاہوں میں رکھ لیا۔
وہ اپنے بازو پھیلائے جمال کو اپنے شکنجے میں کسنے کے لیے آ گے بڑھ رہا تھا۔ وہ رکا نہیں بلکہ سیدھا اس تک آ یا۔جمال اپنی جگہ سے نہیں ہلا، جیسے ہی وہ اس کے جسم کو چھونے لگا، جمال جھکائی دے کر نیچے بیٹھ گیا۔ جب تک روبوٹ واپس پلٹا، جمال اس کے پیچھے آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔
ابھی وہ پہلوہی میں تھا کہ جمال نے ایک بھرپور لات اس کی کمر میں ماری، وہ ہلکا سا لڑکھڑایا اور عرشے کی ریلنگ کے ساتھ جا لگا۔اس نے خود پر قابو پا لیا تھا تب تک جمال اس کے سر پر پہنچ گیا۔ اس نے گھوم کر پھر سے اس کے فلائنگ کک لگا ئی۔ یہ بہت بڑا رسک تھا لیکن جمال وہیں گھوم کر عرشے پر آ گیا لیکن روبوٹ ریلنگ کی دوسری جانب لٹک گیا تھا۔ اس کے ہاتھ ہی جہاز کو چھو رہے تھے لیکن اس کا بدن فضا میں تھا۔
وہ واپس جہاز کے عرشے پر آ نے کے لیے بدن کو تول رہا تھا۔ اس کا چہرہ اوپر کی طرف تھا۔ جمال نے دونوں ہاتھوں کی ایک ایک انگلی اس کی آ نکھوں میں ڈال دی۔ وہ ایک دم ساکت ہو گیا۔جمال نے اسے دیکھا، وہ وہیں لٹک رہا تھا، اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تین فائٹر نما لوگ آ چکے تھے۔ ان میں سے ایک کے ہاتھ میں گن تھی۔ باقی دو خالی ہاتھ تھے۔ وہ شاید بہت زیادہ پراعتماد تھے، یا پھر انہیں روبوٹ کا زعم تھا، جو اس وقت ریلنگ کے ساتھ لٹک رہا تھا۔ جمال نے ایک لمحہ کے لیے انہیں دیکھا اور پھر روبوٹ کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ ابھی تک لٹک رہا تھا۔ وہ چاہتا تو ایک لمحے میں اسے گرا سکتا تھا لیکن اسی لمحے ادھیڑ عمر کی آ واز آ ئی۔
”رُکو! جی بوائے، ورنہ گولی ماردوں گا…“
جمال رک گیا۔ اس نے پلٹ کر اسے دیکھا اور پھر اونچی آ واز میں بولا:
”اب میں نہیں رکنے والا، تم چاہو تو فائر کر سکتے ہو۔“
”یہ مت سوچنا کہ تم ہمارے مہمان بنے رہو گے۔“ ادھیڑ عمر نے کہا تو جمال نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا:
”تمہارا یہ روبوٹ تو اب بے کار ہو چکا، یہ یہیں لٹکتا رہے گا، جب تک میں نہ چاہوں کہ اسے سمندر میں گرا دوں۔“
”تم ایسا نہیں کر سکتے ہو۔“ اس ادھیڑ عمر نے دھمکاتے ہوئے کہا۔
”تم مجھے نہیں روک سکتے۔ اگر روک سکتے ہو تو روک لو۔“ جمال نے لاپروائی سے کہا۔
”پکڑو اسے۔“اس ادھیڑ عمر شخص نے کہا۔
اس کے ارد گرد کھڑے لوگ جمال کو پکڑنے کے لیے آ گے بڑھے۔جیسے ہی ایک شخص اسے پکڑنے کے لیے مکا لہراتے ہوئے اس کے قریب آ یا، جمال تھوڑا سا اچھلا اور اس نے اس شخص کی گردن کو پکڑا،ٹانگیں اوپر اٹھائیں اور عرشے پر خود کو گرا دیا۔ گرتے ہی اس نے قلابازی لگائی اور اس کے اوپر آ گیا۔ اس نے ہلکا سا دباؤ دیا تو وہ شخص نیچے پڑا تڑپا، اس کے منہ سے خون نکل کر اس کے سینے پر پھیل گیا۔
اتنے میں دو لوگوں نے جمال کو بازؤوں سے پکڑلیا تھا۔جمال نے ایک جھٹکا دیا، وہ عرشے پر تیرتے ہوئے دور جا گرے۔جمال نے خود سے کچھ فاصلے پر کھڑے ایک شخص کو دیکھا جو اس کی طرف بڑھ رہا تھا، جمال خود اس کی طرف چل پڑا، چند قدموں کے بعد اس نے ہوا میں اچھل کر کک اس کے سینے پر ماری تو وہ الٹ کر گرا، جمال نے اس کے نزدیک جا کر ایک ٹھوکر اس کے ماری تو وہ بھی ”اوغ“ کی آ واز کے ساتھ ڈھیر ہو گیا۔ اس کے منہ سے خون کی پھوار نکلی اور وہیں ڈھیر ہو گیا۔وہ بے ہوش ہو چکا تھا۔
”بس! اب اس کے گولی مار دو۔“ادھیڑ عمر کی آ واز گونجی۔ ایک طرف کھڑا شخص اس کی طرف گن کا رخ کیے ہو ئے تھا، اس نے فائر کیا لیکن جمال اس وقت تک اپنی جگہ چھوڑ چکا تھا، جمال نے قلابازی ماری اور اس ادھیڑ عمر کے پاس جا پہنچا اور پھر اسے دونوں بازوؤں میں جکڑ لیا۔
”اب کرو فائر…“ جمال نے چیختے ہوئے کہا۔
”رُک جاؤ۔“ادھیڑ عمر چلایا پھر جمال کی طرف دیکھ کر بولا:
”ایک ڈیل کر لیتے ہیں۔“
”کون سی ڈیل…“
”ہمیں کچھ نہ کہو، ہم تمہیں واپس ساحل پر اتار دیتے ہیں۔بھول جاتے ہیں سب کچھ۔“ اس نے مفاہمانہ انداز میں کہا۔
”چلو! پھر کیبن میں، وہیں بات کر تے ہیں۔“جمال نے کہا تو ادھیڑ عمر نے روبوٹ کی طرف دیکھا،پھر بولا:
”اسے…“
”وہ گر جائے گا سمندر میں خود بخود۔“
”اسے بچا لو، بہت مہنگا پڑا ہے۔“ادھیڑ عمر نے کہا تو جمال کو ایک دم سے غصہ آگیا۔ اس نے ایک ہاتھ ادھیڑ عمر کی گردن پر رکھا اور زور سے ایک طرف دھکا دیا، وہ پھسلتے ہوئے کیبن کی دیوار کے ساتھ جا لگا۔ وہ دیوار لگتے ہی ساکت ہو گیا۔ اس کے شاید کچھ زیادہ ہی چوٹ لگی تھی۔
یہی وہ لمحہ تھا جب گن والے نے گن سیدھی کی، جمال انتہائی سرعت سے اٹھا اور قلابازی لگاتے ہوئے اس تک جا پہنچا۔ وہ شاید پہلے ہی سے خوف زدہ تھا۔ اس نے فائر کر دیا اور پھر کرتا ہی چلا گیا۔جمال وہاں نہیں تھا۔وہ گن والے کے پیچھے پہنچ چکا تھا۔ اس نے فرش پر بیٹھے بیٹھے ہی اپنی ٹانگ اس کی ٹانگوں پہ ماری وہ دھڑام سے فرش پر گر گیا۔ گن ا س کے ہاتھ سے نکل گئی تھی۔جمال نے اس گن کو ٹھوکر ماری، وہ پھسلتی ہوئی سمندر میں جا گری۔یہ سب کچھ چند لمحوں میں ہوگیا۔ تیسرا شخص آ نکھیں پھاڑے یوں اسے دیکھ رہا تھا جیسے اسے سمجھ ہی نہ آ رہی ہو۔
”آؤ!“ جمال نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
”نہیں! میں مقابلے پر نہیں آ تا۔“اس نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔
”تو چلو پھر باندھو ان سب کو۔تمہیں کچھ بھی نہیں کہا جائے گا۔“جمال نے کہا اور روبوٹ کی جانب لپکا، وہ ابھی تک وہیں لٹک رہا تھا۔جمال نے اس کا ایک ہاتھ پکڑا تو وہ بے جان تھا۔ ہاتھ کے ہلتے ہی وہ روبوٹ سمندر میں جا گرا۔
جمال تیزی سے کیبن کے ساتھ لگی سیڑھوں پر گیا، پھر انتہائی تیزی سے انجن روم میں چلا گیا۔ جہاز کا کپتان اسے دیکھ کر حیران رہ گیا۔
”تم یہاں…؟“
”زیادہ حیرانی مت دکھاؤ، سب مر چکے ہیں، جاؤ! دیکھو، جا کر باہر۔“
”میں باہر… سب…“ اس کی سمجھ میں نہیں آ یا تو وہ ہکلاتے ہوئے بولا۔
”اب تم بتاؤ، تم مرنا چاہتے ہو یا….“جمال نے سرد لہجے میں پوچھتے ہوئے جان بوجھ کر اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔ وہ لمحہ بھر سوچنے کے بعد خوف زدہ لہجے میں بولا:
”جیسے تم کہو، میں تمہاری حکم عدولی نہیں کروں گا۔“
”ساحل یہاں سے کتنی دور ہے؟“
”اگر ہم اسی رفتار سے جائیں تو آ دھے گھنٹے میں واپس ساحل پر پہنچ جائیں گے۔“اس نے کہا۔
”اگر تم آ دھے گھنٹے میں ساحل تک نہ پہنچے تو میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ فوراً کنٹرول روم کال کرو جلدی۔“ جمال نے درشت لہجے میں کہا۔
”جی ابھی کرتا ہوں۔“ اس نے کہا اور کال ملانے لگا۔

٭

دن کی روشنی ابھی پھیلی نہیں تھی جب ان کا چھوٹا جہاز ساحل کے ساتھ آ لگا۔ جمال عرشے پر کھڑا دیکھ رہا تھا۔ سامنے شہر کی بلند عمارتیں تھیں اور ساحل پر کرنل افتخار، انسپکٹر منصور کے ساتھ دوسرے بہت سے لوگ کھڑے تھے۔
کچھ دیر بعد وہ ان کے درمیان کھڑا روداد سنا رہا تھا۔ اسی دوران اس ادھیڑ عمر کو لایا گیا تو کرنل چونک گیا۔تبھی اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا:
”یہ تو جوہری کا دوست ہے،جو قتل ہو گیاتھا۔“
”اسی نے کروایا تھا قتل، میں نے راستے میں بہت سارے راز اگلو الیے ہیں اس سے۔“جمال نے کہا تو کرنل نے تیزی سے کہا۔
”تم بھی سن لو، وہ سارے نیلی روشنی والے اور سائیٹ والے پکڑ لیے ہیں۔ اب شہر میں بالکل امن ہو گا۔“
”وہ روبوٹ کدھر گیا؟“ کسی نے پوچھا۔
”افسوس! اس روبوٹ کو مچھلیاں بھی نہیں کھا سکتیں۔“ جمال نے کہا تو ایک قہقہہ بلند ہو گیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top