گرم چشموں کی وادی
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
”بابا جان ہم کتنی دیر میں چترال پہنچ جائیں گے؟“ راشد نے ویگن میں بیٹھتے ہی سوال کیا۔
”بیٹے! سواری پر بیٹھو تو پہلے سواری کی دعا پڑھو، سفر کی دعا پڑھو، پھر کوئی بات کرو، بہر حال تمہارے سوال کا جواب یہ ہے کہ چترال پہنچنے میں دیر تو لگے گی۔ ہم ابھی پشاور سے روانہ ہو رہے ہیں،صبح کے چھے بجے ہیں۔ دیر تک چھے گھنٹے کا سفر ہے، پھر دیر سے چترال تک پانچ گھنٹے کا سفر ہے۔ ان شاء اللہ شام پانچ بجے تک ہم چترال پہنچ جائیں گے۔“ بابا جان نے تفصیلی جواب دیا۔
زاہد خان صاحب اپنے دو بیٹوں راشد اور خالد کے ساتھ چترال جا رہے تھے جہاں زاہد خان صاحب کے بھائی عابد خان رہتے تھے۔
دیگن کے ڈرائیور نے اپنی نشست سنبھال لی تھی، اس نے ہارن بجا کر گاڑیوں کے ہجوم میں سے اپنا راستہ نکالا، جلد ہی ویگن شہر سے باہر جانے والی پختہ سڑک پر فراٹے بھر رہی تھی۔
دو پہر تک یہ لوگ دیر پہنچ چکے تھے۔ دیر میں دو پہر کے ہلکے پھلکے کھانے کے بعد، سفر پھر شروع ہو گیا، راستے میں ظہر کی نماز ادا کی گئی۔ سفر کی حالت میں ہونے کی وجہ سے قصر نماز یعنی مختصر نماز پڑھی گئی۔ دیر سے آگے ویگن دشوار راستوں سے گزرنے لگی۔ راستہ پتھریلا تھا اور سفر بلندی کی جانب تھا۔
”ہم بلندی کی طرف سفر کرتے ہوئے لواری کی چوٹی پر پہنچیں گے جو سطح سمندر سے تقریباً ساڑھے دس ہزار فٹ بلند ہے، وہاں سے سفر ڈھلان کی طرف شروع ہوگا، پھر ان شاء اللہ ہم چترال پہنچ جائیں گے جو تقریباً پانچ ہزار فٹ بلند ہے۔“بابا جان نے بتایا۔
ویگن روانہ ہوئی۔ جلد ہی وہ پتھریلے راستے پر سفر کرنے لگی، پھر اس کا رخ بلندی کی طرف ہو گیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ویگن پہاڑوں میں گھوم گھوم کر اپنا راستہ بنا رہی ہے۔
”بلندی کی طرف بڑھیں تو اللہ اکبر کہنا چاہیے۔“ بابا جان نے کہا پھر وہ مسکراتے ہوئے بولے: ”اس سفر میں ساٹھ سے زیادہ موڑ آتے ہیں۔ یہ سفر ذرا دشوار تو ہے لیکن راستے کے مناظر بہت حسین ہیں۔ انھیں دیکھ کر زبان پر سبحان اللہ جاری ہو جاتا ہے۔ اللہ نے جو چیز بھی بنائی بہت خوب بنائی۔ ہر شے اللہ کی بے مثل مہارت کی گواہی دیتی نظر آتی ہے۔“
شام تک یہ لوگ چترال پہنچ چکے تھے۔ ویگنو ں کے اڈے پر عابد خان صاحب ان لوگوں کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ انہیں دیکھتے ہی خوش ہو گئے۔ انھوں نے سب کو باری باری گلے لگایا، پھر اپنی جیپ میں بٹھا کر گھر لے گئے جہاں عابد خان صاحب کی اہلیہ یعنی راشد اور خالد کی چچی اور ان کے بیٹوں موسیٰ خان،عیسیٰ خان اور مریم نے مہمانوں کا استقبال کیا۔ طویل سفر کے باعث زاہد خان اور بچے، راشد اور خالد تھک گئے تھے۔ رات کا کھانا جلد کھا لیا تھا اور نماز عشاء پڑھ کر سب لوگ اپنے اپنے بستروں پر جالیٹے۔
صبح سویرے سب لوگ بیدار ہو گئے۔ مسجد میں نماز فجر ادا کرنے کے بعد عابد خان صاحب نے کہا: ”آئیے آپ کو تھوڑی سی سیر کروائیں۔“ سب لوگ ٹہلتے ہوئے دور تک نکل گئے۔
”یہاں کا طرز تعمیر قدیم ہے۔“ عابد خان صاحب نے بتایا۔ ”کچی اینٹوں یا پتھروں کے مکانات تعمیر ہوتے ہیں، ان پر نالی دار ٹین کی چھتیں ڈال دی جاتی ہیں۔ وادی چترال میں جنگلات کی کثرت ہے، اسی لیے گھروں کی تعمیر میں زیادہ تر لکڑی استعمال کی جاتی ہے۔“
”چچا جان، یہاں کے لوگوں کا عام طور پر پیشہ کیا ہے؟“ راشدنے پوچھا۔
”بڑی تعداد میں لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ قابل کاشت زمین زیادہ نہیں ہے، لیکن جتنی بھی ہے، بہت زرخیز ہے۔“
”اس زمین پر کون سی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں؟“ خالد نے سوال کیا۔
”کئی ہیں، گندم ہے، مکئی اور چاول ہے۔ سبزیاں بھی کاشت ہوتی ہیں، ان میں آلو قابل ذکر ہے۔ پھل بہت پیدا ہوتے ہیں۔“
”کون کون سے؟“ راشد نے بے تابی سے پوچھا تو سب مُسکر ا پڑے۔
”تقریباً بیس اقسام کے توسیب ہی ہیں، پھر انگور، خوبانی، آلوچہ، آڑو، ناشپاتی، انار اور اخروٹ بھی پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سب اللہ کی قدرت ہے کہ اس نے یہاں کی زمین اتنی زرخیز بنائی اور اس کے لیے موزوں آب و ہوا کا انتظام کیا۔“چچا جان نے بتایا۔
”پھر تو یہاں بارش بہت ہوتی ہوگی؟“ خالد نے پوچھا۔
”نہیں! وادی چترال میں مجموعی طور پر بارش بہت کم ہوتی ہے۔“
”چچا جان، یہاں تعلیم کی کیا صورت حال ہے؟“ ارشد نے سوال کیا۔
”یہاں کے لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے سے بہت دلچسپی ہے۔ شہر کی ہر بڑی آبادی میں کئی اسکول قائم ہیں۔ کالج اور کمپیوٹر کی تعلیم کے ادارے بھی ہیں۔ اچھا بھئی اب گھر کا رخ کریں تا کہ آپ لوگوں کو ناشتا کروایا جائے۔“
سب لوگ گھر کی طرف چل دیے۔ راستے میں کئی افراد نے عابد خان صاحب کو پہچان کر سلام کیا۔ عابد خان صاحب نے بھی کئی لوگوں کو سلام کیا اورمقامی زبان کھوار میں ان کی خیریت دریافت کی۔ عابد خان صاحب نے بچوں کو بتایا کہ یہاں مقامی زبان کھوار بولی جاتی ہے جو سننے میں پشتو کی طرح ہے لیکن پشتو سے بالکل مختلف ہے۔
گھر پہنچ کر ناشتا کیا گیا پھر عابد خان صاحب نے کہا:
”میں نے آپ لوگوں کو سیر کروانے کے لیے دفتر سے دو دن کی چھٹی لے لی ہے۔ آج ہم آپ کو گرم چشمہ لے چلتے ہیں۔“
”یہ کتنی دور ہے؟“ زاہد خان صاحب نے سوال کیا۔
”تقریباً چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔“
تیار ہونے کے بعد سب گھر سے نکل آئے۔ چترال میں زیادہ تر جیپ ہی کے ذریعے سے سفر کیا جاتا ہے۔ سب لوگ جیپ میں سوار ہو گئے۔ تقریباً دو گھنٹے بعد یہ لوگ گرم چشمہ پہنچے۔
”اس جگہ کی خصوصیت یہاں کے قدرتی گرم چشمے ہیں۔“عابد خان صاحب کہ رہے تھے۔”اللہ نے یہاں ایسے چشمے جاری فرما دیے ہیں جن کا پانی نہ صرف یہ کہ گرم ہوتا ہے بلکہ اس میں ایسے کیمیائی اجزاء بھی پائے جاتے ہیں جو جلد کی بیماریوں کو دور کر دیتے ہیں۔ لوگ دور دور سے یہاں آکر ان چشموں کے پانی سے نہاتے ہیں۔ یہاں نہانے کے لیے خصوصی حمام تعمیر کیے گئے ہیں۔“
را شد اور خالد نے دیکھا، بہت سے لوگ یہاں آ رہے تھے۔ کچھ لوگ نہا کر حماموں سے نکل رہے تھے۔
”آپ اللہ کی قدرت دیکھیے، دسمبر اور جنوری میں جب یہاں برف باری ہوتی ہے اور موسم سخت سرد ہوتا ہے، اس وقت بھی ان چشموں سے نکلنے والا پانی اتنا گرم ہوتا ہے کہ آپ اس میں ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔“ عابد خان صاحب نے بتایا۔
کچھ دیر اس مقام پر ٹھہرنے کے بعد سب لوگ واپس روانہ ہوئے۔ عابد خان صاحب نے بچوں کو چترال کے کھیت دکھائے۔ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے جہاں بھی تھوڑی سی ہموار زمین پائی جاتی ہے وہاں کھیتی باڑی کی گئی ہے۔ اس طرح یہ کھیت سیڑھیوں کی طرح نظر آتے ہیں۔
اگلے دن عابد صاحب ان لوگوں کو چترال کی وادی کیلاش لے گئے۔ یہاں تین وادیاں بمبوریت، بریر اور رامبور پائی جاتی ہیں جو پہاڑوں کے تین مسلسل سلسلوں کے درمیانی حصوں میں الگ الگ واقع ہیں۔ جیپ ان لوگوں کو لے کر پہاڑی راستے پر سفر کرتی ہوئی پہلے آیون پہنچی۔
”کیلاش کی تینوں وادیوں کے راستے یہیں سے نکلتے ہیں۔ یہ دریائے چترال کے کنارے واقع ایک خوبصورت گاؤں ہے۔“ عابد خان صاحب نے بتایا۔
”چچا جان، یہاں کے کھیت تو بالکل سبز رنگ کے قالین محسوس ہوتے ہیں۔“
”ہاں بیٹے، اللہ نے اس دنیا کو بہت خوب صورت بنایا ہے۔ آئیے اب بمبوریت چلتے ہیں جو کیلاش کی تینوں وادیوں میں سب سے بڑی ہے۔“
جیپ بمبوریت کی طرف روانہ ہوئی تو راستہ آہستہ آہستہ بلند ہوتا گیا۔ دونوں جانب مناظر بے حد حسین تھے۔ شفاف پانی کے بے شمار چشمے جاری تھے۔ سیب اور خوبانی کے بہت سے درخت جیسے جھک کر ان کا استقبال کر رہے تھے۔ کچھ دیر بعد یہ لوگ بمبوریت پہنچ گئے۔ وادی بہت دلکش تھی۔ درمیان میں شفاف پانی کی ندی بہ رہی تھی۔ اس کا پانی پتھروں سے ٹکرا کر جھاگ اڑا تا آگے بڑھ رہا تھا۔ دونوں جانب سرسبز کھیت تھے۔ فضا میں سیبوں اور ناشپاتی کی خوشبو تھی۔
”وادی بریر اور رامبور ان پہاڑوں کی دوسری جانب ہیں۔“ عابد خان صاحب نے بمبوریت کی دونوں جانب واقع پہاڑوں کی طرف اشارہ کیا۔”کچھ باہمت لوگ ان پہاڑوں میں بنے راستوں کے ذریعے سے بریر اور رامبورت چلے جاتے ہیں، مگر آپ لوگ ابھی چھوٹے ہیں، تھک جائیں گے۔“
سب نے بمبوریت میں دوپہر کا کھانا کھایا۔ نماز ظہر ادا کی، پھر واپس روانہ ہو گئے۔
اگلے دن عابد خان صاحب ان لوگوں کو بر مولیب لے گئے۔ یہ مقام سطح سمندر سے نو ہزار فٹ بلند ہے۔ پہاڑوں میں بل کھاتے ہوئے راستے پر سفر کرتے ہوئے سب لوگ بر مولیب پہنچے۔ چلغوزے اور اخروٹ کے درختوں والا یہ مقام بہت پرسکون ہے۔”اس بلندی سے دور دور تک کا منظر کتنا حسین ہے۔“ راشد نے کہا تو بابا جان نے اس کی تائید کرتے ہوئے کہا:
”ہاں بیٹے، یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی زبر دست قدرت کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس کے کمالات زمین کے چپے چپے پر پھیلے ہوئے ہیں۔“
شام تک سب واپس چترال پہنچ گئے۔
دو روز بعد زاہد خان صاحب نے واپسی کا فیصلہ کیا۔ عابد خان صاحب انہیں رخصت کرنے کے لیے ویگنوں کے اڈے تک آئے۔ سب کو گلے لگایا اور دو بڑی بڑی ٹوکریاں ان کے حوالے کر دیں۔ ان ٹوکریوں میں چترال کے مشہور اونی کپڑے، ٹوپیاں اور خشک میوہ جات تھے۔