فوجی باغیچے
ادیب علی
۔۔۔۔۔
”ڈاکٹر تو ٹینکی نمبر چار میں رہتے ہیں۔“
”ہائے میرا یاسر….!“ یاسر کی اماں چلائیں۔
”آنٹی! کچھ نہیں ہوگا، بس بخار زیادہ ہو گیا ہے تو بے ہوش ہوگیا ہے۔“کسی نے انھیں تسلی دی۔
”گاڑی آگئی ،جلدی کرو۔“یاسر کے بھائی کی آواز پر سب جلدی جلدی یاسر کو اٹھا کر باہر لائے، مگر یہ کیا؟
گاڑی تو گھر کے سامنے موجود گٹر میں پھنس چکی تھی!
بہرحال سب نے مل کر دھکا دے کر گٹر سے ٹائر نکالا تو گاڑی چلی۔یہ 1995ءکی بات ہے، جب میں تیسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ہم ملیر کینٹ میں رہتے تھے۔ ٹینکی نمبر چار کے پاس ہمارا گھر تھا۔ یہ چالیس گھروں کی ایک بستی تھی جہاں سب فوجی رہتے تھے۔ گھر نئے بنے تھے۔ پہلے پہل لوگ بیت الخلا نہیں بناتے تھے، لیکن ان گھروں میں بیت الخلا، غسل خانے اور باورچی خانے تھے۔ بیت الخلا کی تو گٹر لائن تھی مگر غسل خانے اور کچن کا پانی سب کے گھر کے سامنے جمع ہوتا تھا۔
اسی وجہ سے گھروں کے سامنے ایک جوہڑ سا بن جاتا تھا۔جب اس پانی سے تعفن اٹھنے لگا تو لوگوں نے گڑھے بنائے مگر وہ بھی ابلنے لگے۔چناں چہ مچھر کثرت سے ہونے لگے اور بیماریاں بڑھنے لگیں۔
….٭….
”سر جی !کیا کریں؟“صوبیدار صاحب نے ایک دن میجر الیاس صاحب سے کہا۔
”فکر نہ کرو، ہم نے انتظام کر لیا ہے۔“
”جی وہ کیا ؟“
”کل فوجی آئیں گے وہ ٹربائین ٹرک لائیں گے۔ پائپ کے ذریعے سے سارا پانی دور پھینک آئیں گے۔“
”مگر ااتنا پانی کہاں جائے گا سرجی !؟“صوبیدار صاحب نے اعتراض کیا۔
”ارے وہ تھوڑی دور نالا ہے ناں، بس وہاں تک لائن کھود دیں گے۔“
”ہر بار ٹربائین لانا پڑے گاجی؟“
” کیا کریں۔ سب لوگ دس دس روپے جمع کریں گے تو کافی ہو جائے گا۔“
” لیکن سر جی!مہنگائی بہت ہے، ہم حوالدار ہیں، ہماری تنخواہ تین ہزار ہے۔“
”جس کو مشکل ہے بتا دے، میں ملا دیا کروں گا۔“میجر الیاس نے جوش سے کہا۔
….٭….
اگلا پورا دن بہت دلچسپ تھا۔ ٹربائن ٹرک آیا اور اس نے گھروں کے سامنے پانی کے جوہڑسے پانی نکالنا شروع کر دیا۔
ہم بچوں کے لیے تویہ ایک نئی دلچسپ سرگرمی تھی۔ جیسے جیسے پانی کم ہو رہا تھا، فضا میں پھیلی بدبو بھی کم ہو رہی تھی۔ سب شکر ادا کر رہے تھے ،مگر یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی۔ دس دن کے بعد دوبارہ وہ گڑھے بھر گئے اور پانچ دنوں کے بعد ایک بار پھر تعفن پھیلنے لگا۔محلے کے کئی بچے بوڑھے ملیریا اور معدے کے امراض میں مبتلا ہو کر ہسپتال میں ایڈمٹ ہو چکے تھے۔آخر کار پھر فیصلہ کیا گیا کہ ٹربائن منگوائی جائے۔ اس کے لیے جمعے کا دن طے ہو گیا۔
….٭….
”اے بچے! ادھر تو آو¿۔“ا یک نوجوان نے مسجد سے باہر نکلتے ہی مجھے پکارا۔ میں گھبرا سا گیا تھا۔
”میں ٹیپو ہوں ٹیپو!…. باہر ملک سے آیا ہوں، تمھارا پڑوسی ہوں۔“
”یہ…. یہ کیا ہوتا ہے؟“ میں حیران رہ گیا تھا۔
”کیا، کیا ہوتا ہے؟“
”یہی ٹیپو؟“
وہ بے اختیار ہنس دیا۔” ارے ٹیپو سلطان ہمارے قومی ہیرو ہیں، میرے ابو نے میرا نام اُن کے نام پر رکھا ہے۔“
” اچھاتو میں کیا مدد کر سکتا ہوں آپ کی؟“مجھے دیر ہو رہی تھی۔
”میں مسجد آ تو گیا مگر اب گھر کی سمت یاد نہیں آ رہی،تمھیں کل گھر کے سامنے دیکھا تھا تویاد آیا کہ تم پڑوسی ہو، اب مجھے گھر لے چلو۔“
میں مسکرا دیا۔”اچھاچلیں۔“ کچھ دیر چلنے کے بعد میں نے ذہن میں کلبلاتا سوال داغ دیا۔ ”بھائی! باہر ملک میں کتنے لوگ رہتے ہیں؟‘
”وہاں بھی لاکھوں لوگ رہتے ہیں۔“
”وہاں بھی لوگوں کے گھر کے سامنے بڑے بڑے تالاب ہوں گے۔“
”نہیں تو،ہمارے گھروں کے سامنے گندے پانی کا تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ خیر اِس مسئلے کا بھی بہت آسان حل ہے ۔ تم محلے کے لڑکوں کو جمع کرنا، ہم ایک دن میں اس کو حل کرلیں گے ۔“
بھلے زمانے تھے۔ ان دنوں جمعے کو چھٹی ہوتی تھی۔ میں نے ٹیپو کا پیغام سب تک پہنچا دیا۔ عشا کے بعد ہم بیس سے زیادہ لڑکے مسجد کے صحن میں جمع ہو چکے تھے۔
”تمھارے پاس بہترین موقع ہے، بچت کرنے کا، صحت بنانے کا، صحت بچانے کا اور علاقے کی خوبصورتی بڑھانے کا۔“ٹیپو بھائی ایک سانس میں کہہ گئے۔
”کک…. کیسے؟“ ایک آواز آئی ۔
”بہت آسان ہے۔“ یہ کہہ کر ٹیپو بھائی پھر چپ ہو گئے۔سب کا تجسس کے مارے برا حال ہو گیا تھا۔
”کل چھٹی ہے؟“
”ہاں….“ سب نے سر ہلایا۔
”تو کیا تم سب کھرپے، بیلچے،بالٹیاں اور ایک ایک رومال لے کر آسکتے ہیں؟“
”بالکل….“ سب نے یک زبان ہو کر کہا۔اس کے بعد پلان طے ہونے لگا۔ مسکراہٹیں پھیلنے لگیں۔ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ہماری بستی میں اگلی صبح اک نیا سورج طلوع ہو گا۔
….٭….
اگلے دن فجر کے بعد محلے میں بیس پچیس لڑکے منہ پر رومال باندھے کھڑے تھے۔ سب سے پہلے لڑکوں کا ایک گروپ جھاڑیاں کاٹنے لگا۔ ان کا ایک طرف ڈھیر سا بنا دیا گیا۔دوسری طرف کچھ لڑکے ٹیپو بھائی کے ساتھ مل کر زمین ہموار کرنے لگے۔
”ہن ہن ہن….“ اسی وقت ایک زور دارآواز سنائی دی۔سب لوگ اٹھتی ہوئی مٹی کی طرف دیکھنے لگے۔ گرد چھٹی تو سب دیکھ کر حیران رہ گئے کہ صوبیدار صاحب روسی ساختہ ٹریکٹر لے آئے تھے۔ ان کے ساتھ بہت سارے فوجی جوان بھی تھے۔ فوجی جوانوں نے زمین کو تیزی سے ہموار کرنا شروع کر دیا۔
ایک آواز آئی۔ ”سب گھر والے جلدی سے پائپ لگائیں۔“
اس زمانے میں سیمنٹ کے پائپ ہوتے تھے۔سب گھروں کے سامنے والی نالی میں پائپ جوڑے جانے لگے۔
کچھ ہی دیر میں لکڑیاں کاٹ کر ہرگھر کے سامنے جنگلابنا دیا گیا، پھر جنگلے کے اندر کیاریاں بننے لگیں۔ اب تو تمام محلے والوں کو جوش آچکا تھا۔ ہر گھر کے سامنے ایک خوبصورت سا باغیچہ بن رہا تھا۔
”میجر صاحب کہاں ہیں؟“
یس سر!؟“
ٹیپو بھائی کی آواز پر ایک طرف کھڑے میجر صاحب نے اتنی فرمانبرداری سے کہا کہ مٹی میں سر تاپا لتھڑے ہوئے ٹیپو بھائی ہنس دیے۔
”سر!بس اب یہ فوجی باغیچے تیار ہیں۔ آپ ہر باغیچے میںبیج ڈال دیں۔“ ٹیپو بھائی نے تھیلا آگے بڑھایا۔
”یہ کس چیز کے بیج ہیں؟“ صوبیدار صاحب نے پوچھا۔
”سر جی!یہ کدو، کریلا، توری، شلجم، پودینہ، دھنیا، پیاز، آلو، مکئی، گلاب اور اس طرح کے بہت سی سبزیوں اور پھولوں کے پودوں کے بیج ہیں۔“
”واہ بھئی….“بہت ساری آوازیں فضا میں گونجیں۔
”سر! غسل خانے، باورچی خانے اور کپڑوں کی دھلائی نیز گھر کی صفائی، فرش دھونا، مسجد کے وضو خانے، غسل خانے کا پانی، یہ سب سفید پانی(white water) کہلاتا ہے، جو بالکل قابل استعمال ہوتا ہے۔ جاپان اور دوسرے ممالک اِس استعمال شدہ پانی کو دوبارہ استعمال کرتے ہیں اور یوں پانی بچاتے ہیں۔
”اچھا….!“ میجر الیاس صاحب نے کافی لمبا سا اچھا کہاتو سب ہنس دیے ۔
” سب لوگ اپنے باغیچے کا خودخیال رکھیں،اب گھروں کا استعمال شدہ پانی ضائع ہو کربیماریاں نہیں پھیلائے گا۔ اس سے ہر گھر میں پودے اگیں گے۔ ماحول ہرابھرا خوبصورت اور صحت افزا ہو جائے گا۔ گھر کی تازہ میٹھے پانی کی سبزیاں کھا کر صحت بھی بنے گی اور بچت بھی اچھی خاصی ہو گی۔“ ٹیپو بھائی نے بات ختم کی تو سب لوگ بھرپور داد دینے لگے۔
قارئین ہم تین برس تک وہاں رہے۔ تین برس تک ہم نے ٹماٹر، پیاز، لہسن، سبز مرچ، بھنڈی، گھیا توری، دھنیا خوب لگائے اور خوب کھائے۔ کبھی ٹینکی اوور فلو ہو جاتی تو باغیچے کے مزے ہی آ جاتے۔ مسجد کاپانی بھی گھروں کی کیاریوں میں آتا۔ تین برس تک ہم نے یہیں کی سبزیاں استعمال کیں، پھر ہم راولپنڈی مصریال کمپلیکس میں آ گئے۔
قصہ مختصر! سچ تو یہی ہے کہ پودا ہمیشہ فائدہ ہی دیتا ہے۔چاہے کھیتوں میں لگے یا کیاری میں۔
٭٭٭