skip to Main Content

فاطمہ بنت عبداللہ

فائزہ حمزہ

۔۔۔۔۔۔۔۔

’’خدا کے لیے فاطمہ! ہوشیار ہوجاؤ۔‘‘ میں حلق کے بل چِلّائی لیکن فاطمہ تو جیسے سُن ہی نہیں رہی تھی۔ وہ سنتی بھی تو کیسے۔

’’فاطمہ! وہ دیکھو! عمیر زخمی ہوگیا ہے۔‘‘ فاطمہ مجھ سے پہلے دیکھ چکی تھی۔ اس کے ہاتھ میں مشکیزہ تھا۔ وہ لپک کر اس کو پانی پلانے لگی۔ گھمسان کا رَن پڑا تھا۔ اطالوی توپوں سے آگ برس رہی تھی۔ میں نے ظہر کے وقت فاطمہ کو دیکھا۔ اس کا چہرہ دھوئیں اور تپش سے جھلسا ہوا تھا۔ بالوں پر سرخی مائل ریت کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ اس کے والد شیخ عبداللہ جنگ میں شریک تھے۔ میں فاطمہ کے چہرے پر جوش دیکھ رہی تھی۔ فقط ۱۱ سال کی عمر میں وہ اطالویوں پر خدا کا قہر بن کر ٹوٹ پڑنا چاہتی تھی۔

’’فاطمہ، فاطمہ میری بہن! بات سنو!‘‘ میں اسے خبردار کرنا چاہتی ہوں لیکن اس تک میری آواز نہیں پہنچ رہی۔

عصر کے وقت عرب مجاہدوں کا ایک دستہ اطالویوں پر حملہ آور ہوا۔ احمد نوری (ایک ترک افسر) بھی اپنے ساتھ تیس سپاہیوں کو لے کر ساتھ ہوگیا۔ راستے میں اس کی مڈبھیڑ ایک اطالوی جیش (لشکر) سے ہوئی۔ جو گھات میں بیٹھا تھا۔ فاطمہ اس ترک دستے کے ساتھ تھی۔ اطالویوں نے دستے کو اپنے نرغے میں لے لیا۔ آخر ترکوں نے شجاعت سے اپنے لیے راستہ پیدا کرلیا۔ ترکوں کے چار بہادر سپاہی زخمی ہو کر گر پڑے۔

’’فاطمہ! پانی!‘‘ میں چیخنا چاہتی تھی لیکن میری آواز گھٹ گئی۔

میں نے دیکھا ایک اطالوی نے اسے گریبان سے پکڑ لیا۔ میں اس اطالوی پر حملہ کرنا چاہتی تھی۔ فاطمہ کی بہادری میں نے اس وقت دیکھی جب چشم زدَن میں فاطمہ نے اپنے آپ کو قابو کر کے تلوار اُٹھائی اور اطالوی پر بھرپور وار کیا۔ اطالوی کا ہاتھ کٹ کر لٹک گیا۔ فاطمہ نے اس کو زخمی دیکھا تو بھاگ کر مجاہدین کو پانی پلانے دوڑی۔ ایک مجاہد کے سینے پر مشکیزہ رکھا ہی تھا کہ وہ واقعہ ہوگیا جس کے بعد میرا دل میرا نہ رہا۔

ہاے۔۔۔ اس ظالم نے میری فاطمہ، فاطمہ بنت عبداللہ کو گولیوں سے چھلنی کردیا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے۔ قطرہ قطرہ شہادت کا جام پینے لگی جس کے لیے شہید چاہتا ہے کہ بار بار دنیا میں جائے۔ بار بار شہادت پائے اور جام نوش کرے۔

اس ترک کے سینے پر مشکیزہ ایسے ہی دھرا تھا۔ وہ پانی نہ پلاسکی کہ شہید کردی گئی اور مشکیزے کا منھ ابھی مجاہد کے منھ سے لگا بھی نہ تھا۔

*۔۔۔*

فاطمہ بنت عبداللہ، وہ گیارہ سال کی میری بہادر بہن، جو کئی سال پہلے ’طرابلس کی جنگ‘ میں غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوگئی۔ جون ۱۹۱۲ء میں بارہ ہزار اطالویوں نے ’زوارہ‘ کے مقام پر حملہ کیا۔ مقابلے میں عرب اور ترک صرف تین ہزار تھے۔ لڑائی عصر کے وقت تک جاری رہی۔ آخر اطالوی بارہ سو لاشیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔

آج جب گیارہ سال کی عمر میں نئے اسکول کی چھٹی جماعت میں میرا داخلہ ہوا۔ ٹیچر کو اپنا نام فاطمہ بنت عبداللہ بتایا تو ان کی آنکھیں معمول سے زیادہ پھیل گئیں اور اُنھوں نے کہا کہ فاطمہ بنت عبداللہ ایک ایسی مجاہدہ تھی جس کی آج اسلام کو ضرورت ہے اور یہ بھی کہ علامہ اقبال کی نظم ’’فاطمہ بنت عبداللہ‘‘ ضرور پڑھنا۔

پھر یہی ہوا کہ علامہ اقبال کی نظم مجھے خواب میں فاطمہ سے ملوانے لے گئی اور آج جب تمام اُمّت مسلمہ زخموں سے چور چور ہے تو دل کرتا ہے کہ میں بھی حلب میں، فلسطین میں، برما میں کشمیر میں، افغانستان میں یا بوسنیا میں ’فاطمہ بنت عبداللہ‘ بن جاؤں۔ غازیوں کو پانی پلاؤں، دشمن آئے تو اُنھیں ختم کردوں۔

*۔۔۔*

فاطمہ!ت آبروئے       اُمّت        مرحوم        ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرّہ    ذرّہ    تیری   مشتِ خاک     کا     معصوم     ہے
یہ سعادت، حور صحرائی! تری قسمت میں تھی غازیان دیں     کی   سقائی   تری   قسمت  میں تھی
یہ   جہاد   اللہ    کے    رستے   میں   بے   تیغ   و سپر ہے     جسارت    آفریں      شوق    شہادت  کس قدر
یہ  کلی  بھی  اس  گلستان  خزاں  منظر  میں تھی ایسی چنگاری بھی یا رب، اپنی خاکستر میں تھی    !
اپنے   صحرا   میں   بہت    آہو    ابھی    پوشیدہ    ہیں
 بجلیاں  برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں  !
فاطمہ!   گو  شبنم   افشاں   آنکھ   تیرے  غم  میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ نغمۂ عشرت  بھی  اپنے  نالہ   ماتم   میں   ہے
رقص    تیری   خاک   کا   کتنا      نشاط    انگیز     ہے ذرّہ   ذرّہ    زندگی    کے    سوز   سے    لبریز     ہے
ہے   کوئی    ہنگامہ    تیری    تربت    خاموش    میں پل رہی ہے ایک قوم  تازہ اس آغوش  میں
بے خبر ہوں گرچہ ان کی وسعت مقصد سے میں آفرینش دیکھتا ہوں ان کی اس مرقد سےمیں
تازہ    انجم   کا     فضائے    آسماں    میں     ہے    ظہور دیدۂ انساں سے  نامحرم  ہے  جن کی موج نور
جو   ابھی  ابھرے   ہیں  ظلمت    خانہ     ایام    سے جن  کی  ضو  ناآشنا  ہے   قید    صبح    و  شام   سے
جن کی تابانی میں اندازِ کہن بھی، نوبھی ہے
 اور  تیرے  کوکب  تقدیر  کا  پرتو  بھی   ہے

آبروئے اُمّت: امت کی عزت

مشتِ خاک: مٹھی بھر خاک

حور صحرائی: صحرا کی حور

سقائی: پانی پلانے کی ذمہ داری

بے تیغ و سپر: تلوار وڈھال کے بغیر

جسارت آفریں: جرأت دلانے والی

گلستان خزاں: خزاں سے اُجڑا باغ

خاکستر: راکھ ؍ آہو: ہرن

خوابیدہ: سویا ہوا

شبنم افشاں: آنسو بہاتا ہوا

نغمۂ عشرت: خوشی کا گیت

نشاط انگیز: جوش سے بھرپور

سوز: غم ؍ تربت: قبر

آغوش: گود ؍ آفرینش: پیدا ہونا

تازہ انجم:نئے ستارے

کوکب تقدیر: تقدیر کا ستارہ

ظلمت خانہ ایام:زمانے کے اندھیرے ؍ پرتو: سایہ

ضو : نور ؍ تابانی:روشنی

انداز کہن:پرانا طریقہ

پہلا بند

۔۔۔۔۔۔۔۔

اے فاطمہ! تو ملت اسلامیہ کے لیے عزت و آبرو کا سامان ہے۔ تیرے جسم کی خاک کا ایک ایک ذرّہ پاک اور معصوم ہے۔

اے صحرائی حور! تجھے غازیان دین کو پانی پلانے کی خدمت نصیب ہوئی۔ یہ تیری قسمت تھی کہ تو نے خدا کی راہ میں تلوار اور ڈھال کے بغیر جہاد کیا۔ کیسی دلیری اور شجاعت دکھائی، اس شوق شہادت میں ملت میں جوانمردی کے فقدان کے باعث ملت جو راکھ بن گئی تھی اس میں چنگاری ہے تو۔ اس خزاں میں ایک کلی پیدا ہوگئی۔

لیکن ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے کہ ملت کے خیاباں میں بہت سے ہرن (جواں) چھپے ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات میں بھی ہم کسی سے کم نہیں جواں مردی کے ایسے معجزے دکھا سکتے ہیں جو دوسروں کی قدرت سے باہر ہیں۔

دوسرا بند

۔۔۔۔۔۔

اے فاطمہ! اگرچہ تمھارے غم میں ہماری آنکھوں میں آنسو ہیں لیکن ماتمی نالہ و فغاں کے ساتھ ہمارے دل سے خوشی کے نغمے بھی پھوٹتے ہیں۔ وہ کیوں؟ اس لیے کہ تیری خاک کا رقص دل میں عجیب و غریب، نشاط پیدا کرتا ہے۔ اس کا ایک ایک ذرّہ زندگی کی تڑپ سے بھرا ہوا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تیرے قبر کی خاموشی میں کوئی ہنگامہ چھپا ہوا ہے اور اس کی گود میں ایک نئی قوم پل رہی ہے۔ قومیں ایسے ہی عظیم الشان کارناموں کی آغوش میں پرورش پاتی ہیں جیسا کہ سیدہ فاطمہ نے زوارہ کے میدان جنگ میں انجام دیا۔ میں اس نئی قوم کے ارادوں اور مقدروں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا کہ وہ کتنے بلند اور کتنے وسیع ہیں البتہ مجھے یہ نظر آرہا ہے کہ وہ تیری ہی قبر سے پیدا ہوگی۔

آسمان کی فضا میں ایسے نئے ستارے روشن ہونے والے ہیں، جن کی چمک دمک کی لہریں، ابھی تک انسانی آنکھ نے نہیں دیکھیں۔ وہ ستارے ابھی زمانے کے اندھیرے سے باہر نکلے ہیں۔ ان کی روشنی صبح و شام کی پابندی سے آزاد ہیں۔ ن کی چمک دمک میں پرانا رنگ بھی ہے اور نیا بھی۔ فاطمہ اس میں تیری قسمت کے ستارے کا جلوہ بھی شامل ہے۔ یہ نئی قوم ہمارے ماضی کے کارناموں کو بھی زندہ کرے گی، زمانہ حال کے سلسلے میں بھی تمام فرائض انجام دے گی۔ اس کے ذریعے ہمارے مستقبل کی بنیادیں بھی مضبوط ہوجائیں گی۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top