۱۶ ۔ فاتح
محمد حمید شاہد
۔۔۔۔۔۔
یَا مَعْشَر قُرَیْش اِنَّ اللّٰہَ قَدْ اَذْہَبَ عَنْکُمْ نَخوۃ الجَاہِلِیَّۃ وَ تَعظّمَہَا بِالاٰبَآءِ النَّاسَ مِنْ اٰدَمَ وَ اٰدَمُ مِنْ تُرَابِ
(رسولِ اکرمؐ)
قریش کے لوگو!
اب جاہلیت کی نخوت اور خاندانی مفاخرت کو اللہ نے مٹا دیا۔تمام انسان آدم کی اَولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے تھے۔
ایک سعی لا حاصل
’’اے اللہ!میں محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کو وہ وعدہ یاد دلاتا ہو ں جو ان کے اور ہمارے قدیم خاندان میں ہوا ہے!‘‘
اے اللہ کے رسولؐ!ہماری مدد کیجیے۔
۴۰کے قریب شتر سواروں کے ہمر۱اہ عمرو بن سالم مسجد نبی ؐکے باہر کھڑا بڑی درد مندی سے صدا لگاتا ہے تو محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) نمودار ہوتے ہیں۔ان کے دریافت کرنے پر عمرو بن سالم ان مظلوموں کی تمام داستان سنا دیتے ہیں۔
بنو خزا عہ پر ڈھائے جانے والے ستم کی المناک داستان سن کر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) فرماتے ہیں:
نُصِرْت یا عمرو بِنْ سَالم
’’اے عمر بن سالم تمھاری مدد کی جائے گی۔‘‘
بنوخزاعہ اور بنو بکر کے درمیان قبل اسلام سے چپقلش چلی آرہی تھی مگر بعثت محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد ان دونوں قبائل کی توجہ مسلمانوں کی جانب ہو گئی۔پھر جب صلح حدیبیہ ہوئی تو قبائل کو یہ اختیار دے دیا گیا کہ وہ جس کے چاہیں حلیف بنیں۔ بنو خزاعہ نے محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا جب کہ قبیلہ بنو بکر نے قریش سے حلیفانہ معاہدہ کیا صلح حدیبیہ کے نتیجے میں قریش مکہ اور محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے درمیان امن کی فضا قائم ہوئی تو بنو خزاعہ اور بنو بکر کی پرانی دشمنیاں پھر سر اُٹھانے لگیں۔اہل قریش نے بنو بکر کی پشت پناہی کی تو بنو بکر نے بنوخزاعہ کا خون بہانا شروع کر دیا۔بنو خزاعہ والوں نے حرم میں پناہ لیناچاہی تو وہاں بھی قتال کیا گیا۔سرداران قریش نے بھی رات کو بھیس بدل بدل کر بنو خزاعہ کا خون بہایا اور یوں صلح حدیبیہ کی دھجیاں اُڑا کر رکھ دیں۔اسی فریاد کو لے کر جب عمر وبن سالم محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے در پر دہائی دیتے ہیں تو محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کو بہت صدمہ پہنچتا ہے اور اپنا ایک نمائندہ سردار ان قریش کی جانب اس پیغام کے ساتھ بھیجتے ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک شرط منظور کر لو:
* بنو خزاعہ کے جتنے آدمی مارے گئے ہیں ان کا خون بہا ادا کرو۔
* بنو بکر سے علیحدگی اختیار کر لو۔
* اعلان کردو کہ حدیبیہ کی صلح ٹوٹ گئی۔
جونہی محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کا سفیر یہ تین صورتیں اہل قریش کے سامنے رکھتا ہے تو ان میں سے ایک فرد شدت جذبات سے مغلوب ہو کر کہتا ہے:
’’ہمیں تیسری شرط منظور ہے۔‘‘
اہل قریش کا فیصلہ سن کر سفیر مدینہ کی جانب پلٹ پڑتا ہے۔تو اہل قریش کے سوجھ بوجھ کے لال بجھکڑوں کے ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں اور صلح کا معاہدہ توڑنے پر بہت پچھتاتے ہیں۔مگر اب کیا ہو سکتا ہے۔تیر تو کمان سے نکل چکا ہے۔
لیکن کچھ نہ کچھ تو ہونا چاہیے! چنانچہ یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ ابو سفیان مدینہ جا کر معاہدہ کی تجدید کرے گا۔جونہی یہ فیصلہ ہوتا ہے ابو سفیان مدینہ کی جانب چل پڑتا ہے۔
کس میں ہمت تھی
ابو سفیان مدینہ پہنچتے ہی سیدھا اپنی بیٹی اُمُّ المومنین اُمِ۲ حبیبہؓ کے گھر کی جانب چل پڑتا ہے گھر کی دہلیز کو عبور کرتے وقت بے شمار خیالات اس کے در دل پر دستک دے دے کر دم توڑ رہے ہیں:
’’اُمّ حبیبہؓ سے آخر رشتہ ہی تو خون کا ہے۔اس لیے مشکل کے حل کرنے میں ضرور مدد دے گی اور پھر ۱۲،۱۳ سال کی طویل جدائی کے بعد جب یہ ملاقات کا موقع آرہا ہے تو نہ جانے اُمّ حبیبہؓ کی کیا کیفیت ہو؟‘‘
بے شمار خیا لات حوصلہ دلانے والے،امید بندھانے والے یہی سوچتا ہوا گھر میں داخل ہو جاتا ہے اور ایک جگہ بچھے بستر پر بیٹھنا چاہتا ہے مگر اُمّ حبیبہؓلپک کر بستر کو لپیٹ دیتی ہیں۔ابو سفیان بیٹی کے اس فعل پر بھونچا کر رہ جاتا ہے۔
’’بیٹیاں تو والدین کے لیے بستر بچھا یا کرتی ہیں لپیٹا نہیں کرتیں اور پھر یہ معمولی سا بستر آخر اُم حبیبہؓ نے کیوں لپیٹ دیا۔‘‘
یہ سوچتے ہوئے ابو سفیان،اُم حبیبہ سے پوچھتا ہے:
’’بیٹی میں سمجھ نہیں سکا!کیا یہ بستر میری شایان شان نہیں یا مجھے اس قابل نہ سمجھا کہ میں بستر پر بیٹھوں؟‘‘
اُمّ حبیبہؓ نے اپنے باپ کی بات سنی تو فرمانے لگیں:
’’نہیں بات یہ ہے کہ یہ اللہ کے رسول ؐکا بستر ہے اور آپ مشرک ہیں۔مشرک نجس ہوتا ہے۔ اس لیے مجھے یہ پسند نہیں کہ آپ اس بستر پر بیٹھیں۔‘‘
ابو سفیان جو یہ سنتا ہے تو ایسا محسوس کرتا ہے جیسے اس کے منہ پر کسی نے زور دار طمانچہ جڑ دیا ہو۔اپنے ہی خون کے گھونٹ پی کر کہنے لگتا ہے:
’’اللہ کی قسم مجھ سے الگ ہونے کے بعد تم میں برائی آگئی ۔‘‘
ابو سفیان کو یقین ہو چکا ہے کہ بیٹی کوئی مدد نہ کرے گی۔فوراً گھر سے نکل کر دربار محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)میں حاضر ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)اس سے صلح حدیبیہ کے سلسلے میں بات کریں مگر آپ ابو سفیان کو دیکھتے ہی منہ پھیر لیتے ہیں۔بے سود کوشش کے بعد ابوسفیان،ابو بکرصدیقؓکے پاس پہنچتا ہے کہ شاید محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کا یہ جانثار کوئی مدد کر سکے۔ مگر ابو بکرؓبھی اس سلسلے میں معذوری کا اظہار کرتے ہیں تو عمر فاروقؓکے پاس پہنچتا ہے۔ان کا مرتبہ بھی دربار محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) میں بہت بلند ہے۔مگر عمرؓجواب دیتے ہیں:
’’اللہ کی قسم! اگر مجھے تھوڑی سی ہی طاقت حاصل ہو جائے۔تو میں تمھارے خلاف جہادکروں۳۔‘‘
ابو سفیان یہاں سے ٹکا سا جواب سنتا ہے تو علیؓکے پاس پہنچتا ہے کہ دربارمحمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) میں یہ بھی بہت مقرب ہیں۔مگر علیؓ بھی اس سلسلے میں کچھ کرنے سے معذرت کرتے ہیں تو ابو سفیان ایک نفسیاتی حربہ استعمال کرتے ہوئے فاطمہؓکی گود میں ننھے حسین۴کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے!
’’اے بنت محمدؐ!کیا تم اس معصوم بچے کو کہوگی کہ فریقین میں مصالحت کرادے اور عرب کا سردار کہلائے۵۔‘‘
مگر فاطمہؓجواب دیتی ہیں:
’’اللہ کی قسم!ابھی تو یہ کمسن ہے اور اس قابل نہیں کہ تم لوگوں میں صلح کراسکے اور حقیقت تو یہ ہے کہ اب کوئی بھی بیچ بچاؤنہ کرا سکے گا۶۔‘‘
ایک بار پھر ابو سفیان بحر مایوسی میں غوطہ زن ہو جاتا ہے۔ہمت کرتے ہوئے علیؓ سے ایک بار پھر درخواست کرتا ہے تو علیؓجواب دیتے ہیں:
’’ اللہ کی قسم کوئی فرد بھی ایسی بات نہیں کہہ سکتا جس سے تمھیں فائدہ پہنچے۔تم بنوکنانہ کے سردار ہو۔اس لیے سب لوگوں کے سامنے صلح حدیبیہ کی تجدید کر کے واپس پلٹ جاؤ۔‘‘
ابو سفیان کے لیے یہ مشورہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہے۔وہ مسجد کی جانب چل دیتا ہے اور صلح حدیبیہ کی تجدید کا اعلان کر کے مکہ جا پہنچتا ہے۔
سردار ان قریش،ابو سفیان کا منہ لٹکا دیکھ کر پوچھتے ہیں:
’’کیا تم نے محمدؐسے بات کی؟‘‘
ابو سفیان:ہاں!لیکن میری بات کا انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔پھر میں ابو بکرؓاور عمرؓکے پاس گیا توا نھوں نے بھی میری مدد کرنے سے معذوری کا اظہار کیا۔یہاں سے ما یوس ہو کر علیؓ کے پاس گیا تو انھیں قدرے نرم پایا اور انھوں نے مجھے مشورہ دیا مگر مجھے یقین ہے کہ اس سے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔
’’کیا مشورہ دیا علیؓنے؟‘‘
سرداران قریش تجسس سے پوچھتے ہیں تو ابو سفیان جواب دیتا ہے:
’’انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ سرعام صلح حدیبیہ کی تجدید کا اعلان کر دو۔چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔‘‘
’’تو کیا محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس بات کی تصدیق کی؟‘‘
سرداران قریش دھڑکتے ہوئے دلوں سے پوچھتے ہیں۔
’’نہیں‘‘؟ابو سفیان جواب دیتا ہے۔
یہ سن کر سرداران قریش کہنے لگتے ہیں:
’’اللہ کی قسم اس نے تمھیں بیوقوف بنایا۔تمھیں اس سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔‘‘
عجب منظر
رات کی پرہول تاریکی کو آسمان کی جانب بڑھتے،لپکتے شعلے تار کرنے میں مصروف ہیں۔دور تک پھیلے ہوئے آگ کے شعلے اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ کوئی بڑا لشکر یہاں پڑاؤ ڈالے ہے۔
لیکن کون لوگ ہیں یہ ؟
کیا یہ لشکر مکہ پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے؟
انہی سوالات کا جواب تلاش کرنے ابو سفیان،حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقہ کے ہمراہ مکہ سے باہر چکر لگا رہا ہے۔دور تک پھیلی ہوئی اس بھڑکتی آگ کو دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے۔پھر حیرت کی آنکھ شعلوں پر گاڑتے ہوئے بدیل بن ورقہ سے پوچھتا ہے:
’’واللہ میں نے آج تک اتنا بڑا لشکر نہیں دیکھا۔‘‘
بدیل بن ورقہ عقل کا گھوڑا دوڑاتے ہوئے کہتا ہے:
’’خدا کی قسم!یہ خزاعہ کا لشکر ہے جو انتقام لینے کے لیے جمع ہو رہا ہے۔‘‘
ابو سفیان کے دل کو یہ بات نہیں لگتی۔ اس خیال کو جھٹلاتے ہوئے کہتا ہے:
’’بھلا خزاعہ کو اتنی توفیق کہا ں کہ اتنا بڑا لشکر جمع کر سکے۔‘‘
ابو سفیان کا کہنا ہے بھی بجا خزاعہ کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ اس قدر عظیم لشکر لے کر آسکے۔تو پھر یہ کون لوگ ؟
دفعتاًابو سفیان کو کوئی پکارتاہے۔
ابو۷ حنطلہ!
ابو سفیان آواز پہچان چکا ہے کہ اسے اس کی پشت سے پکارنے والے عباسؓہیں لیکن رات کی تاریکی میں عباسؓنظر نہیں آرہے اس لیے وہیں سے تصدیق کرنے کے لیے آواز دیتا ہے۔
’’ابو ۸الفضلؓ کیا تم ہو؟‘‘
ہاں!عباسؓتصدیق کردیتے ہیں۔
عباسؓقریب پہنچتے ہیں تو ابو سفیان پوچھتا ہے:
’’میرے ماں باپ تم پر قربان!تم یہاں کیسے؟‘‘
یہ سن کر عباسؓآگ کے شعلوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کا دس ہزار کا لشکر پڑاؤڈالے ہوئے ہے۔تم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔اے قریش والو!اب تم ہلاک ہو جاؤگے۔‘‘
ابو سفیان یہ سنتا ہے تو اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل جاتی ہے۔بڑی بے تابی سے عباسؓسے پوچھتا ہے:
’’میرے ماں باپ تم پر قربان۔کیا کوئی صورت ہے بچاؤ کی؟‘‘
عباسؓجواب دیتے ہیں:
’’خدا کی قسم!اگر تم ان کے ہاتھ لگ گئے تو وہ تمھاری گردن اڑا دیں گے۔تم میرے پیچھے خچر پر سوار ہو جاؤ۔میں تم کو محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کے پاس لے چلتا ہوں اور ان سے امان کی درخواست کروں گا۔‘‘
ابو سفیان،عباسؓکے پیچھے خچر پر سوار ہو جاتا ہے اور دونوں محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کی جانب چل پڑتے ہیں۔
دونوں اسلامی سپاہ کے درمیان سے گزرتے گزرتے آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں دفعتاًعمرؓ کی نظر ابو سفیان پر پڑ جاتی ہے۔وہ پکار اُٹھتے ہیں:
’’اللہ کی قسم!یہ تو دشمن خدا ابو سفیان ہے۔‘‘
پھر عمرؓدوڑے دوڑے محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کے پاس حاضر ہوتے ہیں۔اسی اثنا میں عباسؓبھی ابو سفیان کو لے کر پہنچ جاتے ہیں۔
عمرؓشدت جذبات سے عرض کرتے ہیں:
’’اے اللہ کے رسولؐ!یہ ابو سفیان ہے۔آپ ؐمجھے اجازت دیں کہ میں اس کا سر اڑا دوں۔‘‘
مگر عباسؓعرض کرتے ہیں:
’’اے اللہ کے رسولؐ!میں نے اسے پناہ دے دی۔‘‘
ابو سفیان جو محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کے قتل کے منصوبے بنایا کرتا تھا۔جس نے اسلام کی عداوت میں اپنی تمام صلاحیتیں کھپا دیں۔جو مدینے پر باربار حملہ آور ہونے کا مرتکب ہوا۔اور جس نے عرب کے قبائل کو محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کے خلاف اشتعال دلایا۔آج محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کے سامنے بے بس کھڑا ہے۔آج اس کی زندگی کا چراغ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کے ایک اشارے سے گل ہو سکتا ہے۔عمرؓکی پیاسی تلوار اس دشمن خدا کے خون سے سیراب ہونے کے لیے بے چین ہے۔
لیکن عفو محمدیؐکی شان ملا حظ ہو!فرماتے ہیں:
’’عباس!اسے اپنے خیمے میں لے جاؤ صبح میرے سامنے پیش کرنا۔‘‘
مطلب واضح ہے کہ ابو سفیان کو امان مل چکی ہے۔لیکن کب تلک؟ایک رات کے لیے؟یا مستقل؟بات واضح نہیں ہو سکی۔
عباسؓابو سفیان کو لے کر اپنے خیمے میں آجاتے ہیں اور پھر صبح کو محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)اپنا رخ انور ابو سفیان کی جانب پھیرتے ہوئے فرماتے ہیں:
و یحک یا ابا سفیان الم یان لک اِن تَعْلَمَ اِنَّہٗ لا اِلہ اِلا اللّٰہ
’’ابو سفیان!تیرا برا ہو۔تیرے لیے کیا اس کا وقت نہیں آیا کہ تم جان سکو۔اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں۔‘‘
ابو سفیان سنتا ہے تو مختصر گفتگو کے بعد پکار اُٹھتا ہے:
لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْل اللّٰہ
پھر عباسؓ،ابو سفیان کو لے کر ایک بلند مقام پر چلے جاتے ہیں۔ابو سفیان دور تک پھیلے ہوئے مجاہدین کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کو دیکھتا ہے تو اس پر لشکر اسلامی کی ہیبت طاری ہو جاتی ہے اور وہ پکار اُٹھتا ہے:
’’ابوالفضل!اللہ کی قسم!ان لوگوں کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کر سکتا۔نہ کسی میں ایسی طاقت ہے۔تمھارے برادرزادے کی حکومت مستقبل قریب میں عظیم الشان ہو جائے گی۔‘‘
عباسؓیہ سن کر ابو سفیان سے کہتے ہیں۔
’’یہ نبوت ہے۔‘‘
ابو سفیان دل کی گہرائیوں سے نبوت محمدیؐکے قائل ہو کر یہ کہنے لگتے ہیں:
’’یہ تو اور بھی اچھا ہے۔‘‘
دھڑکتے دل
’’میری بچی!مجھے بوقبیس پہاڑپر چڑھنے میں مدد دے۔‘‘
آنکھوں سے محروم نحیف ونزاراابو۹ قحافہ کی بات سن کر ننھی منی بچی نے اس کی اُنگلی تھام لی اور بوقبیس پہاڑ کی جانب چل پڑی۔دونوں گرتے پڑتے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے ہیں تو ابو قحافہ بچی سے پوچھتے ہیں:
’’میری بچی!ذرا یہ تو بتاؤ کہ تم کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘
بچی مدینہ کی جانب انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو دیکھ کر کہتی ہیں:
’’ایک بہت بڑی جمعیت میرے سامنے ہے۔‘‘
پھر بچی یہ بھی بتلاتی ہے کہ:
’’اب یہ جمعیت مختلف حصوں میں بٹ کر شہر کی جانب چل پڑی ہے۔‘‘
پھر بچی کی یہ بات سن کر ابو قحافہ کو یقین ہو چکا ہے کہ امدادی لشکر چند ساعتوں میں شہر میں داخل ہو جائے گا۔اس لیے کہتا ہے:
’’بیٹی!اب تو مجھے جلدی سے گھر پہنچا دے۔‘‘
بوڑھا!ابو قحافہ اور ننھی بچی دونوں گرتے پھسلتے بوقبیس پہاڑ سے اُترتے ہیں تو مجاہدین شہر میں داخل ہو جاتے ہیں۔
اللہ اکبر
چشم فلک نے بڑے بڑے فاتح دیکھے۔مگر کبھی ایسا نہیں ہوا!حیرت ہے۔دس ہزار کا لشکر جرار ہمراہ مکہ کے دروازے وا، پھر بھی اس قدر عجزو انکساری اللہ اللہ اہل قریش کا خیال تھا کہ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)ایک فاتح بن کر آرہے ہیں۔اکڑ اکڑ کر شہر میں داخل ہوں گے۔ماضی میں جتنے ستم اہل قریش نے ان کے ساتھیوں پر ڈھائے ایک ایک کا بدلہ لیں گے۔چن چن کر افراد تہہ تیغ کریں گے۔اس لیے کہ سبھی فاتح ایسے ہی کیا کرتے ہیں۔جب بھی کوئی علاقہ فتح کیا جاتا ہے تو فاتح اس علاقے میں سب سے پہلے قتل عام کا حکم دیتا ہے۔عورتوں کی عصمتیں نیلام کی جاتی ہیں۔بوڑھوں کے سہارے چھینے جاتے ہیں۔بچوں کو یتیم کیا جاتا ہے۔مال واسباب لوٹ لیا جاتا ہے۔مگر یہاں یہ سب کچھ نہیں ہو رہا۔زبیرؓبن عوام پرچم تھامے دستے کی قیادت کر رہے ہیں۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)اپنی خاص اونٹنی’’قصویٰ‘‘پر سوار ہیں۔سر پر سیاہ رنگ کا عمامہ ہے۔کاندھے پر سرخ یمنی چادر جس کا ایک سرا سیاہ عمامے کے ساتھ بندھا ہے۔عجزوانکساری کا یہ عالم ہے کہ کجاوے کی پٹی پر ہی سجدہ ریز ہو کر رب کائنات کا شکر بجا لا رہے ہیں۔
خالدؓبن ولید کی قیادت میں ایک دستہ’’لیط‘‘کی جانب سے شہر میں داخل ہو چکا ہے۔ اسے معمولی سی مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ابو عبیدہؓابن جراح مجاہدین کے ایک دستے کے ہمراہ سامنے ہی سے مکہ میں داخل ہوئے ہیں جبکہ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)اپنے جانثاروں کے ساتھ ’’ازاخر‘‘کے راستے شہر میں داخل ہو کر آگے ہی آگے بڑھے چلے جارہے ہیں۔
مکہ میں یہ اعلان بھی کر دیا جا چکا ہے کہ ان لوگوں کو پنا ہ ہے:
جو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہتھیار ڈال دیں گے۔
جو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابو سفیان کے گھر داخل ہو جائیں گے۔
جو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے گھروں کے دروازے بند رکھیں گے۔
جو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مسجد حرام میں داخل ہو جائیں گے۔
مکہ کے باسی اس رعایت سے پورا پورا فائدہ اُٹھارہے ہیں۔گھروں کے دروازے بند کر کے لوگ چھتوں اور جھروکوں سے اسلامی سپاہ کی شان وشوکت اور جاہ وجلال کا نظارہ کر رہے ہیں۔ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) بڑھتے بڑھتے’’مقام حیف‘‘پر جا ٹھہرتے ہیں۔اور پھر جب ہر طرف سکون ہو جاتا ہے تو سوئے کعبہ چل دیتے ہیں۔سواری کی ہی حالت میں سات مرتبہ طواف کرنے کے بعد عثمان بن طلحہ سے کعبتہ اللہ کی چابیاں لے کر دروازہ کھولتے ہیں۔
آہ! وہ کعبہ جو ابراہیم ؑ واسماعیل ؑ نے اپنے پاکیزہ ہاتھوں سے اسی واسطے تعمیر کیا تھا کہ یہاں خدا کی کبریائی کا ذکر چھڑے گا۔تصویروں اور مورتیوں کا مسکن ہے۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)اندر داخل ہوتے ہیں تو سامنے لکڑی کے بنے ہوئے کبوتروں پر نگہ پڑتی ہے۔اُنھیں اپنے دست مبارک سے توڑتے ہیں۔دیواروں پر بنی ہوئی فرشتوں کی تصویریں اور مورتیاں صاف کی جاتی ہیں۔ اب نظروں کے سامنے ایک عجیب تصویر ہے۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)حیران ہو جاتے ہیں۔ کعبہ کی بنیاد رکھنے والے ابراہیم ؑ واسماعیل ؑ کی تصویر بنا کر ان کے ہاتھوں میں کمانیں تھمائی ہوئی ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے گویا وہ تیر چلانا چاہتے ہیں۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) یہ دیکھ کر نہایت دُکھ سے فرماتے ہیں:
’’خدا ن کافروں کو غارت کرے۔ان دونوں بزرگوں نے عمر بھر کمان ہاتھ میں نہ اُٹھائی۔‘‘
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) ہاتھ میں تیر اُٹھائے ہوئے ہیں اور بتوں کو اس کی ٹھوکر سے گراتے جاتے ہیں۔کوئی بت پیشانی کے بل گر رہا ہے تو کوئی گدی کے بل اور زبان محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)پہ یہ کلمات جاری ہیں:
جَآءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوْقاً۔۔۔ جَآءَ الْحَقُّ وَ مَا یُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا یُعِیْدُ
’’حق آیا اور باطل نیست ونابودہوااور باطل ٹوٹنے والی چیز ہے۔حق آیا باطل کو نہ شروع میں ٹھہرنے کی طاقت ہے نہ آخر میں۔‘‘
اس کام سے فارغ ہو کر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کعبہ کا دروازہ بند کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ اندر صرف بلالؓ اوراسا۱۰مہؓ رہ جاتے ہیں۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)خدا کے حضور سجدہ ریز ہونے کے بعد کعبہ کے چاروں کو نوں کا چکر لگاتے ہوئے اللہ کی کبریائی بیان کرتے ہیں۔
’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔اس کا کوئی شریک نہیں۔میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘
اب جو دروازہ کھولتے ہیں تو سامنے اہل قریش کو منتظر پاتے ہیں۔سبھی لوگ اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کے لیے بے تاب ہیں۔دل دھڑک رہے ہیں۔نہ جانے کیا فیصلہ سنایا جاتا ہے۔
بلالؓ کی اذان
کیسے کیسے ستمگر آج بے بس کھڑے ہیں۔وہ جو کبھی محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے قتل کے منصوبے بنایا کرتے تھے۔وہ کہ جنھوں نے مجاہدین پر طرح طرح کے ستم توڑے گلیوں میں گھسیٹا انگاروں پر لٹایا۔اور وہ کہ جنھوں نے اسلام کا نام لینے والوں پر مکہ کی زمین تنگ کر دی۔جنھوں نے مسلمانوں کو حبش اور مدینہ میں بھی سکون سے نہ رہنے دیا۔سبھی کے سبھی اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کے منتظر ہیں۔
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) آگے بڑھ کر کعبہ اللہ کے دروازے کی چوکھٹیں ہاتھ میں پکڑ کر اہل قریش پرنگہ ڈالتے ہوئے فرماتے ہیںؒ :
لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ صَدَقَ وَعْدَہٗ وَ نَضَرَ عَبْدَہٗ، وَہَزَمَ الْاَحْزَاب وَحْدَہٗ، اَلاَ کُلُّ مَاْثَرَۃٍ اَو دَمٍ او مَالٍ یَدُّعٰی فَہُوَ تَحْتَ قَدَمَیَّ ہَاتِیْنِ اِلاَّ سِدَانَۃَ الْبَیْتِ وَ سِقَایَۃَ الْحَجَّاجِ.
’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔وہ واحد ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں۔اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اس نے اپنے بندے کی مدد کی تمام فوجوں کو تنہا نیچا دکھایا ۔سن لوتمام مفاخر، خون کے تمام دعوے اورمال کے سارے مطالبے میرے قدموں تلے ہیں۔ہاں صرف کعبہ کی کلید برداری اور حاجیوں کی آب رسانی اس سے مستثنیٰ ہے۔‘‘
مزید فرماتے ہیں۔
یَا معَشرَ قریش اِنَّ اللّٰہَ قَدْ اَذْہَبَ عَنْکُمْ نَخَوۃ اَلْجَاہِلِیَّہ وَ تَعظّمَہَا بِالاٰبَآءِ النَّاسَ مِنْ لاٰدَمَ وَ اٰدَمُ مِنْ تُرَابِ
’’قریش کے لوگو!اب جاہلیت کی نخوت اور خاندانی مفاخرت کو اللہ نے مٹا دیا۔تمام انسان آدم کی اولاد ہیں۔اور آدم مٹی سے بنے تھے۔‘‘
پھر اللہ جلا شانہ،کی مقدس آیات سناتے ہوئے فرماتے ہیں۔
یَاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَاءِلَ لِتَعَارَفُوْ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌO
’’لوگو!ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا۔اور تمھارے بہت سے قبیلے اور خاندان بنائے۔کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو۔بے شک اللہ علیم اور خبیرہے۔‘‘
خطبہ دے چکنے کے بعد محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) اہل قریش سے سوال کرتے ہیں۔
’’اے قریش کے لوگو!میرے متعلق تمھارا کیا خیال ہے کہ میں تمھارے ساتھ کیسا سلوک کروں گا۔‘‘
سبھی دھڑکتے دلوں کے ساتھ بیک زبان پکارتے ہیں:
’’اے اللہ کے رسولؐآپ ہمارے ساتھ نیک سلوک کریں گے۔ آپ ہمارے معزز بھائی،معزز بھائی کے صاحبزادے اور بلند شان والے ہیں۔
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) اہل قریش کا یہ جواب سنتے ہیں تو فرماتے ہیں۔
’’میں آج تمھیں وہی بات کہتا ہوں جو یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی۔آج تم پر کوئی پکڑ نہیں۔جاؤ کہ میں نے تمھیں معاف کر دیا۔‘‘کسے خبر تھی یوں جان بخشی کر دی جائے گی۔ہر ایک جب اپنے اپنے گناہوں اور کارستانیوں پر نگہ ڈالتا تو اسے یقین ہو جاتا کہ وہ بچ نہ سکے گا۔مگر اب جو محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کی جانب سے عام معافی کا اعلان کیا جاتا ہے۔تو سبھی خوشی سے دیوانے ہو جاتے ہیں۔
پھر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) بلالؓکو بلاتے ہیں۔اور حکم دیتے ہیں۔کہ
’’اذان دو!‘‘
اذان کی آواز بلند ہوتی ہے۔اور ہوا کے دوش پر دور تک پھیلتی چلی جاتی ہے۔کتنا سوز اور کتنی تاثیر ہے۔اس اذان میں ہر ایک جھوم جھوم اُٹھتا ہے۔
اَللّٰہُ اَکْبَر۔۔۔ اَللّٰہُ اکبر اللہ بہت بڑا ہے ۔۔۔اللہ بہت بڑا ہے
اَللّٰہُ اَکْبَر۔۔۔ اَللّٰہُ اکبر اللہ بہت بڑا ہے ۔۔۔اللہ بہت بڑا ہے
اشہدُ ان لاّ اِلہ اِلاَّ اللّٰہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں
اشہدُ ان لاّ اِلہ اِلاَّ اللّٰہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں
اَشہدُ انَّ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے رسولؐہیں
اَشہدُ انَّ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے رسولؐہیں
حَییَّ عَلَی الصَّلٰوۃ نماز کی جانب آؤ
حَییَّ عَلَی الصَّلٰوۃ نماز کی جانب آؤ
حَییَّ عَلَی الْفَلاَح نجات کے لیے آؤ
حَییَّ عَلَی الْفَلاَح نجات کے لیے آؤ
اَللّٰہُ اَکْبَر۔۔۔ اَللّٰہُ اکبر اللہ بہت بڑا ہے ۔۔۔اللہ بہت بڑا ہے
لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں
…………
حاشیہ:
۱۔ عمرو نام سالم بن حضیرہ والد کا نام نور ایمان سے ان کا چہرہ منور تھا۔حضورؐکے ساتھ حدیبیہ میں آئے۔عمرو اور بدیل بن ورقہ اسی روز حضورؐکی خدمت میں حاضر ہوئے اور حال قریش سے آگاہ کیا۔فتح مکہ کے دن عمرو بن کعب کے ان تین جھنڈوں میں سے ایک جھنڈااُٹھائے ہوئے تھے جو حضورؐ نے ان لوگوں کے لیے باندھا تھا۔
۲۔ اُمّ حبیبہؓاُمہات المومنین میں سے ہیں۔ان کا اصلی نام رملہ ہے ابوسفیان بن حرب کی بیٹی ہیں اور ان کی والدہ کا نام صفیہ ہے۔حضورؐ کے نکاح میں ہجرت مدینہ سے قبل آئیں۔ان کی وفات ۴۲ھ میں ہوئی۔
۳۔ ابن ہشام۔
۴۔ حسینؓ ،حضرت علیؓکے صاحبزادے ہیں۔ان کی کنیت ابو عبداللہ ہے۔حضورؐکے نواسے اور شجر نبوت کے پھول ہیں۔جنت کے تمام جوانوں کے سردار ہیں ماہ شعبان کی پانچ تاریخ ۴ھ میں پیدا ہوئے۔جمعہ کے دن دسویں محرم ۶۱ھ کو میدان کر بلا میں جو سر زمین کوفہ وجاء کے درمیان ہے شہید کر دیے گئے۔شہادت کے وقت آپ کی عمر ستاون برس تھی۔
۵۔ ابن ہشام
۶۔ ابن ہشام
۷۔ ابو سفیان کی کنیت ابو حنطلہ تھی۔
۸۔ حضرت عباسؓکی کنیت ابوالفضل تھی۔
۹۔ ابو قحافہ کا اصل نام عثمان ہے جب کہ والد کا نام عامر ہے۔یہ حضرت ابو بکرصدیقؓکے والد ہیں۔فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا۔
۱۰۔ اسامہؓنام،ابومحمدؐکنیت والد کا نام زیدؓتھا۔ان کے والد زیدؓ رسولؐاللہ کے محبوب غلام اور منہ بولے بیٹے تھے۔انھوں نے آنکھ کھولتے ہی اسلام کے گہوارہ میں پرورش پائی۔ہجرت کا شرف رسولؐخدا کے ساتھ حاصل ہوا۔فتح مکہ کے معرکہ میں شریک تھے۔فتح مکہ کے بعد بیت اللہ میں اس شان سے داخل ہوئے کہ حضوراکرمؐکی سواری پر آپؐکے ساتھ سوار تھے۔اور حضرت بلالؓ ،عثمانؓبن طلحہ جلو میں تھے۔خانہ کعبہ کھلنے کے بعد چاروں آدمی ساتھ داخل ہوئے۔ان کے بعد دروازہ بند کر دیا گیا۔حضورؐکے سفیر حارث بن عمیر شاہ بصریٰ کے دربار سے سفارت کی خدمت انجام دے کر واپس آرہے تھے کہ مقام موتہ پر شرجیل بن عمرو عنانی نے ان کو شہید کر دیا۔حضورؐ نے ان کے انتقام میں حضرت زیدؓبن حارثہ کی قیادت میں ایک دستہ بھیجا مگر زیدؓبھی شہید ہوئے۔اور ان کے ساتھ اکابر صحابہؓحضرت جعفرؓ،طیار اور حضرت عبداللہؓ بن رواحہ نے بھی جام شہادت نوش کیا۔چنانچہ اپنی وفات سے کچھ دن قبل حضورؐ نے ان شہدا کے انتقام کے لیے اسامہؓبن زیدؓکو سپہ سالار بنا کر لشکر روانہ فرمایا۔لیکن روانگی کے بعد حضورؐ کی بیماری شدید ہو گئی۔چنانچہ اسامہؓرک گئے۔اور حضورؐکے وصال کے بعد حضرت ابو بکرؓنے اسامہؓ کو موتہ کی جانب روانہ کیا۔اسامہؓکامیاب وکامران پلٹے حضرت امیر معادیہؓکے آخر زمانہ میں ۵۴ہجری کو مدینہ منورہ میں وفات پائی۔اس وقت ان کی عمر ۶۰ساٹھ سال تھی۔