skip to Main Content

فرض شناس

اشتیاق احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔

خالد سپرا کی پیشانی پر بل پڑے ہوئے تھے۔ ان کا ڈرائیور ابھی تک نہیں آیا تھا۔ وہ وقت کی پابندی کے لیے مشہور تھے۔ کسی جگہ پہنچنے کا جو وقت مقرر ہوتا، وہ اس سے ایک سیکنڈ بھی لیٹ پہنچنا پسند نہیں کرتے تھے۔ آج انہیں ایک اہم میٹنگ میں جانا تھا۔ شام پانچ بجے کا وقت طے تھا۔ پونے پانچ بج چکے تھے اور ان کے خیال میں راستہ بیس منٹ کا تھا۔ گویا اس وقت تک وہ پانچ منٹ تو لیٹ ہو ہی چکے تھے۔
آخر ڈرائیور کی صورت نظر آئی۔ اس نے ہارن بجایا تو وہ باہر کی طرف دوڑ پڑے۔ جلدی سے کار میں بیٹھتے اور بولے:”ہم میٹنگ کے وقت سے پانچ منٹ لیٹ پہنچیں گے۔ ان پانچ منٹوں کی وجہ سے آج مجھے جو شرمندگی اٹھانی پڑے گی، اس کے ذمے دار تم ہوگے۔ تم اچھی طرح جانتے ہو ، میں وقت کا کتنا پابند ہوں۔ اس کے باوجود تم پندرہ منٹ لیٹ آئے ہو۔ میں نے تمہیں بتا دیا تھا کہ مجھے پانچ بجے پہنچنا ہے اور تم میرے پاس ساڑھے چار بجے پہنچ جانا، لیکن تم پونے پانج بجے سے بھی تیس سیکنڈ بعد پہنچے ہو۔ اب میں تمہیں اور کیا کہوں! تمہیں ملازمت سے فارغ کرتا ہوں تو تمہارے چھوٹے چھوٹے بچوں کا خیال آتا ہے، کیوں کہ غلطی تمہاری ہے اور سزا ملے گی تمہارے بچوں کو۔“
وہ یہاں تک کہہ کر خاموش ہوگئے۔ ڈرائیور نے ان کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ بس پوری توجہ سے گاڑی چلاتا رہا۔ جب انھوں نے دیکھا کہ اس نے ان کی باتوں کے جواب میں یہ تک نہیں کہا کہ سر! مجھے افسوس ہے تو انہیں غصہ آنے لگا۔ وہ پھر بولے:”تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا؟“
ڈرائیور اب بھی خاموش رہا۔ اس کی پوری توجہ گاڑی چلانے کی طرف تھی۔ انھوں نے جھلا کر کہا:”خیر میٹنگ سے فارغ ہو کر تم سے بات کروں گا۔“
ڈرائیور اب بھی کچھ نہ بولا۔ اس کی نظریں سڑک پر تھیں۔ پھر گاڑی رُک گئی۔ انھوں نے چونک کر دیکھا۔ وہ میٹنگ ہال کے سامنے پہنچ چکے تھے۔ انھوں نے گھڑی پر نظر ڈالی۔ انہیں خوش گوار حیرت کا ایک جھٹکا لگا۔ پانچ بجنے میں چند سیکنڈ باقی تھے۔ کچھ کہے بغیر وہ بلا کی تیزی سے کار سے نکلے اور اندر کی طرف دوڑ پڑے۔ جب وہ ہال میں داخل ہوئے تو گھڑیاں پورے پانچ بجا رہی تھیں اور باقی لوگ انہیں آج بھی تعریفی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
میٹنگ سے فارغ ہو کر وہ کار میں آبیٹھے۔ ڈرائیور نے گھر کارُخ کیا۔ اب دونوں خاموش تھے۔ یہ خاموشی خالد سپرا کو چبھنے لگی۔ آخر انھوں نے کہا: ”تمہاری خاموشی پراسرار سی ہے، جو مجھے الجھن میں مبتلا کر رہی ہے۔ آخر کچھ تو بولو! میں تسلیم کرتا ہوں، تم نے لیٹ پہنچنے کے باوجود مجھے میٹنگ ہال میں وقت پر پہنچا دیا۔ اس کے لیے میں تمہارا جتنا شکریہ ادا کروں، کم ہے۔ تم نے مجھے شرمندگی سے بچا لیا، لیکن یہ بھی تو سوچو، تمہیں کتنی تیز ڈرائیونگ کرنا پڑی۔ تیز ڈرائیونگ بہرحال خطرناک ہے۔ وقت سے پہلے روانہ ہونے کا بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ ڈرائیونگ سکون سے ہوتی ہے۔ کیا اب تم بتانا پسند کرو گے کہ لیٹ کیوں ہوگئے تھے؟“ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئے اور ڈرائیور کے جواب کا انتظار کرنے لگے۔
آخر ڈرائیور کے ہونٹ ہلے:”آپ کا اصول اگر وقت کی پابندی ہے تو میرا اصول دکھی انسانیت کی خدمت ہے۔ میری چھے سال کی ملازمت کے دوران آپ کبھی کہیں لیٹ نہیں پہنچے۔ اگر آج آپ لیٹ پہنچتے تو کوئی آپ کو شرمندہ نہ کرتا، کیوں کہ سب آپ کے اصول کو جانتے ہیں۔ خود ہی سمجھ لیتے کہ آج ضرور کوئی ناخوش گوار معاملہ ہوگیا ہوگا، لہٰذا سب لوگ آپ سے ہمدردی کرتے۔ اب یہ اور بات ہے کہ میں نے آپ کو پھر بھی وقت پر پہنچا دیا اور میں اپنا کام بھی کر گزرا۔“
”وہی تو میں جاننا چاہتا ہوں، آخر تم لیٹ کیوں ہوئے؟“
”ایک لڑکے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔ وہ اپنی موٹر سائیکل پر جارہا تھا۔ سامنے سے آنے والی ایک کار سے ٹکرا گیا۔ اس کے سر پر چوٹ آئی تھی۔ پیشانی سے خون بہ رہا تھا اور کوئی اسے ہسپتال لے جانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ میں نے اس کے پاس گاڑی روک لی۔ میرے سامنے دو راستے تھے۔ ایک یہ کہ میں بھی دوسروں کی طرح آگے بڑھ جاﺅں۔ دوسرا یہ کہ اسے ہسپتال پہنچا دوں۔ اسے ہسپتال پہنچانے کے سلسلے میں، میں بھی لیٹ ہوجاتا، آپ کے پاس لیٹ پہنچتا۔ اس صورت میں آپ کی ڈانٹ ڈپٹ سننا پڑتی اور اس بات کا زیادہ امکان تھا کہ آپ مجھے ملازمت سے نکال دیتے۔ میں اس وقت اپنی بوڑھی ماں کا علاج کروا رہا ہوں، وہ ٹی بی کی مریضہ ہیں، علاج پر کافی پیسے خرچ ہورہے ہیں۔ ملازمت چھوٹنے کی صورت میں وہ علاج متاثر ہوسکتا تھا، لیکن دوسری طرف وہ لڑکا تھا اور اس کے سر سے خون بہ رہا تھا۔ آخر میں نے فیصلہ کیا کہ لڑکے کو ہسپتال لے کر جاﺅں۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا کہ آپ لیٹ ہوجاتے۔ سو میں نے یہی فیصلہ کیا۔ لڑکے کو ہسپتال پہنچایا۔ پھر آپ کی طرف دوڑ پڑا۔ میری کوشش یہی تھی کہ کسی طرح آپ کو بھی وقت پر ہی پہنچا دوں۔ سو اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی اور میں اپنی اس کوشش میں بھی کامیاب ہوگیا۔ میں نے اس وقت آپ کو کسی بات کا جواب اس لیے نہیں دیا کہ میں ڈرائیونگ پر پوری توجہ دے رہا تھا اور جواب دینے کی صورت میں میرا دھیان بٹ سکتا تھا۔ اس طرح آپ کووقت پر پہنچانے میں کامیاب ہوگیا۔ یوںں میرے دونوں مقصد پورے ہوگئے۔ اب آپ چاہیں تو مجھے ملازمت سے فارغ کر دیں۔“
وہ خاموش ہوگیا۔ آخری جملہ کہتے وقت اس کی آواز بھرا گئی۔
چند لمحے تک خالد سپرا خاموش رہے۔ شاید سوچ رہے تھے کہ اس سے کیا کہیں۔ آخر انھوں نے کہا:”نہیں! میں تمہیں ملازمت سے نہیں نکال سکتا، کیوں کہ لیٹ پہنچنے کے باوجود تم نے مجھے تو وقت پر پہنچا دیا تھا اور تم بلاوجہ لیٹ بھی نہیں پہنچے، لہٰذا ملازمت سے تو نکالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بس تم کچھ محسوس نہ کرو۔ ارے! یہ تم آج کس راستے سے جارہے ہو؟“
”سر! پہلے ہسپتال جاﺅں گا۔ آخر اس بے چارے کا حال بھی تو معلوم کرنا ہے۔ اسے خون وغیرہ کی ضرورت نہ ہو۔ یہ سب بھی تو دیکھنا ہوگا۔“
”تم ایسا ضرور کرو، مگر پہلے مجھے گھر پہنچا دو۔“
”سر! اب ہسپتال کے قریب ہیں۔ آپ کا زیادہ وقت نہیں لگے گا۔“
خالد صاحب کا منہ بن گیا، تاہم انھوں نے منہ سے کچھ نہ کہا۔ آخر وہ ہسپتال پہنچ گئے۔ کار کا انجن بند کر کے ڈرائیور نیچے اترا۔
”آپ بھی تشریف لائیے سر!“
”نہیں بھئی۔ بس تم جلدی سے ہو آﺅ۔ پیسوں کی ضرورت پیش آئے تو مجھے بتا دینا۔ میںٰ دے دوں گا۔“
”میری درخواست ہے، آپ ساتھ چلیے۔“
”بھئی، میں کیا کروں گا۔“
”اس طرح آپ بھی دکھی انسانیت کی خدمت میں حصہ لیں گے۔“ ڈرائیور مسکرا دیا۔
خالد صاحب نے جھلا کر کہا: ”اچھا بابا۔“
دونوں ہسپتال کی اوپر والی منزل پر پہنچے اور پھر ایک پرائیویٹ کمرے کے سامنے پہنچ گئے۔
”یہ کیا! تم نے لڑکے کو پرائیو یٹ وارڈ میں داخل کروا دیا؟©“ خالد سپرا نے حیرت سے کہا۔
”جی ہاں۔“
”یہ تم نے کیا کیا؟ اتنے اخراجات کا بل کون ادا کرے گا؟“
اس نے سپاٹ لہجے میں کہا:”آپ!“
”حد ہوگئی۔ بھئی میں کیوں کرنے لگا؟“
”خیر آپ آئیں تو۔“ یہ کہہ کر وہ اندر داخل ہوگیا۔ اس کے پیچھے خالد سپرا بھی منہ بناتے اندر آگئے اور پھر زور سے اُچھلے۔ ان کے سامنے ان کا بیٹا بستر پر لیٹا تھا۔
”میرا بچہ! یہ! یہ تم نے کیا کیا؟ تم نے مجھے اس وقت کیوں نہ بتایا؟“
”اگر اس وقت بتا دیتا تو آپ میٹنگ میں نہ جاسکتے۔ جب کہ وہ میٹنگ آپ کے لیے بہت اہم تھی اور یہاں آکر آپ صرف بیٹھے رہنے کے سوا کچھ نہ کر سکتے تھے۔ میں نے ڈاکٹر صاحبان کو بتا دیا تھا کہ یہ آپ کے بیٹے ہیں اور انھوں نے بھی اطمینان دلا دیا تھا کہ ان کی حالت خطرناک نہیں ہے، معمولی چوٹیں ہیں۔ پھر جب آپ میٹنگ میں تھے تو میں اس دوران برابر چھوٹے صاحب سے ان کی حالت پوچھتا رہا ہوں۔ آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں۔“
”یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ ابو! یہ بہت اچھے انسان ہیں۔ انھوں نے یہ کام بہت ہی خوبی سے انجام دیا ہے۔“
”اور سر! اگر ان کی حالت ذرا بھی نازک ہوتی تو پھر میں آپ کو میٹنگ میں لے جانے کی بجائے سیدھا یہاں لاتا، لیکن جب میں نے دیکھا کہ آپ کی یہاں ضرورت نہیں تو میں آپ کو وہاں لے گیا۔ یہاں بیٹھ کر آپ سوائے گھبرانے کے اور کوئی کام نہ کرتے۔ اتنی دیر میں ان کی حالت بھی سنبھل گئی اور اب آپ کوئی پریشانی محسوس نہیں کر رہے ہوں گے۔“
چند لمحے تک خالد سپرا ڈرائیور کو حیرت بھری نظروں سے دیکھتے رہے۔ آخر انھوں نے کہا:”تم حیرت انگیز ہو۔ میں نے آج تک تمہارے اندر جھانکنے کی کوشش نہیں کی۔ ہم لوگ شاید پیشوں کی نسبت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں اور بس۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ ایک معمولی پیشے والا انسان بھی اعلیٰ صلاحیتوں کا مالک ہوسکتا ہے اور اس کی صلاحیتوں سے فائدہ نہ اُٹھانا، صرف اس کے ساتھ ناانصافی نہیں، اپنے ساتھ بھی زیادتی ہے، لہٰذا آج سے تم میرے ڈرائیور نہیں، میری کمپنی کے ایک ذمے دار عہدے دار ہو اور میں تم سے معافی بھی چاہتا ہوں، میں نے تمہیں بہت سخت سست کہا ہے۔“
اس نے مسکرا کر کہا:”کوئی بات نہیں سر! آپ یہ بھی تو دیکھیے کہ ان سخت سست جملوں کا بدلہ مجھے کتنا اچھا ملا ہے۔“
اور خالد سپرا نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top