فاروق اعظم رضی اللہ عنہ
ابصار احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’خیریت سے ہو عمر! کہاں جارہے ہو؟‘‘ ہاتھ میں بے نیام تلوار دیکھ کر حضرت نعیم بن عبداللہ نے عمر بن خطاب سے دریافت کیا جو اس وقت اسلام کے سخت مخالف تھے۔ عمر نے جواب دیا ’’محمدؐ کا (نعوذبااللہ) فیصلہ کرنے جارہا ہوں۔ ’’پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو تمہارے بہنوئی اور بہن دونوں مسلمان ہوچکے ہیں‘‘۔ حضرت نعیم نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔ عمر بن خطاب فوراً ان کے گھر گئے جہاں دونوں قرآن پڑھ رہے تھے عمر کو دیکھ کر انکی بہن نے وہ اوراق چھپا دیئے حضرت عمر نے بہن کو خوب مارا یہاں تک وہ لہو لہان ہوگئیں۔ انہوں نے سخت لہجے میں عمر سے کہا کہ ’’تم چاہے ہمیں جتنا مار لو ہم اسلام سے نہیں پھریں گے‘‘۔ بہن کی یہ استقامت دیکھ کر عمر کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور انہوں نے قرآن کے اوراق منگوا کر پڑھے اور سورۃ طہٰ کی اس آیت پر پہنچے ’’آمنو باللہ ورسولہ‘‘ تو اس پر بے ساختہ زبان سے کلمہ شہادت پڑھا اور نبیؐ کی بارگاہ میں حاضر خدمت ہوئے جس پر نبیؐ نے تکبیر کا نعرہ بلند کیا اور مکہ کی وادیاں اللہ اکبر کی صدا سے گونج اٹھیں۔
*۔۔۔*۔۔۔*
حضرت عمر بن خطابؓ جو نبیؐ کو قتل کرنے کی نیت سے نکلے تھے۔ اسلام قبول کر کے شمع رسالت کے پروانے بن گئے۔ ان کے قبول اسلام سے اسلام کو بہت تقویت ملی۔ انہوں نے قبول اسلام کے بعد نبیؐ کو کعبہ میں نماز پڑھنے کی تجویز دی۔ اور نبیؐ کے ہمراہ تمام صحابہؓ نے پہلی مرتبہ کھل کر نماز پڑھی۔ ان کے رعب اور دبدبے کی وجہ سے کسی کو جرأت نہ تھی کہ وہ مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکے۔
حضرت عمر کے اسلام لانے سے پہلے نبیؐ ہمیشہ نماز کے بعد حضرت عمرؓ کی ہدایت کیلئے اللہ سے دعا مانگتے اور ان کے قبول اسلام سے ایک دن قبل انتہائی عاجزی سے دعا مانگی جس کا نتیجہ اللہ نے صبح دیا۔ وہ مسلمان ہونے والے چالیسویں فرد تھے۔ ان دنوں مسلمانوں پر قریش کی جانب سے شدید مظالم ڈھائے جاتے تھے مگر کسی کو ان کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہمت نہ پڑی۔
نبوت کے تیرھویں سال جب ہجرت کا حکم آیا تو تمام مسلمان چھپ کر مدینہ ہجرت کر رہے تھے لیکن حضرت عمرؓ دس افراد کے ہمراہ کعبہ کی طرف گئے اور کھل کر قریش سے کہا ’’کہ عمر مدینہ جارہا ہے اگر کوئی چاہے کے اس کی بیوی بیوہ اور بچے یتیم ہوں تو آئے اور میرا مقابلہ کرے‘‘۔ اس وقت بھی کوئی میدان میں نہیں آیا اور حضرت عمرؓ خیرو عافیت سے مدینہ پہنچے۔ مدینہ میں نبیؐ نے عتبان بن مالک کو حضرت عمر کا بھائی بنایا۔ جو بنو سالم کے سردار تھے۔1ہجری میں جب نماز کی فرضیت ہوئی تو اس کیلئے اذان کا فیصلہ بھی آپ ہی کی رائے کے موافق ہوا۔ نیز اشاعت اسلام کیلئے جو تدبیریں کی جاتیں نبیؐ ہمیشہ اس میں آپ کی رائے کو مقدم رکھتے۔ آپؐ اکثر فرمایا کرتے کہ ’’عمر اور ابوبکر میری آنکھ اور کان ہیں‘‘۔ (بخاری)۔
2ہجری کو اسلام کا معرکہ بدر کے میدان میں دن پڑا تو حضرت عمرؓ بھی آپؐ کے ہمراہ تھے۔ اس غزوہ کا پہلا شہید حضرت عمرؓ کا غلام تھا نیز اس میں آپؐ نے اپنے ہاتھوں سے اپنے سگے ماموں عامی بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا۔ 3ہجری کو غزوہ احد میں لوگ نبیؐ کو چھوڑ کر گئے تو اس وقت بھی حضرت عمرؓ آپؐ کے ساتھ آپؐ کی حفاظت پرمعمور تھے۔ اسی سال آپؐ کو خاندان نبوت میں داخل ہونے کا شرف ہوا۔ یعنی آپؐ نے اپنی بیٹی حضرت سودہؓ کا نکاح آقا نامدارؐ سے کردیا۔ آپ ہر غزوے میں شریک ہوئے۔ غزوہ تبوک کے موقع پر جب سامان کی قلت تھی تو آپ نے اپنے گھر کا نصف سامان اللہ کی راہ میں پیش کیا۔
11ہجری کاسال مسلمانوں کیلئے عظیم سانحہ کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اسی سال نبیؐ کا وصال ہوا۔
12ربیع الاول بروز بدھ کو جب آپؐ اس دنیا سے رحلت فرما گئے حضرت عمرؓ کو اس کی اطلاع ملی تو قبول اسلام سے قبل کی طرح بے نیام تلوار لے کر مسجد نبوی میں داخل ہوئے۔ مگر آج وہ یہ فرما رہے تھے کہ میں اس شخص کی گردن اڑا دوں گا جو کہے گا کہ محمد کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے ان کو تسلی دی اور فرمایا کہ محمد بشر تھے ان کی موت واقع ہوگئی جو شخص ان کی پیروی کرتا ہے وہ جان لے۔ مگر جو اللہ کی پیروی کرتا ہے وہ جان لے کہ وہ حئی القیوم ہے۔ اس پر آپؓ کا غصہ ٹھنڈا ہوا۔
انحضرت ﷺ انتقال سے قبل آپ کو ’’فاروق اعظم ‘‘کا خطاب دے چکے تھے جو آپ کی وجہ شہرت بن گیا۔
نبیؐ کے انتقال کے بعد جب آپؐ کی خلافت کا مسئلہ پیش آیا تو تمام مسلمان اپنا خلیفہ چننے جمع ہوئے لوگوں کی نظریں ابوبکرؓ و عمرؓ پر ان کے مناقب کی وجہ سے زیادہ مرکوز تھیں۔ ابوبکرؓ نے خلافت کا بار اٹھانے سے قبل لوگوں کو آپ کی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی جس پر آپؓ نے فوراً حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کرلی اور حضرت ابوبکرؓ پہلے خلیفہ رسول کہلائے۔ ابوبکرؓ کی خلافت میں آپؓ ان کے خاص مشیر تھے۔ ہر اہم معاملات میں حضرت ابوبکر آپ کے مشورے کی تائید کرتے۔
جمادی الثانی13ہجری کو عہد صدیقی کا حسین سورج غروب ہونے والا تھا تو خلافت کا مسئلہ پھر کھڑاہوا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے لوگوں کو جمع کر کے حضرت عمرؓ کو اپنا جانشین بنا کر لوگوں کو بیعت لینے کیلئے کہا جس پر لوگوں نے حضرت عمرؓ کے سخت ہونے کا اعتراض کیا جس پر ابوبکرؓ نے فرمایا کہ وہ سخت اسی لئے تھے کہ میں نرم تھا۔ اب ان کے اوپر خلافت کا بوجھ پڑے گا تو خودبخود نرم ہوجائیں گے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے اللہ کو گواہ بنا کر کہا کہ میں اس شخص کو خلیفہ بنا رہا ہوں جو اس کا صحیح حقدار اور تیرا نیک بندہ ہے۔ ان کے انتقال کے بعد لوگوں نے بلا جھجھک آپ کی بیعت کرلی اور آپ خلیفہ الثانی مقرر ہوئے۔
آپ کا دور خلافت مسلمانوں کا سنہری دور ے جس کا دورانیہ 10سال تھا۔ آپ کی شاندار خلافت کا برملا اظہار دنیا کا ہر حکمران کرتا ہے اور ان کی حکومت کو اپنے آئیڈیل کی حیثیت مانتا ہے۔ آپؓ نے خلافت کا کام سنبھالتے ہی عراق کی طرف لشکر روانہ کیا اور اس کے بعد فتوحات کا ایک انبار لگ گیا۔ مسلمانوں کے قدم جہاں پڑتے وہ علاقہ اسلامی پرچم کے زیرنگیں آجاتا۔ روم و ایران کو اپنی سلطنت پر بہت ناز تھا مگر آہستہ آہستہ ان کے علاقے مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوتے جارہے تھے۔ عراق ، اردن، حمص، دمشق، سکندریہ، ایران، آذربائیجان، آرمینیہ، طبرستان، فارس، کرمان، سیستان، ہمدان، اصفہان، مصر اور خراسان وغیرہ کے سارے علاقے آپؓ ہی کے دور خلافت کی یادگار ہیں۔ یہاں تک کہ آپ کی فوجیں ہندوستان میں مکران تک داخل ہوئیں۔ ایران کی ساسانی حکومت کو اپنے اوپر جو فخر تھا وہ محرم14ہجری کو قادسیہ کی فیصلہ کن لڑائی کے بعد ختم ہوا۔ رومیوں کو لشکر اسلام نے یرموک کے میدان میں5رجب15ہجری کو ٹھکانے لگایا۔
ان فتوحات سے بے تحاشہ مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ لگا مگر حضرت عمرؓ کے گھر میں اکثر فاقہ کشی ہوئی۔ آپؓ اتنی بڑی سلطنت کے حکمران ہونے کے باوجود کبھی ایک روپیہ بھی بیت المال سے نہ لیتے حتیٰ کہ آپ کے کرتۂ مبارک پر کئی پیوند لگے ہوتے بیت المقدس جب فتح ہوا تو آپ کو وہاں بلایا گیا۔ آپؓ پیوند لگے کرتے کے ہمراہ اپنے غلام کے ساتھ وہاں روانہ ہوئے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ عمدہ لباس پہنیں تاکہ غیر مسلموں پر اسلام کا رعب ہو۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ہمارے پاس ایمان کی دولت ہے جو دنیا کی تمام دولت پر افضل ہے۔ اس سفر میں بھی آپ کے انصاف کا ایک عملی نمونہ سامنے آیا کہ سفر کرنے سے پہلے غلام سے کہا کہ پہلے میں اونٹ پر بیٹھوں گا اور تم مہار پکڑنا آگے چل کر یہ ذمہ داری میں لوں گا اور تم سواری کرنا۔
اس طرح وہ بیت المقدس کے قریب پہنچ گئے۔ اب باری غلام کی سواری کی تھی۔ لہٰذا حضرت عمرؓ نے اونٹ کی مہار تھام لی۔ غلام نے کہا کہ آپ بیٹھے رہیں مگر آپ انصاف پر ڈٹے رہنے والے تھے۔ چنانچہ جب آپ بیت المقدس میں داخل ہوئے تو آپ کے ہاتھ میں اونٹ کی مہار تھی اور سواری پر غلام یہ دیکھ کر شہر کے کئی پادری مسلمان ہوگئے کیونکہ توریت میں بیت المقدس کے فاتح حکمران کی یہی شان لکھی تھی۔
حضرت عمرؓ کے روز کا معمول رعایا کی خبر گیری کرنا تھا کہ کہیں کوئی بھوکا نہ رہ جائے آپ اکثر فرماتے تھے کہ مجھے خوف ہے کہ دریائے دجلہ کے کنارے کوئی کتے کا بچہ بھوکا مرجائے اور وہ قیامت کے دن اللہ کے حضور میرے خلاف مقدمہ کردے۔
آپؓ اکثر راتوں کو نکل کر گشت کرتے۔ ایک روز حسب معمول گشت میں مصروف تھے کہ ایک عورت کو دیکھا جو ہانڈی میں کچھ پکا رہی تھی اور اس کے ارد گرد کچھ بچے سو رہے تھے۔ حضرت عمرؓ اس کے پاس گئے اور پوچھا کہ برتن میں کیا ہے؟ تو اس عورت نے بتایا کہ بچوں کے والد کا انتقال ہوگیا ہے اور ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ میں نے بچوں کو بہلانے کے واسطے برتن میں پانی ڈال کر چولہے پر رکھ دیا ہے تاکہ وہ انتظار میں سوجائیں۔ اس پر آپؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپؓ فوراً بیت المال گئے۔ وہاں سے زیتون، کھجور اور گوشت کی بوریاں لیں اور اپنے غلام اسلم کے ہمراہ وہاں روانہ ہوئے۔ اسلم نے بوریاں اٹھانے کو کہا تو آپؓ نے فرمایا کہ کل تو قیامت کے دن میرا بوجھ نہیں اٹھائے گا یہ کہہ کر اپنی پیٹھ پر بوریاں رکھیں اور اس عورت کے پاس جاپہنچے حتیٰ کہ خود ہی کھانا تیار کر کے بچوں کا کھلایا۔ عورت نے ان کو خوب دعائیں دیں اور کہا کہ تمہیں خلیفہ ہونا چاہئے۔ انہوں نے فرمایا کہ جب تم خلافت کدہ میں جاؤ گی تو وہاں پر تم مجھے ہی پاؤ گی۔ بعد میں اس کو پتہ چلا کہ آپ حضرت عمرؓ تھے۔ اس طرح کے لاتعداد واقعات آپ کے سیرت مبارکہ کے مطالعے میں ملتے ہیں۔
انصاف کے معاملے میں آپ اس قدر بے لاگ فیصلے فرماتے کہ آپ اپنے عزیزوں کو بھی نہ بخشتے۔ ایک مرتبہ آپ کے بیٹے نے شراب پی لی۔ تو آپؓ نے اس کو کوڑے لگوائے۔ یہاں تک کہ وہ 10کوڑوں میں ہی دم توڑ گئے۔ اسی طرح قدامہ بن مظعون جو آپ کے عزیز تھے ان کو بھی اسی جرم میں 10کوڑوں لگائے گئے اور وہ بھی انتقال کر گئے۔
آپ نے دور خلافت میں جرائم کی روک تھام کیلئے دنیا میں پہلی مرتبہ پولیس کا محکمہ متعارف کروایا اور جیل قائم کیں۔ ہر صوبے میں مرکزی بیت المال کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ڈاکخانے اور مسافر خانوں کو آپ ہی نے متعارف کروایا۔ نیز اسلامی فوج کا مستقل نظام اور سلطنت کی جغرافیائی حدود کا تعین بھی پہلی مرتبہ آپ ہی کی دور میں ہوا۔
آپ نے 23ہجری کو آخری حج کیا اور شہادت کی دعا مانگی۔ ایک دن حضرت مغیرہؓ کا پارسی غلام فیروز ابو لولو آپ کے پاس مغیرہؓ کی شکایت لے کر آیا کہ تو وہ اس سے نقاشی اور آہنگری کا کام کروا کے سات درہم دیتے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا کہ یہ تو ٹھیک ہیں اس پر وہ غصہ ہوکر چلا گیا۔ 26ذوالحج 23ہجری کو aصبح فجر کی نماز پڑھانے کیلئے آپ مسجد نبوی گئے اور نماز شروع کردی۔ ابو لولو چھپا بیٹھا تھا وہ سیدھا آپ کے پاس گیا اور زہر آلود خنجر آپؓ کے پیٹ میں پیوست کردیا۔ آپ نے نماز جاری رکھی۔ ابو لولو بھاگنا چاہتا تھا۔ مگر لوگوں نے اسے پکڑ کر قتل کردیا۔ اور آپ کمرے تک لے گئے۔ آنتوں میں زخم کی وجہ سے جو کچھ کھاتے باہر آجاتا زخم اتنا کاری اور مہلک تھا کہ وہ آپؓ کی شہادت کا باعث بنا۔ اور آپ یکم محرم24ہجری کو شہادت سے سر فراز ہوکر رسول اکرمؐ کے پہلو میں تشریف لے گئے۔
آپ کی شہادت بلاشبہ کسی سانحہ سے کم نہ تھی۔ آپ کی سیرت مبارکہ ہر شخص خصوصاً حکمرانوں کیلئے عملی نمونہ ہے جس کو اپنا کر دینا میں امن ومحبت کی فضا قائم کی جاسکتی ہے۔ بے شک فاروق اعظمؓ کا نام تاقیامت زندہ رہے گا۔
*۔۔۔*